صبح ناشتے کی میز پہ مونا نے ایک بار پھر ہالار کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے ایک بار پھر انکار کردیا تھا
جب دل میں کوئی اور ہو اور وہ حاصل بھی ہوسکے تو پھر کیوں ایک ناپسندیدہ ہستی کے ساتھ زندگی گزاری جائے …..!!!!!
یہ ہالار نے سوچا تھا
” تم اس گھر کے بڑے بیٹے ہو تمہاری وجہ سے باقی سب بھی یوں ہی پھر رہے ہیں …..عدیل بھی اچھی خاصی عمر کا ہونے والا ہے”
” اماں جان….میری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے مجھے جب کرنی ہوگی میں کرلوں گا… آپ اگر عدیل کی کرنا چاہتی ہیں تو کرلیں….مجھے دادا کا انتظار ہے ….”
ہالار نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا تھا
” نا معلوم کونسی گیدڑ سنگھی لئے بیٹھے ہو اپنے دادا کیلئے اس عمر میں….” مونا نخوت سے بولیں تھیں
ہالار خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا تھا
________________ ____________________
سفیر ہاؤس میں بھی ناشتے کی میز سجی ہوئی تھی نیہا نے آج میتھی کے پراٹھے کھانے کی فرمائش کی تھی اور اسی پہ وہ عالیہ سے باتیں سن رہی تھی
” کبھی خود بھی ہاتھ پیر ہلا لیا کرو ہر وقت ماہ کی جان مشکل میں ڈال دیتی ہو…..”
” ہیں…..ماہ سچ بتاؤ میری وجہ سے کیا تمہیں مشکل ہوتی ہے…..”
نیہا نے ماہ سے پوچھا
” ارے نہیں….اور مامی ویسے بھی نیہا صرف اتوار کو تو ہی ڈھنگ سے ناشتہ کرتی ہے اور مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے ….ویسے بھی ماؤی لوگوں کیلئے اہتمام تو کرنا تھا ہی….”
مہرماہ نے انکو چائے کا کپ دیتے ہوئے کہا تھا
” ماؤی….ابھی تک سو رہی ہے اور خالو بھی….” نیہا سیدھے ہوتے ہوئے بولی تھی
ماوی نیہا کی خالہ ذاد کزن تھی اور اسلام آباد سے کراچی آئی تھی پڑھنے ….اسکے ابا اسے یہاں چھوڑنے آئے تھے
” انکل تو ماموں کے ساتھ واک پہ نکلے تھے اور ہاں….ماوی ابھی تک سو رہی ہے…”
مہرماہ نے بتایا تو نیہا سر ہلانے لگی تھی
ویسے بھی خالی پیٹ اسکا دماغ زرا کم چلتا تھا
” مابدولت جاگ گئے…..”
ماوی نے پیچھے سے آکے دونوں بازو مہرماہ کے گرد لپیٹ دئیے تھے
مہرماہ بے چاری گھبرا کے رہ گئی تھی
ماوی کسی آندھی کی طرح آئی تھی
” اف کزن….کیسی ہو….” نیہا جوش سے اس سے ملی تھی
انکا ملنا بہت کم ہوتا تھا اسلام آباد تو کتنا عرصہ ہوا وہ لوگ گئے ہی نہیں تھے نا وہاں سے یہاں کوئی آیا تھا
” سچ میں نیہا…..پتہ ہے اتنا مس کرتی تھی میں سب کو خالہ…تمہیں مہری…اور انس کو….ویسے یہ انس ہیں کہاں…”
ماوی نے یاد آنے پہ پوچھا تھا
” وہ ایسا ہے کہ تم بیٹھ کے ناشتہ کرلو پھر باقی باتیں کرتے ہیں”
مہرماہ بوجھل لہجے میں بولی تھی اسکی وجہ سے تو ہی وہ شہر بدر ہوا تھا
” انس بھائی اجکل دوسرے شہر ہوتے ہیں ….کسی کورس کے سلسلے میں…”
نیہا نے بتایا تھا
” ہاں بھئی یہ فوجیوں کے پیر میں بڑے چکر ہوتے ہیں….” ماوی نے نیہا کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا تھا
” کتنے فوجیوں کا پتہ ہے تمہیں….کتنوں پہ پی ایچ ڈی ہیں محترمہ”
نیہا کو برا لگا تھا
” میں تو صرف ایک فوجی کا پتہ رکھنا چاہتی ہوں…..اور اس پہ پی ایچ ڈی تو کیا ڈی لٹ بھی….”
ماوی نے مزے سے کہا
” ہیں…..کیا!!!!”
نیہا ہونق ہوئی تھی پل میں
” کچھ نہیں یار….مہری جی ناشتہ ملے گا کیا سچ بہت بھوک لگی ہے”
ماوی نے بات پلٹ دی تھی
” لارہی ہوں….” مہرماہ نے کچن سےآواز لگائی تھی کچھ دیر میں سفیر اور ماوی کے ابو بھی آگئے تھے
عالیہ کو انس شدت سے یاد آیا تھا
” سب جمع ہیں ناشتے پہ بس ایک میرا پردیسی بیٹا نہیں ہے….”
عالیہ نے کہا تو مہرماہ چپ سی ہوگئی تھی ماحول ایک دم بوجھل ہوگیا تھا
” بھائی آ جائیں گے اماں….پانچ چھ دن میں میری کل ہی بات ہوئی ہے” نیہا نے انہیں تسلی دی تھی
” آنٹی وہ آجائیں گے ….اور ہم ہیں نا آپکی اداسی دور کرنے کیلئے… آپ فکر نہ کریں”
ماوی نے لاڈ سے کہا تھا
وہ ویسے بھی خوش مزاج سی لڑکی تھی
” ویسے تمہارے سڑو بھائی کو کوئی لڑکی ملی ابھی تک کہ نہیں….”
