” کیا ہوا آسیہ، سب ٹھیک تو ہے نہ” سلیم صاحب نے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا
” سلیم آپ حیا کی دوست فاطمہ کو جانتے ہیں” آسیہ کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں سے بات شروع کرۓ تو اُس نے فاطمہ کا نام لینے میں ہی عافیت سمجھی
” ہاں جانتا ہوں، کیا ہوا اُسے”
” وہ آفتاب بھائی کی بیٹی ہے” آسیہ نے چہرے پر آۓ ہوئے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا
” کککککک… کیا، یہ کیا کہہ رہی ہو تم” آسیہ کی بات سلیم صاحب پر کسی بم کی طرح گری
” میں سچ کہہ رہی ہوں سلیم، ابھی کچھ دیر پہلے ہی مجھے ان کی کال آئی تھی، وہ کہہ رہی تھی کہ وہ اپنے بیٹے سالار آفتاب کا رشتہ حیا کے لیے لانا چاہتی ہیں اور جب میں نے ان سے ان کا نام پوچھا تو ان نے اپنا نام عالیہ آفتاب بتایا”
” پھر تو یہ بہت اچھی بات ہے، میں تم سے کہتا بھی تھا کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، آج اللہ نے ہماری سن لی، آج ہماری سزا ختم ہوئی، دیکھنا آگے ہماری زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی ” سیلم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” لیکن سلیم، مجھے ڈر لگ رہا ہے”
” ڈر کس بات کا، تم پریشان نہ ہو، اللہ سب بہتر کرے گا”
” اگر بھیا اور بھابی نے مجھے دیکھنے کے بعد انکار کر دیا تو ”
” تم فضول باتیں سوچ کر خود کو پریشان کر رہی ہو، دیکھنا سب اچھا ہوگا”
” مجھے اللہ پر مکمل پر یقین ہے کہ وہ میرے ساتھ کچھ غلط نہیں کرۓ گا مگر مجھے مکافات سے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں میری غلطی میری بیٹی کے آگے نہ آجائے ”
” آسیہ تم مجبور تھی، تم اور کر بھی کیا سکتی تھی، ہماری بیٹی کے ساتھ کچھ برا نہیں ہوگا، تم اللہ پر یقین رکھو اور یہ مت سوچوں کہ تمہارے گھر والے تمھیں معاف کریں گے یا نہیں، یہ سب میری ذمہ داری ہے، ویسے وہ لوگ کب آرہے ہیں ”
” کل ” اپنی سوچوں میں کھوئی ہوئی آسیہ نے کہا
” بس پھر کل کی کل ہی دیکھی جائے گی، ابھی تم میرے ساتھ چلو کھانا کھانے کے لیے، حیا ہمارا ویٹ کر رہی ہے”
” سیلم ایک بات پوچھنی تھی آپ سے ”
” کیا بات” سلیم صاحب نے حیرانگی سے آسیہ کی طرف دیکھا
” کیا میں حیا کو سب بتا دوں کہ آج سے بیس سال پہلے کیا ہوا تھا”
” ہممم، میں بھی یہ سوچ رہا تھا، میرے خیال سے اب صحیح وقت آگیا ہے، آپ آج ہی حیا کو سب کچھ بتا دیں تاکہ حیا کل کے لیے خود کو پہلے سے ہی تیار کر سکے ”
” ہممم، آج رات کو ہی میں حیا کو سب کچھ بتا دوں گی”
” ہممم چلیں، اب کھانا کھاتے ہیں ”
**************************
” سالار بھائی ، ابھی کچھ دیر پہلے امی کی حیا کی ماما سے بات ہوئی ہے”
“” پھر کیا کہا ان نے” سالار نے ڈرتے ڈرتے فاطمہ سے پوچھا
” ان نے انکار کر دیا ”
” کککک کا سچ میں، وہ مجھ سے ملے بغیر کیسے انکار کر سکتی ہیں، میں کل ہی خود ان سے ملنے جاؤں گا ” فاطمہ کی بات سن کر سالار کا موڈ آف ہوگیا
