عشق پوائیاں زنجیراں
کپڑے لیراں
حال فقیراں
گھر آنے پر اجر اور فجر نے قدسیہ بیگم کی جگہ زوئنہ کا استقبال کیا تھا۔ بے شک اتنا ہنگا مہ نہ تھا کہ ان کچھ لوگوں کے علاوہ بارات میں شامل بھی کوئی نہ تھا۔ وہاں ہال میں زیادہ تر مہمان زوئنہ اور اس کے والد کے جاننے والے تھے۔ زوئنہ کو اس کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا مگر سجاول تھا کہ کمرے میں جا کر نہ دیتا تھا۔ فخر زمان کی گھوری نے کام دکھایا اور وہ اٹھ کر کمرے کی جانب چل دیا۔
کمرے میں داخل ہوا تو اسے بیڈ پربیٹھی ارد گرد اکاجائزہ لیتے پایا۔اپنا لہنگا پورے بیڈ پر پھیلائے وہ لاپرواہ سی یوں بیٹھی تھی گویا ہمیشہ سے یہیں رہی ہو۔ بے شک آج وہ پیاری لگ رہی تھی۔ معاملہ تو دل کا تھا نہ جو کسی او رہی طرف ہمکتا تھا۔اس نے ٹھنڈی سانس خارج کی اور بیڈ پر سے اس کا ‘بکھرا’ ہوا لہنگا ایک طرف کرتا بیٹھ گیا۔
“کیسی ہو؟” اس نے جانے کس دل سے اسے مخاطب کیا تھا۔ اور زوئنہ تھی کہ ایسے چونکہ جیسے اس کے یہاں آنے کی خبر ہی نہ تھی۔
“مجھے مت بلاؤ تم” منہ بناتی ہوئی زوئنہ نے دوسری طرف منہ کیا تو سجاول دل ہی دل میں اسے گولی مارتا رہ گیا۔’مجھے شوق بھی نہیں بلانے کا۔ مجبوری نےہاتھ پاؤں باندھ دئیے ہیں’
سرد آہ کو باہر کا راستہ دکھایا اور اس کا ہاتھ پکڑا۔
“سنو!! میری طرف دیکھو” آہستہ سا بولتا ہوا وہ خود پر بھی ضبط کرنے لگا۔ جانے کیوں سب بدل گیا تھا اور کتنی اچانک بدلا تھا۔زوئنہ نے بھی فوراً اس کی طرف منہ کیا مبادہ اٹھ کر باہر ہی نہ چلا جائےکہ آج کل اس کا موڈ کچھ ایسا ہی تھاکہ کوئی بات برداشت نہ کرتا تھا۔
“اس دن کے لیے کتنا کچھ سوچا تھا ہم نے۔ اب اگر یہ دن آ ہی گیاہے تو تم اب ان لمحات کو یوں ضائع کرو گی؟”اس کے ہاتھ کو گھورتا وہ جو منہ میں آیا بولتا رہا۔
“تم نے میری تعریف بھی نہیں کی سجی” شکوہ آخر زوئنہ کے لبوں سے پھسل ہی گیا۔
“تم بہت پیاری لگ رہی ہو زوئنہ! میرے پاس آج ایک لفظ بھی نہیں۔ جانے کیوں سب الفاظ کہاں گم گئے ہیں۔ سوچا بھی نہ تھا کہ آج کے دن ایسی کیفیات ہوں گی میری۔۔ سوچا ہی نہیں تھا کہ تمہیں دیکھ کر میں ایسا محسوس کروں گا” اس کے ہاتھ کو تھپکتے ہوئے وہ بولا۔ نظریں اور لہجہ نرم گرم سا تاثر لیے ہوئے تھا جبکہ انداز۔۔۔
اور سامنے کوئی ذوقِ نظر ہوتا تو جان پاتا کہ انداز میں سرد مہری سما گئی تھی۔۔
منافقت میں منفرد اسلوبِ محبت
ہے بہت غضب کا اداکار ــ انسان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ پائیں باغ میں گھوم رہی تھی۔۔
خود کو چادر میں اچھی طرح چھپائے
وہ قدم ہولے ہولے گھاس پر دھرتی تھی
کہ اچانک ہوا سرگوشیاں سی کرتی اس کا دامن کھینچنے لگی۔۔
جیسے کہہ رہی ہو وہ دیکھو۔۔
وہ دیکھو سامنے
سامنے کہاں؟؟
وہ حیران ہوئی۔۔ اس نے دیکھا وہاں کوئی وجود کالی آندھی کی نذر ہوا تھا۔۔
نہیں کالی نہیں۔۔
شاید سُرخ آندھی تھی وہ۔۔
پاؤں مٹی آلود ہو چکے تھے ۔ ابھی پاؤں تلے موجود نرم سی گھاس غائب تھی۔
اس نے دیکھنا چاہا۔۔ کوئی اس کو آواز دے رہا تھا۔ اس نے کان لگائے ۔ غور کیا۔۔۔
آنکھوں میں سرخ آندھی کے ذرے مجبور کر رہے تھے کہ آنکھیں بند کر لی جائیں ۔۔ تبھی اس نے آواز سنی۔۔
“غنویٰ۔۔!!”
وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔چہرے کو چھوا جواتنی ٹھنڈ کے باوجود پسینے سے تر بتر تھا۔ وہ کہاں تھی۔ دل کہیں دور نیچے گہرائی میں ڈوب کر ابھرا۔۔ آدھی موت میں بھی وہ اس آواز کے ماخذ کو تلاش کرتی رہی تھی۔ اور وہ آندھی۔۔۔
اس نے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں جکڑ رکھا تھااور آنکھیں سختی سے بند کیے وہ اپنی حالت سے زیادہ اس آندھی میں گم ہوتی اس آواز کی تڑپ پر پریشان ہو چلی تھی۔
اور۔۔
قفس میں ہم نے تراشا کمال کا منظر۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ولیمے کا لباس تبدیل کرتے ہوئے وہ اکتایا ہوا دکھتا تھا جبکہ زوئنہ چہکتی پھر رہی تھی۔ اسے نہ تو سجاول کے موڈ سے غرض تھا نہ ہی اس کے گھر والوں کے واپس رخصت ہونے سے۔ اس کے لیے یہ ہی بہت تھا کہ اس کے بابا نے اسے اور سجاول کو انگلینڈ کے لیے سپانسر کیا تھا۔ اب بھئی خرچہ جس کا بھی جاتا اسے پرواہ کیوں ہوتی۔
“سجی !یو نو واٹ ؟؟ “اس کے پیچھے سے آتی ہوئی وہ ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے کے سامنے کھڑی اپنا بلش آن مزید گہرا کرتی ہوئی وہ بولی۔
“نو آئی ڈونٹ نو۔ اور اب کچھ بھی نہیں بولنا میں آرام کروں گا کچھ دیر” وہ اسے دیکھے بگیر جا کر لیٹ گیا تو وہ جو بڑے آرام سے کھڑی تھی غصے سے پلٹی۔
“مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ۔ نئے نئے دن ہیں اور تم یوں پھر رہے ہوتے ہو جیسے زبردستی کی گئی ہو”
‘زبردستی ہی ہو گئی ہے’ کہنا چاہتا تھا مگر دماغ ٹھنڈا رکھتے ہوئے وہ اس کی طرف دیکھنے لگا۔
“اچھا بولو کیا کہہ رہی تھیں تم”
“کچھ نہیں۔ ایک تو تمہارے گھر والے۔۔۔ وہ تمہاری بڑی بہن کے علاوہ کسی نے بھی اب تک مجھے کوئی گفٹ نہیں دیا۔ دیکھا تم نے ۔۔ سب کا منہ ہی سیدھا نہیں ہو رہا تھا” وہ اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
“ابھی تم کہہ رہی تھیں کہ نئے نئے دن ہیں۔ ابھی تم اپنی بات کی منفی بھی کر رہی ہو۔ زوئنہ تمہیں گفٹس سے مطلب نہیں ہونا چاہیے۔ دیکھو یہ سارا گھر تمہارے لیے ساری رات جاگ کر اتنا سجایا ان سب نے” ایک دم سے اس کی بات سے جو ابال آیا تھا اسے دباتے ہوئے وہ اسے سمجھا رہا تھا۔ جبکہ وہ ابرو اچکائے اسے گھور رہی تھی۔
“گھرتو چھوڑو ایک طرف۔ انہوں نے میری صورت میں گفٹ دیا تو ہے۔ کیا یہ کم ہے؟” زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے وہ بولا۔
“بس باتیں ہی بنا سکتے ہو تم ۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی یہی کیا نا۔۔ بس باتیں” اس نے چڑ کر ماتھے پر آئے بالوں کو جھٹکا دیا۔
“اچھا تو بتاؤ اور کیا کروں؟؟” اس کی طرف دیکھتے ہوئے وہ شرارت سے بولا۔
“بس۔۔ یہی ایک بات تم بلا جھجک کر سکتے ہو سجاول!” وہ اسےگھورتی ہوئی اٹھنے لگی تو اس نے ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ بٹھایا۔
