وہ جو ٹھہر جائیں۔۔
قائم رہتے ہیں صدیوں۔۔
کہ وقت بھی اکثر۔۔
کبھی پیچھے کی جانب پلٹتا ہے۔۔
چاہے پھر وہ روشن صبح کی مانند ٹھنڈا ہو۔۔
یا۔۔
رات کے تنہا سیاہ پہر سا کڑوا۔۔
وہ پلٹ آتا ہے۔۔
انہیں دکھی ساعتوں کے ساتھ۔۔
کہ جنہیں بھلانے میں بھی۔۔
صدیوں کا سا۔۔
سمے لگتا ہے۔۔
***
ارسل نے اپنے مدھم اٹھتے قدموں کے ساتھ درمیانی راستہ عبور کیا تھا۔ پھر وہ اس چمکتے گلاس ڈور سے سجے ریستوران کا دروازہ دھکیلتا اندر داخل ہوا۔۔ سب بہت دھیرج سے اپنے مدار میں سفر کررہا تھا۔۔ دروازے کے اوپر لگی گھنٹی لمحے بھر کو پائل کی کھنکھار کی مانند کھنکی تھی۔ کرسی پر براجمان، اپنی پشت دروازے کی جانب کیۓ، آمنہ نے ایک پل کو پلٹ کر دیکھا۔
ارسل افگن کا وجیہہ چہرہ سنجیدگی کی گہری چھاپ کے زیرِ اثر لگتا تھا۔ اس نے کبھی اسے اس قدر سنجیدہ اور ٹھہرا ہوا نہیں دیکھا تھا۔
وہ قدم قدم چلتا آگے بڑھ آیا۔ پھر کوٹ کا ایک بٹن کھولتا اسکے عین سامنے آ بیٹھا۔ گلاس ڈور کے پار پگھلتی اداس سی شام کا عکس جگمگا رہا تھا۔ اسکی بھوری آنکھوں میں بھی ایسی ہی ایک شام ٹھہر گئ تھی۔ خاموش، اداس اور پرسکون۔۔!
لالہ رُخ نے سامان سمیٹ کر کمرے سے باہر نکلتے ہوۓ ایک۔۔ بس ایک لمحے کو پلٹ کر اس کمرے کی جانب دیکھا تھا۔ گزرے ایام بھیگتی آنکھوں کے پار دھواں دھواں ہونے لگے تھے۔ یادوں کا کڑوا دھواں نگاہوں میں جلن سی برپا کرنے لگا تھا۔۔
اس نے اپنی نگاہ الماری کی جانب پھیری جہاں وہ کبھی کھڑی ارسل کو دھمکا رہی تھی۔ اس کی اگلی نگاہ بالکنی کے کھلے دروازے کی جانب تھی۔۔ جہاں وہ رورہی تھی تو وہ اسکے پیچھے آیا تھا۔۔ اس اسے اگلی نگاہ۔۔ بیڈ پر پھسلی تھی۔۔ جہاں وہ اسکے آنسو اپنی نرمی سے سمیٹ رہا تھا۔۔ یاد کا ایک ایک ورق کھلتا جارہا تھا۔۔ نگاہوں کے سامنے تحلیل ہوتا جارہا تھا۔۔
اب وہ اسے تکیۓ سے ماررہی تھی۔۔ وہ بھی جواباً اپنا بچاؤ کرتا اسے خود سے دور کررہا تھا۔۔
لالہ رُخ بھیگی آنکھیں لیۓ مسکرا دی تھی۔
اگلا منظر بہت تکلیف دہ تھا۔۔ جب وہ اسے اپنی جانب پوری قوت سے تھام کر گھما رہا تھا۔ وہ اسکے قریب تھا۔۔ اسے اسکی سنجیدگی کے پہر میں ڈھلیں بھوری آنکھیں یاد آئیں تو سانس لینا دشوار سا ہوگیا۔
وہ اس سے محبت کرتی تھی۔ وہ اسے چاہنے لگی تھی۔ وہ اس سے دور رہنے کا سوچ کر ہی ٹوٹنے لگی تھی۔ پہاڑ سی مضبوط چٹان کی مانند لالہ رُخ۔۔ اس پہر۔۔ دروازے کے وسط میں کھڑی۔۔ پگھل رہی تھی۔۔ اسکی ذات سے رستے آنسو آنکھوں کے راستے باہر کو قطرہ قطرہ بہنے لگے تھے۔۔
اس نے اپنا چہرہ آہستین سے رگڑا اور جلدی سے باہر نکلی۔ گزرے لمحات اب تک بول رہے تھے۔۔ اگر وہ انہیں مزید دیکھتی تو شاید یہاں سے جا نہیں پاتی۔ وہ خود غرض ہوجاتی۔ وہ صرف اپنا سوچنے لگتی۔۔ اور فی الحال وہ صرف ارسل کا سوچنا چاہتی تھی۔ اسکی خوشی آمنہ تھی۔۔ وہ اسے اسکی خوشی لوٹانا چاہتی تھی۔
اس نے اپنی ہچکیوں پر بہت مشکل سے قابو رکھتے ہوۓ زینے عبور کیۓ تھے۔ بار بار منظر دھندلانے لگتا تھا۔۔ گلابی سا ارتکاز مزید گلابی ہونے لگتا تھا۔۔
آگے بڑھ کر رمشہ، دادی اور سمیرا سے ملتے اسکا دل بھر آیا تھا لیکن وہ نہیں روئ۔۔ وہ کیسے رو سکتی تھی۔۔ ؟ وہ لالہ رُخ تھی ناں۔۔ وہ کسی کے سامنے کیسے رو دیتی بھلا۔۔ مضبوطی بھی کبھی کبھی انسان کو کس قدر کمزور کردیتی ہے۔۔ اسکا اندر بھی ٹوٹ کر بکھرنے لگا تھا۔۔
اسے خود پر حیرت بھی ہوئ تھی۔ اپنے حق کے لیۓ لڑتے لڑتے وہ اس جنگ سے خاموشی کے ساتھ علحیدگی اختیار کررہی تھی۔ اس نے کبھی کسی محاذ سے پیٹھ نہیں پھیری تھی لیکن آج۔۔ اس گھر سے قدم باہر کی جانب بڑھاتے ہوۓ اسے سمجھ آگیا تھا کہ۔۔ محبت انسان سے بڑے بڑے محاذ پر، بڑی بڑی قربانیاں مانگ لیا کرتی ہے۔ اسکے سامنے سر جھکاتے ہی بنتی ہے۔۔ اسکے سامنے اپنا وجود روند کر ہی فتح نصیب ہوتی ہے۔۔
کیا عجب ہے کہ سب کچھ ہار کر جیت مقدر میں لکھ دی جاتی ہے!
اسفند کے برابر میں بیٹھے اس نے چہرہ پوری طرح سے کھڑکی کی جانب پھیر رکھا تھا۔ اسفند نے بھی اسکا خاموش تاثر دیکھا تو کوئ بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ اسے سمجھتا تھا۔ وہ اس جیسی تھی۔۔ تکلیف میں زبان سے اف تک نہیں نکالا کرتی تھی۔ ٹوٹتے وجود کے ساتھ دوسروں کو تو رونے کے لیۓ کندھا دے سکتی تھی لیکن خود کے آنسوؤں کے لیۓ۔۔ وہ کبھی کسی کے کندھے کا انتظار نہیں کیا کرتی تھی۔۔ کیا ظالم لڑکی تھی۔۔!
اس نے خشک آنکھیں، پیچھے کی جانب بھاگتے ہوۓ راستوں پر جما رکھی تھیں اور اب سب کچھ رات کی سیاہی میں ڈھلتا جارہا تھا۔۔ سب کچھ۔۔!