” مذاق کر رہی ہوں بھائی، کل ہم جارہے ہیں ان کے گھر”
“شکر ہے کہ تم صرف مذاق کر رہی تھی ورنہ تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی ”
اتنی اچھی لگتی ہے، آپ کو حیا، حیا کو پسند کرنے کی وجہ”
“اُس کی آنکھوں میں حیا ہے، بے شک اس کا لباس جس قسم کا بھی ہو، نظریں ہمیشہ اُس کی نیچے ہی ہوتی ہیں، یہ خوبی اُسے میری نظر میں دوسری لڑکیوں سے بہت ممتاز بنا لیتی ہے”
” ارے واہ بھائی، آپ تو حیا کے پیار میں فلسفی بن گے ہیں ”
” ہاہا بکواس نہ کرو مگر مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ لوگ انکار نہ کردیں ”
” اففف بھائی، ایسی باتیں کیوں سوچ رہیں ہیں، اچھا سوچیں گے تو اچھا ہی ہوگا، دیکھنا بھائی اللہ سب بہتر کرۓ گا، کل اس وقت آپ بہت خوش ہونگے اور مجھے مٹھائی کھلا رہیں ہونگے ” فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا
” انشاءاللہ ” سالار نے مسکراتے ہوئے کہا
” زوہیب بھائی کدھر ہیں، میں ان کے کمرے میں بھی گئی تھی مگر وہ نظر نہیں آۓ”
” وہ اپنے کچھ پرانے دوستوں سے ملنے گیا ہے”
” اچھا آپ کے لیے کھانا لے کر آؤ”
” نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، میں پہلے ہی کھا چکا ہوں، چکن بریانی کون چھوڑتا ہے”
” آپ میرے بغیر کھا بھی چکے ہیں اور مجھے پتا بھی نہیں چلا” فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
” میں تو کھا چکا ہوں، اب میرا یہ مشورہ ہے کہ تم بھی کھا لو، یہ نہ ہو کہ ختم ہو جاۓ”
سالار کے کہنے کی دیر تھی کہ فاطمہ کچن کی طرف بھاگی جبکہ سالار اسے بھاگتا دیکھ کر ہنس رہا تھا.
**************************
” اسلام علیکم”
” کمینا کہاں تھا اتنا سال، اتنا یاد آیا ہے تو”
” پہلے سلام کا تو جواب دے، دے، پھر بتاتا ہوں کہ کہاں گیا تھا،”
” وعلیکم السلام” تابش نے ہنستے ہوئے کہا
” اب ادھر کھڑا رکھے گا، یا گھر کے اندر بھی لے کر جاۓ گا ”
” او، میں تو بھول ہی گیا تھا”
پھر تابش زوہیب کو گھر کے اندر لے کر آتا ہے ، سامنے صوفے پر رانیہ ہاتھوں میں کرکرے کا بڑا پیکٹ پکڑے ٹی وی دیکھ رہی تھی، زوہیب کو دیکھتے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ پھیر لیا
” یہ موٹی بالکل نہیں بدلی، جیسا چھوڑ کر گیا تھا، بالکل ویسی ہی ہے، پہلے بھی ہر وقت کھاتی رہتی تھی، اور اب واپس آیا ہوں تو تب بھی کھا ہی رہی ہے”
زوہیب کی بات سن کر رانیہ نے ساتھ پڑا کشن اٹھا کر زوہیب کو مارا اور جو رانیہ کی قسمت اچھی ہونی کی وجہ سے روہیب کو لگ بھی گیا
” آرام سے یار، ایک تو اتنے سال بعد واپس آیا ہوں تب بھی مار ہی رہی ہو”
” مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی زوہیب کے بچے، جہاں سے آۓ ہو، وہی واپس چلے جاؤ”
” چلا جاؤ گا ضرور مگر تمھیں واپس لے کر” رانیہ اس کی بات سن کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے.
