رات کے کسی پہر نیند میں کسمساتےہوۓ اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنے برابر سوئ ہانیہ کو اپنے قریب کرنا چاہا… لیکن اگلے ہی پل اسے آنکھیں کھولنی پڑیں… نیند کے خمار سے سرخ پڑتی نگاہیں اس نے ادھر ادھر گھمائیں… وہ نہ تو بیڈ پر اپنی جگہ موجود تھی… نہ ہی کمرے میں اس کا نام و نشان تھا…
“ہانی…” کمبل اتار کر ایک جانب پھینکتے ہوۓ وہ بیڈ سے اترا… دل نے کسی خطرے کی نشاندہی کی تھی…
“ہانی کہاں ہو تم…” وہ سلیپرز پیروں میں اڑستا ہوا اٹیچ باتھ کی جانب بڑھا… دروازہ کھٹکھٹایا… لیکن جواب ندارد… اندر سے کسی قسم کی کوئ آواز بھی نہیں آ رہی تھی… اس نے ہینڈل گھماتے ہوۓ باتھ روم کا دروازہ کھولا… وہ یہاں بھی نہ تھی…
دل ایک دم پریشان سا ہو اٹھا… یہ پہلی بار نہیں تھا… وہ اکثر یونہی بنا بتاۓ روم سے چلی جاتی تھی اور حسن اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے پاگل ہو جاتا…
“ہانیہ…” وہ بے چین ہوتا ڈریسنگ روم کی طرف بڑھا… اسے وہاں بھی موجود نہ پا کر تیزی سے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوۓ باہر آیا…
“ہانیہ کہاں ہو… جواب دو یار…” اس کی آواز سے ہی اس کے اضطراب کا اندازہ ہو رہا تھا… کوئ جواب نہ پا کر وہ ٹینشن سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا تیز تیز سیڑھیاں اترنے لگا… کچن میں جھانکا وہاں بھی نہ تھی… ڈرائنگ روم, ٹی وی لاؤنج, گیسٹ روم… ہر وہ جگہ جہاں اس کی موجودگی کا گمان ہو سکتا تھا وہاں اس نے دیکھا… لیکن وہ کہیں ملی… حویلی کے اس پورشن کے باقی کمرے لاکڈ تھے… سو وہاں وہ جا نہیں سکتی تھی… وہ بھاگتے ہوۓ داخلی دروازہ کھولتے ہوۓ باہر لان میں آیا کہ شاید گھبراہٹ کے باعث چند لمحے ہوا خوری کی نیت سے وہ باہر آ گئ ہو…
“ہانیہ…” اندھیرے میں ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے وہ ایک بار پھر چلّایا… لیکن کوئ جواب نہ ملا… وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھے جھکا اور گہرے گہرے سانس لینے لگا… ذہنی پریشانی اور بھاگنے کے باعث سانس پھولنے لگا تھا…
سیدھے ہوتے ہوۓ اس نے پیشانی مسلی… ذہن ماؤف ہو رہا تھا… سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے کہاں ڈھونڈے… حویلی کا بڑا سا آہنی گیٹ بھی لاکڈ تھا… اسے سونے سے پہلے حسن نے خود تالا لگایا تھا… اور چابی حسن کے ٹراؤزر کی پاکٹ میں تھی…اس کے باہر جانے کی امید بھی نہیں کی جا سکتی تھی…
شدید بے بسی محسوس کرتے ہوۓ وہ مڑا… تاکہ اندر جا کر دوبارہ سارے کمروں میں چیک کر سکے… تبھی اس کی نگاہ اٹھی تو وہ اپنی جگہ فریز ہو کر رہ گیا…