***
ارسل، آمنہ کے عین سامنے خاموشی سے براجمان تھا۔ پھر اس نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ خوبصورت آنکھوں کی چمک آج بھی اسکی آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی۔۔ لیکن وہ انکی جانب متوجہ نہیں تھا۔۔ وہ تو کہیں پیچھے دیکھ رہا تھا۔۔ بھیگی سیاہ آنکھیں۔۔ ضبط سے گلابی پڑتی سیاہ آنکھیں۔۔ مسکراتی ہوئ شرارت سے جگمگاتی سیاہ آنکھیں۔۔
“اس نے مجھے کہا کہ وہ میرے فیصلوں میں مجھے آزاد کرتی ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے جینے کا حق چھین کر میری گنہگار نہیں بننا چاہتی۔۔ اس نے کہا کہ وہ مجھے خوش دیکھنا چاہتی ہے۔۔ ”
اس نے سانس لینے کے لیۓ وقفہ لیا تھا۔ آمنہ اسے ہی تک رہی تھی۔ اور وہ جانتی تھی کہ آج ارسل پچھلے ارسل سے خاصہ مختلف تھا۔ زخمی اور ٹوٹا ہوا۔۔
“اس نے مجھے کہا کہ جو آپ نہیں کرسکے وہ میں آپکے لیۓ کرنا چاہتی ہوں اور جانتی ہو آمنہ۔۔ مجھے لگا میں اسے اب کبھی نہیں چھوڑ سکونگا۔۔”
آمنہ کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئ تھی۔ اسکے حلق میں بہت سے آنسو جمع ہوۓ لیکن وہ آنکھوں سے نہ ٹپکے۔ وہ خود پر بہت سے بندھ باندھ کر آئ تھی۔ وہ ایسے خود کو بہنے نہیں دے سکتی تھی۔
ارسل یونہی گلابی آنکھیں لیۓ ، دکھتے گلے کے ساتھ بولتا جارہا تھا۔
“بچپن میں جب میں چھوٹا تھا تب مجھے اندھیرے سے بہت خوف آتا تھا۔ اب بھی آتا ہے۔ اس وقت بھی پھپھو میرا گال تھپک کر کہتی تھیں کہ جو سیاہ راستہ تم عبور نہیں کرسکتے، اس راستے پر تمہارا ہاتھ تھام کر میں چلونگی۔ میں تمہاری سیاہی میں روشنی بنونگی لیکن وہ میری کسی بھی سیاہی کا حصہ بننے سے پہلے ہی چلی گئیں۔۔”
آمنہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ ارسل نے اسے پہلے کبھی اپنے بارے میں یوں آگاہ نہیں کیا تھا۔ اسے یہ تک نہیں پتا تھا کہ اسکی کوئ پھپھو بھی تھیں جو مرچکی ہیں۔ اس نے کبھی اپنی کمزوریوں کو اسکے سامنے یوں کھول کر نہیں رکھا تھا۔ لیکن آج۔۔ وہ بہت سکون سے اسے یہ سب بتارہا تھا۔۔
“میں کبھی تمہارے سامنے اپنی کمزوریاں بیان نہیں کرسکا آمنہ۔ میں شرمندہ تھا۔۔ خود پر۔۔ اپنی بزدلی پر۔۔ اپنی ڈرپوک طبیعت پر۔ میں عام مردوں کی طرح نہیں ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں جلدی ڈر جاتا ہوں۔ میں باآسانی رو بھی جاتا ہوں۔ مجھ سے غصے میں ٹھیک سے بات تک نہیں کی جاتی۔ لیکن میں تمہیں یہ سب نہیں بتا سکا۔ میں تمہیں اپنے ٹوٹے حصے نہیں دکھا سکا کیونکہ میں خوفزدہ تھا کہ تم۔۔ تم مجھے چھوڑ دوگی۔۔ اور شاید تم ایسا ہی کرتیں۔۔”
اس نے گلاس ڈور پر جمی آنکھوں کو آمنہ کی جانب پھیرا۔ وہ سانس روکے اسے ہی سن رہی تھی۔ ارسل ہلکا سا مسکرایا۔۔
“میں تمہیں قصور وار نہیں ٹھہرا رہا آمنہ۔ میں تمہیں حقیقت بتارہا ہوں۔ تم جلد یا بدیر مجھ سے بیزار ہو کر مجھے چھوڑ دیتیں کیونکہ مرد کی ایسی کمزوری کسی بھی معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہے۔۔ میں خود جانتا ہوں اپنے آپکو۔۔ میں نے ایک لمبے عرصے تک تہہ خانوں میں چھپ کر روتے ہوۓ راتیں گزاری ہیں۔۔ صرف اسی لیۓ تاکہ میری یہ کمزوری کسی پر عیاں نہ ہوجاۓ۔۔ لیکن لالہ رُخ نے۔۔”
وہ ٹھہرا تھا۔۔ نگاہوں کے سامنے ایک منظر سا لہرایا۔کھلے بالوں اور دوپٹے سے بے نیاز پریشان سی لڑکی اسے دوڑ کر گلے لگا رہی تھی۔ اسکی خوبیوں اور خامیوں سمیت سمیٹ رہی تھی۔۔
“اس نے مجھے عار نہیں دلائ آمنہ۔ اس نے مجھے قبول کرلیا۔ اس نے میری کمزوریوں کا احترام کیا۔ اس نے میرے عیب لوگوں کے سامنے بے عیب کردیۓ۔ اس نے مجھے کندھا دیا۔۔ میرے لیۓ لوگوں سے جھگڑے مول لیۓ۔۔ جو مجھے کرنا چاہیۓ تھا وہ کرتی رہی۔ وہ بہت مضبوط ہے۔۔ میں کبھی کبھی حیران رہ جاتا ہوں کہ کوئ اتنا مضبوط کیسے ہوسکتا ہے۔۔ لیکن دیکھو ناں آمنہ۔۔ میں اسکی اتنی خوبیوں کے بعد بھی تمہارے سامنے بیٹھا ہوں۔۔ تمہیں یہ باور کروانے کے میرے دل سے تم آج بھی نہیں نکل سکی ہو۔۔”
آمنہ کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر رخسار پر لڑھکا تھا۔ ارسل مسکرایا۔۔
“میں نے اس سے کہا کہ مجھے کچھ وقت دے تاکہ میں اسے جواب دے سکوں۔ لیکن میرے پاس تو اسے دینے کے لیۓ کوئ جواب ہی نہیں ہے آمنہ! جو انسان آپکے لیۓ محض قربانیاں دیتا آیا ہو اس انسان کی ایک التجا کو آپ انکار کردو تو زیادتی نہ ہوئ۔۔”
اس نے بھی اپنی آنکھیں رگڑی تھیں۔ لالہ رُخ نے قسم کھا رکھی تھی اسے ہر دفعہ رلانے کی۔۔
“اب میں سوچتا ہوں کہ بہت اچھا ہوا جو ہم کسی رشتے میں نہ بندھے۔ تم مجھ سے بہت بہتر ڈیزرو کرتی ہو۔ میرے جیسے کمزور اور بزدل شخص کا ساتھ تمہارے لیۓ زیادتی ثابت ہوتا۔۔ میں آج ہمارے اس تعلق کی آخری ڈور بھی کاٹنے آیا ہوں۔۔ میں آج اس اندیکھی سی ڈور کو ختم کرنے آیا ہوں۔۔ اس رشتے سے آزاد ہونے آیا ہوں جو کبھی رشتہ بنا ہی نہیں تھا۔۔ ہاں ٹھیک ہے میں اس سے محبت نہیں کرتا۔۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔ کیونکہ وہ مجھے اپنا عادی کرگئ ہے۔۔ اور جانتی ہو آمنہ۔۔”
