’’واٹ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے سخت تعجب سے ماہم کا پھیکا سا چہرہ دیکھا۔
’’تم مجھے آج بتا رہی ہو ،کہ رامس کی ماما ،اُس کا پرپوزل لے کر پرسوں تمہارے گھر آئیں تھیں۔۔۔‘‘عائشہ نے ہاتھ میں پکڑی گاڑی کی چابی میز پر پٹخی ۔وہ آج اچانک ہی ماہم کے آفس کی طرف نکل آئی تھی لیکن یہاں آ کر اُسے احساس ہوا کہ اُسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ۔
ماہم کے کلینک میں اپنے خراب موڈ کی وجہ سے عائشہ زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکی اور اس کے عجلت میں واپس چلے جانے پر ماہم کو احساس ہوا کہ وہ اُس سے ٹھیک ٹھاک خفا ہو چکی ہے۔اسی وجہ سے وہ شام کو فوراً عائشہ کی طرف پہنچی تاکہ اُسے منا سکے ۔
وہ ان کے گھر کا گیٹ کھول کر اندر آئی تو سامنے لان میں عائشہ اپنے باغبانی کے مشغلے میں بُری طرح مصروف تھی۔ ماہم کو اندر آتا دیکھ کر بھی وہ اپنے کام میں محو رہی۔اُس کا چہرہ سپاٹ اور انداز میں لاتعلقی نمایاں تھی ۔ماہم اُس کے بالکل قریب آن پہنچی جب کہ عائشہ کے چہرے پر ہنوز نولفٹ کا بورڈ آویزاں تھا۔
’’تم مجھ سے خفا ہو ۔۔۔؟؟؟؟ ماہم نے اس کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر بالکل درست اندازہ لگایا۔
’’مجھے کیا ضرورت پڑی ہے تم سے ناراض ہونے کی ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے ہاتھ میں پکڑا پائپ فرش پر پھینک دیا۔ سفید ٹائلوں پر پانی بڑی سرعت سے پھیلتا گیا۔وہ آج کافی دن کے بعدبڑی فراغت کے ساتھ پورچ میں ایک ترتیب سے رکھے سنگ مرمر کے گملوں میں پانی ڈال رہی تھی۔تھوڑی دیر پہلے اس نے مالی بابا کے ساتھ مل کر لان کے پودوں کی کانٹ چھانٹ کا مرحلہ بھی عبور کیا تھا اس لیے اس کے ہاتھوں اور کپڑوں پر کہیں کہیں مٹّی کے دھبےّ دِکھائی دے رہے تھے۔
’’اس لیے کہ میں نے تمہیں رامس کے پرپوزل کا جو نہیں بتایا ۔۔۔‘‘ ماہم نے تھکی تھکی سی سانس لے کر اُسے دیکھا جو بالکل اجنبی انداز سے اپنے کام میں مگن تھی۔
’’میں نے تمہیں ایسا کب کہا۔۔۔؟؟؟؟ ‘‘ عائشہ نے خفگی سے بھرپور ایک نظر اس پر ڈالی اور پائپ دوبارہ اٹھا لیا۔
’’تم میرے آفس میں اتنازیادہ خفاجو ہو رہی تھیں۔۔۔‘‘ ماہم نے اُسے یاد لایا۔
’’کیوں مجھے ناراض نہیں ہونا چاہیے تھا کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے الٹا اُس سے سوال کیا۔
’’اس میں ناراضگی کی کیا بات ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے بے نیازی سے کہتے ہوئے مورپنکھ کے پودے کو غور سے دیکھا جو دھلنے کے بعد خاصا نکھرا نکھرا سا لگ رہا تھا۔
’’مجھے تم پر حیرانگی ہو رہی تھی۔۔۔‘‘ عائشہ نے صاف گوئی سے کہا۔
’’رامس کے پرپوزل پر حیران ہونے والی کیا بات تھی۔۔۔‘‘ ماہم نے تجاہل عارفانہ کا خوب مظاہرہ کیا۔عائشہ نے گھور کر اُسے دیکھا۔
‘‘مجھے حیرانگی رامس کے پرپوزل پر نہیں ،تمہارے تین دن کے بعد بتانے پر ہو رہی تھی۔۔۔‘‘عائشہ نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر اُسے کچھ باور کروانے کی کوشش کی جو اب خفت زدہ انداز سے دائیں بائیں دیکھ رہی تھی۔
’’تمہیں اندازہ تو تھایار کہ وہ مجھے پرپوز کرنے والا ہے۔۔۔‘‘ماہم نے ہلکی سی جھنجھلاہٹ کے ساتھ اُسے دیکھا جو کیاریوں کو پانی لگا رہی تھی۔
’’میرے’’اندازوں‘‘کی تم بات نہ ہی کرو تو بہتر ہے۔تمہارے بارے میں میرے اندازے اکثر غلط ہی نکلتے ہیں۔۔۔‘‘اُس کے طنز پر ماہم کی پیشانی پر ہلکا سا بل آیا۔
’’تم انسانوں کی طرح بیٹھ کر کہیں بات نہیں کر سکتیں۔۔۔‘‘ماہم نے اس کے ہاتھ سے زبردستی پائپ پکڑ کر آسٹریلین گھاس پر پھینکا۔
