یہ کسے ہوسکتا ہے کون تھا وہ شخص جس نے یہ حرکت کی تم نے نام پتہ نہیں پوچھا اس شخص سے ۔۔۔
ارے صاحب میں نہیں جانتی وہ کون تھا بس وہ آیا ان نکلی پیسوں کا بیگ دیا اور دونوں لرکیوں کو لےکر چلا گیا۔۔
جب مونی بائی کو پتہ چلا کے یہ پیسے نکلی ہے تو اس نے راشد کو کال کر کے بلوایا جو اب اس بات سے پریشان تھا کے اخر وہ انسان کون تھا جس نے نکلی پیسے دیئے اور ان دونوں کو یہاں سے نجانے کہا لے گیا۔۔۔
ایک منت ارسلان سکندر سے پوچھتا ہو۔۔۔
راشد نے موبائل پر نمبر دائل کرتے ہوئے کہا۔۔
ہیلو ارسلان میں راشد بول رہا ہو۔۔
ہاں بولو کیا بات ہے۔۔ارسلان سکندر نے جواباً کہا۔۔
یار ہانیہ اور شانزے کو کوئی نکلی پیسے دے کر مونی بائی کے کوٹھے سے لے گیا۔۔
کیاااااا تم یہ کیا بکواس کر رہے ہو لے گیا ایسے کسے کوئی لے گیا مونی بائی نے پہلے کیوں نہیں دیکھے پیسے اور اس شخص کی پہلے چھان بین کیو نہیں کی۔۔۔
ارسلان سکندر نے غصے سے کہا۔۔
یہ میں نہیں جانتا تم یہ بتاؤ اب کیا کرنا ہے اگر وہ دونو لرکیاں پولس اسٹیشن پہنچ گئ تو کیا ہوگا ہم لوگوں کو تو ساری زندگی پولیس کی چکی پیسنی پرے گی۔۔
راشد نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں یہ نہیں ہوسکتا میں ایسا ہونے ہی نہیں دونگا تم ایسا کرو وہاں ہی روکو میں مونی بائی کے کوٹھے پر آرہا ہو پھر وہاں سے کچھ کرتے ہے۔۔۔
ارسلان سکندر نے یہ کہے کر موبائل بند کردیا۔اور گاڑی لے کر مونی بائی کے کوٹھے کی طرف نکل گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہنچی ہے کس طرح مرے لب تک،نہیں پتہ
وہ بات جس کا خود مجھے اب تک نہیں پتہ
اچھا! میں ہاتھ اٹھاؤں، بتاؤں، فلاں فلاں؟
یعنی خدا کو میری طلب تک نہیں پتہ ؟
اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ
ہم لوگ ہوں گے یا نہیں تب تک، نہیں پتہ
جس کے سبب میں اہلِ محبت کے ساتھ ہوں
وہ شخص میرے ساتھ ہے کب تک، نہیں پتہ
میں آج کامیاب ہوں، خوش باش ہوں، مگر
کیا فائدہ ہے یار! اُسے جب تک نہیں پتہ
(تحریر۔ عمیر نجمی۔)
۔۔۔۔۔۔
حنان کمرے میں بیٹھا عمیر نجمی کی غزل سن رہا تھا اور ساتھ ساتھ وہ بھی اس کے بولے گئے لفظ دھرا رہا تھا۔۔
آنسو تھے کے ندیوں کے پانی کی طرح بہتے جا رہے تھے۔۔
ہانیہ کی تلاش کر کر کے اس کی ہمت ٹوٹنے کو تھی کیونکہ ہانیہ کی کچھ خبر نہیں مل رہی تھی۔ لیکن جب جب یہ کمزور پڑتا اسی وقت خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا کیونکہ وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا ۔
آج تین مہنے گزر گئے تھے اسے ہانیہ سے بچھڑے یہ پل پل ترپ رہا تھا۔۔اس کے دل میں ہانیہ کی محبت کی ترپ شدت سے بھرتی جارہی تھی نجانے کہا تھی وہ کس حال میں تھی۔۔۔.
