رئیس فروغ کے جدِّ امجد شاہ لطف اللہ میاں عرب کے رہنے والے تھے۔ شاہ صاحب نے عرب کی سرزمین سے جب کوچ پر کمر باندھی تو پہلے پہل چین کی طرف نقل مکانی کی۔ وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد پھر سفر پر کمر باندھی تو مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہدِ حکومت میں چین سے ہندوستان کے مشہور صنعتی شہر مرادآباد میں پڑاؤ ڈالا اور اس کو اپنا مستقل مستقر بنا لیا۔
رئیس فروغؔ ۱۹۲۶ء میں اسی سرزمین مرادآباد میں پیدا ہوئے۔ والدین نے تو ان کا نام سیّد محمد یونس رکھا تھا مگر کیا خبر تھی کہ بڑے ہو کر رئیس فروغؔ کے نام سے جانے پہچانے جائیں گے۔ یہی نام وجہ شہرت اور ان کی شخصیت کا دوسرا نام ہو گا۔ ان کے والد بزرگوار کا نام سیّد محمد یوسف تھا۔ سیّد محمد یوسف کے بھائی سیّد محمد یحییٰ تھے جو پڑھے لکھے، عالم فاضل تھے۔ ان کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ پرہیز گار متقی بزرگ تھے۔ اپنی پرہیزگاری اور خانقاہی نسبت سے مشہور تھے۔ انھوں نے رئیس فروغؔ اور ان کی ایک بہن کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ خانقاہی اثر و رسوخ ہونے کے باعث انھیں مذہبی علوم سے زیادہ دلچسپی تھی۔ ان کے علم اور فضل و کمال کا ہر طرف چرچا تھا۔ انہی کی سرپرستی میں ان دونوں بہن بھائی کی تربیت ہوئی۔ جس کے باعث رئیس فروغؔ میں تدبّر، رکھ رکھاؤ اور بردباری پیدا ہوئی جو ایک خانقاہی اور مذہبی گھرانے کی پہچان ہوتی ہے، اس کی ساکھ ہوتی ہے جو ایسے گھرانے کی شان میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اسی مذہبی اور خانقاہی اثرات کے سائے میں رئیس فروغؔ پلتے بڑھتے رہے۔
رئیس فروغؔ کی شادی بھی مرادآباد کے ایک مذہبی خانوادے میں ہوئی۔ ان کی اولاد میں ایک بیٹا طارق رئیس اور ایک بیٹی شہناز رئیس تھیں۔ شہناز ایک بیماری میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ رئیس فروغؔ کی بیگم انیسہ رئیس بھی طویل عرصے سے بیماری چلی آ رہی تھیں، جس کی وجہ سے رئیس فروغ ہمہ وقت فکر مند اور الجھنوں میں گھِرے رہتے تھے مگر ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ وہ با حوصلہ تھے اس لیے انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کے قدم ڈگمگائے نہیں، جانے کس عالم میں اور کس کس طرح صبر و قناعت کے ساتھ بیگم کا علاج کراتے رہے۔ انھیں اپنی بیگم سے بڑا پیار تھا۔ ان کی تیمار داری میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔ ساتھ ساتھ ہی دنیا داری بھی نباہتے تھے۔ نہ جانے انھوں نے کس عالم میں اس وقت ایک شعر کہا تھا جس کا صرف ایک مصرعہ میرے ذہن میں رہ گیا ’’ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بِتا دینا‘‘ دوسرا مصرعہ آج تک یاد نہ ہو سکا۔ وہ صبر و قناعت اور ہمت و حوصلہ کا پیکر تھے۔ زمانے بھر کا کرب سمیٹے جدوجہد میں مصروف رہتے تھے۔ زمانے کی سختیاں اور دگر گوں حالات کی پیچیدگیاں سلجھاتے رہتے، مسکراتے رہتے، آگے قدم بڑھاتے رہتے، حالات سے پنجہ کش رہتے، نامساعد اور انہوں نے واقعات و مسائل کے آگے کبھی سپر نہیں ڈالی۔ جس کا اظہار ان کے اس شعر میں ملتا ہے،
