حال ..تین سال بعد
رات کی تاریکی نے اپنے پر پھیلا لئے تھے ۔۔ زوالقرنین ہاؤس میں بھی خاموشی کا راج تھا ۔۔۔ گھر کے مکیں محو خواب تھے سوا ۓ ہانیہ کے ۔
جب ہی فون کی گھنٹی نے اس سکوت کو تھوڑا ۔۔۔وہ جو اپنی سوچوں میں گم تھی یک دم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی” ۔۔اس وقت کون ہو سکتا ہے ۔۔”
"ہیلو "۔۔ہانیہ نے فون اٹھا کر پوچھا
"ہیلو ۔۔ کیا آپ ریاض ملک کو جانتی ہیں ؟”۔۔۔ دوسری طرف سے سوال پوچھا گیا تھا
"جی ۔ وہ میرے والد ہیں ۔۔ کیوں کیا ہوا ہے ۔۔ اور آپ کون بات کر رہیں ہیں "۔۔ ہانیہ کو ریم بیگم کی موت کا پتا چل چکا تھا سچائی جان کر وہ ابھی تک یقین ہی نہ کر پائی تھی ۔اس کو۔ دل سے افسوس ہوا تہ کے اس کے والدین کے الگ ہونے کی وجوہات کیا تھیں ۔
"میم ۔۔ میں ہوسپٹل سے بات کر رہی ہوں آپ کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔۔ ان کی حالت اتنے نازک نہیں مگر اتنی اچھی بھی نہیں ہے ۔۔انہوں نے ہمیں آپ کا ہی کنٹیکٹ دیا ہے "۔۔ دوسری طرف موجود خاتون بتانے میں مصروف تھی جبکہ ہانیہ کو ا یک اور جھٹکا ملا تھا ۔۔ پہلے ماں باپ ساتھ ہی نہیں تھے جو۔ اب حالات ٹھیک۔ ہوتے لگ رہے تھے تو ان کو بھی شاہد نظر لگ رہی تھی ۔
ہانیہ نے جلدی سے ہاسپٹل کا پتا پوچھا ۔۔اور فون کراڈل پر رکھ کر زوالقرنین صاحب کے کمرے کی طرف بڑھی
"۔۔نانا جی "۔۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا
"کیا ہوا ہے بیٹا ۔۔اتنی رات کو سب ٹھیک ہے ۔”۔ وہ آنکھوں پر چشمہ لگا کر بولے
"نانا جی وہ بابا ۔۔”۔ ہانیہ نے ہکلاتے ہوۓ کہا
"ہاں بیٹا بولو کیا ہوا ہے ۔”۔۔ ریاض صاحب بھی پریشان ہوۓ
"بابا کو۔ ہارٹ اٹیک ہوا۔ ہے ۔۔ ہوسپٹل سے فون تھا” ۔۔اس نے زوالقرنین صاحب کو مطلع کیا ۔
وہ جو تمام سچائی سن چکے تھے۔ انکو۔ لگا تھا شاید اب سمیہ کے زندگی میں رنگ آئین گے پر یہ آس بھی ڈگمگا نے لگی تھی ۔۔
"میں ہوسپٹل جاتا ہوں تم سمیہ کے ساتھ رہو وہاں پہنچ کر فون پر خبر دیتا ہوں” ۔وہ جلدی جلدی جوتے پہنے لگے ۔ اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکلے
"نانا جی۔ میرا خیال ہے ماما کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں ۔شاید یہ ہی اچھا ہو ۔ ”
"مگر بیٹا” انہوں نے ہانیہ کی بات سن کر کہا
"شاھد یہی کرنا سہی ہو ۔۔۔شاید سب ایسا ہی ہونا لکھا ہے ۔۔ ”
"چلو ٹھیک۔ ہے بیٹا ۔۔ سمیہ کو۔ بھی لے اؤ ۔ پر ریاض کا نہ بتانا کسی۔ عزیز کا بتانا ”
"ٹھیک ہے ” ہانیہ نے زوالقرنین صاحب کی بات کا جواب دیا
وہ لوگ سمیہ بیگم۔ کے ساتھ ہوسپٹل کی طرف روانہ ہوۓ
"بابا ایسے کونسے عزیز ہیں آپ کے جن کا مجھے علم نہیں ہے "۔۔اسمیہ بیگم کی چھٹی حس ان کو کچھ اور خبر دے رہی تھی
"بس ہیں کوئی” ،زوالقرنین، صاحب کی طرف سے جواب آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوسپٹل میں اس پہر بھی کافی لوگ تھے مگر دن کی روشنی میں ہونا والا رش نہیں تھا اس کی سنسان رہ داریاں اور سفید رنگ کی دیوارن وحشت زادہ ماحول پیدا کر رہیں تھیں ۔ ڈس انفکٹنٹ کی بو چاروں اور پھیلی تھی
