(Last Updated On: )
ہنری تھوریو
مترجم: سلیم آغا قزلباش
چند برس قبل کی بات ہے کہ ایک چاند رات کی چاندنی میں جب مجھے ایک یادگار چہل قدمی کرنے کا موقع میسر آیا تومیں نے ارادہ کر لیا کہ میں مزید ایسی سیریں کروں گا اور یوں فطرت کے ایک نئے رخ سے شناسائی حاصل کرنے کی کوشش کروں گا، میں نے ایسا کر دکھایا ہے!
پینی کے مطابق سر زمین عرب میں کسی جگہ پر ایک پتھر موجود ہے جو selenites کہلاتا ہے۔ ’’جس میں ایک ایسا سفید پن ہے جو چاند کے ساتھ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔‘‘ میرا رسالہ بھی گزشتہ ایک دو برسوں سے اسی حوالے سے selenitic بن گیا ہے۔
کیا ہم میں سے بہت سوؤں کے نزدیک آدھی رات وسطی افریقہ کے مماثل نہیں ہے؟ کیا ہمیں اس سے یہ ترغیب نہیں ملتی کہ ہم اس کی جھیل tchad کے ساحلوں میں داخل ہو جائیں اور دریائے نیل کے اصل منبع کو ڈھونڈ نکالیں؟ شاید چاند کی پہاڑیوں کو بھی؟ کسے خبر ہے کہ وہاں کیسی زرخیزی اور حسن، نیکی اور سچائی میسر آئیں؟ چاند کی پہاڑیوں میں شب کے وسطی افریقہ میں ایسے مقام بھی ہیں جہاں نیل ایسے دریاؤں کے سرچشمے خوابیدہ ہیں۔ ابھی تک نیل کو کھوجنے والی مہمات محض آبشاروں تک جا سکی ہیں یا شاید سفید نیل تک، لیکن سیاہ نیل تک نہیں جس سے ہمیں سروکار ہے۔
میں محسن کہلاؤں گا اگر میں رات کی مملکت کے کچھ حصہ پر فتح یابی حاصل کر لوں یا میں اخبار نکالنے والوں کو ارد گرد ہونے والے قابل توجہ موسمی واقعات کی اطلاع دوں یا میں لوگوں کو دکھا سکوں کہ ایک طرح کا حسن ہے جو جاگ رہا ہوتا ہے جب کہ وہ نیند میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ یا میں شاعری کی حدود کو کشادہ کروں۔
رات واقعتاً دن کے مقابلے میں زیادہ نرالی اور کم نجس چیز ہے۔ میں نے جلد ہی جان لیا ہے کہ میں محض اس کے حلیے سے شناسا ہوں، اور جہاں تک چاند کا معاملہ ہے تو میں نے اس کا اتنا ہی دیدار کیا ہے جتنا کہ یہ کبھی کبھار کواڑ کو جھلملی درز میں سے نظر آتا ہے۔ لہٰذا کیوں نہ اس کی چاندنی میں کچھ دور تک چہل قدمی کر لی جائے؟
فرض کیجئے کہ آپ ان اشارات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو چاند ایک ماہ کے اندر کرتا ہے (ہرچند کہ اس کا یہ عمل بے نتیجہ ہی رہتا ہے) اور پھر بتائیے کہ کیا یہ ادب یا مذہب میں موجود مواد سے کوئی مختلف نوعیت کی شے ہے؟لیکن کیوں نہ اس ’سنسکرت‘ کا مطالعہ کیا جائے؟ کیا فرق پڑتا ہے اگر چاند اپنی شاعری سے لبریز دنیا، اپنی پر اسرار تعلیمات اپنے الہامی اشارات اور قیاسات کے ساتھ آیا ہے اور آ کر چلا گیا ہے … چاند ایک ملکوتی ہستی ہے جو میرے لیے اشارات سے لدا ہوا آتا ہے اور ایک میں ہوں کہ جس نے اس سے کوئی فائدہ تک حاصل نہیں کیا؟ گویا چاند بغیر توجہ حاصل کیے رخصت ہو گیا ہے!
