بچوں کی دنیا میں رئیس فروغؔ کا نام نیا ہے۔ لیکن یہ نام منفرد بھی ہے اور بڑا بھی۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بچوں کے لیے یہ نظمیں نہ درسی ضرورت کے تحت کہی ہیں اور نہ انھیں بہلانے اور گدُگدُانے کے لیے۔ یہ نظمیں ان کے منَ کی دَین ہیں۔ یہ ان کے بچپن کی باز دید کا نتیجہ ہے۔
ہر فن کار کے وجود میں ایک شریر بچہ چھپا ہوتا ہے۔ کچھ لکھنے کے لیے ہمیں اسی کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ غالبؔ کے ایسا نابغہ بھی جب بچوں کی محفل میں آتا ہے تو ’’قادر نامہ‘‘ لے آتا ہے یا پھر ایسی غزلیں سناتا ہے کہ بچّے نیل کمل کی طرح کِھل اٹھیں۔ تبرک کے طور پر چند اشعار سنئیے
صبح سے دیکھے ہیں رستہ یار کا
جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا
وہ چُرا دے باغ سے میوہ جسے
پھاند جانا یاد ہو دیوار کا
ڈر نہ جاؤ گر تو دِکھلائیں تمہیں
کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا
کاٹھ کی تلوار اور تیغ جوہر دار میں بڑا فرق ہے وہ تخلیقی توانائی جو غالب کے خطوط اور دیوان میں نظر آتی ہے بچوں کی محفل میں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ غالبؔ کے بعد کہیں نظر ٹھہرتی ہے تو اسماعیل میرٹھی ہیں اور بچوں کے ادب میں ان کی انفرادیت مسلّم ہے۔ ان کے بعد بہت سے شاعروں میں اقبالؒ بھی صاف پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے دو طبع زاد نظمیں اور سات انگریزی نظموں کو اُردو میں منتقل کیا ہے۔ یہ تمام نظمیں بلحاظ انتخابِ فرہنگ، موضوعات اور اسلوب کے بچوں کے شعری ادَب میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ ان کے بعد اخترشیرانی، مولانا عبد المجید سالک، صوفی تبسّم، احمد ندیم قاسمی، یکتاؔ امروہی، محشر بدایونی، شاعر لکھنوی، خاطر غزنوی، عبد المجید بھٹی نے بچوں کے شعری ادَب میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے، لیکن ان میں سے کوئی اپنے اندر کے بچے کو پوری طرح بیدار نہیں کر سکا۔ ان میں سے اکثر میں اپنے بڑا پن کا احساس باقی رہا ہے۔
بچوں کا ادب بھی احساس کی نفی سے معرضِ وجود میں آتا ہے۔ راجہ مہدی علی خاں نے بچوں کے لیے تیس بتیس نظمیں لکھی ہیں لیکن یہ تمام نظمیں تخلیقی توانائی کی عمدہ مظہر ہیں۔ رئیس فروغؔ کی انفرادیت کا راز بھی یہی ہے کہ انھوں نے اپنے بچپنے کو آواز دی اور لمحۂ موجود سے رجعتِ قہقری کرتے ہوئے عہدِ طفلی میں جا پہنچے۔ مرورِ وقت سے بیرون، جست نے ان کی تخلیقی توانائی کو ایسے جدید لمس سے آشنا کیا کہ جو سر یافی وقت کے تصور پر محیط نظر آتا ہے۔ اور یہ خوبی شاید و باید ہی کہیں نظر آتی ہے۔ ایسے شاعر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں زندہ رہتے ہیں۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ جب میں نے ان کی نظموں کا مجموعہ ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ پڑھا تو مجھے بادی النظر میں یہ پھیکی پھیکی محسوس ہوئیں، میں ان سے لطف اندوز نہ ہو سکا۔
آج سے دس بارہ برس پہلے رئیس فروغ سے جب میری ملاقات ہوئی تھی تو انھیں پہچاننے میں مجھ سے غلطی یہ ہوئی۔ پھر میں ایک طویل انگریزی نظم کا لگ لٹ کا اردو میں ترجمہ کرایا تھا۔ یہ بچوں کے لیے ایک خوبصورت نظم تھی اور ترجمہ اصل نظم سے قریب تر ہونے کے باوجود رواں دواں تھا۔ یوں ان کی بِسم اللہ ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ رئیس فروغ بچوں کے شعری ادَب میں بیش بہا اضافہ کریں گے۔ لہٰذا مجھے ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ پڑھ کر تعجب ہونا چاہیے تھا۔ میں نے کتاب اپنے بچوں کو دے دی۔ اور پھر ایک شام کو اپنے بچوں کو گاتے سُنا:۔
