ڈاکٹر صفدر
صفدر یکم جولائی ۱۹۴۶ کو اچلپور (ضلع امراؤتی)میں پیدا ہوئے۔ ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی اسناد حاصل کیں۔ اردو ہائی اس کو ل، وروڈ (ضلع امراؤتی) میں تدریسی خدمات انجام دیں اور اسی ادارے کے پرنسپل کی حیثیت سے سبک دوش ہوئے اور امراؤتی میں سکونت پذیر رہے۔
ڈاکٹر صفدر بنیادی طور پر جدید شاعر اور تنقید نگار ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا اسلوب سلیم احمد اور وارث علوی کی یاد دلاتا ہے۔ اسی شگفتہ انداز میں انھوں نے مضامین کے علاوہ ’’روزنامہ صدائے ودربھ‘‘ امراؤتی میں ’’نیم کا رس‘‘ کے نام سے مزاحیہ کالم لکھے۔ ان نگارشات پر مشتمل ان کی کتاب ’’آئینۂ خنداں‘‘ منظرِ عام پر آ چکی ہے۔ ان کی تحریر میں طنز کی زبردست کاٹ اور شگفتگی ہے۔ اسی منفرد انداز کے سبب وہ اس علاقے کے اہم مزاح نگاروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ۲۶؍مارچ ۲۰۲۳ء کو ان کا امراؤتی میں انتقال ہو گیا۔
قطب الدّین ایبک اور ہمارے کتب الدین
ڈاکٹر صفدرؔ
ہمارے ایک دوست ہیں۔ ان کے کان پر ہر وقت قلم رکھا ہوتا ہے اور میز پر کورا کاغذ۔ چنانچہ وہ لکھتے رہتے ہیں۔ لگاتار، بے تکان، بے حساب۔ جیسے گھوڑا گاڑی میں جتا چلتا رہتا ہے۔ چلتا رہتا ہے۔ مشین کپڑا سیے جاتی ہے۔ سیے جاتی ہے۔ ایسے ہی ہمارے دوست لکھے جاتے ہیں۔ لکھے جاتے ہیں۔
کاغذ سازی کے کارخانے میں ایک طرف سے لکڑی، بانس داخل کئے جاتے ہیں، دوسری طرف سے کاغذ نکلا چلا آتا ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ وہ کھاتے ہیں۔۔ ہضم کرتے ہیں۔ پھر کھاتے جاتے ہیں، بعینہ ہمارے دوست لکھے جاتے ہیں۔ کسی کتاب کا پڑھنا اُن کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ لکھنے کا مشغلہ پڑھنے، غور و فکر کرنے اور سمجھنے کی مہلت ہی نہیں دیتا۔ چنانچہ بقول خود وہ صبح سے شام تک قلم گھسیٹتے رہتے ہیں۔
لکھنا اور لکھے جانا اُن کا مرض ہے۔ یہ کوئی مرض ہے تو اس کا کچھ علاج بھی ہونا چاہے۔ اُن کے معالج نے ’’ھو الشافی‘‘ لکھ کر لکھا۔۔
وہ لکھیں اور پڑھا کرے کوئی
پڑھنے کے لیے قاری چاہئے۔ ان کے احباب ہی اُن کے قاری ہیں۔ مگر وہ بھی یہ پڑھتے پائے جاتے ہیں کہ۔۔ ۔۔ ۔، اس مرض کی دوا کرے کوئی۔
ہماری رائے میں ہمارے یہ دوست تاریخ ساز شخصیت ہیں۔ موصوف اپنے ہر ممدوح کو عہد ساز شخصیت لکھتے ہیں۔ چونکہ اس ترکیب کے معنی ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔ اس لئے ہم نے انہیں تاریخ ساز شخصیت لکھا ہے۔ تاریخ میں ان کا نام قطب الدین ایبک کے نام کے ساتھ لکھا جائے گا۔ قطب الدین ایبک نے قطب مینار بنایا تھا۔ ہمارے دوست ’’کتب مینار‘‘ بنا رہے ہیں۔ ہر سال چھ مہینے میں ان کی دو ایک کتابیں چھپ جاتی ہیں۔ یہ کام موصوف پورے ہوش و حواس، توجہ، انہماک اور ایمانداری سے انجام دیے جا رہے ہیں۔
