رات قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی— وہ بیڈ کے ایک طرف دراز دوسرے فرد کی خالی جگہ کو دیکھ رہا تھا—چہرے پر اُداسی رقم تھی— بہت ساری اچھی بری جھلکیاں آنکھ سے گزر رہی تھیں—
“you are mine and I’ll never leave you, never ever!”
ایک وعدہ یاد آیا تھا معیز کو—
وہ اسے سپیز دینا چاہتا تھا اور وہ دے بھی رہا تھا مگر کیا اتنا کافی نہیں تھا؟ کیا اتنے پر جنت کا گزارا نہیں تھا؟ وہ اسکی ایک ضد ایک خواہش پوری کرتا تھا وہ دوسری لے کر پہلے ہی کھڑی ہوجاتی تھی— کیا وہ اسے اتنا غیر اہم سمجھتی تھی کہ ایک فون کر کے اپنی سیٹ کینسل ہونے کا نہیں بتا سکی؟ کیا وہ اتنا معمولی ہے؟ اتنا غیر اہم ہے اسکی زندگی میں؟
ایک دکھ, ایک کرب,ایک چبھن تھی اس حقیقت میں جو اسے بری طرح گھائل کرگئی تھی—اسے پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی جنت کا دھوپ چھاؤں والا مزاج سمجھ نہیں آیا تھا— اسے بالکل سمجھ نہیں آیا تھا کہ کب کیسے وہ اسکی شخصیت سے متاثر ہوا تھا اور کب اُسے جنت سے محبت ہوئی—
ہاں اسے اقرار تھا کہ وہ اپنی پُرکشش و پُروقار شخصیت اور خصوصاً اپنے لہجے و انداز سے پوری محفل میں منفرد نظر آتی تھی مگر وہ بھی جنت سے کسی پَلے میں کم نہیں تھا بلکہ وہ اس سے تعلیم و اسٹیٹس میں آگے تھا مگر جنت نے کبھی اپنی قسمت پر رشک نہیں کیا—کبھی شکر گزار نہیں ہوئی—
“میں تمہیں بہت مِس کروں گا—”
“تین دن کی ہی تو بات ہے–” جواباً اس نے کتنے آرام سے کہہ دیا تھا اور یہ بات بس تین دن کی نہیں رہی تھی—
آج کی رات بھی ممکن ہے نہ سو سکوں
یاد پھر آئی ہے نیندوں کو اُڑانے والی!
*****************
“اسلام و علیکم! سر لغاری؟” جنت نے جھجھکتے ہوئے پوچھا—
“وعلیکم السلام–کیا ہوا جنت اس ٹائم—” صبح کے چھ بج رہے تھے سر لغاری اپنے بیڈ پر دراز موندی موندی آنکھیں لیے فکر مندی سے بولے—
“وہ—“جنت کے حلق میں آنسوؤں کا گولا اٹک گیا—
“سر آپ معیز سے کہیں مجھ سے رابطہ کریں—”
“جی؟ کون معیز؟”ان کی نیند اُڑ گئی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے—
“جس کمپنی میں آپ پہلے کام کرتے تھے وہ وہاں مارکٹنگ مینجر تھے—” جنت نے یاد دلایا—
“وہ معیز— مگر آپ؟”
“میں اُن کی وائف ہوں—” جنت دھیمی آواز میں بولی—
“اچھا میں کانٹیکٹ کرتا ہوں بھابھی— آپ پریشان نہ ہوں—” انہوں نے تسلی دی—
“آپ کا بہت شکریہ—” جنت نے آنسوؤں پر قابو پاتے کہا—
“آپ آرام کریں جیسے ہی رابطہ ہوتا ہے میں انفارم کرتا ہوں—” جنت نے رابطہ منقطع کیا— وہ بیڈ کے کنارے پر پیر لٹکا کر بیٹھی تھی—معیز کی ناراضگی اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی کاش وہ سمجھ سکتا— جنت نے اپنے بھل بھل بہتے آنسوؤں پر کسی قسم کا بند نہیں باندھا تھا—
**************
“I’ll be coming in ten minutes…get ready. ”
ابراہیم حسین کا پیغام پڑھ کر جنت نے موبائل بیڈ پر پٹخا— اسکا کچھ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا نہ کسی سے ملنے کا–اس کا بس چلتا تو اُڑ کر پاکستان پہنچ جاتی—
پانچ منٹ لگے تھے اسے اپنا موڈ بدلنے میں آخر کام بھی تو کرنا تھا— اس نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے اور بال سُلجھانے لگی جب اسکا موبائل رنگ کرنے لگا— پانچ منٹ بعد وہ نیچے اُتری تھی—