ماوی نیہا کے کان میں گھس کے بولی تھی
” کیا….سڑو اور میرا بھائی….ویسے تمہیں میرے بھائی کی اتنی فکر کیوں ہے… ہاں” نیہا نے اسے گھورا تھا
” لو ایویں….یار لاسٹ ٹائم وہ اسلام آباد آئے تھے ….مجھے گھر آنے میں دیر ہوگئی تھی اتنا سنایا کہ میرے کان لال ٹماٹر ہوگئے تھے اور جب میں نے کہا یہ اسلام آباد ہے یہاں ایسا ہی ہوتا ہے تو انکا منہ سڑے کریلے جیسا ہوگیا تھا” ماوی نے کہا
وہ دونوں سرگوشی میں باتیں کررہیں تھیں
” اچھا میرا بھائی کریلا اور محترمہ ٹماٹر….بیٹا تمہاری تو ایسی چٹنی بناؤں گی کہ یاد کروگی…. ٹماٹر کی بھی ایسی چٹنی نہیں بنتی ہوگی”
نیہا نے اسے گھورا تھا
” مہرماہ جی…..آپ تو بڑی مشہور ہو رہی ہیں آپکی آواز کی دھوم تو ہمارے اسلام آباد تک ہے…”
ماوی نے ایک بار پھر مہرماہ کو مخاطب کیا تھا
توبہ واقعی میں ماوی بہت بولتی تھی کان کھا جاتی تھی …..نیہا نے سوچا
” ارے یہ تو بس ….نیہا کی وجہ سے ”
ماہ نے کہا
” اگر آپکو نیہا نے کہا تھا اس فیلد کا تو بہت اچھا کیا یہ فیلد اپکو سوٹ کرتی ہے میں نے دو چار مرتبہ آپکا ایوننگ ڈرائیو ٹائم سنا ہے….اٹ واز اوسم”
انکل نے بھی توصیفی لہجے میں کہا تھا
مہرماہ انکساری سے مسکرا دی تھی
” شکر ہے نیہا بی بی نے بھی کسی کو ڈھنگ کا مشورہ دیا….ورنہ اس سے پہلے تو سب کی لٹیا ہی ڈبوئی ہے” ماوی نے نیہا کو چڑایا
نیہا منہ میں نوالہ ہونے کی وجہ سے اسے صرف گھور کے رہ گئی تھی
_____________________________________
” مہرماہ….” پی ایم نے اسے پکارا
” یس میم….
” دو گھنٹے کا مزید شو کرسکتی ہو”
” ابھی….” مہرماہ نے وقت دیکھا نیلا آسمان اندھیرے کے باعث اب سیاہ پڑ رہا تھا
” ابھی نہیں نو بجے…قریبا ایک گھنٹے بعد”
پی ایم نے کہا تو مہرماہ چونک پڑی تھی
” یہ تو ہالار جاذب کے شو کی ٹائمنگ ہیں نا”
یہ تو مہرماہ کو زبانی یاد تھا
” ہاں….بٹ وہ شہر میں نہیں ہے اپنے گھر مری گیا ہے”
پی ایم نے بتایا
” اوہ ….تو ہالار کا تعلق مری سے ہے”
مہر ماہ کو ایک نئی بات پتہ چلی تھی
” اوکے ….میں گھر انفارم کرتی ہوں”
” اصل میں تمہارا انداز ہالار جاذب کی طرح بڑی بڑی باتیں چھوٹے اور خوبصورت لہجے میں کہنے کا جو فن تمہارے اور اس کے پاس ہے ….وہ کسی اور کے پاس کہاں”
پی ایم نے اسکی تعریف کی تھی
” تو اب آپ کی محبت اب میرے لفظوں اور سوچوں سے بھی جھلکنے لگی ہے”
مہرماہ نے نگاہیں جھکا کے سوچا تھا
_____________________________________
ہالار جاذب کی جگہ اسے شو کرتے ہوئے چار دن ہوئے تھے آج بھی وہ کنسول آپریٹ کرتے ہوئے اسکی جگہ بیٹھی تھی ….ہالار کو سننے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی …اور وہ سب اسکی بے وقت غیر حاضری کا سبب جاننا چاہ رہے تھے ….اپنے سترہ سالہ کیرئیر میں اس نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا نا …
” آپ لوگوں کی محبت اور عنایت کا بہت شکریہ لسنرز…..اور آج جب میں آپ سب کی توجہ اور محبت ہالار سر کیلئے دیکھ رہی ہوں تو مجھے آج اس بات کا مفہوم پوری طرح سمجھ آگیا ہے …ریڈیو ایک جادو ایک طلسمی دنیا….فیسینٹ مگر یہ چارم ریڈیو کا نہیں ہوتا صرف بلکہ
..
Radio is powerful not because of the microphones, but the one who sits behind the microphones ”
واقعی یہ سحر تو اس مائیک کا حق ادا کرنے والے شخص کا ہے ….جس میں ہم سب جکڑے جکڑے بہت دور نکل جاتے ہیں….لیکن وہ اپنی جگہ پہ ہی قائم رہتے ہیں”
مہر ماہ کھویے کھویے لہجے میں بولی رہی تھی
میر ہالار لفظوں کا ساحر تھا اور مہر ماہ اتنے برسوں سے اسکی محبت میں جکڑی ہوئی تھی
مہر ماہ نے بات پوری کرنے کے بعد سونگ پلے کیا تھا اور مائک آف کر کے نظر اٹھائی تھی تو ساکت رہ گئی تھی
میر ہالار دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا
مہر ماہ کو لگا کائنات جیسے ساکت رہ گئی ہے
” کیا واقعی….مہر ماہ اتنی تاثیر ہوتی ہے کسی کے لفظوں میں کہ ہم اسکے بے دام غلام بن جائیں”
ہالار دونوں ہاتھوں کا دباؤ میز پہ ڈالتے ہوئے اس سے بولا تھا
” یہ غلامی نہیں عقیدت مندی ہوتی ہے…بے غرض محبت”
مہرماہ نے با مشکل کہا تھا
” اور پھر کہیں یہ محبت اس زمانے کی بھیڑ میں یوں گم ہوجاتی ہے کہ مل ہی نہیں پاتی”
ہالار یک دم تلخ ہوا تھا
” جی…..” مہرماہ چونک کے بولی تھی
” میں سمجھی نہیں….. ”
” آپ سمجھ بھی جائیں گی اور جان بھی جائیں گی …..” ہالار نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا
_____________________________________
مہر ماہ گھر لوٹی تھی سفیر کے ساتھ تو لاؤنج میں ہی انس مل گیا تھا
” انس ….آپ آگئے”
مہر ماہ کو اسے دیکھ کے خوشی ہوئی تھی
” واپس چلا جاؤں….”
