تھکے ہارے قدموں سے وہ گھر میں داخل ہوئی تھی جہاں ہرسو سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسے ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ اسنے کتنی کوشش کی تھی کہ وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکے۔۔۔۔۔ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر وہ اینٹی پریگنینسی پلز لیتی رہی یہ جانتے بوجھتے بھی کہ اس کا منفی پہلو اسکے لیے کتنا خطرناک ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب کی بار وہ ناکام رہی تھی۔۔۔۔۔۔ لاؤنج میں آکر اس نے بیگ صوفہ پر رکھا اور خود سر ہاتھوں میں گرا لیا
ایک نئی آزمائش اسکی منتظر تھی۔۔۔۔ اس وقت اسے ریلیکس ہونے کی ضرورت تھی اسی لیے وہ بیگ اٹھائے اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور نہانے چلی گئی۔۔۔۔ اب وہ خود کو فریش محسوس کررہی تھی۔۔۔۔۔ فلحال اسے اپنا دماغ بٹانا تھا اسی لیے اس نے کپڑوں کی تہہ لگانا شروع کردی تھی۔۔۔۔۔۔ وارڈرروب میں کپڑے رکھتے اسکی نظر اس لاکر پر گئی جو ہمیشہ رستم کے استعمال میں ہوتا تھا اور رستم ہمیشہ اسے لاک رکھتا تھا۔۔۔۔۔ ان چار سالوں میں انا نے کبھی اس لاکر کو نہیں چھوا تھا اور نہ ہی اسے ضرورت محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ مگر آج نجانے کیوں اسکا دل چاہا کہ وہ دیکھے آخر اس میں ایسا بھی کیا ہے۔۔۔۔ دل کی آواز پر لبیک کہتے اسنے لاکر کھولا تو وہ کھل گیا۔۔۔۔۔۔ انا کی حیرت کی انتہا نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔۔ شائد رستم جلدی جلدی میں اسے لاک کرنا بھول گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ انا نے لاکر کھول کر دیکھا تو اس میں کچھ فائلز ایک رپورٹ اور ایک انویلپ تھا۔۔۔۔۔۔۔ انا نے فائلز اور رپورٹ بیڈ پر رکھی اور انویلپ کھولا تو اسے اپنے پیروں تلے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ وہ نوید شیخ کی تصویریں تھی
’’یا میرے مولا!!‘‘ انا نے خوف سے شرم سے تصویریں دوبارہ انویلپ میں ڈال دی اور جلدی سے سب فائلز بھی اندر رکھنے لگی جب اسکے ہاتھ وہ رپورٹ آئی جس پر بڑا بڑا مسٹر شیخ لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ انا نے تجسس کے مارے رپورٹ کھولی تو اسے اسکی زندگی کا دوسرا بڑا جھٹکا لگا تھا
’’یہ۔۔۔یہ؟ ایسا کیسے؟‘‘ انا کو یقین ہی نہیں آرہا تھا
وہ اسکے شوہر کی میڈیکل رپورٹ تھی۔۔۔۔۔ جسکے مطابق رستم مینٹلی طور پر اپسیٹ تھا۔۔۔۔ اور وہ سائکائٹرسٹ سے اپنا علاج بھی کروا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا ہر ماہ ایک سیشن ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔ پچھلے پانچ سالوں سے وہ اس شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی اور اسکی اتنی بڑی حقیقت سے نا آشنا تھی
Dissociative Identity Disorder
انا کو اپنا سر چکراتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں اسے نیچے سے آوازیں آنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ یقیننا وہ زرقہ اور زارون تھے۔۔۔۔۔۔ انا کو اچانک ہی غصہ آیا اور رپورٹ ہاتھ میں لیے تیزی سے نیچے کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔ لاؤنج میں زرقہ اور زارون ہنستے ہوئے انٹر ہوئے تھے۔۔۔۔۔ زارون کے ہاتھ میں بہت سے شاپنگ بیگز تھے۔۔۔ جن میں ڈھیر سارے کھلونے تھے
’’ماما یہ دیکھے پھوپھو نے دیے‘‘ زراون فورا سے انا کے پاس بھاگا جس نے جبرا مسکرا کر اسے دیکھا
’’جانو آپ اپنے کمرے میں جاؤ زرا ٹوائز رکھو ماما کو پھوپھو سے بات کرنی ہے اوکے؟‘‘ انا نے پیار سے بولی
’’اوکے!!‘‘ زارون سر ہلاتا کمرے میں چلا گیا
انا نے زرقہ کو دیکھا جو مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی
’’تمنے ایسا کیوں کیا رزقہ؟” اسنے ہارے لہجے میں پوچھا
’’کیا۔۔۔۔کیا کیا؟” زرقہ کی مسکراہٹ فورا تھمی
