رئیس فروغ اوّل و آخر شاعر ہے۔ ایک ایسا شاعر جو ہر لمحہ لفظوں کی موسیقیت یعنی ان کے آہنگ اور ان کے درمیان غیر واضح ربط و تلازمات کی دنیا میں گم رہتا ہے۔ لفظوں کے درمیان یہ غیر واضح ربط ہمارے روایتی تصور تلازمات سے بالکل مختلف چیز ہے۔ اس ربط کے متلاشی مسافروں کے نزدیک لفظوں کا خوش آہنگ تحرک ان کے متعین معنی کے ربط سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے جب کہ روایتی تصور تلازمات لفظوں کے متعین معنی کے درمیان تعلق کو ابھار کر لطف پیدا کرنے پر زور دیتا ہے۔ گویا یہ دونوں رویے ایک دوسرے کی ضد ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ جدید طرزِ احساس کے شعراء روایتی انداز کے تلازمات سے اپنا دامن بچائے رکھنے کی شعوری طور پر کوشش کرتے ہیں۔ روایتی اندازِ تلازمات سے دامن بچائے رکھنے کے ساتھ کھلے ڈھلے بیان واقعہ پر اشاروں اور کنایوں کی زبان کو ترجیح دینا بھی فروغ کا شعار ہے۔ وہ زندگی میں پھیلے ہوئے خوف و دہشت کے سایوں اور زندگی کے وجد آفریں انبساط کو بیک وقت محسوس کرتا ہے اور ان متضاد کیفیات سے ترتیب پانے والے تاثرات کو مترنم و متحرک لفظوں میں ڈھالنے کے عمل سے کسی وقت بھی غافل نظر نہیں آتا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ فن میں افادیت، تفریح اور شعور و آگہی میں اضافہ جیسے عناصر ترکیبی کے علاوہ فن پارہ کی خود بھی ایک اہمیت ہوتی ہے جس کے پیش نظر ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ فن پارہ ایک ایسی وحدت ہوتا ہے جس کا وجود خود اسی پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ وحدت دراصل فن کی اپنی ایسی دنیا کی مظہر ہوتی ہے جسے فنکار خارجی دنیا سے اخذ کر کے اپنے طور پر از سر نو تخلیق کرتا ہے۔ فنکار کی اس تخلیق کو ہم اس کے تصور جمالیات کے مظہر سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ فروغ کی پوری شاعری اس کے تصور جمالیات ہی کی مظہر ہے۔ مثلاً اس کا یہ شعر دیکھیے :
خم جادہ سے میں پیادہ پا بھی دیکھ لیتا ہوں خواب سا
کہیں دور جیسے دھواں اٹھے کسی بھولی بسری سرائے سے
یہاں غم جادہ سے مراد زندگی کے پر پیچ راستے ہیں اور پیادہ پا وہ افراد ہیں جو زندگی کے راستوں پر گامزن ہیں۔ کبھی دیکھ لیتا ہوں خواب سے مراد گزری ہوئی زندگی کو یاد کرنا ہے۔ یہاں ’’کبھی‘‘ کا لفظ بھی نہایت اہم ہے یعنی زندگی کی پیچیدگیوں میں گھرے ہوئے افراد کو اتنی مہلت بھی کبھی کبھی ہی میسر آتی ہے کہ وہ اپنی گزری ہوئی زندگی پر نظر ڈال سکیں۔ شعر کی اس معنویت کے ساتھ ذرا اس کی ساخت پر بھی ایک نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ ’’غم جادہ‘‘ اور ’’پیادہ پا‘‘ کے درمیان جو خوش آہنگ تحرک نظر آتا ہے وہ ان لفظوں کی معنوی مناسبت سے کہیں زیادہ لطف و انبساط کی فضا ابھارتا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح پہلے مصرعہ کا آخری ٹکڑا ’’کبھی دیکھ لیتا ہوں خواب سا‘‘ بالکل غیر متوقع طور پر اچانک آتا ہے جو ہماری توجہ پوری طرح اپنی طرف مبذول کرا لیتا ہے۔ پھر دوسرے مصرعہ میں اس خواب کی تصویر کشی کے لیے ’’بھولی بھالی سرائے‘‘ سے اٹھنے والے دھوئیں کی تمثال سے کام لیا گیا ہے۔ یہ تمثال شاعر کے اپنے احساس اور اس کی اپنی تخلیق کردہ ایک ایسی دنیا کو ہمارے سامنے لے آتی ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی لیکن اب جو اس تمثال کے روپ میں ہم اسے دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو وہی دنیا ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اس طرح یہ تمثال ہم سب کی زندگی کی آئینہ دار بن جاتی ہے۔ یہاں خم جادہ سے پیادہ پا کا خواب دیکھنا روایتی انداز تلازمات سے بالکل الگ لفظوں کے درمیان جس غیر واضح ربط کو ابھار رہا ہے اور ان کے درمیان خوش آہنگ تحرک و ترنم سے جو جادو جگا رہا ہے وہ بلا شبہ عمل تخلیق کی ایک منفرد مثال ہے۔ اسی غزل کے یہ شعر بھی ملاحظہ ہوں :
اٹھی موج درد تو یک بیک مرے آس پاس بکھر گئے
مہ نیم شب کے ادھر اُدھر جو لرز رہے تھے کنائے سے
مرے کارزارِ حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے
کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے
ان دونوں اشعار میں بھی لفظوں کے درمیان معنوی مناسبتوں سے کہیں زیادہ لفظوں کا خوش آہنگ تحرک اور ان کے درمیان غیر واضح ربط کی کارفرمائی ہمارے دلوں میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ فروغ کی شاعری میں ہم صرف لفظوں کے خوش آہنگ تحرک اور ان کے درمیانی غیر واضح ربط ہی سے لطف اندوز نہیں ہوتے بلکہ ہمیں جگہ جگہ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ لفظوں سے اس کی دوستی بہت گہری ہے اور وہ اس دوستی کے ناطے صرف ان کا مزاج داں ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسے سلیقہ سے بھی بہرہ ور ہے جو لفظوں کو ان کے متعین معنی سے اوپر اٹھا سکے اور ان کو نئی معنویت سے مزیّن کر سکے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں
باتوں کی دہلیز پہ آیا
آدھا سورج آدھا سایا
ایک دیے کی دھیمی لو سے
میں نے اپنا ہاتھ جلایا
آنکھیں جو بے حال ہوئی ہیں
دیکھ لیا تھا خواب پرایا
ایک برہنہ پیڑ کے نیچے میں ہوں یا پروائی ہے
میری ہنسی جنگل میں کسی نے
دیر تلک دہرائی ہے
کھیت پہ کس نے سبز لہو کی چادر سی پھیلائی ہے
میں نے اپنے تنہا گھر کو آدھی بات بتائی ہے
آنکھیں جس کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا
جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا
رات اور دن کے بیچ کہیں پر جاگے سوتے رستوں میں
میں تم سے ایک بات کہوں گا تم بھی کچھ فرما دینا
اب کی رت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے
مرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا
دل دریا ہے دل ساگر ہے اس دریا اس ساگر میں
ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بتا دینا