یہ حویلی خاصی پرانی تھی… اور بہت بڑی بھی… اس کا کچھ حصہ دوبارہ تعمیر کروایا گیا تھا… جدید انداز میں… اور حسن کو کمپنی کی جانب سے یہ گھر الاٹ کیا گیا تھا… جبکہ بقیہ حویلی اپنی سابقہ حالت میں تھی… یوں جیسے کوئ کھنڈر ہو… اکھڑا ہوا رنگ و روغن… پرانی طرزِ تعمیر… کمپنی کے ساتھ حسن کا چار سال کا معاہدہ ہوا تھا… چار سال بعد اسے واپس لاہور چلے جانا تھا… لہٰذا عارضی طور پر رہنے کے لیے یہ رہائش گاہ اسے نامناسب نہ لگی تھی… اور پھر اس پرانی حویلی سے بھلا ان کا کیا لینا دینا… جہاں انہیں رہنا تھا اس حصے کو تو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا نا… یہی کافی تھا… ویسے بھی دو افراد تھے وہ… دو افراد کو رہنے کے لیے کتنی جگہ اور کتنا بڑا گھر درکار ہو سکتا تھا…
بس یہی سوچ کر حسن نے یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا… ویسے بھی حویلی کا پرانے حصے کا داخلی دروازہ مقفل تھا… اور اس طرف کبھی جانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئ ہانیہ کو یا حسن کو…
لیکن آج… ہانیہ نہ جانے کیسے اس پرانی حویلی میں داخل ہو چکی تھی… سامنے دوسری منزل پر مختلف کمروں کے سامنے بنے کوریڈور میں حسن نے ہانیہ کی ایک جھلک دیکھی تھی… جو بائیں جانب چلتی جا رہی تھی… اچھنبا حسن کو اس بات پر ہوا تھا کہ رات کے اس پہر ہانیہ کو اس حویلی میں جانے کی کیا ضرورت آن پڑی…. اور پھر… اس طرف کا دروازہ ہر وقت مقفل رہتا تھا تو ہانیہ اس حویلی میں کیسے داخل ہوئ… وہ کہاں جا رہی تھی… بہت سے سوال تھے جو حسن کے دماغ میں گردش کر رہے تھے لیکن ان کا جواب دینے والا کوئ نہ تھا وہاں…
وہ بغیر کچھ سوچے تیزی سے اس پرانی حویلی کی جانب بڑھا… داخلی دروازے کے قریب آیا تو تالا کھلا ہوا ملا… اندر داخل ہوا تو وہاں دھول مٹی اور نہ جانے کیا کیا تھا… ہر طرف جالے لگے تھے… کھانستا ہوا وہ سیڑھیاں تلاشنے لگا… جلد ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا وہ دوسری منزل پر پہنچا… اور جس طرف ہانیہ گئ تھی اسی طرف بڑھ گیا… اب کی بار اس نے آواز دینے سے گریز کیا تھا… وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ہانیہ اس حویلی میں کیوں آئ ہے…
بغیر آہٹ ہیدا کیے وہ آگے بڑھا… کاریڈور کے آگے موڑ مڑتے ہوۓ اسے ٹھٹھکنا پڑا… دائیں جانب کے ایک کمرے سے دھیمی سی ہنسی کی آواز آ رہی تھی… اور چوڑیوں کی چھنکار کی آواز بھی… وہ آواز بلا شبہ ہانیہ کی تھی… حسن نے دروازے سے کان لگا کر اندر کی صورتحال کو محسوس کرنا چاہا… اب ہانیہ کی باتیں کرنے کی آواز سنائ دے رہی تھی… لیکن آواز اتنی آہستہ تھی کہ حسن کے پلے کچھ نہ پڑا… وہ شاکڈ ہوا تھا… اس بند کمرے میں کون تھا جس سے ہانیہ باتیں کر رہی تھی… اس کے دل میں شک نے سر اٹھایا…
“نہیں نہیں… ہانیہ ایسی نہیں ہے… وہ رات کے اس وقت یوں بند کمرے میں بیٹھ کر کسی غیر مرد سے باتیں نہیں کر سکتی… ” دل نے فوراً ہانیہ کی طرفداری کی تھی… لیکن دماغ اکسا رہا تھا اسے.. شک میں مبتلا کر رہا تھا… غصے کے عالم میں دروازہ کھول کر وہ چوکھٹ پر آن کھڑا ہوا…
