(Last Updated On: )
بیٹا اور سناؤ… خیال تو رکھتی ہے نا تمہارا۔۔ دونوں کے تیار ہونے تک اماں اور ماہا آ گئے تھے۔۔ وہ دونوں بھی تیار ہو کر ان کے سامنے لاؤنج میں صوفے پہ بیٹھے تھے۔۔ ملازمہ کھانا لگا رہی تھی جب اماں نے آہان سے پوچھا کیونکہ اپنی بیٹی سے تو انہیں کوئی اچھی امید تھی نہیں۔۔
اماں رکھتی ہوں خیال ان کا۔۔ نہیں یقین تو پوچھ لیں۔۔ کیوں آہان۔۔
آہان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ناخن اس کی ہتھیلی میں چبھوتی وہ آہان کو بولنے پہ اکسا رہی تھی۔۔
آہان کو اس کے ناخن کیا چھبنے تھے بلکہ حور کے اتنی زور سے پکڑنے سے اسے ہتھیلی کے ساتھ ساتھ دل میں بھی گدگداہٹ شروع ہو گئی تھی۔۔
جی آنٹی۔۔ حور ماشاءاللہ سے بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی ہے۔۔ اتنے کی تو مجھے بھی توقع نہیں تھی۔۔ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر اس کے کندھے کے گرد باندھتا دوسرا ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ میں لیتا وہ بولا۔۔
جبکہ حور کا دل کیا اس کی اس حرکت پہ آہان کا سر پھاڑ دے لیکن سامنے اماں تھی بڑے تحمل سے وہ مسکراتے ہوئے اس کی یہ حرکت “فی الوقت” کے لیے ہضم کر گئی تھی۔۔
کیونکہ بعد میں وہ اس کا بدلہ لینے کا ارادہ ضرور رکھتی تھی۔۔
آہان ایک منٹ ذرا میں دیکھ کر آتی ہوں ملازمہ نے کھانا لگایا ہے کہ نہیں۔۔ خود کو اس کے گھیرے سے آذاد کرتی وہ کچن کی طرف بڑھی جہاں باہر چھوٹے سے ڈائننگ ٹیبل پہ کھانا رکھ دیا گیا تھا۔۔
آہان سچ سچ بتاؤ۔۔ اس کا رویہ ٹھیک ہے نا تمہارے ساتھ۔۔ اماں اب تک پریشان تھی کیونکہ حور کے چہرے پہ سجی مسکراہٹ کافی تفتیش ناک تھی۔۔
اماں آپ کہوں فکر رہی ہے۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔ اور اگر نہ بھی ہوتا تو میں کر لیتا۔۔ آپ کو یقین ہے نا اپنے بیٹے پہ۔۔ وہ ان کے ساتھ بیٹھتا انہیں یقین دلا رہا تھا۔۔
ہاں میری جان تمہی پہ تو یقین ہے۔۔ اللہ تمہیں خوش رکھیں ہمیشہ۔۔ اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتی وہ اس کی بالائیں لا رہی تھی۔۔
دروازے سے اندر آتی حور نے یہ منظر بڑے ناک بو چڑھا کر دیکھا۔۔
ہونہہ دوغلا نہ ہوتو۔۔ منہ میں بڑبڑاتی وہ آگے بڑھی۔۔
اماں، ماہا آ جائیں کھانا لگ گیا ہے۔۔ آہان آپ بھی آ جائیں۔۔ اب آخر میں چاشنی یقیناً طنزیہ تھی اور یہ بات صرف آہان ہی سمجھ سکتا تھا۔۔
چلو بیگم۔۔ اس کے بازو میں بازو ڈالتا وہ آگے بڑھا۔۔
@@@
اماں آپ کی چائے تو ٹھنڈی کو گئی ہے لائے میں گرم کروا دوں۔۔ کھانا کافی اچھے ماحول میں کھایا رہا تھا جب حور کی نظر ان کے بھاپ اڑاتے کپ پہ پڑی جو اب تک ٹھنڈا ہو چکا تھا۔۔
ارے نہیں حور۔۔ اتنی ٹھنڈی نہیں ہے۔۔ میں پی لوں گی۔۔ وہ تو حور کی تابعداری دیکھ کر ہی غش کھا رہی تھی۔۔
حور میری گرم کروا دو۔۔ یہ ٹھنڈی ہو گئی ہے۔۔ آہان نے ایسےموقع پہ جان بوجھ کر ٹانگ اڑائی۔۔
ارے آہان۔۔ آپ کی چائے کیا ملازمہ گرم کرے گی وہ بھی میرے ہوتے ہوئے۔۔ لائے دیں میں گرم کر کے لاتی ہوں۔۔
