زرنین نے فجر کی نماز سے فارغ ہوکر ہاتھ میں تسبیح تھام لی اور درود پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔آسمان پر ابھی قدرے اندھیرا تھا۔۔۔۔اُس نے تسبیح کو چوما اور جائے نماز اٹھائی
وہ الماری میں رکھ کر کھڑکیوں کے قریب آئی۔۔کھڑکیاں کھلی ہوئی تھی اور ہوا سے پردے ہل رہے تھے۔۔
زرنین نے پردوں کو پیچھے ہٹایا اور آسمان کی جانب دیکھنے لگی۔۔
دن کا آغاز ہوا تھا۔۔۔اندھیرے کی جگہ اب ہلکی ہلکی روشنی نے لے لی تھی۔۔وہ دلچسپی سے قدرت کا بنایا صاف شفاف منظر دیکھنے لگی۔۔۔جو آنکھوں کو سکون بخش رہا تھا۔۔۔۔
اُس کا چہرہ ڈوپٹے میں لپٹا بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔۔
وہ ہمیشہ سے ہی فجر کے بعد آسمان کا نظارہ ضرور کرتی۔۔۔
رب کی قدرت ہر شے میں نظر آتی ہے۔۔۔پھر چاہے وہ طلوع آفتاب کا وقت ہو یا غروب کا وقت۔۔۔وہ کیسے اِس نظام کو ایک دائرے میں لے کر چل رہا ہے۔۔نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور نہ دن رات سے پہلے۔۔ ہر ایک کا اپنا اپنا متعین وقت ہے اور وہ رب کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اپنا کام سرانجام دیتے ہیں۔۔۔۔
لَا الشَّمۡسُ يَنۡۢبَغِىۡ لَهَاۤ اَنۡ تُدۡرِكَ الۡقَمَرَ وَلَا الَّيۡلُ سَابِقُ النَّهَارِؕ وَكُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ
“نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور سب ایک ایک دائرے میں تَیر رہے ہیں کانئات کی ہر چیز میں ایک مقرر انداز اور خاص نظم و ضبط پایا جاتا ہے”(سورۃ یسن :40)
کیسے وہ رات کے سیاہ اندھیرے کے بعد آسمان کو آہستہ آہستہ روشن کرتا ہے۔۔پھر سارے آسمان کو بھر پور روشنی بخشتا ہے۔۔اور کیسے دن کے اجالے کو پھر رات میں تبدیل کرتا ہے۔۔ بےشک اُس کا کوئی ہمسر نہیں۔۔ کسی کہ یہ مجال نہیں کہ کوئی اُس کے کاموں میں دخل کر سکے۔۔۔۔
اللہ ھو اکبر۔۔زرنین کے لبوں سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے۔۔۔وہ چمکتی آنکھوں سے مسکرائی۔۔۔حمید کی بہت سی یادوں نے ایک بار پھر اُس کو اپنے حصار میں لے لیا
زرنین نفاست سے سر پر ڈوپٹا لیے حمید کے پاس بیٹھی تھی۔۔۔وہ اُسے کچھ دنوں سے قرآن کا ترجمہ پڑھا رہا تھا۔۔اور زرنین شوق سے پڑھتی۔۔
آپ کو پتا ہے زرنین۔۔۔حمید نے قرآن بند کرتے کہا
زرنین نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
مجھے فجر کا وقت بہت پیارا لگتا یے۔۔۔پتا یے کیوں
زرنین نے نفی میں سر ہلایا
حمید کو زرنین کی معصومیت پر پیار آیا
کیونکہ اِس وقت آسمان میں ایک عجیب سی کشش ہوتی ہے۔۔۔بندوں کا اپنی نیند قربان کر کے رب کی محبت میں جھک جانا۔۔۔
دن کا رات کے اندھیرے کو چیر کر نکلنا۔۔
آسمان کا سورج کی روشنی سے چمک جانا۔۔۔
روشنی کی کرنوں کا پھلانگ کر زمین پر اترنا
پرندوں کا چہچہانا۔۔۔پھولوں کا ٹھنڈی ہوا میں ہلنا۔۔
یہ سب قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔ حمید مسحور کن انداز میں بول رہا تھا