ہم بھی لے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ
پہلا ساون جھولنے والو تم بھی پینگ بڑھا دینا
فصل تمہاری اچھی ہو گی جاؤ ہمارے کہنے سے
اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا
یہ مرے پودے، یہ مرے پنچھی یہ مرے اچھے اچھے لوگ
مرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا
ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ دو جلتے گھر اگر کہیں
تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ ملا دینا
ترے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے
جس نے ہمارا دل توڑا ہے اس کو بھی بیٹا دینا
یہ تمام غزلیں جن کے اشعار حوالے کے طور پر پیش کیے گئے رئیس فروغ کے ذوق شعری اور لفظوں کو نئی معنویت سے مزین کرنے کی کیف آور مثالیں ہیں۔ مثال کے طور پر اس کے ان لفظوں پر غور کیجیے ’’باتوں کی دہلیز‘‘۔ ’’آدھا سورج، آدھا سایہ‘‘۔ ’’دیے کی دھیمی لو میں ہاتھ جلانا‘‘۔ ’’کھیت پر سبز لہو کی چادر‘‘۔ ’’رات اور دن کے بیچ جاگے سوئے رستے‘‘۔ ’’دھرتی کو مہکار ملے تو مرے بدن کو رنگوں میں نہلا دینا‘‘۔ ’’ایک ہی لہر کے آنچل میں ساری عمر بتا دینا‘‘۔ ’’جاؤ ہمارے کہنے سے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا‘‘۔ ’’جس نے ہمارا دل توڑا ہے اس کو بھی بیٹا دینا۔‘‘ یہاں مختلف لفظوں کو جس طرح یکجا کر کے نئی معنویت کی دنیا ابھاری گئی ہے وہ لفظوں سے گہری دوستی کے بغیر ممکن نہیں یہاں لفظوں کو نئے انداز سے یکجا کرنے کے عمل میں اردو کے تہذیبی مزاج کو پوری طرح برقرار رکھا گیا ہے مثلاً ’’جاؤ ہمارے کہنے سے‘‘ ’’سب کو اپنی اپنی مراد ملے‘‘ ایسے فقرے ہیں جنہیں روزمرّہ کی حیثیت حاصل ہے۔ روزمرّہ کو اس طرح قبول کرنا بتاتا ہے کہ فروغ کسی ایسی جدیدیت کے بالکل قائل نہیں تھے جس میں ہمیں اپنی تہذیبی قدروں اور اپنی زبان کے روایتی مگر زندہ پیرایہ اظہار سے کنارہ کش ہوا پڑے۔ ا ن کے ہاں شاعری کا ایسا کوئی تصور نہیں ہے جس کا تعلق ہمارے ماضی سے بالکل نہ ہو۔ چند اشعار اور ملاحظہ ہوں :
چہروں کی ندی بہتی ہے مگر
وہ لہر گئی وہ کنول گیا
ایک اندھا جھونکا آیا تھا
اک عہد کا جوڑا مسل گیا
فضا ملول تھی میں نے فضا سے کچھ نہ کہا
ہوا میں دھول تھی میں نے ہوا سے کچھ نہ کہا
وہ راستوں کو سجاتے رہے انہوں نے کبھی
گھروں میں ناچنے والی بلا سے کچھ نہ کہا
وہ لمحہ جیسے خدا کے بغیر بیت گیا
اسے گزار کے میں نے خدا سے کچھ نہ کہا
ان اشعار میں ’’چہروں کی بہتی ندی‘‘ تازگی اظہار کی نہایت خوبصورت مثال ہے جب کہ ’اک اندھا جھونکا عید کا جوڑا مسل گیا، ہمیں اپنے بچپن کا زمانہ یاد دلا دیتا ہے جب ہم عید کے لیے بنائے ہوئے کپڑوں کو سینے سے لگا کر سوتے تھے۔ یہ عمل ہمارے اپنے معاشرہ کے بچوں سے وابستہ ہے ممکن ہے کہ مغربی ممالک میں بچوں کا رویہ اس سے مختلف ہو۔ رئیس فروغ نے اپنے معاشرہ ہی کی تصویر کشی کی ہے لیکن اسے اپنے مخصوص طرز اظہار سے بالکل نیا بنا دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی ماحول میں رہ کر تازگی کے پھول کھلاتے ہیں۔ اسی طرح اس کی دوسری غزل ’’فضا ملول تھی‘‘ ہمارے تہذیبی مزاج کی آئینہ دار ہے اور تحمل و برداشت کی اس روایت کو اجاگر کرتی ہے جس کے تحت ہم انتقام یا احتجاج کے فساد سے خود کو محفوظ رکھتے تھے۔ یوں بھی فروغ ساری عمر تحمل و برداشت ہی سے کام لیتے رہے ہیں۔ انہیں لوگوں نے طرح طرح کے دکھ پہنچائے لیکن انہوں نے دکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ جانے کے باوجود کبھی کسی سے بدلہ نہ لیا اور نہ کسی سے شکوہ شکایت کی۔ اس غزل میں تحمل و برداشت کی ہماری اپنی تہذیبی قدر کے ساتھ ساتھ فروغ کی اپنی زندگی بھی ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ اب ان کی یہ غزل دیکھیے جس میں انہوں نے عروض کا نہایت خوبصورت تجربہ کیا ہے یہ غزل انہوں نے اس التزام سے کہی ہے کہ اس کے ہر شعر کے پہلے مصرعہ میں ’’فعلن فعلن‘‘ کے چار ارکان ہیں جب کہ ہر شعر کے دوسرے مصرعہ میں ’’فعلن فعلن‘‘ کے ساڑھے تین رکن ہیں لیکن ارکان کی اس کمی بیشی نے شعر کی موسیقی کو بالکل مجروح نہیں کیا۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
ایک برہنہ پیڑ کے نیچے
میں ہوں یا پروائی ہے
میری ہنسی جنگل میں کسی نے
دیر تلک دہرائی ہے
کھیت پہ کس نے سبز لہو کی
چادر سی پھیلائی ہے
میں نے اپنے تنہا گھر کو
آدھی بات بتائی ہے
آپ نے دیکھا کہ پوری غزل میں ہر شعر کے پہلے مصرعہ کو دوسرے مصرعہ سے قدرے بڑا رکھا گیا ہے جس سے دونوں مصرعوں کے درمیان ایک دلآویز وقفہ اس کی موسیقی میں دل خوش کن اضافہ کر رہا ہے۔ تیسرے شعر میں ’’کھیت پہ سبز لہو کی چادر‘‘ ہمارے معاشرے کے اس استحصال کی نہایت بھر پور تصویر ہے جس کے تحت کسانوں کے خون سے لہلہانے والی کھیتیاں زمینداروں کو عیش و عشرت میں مست اور کسانوں کو بھوک اور افلاس میں جکڑے رہتی ہیں۔ ہمارے شعراء نے استحصال کی اس صورت کو طرح طرح سے بیان کیا ہے لیکن فروغ نے کھیت پر سبز چادر، کے منظر سے جو تاثر ابھارا ہے وہ تازگیِ اظہار کی ایک ایسی مثال ہے جو تحیر و انبساط کے پہلو بہ پہلو معاشرہ میں پھیلے ہوئے استحصال کے پیدا کردہ دکھوں کے احساس کو اجاگر کرتی ہے تازگیِ اظہار کی چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں :
مانا مری نشست بھی اکثر دلوں میں ہے
انجائنا کی طرح مگر دلنشیں ہوں میں
مرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں
برسوں بعد اسے دیکھا تو آنکھوں میں دو ہیرے تھے
اور بدن کی ساری چاندی چھپی ہوئی تھی سونے میں
دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صَرف ہوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں
گھر میں تو اب کیا رکھا ہے ویسے آؤ تلاش کریں
شاید کوئی خواب پڑا ہو ادھر اُدھر کسی کونے میں
کس دکان سے لاؤں میں
اپنے ہونے کا یقین
میں نے بھی اک حرف بہت زور سے کہا