’’پہلے تم تو انسانوں کے ساتھ برتنا سیکھ لو ،پھر کسی اور کو ایسے بھاشن دینا۔۔۔‘‘عائشہ نے تیزی سے اُس کی بات کاٹی اور وہ ہنوز ناراضگی کے اظہار کے لیے ہلکا سا رخ پھیرے سامنے لگے کوسموس کے پودے کو دیکھنے میں مگن رہی۔
’’تم نے کیا اس کوسموس کے پودے پر ریسرچ پیپر لکھنا ہے ،جو اس کے ارغوانی،کاسنی اور آتشی پھولوں پر نظریں جمائے کھڑی ہو۔‘‘ماہم نے کندھے سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف موڑا۔وہ اپنے مزاج کے برعکس دانستہ ہلکا پھلکا انداز اپنائے ہوئے تھی۔
’’ہاں لکھنا ہے۔۔۔‘‘عائشہ نے بمشکل اپنی اکتاہٹ پر قابو پاکر کہا ۔
’’بھئی اس میں اتنا ناراض ہونے والی کیا بات ہے۔پچھلے تین دن سے ماما نے بزی کر رکھا تھا ۔وہ جب سے لندن سے واپس آئیں ہیں تمہاری طرف آنے کو ٹائم ہی نہیں ملا۔‘‘ماہم نے وضاحت دینے کی کوشش کی لیکن و ہ خاموش رہی۔’’یقین کرو آج جیسے ہی فرصت ملی فوراً تمہارے گھر کا رخ کیا ہے۔تم نے بھی تو کوئی چکر نہیں لگایا۔‘‘وہ عائشہ کے ساتھ چلتے ہوئے لان چئیرز پر آن بیٹھی۔
’’محترمہ صبح بھی میں ہی آپ کے کلینک گئی تھی ،آپ نہیں آئیں تھیں۔۔۔‘‘عائشہ نے طنزیہ لہجے میں اُسے یاد دلایا۔
’’آج کیا تمہارا بس لڑنے کا ہی موڈ ہے۔۔۔‘‘ماہم کے دوٹوک انداز پر عائشہ نے کچھ لمحوں کے لیے اس کے پھیکے پڑتے چہرے کو دیکھا اور پھر قدرے تحمل سے بولی۔
’’چائے پیو گی۔۔۔‘‘ عائشہ کے سرد انداز پر ماہم کا چہرہ کچھ لمحوں کے لیے تناؤ کا شکار ہوا۔
’’اتنے روکھے پھیکے انداز سے پوچھو گی تو کس کافر کا چائے پینے کو دل چاہے گا۔‘‘ ماہم نے بُرا سا منہ بنایااور لان چئیر پر بیٹھ گئی۔
’’تمہاری فضول سی داستان امیر حمزہ میں خالی پیٹ تو ہر گز نہیں سن سکتی۔اس لیے چائے پینی ہے تو بتا دو،ورنہ میں اپنے لیے بنوانے لگی ہوں۔۔۔‘‘ عائشہ کا انداز اگرچہ ابھی بھی اپنے اندر خفگی لیے ہوا تھا لیکن اس میں نرمی کی جھلک محسوس کر کے وہ بھی بے تکلفی سے بولی۔
’’صرف چائے نہیں بلکہ قیمے والے سموسے بھی بنواؤ اور فرنچ فرائس بھی۔۔۔‘‘
’’ یہاں تمہارے رامس صاحب نے کوئی ہوٹل نہیں کھول رکھا جو فرمائشی پروگرام نشر کر رہی ہو۔۔۔‘‘اُس کے لہجے میں طنز کی کاٹ محسوس کر کے ماہم نے بڑی جھنجھلاہٹ سے پہلو بدلا۔
’’ایک بات تو بتاؤ،تمہیں غصّہ رامس کے پرپوزل پر آ رہا ہے یا میرے نہ بتانے پر۔۔‘‘اُس کی کھوجتی نظروں پر وہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔’’تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس نے الٹا سوال کیا تو وہ بے دھڑک انداز میں بولی۔
’’پرپوزل تو میرے اب تک ایک سو ایک آ چکے ہیں لیکن تم نے کبھی اس طرح ری ایکٹ نہیں کیا ،جس طرح تم رامس کے نام پر کرتی ہو۔‘‘ اُس کے بالکل ٹھیک تجزیے پر عائشہ نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔؟؟؟‘‘وہ گملے میں لگے گارڈینیا کے سفید پھولوں کو دیکھتے ہوئے تغافل بھرے انداز سے گویا ہوئی ۔
’’مطلب وطلب تو یہ ہی ہے کہ محترمہ کو رامس علی کے پرپوزل پراعتراض ہے بس۔۔۔‘‘اُس نے سو فیصد درست اندازہ لگایا لیکن مدمقابل بھی عائشہ تھی جسے اپنے تاثرات کو چھپانے میں کمال حاصل تھا۔
’’بھئی ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔۔۔‘‘اُس نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے لاپرواہی سے کہا تو ماہم تپ اٹھی۔’’مجھے لگتا ہے کہ تمہا را بات کرنے کا موڈ نہیں۔‘‘وہ برہم انداز سے اپنے گھر جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’زیادہ ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں ،آرام سے بیٹھ جاؤ،وہ قیمے والے سموسے تمہاری ساس نہیں کھائیں گی۔‘‘عائشہ نے ایک نگاہ میں اس کے چہرے پر پھیلی سرخی کو دیکھا ۔وہ دوبارہ بیٹھ گئی اور اب لاتعلق انداز سے میمو سیفولیاکے نیلے پھولوں کو دیکھنے لگی۔اُس کی ناراضگی کو عائشہ نے ایک لمحے میں محسوس کر کے خود کو سنبھالا ۔