“صرف بات نہیں کر رہا میں۔۔” اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے سجاول نے اس کے ماتھے پر آئے بال ہٹائے۔
“اچھا بس پھیلو مت تم۔۔” زوئنہ ہاتھ چھڑواتی اٹھ کھڑی ہوئی تو سجاول نے بھی بنا اس کی طرف دیکھے کمبل کھول کر سر تک لے لیا جبکہ وہ جو امید لیے بیٹھی تھی کہ آگے بھی کچھ بولے گا اس کی اس حرکت پر منہ کھولےکھڑی تھی۔
محبتــــ
ایک بے حیا رقاصہ ہے
محبت نے خود کو
ضرورت کا لباس پہنا رکھا ہے
یہ پاکیزگی کا ڈرامہ ہے
بتاؤ توـــ
اس محبت میں اور کیا رکھا ہے
محبت اور ضرورت میں
ایک گز کا فاصلہ ہے
ضرورت لباس ہے اور۔۔۔
محبتــــ
بے حیا رقاصہ ہے۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مجھے امید نہیں تھی کہ بھائی اتنے بے مروت ہوں گے۔ روکا بھی نہیں ہمیں تو ” نمل منہ بناتے ہوئے اپنے حجاب کی پنز اتارتی ہوئی بولی۔
“ا ان کو پتہ نہیں کتنے عرصے بعد موقع ملا ہی تھا تو کیا وہ ہمیں روک کر اپنے ان دنوں کو بھی گنوا دیتے” فجر صوفے پر بیٹھی اپنے ناخن فائل کرتی ہوئی بولی۔
وہ لوگ ولیمے سے فخر زمان کے کہنے پر گھر کی طرف ہی نکلے تھے۔یہاں آکر یوں سب کے اداس چہرے دیکھ کر فخر زمان نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا جبکہ آمنہ بیگم اور حیدر زمان سب کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھےتھے۔ کشور بیگم خاموش سی پھر رہی تھیں جب شیر زمان نے ان کو اشرے سے کمرے کی طرف بلایا تھا۔
” میں تو سوچ رہی ہوں اب اجر کا بھی نکاح ۔۔۔”
“میری بات سنو ابھی ایک خرچہ ہوا ہے اتنا ہی بہت ہے۔ ابھی نہ بات لے کر بیٹھ جانا۔ ” مہناز بیگم نکاح کی بات کرنے لگیں تو شہناز نے ان کی بات کاٹ دی تھی۔
“آپا! بس کریں ۔ اتنا بھی خرچہ نہیں ہوا ۔ اور اگر ہوا بھی ہے تو میں کہاں کہہ رہی ہوں کہ آپ سارے زمانے کو نکاح پر اکٹھا کر لیں۔ بس گھر کے لوگ ہوں گے بہت ہے ” انہوں نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔ سب لڑکیاں بڑے مزے سے ان کی باتیں سن رہ تھین۔
“ٹھیک ہے آپا میں آج فخر بھائی سے بات کرتا ہوں کچھ دن تک نکاح رکھ لیتے ہیں” حیدر زمان نے سیز فائر کرتے ہوے کہا۔
“اور پھر اس کے بعد ہم نے بھی چلے جانا ہے۔ گھر میں بس پھر یہ بھتنیاں ناچا کریں گی” جبل جو صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا ، بڑے مزے سے بولا۔
“کیوں بھئی تم لوگوں نے کہاں چلے جانا ہے؟” شہناز بیگم ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر حیرانی سے گویا ہوئیں۔
“پھوپھو لگتا ہے دشمن نے ابھی تک آپ تک ایک بھی بات نہیں پہنچائی۔ بھئی آُ کے ان ہونار بھتیجو کی جاب لگ چکی ہے۔ اور وہ بھی ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں ۔ دیکھئے گا اب آپ۔ ہماری بھی شادی ہو گی ” حبل بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہوا بولا۔
