(Last Updated On: )
جب ہم کسی بات پر کہہ اٹھتے ہیں کہ وہ بڑی شاعرانہ بات ہے تو اس سے ہماری یہ مراد ہوتی ہے کہ اس میں کچھ ایسے پہلو آ گئے ہیں جن تک خیال کی رسائی نہ ہوئی تھی یا پھر اس بات میں ایک ایسی لچک پیدا ہو گئی ہے کہ اس میں ندرت جلوہ گر ہو گئی۔ ایک اچھے شاعر کی یہی پہچان ہے کہ کہ اس کا شعور اتنا تر و تازہ اور رنگین ہوتا ہے کہ وہ اپنی خصوصیات کے ساتھ ایک بات کو عمدہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے۔ خورشید احمد جامیؔ ایک ایسے ہی خوش دماغ شاعر تھے ممکن ہے کہ انھوں نے ان ہی مضامین کو نظم کیا ہو جس کو ان کے پیش رو استعمال کر چکے یا کر رہے ہوں۔ لیکن انھوں نے اس بات کو اس طریقے سے پیش کیا ہے کہ ان کی اصلیت اور انفرادیت جمال افروز ہے۔
جامیؔ صاحب کی زندگی کی سادگی کو سامنے رکھیے اور پھر ان کے کلام کا ایک اور بار مطالعہ کیجیے آپ دیکھیں گے کہ جامیؔ صاحب نے اپن فن کے ساتھ کتنے خلوص اور کتنے پیار کا ثبوت دیا ہم انھیں نیا شاعر یا پرانا شاعر کہہ کر ان پر اپنی نظر کا رنگ ڈالنا چاہتے ہیں۔ لیکن ذرا اس مسلط ماحول سے باہر آ کر دیکھا جائے تو ہمیں جامیؔ کے روپ میں ایک ازلی مفکر اور ایک خود شناس ادیب ملتا ہے۔ یہ وہ ادیب ہے جو یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہی پتھر کی لکیر ہے یا میں ہی سب سے بڑا زبان داں اور معتبر سخن ور ہوں۔ یہ کہتا ہے کہ میں شاعر نہیں ہوں میں ایک انسان ہوں اور میرے نقوشِ قلم اسی درد کا اظہار ہیں جو زمانہ اور وقت کے چلتے ہوئے پہیوں میں میرے بدن پر اور میری روح پر وارد ہوتا ہے۔
معیارِ سخن ہوں نہ کوئی عظمتِ فن ہوں
حالات کے پتھراؤ میں شیشے کا بدن ہوں
حالات کا پتھراؤ اور شیشے کا بدن تمثیلات کے ارژنگ میں دو نئے عمل پیدا ہوئے جامی صاحب کے پاس تمثیلات کا ایک نیا ٹکسال تھا جو مزاج اور ماحول کے لحاظ سے نئے سکے ڈھالتا تھا۔ ان کو اپنی شاعری اور خود اپنے پر مہرِ فضلیت لگانے کا شوق نہیں تھا بلکہ انھیں اپنے شیشے کے بدن پر حالات کا پتھراؤ کچھ کہنے پر مجبور کر رہا تھا۔
جامیؔ صاحب کی شاعری کی خصوصیات کا میں یہاں پر ضرور ذکر کروں گا۔ جامی صاحب کی شاعری میں استعارہ، تشبیہہ اور اشارہ تینوں بڑے وجدانی طور پر آ کر جمع ہو جاتے تھے اور اس وجدانی کیفیت ہی کا سرور تھا جس نے ان کے کلام کو دل پسندی اور مقبولیت بخشی۔ ان کی تمثیلات غالباً احمد ندیم قاسمی کے بعد اردو کی سب سے عمدہ تمثیلات میں سے ہیں جن میں اصل و نقل کا ایسا رچاؤ ملتا ہے کہ ذہن بلا کسی تامل کے قبول کر لیتا ہے اور اسی لیے میں ان کی تمثیل کو امکان کا ہم زباں سمجھتا ہوں اور وہ امکان کی سرحدوں میں ان احساسات کو لے آتے جن کا بیان ہی کرنا شعر کو بے مزہ کر سکتا تھا۔ لیکن جامی صاحب ایک چابک دست مصور اور رنگ آشنا نقاش تھے۔ جب ان کی مصوری کی بات ہی آ گئی ہے تو میں آپ کے سامنے کچھ ایسے اشعار پیش کروں گا جن سے ان کی اس صفت کا صحیح اندازہ ہو سکے۔