’’یہ لو نیلا پھول۔۔۔‘‘عائشہ نے صلح جو انداز سے ایک پھول توڑ کر اس کی طرف بڑھایا۔’’میں نے سنا ہے کہ نیلے رنگ کے پھول ڈئپریشن کے مریضوں کے لیے جادوئی اثر رکھتے ہیں ۔ان کی روشنی،مہک اور دلفریبی کسی دوا کی طرح مزاج پر اثر ڈالتی ہے۔۔۔‘‘عائشہ کے شرارت بھرے انداز پر وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔’’بہت خبیث چیز ہو تم۔۔۔‘‘اُس کا موڈ بحال ہو گیا تھا۔ماہم نے سکون کا سانس لیا۔
’’دیکھا کتنی جلدی اثر ڈالا۔۔۔‘‘ عائشہ بھی کھلکھلا کر ہنسی اور دانستہ خوشگوار انداز سے پوچھا۔
’’ہاں اب بتاؤ کہ پھر کب کروا رہی ہو منگنی۔۔۔‘‘
’’منگنی۔۔۔؟؟؟‘‘وہ چونکی۔ ’’مگرکس سے۔۔۔؟؟؟‘‘ماہم کے سوال پر عائشہ کو جھٹکا لگا۔
’’دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ نے کھا جانے والی نظروں سے اُسے گھورا۔’’میں تمہاری اور رامس کی انگیجمنٹ کی بات کر رہی ہوں۔۔۔‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘ وہ پُر اسرار انداز سے مسکرائی۔’’میں نے کب کہا کہ اُس کا پرپوزل قبول کر لیاگیا ہے۔۔۔‘‘اُس کی بات پر عائشہ ششدر رہ گئی۔
’’کیوں ،اب کیا تکلیف ہے۔۔۔؟؟؟؟ اُس نے کوفت زدہ انداز سے پہلو بدلا۔
’’تکلیف تو کوئی نہیں ہے بس دل ہی نہیں مانتا۔۔۔‘‘اُس نے مختصراً قصّہ نبٹایا۔
’’تم نے کب سے دل کے اشاروں پر چلنا شروع کر دیا۔۔۔‘‘ عائشہ اب غور سے اس کا زرد ہوتا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’جب سے دل نے بڑے مبہم قسم کے اشارے دینا شروع کیے ہیں۔۔۔‘‘اُس کے انداز میں اکتاہٹ کا عنصر نمایاں تھا۔
’’تو دل کو سمجھاؤ ناں۔۔۔‘‘ عائشہ کو اپنے اندر خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی۔
’’ نہیں سمجھتا ناں،ضدی بچّہ بنا بیٹھا ہے۔۔۔‘‘ ماہم نے کھلے دل سے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
’’یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ نے ایک جانچتی نگاہ اس کے تھکے تھکے انداز پر ڈالی۔اُسے پہلی دفعہ وہ حد درجہ الجھی اور پریشان سی دِکھائی دی ۔اُس میں تبدیلی کا عمل بڑی سرعت سے وقوع پذیر ہوا تھااور اُس کے بدلے بدلے انداز اب سب کو چونکانے لگے تھے۔
’’پتا نہیں یار ،دل کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔اُس راستے پر چلنے کی ضد کرتا ہے جس میں خواری ہی خواری ہے۔۔۔‘‘ماہم کے انداز میں ہلکی سی جھنجھلاہٹ در آئی۔
’’مثلاً کون سے راستے پر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے اپنے بے قابو ہوتے دل کو بمشکل سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
’’بتاؤں گی بہت جلد،ابھی تو مجھے اپنے تیرآزمانے دو،اُس کے بعد دیکھتے ہیں ،کیا کرنا ہے۔۔۔‘‘ اُس کی بات پر عائشہ کے چہرے کا رنگ اڑا اور اُس نے سخت خوفزدہ نظروں سے اپنے سامنے بیٹھی بے تحاشا حسین لڑکی کو دیکھا جس کے حسن سے اُسے پہلی دفعہ خوف محسوس ہوا تھا۔
* * *
اُس دن بُری طرح گرنے کے بعدسکینہ کی آنکھ کھلی تو اُس نے خود کو آئی سی یو کی بہت سی مشینوں کے درمیان پایا تھا۔ہوش میں آتے ہی اُسے جسم کی ہڈیوں میں جان لیوادرد محسوس ہوا۔ اُسے آنکھ کھولتے دیکھ کر جمیلہ مائی کا حواس باختہ چہرہ کچھ پرسکون ہوا۔اُسے امّاں ہی سے پتا چلا کہ اُسے کئی گھنٹوں کے بعد مکمل ہوش آیا تھا۔ہوش میں آنے کے بعد بھی اگلے چوبیس گھنٹے اُس نے ادویات کی وجہ سے غنودگی میں گذار دیے تھے۔