وہ شور تھا مگر کہ کسی نے سنا نہیں
سارے پیڑ سفر میں ہوں گے اور گھروں کے سامنے
جتنے پیڑ ہیں اتنے سائے لہرائیں گے شام کو
ذرا بھی تیز ہوا شعلہ نوا تو یہ لوگ
یہی کہیں گے کہ درویش بے ادب ہے میاں
بلند بانگ تیرے نغمہ گر ہزار سہی
ہمارے پاس تو اک حرف زیر لب ہے میاں
شہر گل کاسہ درویش بنا بیٹھا ہے
کوئی شعلہ کسی جلتے ہوئے بن سے آئے
درد کی موج سبک سیر بنا بیٹھا ہوں
چاہے وہ جان سے چاہے وہ بدن سے آئے
صبح کے ساتھ عجب لذت دریوزہ گری
رات بھر سوچتے رہنے کی تھکن سے آئے
کیسے ظالم ہیں مرے دوست کہ سنتے ہی نہیں (۱)
جب تلک خون کی خوشبو نہ بدن سے آئے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
(۱) کیسے ظالم ہیں میرے دوست سے مراد راقم الحروف ہے جس نے ان کی اس غزل کی پہلی صورت کو مسترد کیا تو غزل کی موجودہ صورت وجود میں آئی)
یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا
اب مثالیں کہاں تک دی جائیں اس کا تو پورا کلام ہی تازگیِ اظہار کی ایک نمایاں مثال ہے۔ پہلا ہی شعر دیکھیے کہ اس نے اپنے اور لوگوں کے درمیان تعلق کو کس انداز سے بیان کیا ہے اس کے اطراف کے لوگ اس کو اپنے دلوں میں ضرور رکھتے تھے لیکن بالکل ایسے ہی جیسے انجائنا کا مرض دل میں جگہ کیے رہتا ہے۔ اس کی اعلیٰ صلاحیتیں کچھ لوگوں کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی تھیں اور وہ حوصلہ شکنی کے تیروں سے اس کا سینہ چھلنی کرتے رہتے تھے۔ اس نے اس رویے کو انجائنا کی طرح دلنشیں کہہ کر اپنے دکھوں کی پوری داستان ایک لفظ میں بیان کر دی ہے لیکن ہم اس کے ظرف کی داد دیتے ہیں کہ اس نے اطراف کے ان لوگوں سے کبھی شکایت تک نہ کی البتہ مرنے سے کچھ دن پہلے اس نے اسپتال میں اپنے بیٹے طارق کے سامنے ان سنگ دل لوگوں کی دل توڑ دینے والی باتیں راقم الحروف کو بتائیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر ان کو تفصیل سے بیان کیا جائے تو ہر شخص کا دل ہل جائے گا۔ خیر جب اس نے صبر سے کام لیا ہے تو پھر ہم بھی صبر کا دامن ہاتھ سے کیوں چھوڑیں۔ البتہ ہم ان حضرات پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جس سخن سے خون کی خوشبو آتی ہو اسے کسی بھی خفیف الحرکتی سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ پہلے شعر کے علاوہ باقی تمام اشعار بھی اس کے منفرد اسلوب کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ ان اشعار سے اس نے صنعتی معاشرہ میں فرد سے فرد کے تعلق کی پائمالی کو بھی اجاگر کیا ہے اور اس افراتفری میں فرد کا خود اپنے سے بچھڑ جانے کا مرقع بھی نہایت موثر انداز سے پیش کیا ہے مثلاً ’’اپنے ہونے کا یقین کس دکان سے لاؤں‘‘ میں نے ایک حرف بہت زور سے کہا لیکن کسی نے سنا نہیں‘‘ (یہ حرف شاعر کی اپنی انا ہے) غرضیکہ مذکورہ بالا تمام اشعار موجودہ معاشرہ میں ’فرد، کے احساس کو ابھارتے نظر آتے ہیں۔
