حبیبِ سحر!لبوں سے حرفِ دعا بچھڑنے سے پہلے سنگِ درِجاناں پر رکھی آنکھوں میں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ارمان اٹھ جا یار کتنا سوئے گا۔۔۔۔یہاں ہماری راتوں کی نیندیں حرام ہوئ وی ہیں اور یہ صاحبزادے یہاں پتا نہیں خواب میں کس کے ساتھ شعر وشاعریاں کر رہے ہیں۔۔۔
ابھی تک نیندیں پوری نہیں ہوئ کیا۔۔۔ابےیار اٹھ جا۔۔
یار ارمان اٹھ جا آفس کی دیر ہو رہی ہے۔۔۔پتا نہیں دادی نے کہاں پھنسا دیا”علی منہ میں بڑبڑایا۔۔۔
رات بھر دیدہِ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے ،،آپ آتے رہے ،، جاتے رہے
خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا
اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا
نظریں نیچی کئے شرمائے ہوئے آئے گا
کاکلیں چہرے پہ بکھرائے ہوئے آئے گا
آ گئی تھی دلِ مضطر میں شکیبائی سی
بج رہی تھی میرے غمِ خانے میں شہنائی سی
پتیاں کھڑکی تو ہم سمجھے کہ آپ آہی گئے
سجدے مسجود کے معبود کو ہم پا ہی گئے
صبح نے سیج سے اُٹھتے ہوئے لی انگڑائی
او صبا تو بھی جو آئی تو اکیلے آئی
میرے محبوب مری نیند اُڑانے والے
میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے
آ بھی جا تاکہ میرے سجدوں کا ارماں نکلے
آ بھی جا تاکہ تیرے قدموں پہ میری جاں نکلے
“ارمان نے غزل سنا کے علی کا بازو پکڑ لیا”
“بس کرجا ایک تو تیرے یہ شعر ۔۔۔۔اور یہ صبا کون ہے جس سے اکیلے آنے کا شکوہ کر رہا ہے ۔۔۔
ہوش کر بیٹا ہوش کر میں علی ہوں تیرا کزن میں لڑکا ہوں مجھے اپنی محبوبہ نہ سمجھ لینا”علی اپنا بازو چھڑوا کے بولا۔۔۔
“ہاں پتہ ہے چل اب دفا ہو میں اٹھ گیا”ارمان بےزاریت سے بڑبڑایا ۔۔۔۔
*********************
“بھائ آپ جا رہے ہیں مجھے اکیلے چھوڑ کے”۔۔اجالا ممنائ۔۔۔
“میری گڑیا تم اکیلے کیوں ہو بھئ اپنے ددھیال جا رہی ہو اور چند مہینوں کی تو بات ہے پھر میں واپس آجاؤںگا”خرم اجالا کے سر پہ تھپکی دے کے بولا۔۔۔
“بھائ میں وہاں کسی کو بھی نہی جانتی اور آپ کو پتا ہے نہ میں آپ سے اتنے مہینے دور نہیں رہ سکتی” ۔۔۔
“اچھا شکوہ شکایتیں راستے میں کر لینا ابھی چلو دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔خرم اجالا کو اپنے ساتھ لگا کے گاڑی مین بیٹھ گیا۔۔۔۔
“بہت برے ہیں آپ بھائ۔۔۔اجالا غصے سے بڑبڑائ
شکریہ ۔۔۔اب چلیں میڈم صاحبہ ۔۔۔
ہاں جیسے میرے کہنے پہ رکھ جائیں گے ۔۔۔۔
********♡********
“کس کے آنے کی خوشی میں اتنی تیاریاں ہو رہی ہیں بھئ آہا کیا خوشبو ہے لگتا ہے کوئ خاص مہمان آنے والے ہیں”ارمان سیدھا کچن میں گیا
ہاں مہمان آنے ولے نہیں آنے والی ہے۔۔۔علی شوخی سے بولا۔۔۔
