تخت کی چوتھی ٹانگ اینٹیں رکھ کر بنائی گئی ہے
یوں لگتا ہے جیسے تین ٹانگ کے تخت پر بیٹھی عورت سانس نہیں لے رہی۔ وہ باہر کی طرف کھلتی اس ٹوٹی پھوٹی کھڑکی کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی ہے، جہاں کھڑے، باہر دیکھتے مرد کا سینہ کچھ یوں پھیل سکڑ رہا ہے، جیسے روشنی، تاریکی، روشنی تاریکی میں پھیلتی سکڑتی، پھیلتی سکڑتی آنکھوں کی پتلیاں۔
کھڑکی سے باہر شہر
شہر پر تنے گدلے آسمان میں چاند، جس کی سڑاند ساری کائنات میں پھیلی ہے۔ چاند اتنا بُسا ہوا دکھائی دیتا ہے، اتنا مدقوق کہ یقین سا ہونے لگتا ہے یہ تعفن اسی کے سانس سے ہے۔ در اصل یہ تعفن شہر میں پھیلی بد رووں کے جال میں پھڑپھڑاتی، مکانوں سے رہائی کی امید میں بند کواڑوں پر دستک دیتی خواہشوں سے اٹھتا ہے۔ کاروں، بسوں، رکشوں کے ایگزاسٹ پائپوں سے نکلتا دھواں، گٹروں کے کھلے دہانوں سے اٹھتا بھپارہ، ڈرائنگ روموں میں شوں شوں سپرے، معلق خوشبو، تنگ و تاریک گلیوں کی سیلن، پیلے سبز پتوں، گلی سڑی سبزی، پھلوں کی سڑاند، تازہ پھولوں کی مہک، صابن سے نا آشنا بغلوں، چڈوں، جسم کی سلوٹوں سے اڑتے خشک ہوتے پسینے کی باس، یوڈی کلون، ایمونیا، ڈر، خوف، محبت، نفرت، وفا، بے وفائی۔ شہر پر پھیلی رات کی کچی کچی بو ان ہی سے ترتیب پاتی ہے۔
عورت، جو تین ٹانگوں والے تخت پر، کہ چوتھی ٹانگ جس کی اینٹوں سے بنائی گئی ہے، بیٹھی، مرد کی اور ٹکٹکی لگائے دیکھتی ہے۔ اس کی آنکھیں خشک ہیں، پلک جھپکائے بغیر مسلسل دیکھنے کے باوجود آنکھوں میں پانی کا ایک قطرہ نہیں، اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ سانس نہیں لے رہی ہے۔ اس کے دوپٹے میں اتنے چھید ہیں کہ دوپٹہ خواہشوں کا جال معلوم ہوتا ہے جس میں لپٹی لپٹائی، پھنسی پھنسائی، مرد کے وجود کے پار، کھڑکی سے باہر اُگے مکانوں کے جنگل کو دیکھتی ہے۔ روشنی، تاریکی، روشنی، تاریکی میں مرد کی آنکھوں کی پتلیاں، پھیپھڑون کی طرح پھیلتی سکڑتی ہیں۔ وہ دونوں ہاتھ کھڑکی سے باہر نکال کے شہر کو اس کے بُسے ہوئے چاند اور متعفن رات سمیت مٹھی میں بند کر لیتا ہے۔ اس کی آواز سکوت کو آری کی طرح کاٹتی ہے۔
ہم شہر میں۔۔۔۔۔ میری جان! موٹروں سایئکلوں، رکشوں کے ٹائر، سبزیوں پھلوں کے چھلکے، ردی کاغذ، مٹی، پتھر، گلیاں، بازار، گھر، گھروندے، بجلی کے کھمبے، روشنی والے، روشنی سے عاری بلب، ہم شہر میں ہیں۔ ضیق النفس، جلتے ہوئے، ٹھٹھرتے ہوئے ہم تنہا، یہ شہر ہیں، ہم شہر میں ہیں، شہر سے باہر ہیں، شہر ہمارے اندر ہے اور ہم نے پیٹ سے اترتے ہوئے خصیوں والے دجالوں سمیت سب کچھ برداشت کر رکھا ہے۔ ہم تصور میں نہ آنے والی ان پرچھائیوں کو بھی برداشت کرتے ہیں جو صرف رات میں زندہ ہوتی ہیں جو موت کی تاریکی کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ویران اندھیری سڑکوں پر پھرتی ہیں اور جنہیں ایک سو سات، ایک سو نو میں گرفتار کرنے والے تاریک پلوں کے نیچے بیٹھے خود اپنی رانوں میں ہاتھ دینے، تار تار ریشم لباسوں اور لشکتی چھاتیوں کو مسلتے ہیں، ہم ان تاریک راتوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے پہاڑی چڑھتے ہیں، چوٹی پر پہنچ کر پتھر رات لڑھکتی ہے، ہم اس کے پیچھے بھاگتے ہیں، پہاڑی سے اترتے ہیں، پھر اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر لاد کے پہاڑی چڑھنے لگتے ہیں۔ اترتے نشے ایسی رات، خون آلود ذہنوں کے چھاپے خانے سے نکلتے اخبار کے کاغذوں پر پھیلی ہوئی اعصاب پر سوار رات کو ہم برداشت کرتے ہیں اور زندہ رہ کر آج کے زمانے میں معجزے کا مظہر بن جاتے ہیں۔ محبت، راتوں میں روتی محبت، اذیت ناک، ہم ہر اس شئے سے محبت کرتے ہیں جو ہمارے پاس ہے۔ ڈر، خوف، کپکپی، یاس جس سے کوئی فرار نہیں، رات کے خلاؤں کو پر کرتی ہے۔ ہمارے بستروں کے آس پاس، گیتوں میں گُچ گلیوں میں، لیکن ہم ہنستے ہیں۔ ہم فریب خوردہ، تلخ علوم کے وارث اور محبتوں کے ترک کئے ہوئے، ہم ہر رات سورج کو اڈیکتے ہیں، ”صبح کب ہو گی، اے میرے۔۔۔۔” ہر جھوٹ کے ساتھ ہم سچ کے منتظر، رات کو کھائی ہوئی ہر قسم پر ایمان لاتے ہین، ہم کہ جو موت کے منجدھار میں زندگی پر یقین رکھتے ہیں، بن چیزوں کے، بن آنکھوں، کانوں، ناکوں کے سیلاب میں کھڑے ہیں، فرار کا کوئی راستہ نہیں، ہمارے ہونٹوں سے ہنسی ابلتی ہے، سحر میں ہمارا ایمان ہے، ہمارے اعتماد کی بنیادوں میں سحر کی روشنی ہے، ہم چیختے ہیں، کل کو پکارتے ہیں۔۔۔۔۔۔ سناٹا، سحر کی شناخت کیا ہے؟ وہ، وہ، وہ شہر، روشنی، عورتیں، بلیاں، کتے، رات۔ میری جان! بند کواڑ اکھاڑ پھینکو، چیخو، قسم کھاؤ، گالی دو، سسکیاں بھرو لیکن نکلو، باہر نکلو اپنے آپ سے، ہر اس شئے سے جو تمہیں جلاتی ہے، اذیت دیتی ہے، اپنی اذیت کو چیخ کے ساتھ باندھ کر کھڑکی سے باہر پھینک دو، جواب ملے نہ ملے، شناخت ہو نہ ہو۔
کھڑکی سے باہر شہر
کھڑکی سے باہر گلیوں میں رات، اپنے دامن میں کنواری لڑکیون، عصمت باختہ عورتوں کی مہک لئے۔
شہر کی گلیوں میں یہ گھر، جس کے ایک کمرے میں کہ جس کی دیواروں کو مکڑی کے جالوں نے ایک دوسرے سے نتھی کیا ہے، مرد کھڑکی میں سے بازو باہر نکالے، شہر، اس کے بُسے ہوئے چاند اور متعفن رات کو مٹھیوں میں لیے کھڑا ہے۔ وہ رات اور شہر کی بھول بھلیوں میں اس قدر کھو گیا ہے کہ اس عورت کی نظروں کے تاگے بھی اس کے لیے راستہ نہیں بن پا رہے جو تین ٹانگوں والے تخت پر بیٹھی ٹکٹکی لگائے اس کی طرف، اس سے پار مکانوں کے جنگل کو دیکھ رہی ہے اور جس کے گرد لپٹے دوپٹے میں اتنے چھید ہیں کہ خواہشوں کا جال معلوم ہوتا ہے۔ مرد کی آواز پھر سکوت کو چچوڑتی ہے۔
تو پھر ہم زندہ کیوں ہیں نفرتوں کے حوالے؟ یہ نفرت ہی ہے کہ میں ہنستا ہوں۔ کھاتا ہوں، سوتا ہوں پھر جاگ اٹھتا ہوں۔ نفرتوں کے حوالے سے بچوں کی تخلیق میں لڑکیون کے بطن میں جھوٹی محبت پھونکتا ہوں اور انہیں حقیقت کی پہچان کرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔ حقیقت وہ بے خون، لٹکتی سوکھی چھاتیوں، چپٹی رانوں والی کریہہ المنظر بے حد استعمال شدہ فاحشہ۔