اس نے مسکراتی نگاہیں اس پر نرمی سے جمائ تھیں۔۔
“عادتیں محبت سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔۔”
چند پل ہر جانب گہری خاموشی تحلیل ہو کر فضا کو مزید سرد کرگئ تھی۔ وہ یک ٹک ایک دوسرے کی نگاہوں میں دیکھتے رہے۔۔ اگلا کوئ بھی لفظ ادا کیۓ بغیر۔۔ گزرے ایام کی بہت گداز چاپ محسوس کرتے۔۔ پھر آمنہ ہلکا سا مسکرائ۔۔ نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔
“آپ بہت اچھے ہیں ارسل۔ آپکو اندازہ نہیں کہ آپ اس نرم دنیا کے لیۓ کتنے زیادہ معصوم ہیں۔”
وہ اسکی بات پر چونکا تھا۔۔ لالہ رُخ نے بھی کبھی اسے یہی کہا تھا۔
“میں آپکی صاف گوئ کی قدر کرتی ہوں ارسل۔ میں آپکی محبت اور عزت کی ہمیشہ قدردان رہونگی اور ہاں۔۔ لالہ رُخ سے کہنا کہ آمنہ اسکی بہت شکرگزار ہے۔ آپکا خیال رکھنے کے لیۓ میں ایک دفعہ اس سے مل کر اسکا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔۔ آپ اور وہ ساتھ بہت اچھے لگتے ہیں۔۔ میں صدا دعا گو رہونگی ارسل کہ آپ دونوں ایک ساتھ سلامت رہو۔۔ ایک دوسرے کا لباس رہو۔۔ میں دعا کرونگی۔۔ کیونکہ جو دوسروں کے حق میں دعائیں کرتے ہیں، وہی دعائیں انکے حق میں پہلے قبول ہوتی ہیں۔”
وہ آہستہ سے اٹھ کھڑی ہوئ تھی۔۔ ارسل کا دل دکھنے لگا۔ اسکی آنکھوں میں جمع ہوتے آنسوؤں کو وہ بخوبی محسوس کرسکتا تھا۔ وہ پلٹی لیکن ٹھہر گئ۔۔ ایک پل کو چہرہ اسکی جانب پھیرا۔۔ اداس آنکھیں اگلے ہی پل مسکرائ تھیں۔۔ یہ اختتام تھا انکا۔۔ یہ انت تھا انکی کہانی کا۔۔
“آپکو پتا نہیں ہے کہ آپ لالہ رُخ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو جھٹلانا چھوڑ دیں اور مان لیں کہ آپ اسے چاہتے ہیں۔۔ شاید پھر آپکے لیۓ سب کچھ اور بھی آسان ہوجاۓ۔۔ اللہ حافظ۔۔ چلتی ہوں۔۔”
اور پھر وہ اسکی جانب ایک آخری نگاہ ڈالے بغیر باہر کی جانب بڑھ گئ تھی۔ جانتی تھی کہ وہ مزید رکی تو خود پر قابو نہیں رکھ پاۓ گی۔ ارسل بھی اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔۔ اور پھر آہستہ سے اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔ گلاس ڈور سے سجا ریستوران اب کہ مدھم زرد قمقموں سے جگمگارہا تھا۔۔ انکی محبت کا امین۔۔ گلاس ڈور ریسٹورینٹ۔۔!
***
وہ گھر چلی آئ تب بھی خاموش ہی رہی۔ سب اس سے اسکے سسرالیوں کے بارے میں استفسار کررہے تھے اور وہ محض ہاں ہوں میں سر ہلاتی سب کو جوابات دے رہی تھی۔ لیکن جب گھر والے اسکے بہت خاموش سے رویے کو محسوس کرنے لگے تو طرح طرح کے سوالات پھر شروع ہوگۓ۔۔
وہ ایسی نہیں تھی۔۔
گھر میں داخل ہوتی تو بقول فرقان کے یوں لگتا تھا گویا “زلزلہ آگیا ہو “۔۔ وہ ایسی ہی تو تھی۔ زندگی سے بھرپور تبارہ کاریاں کرتی ہوئ، قہقہے لگا کر سرمئ ماحول کو رنگوں سے سجا کر گزرتی ہوئ۔۔ اب ایسی کسی لڑکی کا کھنچا کھنچا سا رویہ دیکھ کر تو سوالات بنتے ہی تھے۔۔ اسفند نے ہی اسے ہاتھ سے پکڑا اور اپنے پیچھے کیا۔۔ وہ خود کو اتنا بے بس اور کمزور محسوس کررہی تھی کہ آرام سے اسکے پیچھے ہوگئ۔۔
“حد کرتے ہیں آپ لوگ بھی۔ وہ ابھی تھکی ہوئ آئ ہے اپنے گھر سے اور آپ لوگوں نے بوچھاڑ کردی ہے سوالات کی! ابھی کچھ آرام کرے گی تو خود ہی ٹھیک ہوجاۓ گی۔۔ میں لے جارہا ہوں اسے کوئ میرے پیچھے نہ آۓ اور شور تو بالکل بھی نہیں ہونا چاہیۓ۔۔”
اس نے اگلے ہی پل اسکا ہاتھ تھاما اور پھر اسے لیۓ اپنے ساتھ زینے چڑھتا اوپر کی جانب بڑھ گیا۔ کمرے میں آتے ہی اس نے لالہ رُخ کا ستا ہوا تھکا سا چہرہ بغور دیکھا تھا۔ وہ بھی خاموشی سے گردن جھکاۓ کھڑی رہی۔
“بتاؤگی یا نہیں۔۔؟”
اسفند نے ہولے سے پوچھا تھا۔ لالہ رُخ نے ضبط کے باعث دکھتے گلے سے بمشکل تھوک نگلا تھا۔ پھر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا جو فکر مندی سے سر جھکاۓ اسکے چہرے کو جانچ رہا تھا۔ وہ نم آنکھوں سے مسکرادی تھی۔۔ یوں لگا ماہ و سال پیچھے کی جانب بہنے لگے ہوں۔۔ دس سالہ زخمی لالہ رُخ اسکے سامنے گردن جھکا کر بالکل یونہی کھڑی ہوئ تھی۔ اور وہ تب بھی تو اسے سب کے سوالات سے یونہی اپنی ڈھال تلے بچالایا تھا۔ اسفند کہاں بدلا تھا۔۔! اسفند تو وہی تھا۔۔
“ٹھیک ہوں میں۔۔”
اس نے کہا تو محض اتنا ہی۔۔
وہ اسے چند پل دیکھتا رہا۔۔
“تمہیں خود کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے لالے۔”
اسفند کی نرم آواز ایک بار پھر سے اسکے آس پاس گونجی تھی۔ اس نے یکدم بازو آنکھوں پر رکھا اور پھر رو پڑی۔۔ اسفند چپ چاپ اسے دیکھتا رہا تھا۔۔
“لالہ۔۔ مجھ۔۔ مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے۔۔”
اسے لگا اب اگر اس نے مزید خود پر ضبط کیا تو وہ سانس تک نہیں لے پاۓ گی۔ اسفند نے نرمی سے اسکا بازو آنکھوں سے ہٹایا تھا۔
“کیوں ہورہی ہے تکلیف؟ بتاؤ مجھے۔۔”
وہ بہت سنجیدہ تھا۔ کس نے ہمت کی تھی اس کی لالے کو تکلیف پہنچانے کی۔
