بنگلور سے ممبئی آنے کے بعد مجھے ذہنی سکون نہیں ملا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کسی اچھے علاقے میں اچھا کرایہ ادا کر کے رہنے کا اہل نہیں تھا۔ ممبئی میں مکان کا ملنا بھی کچھ آسان نہیں ہوتا۔ بہت کوششوں کے بعد جس بلڈنگ میں مجھے جگہ ملی تھی، وہ غریبوں کی چال کا ایک حصّہ تھی۔
بائکلہ کے مصطفیٰ بازار علاقے سے سیدھے چلیں تو اُس سے پہلے ناریل واڑی سُنّی مسلم قبرستان لگتا ہے۔ اس کے آگے رے روڈ ریلوے اسٹیشن کا شروعاتی حصہ جھونپڑیوں اور جھونپڑے نما گھروں کے درمیان چھپا ہوا سا ہے۔ رے روڈ پُل پر دونوں جانب جھونپڑے بنے ہوئے ہیں۔ آگے جا کر دائیں جانب بریٹانیہ بسکٹ کمپنی ہے۔ پُل اترنے کے بعد بائیں طرف سیوڑی اور دائیں طرف راستہ دارو خانہ کی طرف جاتا ہے۔ دارو خانہ برائے نام دارو خانہ ہیڈ ورنہ یہاں بہت سی گلیاں اسٹیل کے چھوٹے بڑے بیوپاریوں کی دوکانوں سے بھری پڑی ہیں۔ اِن دوکانوں میں لوہے کی پلیٹیں، پائپ اور اینگل کا نیا پُرانا مال بکتا ہے۔ شاید انہیں بیوپاروں نے یہاں یہ بستیاں بسا دی تھیں۔ میں یہیں کی گلی نمبر تین میں ’ فلیگ والا اینڈ سنس‘ میں کام کرتا ہوں۔ گھر سے زیادہ دور نہ ہونے کی وجہ سے رے روڈ کے پُل سے نیچے جو راستہ رے روڈ اسٹیشن کو جاتا ہے، وہیں ایک منزلہ بلڈنگ میں اوپر کے حصّے میں کرائے کا گھر بنا لیا تھا۔
میں دارو خانہ سے گھر جلدی پہنچ جاتا تھا، اِس کا اطمینان تو تھا مگر گھر کے راستے میں پترے کے ڈبے سے بنے چولہے پر توا رکھے مچھلی تلتی ہوئی عورت، سیڑھی کے نیچے رکھے ہوئے پانی کے ڈرم میں پائپ ڈال کر پانی نکالتی، کپڑے دھوتی لڑکیاں اور عورتیں، پان پٹّی، سائیکل کی دوکان پر بے باکی سے کھڑے مرد و عورتیں … یہ سارا منظر مجھے بالکل نہیں بھاتا۔
یہاں کرایہ ہزار روپئے اور کمرے دو تھے، لہٰذا میں نے کمرہ لینے میں جلد بازی دکھائی تھی مگر اب پچھتا رہا تھا۔ آس پاس کے گھروں کی بات تو چھوڑیئے، میری اپنی بلڈنگ اور سامنے والی بلڈنگ! اف توبہ اتنا شور اور ہنگامے! یہاں آ کر میں نے محسوس کیا کہ غریبی ایک گُناہ کی سزا سے کم نہیں۔ ہر گھر بے حساب مسائل کا شکار تھا پڑوسیوں کی آوازیں تو دن کے بڑے حصے میں بلند رہتیں، لیکن شام جوئے، تاش اور شراب کے دور کے ساتھ شروع ہوتی۔ کچھ نوجوان لڑکے تو سارا دن چال کو سر پر اُٹھائے رکھتے۔ غریبوں کا کوئی کھیل ان سے بچا نہیں تھا۔ مجھے اِن سب لوگوں سے کوئی مطلب نہیں تھا، بلکہ میں انہیں منہ لگانا بھی نہیں چاہتا تھا، آخر یہاں رہنے والے سبھی لوگ مزدور تھے اور میں ہیڈ کلرک۔ میں یہاں گھر گھر میں کھانے کے لئے جھگڑے روزانہ سنا کرتا تھا مگر میری بیوی کی سمجھ داری اور میری ٹھیک ٹھاک تنخواہ نے کبھی بھی ایسی تنگی کی نوبت آنے نہیں دی۔ ان کے جسم پر کئی دنوں تک وہی میلے چیتھڑے جھولتے رہتے، جبکہ میں، میری بیوی اور ہمارے بچے صاف ستھرے کپڑے پہنتے۔ ان کے بچے سارا دن ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اور کتّوں کے پِلّوں کی طرح جھگڑتے نظر آتے، جبکہ میرے بچے اسکول سے گھر لوٹ کر اپنے ہوم ورک میں لگ جاتے۔ میں نے انہیں ایک کیرم بھی لے دیا تھا، تاکہ فرصت کے وقت اُن بدمعاشوں کے ساتھ گندگی میں نہ کھیلیں۔
اِس سے پہلے ہم بنگلور کے کنٹونمنٹ میں اپنے خاندانی مکان میں رہتے تھے۔ پرانا گھر تھا جس کے آس پاس سرکاری افسروں کے بنگلے تھے۔ اُن کے بچے ہمارے گھر کی طرف نہیں آتے تھے لیکن میں اپنے بچوں کو ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیجا کرتا تھا تاکہ بڑوں میں رہ کر اونچے گھروں کے طور طریقے سیکھ جائیں … لیکن اِس گندی جگہ پر ہم … اُف! … ف! … صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہوں کہ دو گھر چھوڑ کر جو نل ہے، اس پر عورتیں جھگڑا کر رہی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو اپنی سوت اور نہ جانے کیا کیا بنائے ڈال رہی ہیں۔ اخبار پڑھتے پڑھتے دودھ والے اور سبزی والے کے ساتھ ان لوگوں کی چِخ چِخ سنتا ہوں۔ بیوی کا کہنا ہے کہ ’’کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑی دھواں دھار لڑائی چھڑ گئی ہے، مگر جب برآمدے میں جا کر دیکھتی ہوں تو یہ لوگ گھریلو باتوں پر گفتگو کر رہی ہوتی ہیں، سبزی کے بھاؤ کی پوچھ تاچھ ہو رہی ہے اور بچوں کی بیماریوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ کون کس کے ساتھ بھاگی اور کس کا کس کے ساتھ عشق چل رہا ہے، اس سلسلے میں اپنی معلومات کی شیخی بگھاری جا رہی ہے۔
شروع میں میری بیوی پڑوسیوں کی مدد کے لئے آٹا شکر دے دیتی تھی لیکن اپنے گھر کا چراغ بجھا کر مسجد میں دِیا جلانے کے لئے تو خدا نے بھی نہیں کہا ہے۔ میں نے اسے سختی سے منع کر دیا۔ کہا کہ ’’تم ان لوگوں سے بات نہ کرو۔ کیا ہائی سوسائٹی کے اصول بھولتی جا رہی ہو؟‘‘
غریبوں کے یہاں تو سمسیائیں چھپّر پھاڑ کر برستی ہیں۔ پڑوس میں سنتا ہوں کہ ایک خاتون تین بچوں کو دھڑادھڑ پیٹ رہی ہے۔ وہ کھانے کے نام پر ایک ایک سوکھی چپاتی دیتی ہے … باقی تین بچوں کو پیٹ بھر کھانا ملتا ہے۔ آواز آتی رہتی ہے۔
’’تیرے باپ کا مال ہے کیا؟ تیری ماں تو اپنے یار کے ساتھ بھاگ گئی اور اپنے طفیلیوں کو میرے سر مڑھ گئی۔ کھانا ہے تو کھاؤ نہیں تو مرو۔‘‘ اور اسی کے ساتھ چانٹوں کی واضح آواز یں میرے منہ میں جاتے نوالے کا مزہ چھین لیتیں۔