میرا خیال ہے کہ یہ ڈاکٹر چالمرز ہی تھے، جنھوں نے کولرج پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہاں تک اس کا معاملہ تھاوہ ان خیالات کو پسند کرتا تھا، جن کو وہ اپنے ارد گرد پھیلا ہوا دیکھ سکے نہ کہ اس قسم کے خیالات کو جنھیں دیکھنے کے لیے اسے عالم بالا کی طرف لازماً دیکھنا پڑے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسا شخص چاند کی طرف کبھی نہیں دیکھے گا کیونکہ وہ اپنا دوسرا رخ ہمیں نہیں دکھاتا۔ وہ روشنی جو خیالات میں سے پھوٹتی ہے، جن کا مدار زمین سے اتنے ہی فاصلے پر ہے اور جو رات کے مسافروں کے نزدیک چاند اور ستاروں کے مقابلے میں کسی طور کم دل بڑھانے اور کم روشن کرنے والی شے نہیں ہے۔ اسے قدرتی طور پر ایسا شخص مطعون ٹھہرائے گا اور اس کا مذاق اڑائے گا… خیر آپ تو رات ہی کو سفر کیجئے۔ جب چاند آپ کے لیے روشنی کا اہتمام کرے، لیکن میں اس کم سے کم جسامت والے ستارے کی روشنی کا بھی شکرگزار ہوں جو مجھ تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتی ہے۔ ستارے بڑے یا چھوٹے اس لیے ہیں کہ وہ ہمیں یوں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ میں ممنون ہوں کہ میں سماوی تصور کے کم از کم ایک پرت کو، قوس قزح کے ایک رخ کو اور غروب آفتاب کے وقت کے آسمان کو دیکھنے پر قادر ہوں۔
لوگ باگ کافی تیز و طرار انداز میں چاندنی کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ گویا وہ اس کی خصوصیات سے بخوبی واقف ہوں اور ان خصوصیات کو اتنا ہی حقیر سمجھتے ہیں جتنا کہ الو سورج کی روشنی کو… انھیں جب وہ حالت خواب میں ہوتے ہیں آپ کے سورج کی روشنی درکار نہیں ہوتی (گو وہ اس لفظ کے معنیٰ کو سمجھ نہیں پاتے) چاہے بیدار ہونے کی صورت میں یہ ان کے لیے کتنی ہی سود مند کیوں نہ ہو۔
اس بات کو مان لینا چاہیے کہ چاند کی چاندنی، ہرچند کہ وہ ایک غمگین راہرو کے لیے کافی و شافی ہے اور ہماری اس باطنی روشنی سے غیر مطابق بھی نہیں جو ہم میں موجود ہے، تاہم یہ معیار اور شدت کے اعتبار سے سورج کی روشنی کے مقابلے میں کم تر ہے۔ لیکن چاند کو محض چاندنی کی مقدار کے حوالے سے نہیں جانچنا چاہیے جو وہ ہمیں مہیا کرتا ہے، بلکہ ان اثرات کے حوالے سے بھی دیکھنا چاہیے جو وہ زمین اور اہل زمین پر مرتب کرتا ہے … ’’چاند زمین کی طرف کھینچتا ہے اور جواب آں غزل کے طور پر زمین چاند کی جانب۔‘‘ وہ شاعر جو چاند کی چاندنی میں چہل قدمی کرتا ہے اپنی سوچ کی اس موج سے باخبر ہوتا ہے جو قمری اثرات کا نتیجہ ہے۔ میں اب اپنے خیالات کی موج کو دن کے موجود انتشار سے متمیز کرنے کی سعی کروں گا۔ یعنی میں اپنے سامعین کو متنبہ کروں گا کہ وہ میرے خیالات کو دن کی روشنی کے معیار پر جانچنے کی جسارت نہ کریں۔ بلکہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ میں رات کے اندر سے بول رہا ہوں۔