کتنا میٹھا لہجہ تھا اُس کا۔۔زرنین نے مسکراتے ہوئے باپ کی جانب دیکھا۔۔
بابا کیا جو لوگ اللہ کے منکر ہیں وہ اِس ساری کائنات کے نظام کو نہیں دیکھتے۔۔۔زرنین کے دل میں سوال اٹھا
وہ دن کی شروعات سے لے کر اُس کا اختتام نہیں دیکھتے۔۔کیا اُنہیں محسوس نہیں ہوتا کہ اللہ کا وجود برحق ہے۔۔وہ کیوں پھر اللہ ہی کی بنائی گئی چیزوں کے سامنے جھکتے ہیں۔اور اللہ کے علاوہ دوسرے خدا تلاش کرتے ہیں۔۔زرنین دکھ سے بولی
ہاں کیونکہ ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے۔۔۔وہ ہدایت حاصل نہیں کرنا چاہتے۔۔وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں۔خدا کی قدرت ہر شے میں نظر آتی یے۔کبھی جو غور سے پوری کائنات کو دیکھو تو معلوم ہوگا کہ کتنی عظیم ہستی نے اِس کا نظام تھاما ہوا ہے۔۔ اور وہ لوگ جو دیکھ کر بھی کچھ نہیں سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاہتے ایسے منکروں کے بارے میں
اللہ تعالی خود سورۃ البقرہ میں ارشاد فرماتا ہے
خَتَمَ اللّٰهُ عَلَىٰ قُلُوۡبِهِمۡ وَعَلٰى سَمۡعِهِمۡؕ وَعَلٰىٓ اَبۡصَارِهِمۡ غِشَاوَةٌ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ
“اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹاٹوپ ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب،”(سورۃ البقرہ :7)
زرنین کا دل ہول اٹھا تھا۔۔۔
ایک اور جگہ اللہ فرماتا ہے۔۔حمید پھر سے بولا
زرنین خاموشی سے سننے لگی
فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۚ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ بِمَا كَانُوۡا يَكۡذِبُوۡنَ
“ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بدلا ان کے جھوٹ کا”(سورۃ البقرہ : 10)
ایک خوف کی لہر اُس کے جسم میں دوڑی۔۔۔۔اُس کا جسم کانپنے لگا تھا۔۔۔
حمید نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا
کیا ہوا ہے میری بیٹی کو۔۔حمید نے پریشانی سے استفسار کیا بابا جان۔۔ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے ہمیں مسلمان بنایا ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں۔۔۔اپنے حبیب کا امتی بنایا ہے۔۔۔زرنین کانپتے وجود کے ساتھ بولی
اگر کبھی ہم گمراہ ہوگئے تو۔۔۔اسے ڈر لگنے لگا
اگر کبھی میں کسی غلط راستے پر چلی گئی۔۔اگر کسی آزمائش سے گھبرا کر میں نے۔۔میں نے کوئی گناہ کردیا پھر۔۔وہ سر اٹھائے حمید کو دیکھنے لگی۔۔اُس نے اپنا خدشہ بیان کیا
بیٹا جی جو قرآن پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو گزارتے ہیں وہ کبھی اکیلے نہیں ہوتے۔۔ اگر کبھی کسی بات کی راہنمائی چاہئے ہو تو وہ قرآن سے حاصل کرتے ہیں۔۔قرآن ہمیں سب بتاتا یے۔۔
آزمائشوں سے کیسے گزرنا یے۔۔خوشی میں ہمارا کیا رد عمل ہونا چاہئے۔۔دکھ میں کیسے خود کو ثابت قدم رکھنا ہے۔۔حمید مضبوط لہجے میں پیار سے زرنین کو سمجھاتے ہوئے بولا