جتنی تابعداری سے وہ اٹھی تھی آہان کو اپنی “tongue slip” کا شدت سے احساس ہوا تھا۔۔
مر گئے۔۔ اس کے جانے کے بعد وہ منہ میں بڑبڑایا کیونکہ رات والا واقعہ اسے بخوبی یاد تھا۔۔
نہیں نہیں۔۔ کل رات جتنے اچھے طریقے سے سمجھا چکا ہوں۔۔ اب پنگا لیتے ہوئے وہ دس بار سوچے گی۔۔ مسکراتے ہوئے اس نے سوچا۔۔
@@@
بڑا شوق ہے نا ان کو میرے ہاتھ سے چائے گرم کروانے کا۔۔ میرے کندھے پہ ہاتھ رکھنے کا۔۔ اب مزہ آئے گا۔۔ کالی مرچ گرم گرم چائے میں ڈالتے ہوئے وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی
یہ پیار بھری تاکید تھی صرف۔۔ آئندہ یہ سرخ مرچوں والا کام نہیں کرنا۔۔ سرخ مرچیں ڈالتے ہوئے اس کے ہاتھ ذرا سے کپکپائے۔۔ رت والا سارا واقع اس کء ذہن میں گھوم گیا۔۔
نہیں نہیں۔۔ وہ تو لگانے کی بات ہوئی تھی۔۔ کھانے کی تو ہوئی نہیں تھی ویسے بھی۔۔ فائق بھائی گھر پہ ہیں کیا کر لیں گئے۔۔ ابھی تو میں نے ویسے بھی اماں کے گھر چلے جانا ہے۔۔
چہرے پہ شاطرانہ مسکراہٹ سجائے کچھ سوچتے ہوئے اس نے دو چمچ بھر کر کپ کے اندر ڈالے۔۔ پھر نمک ڈال کر اور چینی دان میں نمک کو رکھ کر چہرے پہ مسکراہٹ سجائے ہاتھوں میں ٹرے سجائے باہر آئی۔۔
یہ لیں آہان آپ کی چائے۔۔ اس کے سامنے چائے رکھ کر وہ بڑی محبت سے اس کے پاس آکر بیٹھی۔۔ اماں تو اپنی بیٹی کے واری صدقے ہو رہی تھی۔۔
آہان کو شک تو ہوا۔۔ لیکن پھر رات والا سب سوچ کر اطمینان سے اس نے کپ اٹھا کر منہ کو لگایا۔۔
اور بس یہی ایک غلطی کی اس نے۔۔ گلے میں مرچوں اور نمک کا امتزاج اس کو کھانسے پہ مجبور کر گیا تھا۔۔
آہان کیا ہوا۔۔ اس کی کمر پہ ہاتھ پھیرتی وہ بولی۔۔
آہان نے کھانسے ہوئے ہاتھ گلاس کی طرف بڑھایا۔۔ کیونکہ غوطہ اتنا شدید تھا کہ اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔۔
حور پانی نہیں چینی دو اسے۔۔ گلے کو سکون ملے گا۔۔ حور جانتی تھی اماں نے یہی کہنا ہے۔۔ بڑی محبت سے اس نے چینی دان میں رکھے نمک میں سے ایک چائے کا چمچ بھر کر اس کے منہ کی طرف کیا۔۔ جسے وہ بیچارا آنکھوں میں پانی کی وجہ سے نہ دیکھ کر منہ میں بھر گیا۔۔
پھر کیا ہونا تھا وہ حور کا جھٹک کر فورا واشروم کی طرف بھاگا۔۔
جبکہ پیچھے حور اپنی مسکراہٹ روکتی چہرے پہ پریشانی سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
@@@
اپنا اور آہان کا دھیان رکھنا میری جان۔۔ رخصت ہوتے وقت وہ اسے دعا دے رہی تھی۔۔
کیا مطلب اماں۔۔ آپ مجھے نہیں لے کر جائیں گی۔۔ حور تو روہانسی ہو گئی۔۔
چندا آہان کی چھٹیاں پیچھے تھوڑی سی تو رہ گئی ہیں۔۔ اس کے بعد تو تم بے شک ہمارے پاس ہی رہنا۔۔ ابھی نو بیاہتا جوڑا ہو خوب مزے کرو۔۔ اور آہان کے ساتھ ذیادہ سے ذیادہ وقت گزارو۔۔
اماں بول رہی تھی اور حور کو لگ رہا تھا اس کے کان سائیں سائیں کر رہی ہیں۔۔ گلے سے تھوک نگلتے اس نے ڈرتے ڈرتے آہان کی طرف دیکھا اب ہنسنے کی باری آہان کی تھی۔۔
