رئیس فروغؔ مشاعروں کے شاعر نہ تھے
غزل کے بارے میں اظہار خیال اب اتنا آسان نہیں رہا جتنا کہ نصف صدی پہلے تھا۔ اس کا سبب ایک طرف تو یہ ہے کہ غزل میں رد فرسودگی اور ندرت آفرینی کی وجہ سے موضوعاتی رنگا رنگی پیدا ہوئی اور دوسری جانب تنقید تقریظی اسلوب کو ترک کر کے تجزیاتی دور میں داخل ہو گئی، صرف فنی محاسن و معائب کو معیار تنقید قرار دینے کا زمانہ ختم ہو گیا۔ آج سے پچاس سال قبل کے غزل گو شعراء کا کلام اور موجودہ دور کے شعراء کی غزلوں کے مطالعے سے یہ فرق باآسانی واضح ہو سکتا ہے۔ تاہم ہر دور میں بعض ایسے شعراء ضرور گزرے ہیں جن کا کلام قدیم و جدید کی بحث سے بالاتر ہوتا ہے۔ رئیس فروغؔ مرحوم اسی قسم و قبیل کے شعراء سے تعلق رکھتے ہیں۔
رئیس فروغؔ مشاعروں کے شاعر نہ تھے۔ لہٰذا وہ شعر کہتے وقت عام پسندیدگی کی ضرورت کو کبھی سامنے نہ رکھتے تھے۔ ان کی غزل کا ایک مخصوص مزاج تھا، جسے خود ان کا مزاج سمجھنا چاہئیے۔ وہ ندرت آفرینی کیلئے سرگرم کاوش نہ ہوتے تھے بلکہ ان کی فکر اور ان کا اسلوب ان کے کلام میں ندرت کی ضمانت تھا۔
تمھارے کوچے سے ہو کر گزرتے رہتے ہیں
ہمارے بس میں ہے جو کام کرتے رہتے ہیں
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
گفتگو ان سے جو کرنا ہے سب ازبر ہے ہمیں
بات بس یہ ہے کہ آغاز نہیں کر سکتے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
دوپہر میں وہ کڑی دھوپ پڑے گی کہ فروغؔ
جس کے چہرے پہ جو غازہ ہے اُتر جائے گا
یہ اشعار رئیس فروغ نے اس دور میں کہے تھے جب وہ تجرباتی حقائق کو معصوم تخیلات پر فوقیت دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن آخر وہ معروضی حالات کے اس دور میں پہنچ گئے جہاں مکمل یا ادھورے تجربات تصورات کی رعنائیوں پر غالب آ جاتے ہیں۔ یہ ادھورے تجربے خواہ تخیلی ہوں یا عملی، جدیدیت کا مواد مہیا کرتے ہیں۔ رئیس فروغ نے بھی جدیدیت سے رشتہ استوار کیا۔
لیکن ان کی جدیدیت حسن اور شعریت سے معریٰ ہرگز نہ تھی۔ پھر بھی یہ عجب بات ہے کہ ان کے رنگِ جدید کے قدردانوں کو بھی ان کے وہی اشعار ازبر ہیں جو قدیم و جدید کی بحث سے بالا تر ہیں۔
علاوہ ازیں رئیس فروغ مرحوم کے مجموعے ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ میں شائع شدہ غزلیات و منظومات مین بعض اخباری ناقدین نے معاشرتی مسائل کے فقدان کا ذکر کیا ہے۔ ان کالم نویس نقادوں میں سلیم احمد مرحوم بھی شامل ہیں۔ اس نوع کی اخباری تنقیدیں اگرچہ خبروں کی طرح روزانہ وفات پا جاتی ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کیا واقعی شاعری اور دیگر فنون لطیفہ کو مسائل سے اس حد تک متفق ہونا چاہئیے کہ ان کا فقدان ناقابل برداشت ہو جائے اور شاعر یا فنکار کے فن کی نفی کر دی جائے۔ شاعر معاشرتی مسائل کا ٹھیکیدار نہیں ہوتا۔ یہ تو اسپیشلائزیشن کا دور ہے۔ ہر مسئلے کے اسپیشلسٹ اور اختصاصی ماہرین موجود ہیں جو کسی مسئلے کا حل فی سبیل اللہ تجویز نہیں کرتے۔ شاعر کا مسئلہ تخلیق شعر کا مسئلہ ہے اور تخلیق شعر داخلی اور خارجی عوامل کے فشار سے پیدا ہونے والی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض حکومتی ادارے خاندانی منصوبہ بندی اور مویشیوں کی نگہداشت جیسے مسائل پر بھی شاعروں کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ ’’ونرز‘‘ کو انعامات بھی دئیے جاتے ہیں۔ لیکن کیا ایسی شاعری کو شاعری کہا جا سکتا ہے۔