’’امّاں میری شکل کتنی بے سُری سی ہو گئی ہے ناں۔۔۔‘‘ آئی سی یو سے کمرے میں منتقل ہونے کے بعد جیسے ہی اُس کی نظر آئینے پر پڑی تو وہ ایک لمحے کو خود بھی ڈر گئی۔نچلا ہونٹ اور دائیں آنکھ ابھی بھی سوجی ہوئی اور ماتھے پر تین ٹانکوں کا اضافہ بھی ہو چکا تھا۔جب کہ جسمانی چوٹوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں تھا۔درد کشا ادویات کے باوجود انگ انگ دکھتا ہوا محسوس ہوا تھا۔سکینہ کے لیے وہ بڑے اذیت والے لمحات تھے۔
’’پتّر،شکر کر کہ تیری جان بچ گئی ورنہ اُس دن تو مجھے لگا کہ بس میری دھی اب گئی۔۔۔‘‘جمیلہ مائی ان کرب انگیزلمحات کو یاد کر کے رنجیدہ ہوئی۔
’’امّاں پتا نہیں ایک لمحے میں کیا ہوا،زمین میرے قدموں سے نکل گئی اور مجھے احسا س ہی نہیں ہوا۔۔۔‘‘سکینہ نے ایک دفعہ پھر سامنے لگے شیشے سے نظریں چرائیں۔دل دکھ کے گہرے احساس سے بھر گیا ۔
’’پتّر،قدموں سے زمین اور ٹانگوں سے جان نکلنے میں بس تھوڑا ہی ٹیم (وقت) لگتا ہے۔بندہ منٹوں میں چٹ پٹ ہوجاتا ہے۔‘‘ جمیلہ مائی نے انتہائی محبت سے اُس کے ماتھے کا بوسہ لیا اس واقعے کے بعد وہ بہت ڈر گئی تھی۔
’’امّاں شکل تو میری پہلے بھی بے سوادی تھی اوپر سے یہ نیا چن (چاند) بھی میرے متھےّ پر بن گیا ہے۔۔۔‘‘سکینہ کی روہانسی آواز پر جمیلہ مائی کے دل کو کچھ ہوا۔
’’دیکھ سکینہ اگر تو نے منٹ منٹ بعد اپنی صورت شیشے میں دیکھ کر رولا ڈالنا ہے تو بتا دے ۔میں ابھی یہ شیشہ دیوار سے اتار کر رکھ دوں گی۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اپنی آنکھوں کو ململ کے دوپٹے سے صاف کیا۔آج کل اس کی آنکھیں نہ جانے کیوں بار بار نم ہو جاتی تھیں۔
’’امّاں دیوار سے شیشہ اتار دینے سے کون سا حقیقت بدل جائے گی۔اسے لگا رہنے دے،اچھا ہے ناں سکینہ کو اپنی اوقات یاد رہے گی۔۔۔‘‘اُس کے لہجے میں آنسوؤں کی آمیزش محسوس کر کے جمیلہ مائی کا دل پھٹنے لگا۔
’’دیکھ پتر شکل سے کچھ نہیں ہوتاجو لوگ ہمیں چنگے لگتے ہیں ۔وہ ہمیں ہر حالت میں سوہنے لگتے ہیں۔جو پیار، محبت شکل دیکھ کر کیا جائے وہ کون سااصلی ہوتا ہے۔‘‘جمیلہ مائی نے اُسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
’’امّاں اصل اور نقل کی پہچان کسے ہوتی ہے ۔۔۔؟؟؟‘‘سکینہ نے اپنی سوجی ہوئی آنکھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تلخی سے کہا۔’’دل تو محبوب کی بس ایک نظر کا متلاشی ہوتا ہے۔‘‘
’’دفع کر پتّر۔۔۔!!!‘‘ امّاں نے ناک سے مکھی اڑاتے ہوئے نصیحت کی۔ ’’بس اللہ کے ساتھ لو لگا میری جند جان،اُسے بندوں کی شکلوں سے نہیں ان کے عملوں سے پیار ہوتا ہے۔۔‘‘
’’مجھے تو لگتا ہے امّاں،اللہ بھی بس سوہنے لوگوں کا ہی ہے۔۔۔‘‘سکینہ کی بد گمانی پر جمیلہ مائی دہل سی گئی۔
’’ناں میری جان،سوہنے رب کے با رے میں ایسے باتیں نہیں کرتے۔۔۔‘‘
’’دیکھ ناں امّاں،اللہ نے نہ مجھے اچھی شکل دی،نہ عقل دی،نہ پیسہ دیا اور نہ ہی صحت دی۔کوئی ایک چیز تو دے دیتا۔‘‘سکینہ نے باقاعدہ انگلیوں پر گن کر بتایا تو جمیلہ مائی کو غصّہ ہی تو آ گیا
’’چودہ سال تو فصلوں ،کھلیانوں اور پنڈ میں دڑنگے لگاتی پھرتی تھی۔کیا تجھے اُس وقت اللہ نے صحت و تندرستی نہیں دی تھی تو نے اُس وقت کون سا اللہ کا شکر کر کر کے زبان گھسا دی تھی۔‘‘ جمیلہ مائی نے اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی آئینہ دِکھایا۔
