وہ سر کے نیچے ہاتھ رکھے آرام کرسی پر نیم دراز تھا۔ چند دن پہلے کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔
اکثر و بیشتر اسے آرٹ اسکولز اور گیلریز کی طرف سے دعوت نامے موصول ہوتے رہتے تھے۔ لیکن اس دن اسے فنانس کرنے والی کمپنی کی طرف سے وہ آرٹ اسکول کا دورہ کرنےگیا تھا۔ نئے چہروں کے درمیان وہ گلابی اسکارف والی لڑکی بہت اشتیاق سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اور شامی اس کے چہرے کو دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔ اسے پہلی بار دیکھتے ہی شامی کو اس پر شناسائی کا گمان ہوا تھا۔ وہ جان بوجھ کر اس کے پاس رکا تھا۔ اسے قریب سے دیکھنے کے لیے۔
اور تب اسے احساس ہوا۔ اس کے چہرے میں عشال کا چہرہ بہت نمایاں تھا۔ وہ یقینا عشال کی بہن تھی۔
پل کے پل شامی کے ذہن نے ساری معروضیات حل کی تھیں۔ اور کھڑے کھڑے ہی شامی کے ذہن نے سارے تانے بانے بن لیے تھے۔
“میں تمہیں جہنم رسید کر دوں گا۔”
شہیر کے الفاظ اس کی سماعتوں میں گونجیں۔
lets see!”
وہ کچھ سوچ کر مسکرا دیا۔
____________________________________
تیز چمکیلی روشنیاں ماحول کو رنگین بنارہی تھیں۔ لیکن شہیر کا ذہن آبریش کی طرف ہی اٹکا ہوا تھا۔ شہیر اسے لے کر سیدھا گھر گیا تھا۔ اسے آبریش سے بات کرنی تھی۔ اور وہ نہیں چاہتا تھا۔ شادی والے گھر میں کوئی تماشا ہو۔ اس نے لاؤنج کے صوفے پر آبریش کو پخا تھا۔
“کہاں گئی تھیں اس گھٹیا شخص کے ساتھ؟ بولو آبریش؟”
شہیر پہلی بار اس پر چیخ رہا تھا۔ آبریش نے شہیر کو اس سے پہلے کبھی اس طرح غصے میں نہیں دیکھا تھا۔
“مم۔۔۔ میں کام سے گی تھی۔بھائی! میں نے کچھ غلط نہیں کیا!”
آبریش بمشکل کہہ پائی تھی۔
“غلط۔ اور کیا ہوتا ہے آبریش؟ تم نے ہم سب سے جھوٹ بولا۔ ایک غیر شخص کے ساتھ گھر کی دہلیز پار کی۔ کیوں گئی تھیں تم اس نیچ انسان کے ساتھ؟ تم نے ہمارا مان۔ اعتبار ۔ بھروسہ کرچی کرچی کردیا ہے۔ جانتی بھی ہو وہ شخص ہے کیا؟ بھیڑیا ہے وہ!”
“ایسا نہیں ہے بھائی! ہم وہاں صرف کام کررہے تھے۔”
“کام؟ وہ شخص منہ لگانے کے لائق نہیں ہے۔ جانتی ہو۔ وہ عشال کی ہم سب کی بربادی کی وجہ ہے۔ اور تم اس کے ساتھ۔۔۔۔ ربش!”
شہیر بمشکل اپنے اٹھتے ہوئے ہاتھ روک رہا تھا۔
“آج کے بعد تم کالج اکیلی نہیں جاؤ گی۔میں جاؤں گا تمہارے ساتھ۔”
“آ۔۔۔آپ کو مجھ پر پابندیاں لگانے کا کوئی حق نہیں ہے۔”
آبریش شہیر سے خائف ضرور تھی۔ لیکن اسے شہیر کا ردعمل انتہاپسندی لگ رہا تھا۔
“کیاکہا تم نے؟ میں کیا کرسکتا ہوں۔۔۔ اس کاتمہیں ابھی اندازہ نہیں ہے۔ لیکن ٹھیک ہے۔ یونہی سہی۔ اب تم سے بابا ہی بات کریں گے۔ لیکن کان کھول کرسن لو۔ میں شادی میں کسی قسم کا تماشا نہیں چاہتا۔ اس لیے اپنی زبان بند رکھنا۔ ورنہ نقصان تمہارا ہی ہوگا۔
اور اسے چھوڑ کر لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔ وہ آبریش کا چہرہ دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔
تقریب اپنے عروج پر تھی۔ نورین کی نظریں عشال کو تلاش کررہی تھیں۔ مگر وہ دوبارہ اسے نظر نہیں آئی تھی۔ یا وہ دانستہ اسے نظرانداز کررہی تھی۔ رخصتی کا وقت بھی آپنچا۔ نورین کو ایک طرف سے سطوت آراء نے تھام رکھا تھا۔ اور دوسری طرف سے اس کی بڑی نند فہمیدہ آپا نے۔ یہاں تک کہ وہ کار تک پہنچ گئی۔ ایک آخری مایوس نگاہ اپنے پیچھے ڈالی عشال کی تلاش میں لیکن اس کے حصے میں مایوسی ہی آئی۔
اور پھر جب وہ کار میں سوار ہونا چاہتی تھی۔ عشال مجمع سے نکل کر اچانک اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
“مجھے چھوڑ کر کیسے جاسکتی ہو تم؟”
عشال کی سرگوشی نورین کی سماعت میں ابھری۔
“آئی ایم سوری عشال! سو سوری!”
نورین کے لیے خود پر بند باندھنا مشکل ہوگیا تھا۔ جبکہ مرتضی صاحب اس منظر کو بہت بیزاری سے دیکھ رہے تھے۔
“اچھا بس بس! بہت ہوگیا۔ نورین بیٹا سب لیٹ ہورہے ہیں۔”
مرتضی صاحب نے اس قدر جذباتیت دکھانے پر ہلکا سا گھرکا تھا۔
“ہمیشہ خوش رہو! میں تمہارے لیے دعا کروں گی۔”
عشال نے ایک آخری بار اسے گلے سے لگایاتھا۔ یکدم نورین کو اپنا آپ بہت ہلکا پھلکا سا لگنے لگا تھا۔ اور جاتے جاتے مڑ کر عشال کو تشکرانہ نظروں سے دیکھا تھا۔
آج اس کہانی سے ایک کردار اپنے پیچھے بہت سے رنگ چھوڑ کر جدا ہوگیا تھا۔
عشال بھیگی آنکھوں سے اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔
____________________________________
“آبریش کی آنکھیں نیر بہارہی تھیں۔ اسے شہیر سے اس رویے کی توقع نہیں تھی۔ اسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
“کون؟”
آبریش نے فوری خود کو سنبھالا تھا۔
“شہیر!”