رئیس فروغ جو زندگی بسر کرتا تھا اسے ہی سچ سمجھتا تھا اور بہت سے وجودیوں کی طرح زندگی کو گزراں ہونے کی وجہ سے بے بھروسہ سمجھ کر وہ صرف موت کو اپنی ذات کی سچائی کبھی تسلیم نہ کر سکا وہ موت کو ہمیشہ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا رہا جس کا اظہار اس نے جگہ جگہ نہایت دکھ کے ساتھ کیا ہے مثلاً اس کے یہ اشعار :
کیا پوچھتے ہو یار کہ سیدھی سی بات ہے
جو لوگ راستوں میں نہیں ہیں وہ گھر گئے
اونچی مسہریوں کے دھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
مرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں
کیا سوچ کے ہوا ہے سمندر سے پنجہ کش
بوڑھے کو ایک روز تہِ آب دیکھنا
پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آ گئی
دور کسی نے کچھ کہا پھر مجھے نیند آ گئی
ابر کی اوٹ سے کہیں نرم و سکیں ہوئیں
ساتھ ہی کوئی در کھلا پھر مجھے نیند آ گئی
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
یہ اور بہت سے دوسرے اشعار ہیں جو موت کا ناپسندیدہ منظر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ فروغ کو آخری عمر میں اپنے مرنے کا خیال بار بار آتا تھا لیکن موت اسے پسند کسی قیمت پر نہیں تھی البتہ اس سے مفر کی کوئی صورت بھی اسے دکھائی نہیں دیتی تھی لہذا اس نے اسے ایک ذاتی المیہ کے طور پر پیش کیا ہے اسے اپنی ذات کا سب سے معتبر لمحہ کبھی نہیں سمجھا۔
آئیے اب اس کے چند و ہ اشعار بھی دیکھیے جو اس نے ان لوگوں کے بارے میں کہے تھے جو بظاہر تو اس کے دوست تھے لیکن ہر لمحہ اسے زخمی کرتے رہتے تھے:
شہر میں سب سے چھوٹا تھا جو آدمی
اپنی تنہائیوں میں خدا بھی رہا
وہ مرا ہم نشیں ہم نوا ہم نفس
بھونکتا بھی رہا کاٹتا بھی رہا
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
بہر حال اس طرح کے کچھ شعر کہہ کر اس نے اپنے دل کو ہلکا کر لیا تھا بھونکنے اور کاٹنے والے ہم نفس سے کچھ نہیں کہا۔ آئیے اس کی غزلوں کے چند شعر اور ملاحظہ فرمائیں :
سب اس کی باتیں گھسی پٹی ہیں
مگر وہ پیکر نیا نیا ہے
دیر تک میں تجھے دیکھتا بھی رہا
ساتھ اک سوچ کا سلسلہ بھی رہا
میں تو جلتا رہا پر میری آگ میں
ایک شعلہ ترے نام کا بھی رہا
زندگی یاد رکھنا کہ دوچار دن
میں ترے واسطے مسئلہ بھی رہا
رنگ ہی رنگ تھا شہر جاں کا سفر
راہ میں جسم کا حادثہ بھی رہا
رفوگر چاند نکلا ہے نہ تارے ہیں نہ جگنو ہے
رفوگر اپنے ہاتھوں کے اجالے میں رفو کرنا
تری بھی تنہائی کو
باتوں سے بھر جاؤں گا
پیارے اتنا یاد رہے
میں اک دن مر جاؤں گا
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں اتنا برا تو میں بھی ہوں
بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے
مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو جلا تو میں بھی ہوں
زخموں سے بچاؤں کیا بدن کو
کانٹے تو لباس میں سلے ہیں
نازک بیلیں آنگن میں
دھیان الجھا ہے ساجن میں
آنکھیں موندے بیٹھی ہے
خوشبو کورے بامن میں
میں نے کتنے رستے بدلے لیکن ہر رستے میں فرو غ