جنت جیسے ہی پارکنگ ایریا میں داخل ہوئی ابراہیم حسین اسے بی ایم ڈبلیو سے نکلتا دِکھائی دیا—کریم کلر کے پینٹ کوٹ کے ساتھ لائٹ پرپل کلر کی شرٹ پہنی ہوئی تھی آج ٹائی اس نے نہیں لگائی تھی— سیاہ گاگلز جنت کے قریب آنے پر اس نے اُتارتے اسے غصے سے گھورا پھر اپنی مردانہ چوڑی کلائی پر بندھی راسٹ واچ دیکھی–
“آپ پورے آٹھ منٹ لیٹ ہیں—” کبھی نرم کبھی سخت وہ بھی جنت کی سمجھ سے باہر تھا
“سوری وہ—“اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ تیزی سے واپس کار کی جانب بڑھا اور اندر بیٹھ گیا—جنت بھی آہستگی سے چلتی ہوئی کار میں آ بیٹھی— اسکے بیٹھتے ہی ابراہیم نے کار اسٹارٹ کردی—چہرے پر کرختگی تھی—اسکا خود کا موڈ ہوتا تو شہد بن جاتا نہیں تو زہر—
“میں تمہارے مسیج کا ویٹ کررہا تھا—” کافی دیر بعد وہ بولا
“مم— مگر کیوں؟” اس نے جنت کی جانب دیکھا
“کل ہم نے اتنا ٹائم ساتھ سپینڈ کیا کم از کم تم کچھ تو ڈسکس کرتی—تمہیں میری کمپنی کیسی لگی؟ پکچرز بھی نہیں مانگیں تم نے—مجھے بہت برا محسوس ہورہا ہے—اتنا جُھکنے کے باوجود بھی تم نے مجھے اتنی سی ویلیو نہیں دی— ہر انسان مطلب پرست نہیں ہوتا جنت اور مجھے تم سے کیا مطلب ہوگا بھلا—کون سا پلازہ ہے تمہارے نام؟” آخری جملے پر وہ کچھ تلخی سے بولا—جنت کو تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں کو جارہی تھی— وہ بھلا اسکی بات کا کیا جواب دیتی؟
“میٹنگ کب ارینج کریں گے آپ؟ معیز بہت پریشان ہیں میں کبھی آؤٹ آف کنٹری نہیں گئی اور اب تو اکیلی ہوں—” جنت نے اپنی پریشانی بتائی اگر وہ اسے اہمیت دے ہی رہا تھا تو کیوں نا اپنا کام نکلوا لیا جاتا—
“میری بات کروا دو اپنے ہَبی سے, اُسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں ہوں یہاں تمہارے پاس—” جنت کا دل چاہا اسکا سر پکڑ کر ونڈ اسکرین میں دے مارے—
“آپ میٹنگ جلدی ارینج کرلیں پلیز-”
وہ اسرار کرنے لگی—-
“اب آپ مجھے بتائیں گی کہ مجھے کب کیا کرنا ہے؟” فوراً ہی اسکی ٹون بدلی—
“ابھی ہم کہاں جارہے ہیں؟” جنت نے اسکی جانب دیکھا جو مسلسل ونڈ اسکرین کی جانب دیکھتا توجہ سے ڈرائیو کررہا تھا—
“بریک فاسٹ کروانے لے جارہا ہوں تمہیں—” وہ نارمل انداز میں بولا—
“مگر کیوں؟”جنت کچھ سختی سے بولی—
“کچھ ڈسکشن بھی کرلیں گے, پراجیکٹ کے حوالے سے—” وہ لاپراوہی سے بولا—
“آپ اس کے لیے کوئی آفیشل میٹنگ ارینج کرلیتے—“جنت دھیمی آواز میں بولی—
“اوہ کم آن جنت اب میں تمہارے ساتھ بھی آفیشل میٹنگ ارینج کرنے لگ گیا تو دوست ہونے کا کیا فائدہ؟” وہی بےپرواہ سا انداز—
“دوست؟” جنت نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا–
“کیوں تمہیں کوئی اعتراض ہے”وہ طنزیہ ہنسا—
“آدھا دبئی گھمادیا کل تمہیں اور اب تمہیں دوستی پر اعتراض ہے؟” اس نے گردن گھما کر جنت کی جانب دیکھا جسکا کھلا منہ اب بند ہوچکا تھا—
“بےفکر رہو میری دوستی تمہیں بالکل مہنگی نہیں پڑے گی—” وہ دھیمے سے مسکرایا—
“بولو گی بھی کچھ؟” اس نے جنت کی جانب دیکھا—
“آپ کی اور میری دوستی کا کوئی جوڑ نہیں بنتا, نہ کوئی معنی— آپ سے میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں آپ مجھے جیسی لڑکی سمجھ رہے ہیں میں قطعاً ویسی نہیں ہوں— آپ کو میری دوستی سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا— پلیز ہمیں اپنے کام تک ہی محدود رہنا چاہئے—“جنت بہت تول کر بولی تھی–
“میرے ساتھ لنچ کرنے, چار باتیں کرنے میں کیا جائے گا تمہارا؟ اتنا مارجن تو ورکنگ لیڈیز اپنے کولیگز کو بھی دے دیتی ہیں—اب کوئی لمبی بحث مت کرنا مجھے تو سمجھ نہیں آرہا تم مجھ سے اتنی خوفزدہ کیوں ہو—“وہ جیسے برا مان گیا تھا—