شہیر نے باہر سے ہی جواب دیا۔
آجائیں!”
کہہ کر اوندھے منہ پڑ گئی تھی۔ شہیر سے خفگی کا احساس ایک بار پھر زوروشور سے جاگ اٹھا تھا۔
“ایک دوسرے کے لیے دل میں گلے شکوے رکھنے سے یہ بہتر نہیں کہ ہم بات کرلیں؟”
شہیر نے حتی الامکان لہجے کو نارمل ہی رکھا تھا۔ اگرچہ وہ آبریش سے سخت خفا تھا۔ اس نے حرکت ہی ایسی کی تھی۔ لیکن اس معاملے کو وہ جذباتی ہوکر خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“اور بھی کچھ کہنا باقی رہ گیا ہے تو کہہ دیں۔ کرلیں شوق پورا۔ میں سن رہی ہوں۔”
آبریش اٹھ بیٹھی تھی مگر شہیر کی طرف سے رخ موڑے تکیہ گود میں رکھ لیا تھا۔ شہیر نے بغور اسے دیکھا۔ جو چہرے پر ہٹ دھرمی سجائے بیٹھی تھی۔ شہیر نے خود کو سنبھالا اور نرمی سے بولا۔
“سوری! مجھے غصہ آگیا تھا۔ تم نہیں جانتیں آبریش اس شخص کے ساتھ تمہیں دیکھ کر میں کتنا ڈر گیا تھا۔”
“سوری؟ آپ جانتے ہیں؟ آپ نے کتنا مس بی ہیو کیا میرے ساتھ؟ ایک بار میری بات تو سن لیتے۔ لیکن نہیں آپ کی غیرت جو ابل رہی تھی۔ سچ بتائیے آپ می اور ان جاہل مردوں میں کیا فرق رہ گیا جو اپنی عورتوں کو سوکالڈ غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ہیں؟”
آبریش ایک دم سیدھی ہو بیٹھی اور کب کا بھرا ہوا غصہ شہیر پر انڈیل دیا۔ شہیر نے بدقت ضبط کیا۔
“ٹھیک ہے۔ میں نے غلط کیا۔ لیکن تم جانتی ہو وہ شخص ہے کیا؟ کوئی بھی شریف لڑکی اسے منہ لگانا پسند نہیں کرے گی۔ اور تم سارا دن اس کے ساتھ گزار آئیں۔ کیا میرا اتنا جاننے کا حق بھی نہیں کہ تمہیں جھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟”
اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہیں۔ میری جائز بات کو بھی ہمیشہ تنگ نظری سے دیکھا گیا۔ مجھے اس کے ساتھ ایک کنسائمنٹ مکمل کرنا ہے۔ اسی سلسلےمیں اس کے ساتھ اسکے اسٹوڈیو تک گئی تھی۔ میں وہاں کام کی غرض سے گئی تھی۔ اس کے پرسنل میٹرز سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں۔
بھائی وہ بہت بڑا آرٹسٹ ہے۔ آپ نہیں جانتے اس کے ساتھ کام کرنے سے مجھے کتنا فائدہ ہوگا۔ پورے کالج میں سے اس نے صرف مجھے کنسرن کیا ہے۔ ایسے چانس بار بار نہیں ملتے۔ میں کیسے یہ مس کردوں؟”
وہ روہانسی ہوکر بولی۔جیسے اس کی بات سمجھنے والوں کا دنیا میں کال پڑ گیا تھا۔
شہیر نے بغور اسے دیکھا اور بولا۔
“وہ شخص اس قابل نہیں ہے کہ اس کے ساتھ کام کیا جائے۔ تمہیں اگر کچھ مسئلہ ہے تو میں خود تمہارے لیے کسی اچھے آرٹسٹ کا بندوبست کردوں گا۔ اور فی الحال یہ بات تمہارے اور میرے درمیان ہی رہے گی۔ لیکن آج کے بعد تم اس شخص سے کوئی رابطہ نہیں رکھو گی۔ تمہیں مجھے یقین دلانا ہوگا۔ کالج تم میرے ساتھ جاوگی۔ اور چھٹی تک میں وہیں تمہارا انتظار کروں گا۔”
شہر نے اسے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
“آپ مجھ پر شک کررہے ہیں۔”
آبریش نے شہیر گلہ آمیز لہجے میں کہا۔
“اپنی کریڈیبلیٹی تم نے خود خراب کی ہے۔ لیکن پھر بھی میں تم پر آخری بار اعتبار کررہا ہوں۔ اور ماما بابا سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کررہا۔”
اتناکہہ کر وہ جانے کے لیے اٹھ گیا۔
لیکن ایک بار تو اسے اے۔زی سے بات کرنی تھی۔ آخر اس نے اپنی حقیقت کیوں چھپائی تھی؟
آبریش منہ بسور کر لیٹ گئی۔
_____________________________________
رات کا آخری پہر اختتام کو تھا۔ عشال کی آنکھیں بہہ رہی تھیں۔ اور ان آنسوؤں میں اسے اپنے رویے کی بدصورتی واضح دکھائی دے رہی تھی۔
“میں نے تمہیں مسکراتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور نہ روتے ہوئے۔ کبھی کبھی انسان کو رو لینا چاہیے۔ عشال! آنسو دل کے دھویں کو دھو کر اسے اضافی بوجھ سے نجات دلا دیتے ہیں۔ اور پھر دل کی زمین ہری بھری ہوکر انسان کی مسکراہٹ کو شفاف بنادیتی ہے۔ تب آئینے ہمارے رویوں کا عکس سنہرا کردیتا ہے۔
دل کی زمین کو آنسو نرم رکھتے ہیں۔ عشال! اگر مسکرا نہ سکو تو رولینا چاہیے۔”
ضیغم اس کے لفظ اسے ادراک کے نئے در تک چھوڑ گئے تھے۔ اور اب وہ اپنے آپ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی۔
“اف! کس قدر چھوٹی پڑگئی ہوں میں اپنی ہی نظر میں!”