زیادہ تر لوگ دن کو گھومتے ہیں۔ رات کو کوئی نہیں گھومتا۔ یہ ایک بالکل مختلف قسم کی رت کا معاملہ ہے۔ مثال کے طور پر جولائی کے مہینے کی کسی ایک شب کو لیجئے۔ قریباً رات دس بجے کے لگ بھگ… جب انسان نیند میں غرق ہوتا ہے اور دن اسے پوری طرح فراموش ہو چکا ہوتا ہے … اس وقت چاند کی چاندنی کا حسن ان تنہا چراگاہوں پر پھیلا ہوا دیکھا جا سکتا ہے، جہاں مویشی خاموشی سے چر رہے ہوتے ہیں۔ چاروں طرف نرالی اشیاء اپنے آپ کو پیش کر رہی ہوتی ہیں۔ سورج کے بجائے اب وہاں پر مہ و انجم بکھرے ہوتے ہیں اور ہدہد کے بجائے وہاں پر نادان وہیپ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ مرغزاروں میں تتلیوں کے بجائے، جگنوؤں کے پر آگ کی چنگاریاں چھوڑتے نظر آتے ہیں! کون اس سب پر یقین کرے گا؟ کس نوع کی خنک محتاط زندگی آگ کی ایک چنگاری سے جڑ کر ان شبنمی مسکنوں میں رستی بستی ہے؟ چنانچہ اسی لیے آدمی کی آنکھوں میں خون یا دماغ میں آگ بھری ہے۔ نغمہ سنج مینڈکوں کی بجائے، پرواز کرتی ہوئی کوئل کی رندھی ہوئی کوک۔ مینڈکوں کی ٹراٹراہٹ اور جھینگروں کے شدید تر ہوتے خواب موجود ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر مہا مینڈک کی عجیب و غریب چنگھاڑیں می آنی سے جارجیا تک گونجتی ہیں۔ آلوؤں کی بیلیں بالکل سیدھی کھڑی ہوتی ہیں، مکئی کے پودے ایک دوسرے سے فاصلے پر اگتے ہیں، جھاڑیاں بڑی بڑی دکھائی دیتی ہیں اور اناج کے کھیت بے پایاں پھیلے ہوتے ہیں۔ ہمارے کھلے دریاؤں کی چبوترا نما سطح جسے کسی زمانے میں انڈین کاشت کرتے تھے۔ اس زمین پر اب یہ کھیت فوج کی طرح قابض دکھائی دیتے ہیں … اور ان کے سر ہوا میں جھوم رہے ہوتے ہیں۔ کوتاہ قد درخت اور جھاڑیاں عین درمیان میں یوں اگی نظر آتی ہیں گویا طغیانی سے برباد ہو چکی ہوں۔ چٹانوں اور درختوں، جھاڑیوں اور پہاڑوں کے سائے ان اشیاء کے ٹھوس اجسام سے زیادہ نمایاں لگتے ہیں۔ سطح زمین کی معمولی سی ناہمواریاں بھی سایوں کی و ساطت سے آشکار ہو جاتی ہیں اور پاؤں جن چیزوں کو نسبتاً ہموار پاتا ہے وہ انجام کار کھردری اور ٹیڑھی ترچھی برآمد ہوتی ہیں۔ اسی کارن تمام کا تمام منظر نامہ دن کے بر عکس زیادہ بوقلموں اور با تصویر نظر آتا ہے۔ چٹانوں کے بیچ کے انتہائی معمولی فاصلے دھندلے اور غار نما معلوم ہوتے ہیں اور جنگل کی جھاڑیاں گرم سیرخطوں کے دیو قامت درختوں جتنی جان پڑتی ہیں۔ شیریں فرن اور نیل کی جھاڑیاں جنگل کی پگڈنڈیوں پر بے تحاشا اگی ہوتی ہیں۔ آپ کو کمر کمر تک شبنم میں بھگو ڈالتی ہیں۔ شاہ بلوط کے پتے یوں لش لش کرتے نظر آتے ہیں گویا کوئی سیال مادہ ان پر تیر رہا ہو۔ درختوں کے درمیان پانی سے لبریز گڑھے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے وہ آسمان کی طرح روشنی سے لبریز ہوں۔ ’’دن کی روشنی ان کے سینوں میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔‘‘ جیسا کہ پورن نے سمندر کے بارے میں کہا تھا۔ تمام سفید اشیاء دن کے برعکس ممتاز تر ہو جاتی ہیں۔ فاصلے پر موجود ایک چوٹی، پہاڑ کنارے پر موجود فاسفورس زدہ جگہ کی طرح نظر آتی ہے۔ جنگل کے بعید ترین گوشوں میں بھی چاند کی چاندنی، درختوں کے ٹھنٹھوں میں سے خود کو منعکس کرتی ہے گویا اس نے وہ جگہ انتخاب کر لی ہو جس کو اسے جگانا ہے۔ اس کی روشنی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے انسان کو اس پودے کی یاد دلاتے ہیں جو نخل ماہتاب کہلاتا ہے … گویا چاند انھیں ان جگہوں پر کاشت کر رہا ہو۔