’’تم جانتی تھی زرقہ۔۔۔ تم جانتی تھی کہ تمہارا بھائی پاگل ہے۔۔۔۔ وہ سائیکو ہے۔۔۔۔ بیمار ہے۔۔۔۔۔ پھر بھی۔۔۔پھر بھی تم نے مجھے اس جہنم میں دھکیل دیا۔۔۔ مجھے مرنے دیا۔۔۔۔ کیوں زرقہ کیوں؟” وہ چلائی
’’نن۔۔۔نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے” زرقہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا انا کی بات سن کر
’’اچھا مجھے غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ۔۔۔یہ کیا ہے؟” زرقہ کے پیروں میں فائل پھینکتے وہ چلائی
زرقہ نے کانپتے ہاتھوں سے فائل اٹھائی
ــیہ دیکھو زرقہ۔۔۔۔ میڈیکل رپورٹ تمہارے بھائی کی جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ وہ ایک سائیکو ہے۔۔۔ مینٹلی ابنارمل ہے وہ۔۔۔۔ اور تم۔۔۔ تم نے سب کچھ جانتے بوجھتے مجھ سے سچ چھپایا۔۔۔۔ اسکا علاج چل رہا ہے۔۔۔ ایسا لکھا ہے اس رپورٹ میں” اسکی ہچکی بندھ گئی تھی بات کرتے کرتے
’’انا۔۔۔۔” زرقہ نے کچھ بولنا چاہا جب انا نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روک دیا
’’وہ مجھے پرنسز کہتا ہے ۔۔۔۔ کہتا ہے میں ملکہ ہوں۔۔۔ یہ سب کچھ۔۔۔۔ یہ محل یہ آسائشیں سب کچھ میرا ہے۔۔۔۔ مگر دیکھو مجھے کس اینگل سے میں تمہیں پرنسز لگتی ہوں۔۔۔۔ کہاں کی ملکہ ہوں۔۔۔ اس شہر خموشاں کی جہاں کوئی میری فریادیں ۔۔۔ میری بےبسی نہیں سن سکتا۔۔۔۔ میں تو جیتے جی مر گئی ہوں زرقہ اور وجہ ہے تم اور تمہارا وہ پاگل بھائی کیونکہ اسے کھیلنے کے لیے کوئی کھلونا چاہیے اور تم اپنے پیارے بھائی کی ہر خواہش پورا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ تو مجھے قربانی کا بکرا بنا کر پیش کردیا گیا۔۔۔۔۔ میں۔۔۔ میں کہاں ہوں ان سب میں زرقہ۔۔۔۔۔ تم نے کہاں تھا ہم دوست ہیں۔۔۔ دوست ایک دوسرے کے لیے سب کچھ کرتے ہیں۔۔۔ ایک دوسرے کے ہر تکلیف ہر خوشی کے ساتھی ہوتے ہیں۔۔۔۔ مگر تم نے کیا کیا میرے لیے زرقہ۔۔۔۔ مجھے زندہ درگور کردیا تم نے۔۔۔۔ میری زندگی برباد کردی” چہرہ ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔ جبکہ زرقہ نے کرب سے آنکھیں میچ لی۔
’’انا میری جان قسم لے لو میں۔۔۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔۔ یہ سب، یہ سب مجھے نہیں معلوم تھا انا۔۔۔۔۔ سچ میں‘‘ زرقہ انا کے پاؤں میں بیٹھ گئی جو روئے جارہی تھی
’’جھوٹ مت بولوں زرقہ۔۔۔۔۔۔ تم سے۔۔۔۔ تم سے ایسی مید نہیں تھی مجھے‘‘ انا نے بےدردی سے اسکے ہاتھ جھٹکے
’’انا میں قسم کھاتی ہوں مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔۔۔۔ اگر، اگر مجھے کچھ پتہ ہوتا تو میں کبھی بھی تمہیں بھاگ جانے کا مشورہ نہیں دیتی۔۔۔۔ تمہیں کبھی نہیں کہتی کہ چھوڑ دوں میرے بھائی کو۔۔۔۔ میں سچ میں کچھ نہیں جانتی انا۔۔۔۔۔ ہاں وہ غصے کے تیز ہے مگر یہ سب۔۔۔‘‘
’’غصے کا تیز؟‘‘ انا استہزایہ انداز میں ہنسی
’’وہ غصے کا تیز نہیں سائیکو ہے وہ۔۔۔ پاگل ہے۔۔۔۔۔۔۔ پانچ سال۔۔۔۔ اپنی زندگی کے پانچ سال میں نے ایک ایسے شخص کے ساتھ گزار دیے۔۔۔۔ تم نے کیوں کیا ایسا زرقہ؟‘‘ جب کہ زرقہ کا سر تیزی سے نفی میں ہلا
’’زرقہ بےقصور ہے انا وہ کچھ نہیں جانتی‘‘ زرقہ کی طرف آتے وجدان نے زرقہ کے ہاتھ سے فائل لی اور ٹیبل پر رکھ دی
’’رستم کی اس بیماری کے بارے میں صرف دو لوگ جانتے ہیں۔۔۔ ایک میں اور ایک بہادر خان۔۔۔۔ اسکی اپنی فیملی کو بھی کچھ نہیں معلوم‘‘ وجدان سہولت سے بولا تو انا اور زرقہ دونوں دنگ رہ گئی
’’تمہیں معلوم تھا؟‘‘ زرقہ نے پوچھا تو وجدان نے شرمندگی سے سر اثبات میں ہلادیا
’’کیسے؟‘‘ انا صرف اتنا پوچھ سکی
’’بیٹھ کر بات کرے‘‘ وجدان بولا تو زرقہ انا کے برابر میں ہی بیٹھ گئی
’’بولو‘‘ انا کا لہجہ نا چاہتے ہوئے بھی سخت ہوگیا
“Rustam!! He is a patient of dissociative identity disorder…. Generally known as multiple personality disorder”
وجدان آنکھیں نیچی کیے بولا
“multiple personality disorder?”
