رات کے کھلے ہوئے منہ سے تاریکی اور اندھیرے کا کثیف دھواں نکل رہا تھا، جو رات کی ہول ناکی میں اضافے کا باعث بن رہا تھا۔ اس جگہ قرب و جوار میں انسانی آبادی نہیں تھی۔ یہ شہر سے کافی دور کا علاقہ تھا۔ اس سے کچھ آگے جنگل کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا، البتہ ادھر ایک عمارت تھی، لیکن وہ کسی وجہ سے کھنڈر میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ادھر کوئی نہیں رہتا تھا۔ اس علاقے میں دل دہلا دینے والی خاموشی طاری تھی۔ عمارت کے اردگرد خود رو جھاڑیاں بے تحاشا اُگی ہوئی تھیں۔ اس کے اندر باہر کئی بڑے درخت بے ہنگم انداز میں ہوا کے تیز جھونکوں سے جھوم رہے تھے۔ بے شمار جھینگر وہاں اپنا روایتی راگ الاپ رہے تھے۔ دفعتاً دو آدمی اس علاقے میں داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں دو تھیلے تھے اور ان کے اٹھانے کے انداز سے ہی پتا چلتا تھا کہ تھیلوں میں کسی قسم کی بھاری اشیاء ہیں۔ وہ دونوں ماحول کی ہول ناکی کی پروا کیے بغیر کھنڈر کی جانب بڑھتے چلے جا رہے تھے۔
اچانک ایک تیز آواز ہوا کے دوش پر لہرائی۔ دونوں چونک پڑے۔ دور کوئی کتا بھاگتا ہوا بھونک رہا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔ دونوں ایک ٹارچ کی روشنی میں راستہ دیکھتے ہوئے چل رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ کھنڈر نما عمارت کے اندر آ گئے۔ اندر آ کر انہوں نے ایک اجڑے ہوئے ٹوٹے پھوٹے کمرے میں تھیلے فرش پر ڈال دئیے۔ فرش پر مٹی کی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی۔ ٹارچ والے نے روشنی اس جگہ کی چھت پر ڈالی۔ پوری چھت پر انتہائی بڑے اور دبیز جالے بنے ہوئے تھے۔ اُن میں موجود مکڑیاں روشنی پڑتے ہی بے چینی محسوس کرنے لگی تھیں۔
ٹارچ والے نے وہاں کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ساتھی سے کہا۔ ’’کافی محفوظ اور بہترین جگہ ہے ۔۔۔ حیرت ہے، ہمیں اس جگہ کے بارے میں پہلے علم ہی نہیں تھا۔‘‘
’’واقعی۔۔۔ اس جگہ کے بارے میں تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں آئے گا۔ ہم بڑے آرام سے یہاں اپنا سامان چھپا سکتے ہیں۔‘‘ دوسرے نے اس کی تائید کی۔
ٹارچ والا تھیلوں پر روشنی ڈال رہا تھا۔ وہ ہنستا ہوا بولا۔ ’’لگتا ہے، اس مرتبہ بڑا مال ہاتھ لگا ہے۔ مزے آ گئے۔‘‘
’’بڈھے نے اپنی بیٹی کے جہیز کے لیے بڑا مال جمع کیا تھا۔۔۔ہمسب کچھ لے آئے ۔۔۔ چل یار۔۔۔ حصہ بانٹی کر لیں۔‘‘
ان کی باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ دونوں پیشہ ور چور تھے۔
دوسرے آدمی نے ٹارچ کی روشنی میں تھیلوں میں سے سامان نکالنا شروع کر دیا۔ ان اشیاء میں زیورات اور دوسری چھوٹی، مگر قیمتی چیزیں شامل تھیں۔ دونوں ہنس رہے تھے اور چوری کا تازہ ترین واقعہ مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے۔ اچانک زیورات پر کوئی چھوٹی جان دار شے کو دی۔
دوسرے آدمی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ وہ بری طرح بوکھلا کر پیچھے ہٹا اور گرتے گرتے بچا۔ پہلے نے جلدی سے ٹارچ کی روشنی زیورات کی جانب کی تو انہوں نے ایک موٹا تازہ چوہا بھاگتے دیکھا۔ ٹارچ والے کے منہ سے زور دار قہقہہ نکل گیا۔
