رات کی سیاہی بڑھتی جارہی تھی ہر طرف اندھیرے کا راج قائم ہونے لگا تھا
وہ لوگ چلتے ہوئے آرہے تھے سامنے ہی لوہے کا ایک وسیع دروازہ تھا جو کافی پرانہ اور خستہ حال تھا
انہوں نے اُسے دھکیلا تو وہ آواز کرتے ساتھ کھلتا چلا گیا
ان لوگوں کی قدموں کی چھاپ اس خاموشی میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی
کسی کہ ہاتھ میں مائیک کسی کہ ہاتھ میں کیمرہ تھا وہ لوگ شاید شوٹنگ کرنے آئے تھے
“افف یہ حویلی کتنی پیاری اور کتنی بڑی ہے” منیبہ نے رشک سے کہا
“واقعی خوابوں سی لگ رہی ہے” دانیال نے بھی اس کی تائید کی
“ہمیں اچھا موقع مل گیا شہرت حاصل کرنے کا اس سے کافی منافع ہونا ہے ہمارا” مزمل نے بھی ٹکڑا لگایا
“دوستوں یہ حویلی بڑی خوفناک ہے سب کچھ چھوڑو چلو یہاں سے” یشفہ نے خوف سے کہا سب کا ہی منہ بن گیا
“اوو کم آن!! یشفہ تم ہمیشہ ایسی ہی باتیں کرکے ہماری خوشی،جوش،سب ختم کردیتی ہو”
آ”ج تم نے کچھ نہیں بولنا سمجھ گئیں”؟ منیبہ نے اُسے ناگواری سے ڈپٹا
“میں نے منع کیا تھا مجھے نہیں جانا تم لوگ چلے جاتے مجھے گھسیٹ کر لانے کی کیا ضرورت تھی” وہ رخ موڑ کر خفگی سے بولی
“ہاں ہمیں بھی کوئی شوق نہیں ہے میڈم آپکو لانے کا وہ تو آپکی ہوسٹینگ اچھی ہے اس لئے مجبورا ہمیں آپکو لانا پڑا” مزمل نے تپ کر کہا
“ہونہہ” یشفہ نے ناک چڑھائی
“لڑائی بعد میں کرلینا اب چلو اندر” دانیال نے دونوں کو ٹوکا سب اندر کی جانب چل پڑھے
انہوں نے راہداری عبور کی تو سامنے ہی حویلی کا داخلی دروازہ نظر آیا جس پر قفل ڈالا ہوا تھا
مزمل نے جیب سے ماسڑ چابی نکالی اور باآسانی لاک کھول لیا
“یار بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونا غلط ہے میں دوبارہ کہہ رہی ہوں چلتے ہیں” یشفہ نے بے چینی سے کہا تو سب نے اُسے گھورا
“شششش!!! اب آواز آئی نہ تو تمہیں یہیں چھوڑ کر بھاگ جائینگے ہم یاد رکھنا “مزمل نے تنبیہہ کیا تو وہ تھوک نگلتی خاموش ہوگئی
گویا وہ لوگ سچ مچ ہی اُسے یہاں نہ چھوڑ جائیں
وہ لوگ اندر داخل ہوئے تو سامنے ہی جالے نے ان کا استقبال کیا تھا
“یخخخ!!!” منیبہ نے برا سا منہ بنایا اور جالے کے نیچے سے نکل آئی
دانیال نے جالے کو نیچے گرا دیا ان سب کے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ ایک جھٹکے سے بند ہوتا چلا گیا
سب نے ہی پلٹ کر دیکھا تھا اور سب کے منہ کھل گئے تھے
“یہ دروازہ کیسے بند ہوگیا؟” یشفہ نے ڈر کر کہا
“پتا نہیں شاید ہوا سے”؟ منیبہ نے خوف سے سختی سے یشفہ کا ہاتھ دبوچ لیا