“بھائ اجالا آ رہی ہے”۔۔۔۔فاطمہ نے ارمان کو چائے کا کپ پکڑوا تے ہوئے بولی۔۔۔
“کون اجالا”؟
“راشد چاچو کی بیٹی”۔۔۔۔
“اوہ اچھا۔۔۔
یہ میرے چاروں طرف کس لیے اجالا ہے
“تیرا خیال ھے یا دن نکلنے والا ہے
ارمان نے چائے کا سپ لےکے شعر سنایا
“او بھائ بس یہ بار بار شعر نہ مار دیا کر سب تنگ آگئے ہیں تیرے شعروشاعری سے”ارحم جو کچن میں داخل ہوا ارمان کا شعر سن کے بڑبڑایا ۔
ہاں ہر وقت سڑتے رہنا تم میری شعر و شاعری سے۔۔۔چل ہٹ آگے سے میں جا رہا ہوں باہر ۔۔۔
***********♡************
“امی اجالا اور خرم آگے”۔۔۔فاطمہ چھت سے آواز دے کے نیچے بھاگی سب کو بتانے کے لیے۔۔۔۔
“ارے ارے لڑکی آرام سے ابھی سیڑیوں کو کچھ ہو جاتا تو”۔۔ارمان جو سامنے صوفے میں بیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا سامنے سیڑیوں سے تیزی سے فاطمہ کو اترتے دیکھ کے کہا۔۔۔۔
“بھائ اجالا اگئ” ۔۔۔۔فاطمہ خوشی سے بولی۔۔۔
“ہاں تو اجالا آئ ہے نا کوئ وزیراعظم کی بیٹی تو نہی آگئ جو تم ایسے بھاگ رہی ہو”۔۔۔
“اف بھائ آپ چپ ہی رہیں تو بہتر ہے”۔۔فاطمہ باہر کی جانب بھاگی ۔۔۔۔
اجالا اور خرم سب سے مل کے اندر آرہے تھے کہ خرم کو پیچھے سے علی نے آواز دےدی
خرم۔۔۔
“ارے میری جان میرا جگر کا ٹکڑا” خرم علی کو لگے لگا کے بولا۔۔۔
“ہاں بس رہنے دے مجھے تو بھول گیا اور اب امریکہ جا کے مر رہا ہے”۔۔علی نے منہ پھولا کے کہا۔۔
دونوں وہیں باتوں میں لگ گئے جبکہ فاطمہ اجالا کو لے کے اندر آگئ ۔۔۔
اجالا اندر آئ تو سامنے ارمان بیٹھا تھا۔۔۔
اجالا باری باری سب سے ملی۔۔
اسلام و علیکم۔۔اجالا نے ارمان کو دیکھ کے سلام کیا جس نے سلام کا جواب دینے کے ساتھ شعر بھی سنا دیا۔۔۔
جان پیاری تھی ، مگر جان سے پیارے تم تھے
جو کہا تم نے وہ مانا گیا ، ٹالا نہ گیا
صرف اک بار نظر بھر کے انھیں دیکھا تھا
زندگی بھر میری آنکھوں کا اجالا نہ گیا۔۔
اجالا نے نہ سمجھی سے ارمان کی طرف دیکھا پھر فاطمہ کی طرف دیکھا۔۔
اجالا بھائ کو شعر و شاعری کی عادت ہے جب تک دن میں ایک شعر نہیں سناتے تب تک دن نہیں گزرتا۔۔تم اگنور کرو۔۔۔
“جاو بیٹی اجالا کو اپنے روم میں لے جاو تھک گئ ہوگی میری پوتی اور تو نکما نالائق اٹھ یہاں سے اپنے کام پہ جا”دادو فاطمہ سے بول کے ارمان سے مخاطب ہوئیں۔۔
دادو کی بات پہ اجالا اور فاطمہ ہنس دیں۔۔۔۔
“یار دادی کچھ تو عزت رکھ لیں مہمان کے سامنے”ارمان اپنی بےعزتی پہ ممنایا ۔۔۔۔
میں مہمان نہیں ہوں میں تو اپنے گھر آئ ہوں اپنی دادی کے پاس ۔۔۔اجالا دادو کے گلے لگ کے بولی۔۔
ارمان جل بھن کے باہرچلا گیا۔۔۔