عشال کے سینے سے خاموش سسکی ابھری۔
“ہم مانگنا چھوڑ دیتے ہیں لیکن وہ نوازنا نہیں چھوڑتا۔”
کیسی کاری ضربیں تھی۔ جو عشال کو چھلنی کررہی تھیں۔
“تو عشال زبرجرد یہ ہے تمہارا ظرف؟ تمہیں تو اللہ سے محبت کا دعوی تھا۔ کس قدر تکبر تھا تمہارے لہجے میں؟ اور ایک ذرا سی آزمائش نے تمہاری محبت کا پول کھول دیا۔
کیا فرق رہ گیا تم میں اور ابشام زبیر میں؟ تم نے اس سے کہا تھا۔ “یہ ہے تمہاری محبت؟” ذرا اپنے آپ پر ایک نگاہ ڈالو۔ تمہاری محبت کیا تھی؟ صرف اچھے وقت تک؟”
وہ رو رہی تھی اور خود سے سوال کررہی تھی۔
“اللہ! میں کیوں بہک گئی؟ سات سال۔۔۔ پورے سات سال موقع دیا اللہ نے اسے پلٹنے کا۔ مگر وہ بدنصیب تھی۔ جو ایک بار بھی اس کی آواز پر لبیک نہیں کہا۔
“کاش!کہ وقت پلٹ جائے۔ اور وہ اپنے محبوب کا در پکڑ کر اسے منالے۔۔۔۔کیسی بدنصیبی متخب کی تھی اس نے۔ اللہ کہتا رہا۔
“دوڑ پڑو حرم اللہ کی طرف۔” اور وہ اپنے دکھوں کا ذمہ دار اللہ کو ٹھہراتی رہی۔ ایک بار پھر وقت اسے ماضی میں لے گیا۔ جہاں یادوں کے دریچے سے آغاجان کے لفظ جھانک رہے تھے۔
“قرآن ایک خزانہ ہے۔ ایک ایسا خزانہ جو اپنے اندر کئی اور خزانے سمیٹے ہوئے ہے۔ جس میں سے ہر ایک اپنے ظرف اور صلاحیت کے مطابق جو چاہتا ہے نکال لیتا ہے۔ کچھ اس میں سے علم لے لیتے ہیں۔ کچھ لفظ۔ کچھ شفا اور کچھ کے لیے یہ محض زبان کا چٹخارہ رہ جاتا ہے۔ اور یہ قرآن کا ظرف ہے کہ وہ کسی کو مایوس نہیں لوٹاتا۔ دل کا درد جب بڑھ جائے اور کوئی ہمنوا نہ پاؤ تو اس سے ہم کلام ہونا۔ یہ تمہیں بھ مایوس نہیں کرے گا۔”
عشال نے آہستہ سے قرآن کو کھولا۔ اور سورہ توبہ کے لفظ اسے اپنی طرف کھینچنے لگے۔
“اور اللہ جس کی توبہ کو چاہتا ہے قبول کرلیتا ہے کہ وہ صاحب علم بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔”
اب عشال کی برداشت سے باہر تھا۔ وہ بےاختیار سجدے میں گر پڑی۔ اسے اپنے رب کی رحمانیت پر یقین آگیا تھا۔ کیا کیا نہ یاد آرہا تھا۔ اپنے گریبان میں جھانکا تو نورین کی غلطی بہت چھوٹی دکھائی دینے لگی تھی۔
وہ چند راتوں سے اس کا یہی معمول تھا۔ آنکھیں جب غفلت سے بیدار ہوجائیں تو دل ایسے ہی موم ہوجایا کرتے ہیں۔
____________________________________
“تم ٹھیک ہو؟ اس جنگلی نے تمہارے ساتھ کچھ برا تو نہیں کیا؟”
آبریش نے ابھی آنکھیں موندی ہی تھیں کہ اس کا سیل وائبریٹ کرنے لگا۔ اس نے سائیڈ سے سیل دیکھا۔ دوسری طرف اے۔زی کالنگ جگمگا رہا تھا۔
“کال کیوں کی ہے؟”
آبریش نے سیل کان سے لگا کر خفگی سے کہا۔
“میں جانتا ہوں اس نے تم سے کیا کہا ہوگا؟ یہی ناں کہ میں نے عشال کو کڈنیپ کیا تھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں میں نے کیا تھا۔۔۔۔مگر میں نے یہ کیوں کیا؟ یہ نہیں جاننا چاہو گی؟”
آبریش نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن یہ سوال ہی تو اسے شام سے الجھا رہا تھا۔ اور شامی کہہ رہا تھا۔
“ہر شخص کی ایک کہانی ہوتی ہے۔ تم نے صرف عشال کی طرف کی کہانی سنی ہے۔ مجھے بھی تو موقع دو۔ میری طرف کی کہانی کیا ہے؟ اگر تمہارا جواب ہاں ہے تو میں کل تمہارا انتظار کروں گا۔ ریسٹورنٹ میں!”
“ٹیک کئیر!”
اتنا کہہ کر شامی نے کال ختم کردی۔ اور آبریش پریشان تھی۔ کرے تو کیا کرے؟ انصاف کا تقاضا تھا۔ اے۔زی کو سنا جائے۔ اور شہیر تھا کہ ساری توپوں کے دہانے آبریش کی طرف موڑ چکا تھا۔
___________________________________
” میں عشال سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ میرے بڑے آپ ہی ہیں۔ میرے پاس کوئی اور ایسا رشتہ نہیں جو میری طرف سے یہ پیام دے سکے۔ اسی خود کہہ رہا ہوں۔ امید ہے آپ میری اس جسارت سے درگزر کریں گے۔”
ضیغم نے ضیاءالدین صاحب اور سطوت آراء کے روبرو اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ بات ان کے لیے کسی انکشاف سے کم نہیں تھی۔
“تم جانتے ہو کیا کہہ رہے ہو؟
ضیاءالدین صاحب نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“جی! پورے ہوش و حواس میں کہہ رہا ہوں۔ اور پورے دل سے کہہ رہا ہوں۔”
ضیغم نے طمانیت بھرے لہجے میں جواب دیا۔
“یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کسی کی بیوی رہ چکی ہے؟”
ضیاءالدین صاحب نے اے ٹٹولنا چاہا۔
“اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔چچاجان! میں نے عشال کو جتنا جانا ہے۔ وہی کافی ہے۔”
ضیغم کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔
ضیاءالدین صاحب نے ایک نظر سطوت آراء پر ڈالی۔ جن کا چہرہ اندرونی جذبات کی چمک سے تمتما اٹھا تھا۔ضیاءالدین صاحب نے ایک لمبا سانس کھینچا اور بولے۔
“اچھا طرح سوچ لو برخوردار! نکاح چند روز کی بات نہیں۔ یہ زندگی بھر کا سودا ہے۔ ایسا نہ ہو کل کو تم پچھتاؤ۔”
سطوت آراء کا چہرہ سپاٹ ہوگیا۔ انھیں شوہر کی یہ صاف گوئی پسند نہیں آئی تھی۔
“مجھے خود پر بھروسہ ہے چچاجان! اور عشال پر خود سے بھی زیادہ۔ آپ مجھے کمزور نہیں پائیں گے۔ ان شاءاللہ!”
ضیاءالدین صاحب نے گہرا ہنکارا بھرا اور ضیغم کے چہرے کو دیکھا۔
“ہم تمہاری قدر کرتے ہیں بیٹا۔ لیکن عشال کی رضامندی ضروری ہے۔ ہم ایک بار اس سے بات کر لیں پھر ہی کوئی جواب دے سکتے ہیں۔”
ضیاءالدین صاحب نے جیسے مجبوری ظاہر کی۔
“جی ضرور! مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”
ضیغم نے کہا۔
“لیکن مجھے ہے!”