انس کا لہجہ سرد سا تھا
” میں نے یہ تو نہیں کہا انس پلیز….آپ ایسا مت کریں”
مہرماہ اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی
یہ اسکا وہ انس تو نہ تھا جس کو وہ جانتی تھی جو اسے دکھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا
"کیا کررہا ہوں….تم نے کہا چھوڑ دو …تو چھوڑ دیا تمہیں….اب اور کیا کروں”
انس نے تلخی سے کہا
” انس پلیز ….آپ یوں گھر سے دور مت ہوں مامی کو ماموں کو ضرورت ہے آپکی….”
” مہر ماہ یہاں اگر میں رہا نہ تو پتہ ہے تم سکون سے نہیں رہ پاؤگی….نہ جانے کب مجھ پہ رقابت غالب ہوجائے اور تم بے سکون ہوجاؤ ایسا میں ہرگز نہیں چاہا ….ہم جن سے محبت کرتے ہیں نا اچھی لڑکی اسے خوش رکھتے ہیں چاہے خود ہی بےسکون کیوں نہ ہو جائیں ”
انس گھمبیر لہجے میں بولتا ہوا اسکے پاس سے دور ہٹ گیا تھا
مہر ماہ بے جان سی صوفے پہ بیٹھ گئی تھی
” اس عورت کے کرب کا اندازہ آپ کبھی نہیں لگا سکتے …..جسے ان دو مردوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو ایک وہ جسے وہ چاہتی ہے اور دوسرا وہ جو اسے چاہتا ہو….”
خلیل جبران نے واقعی کتنا درست کہا تھا
_____________________________________
” دادا…..آپ…”
ہالار میر برفت کو اپنے گھر دیکھ کے چونک اٹھا تھا
” ہاں ہم ….ہم نے سوچا میر ہالار کے گھر بھی ہو آئیں ….”
” اچھا ہوا آپ آگئے مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے ….”
ہالار انکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا تھا
” کیا بتانا ہے بیٹا….” میر برفت نے غور سے اسکی شکل دیکھی تھی
” مجھے آپ سے ایک وعدہ چاہئیے….میں جو بات آپکو بتانے لگا ہوں وہ میری ترجیحات میں حائل نہیں ہوگی کیونکہ اس کا تعلق آپ سے ہے مجھ سے نہیں”
” ہالار….کیا پہلیاں بوجھوا رہے ہو….صاف بات بتاؤ”
میر برفت الجھے
” میں نے انہیں ڈھنوڈ لیا دادا….میں نے آپکی پوتی ڈھونڈ لی….”
ہالار جاذب نے دھیرے سے انکے پورے بدن سے کوئی سوئی نکالی تھی جو اتنے برس ایک پھانس کی صورت انہیں چبھتی رہی تھی
” کیا….سچ…”
میر برفت فرط جذبات سے کھڑے ہوگئے تھے
” کہاں ہے میری بچی.. مجھے اس سے ملنا ہے….اور سمیہ وہ کہاں ہے.. کہیں اس نے دوسری شادی تو نہیں کرلی”
میر برفت کو ایک نئی فکر لاحق ہوئی تھی
” وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے….آپکی پوتی یہیں اسی شہر میں اپنے ماموں کسے ساتھ رہتی ہے…”
ہالار نے ہولے سے بتانا شروع کیا
” اوہ …نہیں….سمیہ بھی چلی گئی…اور اسکا ماموں مطلب سفیر یوسف….دیکھا ہالار تم نے اپنوں کے ہوتے ہوئے بھی میری پوتی یتیموں کی طرح رہتی رہی…/تمہارے باپ کی وجہ سے”
میر برفت اب بھی نہیں چوکے تھے
” پلیز دادا…..بابا نے جو کیا وہ اس وقت سب سے بہتر تھا پرانی باتیں بھول جائیں اور آپکی پوتی کوئی یتیموں کی طرح نہیں رہتی اسکے ماموں نے اسکی اچھی تربیت کی ہے اور وہ اچھے ماحول میں رہی ہے….”
ہالار کو اس دن کا منظر یاد آیا تھا جب وہ مہر ماہ کو چھوڑنے اسکے گھر گیا تھا
” تمہیں اتنا یقین کیسے ہے…جیسے تم واقف ہو ان سے. …”
میر جاذب نہ جانے کب کمرے میں آئے تھے
” جن سے تعلق رکھنا ہو انکے بارے میں سب خبریں رکھنی ہی ہوتیں ہیں…بابا…”
ہالار کا لہجہ معنی خیز تھا
” اس بات سے کیا مراد ہے تمہاری اور تم اسکے ماموں کی اتنی طرفداری کیوں کررہے ہو”
میر برفت نے کہا وہ پوتے کے رنگ ڈھنگ دیکھ رہے تھے
” میں نے آپ سے جو کمٹ منٹ کی تھی وہ پوری ہوگئی کل میں آپکو وہاں لے جاؤں گی ….پھر آپکی مرضی …جو چاہیں. ”
ہالار نے انکی بات پلٹی تھی
” میر ہالار…. تمہاری کچھ کہہ رہی تھی …”
میر جاذب کو یاد آیا تو پوچھ بیٹھے
” کیا….”