“میں نے خود کو تکلیف پہنچائ ہے لالہ۔ میں نے اپنے ساتھ زیادتی کردی ہے۔ میں نے کسی اور پر رحم کرتے ہوۓ خود کو بے رحمی سے روند ڈالا ہے لالہ۔۔ میں کیا کروں۔۔ یہ قربانیاں اتنی بھاری کیوں ہوتی ہیں؟ مجھے لگ رہا ہے میں بہت بڑے بوجھ تلے ہوں۔۔ مجھے لگ رہا ہے میں ٹھیک سے اب اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو پاؤنگی۔۔ میں نے خود کو بہت زخمی کرلیا ہے لالہ۔۔”
گیارہ سالہ لالہ رُخ اب تک اسفند سے کہہ رہی تھی کہ وہ تکلیف میں ہے۔ اسفند نے وہی کیا جو کئ سال پہلے کیا تھا۔۔
اس نے اسے کندھوں سے تھاما اور پھر ہلکے سے جھٹکے سے اپنی جانب متوجہ کیا۔
“قربانیاں بہت وزنی ہوتی ہیں رُخ۔ ہمارے پٹھانوں میں کہتے ہیں کہ یا تو قربانی دے کر سہنے کی ہمت رکھو یا پھر قربانی دو ہی نہ۔۔ میرا دوست جب قتل ہوا تھا ناں تو اس نے بھی اپنے گھر والوں کے تحفظ اور خوشیوں کے لیۓ قربانی دی تھی۔ اس قربانی کا وزن زندگی بھر اسکے گھر والوں پر رہے گا۔۔ اگر تم میں ہمت نہیں تھی تو تمہیں یہ قربانی نہیں دینی چاہیۓ تھی اور اگر۔۔”
وہ لمحے بھر کو دھیمی سرد آواز میں بولتے بولتے ٹھہرا رہا تھا۔ لالہ رُخ کے آنسو اپنی جگہ ہی ساکت ہوگۓ تھے۔ وہ خوفزدہ ہوئ اسفند کے اگلے بے رحم الفاظ کا انتظار کررہی تھی۔
“اگر تم نے یہ قربانی دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اسکا بوجھ بھی برداشت کرو۔ مجھے پتا ہے تم یہ کرلوگی۔۔”
اس نے اگلے ہی لمحے اسکے کندھوں سے ہاتھ ہٹاۓ تھے۔۔
“رو لو ابھی جتنا بھی رونا ہے تمہیں۔۔ جتنے بھی آنسو جمع ہیں بہالو انہیں ایک ساتھ ہی۔۔ لیکن پھر اسکے بعد میں تمہیں اپنے فیصلوں پر پچھتا کر زندگی گزارتے ہوۓ نہ دیکھوں۔۔”
وہ اگلے ہی پل پلٹا تھا اور دروازہ کھولتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔ وہ خالی خالی سی کھڑی رہ گئ تھی۔ وہ ارسل نہیں تھا کہ آگے بڑھ کر اسکے آنسو صاف کرتا یا اس سے پوچھتا کہ وہ کیوں رورہی ہے۔ اس نے کئ سالوں تک اسکی تربیت کی تھی۔ جبھی تو وہ جانتا تھا کہ جو کچھ بھی ہوگا رُخ اسے سہہ لے گی۔۔
تاریکی میں ڈوبے کمرے میں کھڑی۔۔ خود بھی اسی تاریکی کا حصہ لگتی لالہ رُخ میں اگلے ہی پل بہت ہمت بھرگئ تھی۔ رگوں میں خون یکدم تیزی سے گردش کرنے لگا تھا۔ اس نے پلٹ کر ڈریسنگ روم کا دروازہ کھولا اور پھر واش بیسن پر جھک کر پانی کے چند چھینٹے خود کے چہرے پر مارے۔۔ گہرے گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کیا۔۔ وہ ٹھیک نہیں تھی۔۔ لیکن اسے پتا تھا کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہوجاۓ گی۔۔
روشنی تلے بھیگتی، ایک لڑکی اپنا سنہری سا عکس سامنے لگے آئینے میں خاموشی سے تک رہی تھی۔
رات کے اسی پہر ، شہر کے دوسری جانب۔۔ ارسل بہت آہستگی سے تہہ خانے کے زینوں کو عبور کرتا قدم قدم اتر رہا تھا۔۔
اس نے آگے بڑھ کر لائٹ بورڈ پر ہاتھ مارا تو تاریک تہہ خانہ روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔ اس نے ایک نگاہ پھپھو کی آخری پینٹنگ پر ڈالی تھی۔۔ پھر اسکے ساتھ چھوٹے سے اسٹول پر رکھی لالہ رُخ کی پینٹنگ کو دیکھا تو دھیرے سے مسکرادیا۔۔
اسکی پینٹنگ بھرپور طریقے سے اسکی لااوبالی اور جذباتی طبیعت کی عکاسی کررہی تھی۔ وہ آہستہ سے پنجوں کے بل، عین اس پینٹنگ کے سامنے بیٹھا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس کے سامنے لالہ رُخ کا عکس لہرایا۔۔ آج دوپہر ہی تو وہ اس سے باہر لاؤنج میں ٹکرائ تھی۔۔ اور جو وہ اسے دیکھ کر ٹھہر گیا تھا۔۔ اسکے رخساروں پر جابجا رنگ لگا ہوا تھا۔۔ پاگل لڑکی۔۔ اندازہ ہی نہیں تھا اسے کہ وہ خود کس قدر رنگین سی تھی۔۔ اسکی خالی سی زندگی کو رنگوں سے آشنا کروا گئ تھی۔۔
وہ اٹھا اور پھر اوپر کی جانب بڑھ گیا۔ تہہ خانہ آج پھپھو کی خوشبو کے علاوہ لالہ رُخ کی خوشبو سے بھی مہک رہا تھا۔ وہ زینے چڑھتا اپنے کمرے میں چلا آیا تو لمحے بھر کو وہیں دروازے میں رک بھی گیا۔۔
یہ کمرہ اسے کبھی اتنا خالی نہیں لگا تھا۔۔
آج اس کمرے کی ساری چمک ماند تھی۔۔
کھڑکی سے جھانکتی چاندنی۔۔ بھی اداس تھی۔۔ چلتی ہوا کے جھکڑ بھی کوئ سرگوشی نہیں کررہے تھے۔۔ اس نے بیڈ پر نگاہ ڈالی۔۔ شادی کی پہلی رات کسی واضح یاد کی طرح لہرائ تھی۔۔ کیسے وہ اس سے لڑ رہی تھی۔۔ جانے کب وہ اس سے لڑتے لڑتے۔۔ اسکے لیۓ لڑنے لگ گئ تھی۔۔
وہ آہستہ سے چلتا ہوا آگے آیا اور پھر اپنے صوفے پر ہی دراز ہوگیا۔ پھر بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔۔ اسے لالہ رُخ رات کے اس پہر بہت یاد آئ تھی۔۔ میمنہ ہماری جھانسی کی رانی کو پسند کرنے لگا تھا۔۔ اگر جو اسے پتا چل جاتا کہ وہ صرف اسے پسند نہیں کرتا تھا۔۔ بلکہ۔۔۔ بلکہ وہ تو۔۔ لیکن پھر اگر اس پر اتنی جلدی ادراک ہونے لگتے تو وہ ہمارا میمنہ کیسے رہتا بھلا۔۔؟ وقت نے اس کے لیۓ اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔۔ لیکن جلد یا بدیر اسے اس فیصلے سے آگاہی دے ہی دی جانی تھی۔۔!
