بعض اتفاقات اپنے انجام کے اعتبار سے اتنے دلکش نہیں ہوتے، جتنے اپنے آغاز کے با رے میں ہوتے ہیں۔ پیدائش اور موت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا رہا ہے۔ حالات کی ایک ایسی ہی مشکل سے مجھے بھی واسطہ پڑ گیا تھا۔ وہ یوں کہ ایک مرتبہ مجھے اپنی بچی ماہ طلعت زاہدی کے ہمراہ کراچی جانا پڑا۔ جہاں جناب وزیری پانی پتی کی خواہش کے احترام میں ہمیں ’’ادبی معیار‘‘ کی ایک مجلس میں شرکت کرنا پڑی۔ صدارت جناب رئیس فروغ کی اور مہمان خصوصی ہم تھے۔
رئیس فروغ کو میں نے بچوں کے ٹی وی کے دو ایک پروگراموں میں دیکھا تھا۔ ان کے سپید بال جو ایک تاج کی طرح ان کے سر کے دونوں سمتوں میں پھیلے ہوئے تھے، ان میں عجیب دلکشی اور جاذبیت پیدا کرتے تھے۔ طویل قد، چھریرا جسم اور بالوں کے گچھے انہیں ایک پر کشش شخصیت بنا دیتے اور جب برابر میں بیٹھ کر انہوں نے رسیلے بولوں میں گفتگو کی تو دل میں بہت جلد انہوں نے اپنی ایک جگہ بنا لی، میں خود معصوم بچوں کا دلدادہ ہوں اور ان کو موضوع بنا کر لکھتے ہوئے یا ان کے لیے لکھتے ہوئے ایک خرّمی کے احساس سے دو چار ہو جاتا ہوں، جب رئیس فروغ نے شعراء کے کلام پر معصومانہ تحیر کے انداز میں داد دی تو میں نے خوشی کی لہریں سی اپنے تن من میں اٹھتی ہوئی محسوس کیں۔ وہ ہر اچھے شعر پر داد دیتے تھے اور آگے کو جھک کر شاعر سے دوبارہ پڑھنے کا تقاضا کرتے عام اشعار پر بھی گردن ہلاتے اور یوں کھو جاتے جیسے ان میں بھی معنی اور قرینہ ڈھونڈ رہے ہوں۔
گھنٹے دو گھنٹے کی صحبت کون سی بڑی چیز ہے لیکن بعض لمحات اپنی اہمیت کے اعتبار سے دوسرے گزرتے ہوئے لمحات کے مقابلے میں زیادہ دامن کشاں ہوتے ہیں۔ جتنا مختصر وقت ان کے ساتھ گذرا وہ یادگار رہا۔ میری لڑکی ماہ طلعت زاہدی نے فرا ق مرحوم کے لہجے میں کہی ہوئی غزل جب حاضرین کو سنائی اور اس لہجے میں انہیں فراق بولتا محسوس ہوا تو حاضرین کو مخاطب کر کے بولے ’’ارے بھئی دیکھو فراق بول رہا ہے۔‘‘
جب میری باری آئی اور میں نے چند رباعیات سنائیں تو فرمائش کی کہ میں اپنی ان رباعیات میں سے کچھ سناؤں جو میں نے بچوں کو موضوع بنا کر کہی ہیں مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میری رباعیات کا یہ پہلو ان کی نگاہوں میں نہ تھا۔ میں نے دو رباعیات انہیں سنائیں لیکن ایک پر انہوں نے مجھے دل کھول کر داد دی اور مجھ سے بار بار سنی، وہ رباعی محض اس لیے یہاں نقل کر رہا ہوں کہ مرحوم کو بہت پسند آئی تھی:
فطرت سے وہ ہر درسِ نمو لیتا ہے
شبنم سے نمی گلوں سے بُو لیتا ہے
لیتا ہے وہ طائروں سے ذوقِ پرواز
نظاروں سے ذوقِ چار سو لیتا ہے
وہ ذوقِ چار سو کی ترکیب پر جھوم جھوم اٹھے۔ صابر ظفر بھی ان کے ہم آہنگ تھے۔ چنانچہ میں نے یہ رباعی ان کی خوشی کی خاطر کئی بار سنائی۔
انسان کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے اعمال و افکار کی تعریف سن کر بہت مسرور ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ رئیس فروغ کی مجھے بھی ستائشی ادا بہت بھا گئی ہو لیکن جب میں اپنے ذہن کو ٹٹولتا ہوں تو مجھے بچوں کے جھرمٹ میں ٹی وی کے پروگرام ’ہم سورج چاند ستارے، کا رئیس فروغ نظر آ جاتا ہے۔ اپنے پہلو میں براجمان وہ رئیس فروغ تجلی بخش دکھائی دیتا ہے جو اپنی معصومیت اور علمیت دونوں کے شرار اس بزم میں بکھیرتا رہا تھا۔