عشال جو شام کی چائے لے کر آرہی تھی۔ ضیغم کی بات پر ٹھٹک کر رکی تھی۔ اور اب ایکدم سے سامنے آئی تھی۔ وہ اس قصے کو یہیں دفن کردینا چاہتی تھی۔
“میں تیسری بار بےپردہ نہیں ہونا چاہتی۔ اب لوگوں کی نظروں میں اپنے لیے سوال دیکھنے کی تاب نہیں ہے مجھ میں۔ بہتر ہے آپ اپنی زندگی کسی اور کے ساتھ بانٹ لیں۔ میں ایک طلاق یافتہ عورت ہوں۔ جس کے دامن پر تہمتوں کا کیچڑ ہے۔ اور یہ کیچڑ اچھالنے والا پہلا شخص وہی تھا۔ جس نے زندگی بھر ساتھ نبھانے کی دستاویز سائن کی تھی۔”
اتنا کہہ کر وہ لاونج کی سیڑھیاں تیزی سے پار کر گئی تھی۔
ضیغم نے زخمی آنکھوں سے اسے جاتا دیکھا تھا۔
“یہ کیسی آزمائش ہے میرے مولا! یہ میری طاقت سے زیادہ ہے۔”
عشال نے جاءنماز پر پناہ لی تھی۔ اور چہرہ زانؤوں میں ڈھانپ لیا تھا۔وہ کیسے بھول سکتی تھی ضیغم کا جواب۔۔۔۔!
آغا جان نے ضیغم سے کہا تھا۔
” غنائم کا تمہاری زندگی میں آنا ایک حادثہ ثابت ہوا۔ اب خود کو سزا مت دو۔ زندگی کی خوشیاں تمہاری منتظر ہیں۔ آگے بڑھو اور ایک بار پھر آغاز کرو۔ ہم تمہاری خواہش کا احترام کریں گے۔ اپنا گھر بسالو ضیغم! ورنہ تنہائی انسان کو مار دیتی ہے۔ اندر سے۔ اور ہم تمہیں مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔”
تب ضیغم نے کہا تھا۔
“کبھی کبھی ہم ایک لمحہ میں ساری زندگی جی لیتے ہیں۔ اور میں وہ لمحہ غنائم کے ساتھ جی چکا۔ اس دل پر اب کبھی آبیاری ہوپائے گی؟ میں نہیں جانتا۔”
“کیسے بتاوں ضیغم صاحب! میں بھی وہ لمحہ جی چکی ہوں۔ آپ کے بغیر، آپ کے ساتھ! اب یہ ظلم آپ پر نہیں کرسکتی۔”
اس نے ایک بار پھر سر جھکا دیا تھا۔
____________________________________
دوپہر سر اٹھارہی تھی۔ ایسے میں شہر کی مصروف شاہراہ پر قائم اس مشہور ریستورنت میں چہل پہل اور گہماگہمی ناپید تھی۔ چند ایک ٹیبلز پر کچھ لوگ موجد تھے۔ اور وہ بھی ایک دوسرے سے لاتعلق۔
ایسے میں شامی کار پارک کرکے تیزی سے پارکنگ سے نکل رہا تھا کہ ایک مضبوط جسم سے ٹکرا گیا۔
“سوری!”
کہہ کر اس نے جونہی بڑھنا چاہا۔ اس کے قدم جم کر رہ گئے۔
“پہچانا مجھے؟”
مقابل کے چہرے پر حیرت کا لمحاتی تاثر چمک کر ناگواری میں بدل گیا۔
“تمہیں پہچاننے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہٹو میرے راستے سے۔”
وہ شامی کو کراس کرکے آگے بڑھنا چاہا۔ مگر شامی نے اس کا راستہ روک لیا۔
“راستے میں تو تم آئے تھے۔ صارم برہان! عشال سے پہلے محبت میں نے کی تھی۔ مگر تم نے اسے اپنے نام لکھ ڈالا۔”
صارم مڑا اور سپاٹ لہجے میں بولا۔
“تو جاؤ اب اپنالو اسے۔ میں تمہارا راستہ چھوڑ چکا ہوں۔”
وہ رکنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن شامی کے الفاظ نے اس کے قدم جکڑ لیے۔
“ضرور اپنا لیتا! انفیکٹ میں نے کوشش بھی کی تھی۔ لیکن تم درمیان میں آگئے۔ مگر پہلے مجھے اپنی محبت کو تم سے آزاد کروانا تھا۔ اسی لیے تو اسے کڈنیپ کیا تھا۔”
صارم ایڑی کے بل گھوما اور سیکنڈ میں اس کیے مقابل آکھڑا ہوا۔
“کیا مطلب ہے تمہارا؟ تم نے اسے کڈنیپ کیا تھا؟”
شامی نے بےپروائی سے کندھے اچکائے۔ بے اختیار صارم کا ہاتھ اس کے گریبان پر پڑا۔
“تم اسے زبردستی وہاں سے لے گئے تھے؟”
شامی مسکرایا۔
“بدکردار ہوتی تو لوٹ کر تمہارے پاس نہ جاتی۔ میں تو آج بھی اس کے انتظار میں ہوں۔دو راتں اور ایک دن میرے ساتھ رہنے کے باوجود میں اس نے مجھے قریب نہیں آنے دیا۔ افسوس تو ہے کہ وہ میری نہ ہو سکی۔ مگر خوشی اس بات کی ہے کہ وہ تمہاری رہنے نہیں دی۔”
آخری بات اس نے بیچارگی سے کہی تھی۔ وہ اور بھی کچھ کہہ رہا تھا۔ لیکن صارم کے زبردست پنچ نے اس کے الفاظ راستے میں ہی اچک لیے۔
“یو باسٹرڈ! تم اس کے قابل ہی نہیں تھے۔!”
شامی درد سے بلبلا کر چلایا تھا۔ مگر صارم اسے نظرانداز کرکے اپنی کار میں بیٹھ چکا تھا۔
اس کی کنپٹی کی رگیں پھول رہی تھیں اور کان اچانک گرم ہوگئے تھے۔ شامی نے ٹھیک کہا تھا۔
“میں اس کے قابل ہی نہیں تھا۔”
صارم کے دماغ میں عشال کی دہائیاں ٹھوکریں مار رہی تھیں۔
“میں نے آپ کی امانت میں خیانت نہیں کی۔ صارم!”