شیشے میں عکس دیکھتی لڑکی اور یاد کے لہراتے اوراق میں کھوتا لڑکا۔۔ دونوں ہی اپنی جگہ درست تھے۔۔ دونوں ہی۔۔ اپنی جگہ۔۔ ثابت تھے۔۔ کیا ہوا جو ایک مضبوط اور دوسرا کمزور تھا تو۔۔؟ کیا تمہیں نہیں لگتا کہ انکا ساتھ جوڑا ہی اسی لیۓ گیا تھا کہ وہ کمزوری اور مضبوطی کے ہر تقاضے پر پورا اترا کرتے تھے۔۔؟ ۔۔ سوچو۔۔ شاید تمہیں جواب مل جاۓ۔
***
اگلی صبح خان ہاؤس پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتی دمکتی اتر رہی تھی۔ مہانوں کی آمد آمد تھی۔ گھر میں قہقہوں اور اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبو ہر سُو بکھری رہنے لگی تھی۔ کچھ لوگ گھر کو زرد قمقموں سے سجا رہے تھے، کئ کزنز ایک ساتھ لاؤنج میں براجمان ایک دوسرے پر جملے کستے ہنس رہے تھے، زینوں پر کھڑیں فاطمہ، لالہ رُخ سے سب کے کپڑے استری کروانے کو کہہ رہی تھیں۔۔ زینوں کے دوسری جانب سے رامش، گل کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔ اس نے یقیناً اسکے وہ گلابی رنگ کا بھالو چرالیا تھا اور اب رامش وہ بھالو کسی حال میں اس سے واپس لینا چاہتا تھا۔۔
رامین کو اب کمرے سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔۔ اور شکر تھا خدا کا کہ اسفند اپنے خطرناک ارادوں سے باز تھا۔۔ نہیں تو کسی کی مجال تھی کہ اس سر پھرے کو روک سکے۔۔ فرقان نے اسے سخت سی تنبیہہ بھی کی تھی جس پر وہ پہروں دل کھول کر ہنسا تھا۔۔ ایک تو یہ فرقان لالہ بھی نا۔۔ بس فرقان لالہ ہی تھے۔۔ انہیں اپنی روایات کی پاسداری کا بہت خیال رہتا تھا۔ وہ رکھ رکھاؤ والے سخت قسم کے پٹھان واقع ہوۓ تھے۔۔ لیکن اس میں بھی کوئ شک نہیں تھا کہ ان روایات کی جڑیں تک ہلادینے والا بھائ قدرت نے انکی قسمت میں لکھ دیا تھا۔۔ جو کام نہیں کرنے والا ہوتا تھا وہی اسفند کو کرنا تھا۔۔! انکا بس چلتا تو اسے شادی ہوجانے تک گھر سے باہر ہی نکال دیتے لیکن ہک ہاہ۔۔! ماموں اور فاطمہ مامی کی موجودگی میں ایسا کچھ بھی ممکن نہیں تھا۔۔
سرد سی خوبصورت شام گِھر آئ تو سب ہی اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوگۓ۔ آج مہندی تھی۔۔ کل بارات اور پھر پرسوں ولیمہ۔۔ گھر کی دیواروں پر لٹکائ گئیں زرد رونشنیاں روشن کردی گئیں۔۔ ہر شے پر سونے کا عکس چڑھا معلوم ہوتا تھا۔۔
لان میں مہندی کا انتظام کیا گیا تھا۔ لالہ رُخ، گل، فاطمہ اور رامین نے زرد رنگ ہی کے جوڑے زیب تن کر رکھے تھے۔ فاطمہ شنیل کا کڑھائ والا جوڑا پہنے، بالوں کو نفیس جوڑے میں قید کیۓ، کانوں میں ڈائمنڈ کے ٹاپس ڈالے خاصی باوقار اور خوبصورت لگ رہی تھیں۔ رامین کے زرد فراک کے ساتھ گلابی چوڑی دار پجامہ تھا۔۔ لالہ رُخ اور گل کا فراک بھی اسی طرز کا تھا لیکن انکے پجاموں اور دوپٹوں کے رنگ فرق تھے۔۔ بالوں کو چوٹی میں گوندھے، میک اپ اور جیولری پہنے وہ دونوں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔۔
مردوں نے خاص طور پر سفید کرتا زیب تن کر رکھا تھا۔ اسکے سسرالی بھی وقت پر چلے آۓ تو وہ بھی ان کی جانب چلی آئ۔۔ دادی اسے ساتھ لگا کر پیار کررہی تھیں، سمیرا اسکی بلائیں لیتی اسے نظر ِ بد سے حفاظت کی دعا دے رہی تھیں اور رمشہ اسے بہت پرجوش سی گلے لگا رہی تھی۔ اس نے دروازے کی جانب نگاہ ڈالی لیکن جواب ندارد۔۔ ارسل افگن تو شادی میں آیا ہی نہیں تھا۔۔ اسے جانے کیوں مایوسی ہوئ۔۔ تین دن ہوگۓ تھے میمنے کو دیکھے اور اب وہ اسے بہت یاد آرہا تھا۔۔
“ارسل نہیں آۓ رمشہ۔۔؟”
“جی بھابھی۔۔ وہ بھائ کہہ رہے تھے کہ آفس کا کچھ اہم کام تھا تو وہ مہندی میں نہیں آسکتے۔۔ انکی جگہ بابا آسکتے تھے تو پھر ہم بابا کے ساتھ ہی آگۓ۔۔ وہ شاید کل آئیں۔۔ بارات میں۔۔”
اس نے بمشکل مسکرا کر سمجھتے ہوۓ سر اثبات میں ہلایا اور رمشہ کو لیۓ اسٹیج کی جانب بڑھ گئ۔ پیچھے کرسیوں پر دادی اور سمیرا کے ساتھ فاطمہ بیٹھیں باتیں کررہی تھیں۔ ساتھ ساتھ وہ خاندان کی عورتوں سے بھی لالہ رُخ کی ساس اور دادی ساس کو متعارف کروارہی تھیں۔۔
اسفند اور رامین کو اسٹیج پر لا کر ساتھ بٹھایا گیا تو ہر جانب گویا روشنیاں اتر آئیں۔ اسفند بھرپور طریقے سے مسکرارہا تھا اور ساتھ بیٹھی رامین، لالہ رُخ کے کسے گۓ کسی جملے پر ہنس رہی تھی۔ اسفند کو صرف ایک ہی ٹکر دے سکتی تھی اور وہ تھی رُخ۔۔ اور ابھی وہ اسے ٹکر دے بھی رہی تھی۔۔ کزنز آس پاس گھیرا بناۓ کھڑے ہنس رہے تھے۔۔ فرقان لالہ بھی رسم کرنے اسٹیج پر چڑھے تو اسکی باتوں پر قہقہہ لگا کر ہنسے بغیر نہ رہ سکے۔۔
وہ ہنساتی رہی۔۔ ہنستی رہی۔۔ دل مزید بوجھ تلے دبتا رہا۔۔
رات کو اپنے کمرے میں سنگھار آئینے کے سامنے براجمان وہ خالی خالی نگاہوں سے خود کا عکس تک رہی تھی۔۔ کیوں نہیں آیا تھا ارسل؟ کیا وہ اسکا سامنہ کرنے سے کترارہا تھا۔۔ کیا وہ اسے جواب دینے سے پہلو تہی کررہا تھا۔۔کیا وہ اس سے اتنا بیزار تھا کہ اسکی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا!