’’مجھے کیا پتا تھا کہ پندرہویں سال میں،میں یوں منجے (چارپائی)پر آن پڑوں گی۔۔۔‘‘سکینہ نے استہزائیہ انداز سے امّاں کو دیکھا جو کہہ رہی تھی۔
’’واہ میرے مولا سائیں،بندہ کتنا ناشکرا اور خود غرض ہے،جیسے ہی اُسے پتا چلتا ہے کہ کوئی مصیبت آنے والی ہے تو فوراً تسبیح اور جائے نماز سنبھال لیتا ہے۔ورنہ سینہ تان کے فخر کے ساتھ اُسی کی زمین پر پھرتا ہے اور اُسے اُس وقت رب کی یاد نہیں آتی۔۔۔‘‘
’’امّاں تو ہر وقت ،مولوی صاحب کی بیگم کی طرح لیکچر نہ دیا کر،ویسے ہی میرا دل بہت اداس ہے۔۔۔‘‘سکینہ کی آواز میں پہلے کی طرح دم خم نہیں تھالیکن وہ پھر بھی بولنے سے باز نہیں آتی تھی اور امّاں کے ساتھ نوک جھونک کا سلسلہ بھی جاری رہتا ۔
’’یہی تو سارا مسئلہ ہے،ہم نے اسلام کا ٹھیکہ بس مولویوں کو دے رکھا ہے اور خود بیٹھ کر ہاتھ ہلاتے رہتے ہیں۔۔۔‘‘امّاں کمر پر ہاتھ رکھ کر تاسف بھرے انداز سے کھڑی ہوئی تو سکینہ نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا ۔
’’پتّی اور چینی لینے جا رہی ہوں باہر،آج خود چائے بنا کر پئیوں گی۔کینٹین کی کالی شاہ چاء تو میرے حلق سے نہیں اترتی۔۔۔‘‘امّاں نے لاتعلق سے انداز سے اُسے اطلاع دی اور کمرے سے نکل گئی۔سکینہ نے ایک دفعہ پھر سامنے لگے آئینے میں اپنے گردن پر پڑا نیل دیکھا تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اُسی لمحے ڈاکٹر خاور نے کمرے میں قدم رکھا تھا سکینہ نے بے ساختہ بازو کی پشت سے اپنی نم آنکھوں کو صاف کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔
’’سکینہ۔۔۔!!!!!‘‘ ڈاکٹر خاور نے تنبیہی نظروں سے اُسے دیکھا تو وہ زبردستی مسکرا دی۔’’بہت بُری بات ہے یہ۔۔۔‘‘
’’کیا کروں ڈاکٹر صاحب،آنکھ میں آنسو بھی بس سیلاب کی طرح اچانک آ جاتے ہیں اور منہ زور سیلابوں کے آگے کمزور سے بند کہاں ٹھہرتے ہیں۔۔۔‘‘اُس کا انداز بے بسی سے لبریز تھا
’’آپ کوپتا ہے سکینہ ،میری میڈیکل لائف میں آپ کے گرنے والاواقعہ ایک ایسا سانحہ تھا کہ مجھے حقیقتاً اپنے پیروں سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔‘‘وہ ایک کرسی گھسیٹ کر بالکل آرام سے بیٹھ گئے ۔اُس واقعے کے بعد انہوں نے پہلی دفعہ سکینہ سے یوں فرصت میں بات کی تھی۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے بے یقینی سے ان کا سادہ سا چہرہ دیکھا۔ ’’آپ تو ڈاکٹر ہیں ،اور ڈاکٹروں کو تو اپنی زندگی میں بڑے بڑے حادثے دیکھنے کو ملتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں آپ ٹھیک کہتی ہیں لیکن یہ حادثہ ایسا تھا جس نے مجھے بے پناہ خوشی کا احساس بھی دیا اور کر بناک اذیت سے بھی روشناس کیا۔۔۔‘‘وہ بلا تکلف اپنے احساسا ت بیان کر رہے تھے۔
’’میری زندگی کی یہ ایک بڑی خواہش تھی کہ آپ کو اپنے قدموں پر چلتا دیکھوں۔۔۔‘‘انہوں نے حسرت بھرے انداز سے اضافہ کیا۔
’’پھر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ کا دل بے قابو ہوا۔
’’اور میری زندگی کا وہ اذیت ناک لمحہ تھا جب میں نے آپ کو زمین پر بُری طرح گرتے دیکھا۔۔۔‘‘اُن کے لہجے میں دکھ کا ایک جہان آباد تھا۔’’مجھے لگا کہ ایک تیز رفتار ٹرین میرے پرخچے اڑاتی ہوئی گذر گئی ہے۔۔۔‘‘
’’ایسا کیوں لگا۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ بولی نہیں تھی لیکن اُس کی آنکھیں چیخ چیخ کر یہ سوال کر رہی تھیں۔