چال کی لڑکیوں کا نوجوان لڑکے فلمی گانوں سے سواگت کرتے اور ان کی گندی باتوں سے جی الٹنے لگتا۔ تیزی طرّاری میں لڑکیاں بھی کم نہیں تھیں۔ الٹے جواب دیتیں۔
’’جا کے ماں بہن کے ساتھ آنکھیں لڑا۔‘‘ میں شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ سامنے کے گھر میں روز کی چِخ چِخ لگی رہتی۔ میں نے اس گھر سے ایک شرابی مرد کو بارہا گنگناتے ہوئے سیڑھیوں پر سے لُڑھکتے ہوئے دیکھا ہے اور اس خوبصورت عورت کو بھی دیکھا ہے جو اکثر برآمدے میں کپڑے سُکھاتی نظر آتی۔ مجھے یہ عورت جانی پہچانی سی نظر آتی! … شاید نہیں! شاید یہ صرف خوبصورتی کا تعلق ہے … میں حسین چیزوں کا دیوانہ ہوں۔ شادی شدہ ہوں۔ کسی پر گندی نظر نہیں ڈالتا، مگر حسین شئے، چاہے عورت ہی کیوں نہ ہو، مجھے اپنا اس سے ازلی رشتہ نظر آنے لگتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی نظر پڑتی ہی رہتی ہے۔ میں نے بیوی سے نہیں پوچھا کہ، ’’یہ کون ہے؟‘‘
فضول شک میں گرفتار ہو جائے گی۔ ’چھوڑو جھنجھٹ کون مول لیتا ہے ‘ اور چپ ہو رہا۔
کھانے کے بعد میں بچوں کا ہوم ورک دیکھنے لگا۔ ان کے رپورٹ کارڈ پر سائن کر دیئے اور آرام سے پلنگ پر لیٹا اپنی ہی سوچوں میں گُم تھا۔ بیوی کافی لے آئی۔ پلنگ کی پائینتی پر بیٹھ کر کافی بناتے ہوئے کہنے لگی۔
’’آپ کو پتہ ہے؟‘‘
’’میں اپنے خیالوں سے باہر نکل آیا اور پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘
’’ہوا یہ کہ ہم ایک بہت بڑی افسانہ نگار کے پڑوس میں رہتے ہیں اور ہمیں اب تک پتہ بھی نہیں چلا۔‘‘ وہ اِٹھلاتے ہوئے بولی، جیسے لاٹری لگنے کی خبر سنا رہی ہو۔
’’کون ہے؟‘‘ میں نے یوں ہی پوچھ لیا۔
’’تبسّم زیدی۔‘‘
میں اچھل کر اٹھ بیٹھا۔
’’سچ! … مگر کون؟ … یہ تین بچوں کی سوتیلی اور تین بچوں کی سگی ماں؟‘‘
’’ارے نہیں!‘‘ وہ ہنس پڑی۔ ’’وہ رہا اُس کا گھر‘‘
مجھے معلوم تھا کہ اس کا اشارہ کچھ فٹ کی دوری پر کھڑی ایک منزلہ عمارت کے شرابی کی طرف تھا۔ ہمارا کمرہ نمبر تین سو چوبیس اور ان کا تین سو اُنچاس تھا۔ ہمارے اور تبسم زیدی کے گھروں کے درمیان کا گھر ڈھہ چکا تھا اور وہ جگہ ملبے کے رُوپ میں خالی پڑی تھی۔
’’وہ خوبصورت عورت!‘‘ میں اسے خوبصورت بول کر دل ہی دل میں پچھتایا۔
’’ہاں وہی‘‘ بیوی کا جواب غیر متوقع تھا۔ ’’ہماری پسندیدہ فنکار ہمارے گھر کے سامنے … اور ہم اب تک اس سے ملے نہیں!‘‘ اس کے لہجے میں تعجب اور خوشی کی آمیزش تھی۔
’’مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ گھریلو عورت جس کی اپنے شوہر کے ساتھ دن رات کی چِخ چِخ سے جی گھبرانے لگا ہے، کہانیاں کیا لکھتی ہو گی؟‘‘