’’اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اِک شخص ہے مر جائے گا‘‘۔
۱۹۵۰ء میں جب فسادات کی آگ بھڑکی تو اس کے بھڑکتے ہوئے شعلے مرادآباد تک بھی آ پہنچے۔ نفرتوں، حقارتوں اور مخاصمتوں نے ان شعلوں کو اور ہوا دی جس سے مرادآباد کی فضا بھی جھلسنے لگی۔ تو جہاں اور دوسروں نے ہجرت پر کمر باندھی وہیں رئیس فروغؔ نے بھی ہجرت کا دکھ اٹھانے کے لیے مرادآباد سے پاکستان کی طرف سفر شروع کیا اور پاکستان کے مشہور و معروف صوفیوں کی سرزمین ٹھٹھہ میں قیام پذیر ہوئے اور کچھ عرصہ بعد ٹھٹھہ سے کراچی جیسے صنعتی شہر میں آ گئے۔ اور اس کو اپنا مستقر بنا لیا۔ روزگار کی تلاش شروع کی تو سب سے پہلے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے شائع ہونے والے رسالے ’’صدف‘‘ کی مدیری اختیار کی۔ پھر ریڈیو پاکستان کراچی کے مشہور و معروف شاعر و دانش ور جناب قمر جمیل نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور ریڈیو پاکستان میں ملازمت دلا دی۔ یہاں فروغؔ نے ریڈیو سے منسلک ہو کر بچوں کے لیے خوبصورت گیت اور نظمیں تخلیق کیں جو اس وقت بہت پسند کی گئیں۔ وہ بچوں کے شاعر کی حیثیت سے جانے پہچانے جانے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ اس وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے سدا بہار مقبول پروگرام ’’حامد میاں کے ہاں‘‘ کے لیے کتنے ہی پروگرام تحریر کیے۔ اس زمانے میں وہ شعر بھی کہتے رہے تو یہ شعر بہت مشہور ہوا
’’ہو گی میرے ہنر سے تعمیر اس وطن کی
جاگے گی میرے فن سے تقدیر اس وطن کی۔‘‘
رئیس فروغؔ کی زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔ وہ حالات سے نبرد آزما رہے۔ گرم و سردِ زمانہ انھیں کچوکے دیتے رہے۔ توڑتے مروڑتے رہے۔ قدم قدم پر مسائل اور مصائب کے جال پھیلاتے رہے۔ لبوں سے مسکراہٹ نہ چھین سکے۔ ان کے پائے استقامت کو نہ ڈگمگا سکے۔ وہ سوچتی آنکھوں اور غور و فکر کرنے والے ذہن کے مالک تھے۔ وہ رینگتے لمحوں کی کروٹوں کو بھی پہچانتے تھے۔ مسائل کے تیوروں کا بھی مقابلہ کرتے تھے۔ مگر ان کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں پڑی، وہ گھبرانے والی شخصیت نہیں تھے۔ ان کے ہاں مشکلات اور پریشانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا، حالات کی سفاکیاں تھیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ ایک فروغؔ تھے جو حالات کو تھکا دینے والا عزم اور حوصلہ رکھتے تھے۔ زمانے کا جبر بھی کچھ کم نہیں تھا۔ مگر رئیس فروغؔ نے ان کو کو ئی اہمیت نہیں دی۔ حالانکہ غالب جیسا سخت کوش انسان بھی پکار اٹھا تھا ’’کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل، انساں ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں‘‘۔ لیکن رئیس فروغؔ نے ہر گردشِ دوام کے زہر کو اپنی رگوں میں اترنے دیا، اس امید پر کہ حالات ضرور بدلیں گے۔ اس لیے ان کے غم میں نہ صرف اپنے بلکہ اجتماعی غموں کی جلوہ گری ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں جو حسن و جمال کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں وہ دراصل ان کے ضبطِ غم کے ساتھ اجتماعیت لیے ہوئے ہے، کیونکہ انھیں یقین تھا کہ حالات کی گرد ضرور چھٹے گی۔ سورج اپنی آب و تاب اور چاند اپنے حسن و جمال کے ساتھ چمکے گا، کہکشاں کی چاندنی پھیلے گی جس سے ہر گھر منور ہو گا، دل شکستہ کو تھوڑا بہت سکون ضرور میسر آئے گا۔ ظلم و ستم کی رات اور سفاکیوں کا دور دورہ ختم ہو گا اور جبر و جبروت کرنے والوں کے اصل چہرے کھل کر ضرور سامنے آئیں گے۔ استحصالی قوتوں کا ضرور دم ٹوٹے گا، جس کا اظہار رئیس فروغؔ کے اس شعر سے ہوتا ہے ع دوپہر میں وہ کڑی دھوپ پڑے گی کہ فروغ
جس کے چہرے پہ جو غازہ ہے اتر جائے گا۔
امید کی کرن بھی نظر آتی ہے
دشت سے دور سہی سایۂ دیوار تو ہے
ہم نہ ٹھہریں گے کوئی اور ٹھہر جائے گا
اجنبیت کا احساس بھی ملتا ہے
چہرے پہچان میں آتے ہی نہیں۔ شاہراہوں پہ دھواں ایسا ہے
مرے کارزارِ خیال میں رہے عمر بھر یہی سلسلے
کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے
وقت کی کڑی دھوپ، نامساعد حالات، سیاسی گھٹن، نفرت، تعصبات اور قدم قدم رکاوٹوں کے باوجود رئیس فروغؔ کے ہاں زندگی بے معنی نہیں ہوتی بلکہ ایک حقیقت کے طور پر جلوہ گر رہتی ہے۔ انھیں زندگی ہر حال میں عزیز رہی، زندگی سے سچّی عقیدت رکھنے والے کا عقیدہ بھی سچّا ہوتا ہے۔ وہ اسی پر کاربند بھی رہتا ہے۔ ہزار نشیب و فراز زندگی اور پیچیدگیوں کے ہوتے ہوئے وہ زندگی سے مایوس ہوئے نہ بد دل۔ یہ ایک اچھے اور اپنے آدرش پر قائم رہنے والے انسان اور حساس شاعر کا عقیدہ ہے۔ حالانکہ آج زندگی کے آئینے میں اچھے اچھوں کی شکل کے زاویے آڑے ترچھے نظر آنے لگتے ہیں۔ لوگ آئینہ دیکھنے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن رئیس فروغؔ کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ وہ لاشعوری طور پر کائنات کی پر اسراریت اور اس ماورا رو بہ عمل نامعلوم قوت کے سائے سے خوفزدہ رہے۔ پر اسراریت ہمارے آج کے اہم شعراء میں بھی موجود ہے۔ رئیس فروغؔ کے ہاں بھی تپتے صحرا ؤں کی پر اسراریت موجود ہے۔ جو ایک شعلۂ جوالا بن کر لپک رہی ہے۔ مگر فروغؔ کے ہاں اس کی شاعری میں روح کی طرح جگمگاتی نظر آتی ہے۔ رئیس فروغؔ خوفزدہ نہیں ہے، اور نہ مایوسی اس پر طاری ہوتی ہے، بلکہ وہ تو حسن کے پجاری کی طرح زندگی کو گلے لگائے رکھتا ہے۔ وہ حسن کی تلاش میں سرگرداں رہنے والا شاعر ہے۔ اس راہ میں ہزار سنگِ گراں آئے اور حائل بھی رہے، اونچی نیچی پتھریلی زمینیں بھی رہی ہوں گی، مگر حسن کی تلاش سے غافل نہیں رہا۔ اس کی تلاش میں اسے تپتے ہوئے ریگزاروں کا ڈر اور خوف کہیں لاحق نظر نہیں آتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حالات کی پیچیدگیوں اور صحراؤں کی گرمی تو ضرور محسوس ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئیے کیونکہ گرم و سرد زمانہ انسانی زندگی پر اپنے اثرات ضرور مرتب کرتے ہیں۔ ان اثرات سے کسی کو مفر نہیں۔ ہاں بات ہمت اور حوصلے کی ضرور ہے۔ جب رئیس فروغؔ شعر کہتا ہے کہ
ع اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا، تو اس کی باطنی طاقتوں کا اظہار مل جاتا ہے۔ اسی لیے رئیس فروغؔ کی شاعری میں پر اسراریت کا شائبہ کہیں نظر نہیں آتا بلکہ زندگی کو سمجھنے میں ایک شعوری کیفیت ضرور ملتی ہے، شعوری خوف نہیں۔ شاید یہ سوچ کر ممتاز رفیق نے کہا تھا کہ ’’رئیس فروغ صاحب میرے لیے خوشبو بھری بند کتاب کی طرح رہے‘‘۔