اور پھر سب سے بڑھ کر ہمارے لئے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے۔۔انہوں نے ہمارے لیے زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔۔ہمیں ایک سبق دیا یے زندگی گزارنے کا۔۔۔کتنے دکھ جھیلے تھے انہوں نے ہمارے خاطر۔۔کیا کچھ برداشت نہیں کیا۔۔۔حمید کی آنکھوں میں نمی آگئی تھی
زرنین پیچھے ہوکر بیٹھ گئی تھی وہ اب بھی خاموشی سے سر جھکائے سب سن رہی تھی۔۔۔اُس کا دل چاہا رو دے۔۔ کتنے احسان ہیں رب کے۔۔ پہلے مسلمان بنایا پھر اپنے نبی کا امتی بھی بنایا
آپ کو پتا ہے اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔۔اگر اُس کا کوئی بندہ بھٹک جائے۔۔ پھر گناہوں میں مبتلا ہوجائے۔۔ لیکن جب اُسے احساس ہو اور وہ ندامت سے سر جھکائے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو کر معافی مانگ لے تو اللہ اُسے معاف کردیتا ہے۔۔۔اُس جیسا مہربان کوئی نہیں ہوسکتا جو ہمیں ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔۔۔ حمذ نے اپنی آنکھوں کو جھپکا۔۔ نمی چھپانے کیلئے
وہ کچھ دیر خاموش ہوا زرنین اب بھی سر جھکائے بیٹھی تھی
ہمیں بھی رب کی صفت کو خود میں شامل کرنا چاہئے اور معاف کرنا سیکھنا چاہئے۔۔مشکل وقت میں صبر سے کام لینا چاہیے۔۔اور ایمان پر ثابت قدم رہنا چاہئے
بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
حمید نے مزید کہا
زرنین پرسکون ہوگئی تھی۔۔ حمید کا سمجھانا۔۔اُس کا اسلام کی طرف رغبت دلانا ہر روز زرنین کے دل میں محبت بڑھا دیتا۔۔۔۔اُسے اسلام سے محبت تھی۔۔اُسے خود پر فخر تھا کہ وہ مسلمان ہے۔۔۔
مومن کا سب سے قیمتی اثاثہ ایمان ہے۔۔ جو ایمان سے گیا سو دنیا اور آخرت دونوں میں رسوا ہوا۔۔۔حمید نے زرنین کو گال تھپکا
زرنین نے مسکراتی نظروں سے حمید کو دیکھا
بابا آپ اللہ کے بہت قریب ہیں۔۔۔۔زرنین فوراً بولی
اچھا جی۔۔۔حمید نے قرآن کو سینے سے لگایا اور اٹھ کھڑا ہوا
جی بابا۔۔
آپ کتنا پیارا بولتے ہیں۔۔ایک ایک لفظ سے محبت جھلکتی ہے آپ کے۔۔۔زرنین نے تصدیق کی
حمید مسکرا دیا
بابا جان آپ کو پتا ہے جو اللہ کے قریب ہوتا یے نا۔۔زرنین جائے نماز سے اٹھی
اللہ اُس کا دل نرم کردیتا ہے۔۔اُس کے لہجے میں مٹھاس پیدا ہوجاتی ہے۔۔وہ مخلوق خدا کی خدمت کرتا ہے۔۔۔وہ درگزر کرنا جانتا ہے۔۔وہ محبت بانٹتا ہے۔۔زرنین نے جائے نماز اٹھائی اور اُسے تہہ لگایا
پھر تو آپ بھی اللہ کے قریب ہوئی کیونکہ میری بیٹی بھی محبت کرنے والی ہے۔۔۔حمید نے شفقت سے زرنین کے سر پر ہاتھ رکھا
لیکن آپ سے زیادہ نہیں۔۔۔زرنین مسکراتے ہوئے بولی
اتنی اچھی اچھی باتیں کہا سے سیکھتی ہو۔۔حمید مصنوئی حیرت سے بولا
آپ سے اور حازق سے۔۔۔زرنین بے دھیانی میں حازق کا نام لے گئی تھی
اُسے ایکدم شرمندگی ہوئی
واہ بھئی اِس کا مطلب ہوا کہ رخصتی کے بعد حازق آپ کا استاد ہوگا۔۔حمید ہنستے ہوئے بولا
وہ شرماگئی تھی
بابا۔۔۔
میری خواہش ہے کہ میں آپ کی تربیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی سنوار سکوں۔۔۔میں لوگوں کو دکھاؤں کہ میری پرورش ایک ایسے باپ نے کی ہے جو اللہ کا خاص بندہ ہے۔۔۔جسے اللہ کا قرب حاصل ہے۔۔۔زرنین جائے نماز بازو پر لٹکائے کھڑی تھی