بہت سے سوال اسکا دل زخمی کرتے جارہے تھے۔ کیا کیا سوچا تھا اس نے کہ اسفند لالہ کی شادی میں کتنا خوش ہوگی وہ۔۔ لیکن اب۔۔
اس نے گہرا سانس لے کر سر نفی میں ہلایا تھا۔ جو انسان سوچے ویسا تو کبھی ہوا ہی نہیں کرتا تھا۔۔ ہمیشہ اسکے برعکس ہی قدرت کچھ طے کیۓ رکھتی تھی۔ اس نے سنگھار آئینے کے سامنے اٹھ کر اپنے ماتھے پر لگا ٹیکا اتار کر سامنے رکھ دیا تھا۔۔ اب وہ آہستہ آہستہ اپنی جیولری اتار کر رکھتی جارہی تھی۔۔
***
اگلے دن بارات تھی تو ماحول میں اور بھی رش بڑھ گیا تھا مہمانوں کا۔۔ شور، ہنگامہ۔۔ گھر میں دوڑتے ہوۓ بچے۔۔ ہنستے ہوۓ، چل پھر کر کھاتے ہوۓ لوگ۔۔ وہ بلاشبہ شادی کا گھر ہی لگ رہا تھا۔۔ اب بارات چونکہ انہی کے گھر سے جانی تھی تو انہیں ہال کے لیۓ جلدی نکلنا تھا۔۔ سر شام ہی ایک ہنگامہ مچ گیا تھا۔۔ رامین تو گل کے ساتھ مغرب میں ہی پارلر جاچکی تھی۔ اس نے فاطمہ کے ساتھ رہ کر مہمانوں کو سنبھالنا تھا۔ سو وہ نہیں گئ۔۔
***
“امی میرا کرتا کہاں گیا۔۔؟”
رامش اوپر ریلنگ سے جھانک کر چیخا تھا۔۔
“وہیں کمرے میں استری کر کے لٹکایا ہے میں نے۔۔ دھیان سے دیکھو۔۔”
نیچے سے فاطمہ کی مصروف سی آواز سنائ دی تھی۔۔
“لالے میرا ویسٹ کوٹ کدھر رکھا ہے تم۔۔؟”
مہمانوں کے رش میں اسفند کی دبی دبی آواز اسے سنائ دی تھی۔ وہ جلدی سے آگے بڑھی اور اسے اسکا ویٹ کوٹ ڈھونڈ کر دیا۔ اب جنید کے جوتے نہیں مل رہے تھے۔
“ہزار دفعہ کہا ہے کہ وقت پر چیزیں سنبھال کر رکھا کرو لیکن مجال ہے جو تم سنبھال لو کچھ۔۔ اب اتنے رش میں کیا ملے گا تمہیں۔۔”
فاطمہ نے جھنجھلا کر جنید کو گھرکا تھا۔ وہ سب مہمانوں کے سامنے بنتی درگت پر روہانسا ہوگیا تھا۔ لالہ رُخ نے گہرا سانس لیا اور پھر اسکے جوتے ڈھونڈنے میں جت گئ۔۔ آہستہ آہستہ سب اپنی تیاریاں مکمل کر کے ہال کے لیۓ نکلنے لگے۔ فاطمہ اور افغان کو بھی بھیج دیا تھا اس نے۔۔ ارمغان تایا اور فرقان لالہ بس اپنی گاڑی میں نکلنے ہی والے تھے۔۔ اسفند بھی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔
“تم کب تیار ہوگی لالہ رُخ؟ دیر ہوجاۓ گی ”
اس نے اپنے کپڑے تو پہن لیۓ تھے لیکن ابھی چہرہ ویسے ہی سادہ تھا اور بال کھلے ہو کر کمر پر گرے ہوۓ تھے۔
“آپ جائیں لالہ۔۔ میں ڈرائیور کے ساتھ آجاؤنگی۔۔ آپکو دیر ہورہی ہے۔۔ میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں تیار ہو کر۔۔”
اسفند نے اسکی بات سن کر سر ہلایا تھا۔ پھر اپنی سجی ہوئ گاڑی نکال لے گیا۔ آج تو بارات بھی ایک ہی گھر سے تھی اور رخصتی بھی۔۔ اسی لیۓ انہیں کوئ پریشانی نہیں تھی کیونکہ لڑکے اور لڑکی والے تو وہ خود ہی تھے۔۔
رُخ بھی جلدی سے زینے چڑھتی اپنے کمرے میں چلی آئ۔ اس نے آج گہرے مہرون رنگ کا فراک زیب تن کررکھا تھا۔ فراک کا گلا اسکی گردن تک بند تھا۔۔ گردن تک بند گلے پر سنہرے موتیوں سے سجی کڑھائ جگمگا رہی تھی۔ چوڑی دار سنہری ہی پجامہ پہنے وہ جلدی جلدی میک اپ کررہی تھی۔۔ پھر سب سے آخر میں مسکارے کو بہت احتیاط سے سیاہ پلکوں پر سجانے لگی۔۔ اسکا سنہرا کامدار دوپٹہ بیڈ پر سلیقے سے رکھا ہوا تھا اور اب وہ بالوں کو آگے کیۓ ان میں تیزی سے برش چلا رہی تھی۔۔
اس نے ایک بھاری جھمکا اٹھا کر کان میں ڈالا لیکن جیسے ہی ہاتھ بڑھا کر دوسرا جھمکا اچکنا چاہا تو سنگھار آئینے سے انگلیاں ٹکرا گئیں۔۔ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔ ابھی تو یہیں تھا۔۔ اس نے بالوں کو ایک طرف ڈالا ہوا تھا اور اپنا جھمکا زمین پر ڈھونڈتی وہ کمرے سے باہر چلی آئ تھی۔۔
گھر مہمانوں سے خالی ہوچکا تھا اور اب ہر جانب خاموشی پھیل گئ تھی۔۔ وہ واپس کمرے کی جانب پلٹی۔۔ خالی کان کی لو اب تک ہاتھ سے تھام رکھی تھی۔۔ یکایک وہ کمرے کا دروازہ بند کرتی جیسے ہی مڑنے لگی کسی نے اپنا جوتا دروازے میں اٹکایا تو وہ یکدم پیچھے ہٹی۔۔ لو کو چھوتا ہاتھ دروازے کی جانب بڑھا لیکن کوئ پہلے ہی اسے کھول کر اندر داخل ہورہا تھا۔۔
“کیا یہ ڈھونڈ رہی ہیں آپ۔۔؟”
سفید کرتا شلوار میں ملبوس، سیاہ ویسٹ کوٹ پہنے، بالوں کو پیچھے کی جانب جماۓ، بھوری آنکھوں سے مسکراتا ہوا وہ اسی سے مخاطب تھا۔۔ اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔۔ اسے ارسل کو یہاں اس وقت دیکھنے کی امید نہیں تھی۔۔
“آپ یہاں کیا کررہے ہیں۔۔؟”
اس نے اگلے ہی پل جلدی سے اپنا رُخ موڑا تھا۔ پھر بیڈ پر رکھا دوپٹہ اٹھا کر کندھے پر ڈالنے لگی۔ چہرہ سنجیدہ بنالیا۔۔ وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھ آیا تھا۔۔ پھر انگلیوں میں تھاما جھمکا اسکی نگاہوں کے سامنے کیا۔۔
“یہ لوٹانے آیا ہوں۔۔”
“ادھر دیں مجھے۔۔”
اس نے جھمکا لینے کے لیۓ ہاتھ بڑھایا تو ارسل نے اپنا ہاتھ سر کے اوپر بلند کرلیا۔ وہ ایڑیاں اونچی کیۓ جھمکا لینے کی سعی میں اسکے قریب چلی آئ تھی۔
“یہ مزاق کا وقت نہیں ہے ارسل۔ میرا جھمکا مجھے واپس دیں۔۔”