’’مجھے بھی اس کا چہرہ جانا پہچانا لگا تھا مگر اس بار کے ماہنامہ ’’گھنگرو‘‘ میں اس کی تصویر دیکھ کر دھیان آیا کہ یہ تو پہچانی سی ہیں۔‘‘
اس رات دیر تک ہم تبسم زیدی کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔
’’میں کسی دن اپنے گھر اس کی دعوت کروں گی۔‘‘ میں پھولے نہیں سمایا۔ ہم میاں بیوی کے درمیان ازدواجی ہی نہیں ادبی رشتہ بھی تھا۔
دوسرے دن صبح جب میں اُٹھا تو اُس عورت کے بارے میں میرا نظریہ بدل چکا تھا۔ اب وہ مجھے فرشتہ نظر آ رہی تھی۔ اتوار کا دِن تھا۔ میں دیر سے سو کر اُٹھا تھا۔ ناشتے کے بعد جب میں چائے پیتے ہوئے برآمدے میں کھڑا ہوا تو دیکھا کہ وہ نِچوڑے ہوئے کپڑے کندھوں پر لٹکائے اپنے گھر سے باہر آ رہی تھی۔ اُس کی نظر مجھ پر پڑی بھی مگر شاید اس نے مجھے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ میں اداس سا لوٹ گیا۔
شام کو جب میں اپنے ایک دوست کی الوداعی پارٹی میں شامل ہونے کے لئے اپنے دوسوٹوں میں سے ایک پہن کر تیار ہو رہا تھا، چال کی چیخ پُکار کے بیچ سامنے والے گھر کی چیخیں اور لڑائی کچھ واضح معلوم ہوئی۔
’’تم مجھے سمجھتے کیا ہو؟ چار ہزار روپئے مہینہ تو کماتے ہو۔ اس پر یہ تاؤ! روز بیس پچیس روپئے کی شراب پیو گے تو بچے گا کیا؟ بچے چار ہیں، وہ بھی ناکارہ آوارہ۔ میری ضد اور کوشش پر تو وہ میونسپل اسکول میں چلے جاتے ہیں، ورنہ تم تو ان کا ستیہ ناس ہی کر ڈالتے۔‘‘
’’کہا نہ کل سے نہیں پیوں گا۔‘‘ وہ بھی چلّایا۔
’’روز یہی کہتے ہو، … مگر … اوور ٹائم کرو گے تو گھر کی حالت سُدھر جائے گی۔ اِس کے بجائے مہینے کے سات آٹھ سو شراب پر اُڑا دیتے ہو۔‘‘
’’وہ تو تمہاری کہانیوں سے کچھ پیسے اکٹّھا ہو جاتے ہیں، … ورنہ بھوکوں مرتے … ؟ یہی کہنا چاہتی ہو نا!‘‘ اس نے بڑے طنزیہ لہجے سے اس کی بات کو کاٹا۔
’’کیا کیا خواب دیکھے تھے میں نے اِن بچّوں کے لئے!‘‘ تبسّم کی بھرّائی ہوئی آواز نے اس کا دکھ بیان کیا۔
جانے کیوں دونوں چیخ چیخ کر باتیں کر رہے تھے، جیسے لڑائی کر رہے ہوں۔ ویسے تو یہاں ہر آدمی اپنی اپنی حالت میں مست تھا اور کسی کو کسی کی بات سننے کی فرصت نہیں تھی۔ اِتنے دنوں سے ہمارا بھی یہی حال تھا مگر اب ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ یہ اتنی بڑی ادیبہ ہے۔ کچھ دیر کے لئے میرا دھیان ان کی طرف سے ہٹ گیا اور میں اس زور زور سے بولنے والی عورت کی خوبصورت کہانیوں کو یاد کرنے لگا۔ اچانک ہا تھا پائی کی آواز پر میں اور میری بیوی دوڑ کر باہر نکلے۔ برآمدے میں سے دیکھا کہ مرد کے ہاتھوں میں تبسم کی چُٹِیا تھی اور وہ اپنے بال چھڑاتے ہوئے چیخ رہی تھی۔