“آہ!!!۔۔ یشفہ نے کراہ کر اُسے گھورا
“چلو اوپر دیکھتے ہیں”… دانیال نے آگے قدم بڑھائے تو باقیوں نے بھی مجبورا اس کے پیچھے چلنا شروع کیا
یہ ایک کشادہ سا لاؤنج تھا جس میں مہنگے مگر مٹی سے لبریز صوفے بیچ میں ایک میز جس پر بھی مٹی کی تہہ بچھی ہوئی تھی
بائیں طرف ایک خوبصورت سا کچن اور کچن کے کچھ فاصلہ پر ڈائینگ ٹیبل کا انتظام کیا ہوا تھا
لاونج کے دائیں بائیں دونوں اطراف میں زینیں تھیں
جو اوپر کی جانب جاتی تھیں جہاں کافی کمرے تھے
ان لوگوں نے سیڑھیوں پر قدم رکھا اور آہستہ آہستہ وہ زینیں چڑھنے لگی
کسی کی کرسی ہلانے کی آواز مسلسل آرہی تھی انہوں نے لاؤنج میں موجود کرسیوں کا جائزہ لیا جن میں کوئی جنبش نہ تھی
“لگتا ہے کسی کمرے کی کھڑکی کھلی ہے تبھی ہوا کی وجہ سے کرسی ہل رہی ہے؟” منیبہ نے سرگوشی کی
“آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے ہوا چلتی ہے تب کرسی ضرور ہلتی ہے مگر جب ہوا نہیں چلتی تو کرسی کہ ہلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور آج ہوا تو کیا ہوا کا “ہ” بھی نہیں ہے”… یشفہ نے جل کر کہا تھا اور وہ برا سا منہ بنا کر خاموش ہوگئی تھی
ان لوگوں نے سامنے والے کمرے کے دروازے کا ہینڈل گھمایا تو سب کہ ہی چھکے چھوٹ چکے تھے
کرسی ہوا سے نہیں بلکہ کسی کہ بیٹھنے سے ہل رہی تھی حالانکہ دروازہ پر تو قفل تھے پھر یہاں کسی مکین کا ہونا کیسے ممکن ہے ہر کوئی الجھن کا شکار تھا
“کون ہیں آپ اور یہاں کیسے؟”… مزمل نے آخر پوچھ ہی ڈالا جن سے ان کی کرسی چلنا آہستہ آہستہ رک گئی
“کون ہے وہ بیوقوف جس نے ہاجرہ بی بی کو تنگ کیا؟”… کسی کی گرجدار آواز پر سب ہی اچھل کر دو قدم پیچھے ہوئے تھے
ان کی گردن بغیر ان کے دھڑ کہ ہلے نویں ڈگری اینگل میں گھوم چکی تھی
منیبہ اور یشفہ کی حلق سے چیخ برآمد ہوئی تھی ان کی حالت ہی ایسی تھی کہ ہر ایک کی جان نکل جائے
بلکل جلا ہوا چہرہ سفید موتیا سی آنکھیں سفید بال سخت اُلجھے
اور اوپر کی جانب اُٹھے ہوئے سفید ساڑھی جس پر خون کہ دھبہ لگے ہوئے تھے منیبہ کا خوف سے برا حال تھا
سب ہی اپنا حلق تر کررہے تھے وہ اُٹھیں تھیں تبھی سب نے دروازہ سے نکلنا چاہا مگر دروازہ ان کہ منہ پر بند ہوگیا
“کھولو کوئی کھولو”…. سب یک زبان ہوکر چیخنے لگے تبھی سب کو اپنا گلا کسی کہ شکنجے میں پھنسا محسوس ہوا
سب کی ہی جان پر بن گئی وہ لوگ ہاتھ پیر مارنے لگے مگر بے سدھ وہ انہیں اسی انداز میں لئے نیچے کی جانب بڑھنے لگی تھیں۔۔۔