ایک اندھیرا ساتھ رہا ہے روشنیوں کا ہجوم لیے
دھوپ ہے اور بہت ہے لیکن
چھاؤں اس سے بھی سوا ہے مجھ میں
تو نے تو میگھ راج کو نہلا کے رکھ دیا
ساون کی ایک شام ترے ہاتھ کیا لگی
کوئی ایسا ہو کہ دیکھے جائے
میں جہاں تک نظر آئے جاؤں
پھیلتی جائے خموشی مجھ میں
اور میں شور مچائے جاؤں
اپنا اپنا دھیان سہی
آج یہی مری جان سہی
برکھا رت کی لاج رکھوں
گوری کا اپمان سہی
قصہ مختصر فروغ کی ہر غزل اپنی جگہ ایک وحدت ہے۔ ایک ایسی وحدت جو فروغ کی اپنی تخلیق کردہ دنیا کی جھلکیاں دکھاتی اور ہمیں حیرت و استعجاب کے ساتھ کیف و انبساط کی دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔
فروغ کی نظمیں اور نثری نظمیں بھی اس کی انفرادیت کی آئینہ دار ہیں۔ نثری نظم کے سلسلے میں ہر طرف سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آ رہی ہیں لیکن نثری نظموں کے نام سے جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ نثر اور نظم دونوں کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ مثلاً لاہور میں انیس ناگی اور ان کے اکثر ہمنوا موزوں طبع ہی نہیں ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک شعر بھی وزن میں نہیں لکھ سکتے تو اوٹ پٹانگ لفظوں کا انبار لگا کر ہمارے سروں پر مار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لفظوں کے انبار نثری نظم ہیں۔ ان غریبوں کو شاعر بننے کا شوق ہے اور قدرت نے انہیں شعر لکھنے کی صلاحیت سے محروم رکھا ہے۔ وہ اپنی اس محرومی کا قصہ قارئین ادب پر اتارتے رہتے ہیں۔ کراچی میں بھی نثری نظموں کے بیشتر دعویداروں کا یہی حال ہے کہ وہ نثری نظم کی تحریک چلانے میں تو مصروف ہیں لیکن نثری نظم لکھنے کے ہنر سے بالکل نابلد ہیں۔ ان میں سے کچھ اچھی بھلی پابند شاعری کرتے رہے ہیں لیکن جدید کہلوانے کے شوق میں انمل بے جوڑ لفظوں کے انبار لگانے میں منہمک نظر آتے ہیں۔ کراچی کے ان شعراء میں ایک آدھ نظم سحر انصاری نے اور تین نظمیں ضمیر علی نے ضرور ایسی لکھی ہیں جنہیں صحیح معنوں میں نثری نظم کہہ سکتے ہیں۔ نثری نظم کے اس غیر شاعرانہ ماحول میں رئیس فروغ کراچی کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے نہایت خوبصورت نثری نظمیں لکھ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے۔ مثلاً اس کی ایک نظم کا اقتباس ملاحظہ ہو:
مجھے اس جنریٹر کی تلاش ہے
جو ستاروں کو بجلی سپلائی کر سکے
اور جس کے کرنٹ سے مرے سیل روشن ہوتے ہیں
میں نے ایک آدمی کے ماتھے پر
غرور سجادگی کے گلاب دیکھے
وہاں چھوٹی اینٹوں کی دیوار پر اسم سیادت چمکتا ہے
پھر ہوا نے ٹین کی چادریں گردنوں پر پھینکیں
مائیں نیند سے لڑنے لگیں
باپ آنگن کو پرواز سے روکتے رہے
اور زمین کے نیچے مایا کی دیگیں سرکتی رہیں
بکریوں نے شور کیا
پہلوٹھی والا دو
پٖہلوٹھی والا دو