ہالار نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
” تم اپنی شادی کے بارے میں ایسی کیا بات ہے جو مجھ سے اور ابا سے کرنا چاہتے ہو اور ماں سے نہیں”
میر جاذب نے پوچھا
” اماں کیلئے میرے دل میں بہت عزت ہے بابا….لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انکے مزاج سے ہم سب واقف ہیں اس لئے میں ایسی کوئی بات انہیں نہیں بتانا چاہتا جو انکے مزاج کے خلاف ہو…..لیکن یہ بات میرے لئے بہت امپورٹنس رکھتی ہے…اس لئے آپ دونوں سے کہنا ضروری ہے ”
” ہالار صاف لفظوں میں کہو …”
میر برفت الجھے تھے
” سفیر صاحب کو جانتے ہیں آپ….مہرماہ کے ماموں…..ان سے متعلق ہے یہ بات”
” کیا مطلب….????” میر جاذب چونکے
” مطلب یہ کہ میں انکی بیٹی نیہا سفیر سے شادی کرنا چاہتا ہوں…..”
ہالار نے دھماکہ کیا تھا کمرے میں موجود دونوں نفوس سن بیٹھے رہ گئے تھے
” یہ کیا کہہ گیا تھا….ہالار…”
_______________________,,,,,___________
سورج مغرب سے نکلتا تو ان دونوں نفوس کو تب بھی اتنی حیرت نہیں ہوتی …جتنی ہالار جاذب کی بات سن کے ہوئی تھی
وہ واقعی شاکڈ رہ گئے تھے
” اتنے برس کے بعد اگر کوئی لڑکی ملی بھی ہمارے پوتے کو…..تو پوری دنیا کی لڑکیوں کو چھوڑ کے صرف سفیر یوسف کی بیٹی…..”
میر برفت تلخی سے بولے تھے
” اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے دادا…..مجھے وہ اچھی لگی ہر لحاظ سے پرفیکٹ…..وہ انجینئر بن رہی ہے….”
ہالار اپنی بات کو پرسکون لہجے میں کہہ رہا تھا
مگر اسکا لہجہ اٹل تھا
” ہمارے گھر کے مردوں کو کیا وہی گھر ملا ہے شادی کیلئے…..”
میر برفت تنفر سے بولے
” دادا …..آپ مجھے سیال چچا کے ساتھ کمپئیر مت کریں….میں بیچ راہ میں سے چھوڑ کے جانے والوں میں سے نہیں……”
ہالار نے یہ بات کہہ کے ثابت کردیا تھا وہ واقعی اکڑ پن میں اسی خاندان پہ گیا تھا ….اس وقت وہ میر جاذب کو میر سیال کا ہی پرتو لگ رہا تھا
ضدی ….
اکھڑ
اور ہی
خاندانی اکڑ ….
” میر ہالار اسی گھر میں ہماری پوتی بھی تو تھی ….تم اسے بھی تو پسند کرسکتے تھے نا…یا تمہاری قریب کی نظر کمزور ہوگئی ہے”
میر برفت نے شکوہ کیا
” دادا….نیہا میرے معیار پہ پورا اترتی ہے …وہ جتنی محبت آپکی پوتی سے کرتی ہے شاید ہی کسی سے کرتی ہو….شی از پرفیکٹ…آپ لوگ انکے گھر رشتہ لے کے جائیں گے”
ہالار نے پوچھا تھا
” تم پوچھ رہے ہو یا حکم دے رہے ہو….ہم اس خاندان سے مزید کوئی رشتہ نہیں جوڑنا چاہتے ہالار یہ خیال دل سے نکال دو…ہاں اگر تمہارا انتخاب ہماری پوتی ہوتی تو ہم اسی وقت تمہارا رشتہ وہاں لے جاتے….”
میر برفت کی بات پہ ہالار کا دل چاہا پوتی صاحبہ کو ہی شوٹ کرڈالے میر برفت زبردستی اسکے ساتھ اسکا ناتا جوڑنا چاہ رہے تھے
” میں آپ سے کہہ رہا ہوں دادا
…میری جو کمٹمنٹ آپکے ساتھ تھی وہ میں نے پوری کردی میرا کام آپکی پوتی کو ڈھونڈنا تھا نا کہ اس سے شادی کرنا…..شادی تو میں نیہا سے ہی کروں گا….یہ آپ لوگ سن لیں…”
ہالار نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا
” تم نے یہ فیصلہ اچھی طریقے سے سوچ سمجھ کے کیا ہے یا جذباتی ہورہے ہو تم ….”
میر جاذب بہت دیر بعد بولے تھے
” بابا….میں کوئی ٹین ایجر نہیں ہوں…ایک میچیور انسان ہو جو تیس سال کی عمر کو پہنچنے والا ہے….یہ فیصلہ میں نے بہت سوچ سمجھ کے کیا ہے….نیہا ہی میری پسند ہے….آپ جانتے ہیں جس فیلڈ میں ….میں ہوں …اگر مجھے جذباتی فیصلے کرنے ہوتے تو بہت موقع تھے ایسے….بٹ آپ مجھے جانتے ہیں….”