غزل کی شاہراہ کوئی عام اور سیدھی سادی نہیں ہے۔ اس پر قدم جما کر قوت کے ساتھ آگے بڑھنا یعنی ’’شعلوں سے بھی جو کھلے دامن کو بچائے‘‘ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ذرا سی چوک اور غفلت اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ ہر قدم پر ڈگمگا کر اور لڑکھڑا کر گرنے کا امکان ہر صورت موجود رہتا ہے۔ رئیس فروغؔ نے زندگی کو ہر رنگ میں دیکھا اور ہر زاویے سے اس کا مطالعہ بھی کیا اور برتا بھی۔ زندگی نے طرح طرح سے اسے ستایا، دکھ دئیے، سفاکانہ سلوک روا رکھا، نا آسودگی کو اس کا مقدر بنائے رکھا، لیکن رئیس نے بڑے چاؤ سے ان تمام نا مساعد حالات اور مسائل کا مسکرا کر مقابلہ بھی کیا اور استقبال بھی۔ مگر وہ دل برداشتہ نہیں ہوا، حالانکہ زندگی نے اس کے ساتھ کیسا کیسا سلوک اور کس کس طرح برتاؤ کیا۔ اس کے زخموں کو کرید کرید کر زخم بنایا لیکن وہ حوصلہ، ہمت، جذبوں اور خوش اسلوبی کے ساتھ مسکرا کر ان سب کا مقابلہ کرتا رہا۔ مسکرا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی تازہ دمی کا احساس دلاتا رہا۔ اس انداز میں خاص طور پر تازگی، شگفتگی اور تازہ کاری حساسیت مین دم خم پیدا کئے رکھا۔ رئیس فروغؔ نے حالات کو فن کی کسوٹی پر کس کر شاعری کو نئے رُخ، نئے زاویے دئیے، نئے آنچل، نئے زاویوں سے آراستہ کیا۔ اس نے اپنے ذہن پر حالات کا بوجھ نہیں پڑنے دیا اور نہ تخلیقی عمل پر اثر انداز ہونے دیا۔ یہ بڑے حوصلہ کی بات ہے۔
رئیس فروغ نے اپنے نرم رویّے اور شگفتگی سے حسّی پیکروں کو استعمال کر کے فکر و خیال کی وسعتوں کو اور وسیع کیا۔ موضوعات میں گھمبیرتا پیدا کی، شاعری میں اثر پذیری اور معنویت میں گہرائی پیدا کی، نئے امکانات کے دریچے وا کئے۔ وہ خاموش طبع انسان تھے، حالات کا سنجیدگی سے مقابلہ اور مشاہدہ بھی کرتے رہے۔ جہد مسلسل سے غافل نہیں رہے، وہ محرومیوں اور مایوسیوں کے نرغے میں پھنسے رہے، لیکن تلخیوں اور سفاکیوں پر جھلّائے نہیں، چیخے نہیں۔
رئیس فروغؔ کے ہاں روایت سے جڑی مضبوط شاعری بھی ہے اور جدید ذہن کو متاثر کرنے والی اور اپنے عہد کی عکاس شاعری بھی ہے:
منزلوں سے شکستہ پا گزرے
جلوہ جلوہ ادا ادا گزرے
بوئے گل فکرِ پریشاں میری
رنگ گل نقش کشیدہ میرا
اے نو بہار ناز مبارک تجھے یہ رنگ
زلف دراز و جسم گداز و قبائے تنگ
اڑتے پنچھی چہکیں لہکیں لیکن ہاتھ نہ آئیں
دیکھنے والے دور سے دیکھیں دیکھیں اور رہ جائیں
روایت سے جڑی شاعری کو بیک قلم رد کر دینا اور اس پر ہزاروں الزام لگانا، میرے خیال میں کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، اس لیے کہ ہر دور کی شاعری کے بارے میں یہ بات بہت آسانی سے کہی جا سکتی ہے۔ اور ہر آنے والے دور میں اس پر باتیں بھی بنائی گئیں۔ تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ولیؔ کے بعد دہلی کے شاعروں نے کیا تبدیلیاں نہیں کیں، کیا نئے نئے موضوعات اور رجحانات پیدا نہیں کیے گئے۔ میرؔ، سوداؔ، یقینؔ، دردؔ اور دوسرے شعراء نے کیا۔ اپنے اپنے طور پر غزل کو نئے امکانات سے نہیں نوازا۔ ان کے بعد غالبؔ، حالیؔ ، مومنؔ اور دوسرے شعراء نے اس میں اضافے نہیں کیے۔ ان کے بعد حسرتؔ، فانیؔ، جگرؔ، اصغرؔ، یگانہؔ اور فراقؔ کے علاوہ دوسروں نے غزل میں نئے موضوعات، مسائل اور حالات کے ذکر سے اس کے دامن کو وسیع نہیں کیا۔ کیا اقبالؔ نے غزل کے دھاروں کو نہیں جوڑا۔ فیضؔ تک آتے آتے اس میں کیا کیا تبدیلیاں نہیں ہوئیں؟ اس کی زلفوں کو کس کس طرح سلجھا کر آئینوں کو حیرت زدہ کیا گیا۔ کنگھی، چوٹی، زلف اور لباس و زیور کے بجائے انسانی دکھوں، غموں اور مسائل کی ترجمانی نہیں کی گئی۔ سعید الدینؔ نے اپنے ایک مضمون جو غالباً رئیس فروغؔ کے سلسلے میں لکھا گیا ہے۔ اس میں وہ رقم طراز ہیں ’’غزل ایک روایتی عہد اور معاشرے کی صنف ہونے کی حیثیت سے شاعر کے پورے فکری اور شعری قدر کو فوکس میں لینے سے قاصر ہے، لیکن اب شاعر کا کینوس ہی بدل گیا ہے۔ یہ عہد اپنی ضرورتوں، مجبوریوں اور تقاضوں کے لحاظ سے نئے فکری رجحانات، اسالیب اور استعاروں کا متلاشی ہے، یہ عہد لفظوں کے کم سے کم استعمال اور اشیاء کے صفاتی تشخص سے حسیاتی روابط پیدا کرنے اور اس سے شاعری بنانے کا عہد ہے‘‘۔
اگر ہم اس اقتباس پر غور کریں تو ہماری شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ ناکارہ، فضول اور بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ اگر ہم آج کے حسیاتی نظامِ فکر پر غور کریں تو یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ ہم اپنے خوابوں اور آدرشوں کو عوامی اور تہذیبی سطح اور فکر و خیال کی بلند سطحوں پر سوچنا اور ان میں زندگی اور زندگی کی معنویت کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارے سارے خواب شرمندۂ تعبیر ہوں گے۔ ہمارے تہذیبی اور ذہنی رویے خود ہماری شاعری کو با معنی بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم غزل کو آج کے حسیاتی پیکروں سے مزید فعال بنا سکتے ہیں، آج کے عہد کے رموز و علائم اور رویوں کو کھلے ذہن کے ساتھ غزل میں سمو سکتے ہیں۔ قافیہ اور ردیف بے معنی نہیں ہیں، ان کے استعمال پر ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ صرف کہہ دینے سے کوئی بات بنتی ہے نہ بگڑتی ہے۔ بقول ناصر کاظمی:
ع ’’یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو‘‘ شاعری میں رد و قبول کا یہ عمل ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ سانچے بنتے بگڑتے اور ٹوٹتے رہے ہیں۔ مگر عمل ہمارے فکری نظام میں نہ صرف اضافہ بلکہ اس میں وسعتوں اور نئے امکانات کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس لیے شاعری کے رمز و کنایوں کو فضول اور بے معنی قرار نہیں دے سکتے۔ ایسا کرنے میں ہمارے بیمار ذہن اور غزل سے مخاصمت کا بڑا دخل ہو گا۔ صحتمند رجحانات اور رویوں کا نہیں۔ غزل میں نئے پن کو جدیدیت سے تعبیر کرنا صحت مند ذہنوں کا مذاق اڑانا ہے۔ جب تک غزل میں آج کے حسیاتی پیکروں، رموز و علائم کی وضاحت نہیں ہو گی۔ اپنی فکر کو صنعتی عہد کے نشیب و فراز سے متعلق اور نسبت پیدا نہیں ہو گی، کیسے ہی حسیاتی پیکر تلاش کر لیے جائیں، کیسے ہی مصنوعی چاند ستارے تراش لئے جائیں، کتنی ہی معاشی اور معاشرتی رویوں کو پیش کیا جائے ان میں اگر معنی پیدا نہیں کیے جائیں اور اپنے زمانے سے متعلق نہیں کیا جائے گا بے معنی ہی رہیں گے۔ صنعتی عہد کے حسن و قبا کو جب تک سمجھا جائیگا اس کی روح میں نہیں اترا جائے گا۔ ہماری غزل اور مجموعی طور پر ہماری شاعری کا رویہ جدید نہیں ہو سکتا۔ اس میں ماضی حال اور مستقبل کے تسلسل، تبدیلیوں، محرکات اور رویوں کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا۔ یعنی رئیس فروغؔ کے ہاں دونوں اسلوبوں، جدید اور قدیم کی آمیزش ہے۔ یہاں میں ایک اور انکشاف بھی کرنے کی جرات کروں گا کہ رئیس فروغؔ نے ایران کے دوران قیام میں ایرانی فلموں کو اردو میں ڈب کیا تھا لیکن بوجوہ وہ پاکستان میں تو نہیں دکھائی جا سکیں، لیکن ہندوستان میں ان کی نمائش کی گئی اور سراہا بھی گیا۔
رئیس فروغؔ کی شاعری میں ہمیں صنعتی عہد کی تلخیاں، رویے اور محرکات کا جس طرح سمونے کا انداز ملتا ہے، اسی وجہ سے ان کی شاعری پُر اثر ہے۔ اس میں تاثیر موجزن ہے اور ایسی تاثیر و اثر ہے کہ دلوں کو بھی موہ لیتی ہے اور حالات و مسائل پر سوچنے کی دعوت بھی دیتی ہے۔ ذہنوں کو بھی جھٹکے لگاتی ہے۔ پرسکون بھی بناتی ہے، اس کے باوجود کہیں پیچیدگی، ابہام، پر اسراریت کا ڈر اور خوف، دور اذکار تشبیہات و استعارات نظر نہیں آتے، ہاں یہ بات ان کی نظموں کے بارے میں بچتے بچاتے ضرور کہی جا سکتی ہے، جسے عام ذہن قبول کرنے میں ہچکچاتا ہے۔ اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ اگر وہ نثری نظموں اور Paradoxical Poetryکے بجائے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرنے پر توجہ دینے یعنی غزل کی شاعری پر مرکوز رکھتے تو اور نئے در، نئے افق، نئے زاویے اور نئے موضوعات اردو شاعری کو مل جاتے اور اس کا دامن وسیع ہو جاتا۔ جبکہ ان کی زبان سے ادا ہونے والے شعر ذہنوں اور دلوں کو متاثر بلکہ بلندیوں کو چھوتے ہوئے ملتے ہیں۔ ہر شعر اپنے اندر ایسی سچائی، تاثیر اور اثر رکھتا ہے کہ سنتے ہی دل میں اتر جائے۔ یہ ایک اچھے شاعر کی اچھی شاعری کی دلیل ہے۔ بقول عرش صدیقی ’’ان کی (ردیف قافیے) شاعری کی کھنک میکدے کے جاموں اور چاندی کے سکوں ایسی ہے‘‘۔ ان کی نغمگی، حسن اور زندگی کا احساس ماند نہیں پڑتا۔ رئیس فروغؔ کے ہاں آدمی اور اس کی شناخت کی موثر صورت پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ وہ جدیدیت کے سرخیل یا ہراول دستے کے رہنماؤں میں نہیں ہیں لیکن یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ وہ جدید شاعر ہیں‘‘۔
تنہا گھر میں پرچھائیں پر پرچھائیں لہرائے
دروازوں پر آوازوں سے آوازیں ٹکرائیں
اک حرفِ زیرِ لب نے شعور و خیال کی
ویرانیوں میں شہر سے آباد کر دئیے
سات ستاروں کی تصویریں
زخمی چڑیا کے پر میں ہیں
سوانگ اتنے بھرے کہ بھول گیا
میرا اپنا بھی ایک چہرہ ہے
بات کیجئے تو سلسلہ جاری
چھیڑ دیجئے تو ایک قلقاری
چوم لیجئے تو مسکراتے ہیں
یا ہماری ہنسی اڑاتے ہیں
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے
جانے وہ کوئی جبر ہے یا اختیار ہے
دفتر میں تھوڑی دیر جو کرسی نشیں ہوں میں
مل گئی ہے جو تھکن گھر بیٹھے
کس مشقت کا صلہ کہلائے
وہ اک ہجوم تھا گرتے ہوئے درختوں کو