اس نظم میں ’’جنریٹر‘‘۔ ’’غرور سجادگی‘‘۔ ’’چھوٹی چھوٹی اینٹوں کی دیوار‘‘۔ ’’زمین کے نیچے مایا کی دیگیں‘‘۔ ’’پہلو ٹھی والا دو‘‘ ایسے معنی آفریں اشارے، کنائے اور علامتیں ہیں جو ہمارے معاشرتی ماحول کو پوری گرفت میں لے کر احساس و خیال کو وجدان کی نئی جست سے روشناس کرا رہی ہیں۔ یہ ایک خدا پرست شاعر کے ذوق معرفت کی پیچیدہ کیفیت ہے جو مادی و روحانی کشاکش سے پیدا ہوئی ہے۔ اس میں جنریٹر خدا ہے، اور ’’زمین کے نیچے مایا کی دیگیں‘‘ مادیت کی کشش ہے۔ ’’ہوائیں‘‘ تغیرات زمانہ میں اور ٹین کی چادریں جو گردنوں میں پھینکی گئی ہیں جہد للبقا ہے ’’غرور سجادگی‘‘ اسم سیادت کے گلاب اور پرانی اینٹوں کی دیواریں حقیقی و جعلی معرفت کے سر چشموں کی علامتیں ہیں۔‘‘پہلوٹھی والا دو‘‘ اندرونی Conflictکا ہمارا اپنا روایتی اشارہ ہے۔ اس نظم کو پڑھ کر ہم اپنے معاشرے کے ڈایلما سے عجیب و غریب طور پر روشناس ہوتے ہیں۔ نظم کے پہلے تین مصرعے جس وضاحت سے تلاش حق کا اظہار کرتے ہیں وہ تکنیک کا کمال ہے۔ ان تین مصرعوں کے سیاق و سباق سے ہر مصرعہ روشن ہوتا چلا جاتا ہے اور پوری نظم تاثر کی وحدت پر منتج ہوتی ہے۔ نظم کا آہنگ سفر احساس کا قدم بہ قدم ساتھ دیتا معلوم ہوتا ہے۔ ان کی دوسری نظمیں بھی قدم بہ قدم ان کے احساس کے ساتھ چلتی ہیں۔ اس کی نظم ’’دیتاں‘‘ ملاحظہ ہو:
گرتے ستاروں کے آس پاس کہیں
گریٹ آئیڈیاز
اور ان میں گھرا ہوا ولیم جیمز
اس کے لڑکپن میں
پہاڑ بھاگتے تھے
جنگل بہتے تھے
بہتے جنگلوں میں نہاتی بطخوں کا پیچھا کرتے ہم
دھوئیں کے فلیٹوں تک پہنچ گئے
ان تمام صدیوں کے دوران
اس چھری نے کئی چہرے بدلے
جسے پہلی بار ہم نے
سبزی کے تھال میں دیکھا تھا
اس مختصر نظم میں رئیس فروغ نے پوری انسانی تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے عہد حاضر میں ایٹم بم جیسے تباہ کن ہتھیار کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ ہتھیاروں کی ایجاد اور تباہی کے امکانات ہمیشہ یکساں ہی رہے جس طرح سبزیاں کاٹنے والی چھری کی ایجاد ابتدا میں بے ضرر تھی اس طرح ایٹم کی ایجاد بھی ہمارے بہت سے تعمیری کاموں کے لیے مفید تھی لیکن جس طرح چھری نے خنجر اور شمشیر کی صورت اختیار کر کے تباہی مچائی اس طرح ایٹم کی ایجاد نے بالآخر ایٹم بم کی صورت اختیار کر کے ساری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پوری نظم فروغ کے احساس کے قدم بہ قدم چلتی نظر آتی ہے اور شاید رفتار کی یہی ہم آہنگی نثری نظم کی شرط اول ہے۔ ہم رفتار کی اس ہم آہنگی کو شاعر کی باطنی موضوعیت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔
فروغ کی غزلوں اور نظموں کے اس جائزہ سے ہم اس نتیجے پر بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں کہ وہ اپنے نئے احساس کے دوش بدوش نئی آواز کے سفر پر مسلسل گامزن رہا ہے۔ اس کی شاعری دراصل احساس کو آواز میں ڈھالنے کا ایک عمل ہے اور شاید اسی عمل کو لوگ بجا طور پر شاعری سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...