اس نے دانت کچکچاۓ تھے۔ وہ محظوظ ہوا۔۔ پھر اسکی آنکھوں میں جھانکا۔۔
“اور اگر میں واپس نہ کروں تو۔۔؟”
“تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا پھر۔۔”
“تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ تم سے برا کوئ ہوگا۔۔؟”
اس نے بہت حیرت سے پوچھا تھا۔ لالہ رُخ جو اسکے سینے پر ہاتھ رکھے، اونچی ہوئ جھمکا لے رہی تھی یکدم ٹھہری۔۔ قہر آلود نگاہوں سے اسے گھورا۔۔
“آپ ہیں ناں۔ کسی اور کی کیا ضرورت بھلا۔۔؟”
“میں برا ہوں۔۔؟”
اسکے ایسے پوچھنے پر وہ ایک پل کو پگھلی تھی۔ بھوری معصوم آنکھیں اس پر جماۓ وہ استفسار کررہا تھا۔ اسے اگلے ہی پل اندازہ ہوا کہ وہ اسکے قریب کھڑی ہے۔ یکدم اسکی ایڑیاں توازن قائم نہ رکھ سکیں اور اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوجاتی۔۔ ارسل نے اسکے غیر متوازن ہوتے وجود کو جلدی سے تھاما تھا۔۔
“دیکھو۔۔ گرنے سے بچالیتا ہوں تمہیں۔۔ اب بھی برا ہوں کیا۔۔؟”
مسکراہٹ دبا کر تپاتے ہوۓ پوچھا تو اس نے اسے اگلے لمحے خود سے دور ہٹایا تھا۔ وہ ہنستا ہوا پیچھے ہٹا۔۔ اس نے غصے میں پہنا جھمکا بھی اتارنے کے لیۓ ہاتھ اونچے کیۓ تو وہ جلدی سے قریب چلا آیا۔ تابعداری سے ہتھیلی اسکے سامنے پھیلائ۔۔ اسکی کشادہ ہتھیلی پر لالہ رُخ کا جھمکا پڑا تھا۔ اس نے آہستہ سے ہاتھ نیچے کیۓ اور پھر سنگھار آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو خفگی سے دیکھا۔۔ جیسے ہی ہاتھ بڑھا کر جھمکا لینا چاہا تو وہ مٹھی بند کرگیا۔۔
“جواب دینے آیا ہوں تمہیں۔ کیا کچھ وقت مل سکتا ہے مجھے۔۔؟”
اسکے کان کے قریب بہت ہلکی سی سرگوشی ابھری تھی۔ رُخ کا دل کہیں اندر ڈوب کر ابھرا۔۔ یہ دل تو بہت پہلے سے خوفزدہ تھا۔۔ اندر جڑ پکڑتے خوف نے جیسے ہی اسکی سیاہ آنکھوں کو چھوا تو ارسل نے شرارت کا ہر ارادہ ترک کردیا۔۔
“م۔۔ مجھے آپکا ہر جواب قبول ہوگا۔”
اس نے گردن جھکا کر خود کو کہتے سنا تھا۔ وہ مسکرایا۔۔ پھر مٹھی میں بند جھمکا انگلیوں میں تھاما۔۔ اسکی گردن پر گھر آۓ بال پرے ہٹاۓ۔۔ کان کی لو ہلکے سے تھامی اور جھمکا اس میں ڈال کر مسکراہٹ دباتا پیچھے ہٹ گیا۔ لالہ رُخ سانس روکے دیکھ رہی تھی اسکے عکس کو سنگھار آئینے میں۔۔ وہ کوئ چھوٹا بچہ تھا جسکی شریر سی خواہش پر وہ اسے کسی بڑے کی طرح خفا ہو کر دیکھ رہی تھی۔۔
“یہ کیا طریقہ ہے! کیوں تنگ کررہے ہیں آپ مجھے؟ آزاد تو کردیا ہے میں نے آپکو، آپکے ہر فیصلے میں ! پھر اب کیا مصیبت آگئ ہے کہ آپ میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہے! دیکھیں مسٹر ارسل افگن۔۔ میں آمنہ نہیں ہوں جو چپ چاپ آپکو کسی کا بھی ہوتا ہوا دیکھ لونگی۔ میں نے جو فیصلہ کیا ہے خود پر بہت ضبط کر کے کیا ہے لیکن آپکا یہ بچکانہ رویہ میری سمجھ سے اب باہر ہوتا جارہا ہے۔۔ ابھی کہ ابھی میرے سامنے سے چلے جائیں نہیں تو میں اپنا ارادہ بدل لونگی اور چھین لونگی آپکو ہر انسان سے۔۔ جائیں ابھی کہ ابھی آپ اور ایک بات اور، مجھے انڈر ایسٹیمیٹ مت کیجیۓ گا کیونکہ آپ ابھی مجھے جانتے نہیں ہیں میں س__”
“میں آپکے ساتھ رہنا چاہتا ہوں رُخ۔۔”
اور وہ جو طیش میں ابلتی تیزی سے بولتی جارہی تھی یکدم ساکت ہوئ۔ آنکھیں پوری کھول کر ارسل کو دیکھا۔۔ مسکارے سے سجی آنکھیں اگلے ہی پل بھیگنے لگی تھیں۔۔
“کیا کہا آپ نے؟”
اس نے بے یقینی سے بس یہی پوچھا تھا۔ وہ تھک کر مسکراتا ہوا اسکی جانب بڑھ آیا۔۔ اور اس دفعہ وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی۔۔ وہ اس لمحے کو کسی سحر کی مانند اگلے ہی پل بکھر کر غائب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔
“میں چاہتا ہوں آپ مجھ پر قابض رہیں۔ میں چاہتا ہوں جھانسی کی رانی اپنے میمنے کو کسی بھی دوسرے کے حوالے نہ کرے۔ کیونکہ دوسرے اسے ویسا نہیں سمجھتے جیسا یہ لڑکی سمجھتی ہے۔۔”
وہ چند پل بنا پلکیں جھپکاۓ اسے دیکھتی رہی تھی اور جیسے ہی اسکی سیاہ آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی تیرنے لگی تو ارسل گھبرا گیا۔۔ جلدی سے ہاتھ اٹھا کر اسے رونے سے روکا۔۔
“کیوں اتنی اچھی تیاری کا بیڑہ غرق کرنے پر تلی ہوئ ہو۔۔؟ پہلے ہی مجھے سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں کہ اس ڈھائ کلو کے میک اپ کو لگانے میں تمہیں کتنا عرصہ لگا ہوگا۔۔ اب اسے بھی خراب کرکے بھوت بن کر شادی میں جانے کا ارادہ ہے تمہارا؟ دیکھو مجھے تو کوئ مسئلہ نہیں تمہارے پھیلے ہوۓ مضحکہ خیز مسکارے سے لیکن لوگ کیا کہیں گے؟ میں تو تمہارے اجڑے، گھونسلے جیسے بالوں اور حلقوں میں ملفوف آنکھوں کے ساتھ بھی جاسکتا ہوں۔”
وہ جو رونے کی بھرپور تیاری کررہی تھی یکدم ہی ہنس دی۔ پھر چہرہ اٹھا کر بمشکل آنسو گرنے سے روکے۔ گہرے گہرے سانس لے کر اندر اٹھتے بونچھال کو قابو کرنا چاہا لیکن اسے رونا آۓ جارہا تھا۔
“زہر لگتے ہیں آپ مجھے ارسل۔۔ زہر۔۔!”