رات کو آنکھیں جزوی طور پر مندھی ہوتی ہیں یا سر کے اندر استراحت کرنے چلی جاتی ہیں اور دوسری حسیات فعال ہو جاتی ہیں۔ مثلاً پیدل چلنے والا شامہ کے ذریعے راہنمائی حاصل کرتا ہے۔ ہر پودا اور کھیت کھلیان اور جنگل اپنی باس کو پھیلاتا ہے۔ سبزہ زار میں دلدل کی اور سڑک کنارے خوشبو دار تینسی کی مہک پھیل جاتی ہے، اور پھر وہاں خشک مکئی کی انوکھی باس ہوتی ہے، جب اس پر پھندنے آنا شروع ہوتے ہیں، سامعہ اور شامہ دونوں نسبتاً زیادہ چاق و چوبند ہو جاتی ہیں۔ ہم چشموں کی وہ چھنا چھن سننے لگتے ہیں جو اس سے قبل ہماری گرفت میں کبھی نہیں آتی تھی۔ وقتاً فوقتاً ٹیلوں کی بالائی سطحوں کے کناروں پر آپ باد گرم کے اس تھپیڑے سے بھی آشنا ہوتے ہیں جو دوپہر کے گھمس والے میدانوں سے گزرتا ہوا آن پہنچا ہے، جو دوپہر کی تپتی موج والے اوقات اور ساحلوں اور بھووں پر سے پسینہ پونچھتے مزدوروں اور پھولوں میں بھنبھناتی ہوئی مدھ مکھیوں کی خبر لاتا ہے۔ یہ ایک ایسی ہوا ہے جس میں مشقت شامل ہے، جسے لوگ اپنا سانس بنا چکے ہیں۔ یہ ہوا جنگل کنارے سے لے کر پہاڑی کے پہلو تک گردش کرتی رہتی ہے۔ اس کتے کی طرح جس نے غروب سورج کے بعد اپنے آقا کو گم کر دیا ہو۔ چٹانیں رات بھر سورج کی اس تپش کو سنبھالے رکھتی ہیں جسے انھوں نے دن میں جذب کیا تھا اور یہی معاملہ ریت کا بھی ہے۔ اگر اس کے اندر چند انچ تک کھدائی کریں تو آپ اس میں ایک گرم تہ پائیں گے۔ نصف شب کے وقت چراگاہ میں آپ کسی ننگی پہاڑی کی چوٹی پر کسی چٹان پر پیٹھ کے بل لیٹ جاتے ہیں اور ستاروں بھرے آسمان کے چھتر کی بلندی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ستارے، شب کے زیورات ہیں اور شاید ہر اس شے سے برتر ہیں جو ہمیں دن کے وقت نظر آتی ہے۔
ان لوگوں کے لیے جو اپنے بچھونوں میں سوئے پڑے ہیں، یہ بات پریشان کن نہیں ہے۔ لیکن ایک مسافر کے لیے یہ بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ کیا چاند کو آب و تاب سے چمکنا چاہیے یا دھندلے انداز میں! زمین کے متین انبساط کو جب وہ بغیر کسی قسم کی رکاوٹ کے چمکنا شروع کر دیتی ہے محسوس کرنا آسان نہیں ہے۔ جب تک کہ آپ کو اکثر چاندنی راتوں میں تن تنہا پردیس جانے کا اتفاق نہ ہوا ہو۔ چاندنی آپ کی خاطر ابر پاروں سے ایک مسلسل جنگ لڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود ہم بادلوں کو اس کا دشمن متصور کرتے ہیں۔ وہ اپنی روشنی سے اپنے خطرات کو بڑھاتی چلی جاتی ہے اور انھیں ان کی بھرپور جسامت اور سیاہی کے ساتھ منکشف کرتی ہے۔ تب اچانک انھیں اپنے عقب میں دھندلی روشنی کے اندر پھینک دیتی ہے اور خود فتح مندی سے اپنا راستہ کھلے آسمان کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں بنا لیتی ہے۔