"تم۔ لوگ یہاں۔ روکو میں ریشپشن سے روم۔ کا۔ پتا کر کے آتا ہوں "۔۔ زوالقرنین صاحب نے اندر داخل ہو کر کہا
"کوئی مجھے بھی بتائے گا کے کیا ہو رہا ہے ۔”۔ سمیہ بیگم۔ نے پریشانی کے عالَم میں ان کو دیکھا
ہانیہ نے ان کی طرف پرشانی سے دیکھا تھا ۔۔د”راصل ماما بابا کی طیبعت کچھ خراب ہے ۔۔”
"کیا ۔۔ تو اؤ لوگوں نے مجھے پہلے بتانے کی کوشش بھی نہیں کی
تم لوگوں سے ایسی امید تو نہیں تھی ۔”۔ یہ بات سن کر وہ قدرے اونچی آواز میں بولیں ۔۔ان کا دماغ بلکل سن ہو چکا تھا ۔۔ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھیں ۔۔
ہانیہ نے ان کو سمبھالا تھا ۔
"روم نمبر دس ہے تیسری منزل پر ۔۔ میرے ساتھ آؤ ۔۔ آپ۔ لوگ ۔۔
سمیہ بچے ۔”۔ وہ اپنے ہی دھیان میں آ رہے تھے پر سمیہ بیگم کی حالات دیکھ کر وہی روک گے ۔
"میں ٹھیک ہوں بابا جلدی چلیں” ۔سمیہ بیگم کچھ حوصلہ کر کے بولیں اور ان کے ساتھ چل پڑیں تیسری منزل پر پہنچ کر وہ کمرہ نمبر دس کے سامنے روک گئے
وہ کمرے کے اندر داخل ہونے لگے پر اس سے پہلے نرس اندر دروازہ کھول کر باہر آئی
"سر ! صرف ان کے رشتہ در ہی ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔اور ایک وقت میں یک انسان ہی ان سے ملاقات کر سکتا ہے ۔کوشش کریں مریض سے کوئی ڈپریشن والی بات نہ کریں۔” وہ روئی ،سارینجز ،ڈراپ وغیرہ سے بھری ٹرے سمبھال کر بولی
انہوں گہرا سانس لیا اور سمیہ بیگم کی طرف دیکھ کر ان کو اندر جانے کو کہا
سمیہ بیگم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں ۔ریاض صاحب کی نظر کی تو دل کسی نے مٹھی میں جھکڑا ۔۔
ریاض صاحب کا چہرہ زرد پڑھ چکا تھا ۔ وہ بستر پر آنکھیں بند کر کے لیٹے تھے ۔۔ ڈراپ اسٹینڈ سے لٹک رہی تھی ۔۔ مشین کی آواز فضا میں شور پیدا کر رہی تھی
سمیہ بیگم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتیں بیڈ ٹک پہنچیں ۔
ان کی آنکھوں سے اشک رواں تھے ۔۔
"ریاض ۔”۔انہوں نے دھیمے سے نام لیا
پر جواب ندارات تھا ۔۔۔
"ریاض "۔۔۔انہوں نے دوبارہ ان۔ کو پکارا ۔۔
"سم ۔۔۔سمیہ ۔۔سمی "ریاض صاحب کی ہلکی۔ سی آواز آئی ۔۔ ان کی آنکھیں ہلکے سے کھلیں
"جی میں ہی ہوں ۔”۔ سمیہ بیگم کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کے کیا بولیں کیا نہ بولیں
"تم آ گئی جو مجھے پہلے پتا ہوتا تو ” ۔۔۔۔وہ نقاہت کی وجہ سے روکے۔”۔ میں پہلے ہی بیمار پڑھ جاتا ”
"آپ مجھے سکوں میں دیکھ ہی۔ نہیں سکتے ہیں ۔۔جب ہی کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ جو۔ میرا سکون خراب کرے ”
سمیہ بیگم لاکھ ناراض سہی پر ریاض صاحب آج بھی ان کے شوہر تھے ،۔ان کو۔ محبوب تو پہلے ہی تھے پر سچائی جاننے کے بعد وہ بے اعتباری اور دکھ کے بادل بھی جھٹنے لگے تھے
"تمھیں سکون دینے کے لئے ہی تو تم سے اتنے عرصہ دور رہا ۔”۔۔وہ کچھ تاوقف سے بولے
"اب تو راضی ہو یا اس جہاں فانی سے کوچ کریں گے تو آپ راضی ہوں گی ۔۔’۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ سے بولے