“لو جی۔۔۔ اسے شادی کے شوق میں جاب والی ٹف روٹین بھی منظور ہے” جبل منہ بناتے ہوئے بولا۔
“اب یہ دونوں بھی لڑنے بیٹھ جائیں گے پھوپھو۔ آپ یہ چائے پئیں ۔” غنویٰ ایک ٹرے لیے وہاں آئی اور ان سب کو چائے دینے لگی تھی۔ فجر اور نمل اسے پچھلے دنوں کی کہانیاں سنانے بیٹھی تھیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جانے کب سے بیٹھے سوچوں میں گم تھے۔ کشور بیگم نے اپنی ہر سوچ ان تک منتقل کر دی تھی اور اب وہ بیٹھے جانے کہاں کی سیر کر رہے تھے جب وہ اندر داخل ہوئی۔ وہ آرام کرسی پرآنکھیں بند کیے بیٹھے تھے ۔
“ابو!!” ان کے پاس نیچے قالین پر بیٹھتی ہوئی غنویٰ نے انہیں چونکایا۔
“جی جی بیٹے۔ کیسے ہو؟؟ طبیعت کیسی ہے اب؟” وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔
“میں بالکل ٹھیک ہوں مگر آپ تھکے ہوئے لگ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر آرام کر لیتے” وہ مسکرا کر بولی۔ پلکیں نم سی لگتی تھیں۔
“ارے آرام تو کر چکا ہوں۔ آپ یہ بتائیے کیا کہنا ہے” وہ نرم سی مسکراہٹ سے بولے تو غنویٰ انہیں دیکھنے لگی۔ بات کرے بھی کہ نہیں۔۔۔
“ارے پتر اپنے ابوؤں سے کون ہچکچاتا ہے۔ بولو کیا کہنا چاہ رہا میرا پیارا بچہ” اس کا ہاتھ ــــ جو ہمیشہ کی طرح ٹھنڈا ہی تھا ـــپکڑ کر بولے۔
“ابو وہ۔۔۔ ” وہ جھجکی۔
” جی جی بولو” اسکے ہاتھ پر تھپکی دی۔
“چاچا اکرم آئے تھے کل” اس نے بات کا آغاز کیا۔اب کے شیر زمان نے صرف مسکرا کر سر ہلایا۔
“انہوں نے بتایا کہ وہ جو کمیٹی نکلی تھی ان کی وہ انہوں نے کچھ اپنے رکشے پر لگا دی تھی اور کچھ اپنے بیٹے کوبھیج دی تھی” آہستہ آہستہ لفظ ادا کرتی وہ ان کو کشور بیگم ہی کا پرتو لگی۔ دور کی بھتیجی تھی کشور کی۔ مگر کیسے دونوں میں ایک دوسرے کا عکس نظر آتا تھا۔
” قدسیہ تائی تو زہرہ بی کے پاس تھیں اور کشور پھوپھو لوگ بھی بزی تھے میں ہی بیٹھی تھی ان کے پاس۔ مجھ سے ہی بات کی انہوں نے۔ “اس نے بات کرتے ہوئے دوسرا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھا۔
” ابو ۔۔ “
“جی جی پتری”
“آج کل وہ بہت مشکل سے گزارا کر رہے ہیں۔چھ کلو کا سلنڈر ہے ان کا ۔ جس مین روز وہ ڈیڑھ سو کا گیس ڈلوا رہے ہیں۔ اور جانتے ہیں اب تک ان پر سات سو پچاس کا صرف اس گیس سلنڈرکا قرض بن چکا ہے۔ “
“ارے وہ تو سب ٹھیک ہو گیا۔ آپ اصل بات پر آئیے بیٹا جی” وہ مسکرائے۔
“ابو مجھے پھوپھو شہناز بتا رہی تھیں کہ آپ نے زمین مزارعوں کے سپرد کی ہوئی ہے اور آپ کے پاس اس سب کا حساب رکھنے کے لیے کوئی منشی نہیں ہے سو سارا کام خود کرنا پڑتا ہے آپ کو”
“جی بالکل ایسا ہی ہے”