**********♡***********
جاو فاطمہ دیکھو ذرا اجالا بیٹی اٹھ گئ۔۔۔اگر سو رہی ہو تو اٹھا مت بچی سفر کے دوران تھک گئ ہوگی۔۔
واہ بھی واہ کاش ہمارے لیے بھی اتنی نرمی ہوتی دادی کبھی آپ میرے لیے بھی ایسا بولا کریں نہ کہ جاو فاطمہ دیکھ ارحم اٹھا کہ نہیں اگر اٹھا ہوتو سونے دینا بچہ رات دیر سے سویا تھا۔۔۔ارحم اپنی دادی کی نقل اتار کے بولا ۔۔۔۔
“ہاں تم تو ہر وقت مجھ سے جیلس ہونا” ۔۔۔اجالا جو نیچے آرہی تھی ارحم کی بات سب کے بولی۔۔۔۔
“ہوں جیلس اور وہ بھی تم سے”ارحم منہ بنا کے بولا۔۔۔
ہاں بھئ تم مجھ سے ہی جیلس ہوتے ہو آخر میری پیاری دادی تم سے ذیادہ مجھے پیار کرتی ہیں۔۔اجالا نے راشدہ بیگم کے گلے میں بازو ڈال کے کہا۔۔۔۔
یہ تمہاری خوش فہمی ہے جناب کیوں کہ دادی سب سے ذیادہ پیار اپنے لاڈلے پوتے جو کہ موصوف اس وقت گدھے گھوڑے بیچ کے دوبارہ سو گئے ہیں ان سے کرتی ہیں۔۔۔
“ہاں وہ تو کچھ گھنٹے پہلے دیکھ لیا تھا کہ اپکا بھائ دادی کا کتنا لاڈلہ ہے اور اسکی کتنی عزت ہے”اجالا ہنس دی۔۔۔
“وہ تو دادی کا پیار ہی ایسا ہے کہ اگلے بندے کو لگتا ہے کہ اسکی بےعزتی ہو رہی ہے ورنہ جو ہماری دادی ہیں نہ”ارحم نے فخر سے کالر جھڑکایا ۔۔۔
“ویسے تمہارے سست بھائ ہر وقت سوتے رہتے ہیں کیا”اجالا دھیمی آواز میں بولی۔۔
“جی نہیں وہ تمہاری طرح سست نہیں ہیں اتنا بڑا بزنس سنبھالتے ہیں میرے بھائ آج جنید کی میٹنگ تھی تو ارمان بھائ نہیں گئے آفس”ارحم فخر سے بولا۔۔۔
“ویسے میں دادی کی لاڈلی ہوتی ہوں” اجالا دوبارہ اپنی ٹون میں آئ۔۔
ارحم نے غصے سے اجالا کی طرف دیکھا۔۔
“دادی آج آپ بتا دیں کہ اپکا لاڈلہ کون ہے”
میری لاڈلی پوتی اجالا ہے اور لاڈلہ پوتا ارمان اب بس کوئ بھس نہیں کرے گا جاو جاکہ کھانا کھاو ۔۔۔
اجالا ارحم کو منہ چڑا کے بھاگ گئ۔۔۔
************♡*********
اکرم صاحب کی بیوی جن کا نام راشدہ ہے ان کے چار بیٹے تھے سب سے بڑے بیٹے عمران کی شادی اکرم صاحب کے دوست کی بیٹی(نغمہ ) سے ہوئ جن کا ایک بیٹا جنید اور ایک بیٹی زوجاجہ ہے۔۔۔
دوسرے بیٹے عرفان نے اپنی پسند(آمنہ ) کی شادی تھی جن کے تین بیٹے سب سے بڑا بیٹا ارمان، ارحم،راحم اور ایک بیٹی فاطمہ تھی۔۔
۔تیسرے بیٹے راشد صاحب نے اپنی پسند(عالیہ ) کی شادی کی جن کا ایک بیٹا خرم اور ایک بیٹی اجالا ہے ۔ ۔۔۔چوتھے بیٹے فرحان نے شادی اپنی امی کی خالہ کی بیٹی(نبیلا)سے کی جن کا ایک بیٹا علی اور ایک بیٹی ثوبیہ ہیں ۔۔۔۔