دروازہ کھلنے کی آواز پر ہانیہ کی آتی آواز ایک دم رکی… وہ جہاں کی تہاں رہ گئ… اس کی پشت تھی دروازے کی طرف… اور کمر پر بکھرے بال صاف نظر آ رہے تھے… وہ نیچے زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھی… لیکن کمرے میں ہانیہ کے علاوہ حسن کو کوئ اور وجود نظر نہ آیا… وہ چوکنی اور کھوجتی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا آگے بڑھا… ہانیہ ابھی تک اپنی جگی سے ہلی تک نہ تھی…
کسی اور کو وہاں نہ پا کر حسن کے منہ سے گہری سانس خارج ہوئ…
“ہانیہ… یہاں کیا کر رہی ہو…؟؟ اور کس سے باتیں کر رہی تھی تم…؟؟” وہ الجھتا ہوا آگے بڑھا اور ہانیہ کے سامنے جا کھڑا ہوا… اس کا چہرہ دیکھ کر ایک اور جھٹکا لگا تھا حسن کو… چہرے پر میک اپ کیے, سرخ لپ اسٹک لگاۓ, کانوں میں جھمکے پہنے وہ یوں تیار تھی جیسے کسی فنکشن پر جا رہی ہو… جبکہ کتنے ماہ ہو چکے تھے حسن نے اسے کبھی تیار نہ دیکھا تھا… حسن کے لاکھ کہنے پر بھی وہ لپ اسٹک تک نہ لگاتی… حسن کو اس کے ہاتھوں کی مہندی بہت پسند تھی لیکن اس کے کہنے کے باوجود ہانیہ ہر بار ٹال جاتی… اس کے سُونے سُونے ہاتھ حسن کا دل دکھاتے تھے…لیکن ہانیہ کی طبیعت کے پیشِ نظر زیادہ اصرار کرنا اس نے کبھی مناسب نہ سمجھا… اور آج غیر متوقع طور پر اسے یوں سجے سنورے دیکھ کر حسن کے ماتھے پر تیوریاں چڑھنے لگیں… لیکن خود پر قابو پاتے ہوۓ وہ ہانیہ کی طرف متوجہ ہوا… جو اسے یوں اچانک سامنے پا کر خوفزدہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی…
“ہانیہ… میں نے پوچھا… کس سے بات کر رہی تھی ابھی تم…؟؟” حسن کا لہجہ قدرے سخت ہوا… سارا دن آفس میں کام کرنے اور سر کھپانے کے بعد شام کو وہ گھر آتا تھا تو ہانیہ کی توجہ حاصل کرنے کی خواہش ہوتی…لیکن اس کی غائب دماغی کے باعث دل مسوس کر رہ جاتا… رات میں سوتا تو یونہی اکثر ہانیہ کو کمرے سے غائب پاتا… ذہنی پریشانی اور نیند کی کمی کی وجہ سے وہ خود بھی کبھی کبھار چڑچڑا سا ہو جاتا تھا…
“کک…کوئ نہیں… کوئ بھی تو نہیں ہے یہاں… مم…میں کس سے بات کروں گی بھلا…” ہانیہ نے ہکلاتے ہوۓ یوں کہا جیسے اس کی چوری پکڑی گئ ہو… ساتھ ہی وہ ایک جانب دیکھنے لگی… حسن نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا لیکن وہاں کچھ بھی نہ تھا… پرانی زنگ لگی قد آدم کھڑکی کے سامنے پردہ لہرا رہا تھا بس…
“ہانیہ میری طرف دیکھ کر بات کرو… اس طرف کیا دیکھ رہی ہو…؟؟ ” حسن تلخ سا ہوا… اس کے انداز پر ہانیہ نے ہرنی جیسی آنکھوں میں خوف و ہراس لیے اس کی طرف دیکھا… اس کی آنکھوں میں نمی کی جھلک دکھائ دی تھی… ایک نظر حسن کو دیکھنے کے بعد وہ فوراً سر جھکا گئ….