ہالار باپ کو ہی دیکھ کے بول رہا تھا
” ٹھیک ہے ….وہ سفیر کی بیٹی ہے …اور سب سے بڑھ کے تمہاری پسند …ہم تمہارا رشتہ لے جائیں گے”
میر جاذب کی بات سن کے میر برفت غصے میں آگئے تھے
” ہرگز نہیں….اس سفیر کی وجہ سے ہماری پوتی ہماری بچی ہم سے اتنے سال دور رہی …اسے سزا دینے کے بجائے ہم اسکی بیٹی کی مانگ میں افشاں بھر دیں….قطعا بھی نہیں…”
” بابا…پلیز…آپ کیوں ایک بار پھر سیال والی کہانی دہرانا چاہتے ہیں… میں اپنے بیٹے کا دل نہیں توڑ سکتا ….اتنے سال کے بعد اگر اسے کوئی لڑکی ملی ہے تو وہ یقینا ہمارے معیار کی ہی ہوگی….اور بابا زرا مہرماہ کا بھی تو سوچیں…. ہم جب اس سے ملیں تو اس کیلئے اجنبی ہی ہوں گے وہ ان سے زیادہ قریب ہے ….اسے خوشی ہوگی اگر ہم. ان لوگوں سے رشتہ جوڑیں گے…اسطرح وہ ہم سے بھی قریب ہوگی ….”
میر جاذب نے انہیں ٹھنڈا کرنا چاہا تھا
” تو وہ دور بھی تمہاری وجہ سے ہوئی تھی ….کس نے کہا تھا کہ اسے ہماری نظر سے دور کرو”
میر برفت نے انہیں سنایا تھا
” دادا…پلیز…بابا نے جو کیا وہ ٹھیک تھا….وہ کیسے ایک ماں سے اس کا بچہ چھین سکتے تھے …آپ بابا کو برا بھلا کہنا بند کردیں….آپکو آپکی پوتی مبارک ہو….”
ہالار ناگواری سے بولا تھا ہالار تم جاؤ….میں تھوڑی دیر تک خود تمہارے پاس آتا ہوں….”
میر جاذب نے بھاپن لیا تھا کہ ابھی ہالار آؤٹ اف کنٹرول ہوجائے گا
اسلئے اسے کنٹرول کرنا چاہا تھا
” بابا….نیہا میری محبت ہے….میری پسند ہے ..اور وہی میری زندگی کی ساتھی بنے گی…”
ہالار نے صاف اقرار کیا تھا
نہ جانے میر جاذب کو اسکی بات سن کے دکھ کیوں ہوا تھا….شاید اس لئے کہ اندر ہی اندر وہ بھی مہرماہ اور ہالار کو ساتھ دیکھنا چاہا تھا
اور
اسی شہر میں ہی کہیں دور…اس دیوانی مہرماہ کے ہاتھ سے پھول چنتے یوں ہی گرے تھے ….مہرماہ کے ہاتھ بالکل خالی ہوگئے تھے اسکے دل کی طرح
” بابا….مان جائیں ….اسطرح مہرماہ بھی ہمارے گھر ایڈجسٹ ہوجائے گی جب اسکے ساتھ اسکے بچپن کی ساتھی ہوگی”
میر جاذب باپ کو منانے کی ہرممکن کوشش کررہے تھے
” ہوں….تم.جاؤ….صبح بات کریں گے….” میر برفت نے انہیں جانے کا اشارہ کیا تھا
میر جاذب اٹھ کھڑے ہوئے تھے جانتے تھے باپ کا یہ انداز پتھر کو جونک تو لگی تھی
” سفیر یوسف…..تمہاری وجہ سے تئیس سال ہم اپنی بچی کی شکل دیکھنے کو ترسے ہیں….اب تمہاری باری ہے….قدرت نے ہمیں موقع دے دیا ہے بدلے کا….اب تمہاری باری ہے….تم ترسو گے اپنی لاڈلی بیٹی کیلئے….اسکی آواز کیلئے بھی….”
میر برفت نے لاٹھی گھماتے ہوئے تہیہ ج
کیا تھا
_____________________________________
” سفیر….”
عالیہ نے انہیں پکارا
” جی بیگم صاحبہ……ہماری یاد کیسے آگئی آپکو….یقینا کوئی کام ہوگا”
سفیر صاحب اخبار رکھتے ہوئے بولے تھے
” کام کچھ بھی نہیں ہے…سفیر…مجھے کچھ کہنا ہے…انفیکٹ ڈسکس کرنا ہے”
عالیہ سنجیدہ تھیں
” کہو….” سفیر صاحب بھی سنجیدہ ہوئے تھے
” انس کے بارے میں….آپ نے دیکھا اسے کتنے کتنے دن گھر نہیں آتا…میں چاہتی ہوں اسکی شادی کردوں گھر میں بیوی ہوگی تو وسے گھر کی بھی یاد آئے گی….”
عالیہ کی بات پہ سفیر صاحب سوچ میں پڑگئے تھے
” واقعی انس کی اب شادی کی عمر بھی ہوچلی ہے….اور اسکی جاب بھی بہت ٹف ہے…تو کوئی ہے تمہاری نظر میں.. ”
سفیر صاحب نے پوچھا
” ارے اس میں ڈھونڈنے والی کیا بات ہے…..اپنی مہرماہ…ہے نا …مجھے تو وہ بہت پسند ہے انس کے لئے ہمیشہ سے”
عالیہ بیگم جوش سے بولیں تھیں
” نہیں عالیہ مہرماہ نہیں….اس سے نہیں ہوسکتی اسکی شادی …”
سفیر صاحب نے انکار کیا تھا
” ارے کیوں….کیا کمی ہے ہمارے بچے میں…آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں”
عالیہ حیران ہوئیں تھیں
” انس نے منع کیا ہے….”
سفیر صاحب نے بتایا
” مگر کیوں….وہ تو اسکا اتنا خیال رکھتا ہے…مجھے تو لگا تھا کہ وہ اسے پسند کرتا ہے ….” عالیہ بیگم نے الجھے لہجے میں کہا
"لگتا تو مجھے بھی یہی تھا….اس لئے میں نے اس سے پوچھا تھا…مگر اس نے صاف انکار کردیا تھا وہ نہ فی الحال شادی کرنا چاہتا ہے…اور مہرماہ سے تو بالکل بھی نہیں….”