مختصراً یہ کہ چاند اپنی راہ کے چھوٹے چھوٹے ابر پاروں کو عبور کرتے ہوئے یا بظاہر ان کے پار جاتے ہوئے، کبھی ان کے باعث مدھم ہو کر اور کبھی ان کے اندر سے چمکتے ہوئے، چاندنی رات کو تمام دیکھنے والوں کے لیے نیز رات کو سفر کرنے والوں کے لیے ایک تمثیل سی بنا دیتا ہے۔ ملاح اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چاند بادلوں کو نگل رہا ہے۔ مسافر بھی تن تنہا ہوتا ہے اور چاند بھی، بجز اس ہمدردی کے جو اس کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ چاند جنگلوں اور جھیلوں اور پہاڑیوں کے اوپر بادلوں کے پورے فوجی دستوں پر غالب آ رہا ہوتا ہے۔ جب وہ آسمان پر کسی کھلے قطعے کے و سیع حصے میں داخل ہو کر بغیر کسی رکاوٹ کے چمکتا ہے تو خوشی سے کھل اٹھتا ہے اور جب وہ دشمن کے ایک پورے دستے سے نبرد آزما ہو کر اپنے لیے راستہ بنا لیتا ہے اور بے داغ آسمان پر شاہانہ طریق سے سواری کرتا ہے اور مزید کسی قسم کی رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتیں تو وہ خوشی بخوشی پورے اعتماد کے ساتھ اپنا راستہ تلاش کرتا ہے اور دل ہی دل میں مسرور ہوتا ہے۔ اس وقت یوں لگتا ہے جیسے جھینگر بھی اپنی مسرت کا اظہار نغمے کی صورت میں کر رہا ہے۔
وہ دن کتنے بے کیف ہوتے ہیں جب رات اپنے شبنمی قطروں نیز تیرگی کے ہمراہ پژمردہ ہوتی دنیا کو بحال کرنے کے لیے نہ آ سکے! جوں جوں سائے ہمارے گرد اکٹھا ہونے لگتے ہیں، توں توں ہماری قدیم جبلتیں بیدار ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ہم چپکے چپکے اپنے اندر سے کسی جنگل کے باسی کی طرح نکل آتے ہیں، ان خاموش اور مغموم سوچوں کی تلاش میں جو عقل کا قدرتی صید ہیں۔
رچرڈ کہتا ہے کہ زمین ہر روز رات کی چادر سے ڈھانپ دی جاتی ہے، اسی اصول پرجس کے تحت پرندوں کے پنجروں میں اندھیرا کر دیا جاتا ہے … تاکہ ہم مستعدی سے سوچ کی بلند تر ہم آہنگیوں کا تصور اندھیرے کی خاموشی اور سکوت میں کر سکیں۔ سوچیں، جنھیں دن، دھویں اور دھند میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ہمارے سامنے آن کھڑی ہوتی ہیں جیسے مجسم روشنی اور شعلے ہوں۔ بعینہٖ جیسے وہ مینار جو آتش فشاں وسیووس کے گڑھے کے اوپر جلتا بجھتا، دن کو بادل کا ایک ستون معلوم ہوتا ہے، لیکن رات کو آگ کا ستون بن جاتا ہے۔
اب آب و ہوا میں ایسی راتیں بھی آتی ہیں جو اس سکون اور شاہانہ خوبصورتی سے عبارت ہوتی ہیں جو روح کے لیے اس قدر شافی اور اس کی تخلیق کاری کے لیے اس قدر محرک ہے کہ میں سوچتا ہوں، حساس فطرت انھیں کبھی فنا نہیں ہونے دے گی اور غالباً ایسا کوئی آدمی نہیں ہے جو اپنے گھر سے باہر ایسی راتیں بسر کر کے خود کو بہتر اور زیادہ عقلمند محسوس نہ کرتا ہو! چاہے بطور تلافی اسے پورا دن سو کر ہی کیوں نہ گزارنا پڑے۔ ایسا شخص اینڈی آن کی نیند سوئے گا جیسا کہ قدما نے اسے بیان کیا تھا… یہ راتیں امروسیہ کے یونانی لقب سے موسوم ہو جانے کے قابل ہیں، یعنی بیولال کی سرزمین میں ماحول شبنمی مہک اور موسیقی سے فعال ہو جاتا ہے اور ہم نیند میں کھو جاتے ہیں اور اپنے خوابوں کو بیدار کر لیتے ہیں۔