۔۔۔۔۔۔۔
حنان بیٹا میری بات سنو بس بہت ہوگیا بہت دیکھ لیا تمھیں ترپتا بس اور نہیں میں سب بتاونگی تمھیں۔ بعد میں جو ہوگا دیکھا جاے گا اس وقت جو ہونے والا ہے اسے روکو۔۔۔۔
تمھارے بابا نے ہی ہانیہ کو اغوا کروایا اور جب اسے پتا چلا کے عبدالقدیر پکرا گیا تو تمہارے بابا اور اس کے دوست راشد نے مل کر سب لرکیوں کو مونی بائی کے کوٹھے پر چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔
سونیا بیگم کو جب پتا چلا کے ہانیہ کوٹھے پر ہے تو اس نے فیصلہ کرلیا کے اب چاہے کچھ بھی ہوجائے ۔۔۔۔
یہ ارسلان کے درواے میں نہیں آئے گی اور در بدر نہیں ہونے دے گی ہانیہ کو۔۔۔
اس لئے انہوں نے حنان کو سب سچ بتا دیا۔۔۔
ک ک کیا م میری ہ ہ یانیہ کوٹھے پر ن ن نہیں یہ جھوٹ ہے ی یہ نہیں ہوسکتا ڈیڈ ایسا کسے کر سکتے ہے۔۔
م میں جاونگا واپس لاونگا ۔۔۔۔
حنان ساری سچائی جان کر گیرنے والے انداز سے پیچھے ہوا اسے ارسلان سکندر سے اور بھی نفرت ہونے لگی تھی۔۔
لیکن فائدہ نہیں ہے بیٹا کیونکہ ہانیہ اب وہاں نہیں یے کیونکہ تمھارے بابا موبائل پر راشد سے بات کر رہے تھے راشد کہے رہا تھا کے ہانیہ کو کوئی آدمی خرید کر لے گیا اور پیسے جو اس نے دیئے تھے وہ نکلی ہے اس لئے تمھارے بابا اب مونی بائی کے کوٹھے پر گئے یے اور جتنی بھی لرکیاں عبدلقدیر کی گینگ نے اغوا کی تھی وہ سب بھی وہاں ہی ہے تم ایسا کرو پولیس لے کر ان کے پیچھے جاؤ اور ان بچیوں کو اس دلدل سے باہر نکالو۔۔۔
سونیا بیگم نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
موم کہا جا سکتی ہے ہانیہ اور کون لے کر چلا گیا۔ اسے کون ہو سکتا یے موم میں تھک گیا ہو بس اور ہانیہ سے دور نہیں رہے سکتا میں کیا کرو کہا دھوندو اسے ۔۔
حنان نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
موم میں چلتا ہو ڈیڈ کے کئے کی سزا میں دونگا انہیں بہت ہوگیا۔۔۔
حنان نے باہر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
پکرو ان سب کو اور تلاشی لو ساری جگہ وہ لڑکیاں یہاں کہی ہی ہوگی اور تم راشد ۔۔۔
تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو تم بھی شامل تھے اس عبدلقدیر کی گینگ میں اور اپ ارسلان سکندر شرم آنی چاہیےاپکو اتنے برے بزنس مین ہونے کے باواجود اتنی گھٹیا حرکت کی آپ نے اپنی ہی بہو کو اغوا کروا دیا بہت ہی برا جرم کیا ہے اپ نے اس کی سزا ضرور ملے گی آپ کو۔۔۔
انسپکٹر نے ارسلان سکندر کو ہٹکری لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
آئی ہیٹ یو ڈیڈ مجھے آپ سے اس کی امید نہیں تھی خیر میں ہانیہ کو تو تلاس کر ہی لونگا ۔۔
لیکن جو اپ نے حرکت کی ہے اس وجہ سے اپکا اور میرارشتہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوچکا ہے میں کبھی معاف نہیں کرونگا اپکو۔۔۔
حنان نے ان کی طرف نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو سر جھکاے کھڑے تھے۔۔۔
ٹھینک یو مسٹر حنان آپ نے ہماری بہت مدد کی اس درگز گینگ کو پکروانے کی انشااللہ اپکی منگیتر کو بھی بہت جلد تلاش کرلے نگے۔۔انسپکٹر نے حنان کا شکریہ ادا کیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اخر راشد اور ارسلان سکندر کے کئے کی سزا انہیں مل چکی تھی مونی بائی کو اور اس کی گینگ کو بھی پولیس نے اریسٹ کرلیا تھا سب لڑکیوں کو بھی آزادی مل چکی تھی۔۔لیکن بس اب ہانیہ اور شانزے تھی جس کی تلاش حورعین اور حنان دونوں کو تھی۔۔۔۔
اخر کہا تھی یہ دونوں کون لے گیا تھا۔۔۔کوئی اپنا تھا یا غیر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا سے آرہی ہو تم ٹائم دیکھا ہے کیا ہو رہا ہے رات کے نو بج رہے یےاور تم باہر سے آوارہ گردی کرکے ارہی ہو یہ شریفوں کا گھر ہے تمھارے جیسی لڑکیوں کے لئے نہیں جو رات کو نو نو بجے گھر میں داخل ہوتی ہے۔۔۔۔۔
جب حورعین باہر سے آئی تو کمرے میں ریحان موجود تھا جو آج جلد ہی گھر واپس اگیا تھا اور حورعین کا منتظر تھا۔۔۔
آپ آج جلدی آگئے افس سے ۔ حورعین نے اسکے سوال کا جواب دئے بغیر پوچھا۔۔۔
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔میں نے جو پوچھا ہے اسکا جواب دو کہا سے آرہی ہو۔۔۔
ریحان نے اس کے بازو پکر کر اسے جھرکتے ہوئے کہا۔
اس کی آنکھوں میں آج عجیب ہی کشش تھی جو حورعین اسکی طرف مائل ہوتی جارہی تھی۔۔۔
میں جہاں بھی گئ تھی اپ کو کیا۔۔
حورعین نے اسے پیچھے دھکا دیتے ہوئے کہا۔۔
میں شوہر ہو تمھارا اور میں حق رکھتا ہو یہ جاننے کا کے میری بیوی کہا جاتی ہے کیا کرتی ہے۔۔۔۔۔
ریحان نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
شوہر آپ۔ یہ کب سے ۔۔حورعین نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
*_عشق کرنے والوں کو دعاء کیوں نہیں ملتی_* 🤲
_*دل توڑ نے والوں کو سزا کیوں نہیں ملتی۔*_💔
_*لوگ کہتے ہیں عشق ایک بیماری ہے*_ 😒
_*تو پھر اس بیماری کی دوا کیوں نہیں ملتی*_🤔
ریحان نے اس کو اپنی طرف کھنچتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔..