زرقہ نے حیرت سے پوچھا
’’ہاں۔۔۔۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں ایک انسان میں دو شخصیات پائی جاتی ایک اصل اور دوسری خود کی بنائی گی۔۔۔۔۔ ایسا سمجھ لو ایک انسان کے اندر دو لوگ۔۔۔۔ ایک جو وہ خود ہے اور دوسرا جو اس نے خود بنایا ہے۔۔۔۔۔ جسے ہم تصور بھی کہتے ہیں‘‘ وجدان سر اثبات میں ہلائے بولا
’’کیسے آئی مین کہ میں بھائی کے ساتھ اتنے سالوں سے۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ایسا محسوس ہی نہیں ہوا‘‘ زرقہ ابھی تک حیران تھی
’’رر۔۔۔رستم کو یہ بیماری کب سے ہے؟‘‘ انا نے پوچھا
’’بچپن سے‘‘ ایک اور بمب پھوٹا تھا ان دونوں پر
’’بچپن سے؟‘‘ زرقہ کو یقین نہیں آیا
’’مگر کیسے میرا مطلب کہ وہ بلکل ٹھیک تھے تو کیسے؟‘‘
’’وجہ تمہارے ڈیڈ ہے زرقہ۔۔۔۔۔۔۔ عموما اس بیماری کا شکار وہ بچے ہوتے ہیں جو جسمانی یا دوسری قسم کی اذیت یا مار پیٹ کا شکار ہوں۔۔۔۔۔ جو اکیلے رہتے ہوں وہ بچے اسکا شکار ہوتے ہیں‘‘
’’مگر رستم کیسے؟‘‘ انا نے پوچھا
’’رستم کے ڈیڈ نوید شیخ ایک عام سے بزنس مین تھے ان دونوں وہ اپنے بزنس کو پھیلانے کی تگ و دو میں تھے جب ان کی ملاقات رستم کی مام میرا آنٹی سے ہوئی۔۔۔۔ میرا آنٹی کے ڈٰیڈ اپنے دور کے بہت بڑے بزنس مین تھے اور میرا آنٹی انکی اکلوتی اولاد تھی۔۔۔۔۔۔۔ نوید انکل کو میرا آنٹی سے محبت ہوگئی تھی اور بہت جلد میرا آنٹی بھی ان کو لیکر جذبات محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔۔۔ میرا آنٹی کے ڈیڈ کو نوید انکل نہیں پسند تھے۔۔۔۔۔ مگر میرا آنٹی کی ضد کے آگے انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی نوید انکل سے کروا دی۔۔۔۔۔۔ میرا آنٹی نوید انکل کے اشاروں پر چلتی تھی۔۔۔۔۔۔ رستم دو سال کا تھا جب میرا آنٹی کے ڈیڈ کی ڈیتھ ہوگئی۔۔۔۔۔۔ پاور آف آٹرنی میرا آنٹی کے پاس تھی۔۔۔۔۔۔ انکی اس کنڈیشن کا فائدہ اٹھاتے نوید انکل نے پاور آف آٹرنی اپنے نام کروا لی اور آہستہ آہستہ سارا بزنس ان کے انڈر آگیا تھا۔۔۔۔۔۔ میرا آنٹی بس گھر کی ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔۔ ایسے میں ایک دن وہ جب لنچ کے لیے ایک ہوٹل گئی تو انہوں نے نوید انکل کو کسی اور لڑکی کے ساتھ ایک روم میں جاتے دیکھا۔۔۔۔۔۔ بس وہی سے یہ سارا سلسلہ شروع ہوا۔۔۔۔۔۔۔ جب انہوں نے نوید انکل کو چھوڑنے کی دھمکی دی تو انہوں نے میرا آنٹی کو مار پیٹ کر گھر میں قید کردیا اور خود کبھی کسی تو کبھی کسی لڑکی کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتے۔۔۔۔۔۔ نوید انکل کو میرا آنٹی سے اب کوئی سروکار نہیں تھا کیونکہ ساری جائیداد ان کے نام ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر میرا آنٹی کے کانٹیکٹس ان کی نسبت ابھی بھی بزنس کی دنیا میں زیادہ مضبوط تھے۔۔۔۔۔۔۔ میرا آنٹی نوید انکل کی بےوفائی کو برداشت نہیں کرپائی اور وہ دماغی طور پر ابنارمل ہونا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ ان کی حرکتیں دیکھتے ہوئے انکل نے انہیں اور رستم کو لندن بھیج دیا تھا۔۔۔۔۔ انکل کی بےوفائی کا غصہ انہوں نے رستم پر نکالنا شروع کردیا۔۔۔۔ وہ رستم کو مارتی پیٹتی۔۔۔۔۔ کبھی اسکو جلا دیتی تو کبھی چاقو سے اسکے جسم پر زخم دیتی۔۔۔۔ وہ بیلٹ ہنٹر ہر چیز سے رستم کو تکلیف دیتی تھی۔۔۔۔۔ رستم صرف چھ سال کا تھا اس وقت۔۔۔۔۔ آنٹی کی ایسی حالت کے پیش نظر انہیں وہی لندن میں مینٹل ہسپتال ایڈمیٹ کروا دیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ رستم میں نوید انکل کو دیکھتی اور اسے مارتی پیٹتی تھی۔۔۔۔۔۔ میں رستم کی چیخیں سنتا تھا انا۔۔۔۔۔ ہمارے گھر ساتھ ساتھ تھے۔۔۔۔۔ مگر میرے ڈیڈ نے مجھے ہمیشہ روک دیا۔۔۔۔۔ وہ کسی اور کی لائف میں انٹرفئیر نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔ میرا آنٹی رستم کو کئی کئی دنوں تک بھوکا رکھتی۔۔۔۔۔۔ اسے ہنٹر، بیلٹ ہر چیز سے مارتی۔۔۔۔۔۔ وہ کئی کئی دن اپنے کمرے میں بند رہتا۔۔۔۔۔۔۔ اسکا کوئی دوست نہیں تھا۔۔۔۔۔ میں نے دیکھے تھے اس کے جسم پر زخم انا۔۔۔۔۔۔ وہ سکول آتا تو سب سے دور رہتا، مگر آہستہ آہستہ رستم بدلنے لگا وہ سکول کے بچوں کو مارتا پیٹتا سب بچے رستم سے دور ہوگئے یہاں تک کہ میں بھی جب ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’رستم۔۔۔۔۔رستم۔۔۔‘‘ وہ بیڈ پر منہ گھٹنوں میں چھپائے رو رہا تھا جب اسے کسی نے پکارا