” او ہیلو، اِس کے بھائی کے سامنے تم یہ بات کر رہے ہو، کچھ تو شرم کر لو بھائی ”
” ہاہاہاہاہا، آنٹی سے میری بات پہلے ہی ہو چکی ہے، اب آپ کچھ نہیں کر سکتے تابش شیخ ”
” اچھا چلو، ہنسی مذاق ہوتا رہے گا، پہلے کھانا کھا لو”
” ہممم چلو مگر پہلے انکل آنٹی سے تو مل لوں ”
” مام، ڈیڈ کے ساتھ بزنس ڈنر پر گئی ہے، ان کو آنے میں دیر ہو جاۓ گی، جب تک وہ آتے ہیں تب تک ہم کھانا کھا لیتے ہیں ”
” ہاں صحیح ہے”
**************************
” بیٹا مجھے آپ سے بات کرنی ہے” آسیہ بیگم نے حیا کے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا
آج پہلی بار حیا نے آسیہ بیگم نے کے لہجے میں بے بسی محسوس کی.
” جی ماما بولیں”
آسیہ بیگم کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں سے بات شروع کریں مگر جلد ہی وہ اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے بولی
” آپ کے لیے رشتہ آیا ہے”
” ککک کیا سچ میں، میرے لیے”
آسیہ بیگم حیا کے اس انداز پر افسوس ہی کرتی رہ گئی.
” نہیں میرے لیے آیا، اب میری کوئی دوسری بیٹی تو نہیں ہے، ظاہر سی بات ہے، تمھارے ہی لیے آیا ہے” آسیہ بیگم نے اپنا لہجہ سخت کرتے ہوئے کہا
” ماما ناراض تو نہ ہوۓ نہ، اچھا یہ بتائیں کہ لڑکا کون ہے”
” فاطمہ کا بھائی سالار آفتاب”
آسیہ بیگم کے الفاظ حیا پر بم کی طرح گرے. اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے، کیونکہ اس نے آسیہ بیگم کی آنکھوں میں امید دیکھ لی تھی.
” ماما…. سوری… پر مجھے یہ رشتہ نہیں پسند ” حیا نے بوکھلاتے ہوۓ کہا
” کیوں نہیں پسند تمھیں، کیا یہ جان کر بھی تم نہ ہی کرو گی کہ سالار کوئی غیر نہیں بلکہ تمھارے سگے ماموں کا بیٹا ہے” ضبط کرنے کے باوجود آسیہ بیگم کی آنکھوں میں آنسوؤں آگے جو کہ اب کسی بہتی آبشار کی طرح ان کے چہرے پر گر رہے تھے. یوں لگتا تھا کہ حیا کے انکار نے ان کی آخری امید بھی توڑ ڈالی ہے
” یہ ککک کیا کہہ رہی ہے، ماما آپ ” حیا کے لیے یہ انکشاف کسی اذیت سے کم نہ تھا، فرار ہونے کے سارے راستے اب بند ہو چکے تھے.
” ہاں حیا میں سچ کہہ رہی ہوں، سالار میرے بھائی آفتاب کا بیٹا ہے”
یہ کہنے کے بعد آسیہ بیگم نے حیا کو بیس سال پہلے کی کہانی سنائی. جس کو سن کر حیا خود پر کنٹرول نہ کر سکی اور آسیہ بیگم کے گلے لگ کر رونے لگی. اسے قدرت کا یہ کھیل سمجھ نہیں آرہا تھا.
” تو ماما جمال انکل اگر رضا انکل کے بھائی تھے، پھر تو وہ شہریار کے چاچا ہوۓ نہ” حیا کو اس بات کا جواب معلوم تھا مگر پھر بھی وہ حقیقت سے نظریں چرانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی.
” ہاں تم نے صحیح سمجھا”
جواب سننے کی دیر تھی کہ حیا کی آنکھوں سے موتی تیز رفتار میں گرنے لگے. وہ قدرت کے اس فیصلے کو سمجھ نہیں پا رہی تھی. کیا ضروری تھا کہ میں اور میری ماں ایک ہی خون سے ٹھوکر کھاۓ. کیا فرق پڑتا ہے کہ جمال شہریار کا چاچا تھا، خون تو ایک ہی تھا. اور سالار جس کو میں نے کچھ دن پہلے بہت سنائی تھی کہ وہ مجھے اب قبول کر لے گا. وہ یہی کچھ سوچ رہی تھی کہ آسیہ بیگم کی بات نے اسے سوچوں سے آزاد کیا
” تو پھر کیا سوچا، تم نے حیا، کیا تم اپنی ماں کی بات مانوں گی یا پھر اپنی ماں کے نقش قدم پر چل کر پچھتاوے کو اپنا مقدر بناؤ گی”
” ماما ایسے مت بولیں، آپ مجبور تھی”
” نہیں بیٹا میں مجبور نہیں تھی، بلکہ میں خودغرض تھی، میں نے اپنی محبت حاصل کرنے کے لیے اپنی ماں اور بھائیوں کی عزت داؤ پر لگا دی تھی، یہ مت کہو کہ میں مجبور تھی، مجھے چھوڑو تم بتاؤ کیا تم اپنی ماں کی لاج رکھو گی” اب کی بار آسیہ بیگم کی آواز پہلے سے بھی کہی زیادہ اونچی ہوگئی تھی.