“اگر آپ چاچا کو منشی کے طور پر رکھ لیں۔ مطلب آپ ان کو اچھی طرح جانتے بھی ہیں اور آپ کو آسانی بھی ہو جائیگی” بالآخر بات مکمل ہو چکی تھی۔
“اور میں اب پتہ ہے سوچ کیا رہاہوں؟” اس نے نفی میں دائین بائیں سر ہلایا تو وہ مسکرا دئیے۔
“اتنے لائق میرے نمونے بیٹے کیوں نہیں ہیں۔ ایسی سوچ ان کو تو کبھی نہیں آئی۔ دیکھو تو ان دنوں اتنا سوچ سوچ کر تم نے اتنا سا منہ بھی نکال لیا اور حل بھی کیاشاندار نکالا ہے۔ ” اس کا ہاتھ چھوڑ کر وہ اٹھے اور ایک طرف بنی ہوئی الماری کے پٹ کھول کر کچھ تلاش کرنے لگے۔
“میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ جبل اور حبل ے جانے کے بعد ہم تینوں یعنی آپ ، میں اور آپ کی والدہ محترمہ کہیں گھوم کر آئیں ۔ میں دیکھ رہا ہوں بہت اداس ہیں وہ” اس کے پاس واپس آکر بیٹھتے ہوئے وہ بولے۔ ان کے ہاتھ میں ایک رجسٹر اور کچھ کاغذات تھے ۔ رجسٹر کھول کر انہوں نے ایک صفحہ نکالا جس پر کچھ حاشیے لگائے گئے تھے۔ اس پر تاریخ درج کرنے کے بعد وہ رجسٹر اس کے سامنے کیا۔
“یہ رجسٹر آج سے آپ کے چاچا اکرم کے پاس پہنچ جائیگا” انہوں نے اسے دکھا کر وہ رجسٹر بند کر کے ایک طرف رکھے ہوئی چھوٹے سے میز پر دھر دیا۔
“اب آپ اگلا کام بولیں”
“آپ کو کیسے پتہ میں کوئی کام بولنے والی ہوں” وہ حیران تھی۔
“ارے ماں باپ اپنی اولاد کی حرکات و سکنات سے پہچان نہ جائیں تو غافل ماں باپ نہ ہوئے؟” وہ ہنستے ہوئے گویا ہوئے تو وہ بھی مسکرا دی۔
“میں نے چاچا سے کہا تھا کہ میں عبادت کے پاس آیا کروں گی۔ سلائی سیکھنے کے لیے۔اس طرح بھی ان کی مدد ہو جائیگی اور میں بھی ہنر سیکھ لوں گی” اب کی بار بات کرنے میں روانی تھی جیسے بات بس منوانے ہی بیٹھی تھی۔
“میرا مطلب تھا کہ صرف سیکھا نہ جائے بلکہ کچھ رقم مخصوص کر کے سیکھا جائے۔ یعنی مجھے بھی ہنر ملے اور ان کو بھی مدد مل جائے۔ ایسے عبادت کی پڑھائی کا خرچ تو نکل جایا کرے گا کم از کم”
“ارے اس میں کیا قباحت ہے۔ بالکل ٹھیک کہا آپ نے ۔جایا کریں ۔ پھر جب سیکھ جائیں گی کم از کم اپنی والدہ صاحبہ کے کپڑوں کا بندوبست تو کر دیا کریں گی۔ لڑکیوں کی طرح خرچ کرتی ہیں کپڑوں پر وہ” وہ ہنستے ہوئے راز دارانہ انداز میں بولے۔
“ہاں میں نے ہی تو اتنا خرچ کروا رکھا ہے۔ تبھی آپ نے جو اتنی فیکٹریاں بنوانی تھیں وہ بنوا نہیں پائے آپ۔ ” دونوں چونکے ۔ وہ پیچھے ہی کھڑی ان کو گھور رہی تھیں۔ جہاں غنویٰ نے اپنی مسکراہٹ روکنے کو ہونٹ بھینچے تھے وہیں شیر زمان ان کو وضاحتیں دینے لگے۔
“ارے بیگم آپ تو بات کو کہاں سے کہاں لے گئی ہیں ۔ میں تو۔۔۔”
“ارے بس کریں صاحب۔ سب جانتی ہوں۔ خود کا خرچ یاد نہیں آتا۔ آئے روز جو نیا سوٹ بنتا ہے اور پھر سوٹ پر لگایا جانے والا کلف۔ اور اس سوٹ کو اچھی طرح استری کرنے سے بجلی کا خرچ الگ اور ہماری انرجی کا خرچ وکھرا۔ “وہ جل ہی گئی تھیں۔