’’مجھے زندگی میں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ آپ کے ساتھ میرا صرف ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ نہیں ۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کی بات پر سکینہ سانس لینا بھول گئی اور ہکا بکّا انداز سے دیکھنے لگی۔محبت کی تتلی اچانک ہی اس کی فریکچر شدہ بازو پر آ کر بیٹھ گئی تھی۔
’’ میں نے تجزیہ کیا ہے کہ بعض دفعہ احساس اور خلوص کارشتہ تمام رشتوں پر حاوی ہو جاتا ہے اور آپ کے ساتھ میرا تعلق انہی دو جذبوں پر مشتمل ہے۔‘‘وہ مسکرا کر سکینہ کے دل کی دنیا میں ایک طوفان برپا کر گئے ۔جب کہ سکینہ کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہاتھا وہ اپنی سوجی ہوئی آنکھ کے ساتھ سامنے بیٹھے ڈاکٹر خاور کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہی تھی۔اُسے پہلی دفعہ شیشے میں اپنی سوجی ہوئی شکل بُری نہیں لگی ۔
* * *
’’اُف۔۔۔!!!!میری کمر ٹوٹ گئی یار۔۔۔‘‘نابیہ نے بھاری بھر کم بیگ باقاعدہ زمین پر پٹخ کر ثنائیلہ کو دیکھا جو ایک لوہے کا ٹرنک بمشکل گھسیٹتی لا رہی تھی۔
’’یار میرا تو اپنا بُرا حال ہو گیا ہے۔سانس ہی بحال نہیں ہو پا رہا۔۔۔‘‘بے ربط سانسوں کے ساتھ ثنائیلہ بولی ۔
’’بھائی نے کہا بھی تھا کہ سارا سامان پیک کر دو،میں مزدور بلا کر لے آتا ہوں،لیکن تم نے اپنے ساتھ مجھے بھی مروا دیا۔۔۔‘‘نابیہ کا تھکن سے انگ انگ دکھ رہا تھا۔وہ اب دھڑام سے چارپائی پر لیٹی اُسے بلند آواز میں کوس رہی تھی۔
’’حد کرتی ہو تم بھی یار،بڑا بڑا سامان تو وہ ہی اٹھائیں گے لیکن اب الماریوں سے کپڑے ،برتن وغیرہ تو ہمیں ہی سمیٹنے تھے ناں۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے پانی والے کولر سے گلاس بھر کر منہ سے لگایا اور ایک ہی سانس میں غٹا غٹ پی گئی۔
’’ہائے ہائے ،بازو ،ٹانگیں ،کمر ہر چیز دہائی دے رہی ہے۔۔۔‘‘نابیہ اپنی ٹانگیں دباتے ہوئے بولی تو ثنائیلہ ایک دم ڈھیروں خفت کا شکار ہوئی۔
’’سوری یار،میری وجہ سے تمہیں اتنی تکلیف اٹھانی پڑی۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے اسٹیل کے گلاس میں پانی اُس کی طرف بڑھایا۔
’’اب زیادہ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ،میں نے یہ سب تمہارے لیے نہیں،خالہ کے لیے کیا ہے۔شکر ہے کہ ان کے چہرے پر بھی کوئی مسکراہٹ دیکھنے کو ملی ہے۔۔۔‘‘نابیہ نے پانی پی کر گلاس چارپائی کے نیچے رکھا اور خود بے تکلفی سے لیٹ گئی۔
’’امّی کو تو لگتا ہے کہ نئی زندگی مل گئی ہے۔اب تو خود بھاگ بھاگ کر سارے کام کرنے لگی ہیں اور محلے میں بھی نکلنا شروع کر دیا ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ بھی اس کے پاس ہی آن بیٹھی ۔
’’ویسے یار یہ تمہارے ماموں اچانک کہاں سے دریافت ہوگئے،اور اتنا بھاری بھر کم چیک بھی بھجوا دیا۔۔۔‘‘نابیہ تجسّس کے مارے ایک دفعہ پھر اٹھ بیٹھی جب کہ اس کی بے تابی پر وہ مسکرا کر بولی۔
’’ہزار دفعہ بتا چکی ہوں کہ ماموں نہیں ،ان کا وکیل آیا تھا۔جس نے اپنے فون سے ممانی سے بھی امّی کی بات کروائی تھی اور بتایا تھا کہ نانا کا چکوال والا آبائی گھر اور زمینیں جو ماموں نے بیچی تھیں ۔اُس کا حصّہ بھجوا یا ہے۔۔۔‘‘
’’لیکن وہ خود کیوں نہیں آئے؟؟؟اوررابطہ کیوں نہیں رکھا۔۔۔‘‘نابیہ کی تسلی نہیں ہو پا رہی تھی۔
’’ممانی نے بتایا تھا کہ ہمارا پی ٹی سی ایل نمبر جو ان کے پاس تھا وہ بند ہونے کی وجہ سے رابطہ نہیں ہو پایا۔۔۔‘‘ اُس نے دیوار سے اپنے گھر کے صحن میں جھانکا جہاں سیمنٹ،بجری اور اینٹوں کا طوفان آیا ہوا تھا۔کل سے گھر کی مرمت ہونے کا کام شروع ہو رہا تھا۔