ذرا ہٹ کر چلو
ذرا بچ کر چلو
ہم ڈاجنگ کار میں آتے ہیں
آتے جاتے ٹکراتے ہیں
اور ایک دن محلے بھرکی لڑکیاں ہمارے گھر جمع تھیں اور گا رہی تھیں
مہندی میں رنگ نہیں
گہنا بھی سنگ نہیں
گڈّے کی بہنوں کو اتنا بھی ڈھنگ نہیں
بچیاں لہک لہک کر گا رہی تھیں۔ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ گڑیا کی شادی ہو رہی تھی اور رئیس فروغؔ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا
گڈّے کی بہنوں کو اتنا بھی ڈھنگ نہیں
گڈّے کی بہنوں سے چھیڑ ایک خاص کلچر کے نقوش کو اُبھارتی ہے اور رئیس فروغ کے کلام میں اس کلچر سے پُر شوق وابستگی معنویت کا ایک جہان لیے ہوئے ہے۔
میری بچیوں کی عمر آٹھ نو سال ہے اور لہک لہک کر مہندی گانے والیوں کی عمر زیادہ سے زیادہ گیارہ سال۔ گویا رئیس فروغ نے جن عمر کے بچوں کے لیے یہ نظمیں لکھی ہیں وہ ان سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
بچوں کی کتابوں اور رسائل پر نظر کیجیے۔ عموماً یہ ہر عمر کے بچوں کے لیے ہوا کرتے ہیں۔ بعض ستم ظریف تو یہ بھی لوح پر لکھ دیتے ہیں کہ ’’پانچ سے اسّی برس کے بچوں کے لیے’’ اگر یہ مفروضہ درست ہوتا تو بچوں کے ادب کی جداگانہ حیثیت بے معنی ہوتی۔ ظاہر ہے کہ بچوں کی عمر کے تقاضوں کو سامنے رکھے بغیر ’’بچوں کے ادب‘‘ کی معنویت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہمیں اس کی اہمیت کا احساس تک نہیں۔ ہر ’’ایج گروپ‘‘ (AGE GROUP) کے لیے اُردو میں کتابیں دستیاب نہیں، لہٰذا بچے شوقِ مطالعہ میں جو کچھ انھیں دستیاب ہوتا ہے اُسے پڑھتے ہیں ان میں سے بہت کم ’’بچّوں کا ادَب‘‘ کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔
’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہ ہر عمر کے بچوں کے لیے نہیں بلکہ پانچ سے زیادہ سے زیادہ تیرہ چودہ برس کی عمر کے بچوں کے لیے ہے، لہٰذا بادی النظر میں یہ نظمیں اگر مجھے متوجہ نہ کر سکیں تو یہ اس کی نمایاں خوبی ہوئی۔
رئیس فروغ نے فرہنگ کے انتخاب میں بچوں کی عمر، نفسیات، شوق اور استطاعت کو مدِ نظر رکھا ہے، ایک لفظ بھی ایسا نہیں جسے بچّے روزمرہ استعمال نہ کرتے ہوں۔ نہ صرف فرہنگ بلکہ در و بست اور طرزِادا میں بھی سحر انگیز سادگی ہے نغمگی ہے۔ معنویت کی آب ہے۔ بھرپور ابلاغ ہے۔ تخلیقی اپج ہے۔ نیا پن ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ نظمیں بچوں کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں، حافظے میں اُتر جاتی ہیں۔ اور معنوی سطح پر اعلیٰ اقدارِ حیات سے غیر محسوس طور پر لگاؤ پیدا کر دیتی ہیں۔
بچوں کی دنیا بڑوں کی دنیا سے مختلف ہوتی ہے اور ان کی پسند نا پسند بھی بڑوں سے مختلف ہوتی ہے۔ انھیں جو چیزیں بھاتی ہیں، وہ ضروری نہیں بڑوں کے لیے بھی جاذبِ توجہ ہوں، لہٰذا بچوں کے پسندیدہ موضوعات کا انتخاب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بچوں کا شاعر خود بچہ نہ بن جائے یا اپنے وجود میں چھپے ہوئے بچے کو بیدار نہ کرے۔ رئیس فروغ نے موضوعات کے انتخاب میں بھی بچوں کی عمر اور نفسیات کو پیش نظر رکھا ہے۔