اکرم صاحب اپنے بیٹے راشد اور اپنی بہو کے ساتھ عمرے سے آرہے تھے کہ ہوائ جہاز کریش ہوگیا ادھر ہی تینوں کا انتقال ہو گیا راشد صاحب اور ان کی بیگم کے انتقال کے وقت اجالا چھ سال کی تھی جبکہ خرم پندرہ سال کا تھا یہ پوری فیملی خان ویلا میں ایک ساتھ رہتی تھی لیکن عمران صاحب کی بیگم(نغمہ ) ہر وقت خرم اور اجالا کو باتیں سناتی رہتی خرم پڑھائ ختم کر کے اجالا کو خان ویلا سے دور اپنی محنت سے بنائے گھر میں چلا گیا۔۔۔اس دن کے بعد آج تک خرم اور اجالا خان ویلا میں نہیں گئے لیکن خان ویلا کے سب بچے خرم اور اجالا سے ملنے آتے رہتے تھے اب خرم کو بزنس کے سلسلے میں باہر ملک جانا تھا تو اجالا کو دوبارہ خان ویلا بھیج دیا اب اجالا بڑی ہوگئ تھی اجالا اب کسی کی کوئ باتیں نہیں سنتی تھی اور جو کوئ غلط بات کرتا اجالا کھری کھری سنا دیتی۔۔۔۔
*&&*************
عمران صاحب ،عرفان صاحب دونوں ایک ساتھ بزنس کرتے تھے دونوں کی دیتھ کے بعد بزنس ان کے بچے جنید ارمان سمبھالتے ہیں جنید اور ارمان میں بہت گہری دوستی تھی ارمان اور جنید اپنی پڑھائ مکمل کر کے اپنے والد کا بزنس سمبھال رہے ہیں۔۔۔جنید اوباش قسم کا دل پھینک فلرٹ آوارہ قسم کا لڑکا ہے جبکہ ارمان چلبلا خوش مزاج تھا۔۔۔ارحم راحم دونوں ماسٹر کے لاسٹ ائیر میں ہیں اجالا اور فاطمہ نے بیچلر کمپلیٹ کر کے پڑھائ کو خیر آباد کہہ دیا تھا۔۔۔خرم کا اپنا الگ بزنس تھا جسکو اسٹیبلشمنٹ کرنے کے لیے باہر ملک چلا گیا۔۔۔فرحان صاحب آرمی سے رٹائمنٹ لے کے گھر بیٹھ گئے تھے ان کے نقشہ قدم پہ چل کے علی آرمی جوائن کرنا چاہتا تھا لیکن ابھی اس کی پڑھائ ختم ہونے میں ایک سال اور ہے زوجاجہ اور ثوبیہ بیچلر کے لاسٹ ائیر میں تھیں۔۔۔۔
**********♡*********
اجالا لان میں بیٹھیں ٹھنڈی ہوا کے مزے لوٹ رہی تھی کہ سامنے گیٹ سے ایک گاڑی اندر آتی دیکھائ دی۔۔ جنید آفس سے تھکے ہارے گاڑی سے اتر رہا تھا کہ سامنے اجالا نظر آگئ جنید اجالا کے پاس چلا گیا۔۔۔
اجالا بے زاریت سے جنید کی طرف دیکھ رہی تھی “جنید بھائ آپ”
“تم سب سے ملی لیکن مجھ سے نہیں ملی تم”
“اوہ سوری ایکچلی کل میں سب سے ملی لیکن آپ وہاں نہیں تھے” ۔۔۔اجالا نے نظرین نیچے کر کے جواب دیا ۔۔اجالا جانتی تھی کہ جنید کس قسم کا لڑکا ہے جنید ارمان اور علی نے ساتھ کبھی کبار خرم کے گھر چلا جاتا تھا اجالا کو جنید کی نظروں سے الجھن ہوتی تھی۔۔۔
کوئ بات نہیں کل میں گھر پہ نہیں تھا۔۔۔
اجالا کو جنید کی بےتکلفی برداشت نہیں ہو رہی تھی وہ کسی بھی طریقے سے اندر جانے کا سوچ رہی تھی لیکن سامنے جنید اجالا کا راستہ روکے کھڑا تھا۔۔۔۔
یااللہ یہ تو کچھ ذیادہ ہی فری ہو رہا ہے اب میں کیا کروں کوئ تو آجائے کمبخت سب پتا نہی کہاں مرے وے ہیں ویسے تو سب میرے پاس چوبیس گھنٹے بنبناتے رہتے ہیں اور آج جب یہ ہے تو کوئ نظر نہیں آرہا اللہ پوچھےگا ان سب کو ۔۔اجالا اپنے دل ہی دل میں بولی جا رہی تھی ۔۔۔
