“تجھے پتا ہے
لوگ جل جل کر کالے ہو رہے ہیں
میری بیٹی کے نصیب سے”
“اماں اور کام بھی کیا ہے لوگوں کو”
کنول نے گویا ناک پر سے مکھی اڑائی تھی
اسے کوئی انٹرسٹ نہیں تھا لوگوں کے جلنے کڑھنے میں
مگر اس کی ماں بڑی روائتی سی عورت تھی
اسے بڑا سکون ملا تھا اپنی نند جیٹھانی دیورانی وغیرہ کی جلن دیکھ کر
“وہ نمرہ کو دیکھا تھا کیسے دیکھ رہی تھی تجھے ولیمے والے دن ؟
اپنی نظر اتارنی چاہیے تجھے کنول
صدقہ دینا اپنا”
اس کی اماں کو خدشات لاحق ہوئے
“جی اچھا”
کنول مسکراتے ہوئے بولی
اسے اپنی ماں پر پیار آنے لگا تھا
“آنٹی”
ربان گیلری میں بیٹھا اپنا کچھ ضروری کام کر رہا تھا اور اسے لائونج سے آنے والی کنول کی اماں کی آواز ڈسٹرب کر رہی تھی
جب ہی وہ جھنجلاتا ہوا ان کے سر پر پہنچا تھا
“آنٹی کیوں بیٹا
ماں صدقے
اماں کہا کر توُ مجھے کنول کی طرح”
کنول کی سادی سی اماں ربان کے ماتھے کی تیوریاں نظر انداز کرتے ہوئے پیار سے بولی تھیں
لیکن کنول کو بہت محسوس ہو رہا تھا ربان کا بد لحاظ انداز
“آپ کو اماں کہا کروں میں
واٹ ایور
آپ بول بہت رہی ہیں اماں
بہت شور کر رہی ہیں آپ؟”
ربان کا لہجہ مزاق اڑانے والا تھا
“اماں موسم اچھا ہو رہا ہے لان میں چلیے آپ میرے ساتھ”
کنول نے ناگواری سے ربان عباد کو دیکھتے ہوئے اماں سے کہا تھا اور پھر انہیں ساتھ لے کر لان میں آ گئی
“تیرے میاں کو اچھا نہیں لگتا ہے نا میرا یہاں آنا
میں کیا کرتی
خوش ہی اتنی ہوں
تجھے اس بڑے سے گھر میں راج کرتا دیکھنا بڑا اچھا لگتا ہے
بڑی ہمت آ جاتی ہے میرے میں تجھے عیش کرتا دیکھ کر
مگر آئندہ میں خیال رکھوں گی
تیرا ابا بھی مجھے منح کرتا ہے روز روز بیٹی کے گھر جانا اچھی بات نہیں
پھر بھی میں نمانی تجھے دیکھنے کو آجاتی ہوں”
اپنی اماں کا شرمندہ انداز کنول کو دکھ دے رہا تھا
جب ہی وہ بولی
“اماں یہ آپ کی بیٹی کا گھر ہے
آپ جب چاہے یہاں آئیں
کوئی نہیں روک سکتا آپ کو
ربان سر بھی نہیں”
“نا میری بیٹی
یہ اچھی بات نہیں ہے واقعی
اور توُ مجھے یہ بتا اپنے میاں کو سر کیوں کہتی ہے اب بھی ؟”
کنول اس سوال پر گھبرا گئی تھی
“وہ عادت ہے نا پہلے کی تو”
“ایسی فضول عادت چھوڑ دے
تجھے خود عجیب نہیں لگتا میاں کو سر کہنا؟”
اب کنول کیا کہتی جواب میں اماں سے
ایسے تعلقات ہی نہیں تھے ربان عباد سے کہ طرز مخاطب بدلنے کا خیال آتا
“ممی ممی”
جان اور وانی اسکول سے لوٹے تھے
ان کی گاڑی ابھی گھر میں داخل ہی ہو رہی تھی مگر وہ دونوں کنول کو لان میں ہی بیٹھا دیکھ چکے تھے جب ہی گاڑی میں ہی بیٹھے بیٹھے چلانا شروع کر دیا
کنول نے سکھ کی سانس لی تھی
اماں کو جواب دینے سے بچ گئی تھی وہ
🍁🍁🍁
“آپ کو میری اماں سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے تھی”
ربان کلب سے لوٹا تھا اور اپنے کمرے میں کوٹ اتار رہا تھا جب کنول اس کے کمرے میں آئی تھی اور غصے میں بولی تھی
“میں نے تم سے کہا تھا تم مجھ سے کسی سوال جواب کا حق نہیں رکھتیں”
ربان بھی اس کے غصیلے انداز پر غصے میں آ گیا تھا
“آپ اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا لیں مجھے کوئی شوق نہیں آپ سے مخاطب ہونے کا