سحر کے ہم بھی خد و خال دیکھتے لیکن
شبِ سیاہ کا اڑتا غبار حائل تھا
اب ذرا آپ منظر دیکھیے۔ شاعر طلوع سحر کی رنگینی کو دیکھنے کے لیے دروازہ کھول کر باہر آ کھڑا ہے۔ لیکن دور تک ایسی سیاہ کہر چھائی ہوئی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ مصوری نہیں تو پھر کیا ہے؟
اس طرح:
کھٹکھٹاؤ شبِ تاریک کے دروازے کو
اور گھبرا کے میں نکلوں تو کہیں کھو جاؤ
اور
شب کے ویرانے میں دیوانہ کوئی
دیر تک منھ چاند کا تکتا رہا
جامی صاحب کی شاعری میں آپ کو ایسی ہی عمدہ تصویریں مل جائیں گی کہ مصور کو چاہیے کہ انھیں تصویر کی شکل دے۔ یہ حیرت انگیز قوتِ بیان اور استعاراتی ابلاغ جامی کو اپنی نسل کے شعرا میں ممتاز کر دیتا ہے۔
جامی صاحب کی شاعری میں شب و روز کا تفاوت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ شب کو مایوس، غم زدہ اور حقیقی سمجھتے ہیں اور سحر یا دن ان کے لیے ایک سنہرا سپنا ہے ایک خوش آئند لمحہ۔ آپ کو ان کے اشعار میں شب و روز حیات کی تفسیر کے طور پر ملیں گے۔ یہی علامات ذرا سا منعکس ہو کر دھوپ اور سایے کی شکلوں میں بھی آتی ہیں۔ دھوپ ایک بہت جلتا، تپتا ہوا واسطہ ہے اور سایہ وہ ہے جس کی تلاش میں زندگی کا مسافر قدم قدم، لحظہ لحظہ رواں ہے۔ آئیے جامی کے شب و روز اور دھوپ چھاؤں کا مزہ لیں۔
روز و شب کے مرثیے لکھتا رہا
وقت بھی کتنا بڑا فن کار تھا
سحر کی بھیڑ میں سب پھر رہے تھے گھبرائے
یہاں کسی کا پتہ کس سے پوچھتا کوئی
اندھیری رات کے اک اک ورق پر
اجالوں کی طرح لکھا گیا ہوں
زندگی اک دھوپ ہے سایہ نہیں
دور تک اس کا خیال آیا نہیں
ہم لوگ شب و روز کے صحرا میں کھڑے ہیں
احساس وہی، درد وہی، دھوپ وہی ہے
جامی صاحب کی فکر کی تازگی نے ان کے شعورِ غم کو روشنی کی قندیلیں دیں، وہی درد جو فانیؔ کے لیے جاں گداز و جاں گسل اور مرگِ آسا تھا۔ وہی درد جو غالبؔ کے لیے نشاط انگیز تھا۔ وہی درد جامی صاحب کے لیے ایک ایسا تجربہ تھا جس میں غم و نشاط، رنگ و صوت سب شامل تھے۔ جامی صاحب بدشکل اور بے رنگ چیزوں کو بھی اپنی فکر اور قوتِ اظہار سے گوارہ بلکہ قابلِ اعتنا بنا دیتے۔ زخم اور درد تو ان کے احباب تھے عزیز بھی تلخ بھی۔ انھوں نے مایوسی کو ایسی تشبیہوں میں سمو دیا کہ وہ خوب صورت بن گئی۔ مثلاً:
وہ شہر نیا تھا وہ سبھی لوگ نئے تھے
ہم رات کے ہم راہ کہاں گھوم رہے تھے
دیکھیے رات مونث ہے اور ہم راہ کے لفظ نے اس میں کیسی رندانہ خوبی پیدا کر دی ہے۔ گرچہ کہ رات غم اور مایوسی کا استعارہ ہے۔
اک عمر کے بچھڑے ہوئے احباب ہوں جیسے
یوں راہ میں زخموں سے ملاقات ہوئی
زخموں سے ملاقات کتنا دل چسپ حادثہ ہے!
