قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کے رونے کے بہانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
” ہاں میں نہیں جانتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!” اپنے بازو کو سہلاتی
الجھتی متعجب انداز میں اس سے مخاطب تھی .
” تمھارے ہاتھوں پہ کسی اور کے نام کی مہندی لگی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا نہیں ہو گا بیلہ اتنا یاد رکھنا بس۔” اس نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر جھٹکااور چھوڑ دیا۔
” کک۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا۔۔۔۔۔۔۔مطلب ہے آپ کا؟” بیلہ اس کے لب و لہجے پر گویا حیران ہوئی۔
” میرے پاس اتنا ٹائم نہیں جواب میں تمہیں سمجھاتا پھروں۔جو میں نے کہا ہے وہ سنو اور اس پر عمل کرو۔
تمھارے ہاتھوں میں صرف میرے نام کی مہندی لگے گی اگر اس سے ہٹ کر کچھ سوچا تو مجھے نہیں معلوم میں کون سی حدوں تک جا سکتا ہوں لیکن نقصان یقینی ہے۔” اس کے قریب کھڑا اس کی آنکھوں میں جھانکتا مدھم سر گوشی میں سخت لہجے میں ایک ایک لفظ کو چبا کر بولتا وہ اس کے اوسان خطا کرنے لگا۔
” زرغم عباسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”وہ دو قدم پیچھے ہٹی ۔ ” کسی کے دل ودماغ پر قبضہ کرنے کے لیے نیتوں کو صاف رکھنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈرامے نہیں کرنے پڑتے اور نہ ہی یہ طریقہ کار اپنایا جاتا ہے ۔ ” اب وہ قدرے سنبھل کر اس کے جنوبی انداز کے حصار سے نکل چکی تھی۔وہ اسی پوزیشن میں کھڑا اس کو دیکھے جا رہا تھا ۔
” محبتوں کے چکر چلانا آپ کے لیے کیا مشکل ہے ۔ میں ہی پاگل تھی جس نے بنا سوچے سمجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” جسٹ شٹ اپ تم یہ کس کی زبان بول رہی ہو میں سب سمجھتا ہوں ۔ ” اس سے پہلے کہ بیلہ کچھ اور بولتی زرغم برق رفتاری سے اس کی طرف بڑھتا ہوا بولا تو وہ دہل گئی۔
” تم زرا اپنے دماغ سے سوچواور شک کی پٹیاں اتاروتاکہ تم سمجھ سکوکہ کون تمھارا دشمن اور کون تمھارا دوست ۔” اپنی بات ختم کرکے اس نے اسے دیکھا جو ششرروساکت آنکھوں سے اسے دیکھے جا رہی تھی ۔
” پیار و محبت کے جھوٹے چکر کون چلاتا ہے یہ تمہیں سمجھنے کی ضرورت ہے بیلہ لاکھانی۔” اب وہ قدرے نرم لہجے میں بولا تو بیلہ آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کی پشت سے رگڑتی وہاں سے چل پڑی زرغم نے یک دم اس کا رستہ روکا ۔ تو اس نے بے یقینی سے اس کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت تو تھی ہی لیکن بد گمانیوں اور بے یقینیوں کی لپٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” میں جس رہی ہوں تمہیں جانے کی ضرورت نہیں ۔ اور تم جانتی ہو نا یوں ” واک آوٹ” سے مجھے کتنی چڑ ہے پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟” نظریں اس پر جمائے وہ بے تاثر انداز میں پوچھ رہا تھا ۔ وہ ڈبڈباتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔
” تم جانتی ہو تمہاری آنکھوں میں تیرتی اس نمی سے بھی مجھے چڑ ہے۔پھر۔۔۔۔۔۔۔۔؟” اس نے ہاتھ بڑھا کر ان موتیوں کو بہنے سے روکنا چاہا لیکن اس نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور اس کی سائیڈ سے نکل جانے کے لیے قدم بڑھائے ۔
” بولا تو ہے رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر تمہیں جانے کی کیوں جلدی ہے ؟” وہ دوبارہ اس کے رستے آتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تو اس کے ماتھے پر بل پڑنے لگے ۔
” تم جانتی ہو میری موجودگی میں اس صبیح پیشانی پر ناگواری کی ان لائنوں سے بھی ۔جھے چڑ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر؟”
اس کی پیشانی کو انگشت شہادت سے چھوٹے ہوئے وہ فسوں خیز لہجے میں بولا تو چند قدم پیچھے ہٹی خاموشی سے سر جھکا گئی۔
” میں لاکھانی لاج چھوڑ کر جا رہا ہوں۔” وہ مدھم انداز میں بولا تو اس نے چونک کر اس کو دیکھا۔
” بھاگو گی میرے ساتھ؟” اس کی ہوائیاں اڑتے چہرے کو دیکھتے ہوئے وہ شرارت سے بولا تو بیلہ نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا۔اس کے جانے کا سن کر دل میں ایک ٹیس سی اٹھی ۔
” واپس آجاؤں گا پریشان نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” دھیمی مسکان کے ساتھ اس نے پھر شریر انداز اپنایا تو ادھر ادھر دیکھنے لگی۔زرغم کی نظریں اس پر جمی تھیں ۔
” کچھ پوچھنا ہے تو پوچھ سکتی ہو۔” اس کو نظروں کے حصار میں لیے وہ بولا۔
“کک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کب واپس آنا ہے ؟” وہ اس کی نظروں سے نروس ہوتی بمشکل پوچھ پائی۔
” جب بھی تم دل سے بلاؤگی دوسرے پل اپنے سامنے اپنے قریب پاؤگی ۔” مسکرا تے ہوئے بولا اور اس کو حیران چھوڑ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور وہ جو ڈھیروں سوال پوچھنا چاہتی تھی اس کے پل بھر میں بدلتے لہجے پر حیرت زدہ سوچتی چلی گئی کہ آخر ایسا کیا ہوا؟ کوئی سرا ہاتھ نہ آیا تو تھک یار کر پاس بنے بینچ پر بیٹھ گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...