“پھوپھو یہ مطلب نہیں تھا ابو کا۔۔۔” غنویٰ نے شیر زمان کے اشارہ کرنے پر بولنا چاہا تو وہ اس کی بات بھی کاٹ گئیں۔
“آپ بھی انہی کی بیٹی ہیں ۔ انہیں آپ ابو ابو کہیں اور مجھے پھوپھو۔ نہیں مجھے بتائیں میں آپ کی قریبی ہوں یایہ؟ پہلے تو مجھ سے ہی جڑتی ہیں نا آپ۔ کہ نہیں؟” اس وقت وہ بولتی ہوئیں زہرہ بی کی کاپی لگتی تھیں۔ زہرہ بی نے واقعی یہاں کی ہر عورت پر اپنا رنگ چھوڑا تھا۔
“امی ۔۔ ابو کا یہ مطلب نہیں تھا” وہ ہچکچاتی ہوئی شرمندہ سی ہو کر بولی تو دونوں ہی مسکرا دئیے۔
“اچھا اب مزید کیا لڑوں میں آپ سے شیر زمان صاحب۔اپنی بیٹی کی یہ اتنی سی شکل نکال کر سفارش کرنے پر چھوڑتی ہوں۔ کیا یاد کریں گے آپ بھی” کشور بیگم نے اس کو ساتھ لگاتے ہوئے کہا تو وپ دونوں بھی مسکرا دئیے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مر جاؤ۔ دفعہ ہی ہو جاؤ” فجر اور جبل آج ایک بار پھر آمنے سمانے تھے۔ بہت عرصے بعد دونوں کو ایک دوسرے کو بڑی نخوت سے سنانے کو باتیں ملی تھیں۔ سب کے سامنے لاؤنج میں بیٹھے دونوں شروع تھے اور سب یوں خاموش تھے گویا ان کی لڑائی میں سے اہم نکتے نوٹ کر رہے ہوں۔
“میں کام نہ کروں تو مر جاؤں اور تم کام نہ کرو تو ؟؟؟” جبل ماتھے پر خطرناک تیور لیے اسے دیکھ رہا تھا۔
“تو میرا ہونے والا شوہر۔۔۔”
“اے گندی اولاد تیرے منہ میں خاک۔ بے غیرت کیا صلہ دے رہے ہو میری تربیت کیا۔ کیا کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں ۔ کبھی زہرہ بی کی اولاد کو دیکھا یوں لڑتے بھڑتے؟ میری اولاد کو اور ہی بہت کام ہیں ۔ لڑنا بھڑنا تو بعد کی بات ہے۔ تو بتا فجر اب تجھے کون پسند آگیا ہے جو جبل سے متھا لگا رہی ہے” فجر کی بات پوری بھی نہ ہو پائی تھی کہ وہاں کب سے چپ بیٹھی قدسیہ بیگم بولیں اور سیدھی سی بات کو جانے کس طرف لے گئیں۔ سب کے منہ الگ ۔ لیکن فجر اور جبل کا منہ دیکھنے والا تھا۔ بے شک دونوں میں لڑائی چل رہی تھی مگر ان کی آخری بات سے اگر فجر کو شاک لگا تھا تو جبل بھی اس بات سے اتفاق نہ کرتا تھا۔
“تائی امی ۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس نے چائے ہی نہیں بنا کر دی نا۔ اٹس اوکے میں بنا لاتی ہوں۔ لیکن آپ۔۔۔”نمل نے ان کو تھنڈا کرنا چاہا تو وہ اس کی بات بھی کاٹ گئیں۔
“بس کرو تم لوگ بھی اس کے کام کرنا۔ کس دن یہ خود بھی اپنا گھر سنبھالنا سیکھے گی؟ کشور کی ایک بیٹی ہے۔ مجال ہے چوں چران بھی کر جائے۔ آمنہ کی دو بیٹیاں مگر مجال ہے کبھی کام سے نہ کی ہو۔ بیٹیاں چھوڑو بیٹے ہی دیکھ لو کیسے جی امی جی ابو کرتے پھرتے ہیں ۔ ایک میری ہی اولاد نے مجھے ذلیل کرنا لکھا ہوا ہے” وہ بھری بیٹھی تھیں۔