ہم اگرچہ تاریخ کے ماہر نہیں ہیں، مگر تاریخ پر رائے دینے کا جمہوری حق تو رکھتے ہی ہیں۔ اسی لئے ہم نے اپنے دوست کا نام کتب الدین رکھ دیا ہے۔ ہم اپنے کتب الدین کو ’’قطب الدین‘‘ ایبک پر ترجیح دیتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قطب مینار کی چند منزلیں ہیں۔ زیادہ تھیں بھی تو اب چند رہ گئی ہیں۔ گذرتے وقت کے ساتھ شاید اور کم ہو جائیں۔ مگر کتب الدین کا کتب مینار ہر سال ایک دو منزل بلند ہو جاتا ہے۔ قطب مینار کی بلندی گھٹ رہی ہے۔ مگر کتب مینار کی بلندی میں مسلسل اضافہ ہوا جاتا ہے۔
آپ کو شاید حیرت ہو رہی کہ کیا کتاب لکھنا اتنا آسان کام ہے؟ آپ کی حیرت بجا۔ اردو کے آسمان پر مہر منور بن کر جگمگانے والے حضرت غالبؔ کا ایک دیوان ہے۔ اور بس میرؔ کے پانچ سات دیوان ہوں گے۔ میرؔ، غالبؔ، مومنؔ، پطرس مشہور ضرور ہیں مگر قلم کے سامنے عاجز ہیں۔ کتب الدین کے لئے کتاب دینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بلکہ یہ ان کے دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں کا کھیل ہے۔ وہ کسی کتاب یا ادیب پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک نئی کتاب بر آمد ہو جاتی ہے۔ بقول شخصے۔۔ ع۔۔ ۔ نگاہ مرد مومن سے نکل آتی ہیں تحریریں۔
سنا ہے عالم اَرواح میں ہمارے بزرگ شعراء اور ادیب منھ چھپائے پھرتے ہیں۔ لوگ پوچھ لیں کہ حضرت کتب الدین کے کارناموں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو کیا جواب دیں گے۔
یہ بھی سنا ہے کہ تمام آنجہانی شعراء اور ادبا دعا کرتے رہتے ہیں کہ اللہ کتب الدین کی عمر دراز فرما۔ وہ مر کر یہاں آئیں اور ہمارا آمنا سامنا ہو، اس شرمندگی سے ہماری حفاظت فرما۔ وہ اس خوف سے لرزتے رہے ہیں کہ نہ جانے کس لمحے کتب الدین عالم ارواح میں وارد ہو جائے۔
کتب الدین کی سو کے قریب کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔۔ موصوف فرماتے ہیں کہ زیر طبع کتابوں کی تعداد شائع شدہ کتابوں سے دگنے سے بھی زیادہ ہے دُگنے سے کتنی زیادہ ہے، اس کا اندازہ لگانا دشوار ہی نہیں، بے حد دشوار ہے۔ وہ کس کتاب پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں سے ایک نئی کتاب بر آمد ہو جاتی ہے۔ لوگ ہنستے ہیں۔ مگر یہ ایک فطری امر ہے۔ آخر آدمی کے بطن سے آدمی، جانور کے بطن سے جانور نکلے چلے آرہے ہیں پھر کتاب سے کتاب نکلنے پر حیرت کی کیا بات ہے؟
ہماری باتوں سے آپ مطمئن ہو گئے ہوں گے۔ نہ ہوئے ہوں تو آپ پوچھ سکتے ہیں کہ بھلا موصوف اتنا سارا کیسے لکھ لیتے ہیں۔ آپ نے وہ کہانی ضرور سنی ہو گی۔ ایک مرغا بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنے چلا۔ راستے میں شیر ملا۔ پوچھا مرغ میاں کدھر؟ کہا ’’بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنے چلا ہوں‘‘ پوچھا ’’میں بھی چلوں؟‘‘ کہا ’’بیٹھ میرے کان میں۔ ہاتھی ملا۔ کہا بیٹھ میرے کان میں۔ دریا ملا۔ کہا بیٹھ میرے کان میں۔ سپاہی ملا۔ کہا بیٹھ میرے کان میں۔ بعینہ کتب الدین ہر کسی سے فرماتے ہیں‘‘ بیٹھ میری غزل میں، بیٹھ میرے مضمون میں۔ چنانچہ وہ کسی کی دال روٹی، کسی کی تکا بوٹی۔ کسی کی دراز کسی کی کوتاہ چوٹی سب پر لکھے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جس کا دائرہ کار اتنا وسیع ہو وہ کتنی کتابیں دے گا۔ پس وہ کتابیں دئے جا رہے ہیں۔ وہ کسی فون پر بات کرتے ہوئے مژدہ سناتے ہیں ’’ایک گڈ نیوز۔ میری کتاب آ رہی ہے۔‘‘ ہمیں کہنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ اچھا ہے۔ آپ فارغ ہولیں۔ مبارکباد!‘‘
ہمارے کتب الدین کسی کے شاگرد نہیں ہیں۔ اس لئے اُن کی تحریروں میں اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ موصوف نے کسی شاعر، کسی ادیب سے استفادہ کیا ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی کی بات سنی ہی نہیں۔ وہ کس کی بات سنیں نہ سنیں۔ ندا فاضلی کی ایک بات گرہ میں باندھ لی ہے کہ
اوروں کے کندھوں پر چڑھ کے اپنے کندھے جھٹکو،
اِدھر اُدھر مت بھٹکو۔
چنانچہ وہ باغ اُردو میں کبھی ’ل‘ کے کندھوں پر چڑھ کر کندھے جھٹکتے ہیں، کبھی ’م‘ کے کندھوں پر اچکتے ہیں۔ کبھی ’ن‘ کی دستار پر بیٹھ کر مٹکتے ہیں۔
ہم نے اپنے ادیب دوستوں کی بے دماغی دیکھی ہے۔ ان کا حال محمد علوی نے یوں لکھا ہے۔۔ ۔ ع سنا ہے سیّد سے خاں ہوئے ہیں۔
مگر ہمارے کتب الدین جی ہاں جی ہاں ہوئے ہیں۔ اس لئے ارباب اقتدار کے کندھوں پر پائے جاتے ہیں۔ اور ہم ایسے بے دماغوں سے پوچھتے ہیں۔ میں کہاں ہوں؟
ہم بس یہ کہتے ہیں ’’جی! آپ ’م‘ کے کندھے سے اچھل کر ’ن‘ کے کندھے پر جا بیٹھے ہیں۔ آپ کی اچھل کود یوں ہی جاری رہی تو ابجد ختم ہو جائے گی۔ تب آپ غریب غالبؔ کا یہ مصرع پڑھیں گے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب!
ہم زندہ ہیں تو یہ دیکھنے کے لئے کہ۔۔ ۔۔
دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ہوتی آئی ہے کہ دنیا اچھے اچھوں سے خوش نہیں ہوتی چنانچہ ایک ایسے ہی ناخوش آدمی کا تبصرہ یہ ہے کہ برق رفتار سفر کے باوجود کتب الدین وہیں کھڑے ہیں۔ جہاں روز اوّل پائے جاتے تھے۔ ہم نے کہا ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ فرمایا ایک شخص کی کار سر شام بگڑ کر ایک جگہ کھڑی ہو گئی۔ اُس شخص نے گاڑی جیک پر چڑھائی۔ کار درست کی۔ پھر کار دوڑانی شروع کی۔ رات بھر کار فر اٹے بھرتی رہی۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ موصوف رات بھر سفر کرنے کے بعد بھی وہیں ہیں جہاں سر شام پائے جاتے تھے۔ در اصل کار جیک پر چڑھی ہوئی تھی۔
یہی حال کتب الدین کا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ کتب الدین اندھیرے کے فریب سے نکل آئیں۔ روشنی میں سفر کریں اور واقعی نئی نئی منزلیں طے کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ آمین
(آئینۂ خنداں۔ ۲۰۱۹)