” ماما، مجھے آپ کا فیصلہ قبول ہے” حیا نے کہہ تو دیا تھا مگر ساتھ میں ڈر بھی رہی تھی کہ کہیں سالار انکار نہ کر دے.
” مجھے تم سے یہی امید تھی، ابھی تم سو جاؤ، کل وہ لوگ بھی آرہے ہیں ” آسیہ بیگم نے چہرے پر آۓ آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا
اور یہ وہ لمحہ تھا جب آسیہ بیگم نے سکون کی سانس لی.
” ہممم”
” اپنا منہ بھی دھو کر آؤ، کہانی میری تھی اور رو رو کر تم نے اپنی آنکھیں سوجھا لی ہیں ” آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” نہیں ماما ٹریلر آپ کا تھا، کہانی میری تھی”
” کیا مطلب” حیا کی بات آسیہ بیگم کو حیران کر گئی، ان نے پیچھے مڑ کر حیا کی طرف دیکھا
اب کی بار کمرے میں حیا کی آواز گونج رہی تھی جب کہ آسیہ بیگم خاموشی سے حیا کو سن رہی تھی.
” اففف، حیا اتنا کچھ ہوگیا، اور تم مجھے اب بتا رہی ہو، اس سدرہ کی بچی کو تو میں کل بتاتی ہوں ”
” نہیں ماما چھوڑیں اس کو،. اس نے جو کچھ بھی کیا اس کا ظرف ”
” شہریار تو ایسا نہیں لگتا تھا، افسوس، وہ اپنے باپ کے نہیں چاچا کے نقش قدم پر چلا ہے”
” واہ ماما کیا بات کہی ہے آپ نے، شہریار ایسا نہیں لگتا تھا، اگر لڑکوں کے عزائم ان کے چہرے پر عیاں ہوں تو کبھی کسی لڑکی کی زندگی برباد نہ ہو”
” بالکل صحیح کہا تم نے حیا، یہ ہم لڑکیاں ہی ہوتی ہے جو ان لڑکوں کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگاتی ہیں، مگر پھر بھی اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی یہ ہمارے نہیں ہوتے ”
” ہمممم ، ماما میں اب سونا چاہتی ہوں، اللہ حافظ” حیا اب تنہائی چاہتی تھی
” اللہ حافظ”
**************************
” ہیلو کہاں تک پہنچا کام”
” بس سمجھو، مکمل ہی ہوگیا”
” کیا مطلب”
” مطلب یہ کہ سدرہ کل حیا کے گھر چار بجے بم پھٹے گا”
” مجھے تم سے یہی امید تھی، شہریار، سچ میں تم بڑے ہی کمال کے بندے ہو”
” وہ تو میں ہو، کیونکہ آپ کی پسند جو ہوں”
” اچھا شہریار میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں، میرا فیورٹ ڈرمہ لگنے والا ہے، اللہ حافظ ”
” پر سدرہ” وہ اس سے زیادہ کچھ بول نہ سکا، کیونکہ کال کاٹ لی گئی تھی.