’’ویسے ڈئیر بڑے نیک انسان ہیں تمہارے ماموں ،جو بڑی شرافت سے اپنی بہن کا حصّہ بجھو ا دیا ،ورنہ آجکل کے دور میں تو بس نفسا نفسی کا عالم ہے۔‘‘ نابیہ کی حیرت کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔اس لیے وہ بار بار اس چیز کا اظہار کر رہی تھی۔
’’تمہارے ماموں سے بات نہیں ہوئی خالہ کی ۔۔۔؟؟؟؟‘‘
نہیں یار وہ ملک سے باہر تھے ،ممانی کہہ رہی تھیں کہ وہ تفصیل سے پاکستان میں آ کربات کریں گے۔‘‘ ثنائیلہ کی اطلاع پرنابیہ نے بھی موضوع بدلا۔
’’ویسے تم لوگوں نے بھی اچھا کیا کہ ساون کی بارشوں سے پہلے ہی گھر کی مرمت کا کام شروع کروا دیا۔ورنہ یاد ہے ناں کہ پچھلے سال کتنا مسئلہ ہوا تھا۔‘‘نابیہ اب واش بیشن کے آگے کھڑی منہ ہاتھ دھو رہی تھی۔
’’سچ پوچھو،تو مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ اللہ نے اتنا اچھا سبب بنا دیاورنہ ہمیں شہیر سے تو کوئی بھلائی کی امید ہی نہیں تھی۔‘‘ثنائیلہ کے لہجے میں بے یقینی کا عنصر محسوس کر کے نابیہ ہنس پڑی۔
’’شہیر کو ان پیسوں کی خبر مل گئی تو اڑتا ہوا پاکستان آ جائے گا۔۔۔‘‘نابیہ نے تولیہ تار پر پھیلاتے ہوئے تلخی سے کہا۔
’’ٹھیک کہتی ہو تم،اس لیے میں نے امّی کو سختی سے منع کیا ہے کہ اس سے بالکل بھی ذکر نہ کریں ۔ اب تو ان کو بھی بہت سی چیزیں سمجھ آ گئی ہیں۔‘‘ثنائیلہ اُداس ہوئی۔
’’دفع کرو اُسے تم،ذرا سوچو کہ پورے گھر میں ٹائلیں لگ کر کتنا خوبصورت لگے گا ناں۔۔۔‘‘نابیہ نے اُس کے پاس آتے ہوئے دانستہ موضوع تبدیل کیا اور وہ واقعی بڑے پرجوش انداز میں گویا ہوئی۔’’بیا مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ میرا اتنے سالوں کا سپنا پورا ہو رہا ہے۔ابھی بھی لگتا ہے جیسے کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔‘‘ گھر کی تعمیر ثنائیلہ کا ایک ایسا سپنا تھا جس کے پورا ہونے کی امید اُس نے بالکل ختم کر دی تھی لیکن یہ خواب اتنی آسانی سے پورا ہو جائے گا اس کا اُسے اندازہ نہیں تھا ۔اس لیے وہ بے یقینی کا شکار تھی۔
’’اللہ بہت بے نیاز ہے بس ہم لوگ عجلت کا مظاہرہ کر جاتے ہیں ورنہ وہ تو اپنے کسی بندے کو تنہا نہیں چھوڑتا۔۔۔‘‘نابیہ نے فضا میں موجود مروا کی دلفریب خوشبو کو اندر اتارتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دی۔
’’اور سناؤ سکندر شاہ کو تم نے بتا دیا کہ تمہیں اب جاب کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔۔۔‘‘ نابیہ نے اچانک ہی اُس سے پوچھا تو وہ چونک گئی۔’’اوہ نو،میں تو اس افراتفری میں بھول ہی گئی حالانکہ اپائٹمنٹ لیٹر ملے بھی کافی دن ہوگئے ،کیا سوچتا ہوگا وہ کہ پہلے تو کتنی اتاؤلی ہو رہی تھی اور اب اس کے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے۔‘‘
’’چلو کل اس کے دفتر فون کر کے بتا دینا۔۔۔‘‘ نابیہ نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے تسلی دی تو اُس نے فورا کہا۔’’نہیں بیا، اچھا نہیں لگتا ،میں کل خود اس کے آفس جا کر بتا آؤں گی۔‘‘وہ معصومیت سے بولی تو اُس نے کندھے اچکا کر شرارت سے کہا۔’’تم بھی اُس سے ملاقات کے بہانے ڈھونڈتی ہو۔۔۔‘‘
’’نہیں یار۔۔۔‘‘وہ ایک دم شرمندہ ہوئی۔ ’’سچ پوچھو تو عشق کا سارا بھوت ناک کے ذریعے باہر نکل گیا ہے۔ماہم منصور بالکل ٹھیک کہتی تھی کہ آپ کا مضبوط تخیل آپ کو گمراہ کر رہا ہے۔‘‘
’’تھینکس گاڈ۔۔۔!!!! تمہیں یہ بات سمجھ میں آئی۔۔۔‘‘نابیہ نے دونوں ہاتھ دعائیہ انداز میں منہ پر پھیرتے ہوئے بلند آواز میں کہا تو وہ ڈھیروں خفت کا شکار ہوئی۔
’’مجھے لگتا ہے کہ اب سکندر شاہ کو تم سے محبت ہو جائے گی۔۔۔‘‘ نابیہ کے شریر انداز پر وہ چونکی۔