پکارتے تھے سہارا ملے سہارا ملے
کدھر کدھر سے ہواؤں کے سامنے آؤں
چراغ کیا ہے مرے واسطے وبال سا ہے
ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے بھی
سارا گہنا لوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا
اسی چڑیا سے یہ پوچھو کہ ہوا کیسی تھی
جس کے بازو میں کئی دن سے دکھن ہے لوگو
میں یہاں ایک بات ضرور کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ جدید کی اصطلاح وہ نہیں ہونی چاہئیے جس سے ٹھپہ بردار شاعری وجود میں آئی اور شاعر بھی ٹھپہ بردار ہو کر رہ جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید میں اگر قدیم ہونے کی صلاحیت نہیں ہے تو وہ جدید نہیں ہے۔ قدیم سے یہاں مراد روایتی یا رسمی نہیں بلکہ اپنے اندر تاریخی حوالوں اور نئے ماحول و مسائل کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ خواب نہ جدید ہوتے ہیں اور نہ قدیم۔ خواب کی تعبیر وقت بتاتا ہے۔ خواب کی تعبیر کو آپ کوئی بھی زاویہ دے سکتے ہیں، حقیقت اور اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
ہنگامے سے سناٹے تک میرا حال تماشا ہے
بوجھل آنکھیں کب تک آخر نیند کے وار بچائیں گی
پھر وہی سب کچھ دیکھنا ہو گا صبح سے جو کچھ دیکھا ہے
میرے آنگن کی اداسی نہ گئی
روز مہمان بلائے میں نے
اپنا حال نہ جانے کیا ہے ویسے بات بنانے کو
دنیا پوچھے درد بتاؤں تو پوچھے آرام کہوں
ان چند اشعار سے یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ رئیس فروغؔ کی غزل جدید ہے، جس میں روایت کا خوبصورت پیوند لگا ہوا ہے۔ ان کا مزاج غنائیت سے بھرا ہوا ہے۔ ان کی شاعری غنائیت کے جدید جذبے کو یا یوں کہہ لیجئے کہ صنعتی عہد کے جدید جذبے کو اپنے اندر جذب کرنے کی تڑپ رکھتی ہے :ع
اپنی آنکھوں کو شب و روز فروغ
خواب ہی خواب دکھائے جاؤں
ہم بھی لے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ
پہلا ساون جھولنے والو تم بھی پینگ بڑھا دینا
ہم ہی تو گھروں کی زینت ہیں
بستی کے گھروں سے کہہ دینا
کھلتے ہیں دلوں کے ہم سے کنول
شہروں کی فضا سے کہہ دینا
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں اتنا برا تو میں بھی ہوں
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
دشت سے دور سہی سایۂ دیوار تو ہے
ہم نہ ٹھہریں گے کوئی اور ٹھہر جائے گا
ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے بھی
سارا گہنا لوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی
اس قبیل کے کتنے ہی اشعار ہیں جو رئیس فروغؔ نے تخلیق کر کے اردو شاعری کے دامن کو وسیع کیا ہے۔
’’رات بہت ہوا چلی‘‘ میں طبع شدہ غزلوں کے علاوہ بھی فروغؔ صاحب کی بہت اچھی اچھی غزلیں ہیں جنھیں اس مجموعے میں شامل کر رہا ہوں۔ ان غزلوں میں فروغؔ صاحب کا انداز، دکھ، مایوسیاں اور محرومیاں بھی ہیں اور وہی تمکنت جو ان کے مزاج کا حصّہ ہے مل جاتا ہے۔ ہاں ان غزلوں کے بارے میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ غزلیں جدت، طرفگی اور جدید رجحانات سے ذرا کم ہے کیونکہ بہت سی غزلیں روایت سے بھی جڑی محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ روایتی اور رسمی انداز لئے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ جدید رجحانات اور تاریخی محرکات اور فکر و فن کا البیلا پن ضرور مل جاتا ہے۔ ان کی غزلوں کے چند چیدہ چیدہ اشعار آپ کے ملاحظے کے لئے :