نا سوال کرنے کا نا جواب دینے کا
آپ نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے مجھ سے
کوئی بھی غلط فہمی ہے آپ کو
آپ اس کا بدلہ مجھ سے لیا کریں
میرے اماں ابا کی انسلٹ کا حق میں نہیں دوں گی آپ کو”
اب کی بار کنول بہت تمیز سے بولی تھی مگر اس انداز کی سرد مہری نے ربان کا پارہ ہائی کیا تھا
“اب تم مجھے ایسے اپنی طرف ٹریکٹ کرنے کی کوشش کرو گی ؟
بیزاری جتا کر ؟”
کنول جو اپنی کہہ کر کمرے سے نکل رہی تھی اس کی بات پر حیران سی ہو کر واپس ربان کی طرف پلٹی
“آپ کے دماغ کا کوئی اسکرو ڈھیلا ہے کیا؟
ہر بات کا الگ مطلب لیتے ہیں
اگنور نا کروں تو بھی پرابلم
اگنور کروں تو بھی پرابلم
ہے کیا آپ کے پاس جو میں آپ کو اٹریکٹ کرنے کی کوشش کروں گی”
ربان عباد کنول کے بیزار سے انداز پر صدمے میں چلا گیا تھا
جب ہی کچھ دیر گھور کر بولا
“کیا ہے جو نہیں ہے میرے پاس”
“دماغ نہیں ہے آپ کے پاس
اور اب آپ میرے دماغ کے بھی دشمن ہو رہے ہیں”
سکون سے کہہ کر کنول تتلی کی طرح اڑتی ہوئی جان وانی کے کمرے میں پہنچی تھی
جہاں جان اور وانی اس سے کہانی سننے کے لیئے بیقرار تھے
کنول کو بہت مزہ آتا تھا
عزت کے ساتھ ربان عباد کو منہ توڑ جواب دینے میں
🍁🍁🍁
“سلی وومین”
ربان کنول کی باتوں کو سوچ سوچ کر کڑھ رہا تھا
وہ ایک عام سی غریب گھر کی لڑکی سے ایسے جوابات کی توقح نہیں کر رہا تھا
ان کی شادی ہوئے ڈھائی مہینہ ہونے کو تھا
ان ڈھائی مہینوں میں جب بھی ربان نے کنول کی انسلٹ کرنے کی کوشش کی تھی منہ کی کھانی پڑی تھی
مگر ایک بات تھی جو ربان عباد کو مطمئین کر رہی تھی
وہ تھی کنول کی بچوں سے محبت
“چاہے ڈرامہ ہی سہی
میرے بچوں کا خیال تو رکھ رہی ہے”
ان ہی باتوں کو سوچتا وہ کافی بنانے کے خیال سے کمرے سے نکلا تھا
🍁🍁🍁
“تم یہاں کیا کر رہی ہو؟”
ربان اسے پہلے سے کچن میں دیکھ کر چونک گیا
“صبح کے لیئے آٹا گوندھ رہی ہوں
مشکل ہوتا ہے صبح صبح اتنے کام کرنا”
“یو نو واٹ ؟
بہت ہی مڈل کلاس عورتوں والی عادتیں ہیں تمہاری
جو ان دو ماہ میں بھی تمہارا ہیچھا نہیں چھوڑ سکیں”
“انسان کو اپنی اوقات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے”
کنول نے شانے اچکا کر لاپرواہی سے جواب دیا
“یہ تو بلکل ٹھیک بات کہی تم نے
اپنی اوقات یاد رکھو تم تو اچھا ہے”
“اور آپ بھی”
کافی پھینٹتے ربان کے ہاتھ رک گئے تھے
اس نے گھور کنول کو دیکھا
“کیا مطلب میں بھی ؟”
“مطلب سیدھا ہے
آپ مجھے بیوی نہیں سمجھتے تو برائے مہربانی مجھ پر شوہروں والا رعب مت جھاڑا کریں
مجھے آپ سے سوال جواب کا کوئی حق نہیں لیکن آپ کو مجھ پر روک ٹوک کا حق ہے”
“کون سے روک ٹوک کی ہے میں نے؟”
“میری اماں سے بدتمیزی سے بات کیوں کی آپ نے”
“کیونکہ مجھے روز روز ان کا یہاں آنا پسند نہیں ہے”
کنول کو اس کی بے مروتی کھلنے لگی تھی
کوفت زدہ سی ہو کر وہ ربان کو دل میں بدتمیز کا خطاب دیتی ہوئی اپنا کام جلدی جلدی نبٹا کر کچن سے نکل گئی تھی
“سلی وومین”
کنول کی پشت کو ناگواری سے گھورتے ہوئے وہ پھر کافی کی طرف متوجہ ہو گیا
🍁🍁🍁