’’ٹھہرو پیسے دے تو رہی ہوں۔ ہم نے دیکھا کہ اب تبسم نے اپنی ساڑی کے پلّو سے بیس روپئے نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔
’’خدا کی قسم ہے۔ اِن بچوں کے مستقبل کی فکر نہیں ہوتی … ‘‘ وہ بُری طرح بھڑکی ہوئی تھی اور الفاظ اس کی زبان سے بڑی مشکل سے ادا ہو رہے تھے۔
’تو … ؟‘‘ مرد نے گردن ٹیڑھی کر کے پوچھا۔
’’اری جا جا روز میکے کی دھونس جماتی ہے۔ جائے گی تو خرچ بچے گا۔ بچوں کو بھی لیتی جا ساتھ میں۔‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو؟ میں چلی جاؤں گی اور تم یہاں عیش کرو گے؟دوسری کوئی بیاہ لاؤ گے؟ میں یہاں سے ٹلنے والی نہیں۔‘‘
’’اری جائے گی تو منہ تک نہ دیکھوں گا۔ دو چار کہانیاں کیا چھپنے لگیں، بڑی بی کے پر لگ گئے۔ عورت کی آزادی پر لکھنے لگی ہے۔ آزادی چاہئے تو نکل جا میرے گھر سے۔ پھر یاروں کے ساتھ چونچیں لڑانا، … جن کے روزانہ خط آتے ہیں۔‘‘
’’خبردار جو یار کہا۔‘‘ تبسم کی خوبصورت آنکھیں اُبل پڑیں۔ ساڑی کا پلّو کمر میں کس کر لپیٹا اور بایاں پیر دروازے کی چوکھٹ پر جما کراس نے کہا، اپنے جیسا سمجھ رکھا ہے کیا؟کوئی دوسری ہوتی تو تھوک کر چلی جاتی۔ وہ تو میں ہی ہوں … مگر یہ مت سمجھنا کہ میں چُپ رہوں گی۔ ایک حد تک عزت کرتی ہوں۔ بے عزتی پر اُتر آئی تو دیکھ لینا۔‘‘ اُسی وقت زمین پر رکھے ہوئے جوٹھے برتنوں کے ٹوکرے میں سے ایک پلیٹ زنّاٹے سے اس کے ماتھے پر آ لگی اور خون اُبل پڑا۔
’’سالی زبان چلاتی ہے! میری ہانڈی کا کھاتی ہے کُتیا اور مجھی پر بھونکتی ہے۔ کھینچ لوں گا زبان جو اَب کے بولی تو!‘‘
تبسم چکرا کر زمین پر بیٹھ گئی اور اس کا شوہر بک بک کرتا سیڑھی سے نیچے اُتر گیا۔
ہم اندر چلے آئے۔ ہم دونوں ہی گُم صم تھے۔ مجھے پارٹی کے لئے یوں بھی دیر ہو رہی تھی، اس لئے میں اپنی بیوی کو گھر کی دیکھ بھال کی ہدایت دیتا ہوا باہر نکل آیا۔
گلی کے نل پر تبسم زیدی کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ وہ اُسی ٹوکرے کے ساتھ بیٹھی انہیں برتنوں کو دھو رہی تھی۔ حیرت اور خوشی مجھ پر حاوی تھی۔ میری حالت اس بچے کی طرح تھی، جس کو پاس ہونے پر مٹھائی دینے کا وعدہ کیا گیا ہو مگر امتحان سے پہلے ہی اسے مٹھائی مل گئی ہو۔
میں نے اپنے آس پاس نظر دوڑائی۔ نیچے والے بیشتر دروازوں پر ہمیشہ کی طرح پردہ پڑا ہوا تھا۔ گھروں کی چھتوں پر ٹاٹا اسکائی ٹی وی ڈِش آج مجھے خواہ مخواہ ہی بلند دکھائی دینے لگے۔ آگے چند قدم کی دوری پر ہاتھ گاڑی پر ایک آدمی اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے چھوٹے مگر وزنی لوہے کے ٹکڑے کھینچ رہا تھا۔ وہ ہاتھ گاڑی کو پیچھے سے ڈھکیل رہے تھے۔ میں نے اس منظر سے نظر ہٹا کر خاتون سے پوچھا:
’’آپ افسانہ نگار تبسم زیدی ہیں نا؟ … ہم آپ کے فین ہیں۔‘‘
وہ گندے ہاتھوں سے ہی سر پر پلّو ڈالتے ہوئے کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھیں حیران ہو رہی تھیں۔ میں نے اپنا تعارف کرا دینا مناسب سمجھا۔
’’میں آپ کے سامنے والے گھر میں رہتا ہوں۔‘‘
’’اوہ! تو آپ ہی ہیں ہیڈ کلرک صاحب؟‘‘
اجنبیت کی دیوار گر گئی مگر اپنا عہدہ بہت چھوٹا اور لباس بہت قیمتی محسوس ہوا۔
’’جی جی‘‘ مجھے مسکرانا پڑا۔ جواب میں وہ بھی بڑے خلوص سے مسکرائی۔ پہلی بار مجھے اس کے شرابی شوہر سے رشک محسوس ہوا۔
’’میں اور میری بیوی آپ کی کہانیوں کو پسند کرتے ہیں۔ آپ تو بہت غضب کا لکھتی ہیں۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘ پیشانی سے لٹیں ہٹاتے ہوئے اس نے سر جھکایا تو پیشانی پر سرخ ابھرا ہوا حصہ اس برتن کی شکایت کرتا نظر آیا، جسے شاید اس نے مانجھتے مانجھتے زمین پر چھوڑ دیا تھا۔
میری تعریف کے ساتھ ہی گلابی شفق اس کے گالوں پر لہرائی۔
’’کسی دن ہمارے گھر کھانے پر تشریف لائیے۔ میری بیوی بہت اچھا پکاتی ہیں۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘ میرے عقیدت کا اظہار کرتے ہی وہ سراپا معذرت بن گئی۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے منع کرتے ہی میرے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔
’’ان کو پسند نہیں کہ میں اپنے پرستاروں سے ملوں۔‘‘
مجھے اس کے شوہر کی کچھ دیر پہلے کی پھینکی پلیٹ یاد آ گئی۔
’’آپ تو عورتوں کی آزادی کے بارے میں لکھتی ہیں!‘‘ میں نے سوالیہ نگاہیں اس پر مرکوز کر دیں۔
’’طبیعت سے میں آزاد خیال ہی ہوں۔‘‘ اب وہ اپنی کہانیوں کے ایک قاری سے بات کر رہی تھی۔ اس کے لہجے میں نرمی تھی۔
’’شوہر کی اتنی فضول باتیں سننا، اس کے ہاتھوں مار کھانا اور پیشانی سُجا لینا ہی آزاد خیالی ہے؟‘‘ مجھے غصّہ آ رہا تھا مگر خود پر تعجب بھی ہو رہا تھا لیکن پرستار کی بھی کوئی حیثیت ہوتی ہے، حق ہوتا ہے۔ وہ میرا منہ تکنے لگی۔
’’بچوں کی مجبوری ہے۔‘‘ تبسّم واقعی مجبور دکھائی دے رہی تھی۔
’’بچوں کی کیا مجبوری؟‘‘ اب میں ذرا کھل گیا تھا۔ جیسے اُس سے برسوں کی جان پہچان ہو اور وہ تبسم زیدی نہ ہو دوست ہو۔
’’کیا وہ بچوں کا باپ نہیں! چھوڑ دیجئے اور چلی جائیے۔ آپ کے نام کے ساتھ بی اے کی ڈگری تو لگتی ہے۔‘‘
’’انہیں پسند نہیں۔ بی اے پاس تو وہ بھی ہیں، مگر صرف ڈگری سے کیا فائدہ! اب مِل میں کام کرتے ہیں۔‘‘
’’جو انسان صحیح راستوں سے بھٹک جاتا ہے، اسے راستہ ڈھونڈ نکالنے میں دِقّت پیش آتی ہے۔ آپ چاہیں تو میں آپ کو اپنے آفس میں نوکری دلا سکتا ہوں۔‘‘