صارم برہان کو آج اپنی بدنصیبی کا یقین ہوچکا تھا۔
__________________________________
“یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”
شہیر کو اپنی سماعت پر شک گزرا تھا۔
آپ کا مطلب ہے کہ ضیغم بھائی عشال سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟”
ضیاءالدین صاحب نے سوالیہ انداز میں سر اثبات میں ہلادیا۔ اس بات پر شہیر خوش ہے یا ناخوش وہ سمجھ نہیں پائے۔ اور اس سے اظہار بھی کردیا۔
“ہاں بھئی یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ اب تم کہو تمہاری کیا رائے ہے؟”
“تعجب ہے بابا! آپ ابھی تک مجھ سے رائے ہی مانگ رہے ہیں۔ ہمیں اس پرپوزل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کو فورا ہاں کردینی چاہیے۔”
“مگر عشال؟ اسے کون سمجھائے؟ وہ منہ پر انکار تھوپ گئی ہے۔ ضیغم کے۔”
سطوت آراء نے ناگواری سے مداخلت کی۔
“میں عشال سے بات کرتا ہوں۔ اپنی زندگی برباد کرنے کی اسے اجازت نہیں دی جاسکتی۔”
شہیر کی بات نے سطوت آراء کو نہال کردیا۔ ایک شہیر ہی تو تھا جو ہر بار ان کے فیصلوں کو ویٹو کردیتا تھا۔
“ٹھیک ہے پھر تم آج ہی اس سے بات کرلو۔ تاکہ معاملہ آر یا پار ہوجائے۔”
سطوت آراء خوش تھیں۔
“آپ کیا سوچ رہے ہیں بابا؟”
شہیر نے ضیاءالدین صاحب کو فکرمند پاکر پوچھا۔
“ضیغم کا فیصلہ مجھے جذباتی لگ رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کل کو وہ پچھتانے لگے۔”
وہ تذبذب کا شکار تھے۔
“ضیغم بھائی میچور انسان ہیں۔ اور سمجھدار بھی۔ ان کا فیصلہ اگر جذباتی بھی ہے تو وہ کبھی اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔”
شہیر نے انھیں شانوں سے تھام کر تسلی دینا چاہی۔
“تم جانتے ہو ناں؟ ضیغم کی پہلے بھی ایک شادی ناکام ہوچکی ہے۔ اور عشال کے معاملے میں، میں اب کوئی اور صدمہ سہنے کے قابل نہیں ہوں۔”
“بہتر ہے آپ ایک بار کھل کر ضیغم بھائی سے اس بارے میں بات کرلیں۔ اپنی تسلی کرنا آپ کا پورا حق ہے۔ لیکن مجھے ضیغم بھائی پر پورا بھروسہ ہے۔”
ٹھیک ہے۔ پھر تم عشال سے ابھی کوئی بات مت کرو۔ پہلے مجھے ضیغم سے بات کر لینے دو۔”
معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑتا دیکھ کر سطوت آراء واک آؤٹ کر گئیں۔ انھیں بس ہر حال میں عشال کو رخصت کرنا تھا۔
___________________________________
“میں اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ پہلی بر جب اے دیکھا تب ہی وہ میرے دل ودماغ پر چھا گئی۔ اور میں اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ جبکہ اس نے مجھے کیا دیا؟ رسوائی؟ سب کے سامنے میرے منہ پر تھپڑ مارا۔ مجھے ذلیل کیا۔۔۔
“اور تمہاری ایگو ہرٹ ہوگئی؟ اور تم نے عشال کو کڈنیپ کرلیا۔ وہ عین ان کی شادی والے دن؟
شہیر معمول کے مطابق آبریش کو کالج کے گیٹ پر چھوڑ کر خود ایک مناسب مقام پر کار میں ہی بیٹھ گیا تھا۔ جبکہ آبریش کو شامی کی کالز پر کالز موصول ہورہی تھیں۔ وہ پریشان تھی کہ شہیر سے کیسے چھٹکارا حاصل کرے اگر وہ سامنے کے گیٹ سے نکلنے کی کوشش کرتی توشہیر کی نظروں میں آجاتی۔
کافی سوچ بچار کے بعد وہ کالج کے چھوٹے گیٹ کی طرف آگئی اور چوکیدار سے ایمرجنسی کا کہہ کر گیٹ سے باہر نکل گئی۔ اور رکشہ لے کر ریستوران پہنچ گئی تھی۔ اب اسے کالج ٹائم میں ہی واپس جاکر شہیر کو بھی مطمئن کرنا تھا۔
“نہیں! اسے کڈنیپ کرنے کی یہ وجہ نہیں تھی۔ میں نے کہا ناں؟ مجھے اس سے محبت تھی۔ شادی کرنا چاہتا تھا اس سے۔ اور میں کتنا سیریس تھا؟ تمہیں اندازہ کرلینا چاہیے۔ کہ میں نے بار بار اپنا پرپوزل بھیجا۔ لیکن وہ مجھے ایک آوارہ شخص سمجھ کر بے عزت کرتی رہی۔ میں اڈے اپنی محبت کا یقین دلانا چاہتا تھا۔ اسے ایک آخری بار ملنا چاہتا تھا۔ وہ پھر بھی نہیں مانی۔ اور یہ میری نادانی تھی کہ میں اسے کڈنیپ کرکے لے گیا۔ اس رات میں اس کے کمرے میں صرف اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ لیکن مجھے دیکھتے ہی اس نے شور مچانا شروع کردیا۔ مجبورا میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی چیخ دبانے کی کوشش میں میرا ہاتھ زیادہ سخت ہوگیا اور وہ میرے بازؤوں میں ہی بیہوش ہوگئی۔ میں فوری طور پر سمجھ نہیں پایا سچویشن کو کیسے کنٹرول کروں؟نیچے سے کوئی آگیا تھا۔ دروازے پر مسلسل دستک ہورہی تھی۔ ایسے میں مجھے کچھ اور نہیں سوجھا اور میں اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ لیکن یقین کرو آبریش! میری نیت غلط نہیں تھی۔ میں نے اسے چھوا تک نہیں۔ کیونکہ میں اسے میلا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جو کچھ ہوا وہ ایک لمحہ کا فیصلہ تھا۔ ایک غلط فیصلہ۔ بوکھلاہٹ میں کیا گیا فیصلہ!”
شامی کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اب بھی اس فیصلے پر پشیمان ہے۔ آبریش کا دل قدرے پسیجا لیکن ابشام زبیر نام سے وابستہ تاریخ سے وہ انجان نہیں تھی۔ لیکن وہ سب باتیں اس نے گھر والوں سے سنی تھیں۔ اور اے۔زی کی کہانی سننے آئی تھی۔ مگر پھر بھی ذہہن میں کلبلاتے سوال کرنے سے وہ رہ نہیں سکی۔
“اور وہ پکس؟ عشال کو کڈنیپ کرکے۔ ان کی جعلی تصویریں اپلوڈ کرکے کون سی محبت کا اظہار کرنا چاہتے تھے آپ مسٹر ابشام زبیر!”