پالم جمیرا پر بنا یہ ایک پُر آسائیش ولاء تھا جسکے اندر ابھی ان کی گاڑی داخل ہوئی تھی—
“آؤ—” وہ جلدی سے باہر نکلا— جنت کچھ خوفزدہ سی تھی—
“میں کہیں نہیں آرہی— آپ مجھے واپس چھوڑ کر آئیں—” جنت سخت لہجے میں غصے سے بولی—ابراہیم حسین دوسری جانب سے آیا اور دروازہ کھول کر اسے بازو سے پکڑ کر باہر نکالا—
“دوستی میں trust پہلی شرط ہے!” وہ جنت کی ہرنی جیسی خوفزدہ نگاہوں میں دیکھتا بولا—
“تمہیں بری نگاہ سے دیکھوں تو یہ آنکھیں اندھی ہوجائیں—” وہ عجیب سحر پھونک رہا تھا–جنت کو اسکے لہجے کی سچائی پر اعتماد ہوچکا تھا—
“یہ آپ کا گھر ہے؟” جنت اندر لانج میں آتی اس وسیع و عریض رقبے پر پھیلے بنگلے کو دیکھتے بولی— اسکی آنکھوں میں اُبھرتی ستائش و حسرت ابراہیم حسین سے مخفی نہیں رہی تھی—
“ہوں—” ابراہیم کوٹ صوفے پر پھینکتا اسکی جانب دیکھ کر مسکرایا—
“اور کون رہتا ہے یہاں؟”جنت نے پوچھا
“میرا مینجر ہوتا ہے اور ایک کُک ہے بس! ” جنت جو پہلے اندر سے خوفزدہ تھی اب اتنا خوبصورت بنگلا دیکھ کر سب بھول گئی تھی
“آپ اتنے امیر کیسے بنے؟” اس نے ابراہیم حسین کی انلارج پکچر کی جانب دیکھتے بالکل بچکانہ سوال کیا—
“تمہیں بننا ہے امیر؟” جنت کو اپنی پُشت پر اسکی آواز اُبھرتی محسوس ہوئی—اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا وہ اس سے بہت دور پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا—
جنت نے اسکی جانب دیکھتے اثبات میں سرہلایا—
“تمہارے پاس تو امیر ہونے کا ایک ہی راستہ تھا وہ بھی تم نے گنوا دیا—” اس نے افسردگی سے کہا
“کون سا راستہ؟” جنت نے بےتابی سے پوچھا—
“ایک امیر آدمی سے شادی—” ہونٹ بھینچتے اس نے کندھے اُچکائے پھر صوفے پر آکر بیٹھ گیا—اپنے کُک کو آواز لگائی اور ناشتہ لگانے کا کہا—
“کس سوچ میں گُم ہو؟ افسوس ہورہا ہے–” وہ ہنستے ہوئے بولا–
“ویسے بہت جلدی کی تم نے شادی کرنے میں ورنہ تمہارے جیسی لڑکی کو تو کوئی برنس ٹائیکون ہی ملنا چاہیے تھا—قسم سے بہت دل دکھتا ہے تمہیں یوں دو ٹکے کی نوکری کرتا دیکھ کر–” جنت اسکی باتیں سنتی سنتی اسکے سامنے والے صوفے پر آبیٹھی—
“تمہارے باس کا تو میرا دل چاہتا ہے جبڑا توڑ دوں جب وہ تم پر روعب جماتا ہے—” اس نے مٹھی بھینچی—
“تمہارے ہَبی کو ذرا احساس نہیں ہے تمہارا— تمہارے جیسی نازک و پُرکشش بیوی کو تو اُسے اپنے پروں میں سمیٹ کر رکھنا چاہیے—بلیو می جنت تمہیں زندگی نے وہ دیا ہی نہیں جو تم ڈزرو کرتی ہو—“وہ مسلسل اسکی جانب دیکھتے کہہ رہا تھا اور جنت ایک ٹرانس کی کیفیت میں اسے سُن رہی تھی—
“کیا فائدہ ایسی زندگی کا جہاں ضرورت کی چار چیزوں کیلیے تمہیں دس لوگوں کے سامنے ذلیل ہونا پڑے؟” جنت کی آنکھوں کے سامنے میٹنگ روم والی بےعزتی گھوم گئی—
“خیر چھوڑو میں تمہیں یہاں فریش کرنے کیلیے لایا تھا اُلٹا تمہیں ڈِپریس کردیا— آؤ بریک فاسٹ کرتے ہیں—” اس نے اُٹھتے ہوئے جنت کو بھی اشارہ کیا—جو پُرسوچ اور کچھ افسردہ چہرے کے ساتھ کھڑی ہوئی—اس نے ناشتے پر خاصا اہتمام کیا تھا اور ناشتہ سارا انڈین و پاکستانی ڈشز پر مشتمل تھا—
“ڈونلڈز بہت پسند ہیں مجھے اور چوکلیٹ ڈِپز تو فیورٹ ہیں—“وہ اسے پلیٹ میں نکال کر دیتا بولا–
“کیسے لگے؟” اس نے جنت کی جانب دیکھتے پوچھا جس کا موڈ اب کافی خوشگوار تھا
“Delicious!”