__________
آسیہ بیگم کے جانے کے بعد حیا نے اٹھ کر کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیڈ پر لیٹ گئی. نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی. وہ چاہ کر بھی سو نہیں پارہی تھی. آنکھیں بند کرتی تو اسے آسیہ بیگم کا امید بھرا چہرہ نظر آتا مگر جب آنکھیں کھولتی تو اسے اپنے الفاظ یاد آجاتے جو اُس نے سالار کو کہہ تھے. وہ اپنی ماں کو اور دکھ نہیں دینا چاہتی تھی. مگر ٹھکراۓ جانے کا ڈر اُسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا. اُسے نہیں پتا تھا کہ اُس کی ماں کی زندگی میں اتنے دکھ ہونگے. اُسے اچھی طرح یاد تھا جب بچپن میں وہ سکول سے آکر آسیہ بیگم سے کہتی کہ سب کی نانوں ہوتی ہیں، اُس کی کہاں ہیں، اُسے بھی اپنی نانوں کے پاس جانا ہے تو آسیہ بیگم بغیر کچھ کہہ اپنی بے بسی الفاظ کے بجائے رونے سے ظاہر کرتی. آسیہ بیگم کو یوں روتا دیکھ کر اُس نے بچپن میں ہی یہ سمجھ لیا تھا کہ اُس کی نانوں، ماموں، خالہ وغیرہ سب اللہ کے پاس ہے. مگر آج جو آسیہ بیگم نے انکشاف کیا تھا وہ ایک الگ ہی کہانی سنا رہا تھا. اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے کھوۓ ہوئے رشتوں کو پا کر خوش ہوۓ یا روۓ. اُسے قدرت کا یہ کھیل بالکل پسند نہیں آیا. مگر اپنی ماں کی رشتوں کے لیے ترستی آنکھیں دیکھ کر اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ اُسے حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا. اُسے شہریار سے کوئی شکوہ نہیں تھا، شاید اس لیے کہ کچھ لوگ کم ظرف بھی تو ہوتے ہیں دنیا میں، مگر اسے جمال انکل سے نفرت کرنے میں دو منٹ بھی نہ لگیں. اسے جمال انکل پر غصہ اور اپنی ماں پر ترس آرہا تھا. آسیہ بیگم کی بیٹی ہونے کے ناطے وہ ان کو اچھی طرح سے جانتی تھی کہ ان نے کبھی کسی کا غلط نہیں چاہا پھر ان کے ساتھ یہ کیوں ہوا، یہ سب اس کی سمجھ سے باہر تھا، مگر اگلے ہی لمحے اُسے یہ خیال آیا کہ جو کچھ ہوتا ہے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے، اگر جمال انکل ماما کی زندگی میں نہ آتے تو پھر پاپا، ماما کو کیسے ملتے. جس طرح پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتی، اسی طرح ہر مرد ایک جیسا نہیں ہوتا، کچھ اُس کے پاپا جیسے بھی ہوتے ہیں، اب وہ یہی دعا کرسکتی تھی کہ سالار بھی اُس کے پاپا جیسا ہی ہو. یہ سب کچھ سوچتے ہوئے اُسے پتا بھی نہیں چلا اور وہ نیند کی گہری وادیوں میں کھوئی گئی.
دن کے بارہ بج چکے تھے اور حیا میڈم کی صبح نہیں ہوئی تھی. رات کو لیٹ سونے کی وجہ سے وہ ابھی تک سو رہی تھی مگر باہر سے آنے والی آوازوں نے اُسے جاگنے پر مجبور کر دیا. آسیہ بیگم کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی اور سلیمہ بی بی کی ” جی بیگم صاحبہ” کی آواز اُسے کافی حد تک جاگنے پر مجبور کر رہی تھی. مگر حیا بھی تو حیا تھی، اُس نے بھی ڈھیٹ بن کر سر پر تکیہ رکھ کر سونے کا فیصلہ کیا، ابھی وہ اس پر عملدرآمد کر ہی رہی تھی کہ دھڑام کی آواز سے دروازہ کھولا اور سلیمہ بی بی کی بہو، راحلیہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ سامنے کھڑی تھی.
