(Last Updated On: )
رات بھی آنکھوں میں کٹ جاتی ہے اکثر
زیست بھی چپکے سے گھٹ جاتی ہے اکثر
چھِن کے آ جاتی ہیں مہ کی ساری کرنیں
دھوپ یوں زنداں سے ہٹ جاتی ہے اکثر
سخت جانی ہے نَبَردِ جاں بھی کوئی
موت آ کر بھی پلٹ جاتی ہے اکثر
کچھ ستارے ٹوٹ کر ہیں گر بھی جاتے
چاند کی گاڑی بھی پھٹ جاتی ہے اکثر