ادب کو زندگی کا آئینہ کہا جاتا ہے اور آئینہ کا بالواسطہ طور پر مسائل سے تعلق نہیں ہوتا۔ آپ آئینہ دیکھتے ہیں اور آپ کو اپنے بال پریشان نظر آتے ہیں تو آپ انہیں شانے سے سنوار لیتے ہیں۔ شاعری آئینہ ہی نہیں ’’ہوائے صیقل‘‘ بھی ہے۔ غالب کہتے ہیں :
تاکہ تجھ پر کھلیں اعجازِ ہوائے صیقل
دیکھ برسات میں سبز آئینے کا ہو جانا
معاشرتی مسائل بے شمار ہوتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے تمام معاشرتی مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ علاوہ برایں قرآن و سنت کی تشریح کیلئے علماء موجود ہیں، جو مسائل کی تشریح پر متفق ہونے کی بجائے اختلافی مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا شاعر سے مسائل کی شاعری کا مطالبہ کرنا بے معنی ہے۔
بعض شعراء اپنے کلام میں ایسے بلیغ اشاریے سے کام لیتے ہیں جسے سمجھنا ہر شخص کے بس کا روگ نہیں ہے۔ شاعری کے علاوہ یہ بلیغ اشاریت با وقار نثر میں بھی نظر آتی ہے، مثلاً مشہور مورخ والٹیر اسکاٹ اپنی تاریخ کا آغاز اس طرح کرتا ہے۔
’’اگر قلوپطرہ کی ناک چپٹی ہوتی تو آج تاریخ عالم یکسر مختلف ہوتی‘‘۔
اس بلیغ اشاریے کے یہ معنی ہیں کہ اگر قلوپطرہ غیر معمولی طور پر حسین ہونے کی بجائے بدصورت ہوتی تو جولیس سیزر مصر پر حملہ نہیں کرتا اور قلوپطرہ کو اپنی ملکہ بنا لینے کی بنیاد پر اپنے جنرلوں کی سازش کا شکار نہ ہوتا۔ یقیناً اگر یہ تاریخی حوادث وقوع پذیر نہ ہوتے تو یورپ اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ ضرور مختلف ہوتی۔
اس انداز کے بلیغ اشاریے کو سمجھنے کے لئے بڑے علم و فہم کی ضرورت ہوتی ہے۔ سلیم احمد جیسے اخباری نقاد تو صرف ’’مولانا حالی اور ڈاکٹر وارڈ‘‘ جیسی خرافات لکھ سکتے ہیں۔ شاعر مسائل سے یقیناً متاثر ہوتا ہے لیکن اس کا تاثر ہی نہیں بلکہ درخورِ اظہار تاثرات کے انتخاب کا پیمانہ بھی مختلف ہوتا ہے۔
میں رئیس فروغ مرحوم کی وکالت نہیں کرنا چاہتا اور نہ انہیں اس عہد کا بہت بڑا شاعر ثابت کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن اخبار ’’حریت‘‘ میں سے سلیم احمد کے کالم کی اختتامی سطور نقل کر کے یہ ضرور واضح کرنا چاہتا ہوں کہ رئیس فروغ سلیم احمد سے بڑے شاعر ضرور تھے۔ ملاحظہ ہو سلیم احمد مرحوم لکھتے ہیں :
’’ایک بات شاید یہ ہے کہ اجتماعی مسائل پر اب سے کچھ پہلے اور آج بھی اتنی خراب شاعری ہو رہی ہے کہ اچھے ’’شاعر‘‘ اجتماعی مسائل ہی سے ڈرنے لگے ہیں۔ ان کے دل میں یہ خوف بیٹھ گیا ہے کہ انہوں نے اجتماعی مسائل کو چھوا تو ان کی شاعری خراب ہو جائے گی۔ لیکن رئیس فروغ نے کسی زمانے میں کچھ قومی نغمات کہے تھے، وہ برے سہی مگر اتنے برے تو نہیں تھے کہ وہ اپنے تجربات کے اظہار ہی سے ڈرنے لگتے‘‘۔
اس عبارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلیم احمد کے نزدیک اجتماعی مسائل کے شعری تجربے اچھے یا برے قومی نغموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ قومی نغموں کا تجربے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ موصوف نے لفظِ ’’تجربات‘‘ کو جس غیر محتاط انداز میں استعمال کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تجربے کے معاملے میں نہایت نا تجربہ کار ہیں، بے محل نہ ہو گا اگر سلیم احمد کے کچھ اشعار نقل کر دئیے جائیں، تاکہ ان کے اجتماعی مسائل پر تجربات کا اندازہ ہو سکے۔ فرماتے ہیں :
مرد نامرد ہیں اس دور کے زن ہے نا زن
اور دنیا کی ہر اک شے ہے اسی کا سمبل