’’شکریہ‘‘ وہ مسکرائی، بولی، ’’مگر یہ نا ممکن ہے۔‘‘
اب مجھ میں تلخی آ چکی تھی۔ میں اپنے آپ کو روک نہیں پا رہا تھا۔ بولا:
’’یہ ادیب بڑی بڑی باتیں تو خوب کرتے ہیں اور دوسروں پر خوب اپنا اثر جماتے ہیں۔ دوسروں کے لئے نصیحت اور خود کے لئے۔۔ ۔۔ ہونہہ!‘‘
’’جی!‘‘
’’دوسروں کو سبق سِکھانا تو آسان ہوتا ہے۔‘‘ میرے چہرے پر طنز تھا۔ ’’اب آپ کو اپنی کہانیوں میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عورت کو ہمیشہ ہی مجبور رہنا چاہئے۔‘‘
’’جی!!‘‘ وہ حیرت سے میرا منہ تک رہی تھی۔
’’آپ کی جگہ میں ہوتا تواُسی برتن سے پلٹ کر اُسے دے مارتا۔‘‘
اس کا ہاتھ اپنی پیشانی پر چلا گیا، جسے اس نے فوراً ہٹا لیا۔ اب اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دکھائی دئے مگر مجھے پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا، جوش میں کہتا گیا۔ ’’یہ اچھا ہی ہوتا کہ میں سیڑھیوں سے اسے دھکّا دے دیتا اور اس کی جان لے لیتا۔‘‘
تبسّم منہ کھولے مجھے ایسے تک رہی تھی جیسے سمجھ نہ پا رہی ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔
’’ … ایسا نہیں کر سکتا تو دو چار چانٹے اس کے گال پر جڑ دیتا اور اپنی راہ لیتا۔‘‘ میں ایک لمحے کے لئے رُکا، سانس لی اور نرم پڑ کر بولا، ’’یہ اکیسویں صدی ہے۔ عورتیں بھی انسان کا درجہ حاصل کر چکی ہیں … اور آپ تو ایک بڑی فنکارہ ہیں۔ تھوک کیوں نہیں دیتیں اس کمینے کے منہ پر؟ … مرد ہے تو رعب … ‘‘ ‘
’’شٹ اپ۔۔ ۔!!!‘‘ اِس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ پورا کر پاتا، اس کے ’’شٹ اپ … ‘‘ کا گھونسہ زنّاٹے سے میرے دِل پر پڑا۔ میں ہوش میں آ گیا۔ اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئی وہ برس رہی تھی۔
’’کون ہوتے ہیں آپ ہمارے معاملے میں بولنے والے؟ وہ میرے شوہر ہیں میری ہر چیز کے مالک۔ کیا ہوا جو دو بات کہہ لی! آخر کو میں ان کی عورت ہوں۔ چاہے کتنی ہی بڑی افسانہ نگار کیوں نہ ہوں۔ جا سکتے ہیں۔‘‘
سوڈے کی جھاگ کی طرح میں ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اِس وقت نہ وہ افسانہ نگار ہی تھی اور نہ ہی میں اس کا فین۔ ایک ہی پل کی تو بات تھی۔ اِس دوسرے پل میں وہ بالکل اجنبی تھی۔
قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر جب میں سُوٹ تبدیل کر رہا تھا، تب اچانک بیوی نے پوچھ لیا تھا، ’’آپ کے دائیں رُخسار پر راکھ سے بنی اُنگلیوں کا نشان کیسا؟‘‘
میں نے بہت یاد کیا، لیکن یاد ہی نہیں آیا۔ مجھے پورا یقین ہے، تبسّم زیدی نے مجھ پر ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا۔
٭٭٭