“بھابی۔۔۔کیا ہو گیا ہے۔ بنا دیتی ہے فجر۔۔اٹھو فجر” کشور بیگم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر سہلاتے ہوئے کہا تو وہ چٹخ کر پھر سے شروع ہوگئیں۔البتہ فجر کے لیے ان کی پچھلی بات اتنا برا شاک تھی کہ وہ وہیں جمی ہوئی تھی۔ آںکھیں ٹپ ٹپ برسنا شروع ہو چکی تھیں۔
“یہ اجر کون سا کم ہے۔ کام کر کے بھی سو دفعہ جتائے گی یہ یہ کام کر آئی ہوں۔ بی بی کیا احسان کیا ہم پر؟ یہ گھر تم لوگوں کا بھی ہے۔ اتنا کھاتے پیٹ بھرتے ہوئے تو نہیں سوچا کبھی کہ یہ یہ کھا چکی ہوں ۔ کبھی آج تک ہمیں دیکھا ہے اتنا کام کرتے ہیں دن رات مگر کبھی جتایا؟ اس لیے نہیں جتایا غیرت سے خالی عورتو!! کہ ہماری اولاد کو تنگی نہ ہو۔ ورنہ اب تنا دم خم ہے ہم میں کہ ہم سارا دن بانس کی طرح سیدھی کھڑی رہ سکیں؟ کبھی اتنا نہیں ہوا کہ ہماری تانگیں ہی دبا دو۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ ماں چلو میں مالش ہی کردوں سر کی ۔ یہ غنویٰ بس عام سی بات بھی کرنے بیٹھتی ہے پاس تو پاؤں دبانے لگ جاتی ہے۔ نہیں میں کہتی ہوں اس کو کون سا فالتو دل ملا ہوا ہے یا کون سی اضافی خوراک ملتی ہے ؟ وہ بھی تم سب کے ساتھ بیٹھ کر کھاتی ہے نا؟ ” فجر کچن کی طرف روانہ ہوئی تھی جبکہ اجر نے مہناز بیگم کے پیچھے چھپنا مناسب سمجھا۔نمل اور منال تو البتہ اس الزام سے ابھی بچی ہوئی تھیں سو وہیں چپکی رہیں۔
“اور اتنا نہ ہوا کہ اگر اس بے غیرت اولاد کی شادی پر جا رہی ہو تو پیچھے ایک آدھ کو چھوڑ جاؤ۔ نہیں مجھے بتاؤ یہ غنویٰ بلی کا بکرا ہے کہ ہر کام میں سب اسی کو قربان کریں گے؟ یہ حبل ابھی کچھ دن پہلے کیسے زہرہ بی کی مالش کا کہہ رہا تھا۔ کوئی سوپ بنا کر دے کوئی دوائیاں چیک کرے۔ یہی سب کو اکٹھا لے بھی گیا۔ بھئی شرم تو خیر سے تمہیں بھی نہیں آئی ہو گی نا؟” اب وہ باقی بچوں کی طرف گھومی تھیں۔ سب کے سر جھک کر گردنوں سے لگے ہوئے تھے۔ جبل کو اب دو کوگوں کو منانا تھا۔ ایک فجر اور قدسیہ بیگم۔ فجر سے جو بھی لڑائی رہتی مگر ایسی بات جو قدسیہ بیگم نے صرف غصے میں کہہ دی تھی اسے کافی ہرٹ کر گئی تھی۔ غنویٰ جو کچن میں گئی تھی اسے میسج کر کے بلوایا ۔
“تائی امی! ” غنویٰ وہاں بیٹھے سب بچوں کو زہرہ بی کے کمرے کی طرف کھسکنے کا اشارہ دے کر خود قدسیہ بیگم کی پشت پر آ کھڑی ہوئی اور ان کے کندھوں کو سہلاتے ہوئے ان کو نارمل کرنے لگی۔
اور یہی بات تو قدسیہ بیگم کو اور کھولا رہی تھی۔ ان کی اپنی اولاد بھی تو تھی۔ ایک وہاں دور بیٹھا مزید دوریاں بڑھا گیا تھا۔ دوسری اپنی ساس کے پیچھے سے نکل کر کمرے کی طرف بھاگی تھی اور آخری اولاد کچن میں پہلے سے پہنچ چکی تھی۔کہاں وہ کوتاہی کر گئی تھیں۔
“اور جان لو کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہیں ۔ اور اللہ کے پاس تو بڑا اجر ہے”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...