زور وہ زور ہے پاتا ہے بدن جس سے نمو
لاکھ کودے کوئی ٹانگوں میں دبا کر موسل
سخت بیوی کو شکایت ہے یہ عہدِ نو سے
کہ وجد آخر انھیں بھی آ گیا نوچا کھسوٹی پر
اس ادب عالیہ کو پیش کرنے کے بعد بر سبیل موازنہ رئیس فروغ کے کچھ اشعار نقل کرتا ہوں تاکہ قارئین یہ فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس نہ کریں کہ رئیس فروغ کے شعری تجربے سلیم احمد کے شعری تجربوں سے اس قدر بلند اور برتر ہیں کہ ان کا موازنہ محض بر بنائے ضرورت ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں ارباب نقد و نظر کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ میرے نقل کردہ اشعار پر غور کر کے میرے بیان کی تائید یا تردید کی زحمت گوارا فرمائیں۔
ملا مجھ کو راہ میں اک نگر جہاں کوئی شخص نہ تھا مگر
وہ زمیں شگفتہ شگفتہ سی وہ مکاں نہائے نہائے سے
مرے کار زارِ حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے
کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے
فصل تمہاری اچھی ہو گی جاؤ ہمارے کہنے سے
اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا
نیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہیں
کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اس کو دودھ پلا دینا
یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا
یہ بساط اگر ہے تو ایک روز فروغؔ
جو ہم سے جیت چکا ہے وہ ہم سے ہارے گا
بستی یونہی بیچ میں آئی اصل میں جنگ تو مجھ سے تھی
جب تک میرے باغ نہ ڈوبے زور نہ ٹوٹا طوفاں کا
ہم املا ک پرست نہیں ہیں پر یوں ہے تو یوں ہی سہی
اک ترے دل میں گھر ہے اپنا باقی ملک سلیماں کا
ہم نے اپنایا درختوں کا چلن
خود کبھی بیٹھے نہ اپنے چھاؤں میں
رئیس فروغ نے بچوں کے منظوم ادب کی تخلیق کے ساتھ ساتھ بالغوں کے لئے بھی نظمیں لکھی ہیں، ایک نظم ’’نطشے نے کہا‘‘ کے اختتامی مصرعے ملاحظہ ہوں۔
’’کبھی ہمارے لئے بھی شاید یہی کہا جائے گا کسی دن
ہم نے مغرب کی سمت گہرے سمندروں میں سفر کیا تھا
امید یہ تھی کہ ہم کو مشرق میں اک نئی سرزمیں ملے گی
مگر مقدر یہ تھا کہ اے دوست
بے کرانی سے جا کے ٹکرائیں اور ہم پاش پاش ہو جائیں
یہ مصرعے کیا تقلیدِ مغرب کے نتیجے میں رونما ہونے والے متوقع المیہ کا اشاریہ نہیں ہیں، یقیناً ہیں تو پھر سلیم احمد رئیس فروغ سے کس قسم کے تجربوں اور ان کے اظہار کا تقاضہ کرتے ہیں۔ یہ مختصر سا مضمون ’’جواب آں غزل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے، انشاء اللہ بشرطِ توفیق ان کی شاعری پر تفصیلی مضمون لکھوں گا۔ کیونکہ ان کا کلام اتنا محدود و کم سواد نہیں ہے کہ اسے ایک کالم نویس کے تنقیدی یا تنقیصی کالم کے جواب تک محدود رکھا جائے۔
بہر نوع رئیس فروغ عام شاعر نہ تھے اور عام شاعر نہ ہونا شاعر کی اہمیت کی دلیل ہوتا ہے۔ انہیں مرگِ ناگہاں نے وہ عرصہ تخلیق مہیا نہ ہونے دی جس میں وہ اپنے تخیلات و تجربات کو ایک وسیع کینوس پر پھیلا دیتے۔ مگر ادب کو انہوں نے جو کچھ دیا ہے، وہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ مستقبل بعید کے مورخینِ ادب بھی ان کے نام اور کام کو فراموش نہ کر سکیں گے۔ ان کی جدید شاعری بھی جنس کاسد نہیں ہے۔ اس میں بھی حسن و معانی کا تناسب موجود ہے۔ بہرحال رئیس فروغ کے ایک مصرعے میں لفظی تصرف کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ :
’’آپ اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے‘‘
٭٭٭