“بھیّا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو ای بکری گابھن ہے جانو ”
“ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “داد نے حقّہ کی منال منھ سے لگا کر اک لمبا کش لیا۔
“ای کا چرائے کھا تر لے جائی کہ ناہی۔ ۔ ۔ ۔ ”
“لے جا ؤ لے جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ اچھّا ہے کچھ گھانس پتّے کھائے گی، نہر کا تازہ پانی پئیے گی تو جان آئے گی نا۔ ۔ ۔ ابھی تو کچھ دن لگیں گے ؟جب دن قریب ہوں تو چھوڑ جا نا باڑے میں۔ ۔ ۔ “انھوں نے پیر تخت سے نیچے لٹکائے تو غفور نے جلدی سے ان کے جوتے پیر کے پاس کر دئیے۔ اور بکریوں کو ہنکا تا ہوا با ہر نکل گیا۔
اس نے دالان کے کونے میں کھڑے ہو کر ساری بات سنی۔ ابھی ابھی اسکول سے واپس آیا تھا کپڑے بھی نہیں بدلے تھے بھاگ کر دادا سے لپٹ گیا۔ ۔ ۔
“دادا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کھیلوں گا ان بچوّں سے۔ ۔ ۔ ۔ کب آئیں گے بکری کے بچّے ؟”
“آ جائیں گے آ جائیں گے۔ ۔ ۔ چلئیے پہلے کپڑے بدلئے کھا نا وغیرہ۔ ۔ ۔ چلئیے اندر آپ کی امی ّانتظار کر تی ہوں گی۔ ۔ ”
وہ دوڑتا ہوا اندر چلا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب سے جاوید کے ابّا محاذ پر گئے تھے وہ دادا سے زیادہ قریب ہو گیا تھا۔ رات کو ان سے بغیر کہانیاں سنے اسے نیند بھی نہیں آتی تھی۔ ۔ ۔ وقت گزرتا چلا جا رہا تھا ایک رات کھانے کے بعد وہ دادا کے پاس کہانی سن رہا تھا۔
“ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ ۔ خدا کا بنا یا رسول بادشاہ۔ ۔ ۔ ” وہ کہانی اسی طرح شروع کرتے تھے۔ ۔
“کسی شہر میں ایک بادشاہ رہا کرتا تھا اس کی سات بیٹیاں تھیں وہ ان سب سے بہت محبّت کرتا تھا۔ ایک بار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
“بھیّا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بکری بیانی ہے۔ ۔ ۔ (بکری نے بچّے دیے ہیں ) باہر ڈیوڑھی سے غفور کی گھبرائی ہوئی سی آواز آئی ” دادا نے مڑ کر اس کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں کی طرف دیکھا اور آواز آہستہ کر کے بولے “ہاں ہاں تو ٹھیک ہے پانی گرم کر کے نہلا دو انھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
“بھیّا جرا دوارے تو آئیے۔ ۔ ۔ ۔ دیکھئے تو۔ ۔ ۔ ۔ ” غفور کی آواز کپکپا رہی تھی۔ دادا کچھ حیران ہو کر باہر نکل گئے تب اس نے رضائی اپنے پیروں سے ہٹائی اور آہستہ قدموں سے پلنگ سے اتر کر دالان میں جھانکنے لگا
غفور آہستہ آہستہ کچھ بات کر رہا تھا اور دادا خاموش تھے، پھر وہ اندر آنے کے لئے مڑے تو وہ جلدی سے باہر نکل آیا۔ ۔
“دادا ہم بھی دیکھیں گے بکری کے بچّے۔ ۔ ۔ ”
“اندر چلو۔ ۔ ۔ ” دادا زور سے بولے تو وہ حیران ہوا مگر اس نے سامنے پڑے ہوئے ننھے وجود دیکھ ہی لئے تھے۔ ۔ وہ سہم کر بھا گتا ہوا کمرے میں آیا اور رضائی اوڑھ کر بھی کانپتا رہا تھا
دادا کب آئے اور کب ان کے خراٹے گونجنے لگے وہ اپنی آنکھیں بند کئیے خاموش لیٹا رہا۔ ۔ ۔ دو ننھے وجود اس کی نگاہوں میں گھومتے رہے۔ ۔ نہ جانے کب تک وہ ڈرتا رہا اور کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صبح ہلکے اجالے میں دادی اور امّی کی با توں کی آواز آ رہی تھی۔
“غضب خدا کا۔ ۔ انسان بالکل وحشی ہو چکا ہے۔ ۔ یہ سب قرب قیامت کی نشانیاں ہیں۔ ۔ اپنے نفس پر ذرا قابو نہیں۔ بے زبان جانور کو بھی نہیں چھوڑتے۔ ۔ تو بہ توبہ۔ ۔ کیا قہر ہے ”