“وہ میرے ڈیڈ کی حرکت تھی۔ اور اس پر میں نے ان سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ آج تک میں نے اپنے پیرنٹس کو مڑ کر نہیں دیکھا۔”
والدین کے ذکر پر اس کا لہجہ سپاٹ ہوگیا تھا۔
“مجھ سے اپنی شناخت چھپانے کی وجہ؟”
آبریش کے لہجے کے کٹھورپن میں کمی ہوئی تھی۔
“وہ صرف ایک اتفاق تھا۔ آرٹ کی دنیا میں سب مجھے اے۔زی کے نام سے ہی جانتے ہیں۔ کیونکہ میں یہی سگنیچر استعمال کرتا ہوں۔ تمہیں تو میں جانتا ہی نہیں تھا۔ میرے گمان بھی نہیں تھا کہ تم عشال زبرجرد کی بہن ہو۔ مجھے تمہارے کام نے اپیل کیا تھا۔
مگر اب لگتا ہے۔ تمہارا کام ہی نہیں شخصیت بھی اسیر کرنے لگی ہے۔ میں یہ دعوی تو نہیں کرتا کہ تم میری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی ہو۔ لیکن آخری ہو۔ یہ پورے دل سے کہہ رہا ہوں۔
آبریش! تم بالکل اپنے نام کی طرح ہو۔ “رحمت کی بارش!”
میں جب تمہیں سوچتا ہوں تو ایسے لگتا ہے۔ جیسے میرے وجود کے صحرا پر ٹھنڈے میٹھے پانی کی بوندیں گر رہی ہوں۔ تمہیں دیکھنا، تمہیں سوچنا میری زندگی کی ضرورت بنتا جارہا ہے۔ میں تمہارے بغیر اب نہیں رہ سکتا۔ میں ایک بار اپنی محبت کھو چکا ہوں۔ لیکن دوبارہ کھونے کا حوصلہ نہیں ہے۔ مجھ میں! اسی لیے میں نے اپنا سارا سچ تم سے کہہ دیا ہے۔ کیونکہ میں تمہارے اور اپنے تعلق کو جھوٹ کی بنیاد پر نہیں کھڑا کرنا چاہتا۔”
آبریش جو اسے سنجیدگی سے سن رہی تھی۔ اس کے انکشاف پر سن ہوگئی۔
“محبت؟ اور ابشام زبیر؟
وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ کوئی اس محبت کو قبول نہیں کرے گا۔ لیکن دل تھا کہ اس کے لفظوں کے ساتھ بگٹٹ دوڑا چلا جارہا تھا۔
وہ ساحر تھا۔ اور اپنا سحر تازہ کھلی کلی پر پھونک چکا تھا۔ اور کلی نے اپنے بند کھول دیے تھے۔
ملاقات کے اختتام پر شامی کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ تھی۔ جبکہ آبریش کا چہرہ گلنار تھا۔
____________________________________
سارے ماحول کو سفید رنگ نے ڈھانپ رکھا تھا۔ اے سی چلنے کی باریک سی آواز کے سوا اس کمرے میں کوئی اور آواز نہیں تھی۔ برقی آلات اور تاروں نے زبیر عثمانی کے جسم کو زندگی کی باریک سی لیکر سے باندھا ہوا تھا۔ انھیں شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ اور دماغ برین ہیمبرج کی زد میں تھا۔ عائشہ عثمانی نے ابھی ہی کمرے میں قدم رکھے تھے۔ وہ اک ذرا سا فاصلہ رکھ کر سوالیہ نظروں سے اس چہرے کو دیکھ رہی تھیں۔ جس نے انھیں دنیا و آخرت دونوں میں مجرم بنا کر اب خود سے حرف غلط کی طرح کاٹ دیا تھا۔ ایک دن قبل عائشہ کو وہ سرکاری کاغذ موصول ہوگیا تھا۔ جس کے مطابق زبیر عثمانی انھیں طلاق دے چکے تھے۔ اس کاغذ کو تھامے گنگ بیٹھی تھیں۔ دل میں ایک ٹیس سی اٹھی کہ آخر اتنی لمبی مسافت کس لیے کاٹی۔ اس سب کا حاصل یہ تھا؟ کہ آج وہ مسز زبیر بھی نہیں رہی تھیں۔ کیوں زبیر عثمانی؟ کیوں؟ میں تو تمہارے اچھے برے ہر عمل کی شریک رہی۔ جو تم نے کہا میں نے کیا۔ تمہاری طاقت کی ہوس۔ دولت کی ہوس۔ نام اور شہرت حتی کہ جسم کی ہوس بھی پوری کی۔ اور تم نے مجھے کیا دیا؟ میں تو یہ آخری منزل بھی تمہارے ساتھ بانٹ لینا چاہتی تھی۔ لیکن تم رہے سدا کے خودغرض اور مطلبی انسان! نہ جانے کیوں تم سے ایک امید تھی کہ تم مجھے کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ تم مجھ سے میرا یہ غرور بھی چھین لیا۔ تم مر جاؤ زبیر عثمانی! تممر جاؤ!
لیکن تم مر گئے تو میں کیسے جی سکتی ہوں؟”
عائشہ کی ٹانگیں ان کا وجود سہارنے سے قاصر ہونے لگیں تو وہ دیوار سے پشت ٹیکے بیٹھتی چلی گئیں۔ میڈیکل کا عملہ انھیں تھامنے کے لیے آگے بڑھا۔ لیکن ان کی نبضیں ڈوب چکی تھیں۔
جبکہ دوسری طرف مرتضی غوری ملک شہباز سے مصافحہ کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کررہے تھے۔ زبیر عثمانی کی لٹیا ڈبونے میں ملک شہباز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ مرتضی غوری نے ملک شہباز کو قانونی رعایت کا یقین دلاکر زبیر عثمانی کے خلاف تمام اہداف حاصل کیے تھے۔
“میں نے کہا تھا ناں زبیر عثمانی! تمہیں جہنم کے دروازے تک میں خود پہنچاؤں گا۔”
اپنی بیٹی کی اس حماقت کو مجھے ہی درست کرنا تھا۔ آئی ہوپ اب سب کچھ اپنی جگہ پر ہوگا۔”
مرتضی صاحب نے اپنے لیے چائے کا آرڈر دیا اور سگار سلگا لیا۔
____________________________________
شامی اس وقت اپنے اسٹوڈیو میں تھا۔ اور ایک نئے پروجیکٹ پر رنگوں کی تہیں جمارہا تھا۔ اس کی انگلیاں رنگوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ چہرے پر فاتحانہ چمک تھی۔ لیکن یہ چمک زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔
مسلسل بجتے سیل کو اس نے لاپروائی سے اٹھایا۔ دوسری طرف سے اسے عائشہ کی ناگہانی موت کی خبر سنائی گئی۔ لمحہ بھر کو بت بن کر رہ گیا۔ بیشمار لمحے تھے جو آنکھوں میں جلنے لگے تھے۔ وہ سلگتی آنکھیں پونچھ کر فورا ہی اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔ اسے اپنے والدین سے بہت شکایات تھیں۔ لیکن زبیر عثمانی کی بہ نسبت عائشہ کے لیے دل میں اتنا نرم گوشہ تو تھا کہ سرکاری سردخانہ سے لاش وصول کرکے اس کی تدفین میں شامل ہوجاتا۔ اور اس نے ایسا ہی کیا تھا۔
وہ اسٹوڈیو سے اٹھ آیا۔ دل پر ایکدم سے بوجھ بڑھ گیا تھا۔ ہر چیز سے طبیعت اچاٹ ہو چکی تھی۔ اس وقت وہ کسی سے نہیں ملنےکا روادارنہیں تھا۔ اپنے آپ سے بھی نہیں۔ مگر تقدیر اپنے فیصلے کسی سے پوچھ کر نہیں کرتی۔
شامی کے دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ پہلے تو وہ ڈھیٹ بنا پڑا رہا مگر جب دستک مسلسل بڑھنے لگی تو وہ غصے میں بڑبڑاتا اٹھ کھڑا ہوا۔
“تمہیں close لکھا ہوا نظر نہیں آرہا؟”
شامی نے زور سے دروازہ کھینچا لیکن وہ ایک بار پھر جامد ہوا تھا۔
“نینسی۔۔۔۔؟ تم!”