"ہاں آپ تو بس یہی چاہتے ہیں کے کہیں سمیہ سکون سے بیٹھ گئی تو کیا ہو گا ۔۔کبھی تو ایسا کہیں کے آپ کو اچھا سوچ کے یاد کروں ۔”۔سمیہ۔ بیگم کو۔ ان کی۔ بات سن کر تپ چھڑی
"اچھا آپ ہمیں سوچتیں تھیں ۔۔واقعی ہی کسی نے سہی ہی کہا ہے ۔۔ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ”
"آپ اور آپ کی۔ فلو سفی ۔۔میری سمجھ سے باہر ہے ” ۔۔سمیہ بیگم ان کا زرد چہرہ دیکھ کر بولیں
تب ہی کمرے کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر اندر داخل ہوا اور ساتھ پہلے والی نرس بھی تھی ۔۔جو کچھ فائلز اٹھائے ۔”میم ۔۔ مریض کو آرام کرنے دیں”۔ نرس نے سمیہ بیگم سے کہا
‘جی ٹھیک ہے "۔۔وہ نرس سے مخاطب ہوئیں
"میں ذرا ہانیہ کے سسرال والوں سے بات کر لوں آپ کی طبعیت ٹھیک۔ نہیں تو نکاح کی تاریخ کو آگے کر دینا چاہیے ۔۔۔”
وہ کہہ کے مڑنے لگیں تو ریاض صاحب نے ان کا ہاتھ تھام لیا ۔۔
"جب باپ بوڑھے ہو جائیں تو ان کو سب سے زیادہ فکر اپنے بچوں کی ہی ہوتی ہے ۔۔خاص کربیٹیوں کی ۔۔
باپ کا سایہ بیٹیوں کے لئے دھوپ میں چھاؤں جیسا ہوتا ۔۔۔ باپ کب چاہے گا کے ان کے بعد وہ تپتی دھوپ میں جلیں ۔۔ ۔۔ تو پھر میں کیسے اس حالت میں رشتے سے منا کر دوں "۔۔انہوں نے سمیہ بیگم کی طرف دیکھ کر کہا
"میم ۔”۔ نرس جو انجکشن تیار کر کے مڑی تو سمیہ بیگم کو دیکھ کر بولیں ۔۔
"میں۔ باہر ہی ہوں ۔”۔ وہ بول کر باہر کی طرف بڑھیں
"اب ناراض نہیں ہو نا” ۔۔ ریاض صاحب کی۔ آواز آئی
وہ ان کی۔ طرف دیکھ کر مسکرائیں اور سر کو نفی میں جنبش دی اور باہر کی طرف بڑھ گئیں
ریاض صاحب نے بھی مسکرا کر آنکھیں موند لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑی صبح کےسات بجا رہی تھی ۔۔ شاہ ویلا میں۔معمول کے مطابق چہل پہل تھی ۔سب کھانے کی۔ میز پر جمع تھے ۔روز کی روٹین کے مطابق سب بچے کالج یونیورسٹی جانے کے لئے تیار تھے جبکہ وجدان اور زمان آفس کے لئے ۔۔ بی جان ،زرینہ اور شازمہ بیگم بھی کہیں جانے کے لئے تیار تھیں
"بی جان آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں "۔۔ شاہ زین نے ناشتہ کرتے ہوۓ بی جان سے پوچھا
"کسی کام سے جا۔ رہے ہیں بچے دوپہر تک واپس آ جائیں گے” ۔۔بی جان ناشتہ کرتے ہوۓ بولیں
"جی ۔”۔ زین کی۔ اتنی ہی ہمّت تھی پوچھنے کی ۔۔
بی جان ناشتہ کر چکیں تو وجدان کی طرف دیکھ کر بولیں” بیٹا ہم تمھیں فون کریں گے تو لینے آ جانا ۔۔”
"مگر ۔دادی ۔جان ۔میں کیسے” وجدان کو ڈر تھا کے ریاض صاحب پہچان لیں گے ۔۔
"جی !! وجی بھیا کیسے آئین گے ۔۔میں لینے آ جاؤں گا "۔۔ شاہ زین ایک بار پھر سے بولا
"جب میں نے کہہ دیا کے وجدان ہی آئے گا تو وجدان ہی آئے گا ” ۔۔ بی جان حکم صا در کر کے اٹھیں اور باہر کی طرف چل دن شازمہ بیگم اور زرینہ بیگم بھی ان کے ساتھ ہو لیں
"دعا اور امبرین اپنے گھر جا کر کچھ کام۔ بھی کر لینا بچے یہاں ہی نہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ۔”۔۔شازمہ ان کو کہتے ہوۓ باہر چل دیں
جبکہ وجدان اپنی سوچ میں گم تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...