وہ مسکرائی—
“مطلب ہماری پسند ایک جیسی ہے—” وہ خوش اخلاقی سے بولا–
ناشتے کے دوران ان کی طویل گفتگو ہوئی پھر ابراہیم حسین نے اس سے پندرہ بیس منٹ پراجیکٹ کی چند ڈیٹیلز شیئر کیں–
“واک کرنا پسند ہے—کولڈ کافی, دبئی کی سنسان سڑکوں پر چہل قدمی اور طویل گفتگو—چلو! “اس نے جنت کو کھڑے ہونے کا کہا جو اسکی لیپ ٹاپ اسکرین پر کچھ ایڈز دیکھ رہی تھی—
“مگر کہاں؟” اس نے سر اُٹھا کر پوچھا—
“بہت سوال کرتی ہو تم—” وہ اسکی گود سے لیپ ٹاپ اُٹھاتا بولا—لیپ ٹاپ لاک کر کے میز کے نیچے بنی جگہ پر رکھا اور اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا—
**********
وہ جمیرا لیک ٹاورز کی سڑکوں پر چہل قدمی کررہے تھے–دونوں کے ہاتھ میں کولڈ کافی تھی—ایم کلسٹر (ٹاور) کے سامنے جنت لیک کے آس پاس حفاظتی گرل پر ایک ہاتھ جمائے کھڑی تھی—اسکی پُرسوچ نگاہیں ٹاور کی اونچائی ناپ رہی تھیں— ابراہیم حسین گرل سے ٹیک لگائے ہلکی دھوپ میں اس کا گلابی چہرہ دیکھ رہا تھا—
“کیا سوچ رہی ہو؟” اس نے کافی کا مگ ہونٹوں سے لگاتے پوچھا—
“آپ کو اپنی وائف کی یاد نہیں آتی؟ آپ تو اتنے امیر ہیں آسانی سے یہاں کے اخراجات پورے کرسکتے ہیں پھر آپ اُنہیں ساتھ کیوں نہیں لاتے—” اسکی بات پر وہ سر جھٹکتا مسکرایا—اسکی ہلکی ہلکی مونچھوں تلے ہونٹ طنزیہ مسکرائے تھے شاید—
“معیز کو مِس کررہی ہو؟” اس نے جنت کی جانب دیکھا جو اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی—
“وہ مجھ سے ناراض ہیں–” زندگی میں پہلی بار اس نے اپنی کوئی پرسنل بات کسی تیسرے بندے سے ڈسکس کی تھی—
“کیوں؟” اس نے جنت کے افسردہ چہرے کی جانب دیکھتے پوچھا—
“کیا ہم پاکستان میں یہ میٹنگ نہیں ارینج کرسکتے یا کل؟” جنت نے بڑے منت بھرے لہجے میں کہا—
“ہممم—” ابراہیم نے سر کو جھٹکا دیا
“تو وہ تمہیں واپس بلا رہا ہے؟ ”
“میں واپس جانا چاہتی ہوں—” جنت تیزی سے بولی—
“آپ مجھے اپنا دوست کہتے ہیں اتنی سی ریکوسٹ نہیں پوری کرسکتے—” جنت نے اپنا مطلب نکلوانا چاہا—وہ ہلکے سے ہنسا پھر دوبارہ ہنسا—
“تو تم نے مان لیا کہ ہم دوست ہیں؟” اس نے وہی سنا جو وہ سننا چاہتا تھا—جنت بری پھنسی–
“چلو پہلے دوستی ڈن کرو پھر سوچتے ہیں—” اس نے جنت کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلایا جنت سے زیادہ تو اسکی رنگت صاف تھی—بالکل سفید یہاں تک کہ ہری نسیں جھانک رہیں تھیں—جنت کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر اس نے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تو جنت نے جھجھکتے ہوئے ہاتھ ملایا–
“یہ رنگ؟” اس نے جنت کی اُنگلیاں اپنی اُنگلیوں میں دباتے پوچھا—نظر انگوٹھی پر تھی—
“معیز نے گفٹ کی تھی—” جنت نے فوراً ہاتھ چھڑاتے کہا—
“تمہارے ہاتھوں میں تو ڈائمنڈ چمکتے اچھے لگیں— سونا تو اتنا سستا ہے—” جنت نے اسکی بات پر پہلو بدلا—
“آپ میٹنگ کب ارینج کریں گے—” وہ رودینے والی ہوگئی–
“تمہیں گھر جانا ہے؟” ابراہیم نے سنجیدگی سے پوچھا— جنت نے فوراً اثبات میں سر ہلایا—
“آج پہلی فلائٹ سے ہی ہم پاکستان جارہے ہیں—ابھی واپسی پر تم اپنے ہاٹل سے اپنا بیگ لے لو—میں ٹکٹ کروادیتا ہوں ایک اہم میٹنگ بھی ہے وہ اٹینڈ کر کے نکلتے ہیں—” وہ زبردستی مسکرایا—
“آپ بھی چلیں گے؟” جنت نے حیرانگی سے پوچھا—
“اب دوست کی حفاظت کرنا تو فرض ہوا نا میرا— تمہارے ہسبینڈ کی طرح تمہیں اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتا نا— کم از کم وہ تمہیں لینے تو آسکتا تھا نا—بجٹ کا بھی مسئلہ ہے—” پہلے خود ہی سوال کرتا پھر خود ہی جواب دینے لگتا—پھر آدھا گھنٹہ وہاں کھجور کے درختوں کے پاس لگے بینچ پر گزار کر جنت کو اسکی غربت کا احساس دلا کر وہ اسے واپس ہاٹل لے آیا تھا اور میٹنگ سے واپسی پر پِک کرنے کا کہہ گیا تھا—
*************
وہ پچھلے پندرہ منٹ سے ویٹنگ روم میں بیٹھا ریسیپشن سے اجازت کا منتظر تھا مگر اسے اجازت تو نہیں ملی مسِ تحریم ضرور مِل گئیں—
“اسلام و علیکم! ” معیز انہیں آتا دیکھ کر فوراً کھڑا ہوا—سفید جینز پر نیلی شرٹ پہنے بال کھولے مِس تحریم اسے دیکھ کر مسکرائیں—
“مجھے آپ کے باس سے ملنا تھا جنت کے سلسلے میں مگر وہ کسی اہم میٹنگ میں مصروف ہیں—” اس نے مدعا بیان کیا—
“جنت کے سلسلے میں؟” انہوں نے آنکھیں چھوٹی کرتے حیرت سے پوچھا—
“جی جنت کے حوالے سے میں یہ پوچھنے آیا ہوں کہ جب وہ کمپنی کے گروپ کے ساتھ گئی تھی تو واپس سب کے ساتھ کیوں نہیں آئی؟ میں نے آپ سب کی اشورٹی پر اُسے پرمیشن دی تھی مگر یہاں تو آپ سب اُسے اکیلا چھوڑ کر بھول ہی گئے ہیں—” سیاہ پینٹ شرٹ میں ہینڈسم سے اس لڑکے کو غصیلے انداز میں نک چڑی مس تحریم سے بات کرتا دیکھ کر سٹاف اِدھر اُدھر کھسکنے لگا—