اور وہ قدم بڑھا کر اندر چلی آئی۔
____________________________________
“غنائم سے میری شادی میری زندگی کا ایسا سچ ہے۔ جس سے میں انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ میں نے اس رشتے کو نبھانے کی آخر تک کوشش کی۔ بس عزت نفس پر سمجھوتہ نہیں کرسکا۔ غنائم دراصل اپنے طے کردہ معیار کے مطابق مجھے دیکھنا چاہتی تھی۔ حتی کہ میں نے پولیس کی فل ٹائم جاب چھوڑ کر یونیورسٹی کی سات گھنٹے کی جاب بھی کی۔ لیکن وہ مجھے جو بنانا چاہتی تھی وہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی اس رشتے کو انجام دینے میں غنائم کی مرضی شامل تھی۔ میں نے تو آخر تک نبھانے کی کوشش کی۔ لیکن اس تعلق کی شاید عمر اتنی ہی تھی۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ چچاجان! میں آپ کے ہر فیصلے کا احترام کروں گا۔”
ضیاءالدین صاحب صبح سے ضیغم کے کمرے میں تھے۔ عشال کے حوالے سے اپنے تحفظات بیان کرتے ہوئے انھوں نے ضیغم سے اس کی ناکام شادی کے حوالے سے سوال کیا تھا۔ اور ضیغم نے اپنا دل کھول کر انکے سامنے رکھ دیا۔ ضیاءالدین صاحب کو خاموش پاکر ضیغم نے انھیں تسلی دینا چاہی۔
“آپ پریشان مت ہوں۔ میرے حوالے سے آپ پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں اور اطمینان سے فیصلہ کیجیے۔ اگر آپ انکار بھی کریں گے تو میں اسی خاموشی سے لوٹ جاؤں گا۔جیسے آیا تھا۔”
ضیاءالدین صاحب نے چند لمحے سوچا اور پھر بولے۔
“عشال کے لیے تم سے بہتر شخص میری نظر میں کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر مشکل یہ ہے۔ عشال راضی نہیں۔”
ضیغم نے ان کے چہرے پر رقم پریشانی کو دیکھا اور پھر بولا۔
“چچاجان! اگر آپ اجازت دیں تو میں عشال سے بات کرنا چاہتا ہوں۔”
ضیاءالدین صاحب نے یکدم سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ جہاں یقین ہلکورے لے رہا تھا۔
ضیاءالدین صاحب چند لمحے تذبذب کا شکار رہے پھر اس کے ہاتھ کو تھپتھپا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
___________________________________
صبح کا اجالا کرن کرن پھیل رہا تھا۔ عشال نے پردے ہٹا کر روشنی کو راستہ دیا۔ پل بھر کو اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس نے پلکیں جھپکا کر شوخ روشن صبح کو دیکھنے کی کوشش کی۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ درختوں پر ابھی تک جاری تھی۔ بلاشبہ کائنات آج بھی پہلے کی طرح خوبصورت تھی۔ ایک اس نے ہی خوبصورتی سے منہ موڑ لیا تھا۔
عشال نے بالکونی میں کھڑے ہوکر چند کمحے گہرے گہرے سانس لیے۔
“روشنی بہت ضروری ہے زندگی کے لیے۔ یہ جینے کے نئے ہنر دیتی ہے انسان کو۔ کیونکہ یہ نئے وقت کا استعارہ ہے۔”
عشال پیچھے مڑی۔ شہیر سینے پر ہاتھ لپیٹے اس کے سامنے کھڑا تھا۔
“پلیز شہیر! اب نئے بربط مت چھیڑو۔ میرا دل کسی بھی نئے ساز کو اب چھیڑنے سے قاصر ہے۔”
عشال نے شہیر سے رخ پھیر لیا تھا۔
:”میں تمہیں زیادہ دیر امتحان میں نہیں ڈالوں گا عشال! صرف اتنا کہوں گا۔ خدا کی نعمتوں کو بار بار ٹھوکر مت مارو۔ وہ ناقدری کو نہیں بخشتا۔”
عشال نے ایک زخمی سی نظر شہیر کی طرف ڈالی۔
“تمہاری نظر میں بھی میں غلط ہوں شہیر؟”
“ہاں! کیونکہ وہ ذات جو بار بار خوشیوں کو تمہارے دروازے پر بھیج رہی ہے۔ تم انکار کرکے اس کی رحمانیت کا مذاق اڑا رہی ہو۔ ذرا سوچو عشال! وہ اللہ ہی تھا۔ جس نے ابشام زبیر جیسے شیطان سے تمہاری عزت جان سب کچھ محفوظ رکھا۔ اگر اس کی مدد شامل نہ ہوتی تو کیا تم صحیح و سالم واپس لوٹ سکتی تھیں؟ یہ اس کا کرم ہی تھا۔ عشال! کہ اس نے تمہیں صارم برہان جیسے کمظرف انسان سے نجات دلائی۔ وہ تمہارا نصیب نہیں تھا۔ عشال!
