ستیہ پال آنند(کینڈا)
دگر از اعینی راہ و قربِ کعبہ چہ؟
مرا کہ ناقہ زرفتار ماند و پاخفتست
(غالبؔ)*
رات بھر برف گرتی رہی ہر طرف
میں کہ بیمار تھا
بار بستر تھا اس گھر کے اندر ،جہاں
روشنی تھی ابھی،کچھ حرارت بھی تھی
ایک مدھم سی لو ٹمٹماتی ہوئی
جل رہی تھی کہیں جسم کے غار میں
اور باہر سے یلغار کرتی ہوئی
جسم کی کھڑکیاں کھٹکھٹاتی ہوئی
برف تھی،موت تھی!
فون کی بَیل بجی
دوسری سمت ،دنیاکی الٹی طرف
ممبئی شہر میں
دوستی خیر خواہی کامارا ہوا
ایک شاعر تھا،گلزارؔشیریں بیاں
پیار سے رکھ رکھاؤ سے اس نے کہا
’’اس علالت سے گھبرائیے گا نہیں!
آپ شاعر ہیں فن میں اماں ڈھونڈئیے
از سر نو بحالی کی خاطر ،میاں
شاعری کی ہی مالا جپیں ہر گھڑی
رات دن بس یہی ورد کرتے رہیں
شاعری ،شاعری،شاعری،شاعری!!‘‘
بات کرنے کی ہمت نہیں تھی ،مگر
کھڑکیوں میں سے یلغار کرتی ہوئی
برف کی سمت دیکھا،کہا، مہرباں
شعر سنئے اسدؔاللہ خاں کا ،کہ یہ
ترجمانی کرے گا مِرے حال کی
شعر پڑھ کر سنایا تحمل سے،اور
فون کو ساتھ کے میز پر رکھ دیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*اب مجھے راستے کے تحفظ اور کعبہ کے قریب پہنچ جانے کا کیا فائدہ؟جبکہ تھکاوٹ سے میری اونٹنی کی رفتار بھی ماند پڑ چکی ہے اور میرا پاؤں بھی سو گیا ہے۔(آزاد ترجمہ)