’’ڈر گئے ۔۔۔؟ اب ایک چوہے سے ڈر گئے ۔۔۔ دھت تیرے کی۔۔۔ بڑے سلطانہ ڈاکو بنے پھرتے ہو۔۔۔ ایک چوہے نے ساری بہادری ہوا کر دی۔۔۔‘‘
پہلے آدمی نے چوہے کی شان میں زبردستی گستاخی کی اور منہ بنا کر بولا۔
’’میں سمجھا ۔۔۔کوئی سانپ وانپ آ گیا ہے، اس لیے تھوڑا گھبرا گیا تھا۔‘‘
اسی لمحے انہوں نے چوہے کی چیں سنی۔ ٹارچ والے نے جلدی سے ٹارچ کی روشنی آواز کی طرف پھینکی۔ وہی چوہا بڑی دلیری سے ایک طرف کھڑا انہیں گھور رہا تھا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ چوہے کے بھیانک انداز نے ان کے جسموں میں خوف و دہشت کی لہریں دوڑا دیں۔ ٹارچ والے نے گالیاں بکتے ہوئے پستول نکالا اور چوہے کی جانب رخ کیا۔ اگلے ہی لمحے اس کا ہاتھ جہاں کا تہاں رہ گیا۔ ایسا لگتا تھاجیسے اس پر کسی نے جادو کر کے پتھر کا بنا دیا ہے۔ اس کا ساتھی بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ منظر دیکھ رہا تھا۔ جس کی خوف ناکی نے ان دونوں کے حواس معطل کر دئیے تھے۔
اب انہیں ایک کے بجائے سیکڑوں چوہے بھاگتے دوڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ گول مٹول اور بھاری بھر کم چوہے ۔۔۔ جو غیر معمولی بڑے سائز کے تھے۔ پہلے چور کے ہاتھ سے ٹارچ گر گئی، مگر وہ تب بھی چوہوں کو دیکھ رہے تھے۔ ٹارچ گر کے بند ہو گئی تھی، مگر اندھیرے میں ان کو چوہوں کی چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آ رہی تھیں، جو جگنوؤں کی طرح ادھر ادھر لپک رہی تھیں اور ان چمکتی آنکھوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ زمین سے چوہے اُبل رہے ہیں۔ ان دونوں آدمیوں کے زرد چہروں پر موت کی پرچھائیاں لہرا رہی تھیں۔ دونوں کو یقین ہو گیا تھا کہ ان کے کالے کرتوتوں کا نتیجہ آخر کار بھیانک موت کی شکل میں ان کے سامنے آ گیا ہے۔ نامعلوم کس مظلوم کی بددعا نے ان کو ادھر آ گھیرا تھا۔ دہشت کا مہیب اژدھا ان دونوں کو نگل چکا تھا۔ اب تک خوف ناک چوہے ان دونوں کے اطراف میں دوڑ بھاگ رہے تھے، لیکن حملہ آور نہیں ہوئے تھے ۔۔۔ نہ جانے کیا بات تھی۔
معاً ٹوٹے ہوئے دروازے سے کوئی اندر داخل ہوا۔ وہ کوئی انسان ہی لگتا تھا۔ دونوں چور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر آنے والے کو دیکھنے لگے۔ وہ ان دونوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کے عقب میں ٹوٹا ہوا دروازہ بھی دکھائی دے رہا تھا، اس لیے وہ دونوں چور آنے والے کا ہیولہ دیکھ سکتے تھے۔ پہلے تو وہ اسے انسان ہی سمجھے تھے، لیکن کسی انسان کے منہ سے ایسی ہول ناک غیر انسانی غراہٹ نہیں نکلتی اور نا ہی۔۔۔ نہ ہی کسی انسان کی دم ہوتی ہے، جب کہ آنے والے کی لمبی دم کوڑے کی طرح لہرا رہی تھی۔
پھر زلزلہ سا آ گیا۔ ہیولہ ایک تیز چیخ کے ساتھ ان پر کودا۔ دونوں فرط دہشت سے گرد آلود فرش پر گر گئے۔ اگلے ہی لمحے گرد آلود فرش خون آلود بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ان چوروں کے خون آلود لوتھڑے اور جسموں کی بوٹیاں چھت تک اُچھل رہی تھیں۔ کمرے میں ایک بھونچال آ گیا تھا۔ چوہے بھی خون اور گوشت کے لوتھڑوں پر ٹوٹ پڑے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں صرف چوروں کے مچرب جسموں کے بجائے ان کے ڈھانچے پڑے رہ گئے۔ سارے چوہے شکم پری کے بعد آہستہ آہستہ وہاں سے کھسک رہے تھے۔ پراسرار طور پر بلا بھی غائب ہو چکی تھی۔