جامی صاحب کو خوب صورتی سے بڑا عشق تھا۔ وہ ہر احساس کے لیے ایسا اشارتی وسیلہ لیتے جس سے ان کے اشعار میں رمزیت بھی پیدا ہو اور معنی بھی رنگین ہوں۔ شاعر کا احساس ایک ایسا صدف ہوتا ہے جس میں ایک ہی نہیں کئی سواتی کے قطرے گرتے ہیں اور ان سے کئی بالکل مختلف رنگوں والے گہر سفتہ ہوتے ہیں۔ اس کا ذہن ایک ایسا شاداب باغ ہے جس میں ہر حادثے پر ایک نیا شگوفہ کھلتا ہے۔
جامی صاحب کے پاس ایک ایسا درد تھا جو چیخ چیخ کر انھیں احساس دلاتا کہ:
ہم ہیں اپنے وجود کا صحرا
کل بھی تنہا تھے، آج بھی تنہا
لیکن انھیں اپنے غم کو عام کرنا پسند نہیں تھا۔ وہ اپنے دل کے زخموں کو دکھا کر ہمدردی حاصل کرنے اور خود ترحمی دونوں ہی صورتوں سے گریز کرتے رہے۔ (غالباً ان کا تجرد بھی اسی قسم کے فرار کا حاصل تھا) اس احتیاط کو دیکھیے کہ وہ کہتے ہیں:
اور اونچی کرو یہ دیواریں
حال گھر کا نہ جان لے دنیا
مذکورہ بالا عبارت میں میں نے یہ نشان دہی بھی کی ہے کہ جامی کی تشبیہات کی ایک ندرت یہ بھی ہے وہ پریشان کن حقائق کو مونث صیغہ میں کچھ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ ان میں نسائیت کی دل کشی آ جاتی ہے۔ یہ عجیب و غریب تجربہ قاری یا سامع کے لیے معانی کا ایک نیا دریچہ وا کرتا ہے:
مجھ سے ملتی ہے کہیں گردشِ دوراں لیکن!
مجھ سے اب آنکھ ملاتے ہوئے شرماتی ہے
بڑے دلچسپ دعوے تھے بڑے رنگین دھوکے تھے
گلوں کی آرزو میں زندگی شعلے اٹھا لائی
فی زمانہ اگر کوئی شاعر ہے جس کا نام تشبیہہ سازی میں نئی نظم کا نمائندہ نام کہا جا سکے تو وہ خورشید احمد جامی ہے۔
جامی صاحب نے اپنی شاعری میں حادثوں کو منتخب کیا اور ان حادثوں پر اپنے افکار کا رنگ لگایا، انھیں تر و تازہ کیا۔ ان پر چمکتی ہوئی روشنیاں بکھیر دیں۔ وہ حادثوں کو ایسی علامتوں میں پوشیدہ کر دیتے ہیں کہ ان میں ایک قسم کا صناعی سے پُر ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح ترسیل کو اظہار کی مسرت اور فکری ندرت سے ہم کنار کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ ان کی شاعری نئی شاعری کی عمدہ مثالوں میں شمار کی جائے گی۔
جس پہ تیرے لب و رخسار کا سایہ ہو گا
کون کہتا ہے کہ وہ گیت پرایا ہو گا
یوں دل کے پاس درد رکا جس طرح کوئی
حیران سا ہو، دیکھ کے خالی مکان کو
حالات کی آنکھوں میں ذرا جھانک کے دیکھو
اس طرح سمندر کبھی صحرا نہ بنے تھے
گزر رہی ہیں ہزاروں قیامتیں ہم پر
یہیں کہیں کوئی روز حساب بھی رکھ دو
میں کوئی راز تحریر نہیں ہوں جامی
بند کمرے میں جسے لا کے جلایا جائے
خورشید احمد جامی ایک بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کا اپنا طرزِ اظہار تھا۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ کئی شاعر ان کے طرز کی اتباع کر رہے ہیں۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ وہ اپنا طرز الگ مقرر کریں کیوں کہ وہ جامی سی دروں بینی اور فعال فکر نہیں رکھتے اور ان کا اندازِ اظہار بھی ان کی زبان سے میل نہیں کھاتا۔ بلاشبہ:
ہم بھی تھے روشنی کتابوں کی
کاش تم نے ہمیں پڑھا ہوتا
٭٭٭
[جامیؔ صاحب کے انتقال پر پہلے جلسۂ تعزیت میں پڑھا گیا۔ شائع شدہ ’’برگِ آوارہ‘‘ پندرہ روزہ (حیدرآباد)۔]
٭٭٭