سفیر صاحب نے انہیں بتایا تھا
” نجانے کیا ہے اس لڑکے کے دماغ میں….مجھے تو اب مہرماہ کی فکر ہے…”
عالیہ پریشان ہوکے بولیں تھیں ….وہ انہیں بہت پیاری تھی
” میں نے کہا ہے دو تین لوگوں سے مہرماہ اور نیہا کیلئے ”
سفیر صاحب نے کہا
” مگر لوگ کیا کہیں گے کہ گھر کا اتنا اچھا لڑکا چھوڑ کے ہم اسے باہر کیوں بیاہ رہے ہیں….”
عالیہ کو ایک نئی فکر لاحق ہوئی تھی
” آپ فی الحال ایسا مت سوچیں…..اللّه مسبب الاسباب ہے…”
سفیر نے انہیں تسلی دی تھی
عالیہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئیں تھیں….نجانے مہرماہ کے نصیب میں کیا تھا
_____________________________________
” مہری جی….آپ شادی کب کررہی ہیں…”
ماوی نے چپس کھاتے ہوئے بے تکلفی سے کہا تھا جیسے صدیوں پرانی جان پہچان ہو
” کیا…..” مہرماہ نٹنگ چھوڑ کے اسکا منہ دیکھنے لگی تھی
انس نے ناگواری سے اپنی اس کزن کو دیکھا تھا جس نے بک بک میں ڈگری لے رکھی تھی
” ماہ کو تو چھوڑو تم بتاؤ….تم کیوں ہر پرپوزل ریجیکٹ کرتی ہو ….”
نیہا نے اسے آڑے ہاتھوں لے کے مہرماہ کی مشکل آسان کی تھی
” کچھ خاص نہیں….. چھوڑو اسے….ایک لطیفہ سناؤں…..انس آپ سنیں گے…سچ بہت مزے کا ہے”
ماوی نے کہنے کے ساتھ چٹخارہ لیا تھا
انس اسے نظر انداز کرکے ٹی وی کی جانب متوجہ ہوگیا تھا
” اچھا زارا سنانا….مس لطیفہ….” نیہا نے کہا
” ایک مرغے کو بہت غصہ تھا…وہ مرغی کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا…تم نے میرا رشتہ چھوڑ کے کوے میاں کیلئے کیوں ہاں کی….مرغی نے اسے دیکھا اور شرماتے ہوئے بولی….وہ اماں ابا کی خواہش تھی کہ دلہا ائیر فورس میں ہو….”
ماوی نے کن اکھیوں سے انس کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو بے نیاز سے بھی سیدھا دل کی دھڑکنیں دھڑکا رہا تھا
انس نے اسکے لطیفے پہ اسے دیکھا تھا
ماوی کو پہلی بار لگا کچھ غلط ہوا ہے….انس کی کرنجی آنکھوں سے جیسے سیدھا شرارے نکل رہے تھے
مہرماہ اور نیہا ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں…..یہ تو سیدھا انس پہ ہی اٹیک تھا
انس اسے گھورتے ہوئے اٹھ گیا تھا لاؤنج میں مکمل خاموشی ہوگئی تھی
” میں نے ایسا بھی کیا کہہ دیا …” ماوی حیرانگی سے بولی
” اوہ زمانے بھر کی بونگی…میرا بھائی کوا ہے یا تم مرغی ہو….کیا ضرورت تھی یہ بکواس لطیفہ سنانے کی”
نیہا نے اسکی کلاس لی تھی
” میں نے انس کو تو کچھ نہیں کہا …..”
ماوی نے انجان بن کے کہا
” کہنا بھی مت….اور تم بھی کچھ کچھ مجھے سمجھ میں آرہی ہو…..”
نیہا نے کمر پہ ہاتھ رکھ کے کہا تھا
” ایویں خواہ مخواہ ….ایسے بھی کونسے سرخاب کے پرلگے ہیں تمہارے بھائی میں….اگر ہنسنا نہیں ہے تو باتیں بھی تو مت سناؤ…” ماوی چڑ گئی تھی
” پچھلے جنم میں تم یقینا شاہی مسخری رہی ہوگی….” نیہا نے اس سے بدلہ لیا تھا
"واٹ….میں مسخری…” ماوی کو تو صدمہ ہی لگ گیا تھا
” اوہو….چپ کرو تم دونوں …کیا بچوں کی طرح لڑ رہی ہو…ماوی جاؤ صبح کیلئے تیاری کرو یونی کی ….پھر صبح تم نے ایک بار پھر رولا ڈالنا ہے”
مہرماہ کو شور بالکل پسند نہیں تھا….وہ ہنگاموں سے دور بھاگنے والی لڑکی تھی
یہ جانے بغیر کہ آئندہ اسکی زندگی میں کتنے ہنگامے کھڑے ہونے والے تھے
_____________________________________
وہ کچن میں پانی پینے آئی تھی پی کے واپس نکل ہی رہی تھی جب انس اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا
ماوی اسے دیکھ کے رک گئی تھی …انس دونوں ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں ڈالتا ہوا اسکی طرف آیا تھا آرام سے ماوی ساکت سی اسے دیکھتی رہی تھی اس پل نجانے اسکی عقل کہاں سوگئی تھی
انس اس کے پاس آکے کھڑا ہوگیا تھا نظریں اب تک اس پہ جمی ہی ہوئیں تھیں ماوی پزل ہونے لگی تھی انس بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہا تھا….سیدھا دل میں اترنے والی نظر
” کک…کچھ چاہئیے آپکو….” ماوی بکھرے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولی تھی ……
” ایسا کیوں لگ رہا ہے مجھے کہ….تمہیں کچھ چاہئیے ….کچھ لینے آئی ہو تم یہاں….”