“آپ کو کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے مِسٹر معیز کیونکہ جنت جس میٹنگ کیلیے رُکی تھی وہ تو اگلے دن ہی کینسل ہوگئی تھی— ابراہیم گروپ آف انڈسٹریز نے اسکا ٹکٹ بھی ایشو کردیا تھا اُسے تو آج یہاں, آفس میں ہونا چاہیے تھا ہمیں لگا سفر کی تھکن کی وجہ سے—اینی ویز آپ اپنی وائف سے کانٹیکٹ کریں بلکہ میں بھی کانٹیکٹ کرتی ہوں—” وہ تیزی سے کہہ کر واپس مُڑ گئیں جبکہ معیز کے سر پر بم گِرا تھا—اسے اپنے آس پاس سناٹے محسوس ہونے لگے پھر جلدی سے اپنا مسینجر کھولا جو اس نے بہت ساری نوٹیفکیشنز کے باوجود بھی نہیں اوپن کیا تھا کہ اُسے ناراضگی جتانی تھی—اسکے بےتحاشا مسیج دیکھ کر اس نے فوراً کال ملائی—-
****************
جنت اپنی پیکنگ کرچکی تھی— ابراہیم حسین بھی پہنچ گیا تھا وہ روم لاک کر رہی تھی جب اسکے موبائل نے رنگ دی— معیز کی کال دیکھ کر اس نے فوراً فون اُٹھایا
“نہیں! پہنچ کر سرپرائز دوں گی—” اس نے چہک کر خود کلامی کی اور وائی فائی آف کردیا—
“چلیں! ” جنت کار میں بیٹھتی پرجوش سی بولی—
“بہت خوش دکھائی دی رہی ہو—” وہ اسکی جانب دیکھتا سنجیدگی سے بولا—وہ کُھل کر مسکرائی—
“معیز کو سرپرائز دوں گی مجھے دیکھ کر حیران ہوجائیں گے—” وہ اسے بتا رہی تھی—
“اتنا انتظار ہے اُسے تمہارا؟” ابراہیم نے پوچھا—جنت نے معصومانہ انداز میں سرہلایا–
“پانچ دن اُن کیلیے پانچ صدیوں کے برابر ہوں گے— بالکل عادت نہیں ہے اُنہیں میرے بغیر رہنے کی—” وہ خود ہی مسکرائے جارہی تھی جبکہ ابراہیم حسین کے چہرے پر تاریک سایہ لہرا گیا تھا جسے اپنی خوشی میں وہ دیکھ نہیں سکی—
شام کے آٹھ بج رہے تھے جب گاڑی دوبارہ اسکے ولاء میں آٹہری–
“ہم تو ائیرپورٹ جارہے تھے نا؟” جنت نے حیرانگی سے پوچھا—
“ہاں وہ میں اپنا لیپ ٹاپ بھول گیا تھا تم گاڑی میں ہی بیٹھی رہو میں لے کر آتا ہوں—” وہ تیزی سے کہہ کر نکل گیا— دس منٹ بعد اسکی واپسی ہوئی—
“کیا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟” وہ پریشان سا فون پر کسی سے گفتگو کررہا تھا ساتھ ہی جنت کی جانب کا دروازہ کھول کر اسے جلدی سے باہر نکلنے کا اشارہ کرنے لگا—وہ ناسمجھی سے اسے دیکھتی باہر آ کر کھڑی ہوگئی—ابراہیم حسین گھوم کر دوسری طرف ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا اور تیزی سے گاڑی ولاء سے نکال کر لے گیا جنت کو سمجھ نہیں آیا ان تین چار منٹ میں ہوا کیا ہے؟ اسکا موبائل ہینڈ بیگ میں تھا جو گاڑی میں رہ گیا تھا اور ٹریولنگ بیگ بھی گاڑی میں تھا—گارڈ نے دروازہ لاک کردیا اور مستعدی سے اپنی ڈیوٹی دینے لگا—جنت پریشان سی گیراج میں کھڑی تھی—اسکا دماغ بالکل ماؤف ہوچکا تھا—
*************
“”ہیلو مسٹر معیز؟” معیز اپنے روم میں اکیڈمی کیلیے لیکچر سلائڈز بنارہا تھا جب ایک انجان نمبر سے کال آئی—لیپ ٹاپ گود سے نیچے اُتار کر وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا—
“تحریم بات کررہی ہوں— ” دوسری جانب سے صنفِ نازک مخاطب تھی
“جی جی کہیں! ” وہ سنبھلا
“میں کنفرم کرچکی ہوں جنت کا جو ٹکٹ کروایا تھا ایک دن پہلے وہ کینسل کروادیا گیا ہے اور وہ ابراہیم حسین کے ولاء میں رہ رہی ہے—آئی ڈونٹ نو واٹ دی ریزن از مگر اطلاع یہی ملی ہے—اب جو بھی پرابلم ہے وہ آپ خود ڈیل کرلیں کہ آپ کی وائف کیوں واپس نہیں آرہیں—بائے!” رابطہ منقطع ہوگیا تھا معیز کے کان سائیں سائیں کررہے تھے—اسکے جبڑے تک کانپ رہے تھے کہ اسکی بیوی دو دن سے کسی غیر مرد کے ولاء میں رہ رہی ہے—
میں نے تجھ پر کیا بھروسہ
تو نے مجھ کو دیا ہے دھوکہ
مجھ سے تجھ کو پیار نہیں تھا
چاہت کا اقرار نہیں تھا
مجھ کو کچھ بھی ہوش نہیں تھا
اس میں تیرا دوش نہیں تھا
***************
معیز اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا— کمرے کی روشنی بھی اسے گُل ہوتی دکھائی دے رہی تھی—ایسا لگ رہا تھا ہر شےء گھوم رہی ہے—
“نن—-نہیں اُن—اُنہیں یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے—” اس نے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھا
اسے رہ رہ کر جنت کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی اسکا پیسے کیلیے جی جان مارنا—اسکا مہنگی مہنگی فرمائشیں کرنا اسکا بار بار دولت کی کمی کو جتانا— شادی سے انکار کی وجہ بھی معیز کا دولت مند نہ ہونا–
اسکے واٹس ایپ پر مسیج آیا تھا—ٹون بجنے پر اس نے بےدلی سے فون دیکھا— تحریم نے تین چار تصویریں بھیجی ہوئیں تھیں—
یہ فاؤنٹین ڈانسنگ شو کے دوران لی گئیں تصویریں تھیں—
نیچےلکھا ہوا تھا—
“Don’t worry, she is enjoying!”