’’مجھے ایسی کوئی خوش فہمی نہیں ،اس شخص کی آنکھوں میں اتنی اجنبیت ،اور لہجے میں اتنا روکھا پن ہوتا ہے کہ میری محبت بیچاری آخر کب تک اس کے پیچھے خوار ہو۔۔۔‘‘اُس نے خود ہی اپنا مذاق اڑایا تھا جو نابیہ کو بالکل اچھا نہیں لگا۔
’’اب ایسا بھی کوئی پرنس نہیں ۔پتا نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے۔۔۔‘‘ وہ چڑی۔
’’جو بھی سمجھتا ہے۔بالکل ٹھیک سمجھتا ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اس کی بات کاٹ کر تیزی سے کہا۔
’’کیا مطلب ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ نابیہ نے بھنویں اچکا کر اُسے دیکھا جو پل میں تولہ اور پل میں ماشہ تھی ۔
’’بھئی نخرہ بھی تو اسے سوٹ کرتا ہے ناں۔‘‘ ثنائیلہ کی بات پر وہ ہکّا بکّا انداز سے اُسے دیکھنے لگی جس کے چہرے پر کسی دلفریب سوچ نے بڑے خوبصورت رنگ بکھیر دیے تھے۔
’’تم آج بھی وہیں کھڑی ہوجہاں آج سے کچھ ماہ پہلے تھی ۔اس لیے خود کو یہ کہہ کر دھوکا مت دو کہ تمہیں سکندر شاہ سے محبت نہیں رہی۔‘‘ نابیہ کی دل دکھاتی صاف گوئی پر اُس کا دل رنج سے دوچار ہوا اور وہ سر جھکائے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتی رہی۔
’’سارا غصّہ تو اس بات کا ہے۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ نے پاس کھڑی دوسری نرس کے کان میں سرگوشی کی۔
’’سکینہ جلدی کروناں،پھر امّاں جی آ جائیں گی۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ نے یاد دلایا تو سکینہ نے ہڑبڑا کر آنکھیں بند کیں۔ ڈاکٹر خاور کی پرشوق نظریں اُس کے چہرے پر جمی ہوئیں تھیں۔
’’میری ڈاچی دے گلّ وچ ٹلیاں ۔۔۔‘‘ اُس نے بڑے جذب بھرے انداز سے تان اٹھائی
’’وے میں پیر مناون چلی آں۔۔۔‘‘ وہ اب بڑے مگن انداز سے اپنے گلے سے سُر نکال رہی تھی۔
’’پیراں ہو پیراں۔۔۔‘‘ سکینہ کے دل میں چھپا کرب اس کے گلے میں پوری قوت سے جاگ اٹھا تھا۔ کمرے میں بالکل ہی سنّاٹا چھا گیا۔ایک لمحے کو تو زویا بھی متاثر ہوئی۔وہ گا نہیں رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی طلسم پڑھ کر سب کو اپنے سحر میں جکڑ رہی ہو۔شام کی خاموشی میں اس کی آواز کا جادوپورے زوروں پر تھا۔پہلی دفعہ ڈاکٹر زویا کو اس عام سی لڑکی سے خوف محسوس ہوا وہ ہراساں نظروں سے ڈاکٹر خاور کو دیکھ رہی تھی جو کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے انتہائی محبت اور عقیدت سے سکینہ کا زخمی چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے کسی اور ہی دنیا کے مکین لگ رہے تھے ۔
’’سکینہ تمہاری آواز کے جادو سے بچنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔۔۔؟؟؟؟ ڈاکٹر خاور کا خوشگوار انداز ڈاکٹر زویا کو دانت پیسنے پر مجبور کر گیا۔
’’ڈاکٹر صاحب جن لوگوں پر محبت کا جادو نہیں چلتا ،ان پر آواز کا جادو کیا خاک اثر کرئے گا۔۔۔‘‘ سکینہ بولی نہیں تھی لیکن اس کی آنکھوں میں موجود یہ سوال سبھی نے بڑی سرعت سے پڑھ کر ایک دوسرے سے نگاہیں چرائیں۔
’’خاور چلیں یا پھر آج یہاں شام غزل منانے کا ارادہ ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویا نے انگارے چباتے ہوئے کہا تو وہ ہنس پڑے۔’’دل تو نہیں کر رہا ،لیکن آپ کہتی ہیں تو چلے چلتے ہیں۔‘‘
’’دل تو نہیں کر رہا۔۔۔‘‘ سکینہ نے ان کی گفتگو سے اپنے مطلب کا فقرہ پلوّ سے باندھا اور وہ ساری رات اس نے خوبصورت وادی میں کسی تتلی کی طرح دھنک رنگوں میں بھیگتے ہوئے گذاری وہ سوتے ہوئے اتنا مسکرا رہی تھی کہ جمیلہ مائی کی آنکھوں سے نیند اڑ گئی۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...