حسن نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی… پھر گہری سانس بھرتا اس کی طرف متوجہ ہوا…
“چلو اٹھو… گھر چلیں…” ایک ہاتھ سے ہانیہ کا ہاتھ تھامتے ہوۓ دوسرا بازو اس کے کندھوں کے گرد حمائل کر کے حسن نے اسے اٹھنے میں مدد دی… بغیر کوئ لفظ کہے وہ اٹھ گئ… البتہ دروازے کے قریب جا کر وہ گردن موڑ کر پھر پیچھے دیکھنے لگی تھی… حسن نے بے بسی بھری نگاہوں سے اسے دیکھا… پھر اسے لیے ہوۓ اس حویلی سے باہر آ گیا…
💝💝💝💝💝
آج پھر وہ ہانیہ کو لے کر ڈاکٹر نادیہ اجمل کے پاس آیا تھا… دوسرے سیشن کے لیے… اس ایک ہفتے میں اس نے خود پوری احتیاط سے ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں ہانیہ کو استعمال کروائ تھیں…لیکن اس کی حالت میں معمولی سا فرق بھی نظر نہ آیا تھا حسن کو… ہانیہ کو ڈاکٹر کے روم میں ایک جانب بٹھاۓ اب حسن خود اس ایک ہفتے کی ساری صورتحال سے ڈاکٹر کو آگاہ کر رہا تھا… آواز انتہائ دھیمی تھی کہ ہانیہ نہ سن سکے… ویسے بھی وہ لاشعوری طور پر جو کچھ کرتی تھی بعد میں بہت کم یاد رہتا تھا اسے… اور حسن کے منہ سے اپنی حالت کے بارے میں سن کر وہ یقیناً پریشان ہو جاتی… اور حسن اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا… اور نہ ہی اس کے معاملے میں کوئ رِسک لے سکتا تھا اسی لیے اب اسے ویٹنگ روم میں بٹھانے کی بجاۓ اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا… ڈاکٹر نادیہ کے کیبن میں…
ڈاکٹر نادیہ اجمل حسن کی باتوں کو سنتے ہوۓ ہانیہ کو بھی بغور دیکھ رہی تھیں جو اردگرد سے بے نیاز دیواروں کو تکے جا رہی تھی… اور کبھی سر جھکاۓ دانتوں سے ناخن کاٹنے لگتی… اس کی ہر ہر حرکت سے اس کی اضطراری کیفیت عیاں تھی… وہ جب بھی آتی تھی شروع میں اس کی یہی حالت ہوتی… پھر ڈاکٹر نادیہ اجمل سے بات کر کے دھیرے دھیرے وہ پرسکون ہو جاتی…
“مسٹر حسن رضا… جب یوں میڈیسنز سے بھی مریض کو کوئ فرق نہ پڑ رہا ہو اور نہ ہی وہ اپنے بارے میں کھل کر کچھ بتانے پر تیار ہو… تب ہمیں ایک خصوصی عمل کرنا پڑتا ہے جسے ہپناٹزم کا نام دیا جاتا ہے… اس عمل میں مریض ایک خاص سحر میں جکڑا جاتا ہے… اس کا دل و دماغ ہمارے قابو میں آ جاتا ہے… یوں سمجھ لیں کہ مریض کا خود اپنے اوپر کوئ قابو نہیں رہتا… ہم اس سے جو چاہیں اگلوا سکتے ہیں… اور اس سحر کے ختم ہونے کے بعد مریض کو خود کچھ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کیا کیا بول دیا ہے ہمارے سامنے… یوں کہہ لیں کہ اس عمل کے ذریعے ہم مریض سے اس کے ماضی کے تمام واقعات جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر مریض کی الجھن, اس کی دماغی گرہ کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں…
آپ کی وائف بھی اپنے بارے میں کچھ خاص بتانا نہیں چاہتیں… تو مجھے انہیں بھی ہپناٹائز کرنا پڑے گا…. ان کے علاج کے لیے یہ ضروری ہے…. لیکن اگر آپ کی اجازت ہو تو… اور ایک بات اور… ماضی میں انسان نے جو بھی غلطیاں کی ہوں اور جن کا اعتراف وہ ہمارے سامنے کرتا ہے وہ سب ہمارے پاس ایک راز کی طرح محفوظ رہتا ہے… ہم اسے ریکارڈ ضرور کرتے ہیں لیکن کسی کو وہ ریکارڈنگز دیتے نہیں ہیں… کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاۓ تو ماضی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا حال تباہی کی نظر ہو جاتا ہے… میں مسز ہانیہ کو ہپناٹائز کروں گی…لیکن ان کے راز آپ کو نہیں بتاؤں گی کیونکہ میں نہیں چاہتی کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کی وجہ سے بھی آپ کا گھر خراب ہو…. یہ سب علاج کی نیت سے کیا جا رہا ہے تو جیسے ہی میں اصل مسئلے تک پہنچتی ہوں میں ان کا علاج شروع کر دوں گی… % 60 چانسز ہوتے ہیں اس طریقہ میں مریض کی صحتیابی کے… باقی جو اللّہ کی مرضی ہو گی ہونا تو وہی ہے…” ڈاکٹر نادیہ اجمل کی باتیں سن کر حسن کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا تھا…لیکن فی الحال ان کی بات ماننے کے سوا اور کوئ چارہ بھی نہ تھا…