میرا دل تو یہی چاہتا تھا کہ ہم تادیر وہاں ان کی صحبت میں بیٹھے رہیں، لیکن ہمارے پروگرام بقول فیض احمد فیض :
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
ہم رئیس فروغ کی یاد کی خوشبو دل میں بسائے ان کی بزم سے اور بزم کے تمام شرکاء سے رخصت ہو گئے۔
کراچی سے ملتان پہنچنے کے بعد اس مجلس کا ذکر کئی اخبارات میں پڑھا اور خوش ہوتے رہے اور ایک دن یہ بری خبر بھی پڑھ لی کہ وہ جو بڑوں اور بچوں کے روح رواں تھے خود ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس خبر سے میں اتنا متوحش ہوا کہ میری بچی ماہ طلعت زاہدی نے ایسی تمام تحریریں جن میں رئیس فروغ کا ذکر تھا چھپا دیں تاکہ میں مزید مغموم نہ ہوں اور یہ تازہ زخم مندمل ہو جائے۔ لیکن اس طرح ہم باتوں کو کہاں بھولتے ہیں اور وہ زخم جو روح تک میں سرایت کر جائیں آسانی سے کہاں بھرتے ہیں۔
اب ’ہم سورج چاند ستارے، والا رئیس فروغ ہمارے مابین نہیں ہے :
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کل ہم بھی نہیں ہوں گے لیکن بچے رئیس فروغ کی یہ نظم ضرور ایک دوسرے کو سنائیں گے:
کل رات کہانی پریوں کی
باجی نے سنائی چپکے سے
پھر دھیرے دھیرے ہوا چلی
اور نِندیا آئی چپکے سے
ان کی ایک نظم ’’کتنے ہزار بادل‘‘ پڑھیے اور سوچیے کہ بچوں میں شعری حوالے سے سائنسی فکر کو کس طرح ابھار رہے ہیں :
سورج کے سامنے جب تپنے لگیں سمندر
پانی سمندروں کا اڑتا ہے بھاپ بن کر
اس بھاپ سے بنے ہیں یہ بے شمار بادل
کتنے ہزار بادل
اب لہروں کی روانی مترنم بحر میں سنیے:
جب لہر کے آگے لہر چلے اور لہر کے پیچھے لہر چلے
ساحل کی ہوا میں لہراتا پانی کا بڑا سا شہر چلے
رئیس فروغ کے ہاں ایسی تشبیہات و استعارات کی فراوانی ہے جو بچوں اور بڑوں کے دلوں میں سما جائیں۔ کہتے ہیں :
خوشبو بنیں ہوائیں بادل بنے بچھونے
اک شہر میں کتابیں اک شہر میں کھلونے
بہت مدت کے بعد اردو زبان میں دو تین ایسے تخلیق کار پیدا ہوئے جو آج کے بچوں کی نفسیات کو ایسے ہی سمجھتے تھے۔ جیسے اسمٰعیل میرٹھی نے اپنے عہد کے بچوں کی نفسیات کو سمجھا تھا لیکن وہ اردو ادب کو بہت کچھ دیے بغیر ہی اٹھ گئے۔ انشا جی کا ’’بلو کا بستہ‘‘ یادگار رہے گا۔ اور رئیس فروغ کی ہر نظم جو انہوں نے بچوں پر کہی ہے بچوں کے دلوں کو لبھاتی رہے گی، ذرا سنیے:
تاک دھنا دھن
آج کا دن
کل سے اچھا آج کا دن
آج کا دن جو آیا ہے
سورج کو بھی لایا ہے
چوں چوں کرتی چڑیا نے
ننھے منّے پنکھ ہلائے
اوس کی ننھی بوندوں نے
کلیوں کے چہرے چمکائے
جاگے سوئے رستوں پر
اسکولوں کے بچے آئے
الجھی سلجھی گلیوں میں
ہاکر صدا لگاتا جائے
تاک دھنا دھن
آج کا دن
اب آپ بچوں کو یہ نظمیں سناتے رہیے۔ رئیس فروغ تو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ رئیس فروغ نہ جانے دادا ابا بنے کہ نہیں لیکن انہوں نے دادا ابا کی شان میں کچھ بول ضرور کہے تھے:
ابو کے ابو دادا میاں
اتنے بڑے
جی ہاں
جی ہاں
بہر نوع میں غالب کے انداز میں سوچتا ہوں کہ اے رئیس فروغ :
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
٭٭٭