’’کک۔۔۔۔۔کون؟‘‘ سات سال کے رستم نے حیرت سے سر اٹھائے پوچھا
’’ارے بےوقوف میں تمہارا دوست‘‘ وہ آواز اسکے اندر سے بولی
’’میرا دوست؟ مگر۔۔۔۔ مگر تم کہاں ہوں؟‘‘ رستم نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا
’’میں؟ ایسا کروں آئینے کے سامنے آؤ‘‘ وہ آواز بولی تو رستم اٹھ کر آئینے کے سامنے جاکھڑا ہوا، جہاں وہ اپنا عکس دیکھ رہا تھا
’’تم کہاں ہوں؟‘‘ رستم نے حیرت سے پوچھا
’’ارے بےوقوف تمہارے سامنے ہی تو ہوں میں‘‘ وہ آواز پھر سے بولی
’’مگر یہ تو میں ہوں؟‘‘ رستم نے حیرت سے خود کے عکس کو آئینے میں چھوا
’’نہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ تم نہیں۔۔۔۔۔ یہ میں ہوں۔۔۔۔ تمہارا دوست۔۔۔۔۔ مگر تم میرے بارے میں کسی کو بتانا مت۔۔۔سمجھے‘‘ وہ آواز پھر سے بولی
’’کیوں۔۔۔۔ کیوں نہیں بتاؤں؟‘‘ رستم حیران ہوا
’’ارے اگر کسی کو پتہ چل گیا تو وہ تمہیں مجھے سے کھیلنے یا بات کرنے نہیں دے گے نا‘‘ وہ آواز پھر سے بولی تو رستم نے سمجھ کر سر اثبات میں ہلادیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی مزید چھ، سات سال گزر گئے۔۔۔۔۔ نوید شیخ نے اب بزنس کی دنیا میں اپنی اچھی پہچان بنا لی تھی اور میرا شیخ کو سب بھول چکے تھے۔۔۔۔۔۔ نوید شیخ ایک انتہائی عیاش انسان تھا جو نجانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ غلط کام کرنے میں بھی ملوث تھا۔۔۔۔ مگر دنیا کی نظر میں وہ ایک شریف انسان تھا جو اپنی بیوی اور بیٹے سے بےانتہا محبت کرتا تھا
اگر کوئی کبھی کبھار ان سے میرا کا پوچھ بھی لیتا تو وہ یہی جواب دیتا کہ وہ لندن میں سیٹل ہے۔۔۔۔ نوید شیخ کو رستم یا میرا سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔۔۔۔ وہ گھر بھی کم ہی جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔ میرا کا علاج اب گھر پر ہورہا تھا وہ مینٹل ہوسپٹل سے ڈسچارج ہوگئی تھی یا پھر کروا لی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ نوید شیخ نہیں چاہتے تھے کہ کسی کو بھی زرا شک ہوں۔۔۔ انہوں نے میرا آنٹی کو نوکروں کے حوالے کردیا تھا۔۔۔۔۔ رستم سے کوئی سروکار نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ رستم اپنی ماں کے پاگل پن کی وجہ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔ رستم میرا کے اتنے ظلم کے باوجود بھی ان سے نفرت نہیں کر پایا کیونکہ اب وہ بڑا ہورہا تھا اسے وجہ سمجھ میں آنے لگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
’’رستم۔۔۔۔۔ رستم کہاں ہوں؟‘‘ وجدان نے گھر داخل ہوکر اونچی آواز پوچھا۔۔۔۔ مگر جواب نہیں آیا
وجدان کو رستم کے کمرے سے کچھ آوازیں آرہی تھی۔۔۔۔ وجدان کو حیرت ہوئی اور وہ قدم اٹھاتا اسکے کمرے کی جانب بڑھا جب اسے رستم کسی کے ساتھ بات کرتے سنائی دیا
’’رستم کس سے بات کررہے ہوں؟‘‘ وجدان نے حیرت سے اندر داخل ہوتے پوچھا جبکہ ہنستا ہوں رستم ایک دم رکا اور غصے سے وجدان کو گھورا جو ارد گرد دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ رستم کے بدلتے رنگ نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔۔۔۔ ہوش تو تب آئی جب رستم نے واز اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا
’’آہ!!!‘‘ وجدان چلایا تو ایک دم رستم کے چہرے پر درد کے تاثرات ابھرے اور وہ جلدی سے وجدان کے پاس بھاگا
’’وجی۔۔۔۔۔۔۔ وجی تم ٹھیک تو ہوں نا؟‘‘ رستم نے پوچھا
’’آہ رستم یہ کیا تھا؟‘‘
’’وہ میرا دوست۔۔۔۔۔۔۔ اسے پسند نہیں کہ کوئی ہمیں ڈسٹرب کرے جب وہ میرے ساتھ ہوں‘‘ رستم شرمندہ سا بولا
’’تمہارا دوست؟ مگر کون؟ مجھے تو یہاں کوئی نظر نہیں آرہا؟‘‘ وجدان حیرت زدہ بولا
’’وہ۔۔۔۔وہ کسی کو نظر نہیں آتا‘‘ رستم کا سر زور سے نفی میں ہلا