یہ کہکشاں ہے کہ اجزائے شعلۂ آواز
کسی نے وادیِ مہتاب سے پکارا ہے
سیاروں کے پیروں میں ہیں زنجیروں کو کیا ادراک
مہتابوں کو قید کیا ہے زندانوں کو کیا معلوم
انجمنوں کی شمعو! تم نے انجمنیں تو روشن کیں
ہم ایسے خاموش دئیے جو اندر اندر جلتے ہیں
ہزار شکر کہ ہے دامنِ صبا محفوظ
چراغِ لالہ و گل جل رہے تھے باغوں میں
وہ کیا سزائے دشت نوردی سے خو ف کھائیں
جن کو تلاشِ سایہ دیوار بھی نہیں
سرِ حلقہ ہائے بلا کشاں، نظر آ گئی مجھے ناگہاں
کبھی ایک حرف میں داستاں کبھی ایک شخص میں انجمن
آئے گا مرے بعد فروغ ان کا زمانہ
جس دور کا میں ہوں مرے اشعار نہیں ہیں
فروغؔ اس دور میں ذوقِ ہنر اک جرم ہے گویا
نہ جانے کونسی تعمیر کب مسمار ہو جائے
سانس لیتی ہوئی لاشیں بھی ہوا کرتی ہیں
زندگی ہی میں قیامت بھی گزر جاتی ہے
یا میکدہ ہی خاک میں مل جائے اے خدا
یا میکشوں کے دل سے مٹا دے تعصبات
پہلی نگاہ میں ہی امیدوں کے تازہ پھول
اس نے مرے خیال کے دامن میں بھر دئیے
قصّہ گو اس کی داستاں نہ بنا
درد اک دل نشیں صداقت ہے
کب صبر کے ساغر چھلکیں گے کب جبر کی نبضیں ڈوبیں گی
مظلوم کے دستِ لرزاں میں ظالم کا گریباں کب ہو گا
بے چارگی میں کوئی ہمارا نہ تھا فروغؔ
دیکھا ہے سب کو سارا زمانہ نظر میں ہے
چلوں تو پاؤں میں زنجیر ڈال دی جائے
رکوں تو میری طرف تیر بے شمار چلیں
ہاتھ پھیلانے کہاں جاؤں کدھر اٹھتا ہوں میں
پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے غیرت کیا کروں
محتسب احتساب ان سے بھی
چند احباب خانقاہ میں ہیں
ہم سے تو عنایات کے پردے میں کچھ احباب
وہ چال چلے ہیں نہ بیگانہ چلے گا
کسی کے ہاتھ نہ آئے تو شاخِ گل کیسی
کوئی اماں ہی نہ پائے تو آشیانہ کیا
جھکاؤں سر تو بہت سہل ہے حصول داد
مگر یہ کب دلِ خود دار کو گوارا ہے
زندگی دھوپ سے تپتا ہوا صحرا ہے فروغؔ
ابر کی چھاؤں میں پنہا ہے جہاں دامِ اجل
ان چیدہ چیدہ اشعار سے کم از کم یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ ان غزلوں میں شاعر کے سچے جذبات و احساسات بھی موجود ہیں، روایت اور جدید رجحان کی پاسداری بھی ہے۔ حسن و جمال دلآویزی بھی۔ کڑی دھوپ کی تمازت بھی پائی جاتی ہے۔ حسن و جمال اور روایت کی پاسداری میں ان سچے پرخلوص اور فکر و نظر اور زاویوں کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یعنی جدید و قدیم دونوں انداز ان کے اوپر دئیے گئے اشعار میں اپنی اہمیت اور زبان پر قدرت کو آشکار بھی کرتے ہیں۔ فروغؔ صاحب نے جدید و قدیم اسلوب اور روایت کا احترام کرتے ہوئے خوبصورت انداز میں بڑے رکھ رکھاؤ کے ساتھ اپنے شعر تخلیق کئے۔ اس تخلیقی عمل میں کہیں بھی صقالت رسمی اور روایتی انداز نہیں ملتا۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بعض غزلوں پر یہ گماں ہوتا ہے کہ وہ طرحی مشاعروں کے لئے کہی گئی ہیں، جن میں روایت کا انداز کچھ کچھ محسوس ہوتا ہے۔ ایسی غزلوں میں بھی ان کا جدید رویہ اور مزاج اپنی جھلک ضرور دکھاتا ہے۔
٭٭٭