” راحیلہ آنٹی ، میں آپ سے کتنی بار کہوں کہ دروازہ کھٹکھٹا کر آیا کریں”
” چندا تو بھی تو بھولی ہے، کنڈی کیوں نہیں لگاتی”
” وہ صبح، صبح اٹھ کر سردی میں، مجھ سے دروازہ نہیں کھولا جاتا”
” ناراض مت ہونا چندا، پر سچ میں آپ بڑی ہی کام چور ہو”
” وہ تو میں ہوں، خیر آپ یہاں کیوں آئی تھی ” حیا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
” چندا میں آپ کو یہ کہنے آئی تھی کہ آسیہ بیگم آپ کو بلا رہی ہیں ”
” اچھا میں آپ آتی ہوں، آپ جائیں ”
” نہ چندا نہ، میں ادھر کھڑی ہوتی ہوں، آپ منہ ہاتھ دھو کر آئیں ”
کوئی اور ہوتا تو شاید حیا اُس کو” اچھا خاصا ” سنا بھی دیتی مگر یہاں پر حیا کی راحیلہ باجی تھی، جس نے اُسے اپنے ہاتھوں سے پالا تھا. اس لیے وہ چپ چاپ بغیر کسی تماشے کے واشروم چلی گئی، اور دس منٹ بعد باہر بھی آگئی کیونکہ اُسے راحیلہ آنٹی کو انتظار کروانا اچھا نہیں لگ رہا تھا.
**************************
” کہاں جارہے ہو زوہیب، گھر میں اتنے کام ہیں اور تم فرار ہونے کی سوچ رہے ہو ” سعدیہ بیگم نے زوہیب سے کہا جو کہ اپنے بالوں کو جل سے سیٹ کر رہا تھا
” افففف امی، آپ تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہیں، بس ایک ہی دن کا پیار تھا آپ کا” زوہیب نے منہ بناتے ہوئے کہا
” فضول مت بکو، اور صاف صاف بتاؤ کہاں جارہے ہو ”
” تابش کے گھر جارہا ہوں، اُس کی مام نے دن کے کھانے پر بلایا ہے”
” ہاں تو جاؤ بےشک، کس نے منع کیا ہے، مگر حیا کے گھر بھی تو جانا ہے”
” آپ لوگ سالار کے ساتھ چلے
جانا، میں تابش کے گھر سے ہی حیا کے گھر آجاؤں گا”
” کیا ہوگیا ہے،. زوہیب اچھا لگتا ہے لڑکا خود اپنا رشتہ لے کر جاۓ”
” ارے امی اب زمانہ بدل گیا ہے، آپ مجھ پر یقین کریں اور میں جو کہہ رہا ہوں وہی کریں ”
” اچھا یہ تو ٹھیک ہے، مگر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آرہی ”
” کیا بات امی ” زوہیب نے حیرت سے پیچھے مڑ کر دیکھا
” یہی کہ تم ارم کی شادی میں بھی نہیں آسکے حالانکہ وہ تمہاری بہن تھی، اور اب کل سے تم آۓ ہو مگر تم ایک دفعہ بھی اُس سے ملنے نہیں گے اور ابھی بھی اپنے دوست کے گھر جارہے ہو جس کہ گھر تم کل بھی گے تھے”
” اوہو، امی آپ بھی کیا سوچتی رہتی ہیں، میں نے آپ کو بتایا ہے نہ کہ تابش کی ماما نے بلایا ہے، اس لیے جارہا ہوں، اور رہی بات ارم کی طرف جانے کی، وہ میں رات کو چلا جاؤں گا، اب آپ کی اجازت ہو تو جاؤ”
” اچھا میرا دماغ مت کھاؤ، چلے جاؤ بے شک ”
” اللہ حافظ ”
” اللہ حافظ ”
**************************
حیا، جب راحیلہ آنٹی کے ساتھ اپنے کمرے سے نکلی تو باہر ہونے والے مناظر دیکھ کر حیران رہ گئی. سارے ملازم ایک لائن میں کھڑے تھے، اور آسیہ بیگم ان کو حکم دے رہی تھی، آسیہ بیگم کے کہنے کی دیر تھی کہ سارے ملازم اپنے کاموں میں مصروف ہوگے. کچھ صفائی کر رہے تھے تو کچھ گھر کو ڈیکوریٹ کرنے میں مصروف تھے. آسیہ بیگم کو اپنی طرف آتا دیکھ کر حیا ہلکے سے مسکرائی.