معیز نے موبائل بیڈ پر رکھا اور شکست خوردہ انداز میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگادی— اسکی بائیں آنکھ سے ایک ننھا سا چمکتا موتی گِرا تھا جو گال سے راستہ بناتا ٹھوڑی سے لڑھک گیا—
***************
جنت نے گارڈ سے کئی مرتبہ درخواست کی کہ وہ ابراہیم سے اسکا رابطہ کروا دے مگر اُس نے انکار کردیا—جنت نے زیادہ بدتمیزی کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا وہ ان کے رحم و کرم پر تھی— بہت ڈر ڈر کر اندر داخل ہوئی اور جو پہلا کمرہ نظر آیا تیزی سے اُس میں گھس کر لاک لگالیا— اس عالیشان بنگلے کے سناٹے اور رات کے اندھیرے سے آج اسے بےتحاشا خوف آرہا تھا—آنسوؤں و سسکیوں کے درمیان کب آسمان پر سورج کی روشنی پھوٹی اسے علم نہیں ہوا—-اسے لگ رہا تھا کہ ابراہیم حسین پر بھروسہ کر کے اس نے بہت بڑی غلطی کردی ہے—
صبح کے کوئی نو بج رہے ہوں گے جب روم کا دروازہ بجا—ہلکے گلابی لباس میں ملبوس وہ سہم کر دیوار سے لگ گئی— گھٹنوں میں سر دیے وہ نیچے ٹھنڈی ٹائلز پر بیٹھی تھی—
“جنت میں ہوں ابراہیم—دروازہ کھولو یار! ” وہ نہایت دوستانہ انداز میں کہہ رہا تھا—جنت تیزی سے اُٹھی اور دروازہ کھول دیا باہر ہی وہ پریشان سا کھڑا تھا اسکی حالت دیکھ کر تو اسکی پریشان دس گنا بڑھ گئی—
“کیا ہوا ہے تمہیں؟ اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو؟ جنت؟” وہ بےتحاشا بےقراری سے اسکی جانب بڑھا مگر جنت دو قدم پیچھے ہوئی—
“آپ کو احساس بھی ہے کہ آپ کس قدر غیر ذمہ دار انسان ہیں؟ کس قدر—” وہ کچھ سخت بولتے بولتے رہ گئی پھر اسکے سائیڈ سے نکل کر جانے لگی جب ابراہیم حسین نے اسکا بازو پکڑ کر کھینچا
“کہاں جارہی ہو؟” وہ اُلجھا—
“جہنم میں— ” جنت دھاڑی—
“جنت ریلیکس ہوجاؤ پلیز—تم اس وقت میری پریشانی کا اندازہ نہیں لگاسکتی میں اس قدر تکلیف میں بھی تمہیں نہیں بھولا—میرے فادر کی کنڈیشن بہت خراب ہوگئی تھی میرا جانا ضروری تھا پلیز اس طرح بےہیو مت کرو–” وہ بہت بےچارگی سے کہہ رہا تھا—جنت نے ہاتھ کی پُشت سے اپنے آنسو پونچھے—
“کیا ہوا ہے آپ کے فادر کو؟ اور کہاں ہیں وہ؟” جنت کی ہمدردانہ طبیعت عود کر سامنے آئی
“بتاتا ہوں سب پہلے فیس واش کر کے آؤ— دیکھو ذرا کیا حالت بنالی ہے میں تو پریشان ہی ہوگیا تھا—زمین نکال دی تھی تم نے میرے پیروں تلے سے—” اسکے نارمل لہجے سے جنت کو کچھ ڈھارس ہوئی—
وہ واش روم سے ہاتھ منہ دھو کر باہر نکلی تو ابراہیم حسین کو اپنے انتظار میں کھڑے دیکھا—
“آؤ–” ابراہیم نے اسے اپنے ساتھ آنے کا کہا جنت اسکے پیچھے پیچھے چل رہی تھی— باہر لان میں پہنچ کر وہ آگے بڑھ گیا جب کہ جنت ٹھٹھک کر رُک گئی—پورا لان ریڈ اور وائٹ غباروں سے سجا پڑا تھا اور لان کے ایک طرف شیشے کی بڑی گول میز پر پھولوں کی پتیوں کے درمیان کیک پڑا تھا— پھولوں کی روش بالکل جنت کے پیر کے سامنے تھی—
“آؤ نا!” ابراہیم نے اسے کلائی سے پکڑ کر کھینچا وہ ٹرانس کی کیفیت میں اسکے ساتھ گھسیٹتی چلی گئی—
اسے بالکل میز کے پاس کھڑا کر کے اس نے اپنی کوٹ کی پاکٹ سے ایک مخملی ڈبیا نکالی— اس میں سے ڈائمنڈ کی رنگ نکال کر جنت کی طرف بڑھائی—
“Will you marry me?”