چلو آہان اپنا خیال رکھنا۔۔ دونوں کو سی آف کہتی وہ باہر آ گئی جبکہ حور میں تو اتنی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ ان کو ہاتھ ہلا سکے۔۔
کیا بات ہے بیوی۔۔ اب ہی تو مزہ آئے گا جب ہم دونوں اکیلے ہوں گئے۔۔ پشت سے اس کو پکڑ کر پیٹ پہ ہاتھ رکھتا اور اس کے کندھے پہ ٹھوڑی رکھتا وہ بولا۔۔
آپ۔۔ شاید بھول رہے ہیں کہ فائق بھائی گھر پہ ہیں۔۔ اپنے لہجے کی لڑکڑاہٹ کو قابو کر کے اس نے جیسے اسے یاد دلایا…
اسکی کم عقلی پہ وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔۔
میری جان۔۔ آج ریسیپشن کے بعد ہم نادرن ایریاز جا رہے ہیں۔۔ ہنی مون کے لیے۔۔ وہاں کون سے فائق بھائی۔۔ اس کی گردن پہ اپنی لب رکھتا وہ “ہنی مون” پہ زور دے کر بولا۔۔
آہان۔۔ حور کو تو جیسے لگ رہا تھا اس کا سانس اٹک رہا ہے…
جی میری جان۔۔
وہ مجھے آپ سے بار کرنی ہے۔۔ خود کو اس کے گھیرے سے آذاد کرتی وہ سیدھی ہوئی۔۔
کیسی بات۔۔ آہان نے اچنبھے سے پوچھا۔۔
وہ یہ کہ۔۔ ایک قدم پیچھے ہوئی۔۔
بھاگو۔۔ اس لفظ کے کہتے ساتھ ہی وہ کمرے کی طرف بھاگی تھی۔۔
کمرے میں پہنچ کر جونہی اس نے دروازہ لاک کرنا چاہا۔۔ آہان نے پاؤں بیچ میں رکھ دیا۔۔
یار تم کیوں بھول جاتی ہو بار بار کہ میں ایک آرمی مین۔۔ یہ بھاگنے والی چالاکیاں تمہاری میرے ساتھ نہیں چلنے والی۔۔ دروازے کو ایک ہی جھٹکے میں کھولتا اس کو کلائی سے پکڑ کر اپنے قریب کرتا وہ بولا۔۔
پلیز آہان مجھے معاف کر دیں۔۔ وہ بڑبڑائی۔۔
نہ میری جان۔۔ صبح کہا تھا میں نے۔۔ کہ اس پیار بھری تاکید سے ہی سمجھ جاؤ۔۔ لیکن نہیں تم نہیں سمجھی۔۔ اسے اپنے بے حد نزدیک کرتا وہ بولا۔۔ اتنا کہ حور اس کی سانسوں بخوبی محسوس کر سکتی تھی۔۔ ابھی اس نے اپنے ہونٹوں سے اس کے ہونٹوں کو چھوا ہی تھا کہ دروازے پہ رستک ہوئی۔۔
کون۔۔ بد مزہ ہوتا وہ بولا۔۔
آہان میں ہوں۔۔ باہر آ ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔ فائق کی آواز پہ وہ کچھ نارمل ہوا۔۔ ورنہ تو وہ ابھی کسی بھی قسم کی ڈسٹربنس نہیں چاہ رہا تھا۔۔
ٹھیک ہے آ رہا ہوں۔۔ اسے جواب دیتا وہ اب حور کی طرف مڑا۔۔
تم سے رات کو ملاقات ہوتی ہے میری جان۔۔ اس کے چہرے کو چھوتی بالوں کی لٹ کو پیچھے کرتا وہ دروازے کے باہر چلا گیا۔۔
جبکہ اس کے جانے کے بعد حور نے گہرا سانس لیا۔۔ آج تو بری پھنسی تھی وہ۔۔
کمرے میں آ کر اس نے سب سے پہلے کپڑے چینج کیے تھے۔۔ صبح کے بعد وہ گھرنہیں آیا تھا۔۔ فائق کے ساتھ ہی کہیں بزی رہا تھا۔۔ اس لیے حور کو سکون رہا تھا۔۔
اس کا خود بھی آج سارا دن ہی تھکا دینے والا تھا۔۔ پہلے پارلر پھر رسیپشن پھر فلائیٹ سے وہ ابھی کاغان کے ہوٹل میں پہنچے تھے۔۔
بیٹھ بیٹھ کر اسکی کمر تختہ ہو گئی تھی اوپر سے آہان کا خوف بھی ذہن پہ سوار تھا۔۔
صبح کی اس کی دھمکی وہ بلکل نہیں بھولی تھی۔۔ اس لیے اس کے آنے سے پہلے فورا چینج کر کے وہ کوئی بھی شرارت کیے بغیر سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔
کچھ تھکاوٹ کا اثر تھا کچھ آہان کا خوف وہ فورا ہی نیند کی وادیوں میں چلی گئی تھی۔۔
@@@