” اٹھ گئی ہے، میری گڑیا”
” جی ماما، تبھی تو آپ کے سامنے کھڑی ہوں”
” ہاہاہاہا، اچھا چلو، آج شام کو پہننے کے لیے میں نے بوتیک سے تمہارے لیے کپڑے منگواۓ ہیں، ناشتہ کرکے ایک بار دیکھ لینا”
” اوکے ماما”
” حیا میں نے کبھی تمہاری تعریف نہیں کی، شاید اس لیے کہ مجھے تعریف کرنے ہی نہیں آتی، مگر میں آج کہنے چاہوں گی کہ حیا تم میرا غرور ہو ” آسیہ بیگم نے حیا کو گلے لگاتے ہوئے کہا
” ماما آپ بھی میرا حوصلہ ہیں”
” واہ، آج ہماری بیٹی نے اپنی ماما کی پیار بھرے دو بول سن کر پارٹی چینچ کر لی”
” ہاہاہاہا، نہیں بابا، آپ بھی میرے فیورٹ ہیں ”
” حیا جب تم اس گھر سے چلی جاؤ گی تو کتنا یاد آؤ گی ”
” ابھی کہاں ماما، ابھی تو صرف رشتہ ہی طے ہوگا، شادی تو پانچ چھے سال بعد ہی ہوگی اور کیا پتا، وہ مجھے دیکھنے کے بعد انکار کر دیں ” حیا نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا
” کیوں کریں گے انکار، میری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے، وہ انکار کر ہی نہیں سکتے ” سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” نہیں سلیم، حیا صحیح کہہ رہی ہے، وہ انکار بھی تو کرسکتے ہیں ”
” ارے آسیہ آپ پھر وہی باتیں لے کر بیٹھی گئی ہیں، میں نے کل بھی آپ کو یہی کہا تھا کہ سب اچھا ہوگا، آج بھی یہی کہوں گا کہ اللہ سے اچھی امید رکھیں ”
” اففف ماما بابا آپ لوگ بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گے ہیں، مجھے بھوک لگی ہے، آئیں سب مل کر ناشتہ کرتے ہیں ”
” میں تو ناشتہ کر چکی ہوں ، آپ لوگ کر لو جاکر ”
” واہ ماما، واہ بھتیجے کی محبت میں شوہر اور بیٹی کو بھول گئی”
” بکواس نہ کرو حیا، اور جاؤ یہاں سے،. مجھے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں ”
” اچھھھا، جارہی ہوں ” حیا نے جان بوجھ کر” اچھا” کو لمبا کیا
**************************
” اففف شکر ہے کہ تم آگے، میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہا تھا”
” سوری یار، ٹریفک میں پھنس گیا تھا”
” جناب کوئی اور بہانہ بنا لو، یہ بہانہ بہت پرانہ ہے، اچھا اب جلدی چلو، مام ڈیڈ کب سے تمہارا ویٹ کر رہے ہیں اور تمہارے بغیر ان نے مجھے کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیا ”
” ہاہاہاہا، ہونے والا داماد ہوں، اتنی عزت تو بنتی ہے”
” ہاں یہ تو ہے، اب چلو ”
” ہممم چلتے ہیں ”
زوہیب جب ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا ہے تو اُس کی نظریں رانیہ کو ڈھونڈتی ہے اور نہ ملنے پر وہ ہمت کرکے تابش سے مسکراتے ہوئے پوچھتا ہے
” رانیہ نظر نہیں آرہی، کہاں ہے وہ”
” وہ اپنی دوست کے گھر گئی ہے. اس کی دوست حیا کو آج لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں تو اس لیے وہ حیا کے گھر گئی ہے”
” کون سی دوست، کیا نام لیا ہے تم نے”
” حیا سلیم یار، رانیہ کی وہی دوست جو ہمیشہ غصے سے لال پیلی رہا کرتی تھی”
” ارے ہاں یہ وہ حیا تو نہیں ہے جس کا لانچ ہمیشہ رانیہ کھا جاتی تھی ” زوہیب نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
” ہاں وہی، مجھے تو بس لڑکے پر ترس آرہا ہے، وہ تو لڑکے کو کچا ہی چبا جائے گی، اگر یہ رشتہ طے ہوگیا، مجھے تو اب لڑکے کو دیکھنے کا شوق ہے ”
” تم لڑکے کو جانتے ہو”
” میں، میں کیسے جانتا ہوں ”
” کیونکہ وہ لڑکا اور کوئی نہیں میرا اپنا کزن سالار آفتاب ہے ”
” ککک…. کیا” وہی یہ لمحہ تھا جب تابش کو بے چارے سالار پر ترس آنے لگا ورنہ عام طور پر اُسے سالار کچھ خاص پسند نہیں تھا جس کی وجہ سالار کا بیزار پن تھا. ابھی زوہیب کچھ کہنے ہی والا ہوتا ہے کہ ڈرائنگ روم میں سحرش بیگم داخل ہوتی ہیں.