اب یہ تم پر ہے کہ تم ابشام زبیر جیسے شیطان سے شادی کرکے حرام موت کو گلے لگاؤ یا پھر ضیغم بھائی کے پرپوزل کو قبول کرکے اللہ کی شکرگزاری کا ثبوت دو۔ مجھے تم سے کچھ اور نہیں کہنا۔”
شہیر اپنی بات کہہ کر اس کے کمرے سے نکل گیا۔ عشال اس کے لفظوں میں الجھی اپنی جگہ سن کھڑی رہ گئی تھی۔
__________________________________
“تم؟”
لمحاتی حیرت کے جھٹکے کے بعد شامی نے ماتھے پر تیوریاں ڈالے نینسی سے سوال کیا تھا۔
وہ شامی کے مزید نزدیک چلی آئی۔
“یس! ایب! میں تم سے اپالو جائس کرنے آئی ہوں۔ میں نے بہت ڈھونڈا ہے تمہیں۔ ہمیں ایک بار پھر اپنے ریلیشن شپ کو دوسرا چانس دینا چاہیے۔ پلیز ایب! میں سب بھول چکی ہوں۔ تم بھی بھول جاؤ؟!”
اور آہستہ سے شامی کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ چند لمحوں تک شامی سمجھ ہی نہیں سکا کہ کیا ہوا ہے۔ درحقیقت وہ نینسی کے اس طرح اچانک سامنے آجانے پر شاکڈ تھا۔ لیکن نینسی کی اس کی زندگی میں اب کوئی گنجائش چاہ کر بھی نہیں نکل سکتی تھی کہ وہ نئے محاذ کھول چکا تھا۔
“سوری ڈارلنگ! یو ٹو لیٹ! ان پلوں کے نیچے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔”
شامی نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
نینسی نے اس کی بےمہر آنکھوں میں دیکھا اور دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
“میں جانتی ہوں ایب! تم مجھ سے بہت خفا ہو۔ لیکن پلیز ایک بار میری بات سن لو۔ آئی ہیو آگوڈ نیوز فار یو!”
شامی ٹھٹکا۔ جانے وہ کیا کہنا چاہتی تھی۔
نینسی سے آہستہ سے شامی کا ہاتھ تھام کر اپنے پہلو پر رکھا۔ شامی کی سوالیہ نظریں نینسی کے چہرے سے ٹکرائئیں۔ اس کے جسم میں ابھرتی واضح حرکت کو محسوس کرکے شامی پتھر بن گیا۔ اور نینسی نے مسکرا کر اس کے بدترین خدشات کی تصدیق کردی۔
“آئی ایم پریگننٹ ایب!”
میرے ساتھ چلو! ہم ایک فیملی بننے جارہے ہیں۔”
شامی جھٹکا کھا کر اس سے دور ہوا تھا۔
“کیابکواس ہے؟ مجھے کوئی فیملی نہیں چاہیے۔ کم از کم تم وہ عورت نہیں ہو۔ جس کے ساتھ میں نے زندگی گزارنی ہے۔ گیٹ لاسٹ!”
اور نینسی کو بازو سے پکڑ کر اپنے فلیٹ سے باہر نکال کر دروازہ اس کے منہ پر بند کردیا۔
“یو باسٹرڈ! یہ تمہارا بچہ ہے۔ تمہاری ذمہ داری! اپنا حق تو میں تم سے لے کر رہوں گی۔”
نینسی پوری قوت سے چلائی تھی۔ مگر شامی کے کانوں تک اس کی آواز پہنچنے میں ناکام رہی تھی۔
“بیٹھے بٹھائے یہ کیا مصیبت گلے پڑ گئی تھی؟ کیسے بھی کرکے اس سےنجات حاصل کرنی ضروری تھی۔”
اس نے خود سے عہد کیا۔ منزل کے اتنے نزدیک پہنچ کر شامی اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔
___________________________________
“میں اس شخص کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتا ہوں انکل! کچھ بھی کیجیے لیکن ابشام زبیر کو اب جیل میں ہونا چاہیے۔”
شہیر پہلی فرصت میں مرتضی صاحب کے آفس پہنچ گیا تھا۔ درحقیقت وہ آبریش کی طرف سے بہت خوفزدہ ہوچکا تھا۔ آبریش عشال جتنی سجھدار نہیں تھی۔ اس کے لہجے میں بغاوت کی بو شہیر محسوس کرچکا تھا۔
“کیا سوچا ہے تم نے؟ کس جرم میں اسے اندر کروانا ہے؟ اگر تم عشال کے کیس کو ری اوپن کروانا کا سوچ رہے ہو تو یاد رکھو عشال کو عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔ میڈیا اس کو خوب مصالحے لگا کر کور کرے گا۔ کیونکہ اب وہ ایک سیلیبریٹی ہے۔ اور عشال کانام اس سب میں خوب اچھالا جائے گا۔ کیا تم اس سب کے لیے تیار ہو؟ اگر تم یہ سب گوارا کرسکتے ہو تو میں آج ہی متعلقہ آفیسرز سے رابطہ کرسکتا ہوں۔”
مرتضی صاحب نے اپنی بات کہہ کر خاموشی اچتیار کرلی اور شہیر کو سوچنے کا پورا موقع دیا۔
شہیر ہتھیلیاں مسل کر رہ گیا۔
“سات سال انتظار کیا ہےمیں نے۔ اس شخص کو سزا دلوانے کے لیے۔ اسے ایسے ہی تونہیں چھوڑا جاسکتا۔ وہ مجرم ہے ہم سب کا۔”
مرتضی صاحب نے سگار کی راکھ جھاڑی اور بولے۔
“جوش سے نہیں ہوش سے کام لو۔ ہم یہ جنگ کچھ اور بنیادوں پر لڑ سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے ابشام زبیر کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کرے گا۔”
مرتضی صاحب نے شہیر کو تسلی دینا چاہی۔
“کیسی غلطی انکل! آپ اس پر کرپشن کا کیس نہیں بنا سکتے۔ اور پھر میں تو اس موذی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہتا ہوں۔”
شہیر پریشان تھا اور مایوس بھی۔
“ہاں! ہم اس پر کیس نہیں کرسکتے۔ لیکن اپنا دامن بچا سکتے ہیں۔ تم انتقام پر اپنی زندگی ضائع مت کرو۔ اللہ اپنی حدود توڑنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ اور ظالم کو تو کبھی بھی نہیں۔ چاہے وہ ظلم اس نے اپنے نفس پر ہی کیوں نہ کیا ہو۔ ابشام زبیر کا وقت بھی ڈھل جائے گا۔ تم بس اپنے رب پر یقین رکھو۔”
مرتضی صاحب کے الفاظ نے اسے کچھ کہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ وہ خاموش ہوگیا۔
“میں سنبھال لوں گا۔ ڈونٹ وری!”
مرتضی صاحب نے شہیر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے بھرپور تسلی دی تھی۔ وہ آبریش کو کالج چھوڑ کر ان کے پاس چلا آیا تھا۔
___________________________________