اسکے سوال نے جنت کو جیسے نیند میں جھنجھوڑ دیا تھا–
“یہ—یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” جنت اٹک اٹک کر بولی— آج اسکی خواہش پوری ہوئی بھی تھی تو کیسے جب ہر راستہ بند تھا—
“میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں جنت–” وہ مخمور لہجے میں کہتا اسکا ہاتھ پکڑنے کو آگے بڑھا تھا کہ جنت اُلٹے قدم پیچھے ہٹی—
“I am married”
جنت نے تیز لہجے میں اسے باور کروایا— ابراہیم حسین نے ایک ہاتھ پسلی پر رکھے دوسرے سے پیشانی مسلی–
“سیپریشن میں کتنا ٹائم لگتا ہے یار؟” ابراہیم حسین ناگواری سے بولا—جنت نے ایسی نظر سے اسے دیکھا جیسے اسکا ذہنی توازن بگڑگیا ہو–
“مجھے بہت لیٹ ہوگیا ہے— آئی نیڈ ٹو گو—” جنت اسکے سامنے سے ہٹنے لگی جب ابراہیم حسین نے طیش میں آ کر اسے بازو سے گھسیٹ کر اپنے قریب کیا—
“You can’t cheat me!”
اپنی سیاہ آنکھیں پوری کھول کر وہ سرد ٹہرے لہجے میں اسکی ساحر آنکھوں میں جھانکتا بولا—بازو پر گرفت بہت سخت تھی—جنت نے تھوک نگلا—
“تمہیں تمہاری اوقات سے زیادہ دے رہا ہوں تبھی نخرے دِکھا رہی ہو؟” دانت پیستے اس نے جنت کے بازو کو جھٹکا دیا—
“یہ؟ یہ دیا ہے اُس دو ٹکے کے آدمی نے تمہیں—” اس نے جنت کا لٹکتا ہاتھ بےدردی سے اپنی گرفت میں لیتے اس میں پڑی سونے کی انگوٹھی اُتار کر دور پھینکی—جنت بھیگی نظروں سے دور گھاس پر پڑی انگوٹھی کو دیکھ رہی تھی جسے معیز بڑی چاہ سے باتوں کے دوران اسکی اُنگلی میں گھماتا رہتا تھا—
“Look at me jannat! ”
اس نے جنت کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اپنے سامنے کرتے کہا جو گم صم سے انداز میں اب تک دور پڑی انگوٹھی دیکھ رہی تھی—
“اتنا خوبصورت نام لے کر کیوں دوزخ میں جل رہی ہو؟ میں تمہارے قدموں میں دنیا بھر کی آسائشیں ڈال دوں گا—میری جنت میں قدم رکھ کر تو دیکھو” وہ بول رہا تھا مگر جنت ہونٹ مروڑ رہی تھی جیسے اپنے آنسوؤں پر بند باندھ رہی ہو مگر وہ ناکام ہوگئی تھی—دونوں ہاتھ ہونٹوں پر رکھ کر وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی— اس کا انداز بالکل ایسا تھا جیسے کوئی اپنے پیارے کی میت کے کنارے بیٹھا ہو—ہاں وہ بھی دولت کے انبار کو دفن کر کے اُسکی میت پر آنسو بہارہی تھی—کوئی سامنے کھڑا کہہ رہا تھا
“جنت تم امیر آدمی سے شادی کرنا چاہتی تھی نا؟ لو وہ خود تمہارے پاس چل کر آیا ہے—”
“عیش و آرام, آسائیشات, بنگلے, گاڑیاں کیا نہیں ہے سامنے کھڑے شخص کے پاس؟ ایک فُل پیکج–”
“جنت! ” ابراہیم حسین نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھنا چاہا تو جنت فوراً دور ہٹی–
“آج آپ نے مجھے ایک ایسے امتحان میں ڈال دیا جس میں میرے بہکنے کے چانسز اَسی فیصد تھے مگر نجانے کیوں میں بہک نہیں رہی ابراہیم حسین— دولت ضرور چاہیے تھی مجھے مگر یہ عیش و عشرت معیز کا متبادل نہیں ہوسکتی—بالکل بھی نہیں—میں آپ کے بارے میں کیا کسی کے بارے میں ایسا نہیں سوچ سکتی—ممم—میں کیسے معیز کو چھوڑنے کا سوچ سکتی ہوں؟ میں شاید اپنی کیفیت کبھی نہیں سمجھ سکتی, کبھی اندازہ نہیں لگا سکتی کہ معیز میری زندگی میں کتنے اہم ہیں اگر آپ نے مجھے ایسی آفر نہ دی ہوتی تو—کیا میں آپ کو پیسے کی اتنی لالچی نظر آتی ہوں؟ کیا میں اتنی بری عورت ہوسکتی ہوں؟” جنت نے اسے ان نظروں سے دیکھا جیسے اسے ابراہیم حسین سے ایسی اُمید نہیں تھی—
“پہلے میری زندگی میں ایک بڑے سے بنگلے میں رہنے کا خواب شامل تھا مگر اب ایک بڑے سے بنگلے میں معیز کے ساتھ رہنے کا خواب دیکھتی ہوں—پاگل ہوں نا بس!” وہ زخمی ہنسی ہنس دی—
“آپ نے تو بکاؤ مال ہی سمجھ لیا–” اس نے واہ کے انداز میں ہاتھ بلند کیا— ابراہیم حسین نے ہونٹ بھینچتے سر جھکایا–
“آپ نے سوچا ہوگا پیسے کمانے کی دُھن سوار ہے لڑکی پر کیوں نہ ہاتھ صاف کرلیا جائے— جب آپ کا کام اُلٹے طریقے سے نہیں نکلا تو آپ نے اسے بہت مناسب انداز میں میرے سامنے پیش کردیا—“اس نے تاسف سے اسے دیکھا—
“ایسا نہیں ہے جنت!”