اجالا اندر آجاو دادی بلا رہی ہیں۔۔۔ثوبیہ نے اپر بالکونی سے اجالا کو آواز دے کے اندر بلایا۔۔۔اجالا فورا سے اندر بھاگ گئ۔
**********♡**********
رات کے پہر سب بچے اوپر چھت میں محفل جمائے بیٹھے تھے۔۔۔
“بھئ اجالا سب تمہارے ہاتھ کی چائے کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔۔۔۔لیکن ارمان بھائ نہیں مانتے۔۔کیوں کہ آج تک انہوں نے تمہارے ہاتھ کی چائے پی نہیں” ۔۔۔۔ارحم نے ارمان کو آنکھ مار کے کہا۔۔۔
“تمہیں چائے پینی ہے تو سیدھا سیدھا بول دو یوں اپنے بھائ کے کاندھے پہ بندوق کیوں چلا رہے ہو”۔۔۔اجالا غصے سے بولی۔۔۔
“اب جب سمجھ گئ ہو تو جاو چائے بنا کے لاو جاو ثوبیہ تم اجالا کی ہیلپ کرو چائے بنانے میں”۔۔۔ارحم نے ثوبیہ سے کہا جو سب سے بے خبر اپنے موبائل میں لگی تھی۔۔۔
“او ہیلو میں مہمان ہوں اور تم مجھ سے کام کروا رہے ہو”اجالا نے ارحم کو آنکھیں دیکھائ۔۔۔
“بیٹا مہمان تین دن کے ہوتے ہیں چوتھے دن میزبان بن جاتے ہیں اب شرافت سے اٹھ جاو چلو”۔۔۔۔
اجالا اور ثوبیہ دونوں چائے نبانے چلی گئ
آدھے گھنٹے بعد دونوں چائے بنا کے آئیں۔۔۔
چائے ہوگئے یا پائے اتنی دیر میں آئ ہو ۔۔۔۔
نیچے دادی نے پکڑ لیا تھا بہت مشکل سے بچ کے آئے ہیں۔۔۔اجلا سب کو چائے دے کے ارمان کے پاس آئ۔۔
چائے۔۔۔۔اجالا نے چائے کا کپ ارمان کے سامنے کیا۔۔۔
ارمان نے چائے لے کے شعر پڑھا۔۔
چائے پيئیں، چائے پِلائیں، چائے پہ بُلائیں
کہ چائے سے ہی چاہت کا دروازہ کھُلتا ہے ۔۔۔!!!۔۔۔
اجالا نے ارمان کو آنکھیں دیکھائ۔۔۔
**********♡**********
اسلام و علیکم دادو کیا حال ہے کیسی ہو میری جان دادو جان۔۔۔ارمان نے دادی کے گلے میں اپنی بازو ڈال دیے۔۔۔
مل گئ فرصت کبھی بوڑھی دادی کے پاس بھی بیٹھ جایا کر کمبخت پوچھتا ہی نہیں ہے اپنی دادی کو۔۔۔
ارے دادی میں آپ کا حال نہ پوچھو ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔آپ ہی میرا حال نہیں پوچھتی میں آپ سے ناراض ہوں۔۔۔اچھا چل بتا لیا حال ہے تیرا ۔۔۔۔
مدت کے بعد غالب اس لاپروا نے
حال پوچھ کر پھر وہی حال کر دیا۔۔۔۔۔۔
اسے کیا پتہ میرے حال کا۔
ارمان نے سامنے سے آتی اجالا کو دیکھ کے شعر پڑھا۔۔۔
چھچھورا کہیں کا جب دیکھو شعر سناتا رہتا ہے ۔۔۔
*****************
کس کے خیال میں گم ہے جانی آج تو اپنے بھائ کو پوچھا بھی نہی۔۔۔جنید جو ابھی ابھی آفس سے آیا تھا سیدھا ارمان کے برابر صوفے میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔جو نا جانے کتنی دیر سے کسی خیال میں گم تھا۔۔
اِک تمہارے خیال میں ہم نے
جانے کتنے خیال چھوڑے ہیں۔۔
ارمان نے سامنے بیٹھی اجالا کو دیکھ کے شعر سنایا۔۔