“ٹھیک ہے…جیسے آپ کو مناسب لگے ڈاکٹر… مجھے میری بیوی بہت عزیز ہے… اور اس کی صحتیابی کے لیے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں… اگر اس طریقے سے وہ واپس زندگی کی طرف لوٹ آتی ہے تو اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے…” ڈاکٹر نادیہ کی باتوں نے اسے ایک امید کا دِیا تھمایا تھا… اور اس دئیے کی روشنی میں وہ آگے بڑھنے کی خواہش دل میں پیدا کر چکا تھا…
“اوکے… دو دن بعد یعنی پیر کو آپ انہیں میرے پاس لے آئیے گا… پھر ان کا ٹریٹ منٹ شروع کرتے ہیں… تب تک میں ان کی میڈیسنز چینج کر رہی ہوں… یہ اینٹی ڈپریشن میڈیسنز ہیں… یہ استعمال کروائیے انہیں…” ڈاکٹر نادیہ کی بات پر وہ سر ہلاتا اٹھا… اور کچھ فاصلے پر سر جھکاۓ بیٹھی ہانیہ کو لے کر باہر کی جانب بڑھ گیا…
💝💝💝💝💝
ٹھیک دو دن بعد حسن ہانیہ کے لے کر پھر ڈاکٹر نادیہ کے پاس حاضر ہوا تھا…
“مسٹر حسن… آپ چاہیں تو جا سکتے ہیں اب… ہمیں کچھ وقت درکار ہے اس علاج کے لیے… چند گھنٹے لگیں گے… اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ باہر ویٹ کرنا چاہتے ہیں یا جاب پہ جانا چاہتے ہیں…” ڈاکٹر نادیہ اجمل نے کچھ ضروری سامان میز پر رکھتے ہوۓ حسن کو مشورہ دیا… وہ شش و پنج میں مبتلا ہو گیا…
چند لمحوں بعد فیصلہ کرتے ہوۓ اس نے سر اٹھایا…
“میں باہر ویٹنگ روم میں انتظار کر لوں گا… آپ کو جتنا وقت درکار ہے آپ لیجیے… لیکن میں ہانیہ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا…” قطعی لہجے میں کہا گیا تھا… کہ اس کی زندگی میں وہی ایک لڑکی تھی جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی… اس سے قبل وہ کام کی دھن خود پر سوار کر کے اسے تنہائ کا عادی بنا چکا تھا لیکن اب نہیں… اب اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا وقت تھا… اور اسے ہر جگہ ہانیہ کے ساتھ ہی ہونا تھا…
“آل رائٹ… پھر آپ باہر چلے جائیے… تاکہ میں اپنا کام شروع کر سکوں… ” ڈاکٹر کی بات پر سر ہلاتا وہ اٹھا… ایک نظر برابر بیٹھی ہانیہ پر ڈالی… جو کنفیوژ سی اسے تک رہی تھی…
“ڈونٹ وری ہانی… سب ٹھیک ہو جاۓ گا… میں باہر ہی ہوں… ” اس کے گال کو سہلاتا ہوا وہ اٹھا اور باہر نکل گیا…
“مسز ہانیہ… آپ اس چئیر پر آ جائیے…” ڈاکٹر نادیہ اجمل کے کہنے پر وہ اٹھی… اور جھجھکتی ہوئ مطلوبہ جگہ جا بیٹھی… ڈاکٹر نادیہ نے کمرے کی لائٹ آف کرتے ہوۓ ٹیبل لیمپ آن کیا اور اس کی روشنی بھی کم کر دی… کمرے میں اب نیم اندھیرا تھا… اور جس جگہ ہانیہ بیٹھی تھی وہاں روشنی بالکل کم تھی…
“اپنی آنکھیں بند کر لیجیے…” ڈاکٹر نادیہ کے کہنے پر وہ ڈرتے ڈرتے اپنی آنکھیں بند کر گئ… نہ جانے کیا ہونے والا تھا… دل میں طرح طرح کے خدشات ابھر رہے تھے…
چند لمحوں بعد ہی اسے لگا اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے… دماغ جیسے سُن سا ہو رہا تھا… اسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کا ذہن گہری نیند میں ڈوبتا جا رہا ہو… تاریکی ہی تاریکی تھی ہر طرف… کہیں دور سے ڈاکٹر نادیہ اجمل کی آواز سنائ دے رہی تھی…
“اپنے بارے میں بتائیں… شروع سے سب… ہوش سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک جو جو باتیں, جو جو واقعات اور جتنی بھی یادیں آپ کے ذہن میں محفوظ ہیں وہ سب بیان کریں…” ٹیپ ریکارڈر آن کرتے ہوۓ ڈاکٹر نادیہ اب اس کے بولنے کی منتظر تھیں…
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...