’’ہے؟؟ یہ کیا بول رہے ہوں۔۔۔۔۔۔ کہی وہ ببب۔۔۔۔۔بھوت تو نہیں؟ رستم تم پر بھوت آگیا ہے‘‘ وجدان ڈر کر پیچھے ہٹا۔۔۔۔۔۔ اسکی اس حرکت نے رستم کو تکلیف دی تھی
’’ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ آؤ میں تمہیں اس سے ملواؤ‘‘ وجدان کی چوٹ پر رومال رکھے وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر لایا اور اسے شیشے کے سامنے کھڑا کردیا
’’یہ دیکھو یہ ہے میرا دوست‘‘ رستم نے شیشے کی جانب اشارہ کیا
’’مگر رستم یہ تو صرف تم اور میں ہوں‘‘ وجدان مزید پریشان ہوا
’’اور میں بھی۔۔۔۔۔۔‘‘ اچانک رستم کے بولنے کا انداز بدلا اور اب نرم چہرے کی جگہ ایک سخت چہرہ تھا۔۔۔۔۔ جبکہ ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ
’’رر۔۔۔۔رستم‘‘ وجدان ڈر کر پیچھے ہٹا
’’آئیندہ رستم سے دور رہنا ورنہ اچھا نہیں ہوگا‘‘ رستم پراسرار سا بولا تو وجدان کی حالت مزید خراب ہوگئی اور وہ رستم کو دھکا دیے خود وہاں سے بھاگ گیا
اس دن کے بعد سے وجدان اور رستم میں جو تھوڑی بہت دوستی تھی وہ بھی ختم ہوگئی تھی
بعد میں وجدان نے سائیکولوجی میں اس بیماری کے بارے میں پڑھا تو اس پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ رستم پر کوئی بھوت ووت نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک وکٹم ہے اس بیماری کا جو انسان کو پاگل بنادیتی ہے
انہیں دنوں نوید شیخ اچانک لندن آئے تھے۔۔۔۔۔ رستم اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار تھا۔۔۔۔ وہ اپنے بااپ کی رگ رگ سے واقف ہوچکا تھا اسی لیے وہ ان کے آنے پر حیران ہوا۔۔۔۔۔۔ نوید شیخ کی ایک ڈیل جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ انہیں نہیں مل سکی کیونکہ بزنس رائیول کے بیٹے نے نئے آئیڈیا دیے تھے جب ایک بزنس فرینڈ نے ہنسس کر انہیں کہاں کہ وہ رستم کو تیار کرے تاکہ وہ بھی ان کے بزنس کو آگے پھیلا سکے۔۔۔۔۔۔ اور پھر نوید شیخ کو انہیں دنوں مائنر ہارٹ اٹیک بھی آیا تھا۔۔۔۔ اسی لیے انہیں رستم یاد آگیا ۔۔۔۔۔ انہوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ اب رستم کو استعمال کرے گے۔۔۔۔۔۔ مگر یہاں رستم نے انہیں کوئی لفٹ نہیں کروائی تھی۔۔۔۔۔ آج تک کوئی ان کے خلاف نہیں گیا تھا اور یہ چھوٹا سا بچہ!!۔۔۔۔۔۔ انکا دماغ گھومنے لگا۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے نوٹ کیا تھا کہ رستم کو اپنی ماں سے کتنی محبت ہے اور اسی چیز کا استعمال کرتے انہوں نے رستم کو بلیک میل کیا تھا کہ وہ انکی بات مانے نہیں تو وہ میرا کو مار ڈالے گے۔۔۔۔ رستم تب کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا اسی لیے چپ چاپ انکی بات مان گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ نوید شیخ نے فتح کے نشے میں چور رستم کا ایڈمیشن ایک بورڈنگ سکول میں کروا دیا تھا اور وہاں اسکے پل پل کی خبر رکھنے کو اسکے ساتھ بہادر خان کو بھیج دیا تھا جنہیں وہ رستم کے لیے اپنے ساتھ پاکستان سے ٹرین کروا کر لائے تھے۔۔۔۔۔۔۔ بہادر خان اس وقت سولہ سال کا تھا جبکہ رستم بارہ سال کا۔۔۔۔۔۔۔ وجدان اور رستم میں بات چیت بلکل ختم تھی رستم کو یہ باتیں تکلیف دیتی تھی۔۔۔۔۔ مگر اس کے اندر موجود رستم نے وقت کے ساتھ ساتھ اسے سکھایا کہ اسے کسی کے سامنے جھکنا نہیں بلکہ سب کو جھکانا ہے اپنے آگے۔۔۔۔۔۔۔۔ رستم تین سال بعد گھر واپس آیا تھا اسکے میٹرک کے امتحانات ختم ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ مگر اسے گھر میں کچھ غیر معمولی سے حرکات ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ بہادر خان جسے نوید شیخ نے اپنے لیے بھیجا تو وہ رستم کا ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔ تین سالوں میں رستم میں بہت فرق آگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھیں ہر وقت سرد رہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہی سے بھی پندرہ سال کا نہیں لگتا تھا۔۔۔۔۔۔ ایک دن رستم جب رات کو سونے کو لیٹا تو اسے کچھ آوازیں آئی۔۔۔۔۔ وہ آوازوں کا پیچھا کرتے اپنی ماں کے کمرے کے باہر پہنچا اور تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھا تو اسکی آنکھیں سرخ ہوگئی۔۔۔۔۔۔ کمرے میں موجود اسکی ماں کی عزت لوٹ رہی تھی جبکہ اسکا باپ مزے سے وہسکی کی چسکیاں لیتا وہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اور پھر رستم پر یہ بات آشکار ہوئی کہ اسکا باپ اسکی ماں کو اپنے دوستوں کے آگے پیش کررہا تھا۔۔۔۔۔ وہ میرا جسکو ایک وقت تھا جب دنیا حاصل کرنا چاہتی تھی اب وہ صرف دل بہلانے کو رہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک جھٹکا رستم کے لیے کافی نہیں تھا جب اسے معلوم چلا کہ اس کے باپ کی دو تین ناجائز اولادیں بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ غازان اور زرقہ بھی ان میں سے ایک تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نا صرف یہ بلکہ نوید شیخ غلط کاموں میں بھی ملوث تھے جن کے بابت رستم سب کچھ جان چکا تھا ۔۔۔۔۔رستم کو معلوم ہوا کہ ہمدہ لندن میں پڑھنے آئی تھی جب نوید شیخ کے جھانسے میں پھنس گئی اور اب بدنامی کے ڈر سے وہ واپس نہیں جارہی تھی۔۔۔۔۔ رستم ان سے ملا اور انہیں آئیڈیا دیا کہ وہ نوید شیخ سے کہے وہ ان سے شادی کرلے نہیں تو وہ میڈیا میں انکی اور زرقہ کی میڈیکل رپورٹ دے دے گی۔۔۔۔۔ ہمدہ بیگم نے رستم کے کہنے پر سب کیا اور آخر کار انکا مقام مل گیا تھا۔۔۔۔۔ رستم کی چھٹیاں ختم ہونے کو تھی وہ واپس جارہا تھا مگر جانے سے پہلے اسے ایک اہم کام کرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔ آج وہ واپس جارہا تھا جب وہ میرا کے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔۔۔۔ وہ غور سے اس عورت کو دیکھنے لگا جو ایک دور میں ڈریم گرل تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ضروری نہیں کہ خوبصورت چہروں کی قسمت کی خوبصورت ہوں۔۔۔۔۔
’’آپ نے بہت تکالیف برداشت کی ہے مگر اور نہیں۔۔۔۔۔۔ بس۔۔۔۔۔۔۔ اب میں آپ کو آزاد کرنے والا ہوں‘‘ اور ساتھ ہی رستم نے انکے منہ پر تکیہ رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔ آنسوؤں آنکھوں سے بہہ کر تکیہ بھیگو رہے تھے مگر رستم نہیں رکا وہ اس وقت اپنی ماں کے لیے صرف یہی کرسکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ بہت جلد میرا کے جسم میں ہلچل ہونا بند ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ رستم نے تکیہ اٹھا کر سائڈ پر رکھا اور دروازے کی جانب دیکھا جہاں ہمدہ بیگم خوف سے اسے دیکھ رہی تھی
’’اپنی ماں کی عزت کو مزید داغدار ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا اسی لیے یہ ضروری تھی‘‘ ہمدہ بیگم کو جواب دیے وہ باہر نکل گیا
بہادر خان بھی رستم کے ساتھ ساتھ رہ کر اس بیماری کے بارے میں جان چکا تھا۔۔۔۔۔ وجدان اور رستم کی دوبارہ ملاقات کالج میں ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہی انہیں کاشان اور غازان بھی ملے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ رستم اپنی بیماری کو بہت جلد پہچان گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں یہ بیماری ہوتی ہے اور ان کے اندر موجود دوسرا انسان جو کچھ بھی کرے وہ اس سے انجان ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ لوگ ایسے جو اس بیماری سے آشنا ہوجاتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر موجود وہ دوسرا انسان جو کہ وہ خود ہی ہوتے ہیں وہ کیا کررہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ رستم بھی جانتا تھا کہ وہ کیا کررہا ہے مگر کبھی کبھار اسکی وہ سوچ اس پر اس قدر حاوی ہوجاتی کہ وہ اس پر قابو نہیں پاسکتا۔۔۔۔۔۔ رستم نے اپنا علاج بھی شروع کروا دیا تھا مگر اب دیر ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکی سوچ اس پر حاوی ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ بہت بار ایسا ہوتا کہ رستم وہ کام نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اسکے بس میں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ رستم میں موجود وہ رستم اسے اکساتا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو صرف رستم کی سوچ تھی۔۔۔۔ ایک فرضی کردار اب وہ حقیقی رستم کو اپنے اشارے پر نچاتا جو رستم خود ہوتا مگر وہ کچھ نہیں کرپاتا۔۔۔۔۔۔۔۔ رستم میں اب طاقت کا نشہ پیدا ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ ہر انسان کو خود سے نیچے دیکھتا پھر چاہے وہ جو مرضی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ سب اسکی وہ سوچ کرواتی تھی اس سے۔۔۔۔۔۔ پہلے پہل تو رستم شرمندہ ہوتا مگر بعد میں اس نے شرمندہ ہونا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔ اسکی اندر کی اس آواز نے اسے اپنے قابو میں کرلیا تھا جیسے کسی کو ہپنوٹائز کیا جاتا ہے ویسے ہی
وجدان نے سب کچھ بتایا اور انا اور زرقہ کو دیکھا جو دونوں حیران کن نظروں سے اسے دیکھ رہیں تھی۔۔۔۔۔
’’تو اسی لیے۔۔۔۔۔ اسی لیے ایسا ہوتا تھا؟‘‘ انا سن سی بولی
’’کیا مطلب کیا ہوتا تھا؟‘‘ زرقہ اور وجدان نے ساتھ پوچھا
’’بہت بار۔۔۔۔ میں نے۔۔۔۔ میں رستم کو کسی سے بات کرتے سنتی مگر وہ۔۔۔۔۔۔ وہ کہتا کہ وہ موبائل پر بات کررہا تھا۔۔۔۔ حالانکہ مجھے یقین نہیں آتا۔۔۔۔۔۔ یا میرے خدایا‘‘ انا نے سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا
’’ایم سوری انا مجھے نہیں معلوم تمہارے اور رستم کے درمیان کے تعلقات کیسے ہیں۔۔۔۔۔ میں یہی سمجھتا رہا کہ شائد اس نے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہوگا‘‘وجدان شرمندہ سا بولا
’’تم جانتے بھی ہوں میں کس اذیت سے گزری ہوں۔۔۔۔۔ کیسی کیسی تکلیفیں برداشت کی ہے میں نے‘‘ انا چلائی تو وجدان کا سر مزید جھک گیا
انا کو اپنا ماضی یاد آنے لگا۔۔۔۔۔ بیتے پل یاد آنے لگے اسے۔۔۔۔۔ مگر انا کو اب سب کچھ سمجھ آرہا تھا
وہ رستم جس نے اسے شادی کے لیے پرپوز کیا تھا وہ حقیقی وجود تھا۔۔۔۔۔۔ جبکہ وہ سب کچھ جو اس نے انا کے ساتھ کیا تھا وہ اسکے اندر کی آواز تھی۔۔۔۔۔۔ رستم جب جب انا نے کے ساتھ کچھ برا کرتا تھا اسے معلوم تھا کہ وہ غلط کررہا ہے مگر اسکے اندر کی آواز اس پر حاوی ہوجاتی ۔۔۔۔۔۔ اسے اکساتی۔۔۔۔۔ یوں جیسے وہ اس کے قابو میں ہوں۔۔۔۔۔۔
رستم وہ نہیں تھا جس نے انا کی عزت کو داغدار کیا۔۔۔۔۔۔۔ رستم وہ تھا جس نے انا کو شادی کے لیے پرپوز کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ رستم وہ نہیں تھا جس نے انا کو پریگنینسی کے اتنے مہینے تکلیف میں رکھا ۔۔۔۔۔ رستم وہ تھا جس نے انا سے ایک موقع مانگا تھا اس رشتے کو لیکر۔۔۔۔۔۔ رستم وہ نہیں تھا جو انا پر اپنی حاکمیت جماتا اصل رستم تو وہ تھا جو تب رویا تھا جب انا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی جب اسے گولی لگی۔۔۔۔۔۔ انا کو محبت دیکر اسے خود حاوی نا ہونے دینا اور تکیلف دیکر خود کے نیچے رکھنے والا رستم نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ رستم کی بیماری اب ایک لاعلاج مرض بنتی جارہی تھی۔۔۔۔۔۔ پہلے پہل تو میڈیسن لیکر وہ چھٹکارا پالیتا مگر اب بیماری اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ دوائیاں بھی اثر نہیں کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ رستم کے بس میں اب کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ اصل رستم اپنی پہچان کھوتا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
انا کا رو رو کر برا حال ہوچکا تھا
’’انا تم ٹھیک ہوں؟‘‘ زرقہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے پوچھا
’’میں ۔۔۔۔۔ میں ٹھیک نہیں ہوں زرقہ۔۔۔۔۔۔۔ میں بھلا کیسے ٹھیک ہوسکتی ہوں؟ آج۔۔۔۔۔۔۔ آج ڈاکٹر کے پاس گئی تھی زرقہ۔۔۔۔۔۔ آئی ایم پریگنینٹ زرقہ۔۔۔۔۔۔ میں، میں یہ بچہ نہیں چاہتی زرقہ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے زارون کو ہمیشہ رستم سے دور رکھنے کے لیے خود سے دور رکھا اور اب یہ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ، میں کیا کروں زرقہ‘‘ زرقہ کے گلے لگے وہ شدت سے رو دی تھی۔۔۔۔۔۔۔ زرقہ نے افسوس سے اسے دیکھا
’’تم ابھی بھی بہت کچھ کرسکتی ہوں انا‘‘ وجدان بولا تو انا نے اسے حیرانگی سے دیکھا
’’میں کیا؟‘‘ انا حیران ہوئی