“بالکل۔۔ اسی زہر کے لیۓ کیسے کیسے معرکے سر کیۓ ہیں تم نے۔۔ نہیں؟”
اسکی اس چوٹ پر لالہ رُخ نے اسکے کندھے پر بھرپور دھپ رسید کی تھی۔ نازک میمنہ بلبلایا تھا۔
“آپ اپنی ان دہشت گردیوں سے باز آجائیں۔۔ شوہر کا درجہ دیں مجھے۔۔”
وہ اب ہنستی جارہی تھی۔۔ گردن پیچھے پھینک کر۔ پھر انگلی کے پوروں سے پلکوں پر ٹھہرے آنسوؤں کو بمشکل صاف کرتی ارسل کی جانب دیکھنے لگی۔ وہ بھی آسودگی سے مسکراتا ہوا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
“میں ڈر گئ تھی۔۔”
“جانتا ہوں۔۔”
اس نے اسکے چہرے پر گھر آئ لٹ کر کان کے پیچھے اڑسی تو وہ نم آنکھوں سے مسکرادی۔
“مجھے لگا میں کھودونگی آپکو۔۔”
“مجھے بھی یہی لگا تھا۔۔”
وہ دونوں اب دھیمی سی سرگوشی میں اعتراف کرتے جارہے تھے۔ انا کی ساری دیواریں پگھل کر درمیان سے گرتی جارہی تھیں۔ گھٹن کم ہونے لگی تھی۔۔ سانس کھل کر آرہا تھا۔۔
“میں آپکو کھونا نہیں چاہتی تھی۔۔”
اور بہت ضبط کے باوجود بھی ایک آنسو ٹوٹ ہی گیا تھا اسکی آنکھ سے۔ آواز بھرّاگئ تھی۔۔ ارسل نے انگوٹھے سے اسکا آنسو صاف کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھاما۔۔ اپنا ماتھا اسکے ماتھے کے ساتھ ٹکادیا۔۔ دونوں آنکھیں موندے بالکل چپ ہوۓ کھڑے تھے اب کہ۔۔ انکی خاموشی ہر لفظ پر بھاری ہونے لگی تھی۔۔
“مجھے لگا تھا آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔۔”
اس نے آنکھیں کھول کر ارسل کو دیکھا تھا۔۔ وہ بھی نم آنکھیں لیۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ ماتھے اب تک ایک ساتھ ٹکے ہوۓ تھے۔۔
“تم نے مجھے باندھ دیا تھا رُخ۔۔ تمہیں کیسے چھوڑ سکتا تھا میں۔۔۔؟”
“آپ وعدہ کریں آئندہ مجھے چھوڑ کر جانے کی بات کبھی نہیں کریں گے۔۔”
اس نے اس پگھلتے لمحے میں اس سے وعدہ مانگ لیا تھا۔۔ بھلا وہ انکار کیسے کرسکتا تھا۔۔ مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا۔۔
“میں تمہیں کہانی سناؤنگا۔۔ شیر اور اس عجیب الخلقت انسان کی۔۔”
اب وہ دونوں ہی نم آنکھوں کے ساتھ ہنس رہے تھے۔ ماتھے سے ماتھا ٹکاۓ۔۔ آسودگی سے سمٹے ہوۓ۔۔
“اور میں آپکے لیۓ ہر اس ہاتھ سے لڑونگی جو ظلم کے لیۓ آپکی جانب بڑھے گا۔ میں آپکی حفاظت کرونگی ارسل۔۔”
سنہری قمقموں سے سجے گھر میں جیسے ہر جانب پریاں اتر آئ تھی۔ وہ پریاں اپنے ساتھ آنے والی ساعتوں کی خوشبو بھی چرا لائ تھیں۔۔ وہ دونوں بھی گزرتے وقت سے بے نیاز ایک دوسرے سے ساتھ نبھانے کے وعدے کررہے تھے۔۔
“لالہ رُخ۔۔ اگر ہم نے اور دیر کی ناں تو اسفند لالہ گھر ہی آجائیں گے اور تمہیں تو کچھ نہیں لیکن وہ مجھے ضرور جان سے ماردیں گے۔۔”
وہ ہنستی ہوئ اس سے الگ ہوئ تھی۔ پھر اس نے پلٹ کر اپنا چہرہ سنگھار آئینے میں دیکھا تو دنگ رہ گئ۔ اسکا چہرہ گلنار ہوا جارہا تھا۔۔ یا اللہ۔۔ وہ کب سے ایسی لگ رہی تھی۔۔
“جی آپ کب سے سیب جیسے گالوں والی پٹھانی لگ رہی ہیں۔۔ اب چلیں جلدی۔۔ ویسے میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں اپنی شادی دوبارہ کرنی چاہیۓ نہیں؟ پچھلی میں تو اتنی لڑائیاں ہوئ ہیں کہ الامان!!”
“اور آپکو لگتا ہے کہ اس دوبارہ والی شادی کے بعد لڑائیاں نہیں ہوا کرینگی۔۔؟”
لالہ رُخ نے محظوظ ہو کر پوچھا تھا۔ ارسل نے خوفزدہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔
“کیا میں اپنا فیصلہ واپس لے سکتا ہوں۔۔؟”
لیکن وہ اسکے سوال پر اسے ہاتھ سے پکڑے باہر کی جانب لارہی تھی۔ ساتھ ہنس بھی رہی تھی۔۔ خاموش پڑے گھر میں اسکے زندگی سے بھرپور قہقہے گونجنے لگے تھے۔۔
“اب آپ کسی بھی فیصلے کو واپس لینے کا حق کھوچکے ہیں ارسل جی۔۔”
وہ اسے چڑا رہی تھی۔ ارسل نے خفا بھوری آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔۔
“میرے پاس میری یونیورسٹی میں پڑھتی لڑکیوں کے نمبرز اب تک موجود ہیں۔۔”
وہ اب دور ہوتے جارہے تھے۔ انکی باتیں سرگوشی کی صورت سنائ دینے گی تھیں۔ لالہ رُخ اسے اب انگلی اٹھا کر چلتے ہوۓ دھمکارہی تھی اور وہ مسکراہٹ دباۓ اسکی دھمکی سن رہا تھا۔۔ اسے اب یہ دھمکیاں ساری زندگی ہی سنتے رہنی تھی۔۔
مہرون رنگ کے فراک میں ملبوس، سیاہ بالوں والی لڑکی اور اونچا سا پیارا لڑکا۔۔ ایک دوسرے کے ساتھ دور سے دیکھنے پر بھی بہت مکمل۔۔ بہت اچھے لگتے تھے۔ انکی کہانی کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ انکی سنہری، پیاری اور کیوٹ سی کہانی کا آغاز۔۔ جس کا ایک کردار چنگیز خان کے لشکر کا آخری سپاہی تھا۔۔ تو دوسرا۔۔ اپنے قلعے میں رہتا ایک معصوم سا ڈرپوک شہزادہ۔۔ قدرت نے کیا خوبصورت بُنائ سے کام لیا تھا انکی جوڑی میں۔۔
وقت کی دھول ہوتی صدیوں میں جو گزر گیا تھا اور گزرنا باقی تھا۔۔ سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج تھا۔۔ بس اس کتاب کے ہر صفحے کے پلٹتے ہی زندگی پلٹ جایا کرتی تھی۔۔ جیسے ارسل اور لالہ رُخ کی پلٹ گئ تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ سے۔۔!!
ختم شد۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...