“ایسا ہی ہے بالکل ایسا ہے—” وہ اسکی بات کاٹ کر روتی ہوئی بولی—
“آپ نے صحیح کہا تھا غریب کی کوئی عزت نہیں ہے جس کا جو دل چاہے بول دے, کہہ دے, کر دے— دنیا پیسے کی عزت کرتی ہے انسان کی نہیں ابراہیم حسین اور یہ بات آج ایک بار پھر جتادی آپ نے— جو دنیا پیسے کو پوجتی ہو وہاں جنت ستار جیسی ہی لڑکیاں جنم لیتی ہیں—امیر شوہر کے خواب دیکھنے والی—” وہ جیسے اپنے آپ سے بےزار تھی—
“آپ نے کیسے بےدھڑک مجھے شادی کی آفر کردی صرف و صرف اپنے پیسے کے زور پر ورنہ اپنے سے آدھی عمر کی شادی شدہ لڑکی کو ایسی آفر کرتے آپ کو ش—” جنت نے تھوک نگلتے نفرت سے سر جھٹکا—
“مجھے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے جنت اگر تمہیں پرپورز کیا ہے تو جسٹ بی کاز آف لو!” وہ اپنی بات پر زور دیا کر بولا–
“او شٹ اپ!” جنت نے سختی سے اسکی بات کی تردید کی—
“دو ملاقاتوں میں آپ کو محبت ہوگئی اور اگر ہو بھی گئی ہے تو یہ آپ کا مسئلہ ہے میرا نہیں—آج تک آپکی ہر بات سنتی اور برداشت کرتی آئی یہ سوچ کر کہ دو دن ہیں جنت پھر کون اس سے ملے گا—بول لینے دو–بس اس پراجیکٹ پر کام کرلیا تو پوسٹ سٹرونگ ہوجائے گی, کمیشن مل جائے گا—اگر آپ کے ارادوں سے پہلے آگاہ ہوجاتی تو شاید آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا–” وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور دور پڑی انگوٹھی اُٹھا کر اپنی اُنگلی میں واپس چڑھائی—
اس نے نظر اُٹھا کر پالم جمیرا پر بنے اس مہنگے ترین بنگلے کو دیکھا مگر اسکے دل میں اب وہ حسرت نہیں رہی تھی کیونکہ اس بنگے کی قیمت معیز سے علیحدگی تھی اور دولت اسکی ترجیحات میں اب دوسرے نمبر پر آگئی تھی— ہاں اگر اسکی زندگی میں معیز نہ ہوتا تو وہ شاید یہ حماقت کر بھی جاتی—
“آپ کی گاڑی لاکڈ ہے مجھے اپنا سامان نکالنا ہے–” کچھ دیر بعد جنت پھر واپس آئی تھی—ابراہیم حسین میز کے پاس پڑی ایک کرسی پر بیٹھا اُس ڈائمنڈ رنگ کو میز پر گھما رہا تھا جسکا اسے یقین تھا کہ جنت ہر قیمت پر پہن لے گی—
جنت کے لاتعلق انداز پر وہ سنجیدہ چہرے کے ساتھ کھڑا ہوا اور اپنی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا— جنت نے اسی لاتعلقی سے اپنا ہینڈ بیگ اُٹھایا جب وہ اسکی جانب دیکھے بغیر بولا
“میں تمہیں ائیرپورٹ ڈراپ کردوں گا—”
“شکریہ آپ کا—” جنت تیکھے لہجے میں بولی— ابراہیم حسین نے اپنا غصہ کنٹرول کرنے کیلیے سٹیرنگ پر گرفت مضبوط کی—
“مت بھولو تم ابھی یہاں میرے رحم و کرم پر ہو—” اس نے جانے کیا جتایا تھا کہ جنت غصے سے بھری گاڑی میں بیٹھ گئی—پورا راستہ خاموش گزرا تھا— ابراہیم نے اسکا ٹکٹ کروایا—سات گھنٹے بعد کی فلائٹ تھی اور جنت نے یہ سارا وقت تنہا ائیرپورٹ پر اپنی ذات کا احتساب کرتے گزارا تھا مطلب اسکی خواہشات کو دولت کی ہوس سمجھا جاتا تھا—
لوگ کیوں سمجھتے ہیں کہ بڑے گھر اور گاڑی کی خواہشمند لڑکیاں پیسے کیلیے کچھ بھی کرسکتے ہیں؟
وہ سوچ رہی تھی کہ اس کے کس عمل نے اُسے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ ایک امیر شخص کیلیے اپنے شوہر کو چھوڑ دے گی— اُسکے کون سے انداز سے اُس نے اندازہ لگا لیا کہ وہ پیسے کیلیے کچھ بھی کر گزرنے والی لڑکی ہے—
*****************