” السلام علیکم ” زوہیب نے سحرش بیگم کو ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا دیکھ کر اٹھنا چاہا مگر سحرش بیگم کے ہاتھ کے اشارے دیکھ کر رک گیا
” وعلیکم السلام، اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے، بیٹھے رہو، اچھا یہ بتاؤ کیسے ہو آپ ، گھر میں سب کیسے ہیں” سحرش بیگم نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا
” الحمدللہ سب ٹھیک ہیں، آپ سنائیں، آپ کیسی ہیں، انکل کیسے ہیں ”
” الحمدللہ، ہم سب بھی ٹھیک ہیں، آپ کے انکل بس آتے ہیں تھوڑی دیر میں، آپ سے ملنے ”
ابھی زوہیب سحرش بیگم کو کچھ کہنے ہی والا ہوتا ہے کہ ارشد صاحب ڈرائنگ روم میں تشریف لاتے ہیں.
“السلام علیکم” زوہیب نے اٹھتے ہوئے کہا
” وعلیکم السلام، پاکستان کب آۓ ہو ” ارشد صاحب نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا
” انکل کل دن کو ہی پاکستان آیا ہوں”
” او اچھا، اور واپسی کا کیا پیلن ہے”
” ابھی فلحال تو میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، میں اپنا بزنس یہی پر سیٹ کرنا چاہتا ہوں”
“یہ تو بہت اچھی بات ہے، دیکھو زوہیب میں باتوں کو گھما پھرا کر کرنے والا انسان نہیں ہوں، مجھے پتا ہے کہ تم رانیہ سے شادی کرنا چاہتے ہو، مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب تم اپنے گھروالوں کو ہمارے گھر بھیجوں گے،مجھے یاد ہے کہ پیچھلے سال جب تم چھٹیوں پر یہاں آۓ تھے، تب تم نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں رانیہ کی شادی تمہارا بزنس سیٹ ہو جانے کے بعد تم سے کرواؤں گا، اور میں پیچھلے ایک سال سے اُس وعدے کی پاسداری کرتا آیا ہوں حالانکہ مجھے بہت سے نامور بزنس مین کے بیٹوں کے رشتے آۓ ہیں لیکن میں نے ہمیشہ ان کو انکار کیا ہے، مگر میں کب تک انکار کروں گا، آخر کو بیٹی کا باپ ہوں، مجھے امید ہے تم میری بات سمجھ رہے ہو”
” جی انکل میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں، آپ فکر نہ کریں، میں بہت جلد اپنی امی ابو کو آپ کے گھر بھیجوں گا”
” مجھے تم سے یہی امید تھی” ارشد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” باتیں تو ہوتی رہیں گی، پہلے کھانا کھا لیتے ہیں ” سحرش بیگم نے اٹھتے ہوئے کہا
” ہاں جی، چلیں” ارشد صاحب نے بھی ان کی موقف کی تاکید کی
” قسم سے تیرے ڈیڈ بڑی رعب دار شخصیت کے مالک ہیں، ان کو دیکھ کر اچھے خاصے انسان کو ڈر لگنے لگ جاتا ہے” ارشد صاحب اور سحرش بیگم کے جانے کے بعد زوہیب نے موقع پا کر کہا
” ڈیڈ کس کے ہیں” تابش نے مسکراتے ہوئے کہا اور زوہیب کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائنگ روم سےباہر نکل گیا کیونکہ اُسے پتا تھا کہ زوہیب اتنی آسانی سے باہر جانے والوں میں سے نہیں.
**************************