ریحان حورعین کے اتنا قریب تھا کے حورعین اس کی سانسوں کو محسوس کر رہی تھی ۔۔اتنے مہنوں میں ریحان پہلی بار اس کے قریب آیا تھا۔۔۔….
۔۔۔۔۔۔
دوا کی بات تم کرتے ہو۔۔۔۔
قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں
کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں
کون سی آنکھوں میں میرے خواب روشن ہیں ابھی
کس کی نیندیں ہیں جو میرے رتجگوں میں قید ہیں
شہر آبادی سے خالی ہو گئے خوشبو سے پھول
اور کتنی خواہشیں ہیں جو دلوں میں قید ہیں
پاؤں میں رشتوں کی زنجیریں ہیں دل میں خوف کی
ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں قید ہیں
یہ زمیں یوں ہی سکڑتی جائے گی اور ایک دن
پھیل جائیں گے جو طوفاں ساحلوں میں قید ہیں
اس جزیرے پر ازل سے خاک اڑتی ہے ہوا
منزلوں کے بھید پھر بھی راستوں میں قید ہیں
کون یہ پاتال سے ابھرا کنارے پر اے ریحان
سرپھری موجیں ابھی تک دائروں میں قید ہیں
(تحریر ۔۔سلیم کوثر)
ریحان کے جواب میں حورعین نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔۔۔
چلو اس قیدکو ختم کئے دیتے ہے۔۔۔۔
محبت کے افسانے شروع کئے دیتے ہے۔۔۔
ریحان نے اس کے چہرے پر آنے والی لیٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔
پیچھے ہٹو۔۔۔
حورعین نے اسے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔
حورعین بہت گھبراگئ تھی۔۔
کیونکہ حورعین نے پہلی بار اسکو اتنا رومینٹک موڈ میں دیکھا تھا۔۔
وہ بھاگتی ہوئی واش روم میں چلی گئ اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر دل پر ہاتھ رکھ کے تیز تیز سانس لینے لگی۔۔۔
اسے پہلی بار ریحان کو اتنا قریب دیکھ کر شرم آئی تھی۔۔۔
اس نے منہ ہاتھ دھویا اور خود کو نارمل کرکے باہر آئی تو ریحان بیڈ پر ٹانگیں پھیلاے بیٹھا اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔حورعین اسکی طرف دیکھے بغیر اپنی جگہ پر گئ اور لیٹ گئ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔۔۔ریحان کی سوئی ابھی بھی وہاں ہی اٹکی تھی۔۔
میں اپنی فرینڈ سے ملنے گئ تھی اور اب مجھے نیند آرہی ہے اس کے بعد کسی سوال کا جواب نہیں دینا مجھے گڈ نائٹ۔۔حورعین نے اس سے کہا اور آنکھیں بند کردی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو حنان تم میرے سسرال آجاو ایک خوش خبری ہے ساتھ میرے ماما پاپا اور انکل انتی کو بھی لے کر آنا۔۔
حورعین نے موبائل پر کال ملاتے ہی حنان کو اپنے سسرال بلوایا۔۔
خوشخبری لیکن کیسی حنان نے حیرانی سے کہا۔۔
تم کل بس اجانا تب پتا چل جائے گا۔۔۔
حورعین نے مسکراہتے ہوئے کہا۔۔
اوکے میں کل تمھارا انتظار کرونگی باے۔۔
حورعین نے حنان سے کہا اور کال بند کردی۔۔۔ریحان میری بات سنو کل تم کہی مت جانا ایک گڈ نیوز ہے تمھارے لئے۔۔۔
حورعین نے ریحان سے کہا جو بیڈ پر بیٹھا موبائل استعمال کر رہا تھا تو اسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
خوشخبری لیکن کیسی۔۔
اس نے حیرانی سے کہا۔۔
یہ تو کل ہی بتاونگی۔۔حورعین نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔اور باہر چلی گئ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...