یااللہ یہ اتنا چھچھورا کیوں ہے۔۔۔اجالا منہ ہی منہ میں بڑبڑائ۔۔
یا اللہ میرے بھائ کو نیک ہدایت دے یاپھر مجھے بہرا کر دے قسم نے تنگ آگیا ہوں تیری اس دو ٹکے کی شاعری سے۔۔ارحم دانت پس کے بولا۔۔۔
خبردار جو میری شاعری کو دو ٹکے کا کہا ہو تجھے نہیں پتا میری شاعری پہ لاکھوں فدا ہیں۔۔۔
تو جو لاکھوں فدا ہوئ ہیں انکو جا کے سنا نہ ہمارے کان کیوں کھا رہا ہے
کہوں گا ہزار بار کہوں گا اور جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لو۔۔ارحم منہ چڑا کے بھاگ گیا
یار تم سب کیسے کزن ہو مجھے یہاں آئے ایک ہفتہ ہوگیا اور تم میں سے کسی نے مجھے کہاں بھی نہیں کہ آو اجالا تمہیں کہیں باہر لے چلوں تم سب کے سب کنجوس ہوں تم سب یہی سوچ رہے ہوگے کہ جو مجھے باہر لے کے جائے گا اس کی جیب بھی خالی ہوگی۔۔۔۔
اجالا اونچی آواز میں بولی تاکہ آس پاس بیٹھے سب سن سکیں خاص کر ارمان ۔۔۔۔
اجالا کی بات پہ ارمان مسکرا دیا۔۔۔
واہ اجالا تم نے تو ہمارے دل کی بات کہہ دی واقعی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ تمہیں کہیں گھمانے لے کے جائیں لیکن جب ہم نے اپنی جیب دیکھی تو توبہ کر لی۔۔۔ارحم کی بات پہ اجالا تپ گئ۔۔۔
یار اجالا دو دن رک جاو یونی کی چھٹی ہوجائے پھر سب کہیں گھومنے چلیں گے۔۔۔
راحم موبائل میں مصروف انداز میں بولا۔۔۔
“راحم تم تو رہنے دو ایک نمبر کے کنجوس ہو”۔۔۔
لووو ایک تو بھلا کر رہا ہوں اوپر سے تم مجھے ہی کنجوس کہہ رہی ہو ارحم ٹھیک ہی کہتا ہے بوٹکی۔۔۔
اوٹ تم نے مجھے بوٹکی کہا رک تیری تووو ۔۔۔
اجالا ہم آج شام کو شاپنگ کرنے چلیں گے ۔۔۔
ثوبیہ نے اپنی رائے پیش کی۔۔
یار لے کے کون جائے گا ۔۔اجالا اداسی سے بولی۔۔۔۔
میں چلا جاتا ہوں تمہارے ساتھ آج شام کو جلدی آجاؤںگا آفس سے۔۔۔۔
جنید اجالا کو دیکھ کے بولا۔۔
نہیں تم رہنے دو ارمان تم تو شام میں فارغ ہوگے نا تو تم چل لینا ہمارے ساتھ۔۔اجالا نے جلد بازی میں کہہ کہ اپنی زبان دانتوں تلے دبائ۔۔۔
وہ تو شکر کسی نے نوٹ نہیں کی جنید اور ارمان کے علاوہ
ارمان جو چائے ہی رہا تھا ایک دن چونکا۔۔۔
ایک منٹ تمہیں کیسے پتا میں آج شام فارغ ہونگا ۔۔۔
ارمان نے جانچتی نظروں سے اجالا کو دیکھا
وہ آج صبح تمہاری اور دادو کی باتیں سن لی تھی۔۔۔
اجالا سر کجھا کے بولی۔۔
ارمان تم لے جاو جنید آفس سے چھٹی لے کے میرے ساتھ جائے گا ۔۔۔
جنید کی امی سامنے بیٹھی اجالا کی باتیں سن رہی تھیں کہ اچانک بول پڑیں۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے لے چلتا ہوں۔۔۔
******************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...