افضال احمد سیّد
عالمی اردو کانفرنس میں آرٹس کونسل کراچی میں پڑھا جانے والا مقالہ دسمبر ۲۰١۵ء
آنکھ جو ہم کو دکھاتی ہے وہ ہم کیا دیکھیں
دیکھنا ہے تو کسی خواب سے کم کیا دیکھیں
آج میں آپ سب کے سامنے رئیس فروغ کا خواب دیکھ رہا ہوں۔ تقریباً چالیس سال پہلے میں کراچی میں نووارد تھا اور شعر و ادب کی دنیا میں نووارد تر۔ زمان و مکان کے جبر نے مجھے شعر و ادب سے دور کر دیا تھا۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۴ء تک ڈھاکہ بنگلہ دیش میں اردو بولنے والوں کے جو حالات تھے ان میں اردو رسائل اور کتابوں کا ملنا نا ممکن تھا۔ ویسے بھی وہاں اردو کتابیں کم کم ہی دستیاب ہوتی تھیں۔ میں نے اپنے ہم عصر شاعروں سے ملنا شروع کیا۔ وہ عجب دن تھے۔ میں نئے نئے شاعروں کے نام سنتا تھا۔ اور میرے دوست پر جوش انداز میں ان شاعروں کے اپنے پسندیدہ اشعار مجھے سنا سنا کر خوش ہوتے۔ ایسے ہی ایک شاعر کا نام رئیس فروغ تھا۔ کسی دن کسی موقع پر ثروت حسین نے کہا، دیکھو رئیس فروغ کہتے ہیں، سج رہے ہوں گے نازک پودے چل رہی ہو گی نرم ہواْ ؍؍ تنہا گھر میں بیٹھے بیٹھے سوچ لیا اور جھوم لیے۔ تو کبھی شوکت عابد کہتے جانتے ہو یہ شعر کس کا ہے: یہ کیسا جبرِ سن و سال درمیاں آیا؍؍ سو اس فضا میں ستارے سے کیا ستارہ ملے۔ (رئیس فروغ)۔ میرا دوست سید ساجد جسے فرقہ پرستوں نے شہید کر دیا تھا، میرے ساتھ آوارہ گردی کرتے ہوئے رئیس فروغ کے اشعار پڑھا کرتا تھا:: ایک گھوڑا تھا بہت بڑا جو پانی سے ڈرتا تھا (نظم: گھوڑے سے خطاب)۔ جاؤ پہاڑوں پر جاؤ اودی نیلی وادی میں اک پیاری سی گھوڑی ہے۔ جلد ہی میں اس وقت اپنی شاعری کے منظر نامے سے واقف ہو گیا۔ اور مجھ میں اشتیاق پیدا ہوا کہ میں اپنے پسندیدہ شاعروں سے ملوں۔ میں قمر جمیل، محب عارفی، عبید اللہ علیم، انور شعور، جون ایلیا، رسا چغتائی، افتخار جالب، ان سب سے ملا۔ قمر جمیل سے ملتے وقت مجھے، سب سے پہلے یاد آیا کہ رئیس فروغ نے ان کی ناکام تجارتی طالع آزمائی پر لکھا تھا، کیوں گھومنے والی کرسی پر اڑتا ہوا بادل جا بیٹھا۔ پھر ایک دن میں ریڈیو پاکستان میں رئیس فروغ کے پاس پہنچ گیا، ان کے ایک مداح کی حیثیت سے۔ ان کی شخصیت پہلی نظر میں ہی دل میں اُتر گئی۔ اس دن ہوائے صبح یہ کہتے ہوئے گئی ؍؍ یوسف میاں کے سانولے بیٹے میں کیا نہیں۔ وہ بہت شفیق انسان تھے۔ اور ایک معصوم جاذبیت کے مالک۔ ہر وقت ہونٹوں پر ایک پیاری سی مسکراہٹ۔ وہ مجھ سے اس انداز میں ایک فاصلہ رکھتے ہوئے نہیں ملے جو اکثر ادیب اور شعراء اپنے مداحوں کے ساتھ اختیار کرتے ہیں۔ وہ مجھے ایک دوست کی طرح نظر آئے ہمیشہ۔ میری نظروں نے اور کوئی منظر نہیں دیکھا۔ رئیس فروغ نے اس دن مجھ سے بہت سی باتیں کیں۔ میں بار بار یہ سوچ رہا تھا کہ یہ وہی شاعر ہے جس نے کہا تھا کہ
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے۔
مگر انسانوں کا خیال رکھنا، ان کی دلجوئی کرنا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی عشق کے کارِ مسلسل کے اجزاء ہیں۔ واقعی ان کی زندگی کے ہر لمحے میں عشق کار فرماتھا۔ اُن کا نمایاں وصف ان کی ملائم گفتاری تھی۔ ذرا بھی تیز ہوا شعلۂ نوا تو یہ لوگ؍؍ یہی کہیں گے کہ درویش بے ادب ہے میاں۔ کبھی کبھی ان کے ساتھ ہوتے ہوئے مجھے یہ خیال آتا تھا کہ ان کے محبت بھرے دل میں ایسا خیال کیوں آیا کہ انھوں نے یہ کہا ’’ایسے ظالم ہیں مرے دوست کے سنتے ہیں نہیں ؍؍ جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے۔ کبھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ پوچھ سکتا کہ وہ دوست کون ہیں۔ جب تک میں ان سے ملا وہ زیادہ تر شاعری کر چکے تھے۔ پھر بھی میں خوش نصیب ہوں کہ ان کی کچھ تازہ شاعری بھی مجھے ان سے سننے کو ملی۔ رفوگر چاند نکلا ہے نہ تارے ہیں نہ جگنو ہیں ؍؍ رفوگر اپنے ہاتھوں کے اجالے میں رفو کرنا۔ تمھیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کو ؍؍ تمھارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا۔ دو تین ملاقاتوں کے بعد، ان کی حوصلہ افزائی پر میں انھیں اپنی نظمیں اور غزلیں سنانے لگا۔ وہ جتنی توجہ سے سنتے وہی شعر کہنے کا اجر تھا۔ ان کی پسندیدگی میرے لیے حرفِ آخر تھی۔ پھر یوں ہوا کہ کچھ لکھتے ہی میں ان کو سنانے کے لیے بے تاب ہو جاتا۔ ان کی طبیعت بگڑ گئی، پھر کچھ سنبھلی، تو ایک دن میں ان سے ملنے گیا، کچھ اور لوگ بھی وہاں موجود تھے، کسی نے کہا کہ اب آپ کو بقیہ تمام عمر دوائیں کھانی پڑیں گی۔ کھالیں گے، رئیس فروغ نے انکسار اور بے نیازی سے کہا۔ موت کو انھوں نے ایک طبعی عمل کے طور پر دیکھا تھا۔ میرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ ؍؍ وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں۔ پھر ایک دن رئیس فروغ نہیں رہے۔ انھوں نے کہا تھا خرامِ عمر ترا کام پائمالی ہے ؍؍ مگر یہ دیکھ ترے زیرِ پا تو میں بھی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر عمر کو اختیار ہوتا تو محبت سے لبریز اس شاعر کے سامنے وہ اپنے قدم روک لیتی۔
٭٭٭