’’رستم انا۔۔۔۔۔۔ اسے تم ہی واپس لاسکتی ہوں۔۔۔۔۔۔ جانتی ہوں جو رستم اصل تھا نا وہ تو بلی کے بچے کو بھی بھوکا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔۔ اسے محبت دوں ، وقت دوں۔۔۔۔۔۔۔ وہ کام جو پچھلے چار سالوں سے مجبوری کے تحت کررہی تھی اب وہ دل سے کروں۔۔۔۔۔ انا رستم کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے محبت ، وقت اور بھروسہ۔۔۔۔۔۔ یہ تینوں چیزیں اسے نہیں ملی۔۔۔۔۔۔ اسے دوں یہ سب انا۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز‘‘
’’میں چار سالوں سے یہ سب کررہی تھی‘‘ انا دکھ سے بولی
’’کیا واقعی میں؟‘‘ وجدان نے سوال کیا اور بنا جواب وہاں سے چلا گیا
انا نے سوچا کہ واقعی اس نے یہ سب کیا تھا اور جواب تھا نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ تو صرف رستم کا ایک ٹوائے بن کررہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ رستم کی بیوی تھی اس کی رکھیل نہیں۔۔۔۔۔۔ اسے رستم کے ساتھ چلنا تھا، اسکے پیچھے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں ایک موقع دوں گی اس رشتے کو۔۔۔۔۔۔۔ اب کی بار میں موقع دینا چاہوں گی اسے‘‘ انا نے ایک فیصلہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
وجدان رکا اور مڑ کر مسکرا کر اسے دیکھا
’’بیسٹ آف لک!!‘‘ اسے تھمبز اپ کا اشارہ کرتے وہ دروازہ عبور کرگیا تھا۔۔
’’انا۔۔۔۔۔ ایک سوال کروں؟‘‘ زرقہ نے انگلیاں چٹخاتے پوچھا
’’ہاں!!‘‘ انا نے اجازت دی
’’وہ تمہارا کیا مطلب تھا اس تکلیف سے جو تمہیں بھائی نے دی تھی زراون کی وفع؟‘‘ زرقہ نے پوچھا تو انا نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے کمرے میں لے آئی اور بیڈ پر اسکی طرف پیٹھ کرکے بیٹھ گئی
’’تم خود دیکھ لو‘‘ انا بولی تو زرقہ نے اسکی قمیض اوپر اٹھائی تو حیران رہ گئی۔۔۔۔۔۔ وہ رستم کے نام کا زخم تھا
’’انا یہ؟‘‘
’’تم مجھسے پوچھتی تھی نا کہ میں ہمیشہ پارٹی میں بال کیوں کھلے چھوڑتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ بیک لیس کی وجہ سے یہ نشان نہیں چھپ پاتا اسی لیے‘‘ انا نے آنکھیں جھکائے جواب دیا
’’اور بھیا تمہیں اس نشان کے ساتھ بیک لیس پہننے کو کہتے؟‘‘
’’ہاں کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ سب کو معلوم ہوجائے انا اسکی ہے‘‘ انا نے سانس کھینچتے جواب دیا
’’انا پہلے بھی کہاں تھا اب بھی کہوں گی۔۔۔۔ اپنی زندگی برباد مت کروں ۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ دوں بھائی کو۔۔۔۔۔۔۔ تم کیوں خود کے ساتھ ظلم کررہی ہوں؟‘‘ زرقہ نے انا کے دونوں ہاتھ تھامے
’’لاسٹ ٹائم بھاگی نہیں تھی مگر رستم کو لگا بھاگ گئی ہوں تو مجھے یہ سزا دی۔۔۔۔۔ اب کی بار سچ میں بھاگ گئی تو؟۔۔۔۔۔۔ وہ شخص بہت ظالم ہے زرقہ۔۔۔۔۔ میں نے اسکے ظلم کی انتہا دیکھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس بار کوئی غلطی کی تو وہ مجھے نا زندوں میں چھوڑے گا اور نا ہی مردوں میں‘‘ انا بولی تو زرقہ کو خود پر غصہ آیا
’’انا مجھے معاف کردوں یہ سب میری وجہ سے ہوا۔۔۔۔۔۔۔ نا تو میں تمہیں بھائی سے ملواتی اور نا ہی یہ سب کچھ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری انا‘‘
’’جو ہوگیا اسے بھول جاؤ زرقہ۔۔۔۔۔۔ گزرا وقت واپس نہیں آئے گا۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں اب کی بار دل سے اس رشتے کو ایک موقع دینا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس شخص کے ہاتھ نجانے کتنے معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں اسے ایک موقع دینا چاہتی ہوں۔۔۔۔ میں ایک بار اس رستم سے ملنا چاہتی ہوں اسے دیکھنا چاہتی ہوں جو وجدان کے مطابق دوسروں کی پرواہ کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ جسے دوسروں کے، دکھ درد اور تکلیف کا احساس تھا۔۔۔۔ صرف ایک بار زرقہ‘‘ انا بولی تو زرقہ نے اسے زور سے گلے لگا لیا
’’اللہ تمہیں کامیاب کرے انا‘‘ زرقہ نے دعا دی
’’آمین!!‘‘ انا کا دل بولا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...