انس اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا تھا
” مم….میں…مجھے بھلا کیا چاہئیے….” ماوی نے سوکھے لبوں پہ زبان پھیری
ابھی تو اس نے پانی پیا تھا لیکن انس کی رعب بھری شخصیت دیکھ کے اسکا حلق خشک ہورہا تھا
” کم ان ….مجھ سے مت چھپاؤ….مجھ سے بھی چھپاؤ گی ….ہاں…بتاؤ کیا چاہئیے تمہیں….”
انس نے اسکی کلائی تھامتے ہوئے کہا تھا
ماوی کو ایک دم ہی معاملے کی سنگینی محسوس ہوئی تھی
انس کو کیا ہوا تھا ….
” آپ یہ کیا کررہے ہیں….انس….مجھے کچھ نہیں چاہئیے….میں تو بس…” ماوی کی طراری نہ جانے کہاں گم ہوگئی تھی
” کیا میں تو بس….چلو ماوی ڈئیر میں تمہیں بتاتا ہوں ….تمہیں کیا چاہئیے….”
انس نے اسکی لانبی انگلیوں والا مخروطی ہاتھ تھامتے ہوئے اسکی نازک ہتھیلی اپنی چوڑی ہتھیلی پہ پھیلائی تھی
” انس….کیا ہوگیا ہے….یہ کیا کررہے ہیں…” ماوی رو پڑی تھی
” تمہیں جو چاہئیے نا….ماوی….جس کے پیچھے پاگل ہونا تم ….جس کیلئے تم اپنا شہر چھوڑ کے یہاں تک آئی ہو وہ تمہیں کہیں نہیں ملے گا کبھی بھی نہیں….تم ناشاد رہوگی ….ہمیشہ غمزدہ رہوگی….تمہارا دل ہمیشہ خالی رہے گا….بالکل میری طرح”
انس نے آخری جملہ سرگوشی میں کہا تھا ماوی سن ہی نہ پائی تھی
انس وہ انس تو لگ ہی نہیں رہا تھا جو وہ تھا یہ تو کوئی اور ہی انس تھا جس میں کسی کو کھو دینے والی کیفیت عروج پہ تھی ….کسی کو کھو دینے کے بعد والی وحشت انس میں جھلک رہی تھی
اور کوئی کیا جانے ….!!!!
بھلا انس نے کیا کھویا تھا….!!!!
اور دکھ تو اس بات کا تھا….!!!!!
انس اپنی محبت کا ماتم خاموش رہ کے ہی کررہا تھا!!!!!
کہ کسی کا بھرم مقصود تھا
مگر اس وقت لپیٹے میں ماوی آگئی تھی ….زبان کے جوہر کچھ نہ کچھ تو اثر دکھاتے ہی ہیں
انس نے ماوی کا ہاتھ جھٹکے سے چھوڑ دیا تھا ماوی یک دم لڑکھڑائی تھی پھر وہاں سے فورا بھاگی تھی
” یہ انس کا کونسا انداز تھا….میرے مالک…” وہ نرم خو انس کہاں رہ گیا تھا
ماوی کے جانے کے بعد انس نے اپنی چوڑی ہتھیلی پھیلا کے سامنے کی تھی…..شاید مہرماہ کو اپنے ہاتھ کی لکیروں میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی
” محبت مرگ کی صورت
اتر رہی ہے لمحہ لمحہ
میرے وجود کے اندر”
_____________________________________
” نیہا دروازہ بج رہا کب سے کھول بھی چکو….” مہرماہ نے کچن سے آواز لگائی تھی
” ایک تو یہ چوکیدار ہر کسی کو اندر گھسا لیتا ہے….اور پھر وہ آکے دروازہ بجاتے رہتے ہیں”
نیہا بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کھولنے اٹھی تھی
اتنا اچھا سین آرہا تھا
اور دروازہ کھل کے نیہا کے چودہ طبق روشن ہوئے تھے
ہالار جاذب دو اجنبی صورتیں لئے ساتھ دروازے پہ موجود تھا
” آپ….اور یہاں…” نیہا نے فورا دوپٹہ سر پہ ٹکایا تھا
” جی میں….کیا اجازت ہے” ہالار نے متبسم لہجے میں کہا
” جی آئیں نا…” نیہا نے الجھ کے کہا
ہالار کی ایسے آنے کی کیا تک تھی
” ماہ….ماہ…وہ ہالار جاذب آئیں ہیں ….اپنے گھر والوں کے ساتھ ” نیہا نے اسے فورا مطلع کیا تھا
” کیا….مگر کیوں…” ماہ حیران ہوئی تھی
"مجھے لگتا ہے ماہ….تمہاری خاموش محبت کو زبان مل گئی ہے وہ تمہارا رشتہ لینے آئیں ہیں….انکے ملازم بڑے بڑے ٹوکرے اتار رہے تھے”
نیہا نے تکا لگایا تھا
مہر ماہ یک دم ساکت ہوئی تھی….کیا اسکا نصیب اتنا زورآور تھا کہ اسے میر ہالار جاذب کی ہم سفری ملے….
"میں اماں…بابا کو بلاتی ہوں ابھی” نیہا باہر بھاگی تھی
_____________________________________
سفیر صاحب یک دم سن ہوکے رہ گئے تھے اپنی طرف سے جو باب انہوں نے آج سے تئیس برس پہلے بند کیا تھا وہ آج پھر کھل گیا تھا
ماضی زندہ ہوگیا تھا
وہ وقت آگیا تھا جس کے ڈر سے سفیر صاحب نے اپنا شہر چھوڑا تھا
” پہچان تو لیا ہوگا نا ہمیں….” میر برفت کا لہجہ سپاٹ سا تھا
” جی ….تشریف رکھیں…” سفیر صاحب ایک ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئے تھے
یہ تو ہونا ہی تھا ….اب جو بھی ہو …..
” ٹھیک رہے اتنے برس سفیر….” میر برفت کا لہجہ نارمل تھا
” جی….آپکی طرف سب خیریت ہے” سفیر صاحب کو سب سے زیادہ حیرت ہورہی تھی انکے نارمل ہونے پہ
” ہمیں سمیہ کا پتہ چلا بہت افسوس ہوا سفیر….”