جب بچوں کے ادب کے لیے سہل زبان کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس کے معنی مخصوص فرہنگ نہیں ہوتی بلکہ در و بست، طرزِ ادا، اور موضوعات بھی ہوتے ہیں۔ اگر موضوع بچوں کا نہ ہو تو خواہ آپ اُسے سادہ سے سادہ زبان میں لکھئے، وہ بچوں کا ادَب نہ ہو گا اور نہ بچے اسے پڑھنا پسند کریں گے۔ یہ راز کی بات ہے اور اکثر وب یشتر بچوں کے لیے لکھنے والوں کو اس کی خبر نہیں۔ لیکن رئیس فروغ اس سے آشنا ہیں۔ انھوں نے بچوں کے دل پسند موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ گڑیا کی شادی۔ اسکول کا پہلا دن۔ اتنے ڈھیر کھلونے کے، جہاں کھلونے بکتے ہیں۔ بچپن کے دن۔ امّی۔ پک نِک، کلفٹن کی سیر۔ چڑیاگھر، ایک گیت کئی کھیل۔ ہم نے اسکول چلایا۔ ایک سہیلی۔ ابو کے ابو، وغیرہ پر نظر کیجیے۔ یہ بچوں کے دل میں اُتر جانے والے موضوعات ہیں۔
ان خوبیوں کے ساتھ تمام نظمیں ایسی ہلکی پھلکی مترنم بحروں میں ہیں اور الفاظ کا در و بست اس خوبی سے ہوا ہے کہ موسیقی کی روح جاری و ساری نظر آتی ہے۔ ہرنظم ایک جوئبارِ نغمہ ہے۔
آنکھیں ہماری ئی نئی ہیں
خواب ہمارے نئے نئے
ہم دیکھیں تو ہو جاتے ہیں
سبھی نظارے نئے نئے
بچوں کا یہ شعری مجموعہ اسی نئے پن کو پیش کرتا ہے۔ معنوی سطح پر حُب الوطنی، ایثار، تواضع، اتفاق و اتحاد، حصولِ علم، خودی نگہ داری، سچائی اختیار کرنے کی ترغیب۔ گویا جملہ اعلیٰ اقدارِ حیات کا درس اس خوبی سے دیا گیا ہے کہ وہ خشک و بے روح نصیحت بن کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ شعریت اور جمالیات کے رنگ میں اِن کے نقوش کو اُبھارا گیا ہے۔
جس جگہ رہئے جہاں بھی جائیے
سچے لفظوں کی مہک پھیلایئے
اتفاق و اتحاد کی برکت پر اُن کی یہ خوبصورت نظم جمیل الدین عالی ایک ترانے سے کتنی ملتی جلتی ہے لیکن کتنی مختلف ہے۔ ملاحظہ فرمایئے
سُن مرے ساتھی سُن
گھنگرو کے ہیں جتنے دانے ایک ہے سب کی دُھن
چُھن چُھن چُھن
ملنا جُلنا کام سنوارے
مِل جُل کر ہی چمکیں تارے
ملے جُلے ہیں گھنگرو سارے
دیکھو ان کے گُن
بجلی ہو تو لہراتی ہے
ریت میں موج نہیں آتی ہے
جھوٹی آب اُتر جاتی ہے
سچے موتی چُن
سوچا سمجھا دیکھا بھالا
پیار کا رشتہ سب سے اچھا
سب سے اچھا پیار کا رشتہ
پیار کے بندھن بُن
اور جمیل الدین عالی پرہی کیا منحصر، رئیس فروغ نے دوسرے شعراء سے بھی استفادہ کیا ہے۔ مثلاً یکتاؔ امروہی کی ایک نظم ہے۔ ’’ڈیڈی کے ڈیڈی۔‘‘ چند شعر سنئے:۔
ہیں، اٹھنے سے لاچار ڈیڈی کے ڈیڈی
کہ ہیں سخت بیمار ڈیڈی کے ڈیڈی
اپاہج ہیں لیکن ہے گھر پر حکومت
ہیں مٹی کی تلوار ڈیڈی کے ڈیڈی
نظر ان کو آتی نہیں میری صورت
کریں کیا مجھے پیار ڈیڈی کے ڈیڈی
لیکن رئیس فروغؔ کے ’’ابو کے ابو‘‘ کی شان کچھ اور ہے
ابّو کے ابّو دادا میاں
اتنے بڑے
جی ہاں
جی ہاں
اسی طرح بعض بول مثلاً ’’دربارِ نبی ؐسبحان اللہ‘‘ رئیس فروغ نے اٹھائے ہیں، لیکن انھیں اس طرح اپنا لیا ہے کہ کسی طرح بھی یہ سرقہ کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ ادبی روایت کا حصہ بن جاتا ہے۔
اعلیٰ اقدارِ حیات میں پیار کی روشنی کو رئیس فروغ بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اقبالؒ نے بھی ’’محبت فاتحِ عالم‘‘ کہا ہے۔ ایک پیاری نظم ملاحظہ فرمائیے
دِل کو جب مل گئی علم کی روشنی
زندگی ہو گئی روشنی روشنی
اسماعیل میرٹھی کے بچوں کی دنیا اور تھی۔
نہر پر چل رہی پن چکّی
لیکن آج کے بچے ’’پن چکی‘‘ کے عہد سے گزر کر ’’اسکائی لیب‘‘ کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں اور ان کے شوق کی دنیا بدل چکی ہے۔ ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ اسی تبدیلی کی غمازی کرتا ہے۔ اور اس میں آج کے بچوں کی ذہنی بالیدگی، تفریح طبع اور دلچسپی کے جملہ سر و سامان موجود ہیں۔ ایسی کتاب صدیوں میں ظہور میں آتی ہے اور صدیوں پر محیط ہوتی ہے۔
٭٭٭