وہ گھبرا کر اٹھ گیا اسے رات کی ساری باتیں خواب کی طرح یاد آنے لگیں۔ ۔ پھر اس نے سنا وہ بکری کے بچّے رات ہی کو ختم ہو گئے تھے۔ ۔ اس کی نگاہوں میں ایک بار پھر وہ نو مولود بکری کے سر اور انسان کے جسم والے عجیب الخلقت بچّے آ گئے۔ ۔ ۔ وہ کئی دن تک سہما سہما رہا۔ ۔ ۔ وہ سونے کے لئے لیٹتا تو وہ بکری کے منھ اور انسانی جسم والے بچّے آ کر اسے ڈرانے لگتے۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہانیاں سننا چھوڑ دیا تھا۔ ۔ امّی کے پاس سونے لگا
مگر سوتے وقت اسُ بات کو یاد کر کے کانپ جا یا کرتا تھا۔ کئی دن گزر گئے تھے ابّا کا فون بھی آ گیا تھا وہ چھٹیّ لے کر آنے والے تھے۔
وہ صبح بھی روز جیسی تھی مگر وہ ابھی تک بستر میں تھا۔ امّی بہت دیر سے ناشتہ لئے بیٹھی تھیں، انھوں نے کئی بار اس کو آواز دی۔ ۔ پھر خود آ گئیں اور اس کا سر سہلا کر اسے جگانے لگیں
“اٹھ جا بیٹا۔ ۔ ۔ اسکول نہیں جائے گا تو اپنے ابّا جیسا کیسے بنے گا۔ ۔ اٹھ جا میرے لعل۔ ۔ ۔ ۔ “وہ ان کی گود میں سر رکھّ کر لاڈ اٹھواتا رہا۔ ۔ ۔ پھر بے دلی سے اٹھ کر تیّار ہونے لگا۔ جب وہ اسکول جانے کے لئے تیّار ہوا تو موسم کافی بہتر تھا کھلیُ کار میں خوشگوار ہوا سے اس کا دل ہلکا پھلکا سا ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے راستے کے پیڑوں میں شور مچاتی ہوا بہت اچھی لگ رہی تھی صبح صبح کا سہا نا منظر خوبصورت لگ رہا تھا۔ ۔ ۔ پیڑ کے پتّوں پر رکی ہوئی شبنم رہ رہ کر قطرہ قطرہ برس رہی تھی۔ اک دھند تھی جو چھَٹ رہی تھی۔ ۔ ۔
کلاس میں جاتے ہوئے کئی بچّوں نے اس کی خیریت پوچھی وہ گنگنا تا ہوا اپنی جگہ آ کر بیٹھ گیا۔ ۔ ۔ ایک ساتھی سے اس کی کاپی لے کر نوٹس اتارنے لگا۔
اچانک عجیب شور سا محسوس ہوا سارے بچّے کلاس روم سے باہر دیکھنے لگے، تڑا تڑ گولیاں چل رہی تھیں اک بھگدڑ سی ہو رہی تھی ہر طرف اندھا دھند گولیاں برس رہی تھیں وہ غائب دماغی سے بچّوں کی چیخیں سن رہا تھا۔ ۔ وہ دوڑ کر سامنے بنے ہوئے آتش دان میں چھپ گیا۔ اپنے آپ کو آتش دان میں چھپا کر اپنا بستہ اس نے سامنے کر لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلاس میں اب کئی لوگ آ چکے تھے بچّوں کی فلک شگاف چیخیں اسے دہلا رہی تھیں۔ دور کہیں دادی سورۃ واقعہ پڑھ رہی تھیں ” جب زمین بڑے زوروں سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ٹکرا کر چور چور ہو جائیں گے پھر ذرّے بن کر اڑنے لگیں گے۔ ۔ ” وہ تر جمہ سنا رہی تھیں شاید یہ وہی وقت ہے۔ ۔ ۔ رونے اور چلّانے کی آوازوں سے کان پھٹے جا رہے تھی افرا تفری کا عالم تھا گولیوں کی آواز۔ ۔ ۔ با رود کی نا گوار بو۔ ۔ اب اس کے پاس آ گئی تھی۔ ۔ وہ دعائیں کر رہا تھا کاش کوئی آ جائے اسے اوراس کے دوستوں کو بچا لے۔ ۔ ۔ اپنی بھینچ کر بند کی ہوئی آنکھیں کھولیں تو کچھ سائے اس کے سامنے تھے، سامنے سے بستہ ہٹ چکا تھا وہ رائفل کی زد میں تھا اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ ۔ ۔ اور حیران رہ گیا اس کے سامنے انسانوں کے چہروں والے کئی بھیڑیے کھڑے تھے۔ ۔ ۔ ۔ دادی کی آواز ابھی تک آہستہ آہستہ سنائی دے رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر سب کچھ محو ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...