ہندو لوگ چاند کا موازنہ اس پوتر ہستی سے کرتے ہیں جو اپنے جسمانی وجود کی آخری سرحدوں تک پہنچ چکی ہو۔
اے قدیم زمانہ کا احیاء کرنے والے عظیم ساحر! نرم ملائم رات میں جب فصل کٹنے کے زمانے یا شکار کرنے کے ایام میں چاند بغیر کسی رکاوٹ کے چمک رہا ہوتا ہے تو ہمارے گاؤں کے مکانات چاہے وہ دن میں جس بھی نوع کے فن تعمیر کا مظاہرہ کرتے ہوں، رات کے سمے اپنے مالک حقیقی کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں۔ تب گاؤں کا بازار اتنا ہی وحشت ناک دکھائی دینے لگتا ہے جتنا کہ کوئی جنگل! نئی اور پرانی اشیاء آپس میں گڈمڈ سی ہو جاتی ہیں۔ مجھے پتہ نہیں چلتا کہ آیا میں کسی دیوار کے کھنڈرات پر بیٹھا ہوا ہوں یا اس مسالہ پر جس سے ایک نئی چیز بنائی جائے گی۔ فطرت ایک تربیت یافتہ اور غیرجانب دار معلم ہے جو نہ تو بھونڈے خیالات کو پھیلاتی ہے اور نہ کسی کی چاپلوسی ہی کرتی ہے۔ وہ نہ تو انتہا پسند ہے اور نہ ہی قدامت پسند۔ ایسی چاندنی کا تصور کیجئے جو کسی قدر مہذب اور ساتھ ہی کس قدر وحشی ہے۔
چاند کی روشنی دن کے مقابلے میں ہمارے علم سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ وہ عام راتوں میں اس قدر دھندلی نہیں ہوتی جتنے کہ ہمارے اذہان عموماً گدلے ہوتے ہیں۔ یہ چاندنی تو اتنی ہی روشن ہوتی ہے جتنے کہ ہمارے جگمگ کرتے لمحات!
’’ایسی ایک شب میں مجھے باہر ہی رہنے دو جب تک کہ سویرا نہ ہو جائے اور سب کچھ از سر نو گڈمڈ نہ ہو جائے۔‘‘
دن کی روشنی کی بھلا کیا اہمیت ہو سکتی ہے اگر یہ اندر کی نمود سحر کا عکس نہیں ہے؟ … اگر صبح روح کے لیے کچھ آشکار نہیں کرتی تو رات کے پردے کو کس لیے اتار پھینکا جائے؟ ایسی صورت میں تو یہ فقط ایک بھڑک دار، آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چیز ہی رہ جائے گی۔
’’جب اوسین سورج سے خطاب کرتے ہوئے پکار اٹھتا ہے کہ:
اندھیرے کا مسکن کہاں ہے؟
ستاروں کا گپھا دار گھر کہاں ہے؟
جب تم سبک روی سے ان کے قدموں کا پیچھا کرتے ہو، ایک شکاری کی طرح آسمان پر ان کا تعاقب کر رہے ہوتے ہو، جب تم بلند و بالا چوٹیوں پر چڑھ رہے ہوتے ہو، تو وہ (ستارے) بنجر پہاڑیوں پر اتر رہے ہوتے ہیں۔‘‘
ایسے میں کون ہے جوستاروں کے ساتھ ان کے ’گپھا والے گھروں‘ تک نہ جانا چاہے یا ان کی معیت میں ’پہاڑوں پر اترنے‘ کا آرزو مند نہ ہو۔
تاہم اس کے باوجود رات کو بھی آسمان نیلا ہوتا ہے نہ کہ سیاہ، اس لیے کہ ہم زمین کے سایے کے اندر سے دور دن کی فضا کو دیکھتے ہیں، جہاں سورج کی شعاعیں رنگ رلیاں منا رہی ہوتی ہیں۔
٭٭٭