وہ عورت جسے دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ سانس لے رہی ہے اور تین پایوں والے تخت پر کہ چوتھی ٹانگ جس کی اینٹون سے بنائی گئی ہے، بیٹھی ٹکر ٹکر مرد کو دیکھے جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اٹھتی ہے جیسے خواب میں۔ وہ چھوٹے چھوٹے، دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی مرد کی طرف بڑھتی ہے، چھیدوں سے بنا دوپٹہ اس کے وجود سے پھسل کر زمین پر یوں پھیل جاتا ہے جیسے خواہشوں کا جال۔ وہ مرد کے بالکل پیچھے جا کر کھڑی ہو جاتی ہے اور اس کے نازک ہونٹ ہلتے ہیں۔
مرد مٹھیاں کھول کر کھڑکی کو دونوں طرف سے ہاتھوں میں تھام لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ ہوں۔۔۔۔۔؟ پتہ نہیں صبح کب ہو گی؟ ہم ہڈیاں چچوڑتے اور غاروں میں رہتے ہیں لیکن کسی روز کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے، صبح اگلے موڑ پر ہو سکتا ہے۔ اس وقت کسی بستر میں صبح جنم لے رہی ہو، ہو سکتا ہے جنم ہو گیا ہو کہیں جس کی ہم شناخت نہیں کر پا رہے۔ آج، کل، پرسوں کبھی راز پا لیں۔ اس کی شناخت کر لیں۔ جب ہم جاں بلب ہوں۔ کہیں ہم بے حس تو نہیں؟ کہ ہم نے اپنے آپ کو قہقہوں کے حوالے کر رکھا ہے۔ یاس، آنسووں اور رات کے ہراس کے حوالے کر رکھا ہے؟ کیا ہم خود ہی تو اپنا جواب نہیں؟ کیا سوال کا جواب حاصل کرنا بھی ہمارے اختیار میں نہیں کہ جواب ہم نے خود ہی دینا ہے۔ بولو، بتاؤ، تم ہی کہو۔
وہ پلٹ کر قریب کھڑی عورت کی طرف دیکھتا ہے تب اس عورت کی آنکھیں جھپکے بغیر مسلسل دیکھنے کے باوجود خشک تھیں۔ یک دم بھر آتی ہیں۔ لیکن اس کے معصوم چہرے پر کوئی تاثرات نہیں۔ مرد کے تیز تیز بھاری سانسوں میں اس کے چھوٹے چھوٹے سانس یوں گھل مل جاتے ہیں جیسے روشنی، تاریکی، روشنی تاریکی میں پھیلتی سکڑتی پھیلتی سکڑتی آنکھوں کی پتلیوں میں سامنے نظر آنے والی چیزیں۔
دونوں لمحہ بھر کے لیے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔
دیواروں کو آپس میں نتھی کرنے والی مکڑی کے جالے، تار بہ تار روشن ہونے لگتے ہیں۔ باہر چاند، ستارے، روشنی کے بلب اور بھی زرد اور پھیکے پڑ جاتے ہیں۔
باہر شہر ہے، دھندلایا ہوا، تاریک تاریک، خوفزدہ کرنے والا، تا حد نگاہ پھیلا ہوا، ظالم، مہربان شہر، گونگا، پر وقار، نہ مرنے والا۔۔۔
مرد، عورت کی کمر میں بازو حمائل کر کے ٹوٹی پھوٹی میز تک آتا ہے جس پر کاغذ اور قلم پڑے ہیں اور جس پر پڑے لیمپ کی روشنی اور بھی زرد، اور بھی پھیکی پڑ چکی ہے۔ وہ میز پر پڑی چیزوں کو دیکھتا عورت سے کہتا ہے
۔۔۔۔ چائے
میز سے کاغذ قلم اٹھا کر وہ اس تخت پر بیٹھ جاتا ہے جس کی چوتھی ٹانگ اینٹیں رکھ کر بنائی گئی ہے۔ وہ لمحہ بھر کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھتا ہے پھر سفید کاغذ پر قلم کی روشنائی سے رات کا سفر نامہ لکھنے لگتا ہے۔
تا حد نگاہ آنے والے موسموں کے کھیتوں سے اگتے، لہراتے، اٹھتے، کڑکتے، لشکتے طوفانوں کے جلو میں آئی سحر، باہر شہر کی دہلیزوں پر کھڑی، شہر کے بند دروازوں پر دستک دیتی ہے۔
٭٭٭