میر جاذب نے باقاعدہ گفتگو شروع کی
” بس اللّه کی مرضی” سفیر صاحب بھی اداس ہوئے
” مہرماہ ٹھیک ہے….” میر جاذب نے پوچھا
” اسے بلاؤ….ہم ملنا چاہتے ہیں” میر برفت نے بے صبری سے کہا
” وہ ٹھیک ہے….مگر اسے ایک دم کیسے ….مطلب یہ سب اس کیلئے بہت اچانک ہوگا….وہ نہیں جانتی اس سب کے بارے میں” سفیر صاحب الجھے عالیہ بھی شاکڈ تھیں ان لوگوں کو دیکھ کے
” تم نے کبھی ہمارا تذکرہ نہیں کیا سفیر…..”
میر برفت ناگواری سے بولے
” اسکی ماں یہ نہیں چاہتی تھی کہ ماضی کی کوئی بات بھی دہرائی جائے”
عالیہ نے کہا
” کوئی بات نہیں….مہرماہ اب بچی نہیں ہے اچھی خاصی سمجھدار ہے وہ ہینڈل کرلے گی آپ اسے بلائیں….” میر جاذب نے کہا
ظاہر ہے تئیس برس کی لڑکی تھی وہ تین برس کی نہیں
” مہرماہ …..ڈرائنگ روم میں آؤ…..” عالیہ اسکے پاس آکے سنجیدگی سے بولیں تھیں
” میں….” مہرماہ نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا
” ہاں…زرا جلدی….” عالیہ کہہ کے پلٹ گئیں تھیں
” اوہ اب تو پکا وہ تمہارا رشتہ لینے آئیں ہیں….اب تمہارا بردکھوا ہے ماہ بی بی جائیے جائیے….آپکی سسرال سے لوگ آئیں ہیں”
نیہا نے اسے تنگ کیا تھا
” بد تمیز….” ماہ نے اسے ایک دھپ لگائی تھی
مہرماہ کے دل کی دھڑکنوں کا کیا پوچھنا تھا بھلا
مہرماہ سر اٹھائے پلکیں جھکائے اندر داخل ہوئی تھی
” السلام علیکم…..” مہرماہ نے دھیمے سروں میں سلام کیا
” وعلیکم السلام…آؤ یہاں آؤ بیٹی ہمارے پاس” میر برفت نے اسے اپنے پاس بلایا
انکی لہجے کی بے قراری نے ماہ کو چونکا دیا تھا
وہ سفیر صاحب کی طرف دیکھنے لگی تھی
"جاؤ مہری….وہ تمہارے دادا اور یہ تمہارے تایا….اور یہ تمہارے کزن میر ہالار جاذب ہیں….”
کیا….مہرماہ کو لگا وہ پاگل ہوگئی ہے اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کے باری باری سب کو دیکھا تھا
” پر آپ نے تو….”
” ہاں وہ اس وقت کا تقاضہ تھا ….لیکن اب وقت کا تقاضہ یہ ہے….مہرماہ جاؤ دادا کا پیار لو….”
سفیر صاحب نے کہا تو ماہ چپ چاپ انکی طرف بڑھی تھی
” اس کا بھی کوئی تھا….!!!!!”
کتنا خوش کن تھا یہ احساس
_____________________________________
میر برفت نے کتنی دیر اسے پیار کیا تھااتنے سال وہ ان سے دور رہی تھی جیسے برسوں کا پیار اسے دینے کو وہ بے تاب تھے
میر جاذب میں اسے اپنے بابا کا عکس دکھا تھا…..اگر اسکے بابا ہوتے تو شاید اس سے اتنا ہی پیار کرتےمہرماہ کو اپنا وجود آج کسی شہزادی کی طرح لگا تھا جسے اسے کھویا ہوا سب مل گیا ہو …..اسے یہ سب محبت بہت اچھی لگ رہی تھی
” میرے خیال سے اب کچھ باتیں اور بھی ہوجائیں…..” میر جاذب گلا کھنکھار کے بولے تھے تو نیہا چونک گئی تھی
وہ بے چاری کب سے دروازے کے پاس کھڑی حیران ہو ہو کے مررہی تھی
” لو یہ تو ماہ کا کزن ہے…..مطلب منزل آسان ہوگئی ماہ تمہاری….”
نیہا نے ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں میں وزن منتقل کیا
کھڑے کھڑے تھک گئی تھی
میر جاذب نے ہالار کے اشارے پہ بات کرنی شروع کی تھی
” یہ یقینا….اب ماہ کو مانگیں گے ہالار کیلئے…. واؤ….” نیہا نے خوشی سے آنکھیں میچیں
"آپکی اجازت سے بابا…..” میر جاذب بابا کو دیکھ کے بولے
میر برفت نے سر ہلادیا تھا
” سفیر….اسے تقدیر کا چکر سمجھو یا رضا مگر سچ تو یہ ہے کہ تقدیر خود بھی یہی چاہتی ہے کہ ہمارے درمیان رشتے قائم رہیں….”
میر جاذب نے تمہید باندھی
” آپ کہنا کیا چاہتے ہیں جاذب بھائی…..کھل کے کہیں… ” سفیر صاحب نے انہیں اطمینان سے بات کرنے کو کہا
” سفیر بھائی….ہم مکمل رضامندی اور انتہائی احترام سے آپکی بیٹی نیہا کا ہاتھ اپنے بیٹے ہالار کیلئے مانگتے ہیں”
میر جاذب نے دھماکہ کیا تھا
باہر کھڑی نیہا کو لگا جیسے پورے سفیر ہاؤس کی چھت اسکے سر پہ گری ہو ………وہ اپنی جگہ سے ہل کے رہ گئی تھی