بیٹا جی اللہ ہم سب کے قریب ہے۔۔وہ ہمارے دلوں میں بستا یے۔۔بس ایک قدم اُس کی طرف بڑھاؤ وہ دس قدم آپ کے قریب ہوگا۔۔۔۔
زرنین نے حمید سے قرآن پکڑا اور الماری میں جائے نماز اور قرآن کو احتیاط سے رکھا
میں آپ کیلئے چائے بناؤں۔۔۔؟وہ الماری بند کر کے مڑی
جی ضرور بنائیں بلکہ ایک کام کرو۔۔ حمید بیڈ پر بیٹھ گیا
زرنین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اُس کے پاس آئی
آج حازق کو بھی بلا لو۔۔اُسے کہنا کہ اگر ہوسکے تو بھائی صاحب اور فریحہ بھابھی کو بھی لے آئے۔۔سب مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔۔حمید نے ہدایت دی
جی اچھا۔۔زرنین سر اثبات میں ہلاتی وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی
اُس نے حازق کو فون کرنا تھا۔۔
#############
اگر تم نے اپنی زبان سے ایک لفظ اور نکالا تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔۔۔۔ رشید دھارتے ہوئے فریحہ کے قریب آیا
فریحہ مضبوط قدموں سے کھڑی رشید کی خوف دلاتی آنکھوں میں دیکھنے لگی
آپ اب چاہے جو مرضی کر لیں میرا منہ بند نہیں کرواسکتے۔۔وہ بھی اونچی آواز میں بولی
آپ کے ساتھ رہ کر کونسا سکھ پایا ہے میں نے کبھی۔۔۔آپ نے تو کبھی میرے بچے کو بھی محبت نہیں کی۔۔۔۔کل تک تو میں اسے اپنی قسمت سمجھ کر قبول کرتی رہی لیکن اب مجھے گوارا نہیں کہ میں ایک قاتل کے ساتھ مزید رہ سکوں۔۔ فریحہ مضبوط لہجے میں بولی۔۔ انداز دو ٹوک تھا
رشید جو فریحہ سے ڈر کر چپ رہنے کی توقع کر رہا تھا ایسے جواب پر ششردہ سا رہ گیا
اور آپ کا یہ سچ۔۔ یہ گھٹیا چہرہ میں دکھاؤں گی دنیا کو۔۔ میں دوں کی آپ کے خلاف گواہی عدالت میں۔۔۔فریحہ نے نخوت سے رشید کو دیکھتے ہوئے کہا
تمہاری اتنی ہمت۔۔۔ رشید غصے سے فریحہ کی جانب آیا اور زور سے اُس کا منہ دبوچ دیا
فریحہ درد سے کراہنے لگی تھی۔۔
وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرے گی۔۔۔وہ رشید کو اُس کی اصلیت دکھانا چاہتی تھی
رسید نے جھٹکے سے فریحہ کو چھوڑا وہ منہ کے بل زمین پر گری تھی
ہونٹوں سے خون نکلنے لگا تھا
تو دے گی میرے خلاف گواہی۔۔ہاں تو دے گی۔۔ رشید نے زمین پر پڑے اُس کے وجود کو ٹھوکر ماری
فریحہ نے اٹھنے کو کوشش کی لیکن وہ پھر سے گر گئی
تجھ جیسی عورت تو میری جوتی کے بھی لائق نہیں ہے۔۔اور تجھے کیا لگتا یے میں اتنی آسانی سے طلاق دے کر تجھے رہا کردوں گا۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔وہ چلاتے ہوئے بولا
مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوتی ہے کہ میں نے آپ جیسے شخص۔بلکہ ایک گھٹیا انسان جو کہ انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہے اُس کے ساتھ اپنی زندگی کے اتنے سال گزران ہیں۔۔۔وہ زمین پر پڑی نفرت سے رشید کی جانب دیکھ کر بولی
رشید کی رگیں غصے سے تن چکی تھی۔۔ وہ آج خود کو بےبس محسوس کر رہا تھا
میری باتیں سنتی ہے چھپ چھپ کر۔۔۔ قسم سے اگر میں تجھے کل رات دیکھ لیتا تو اسی وقت تیرا حشر برا کر دیتا۔۔ ۔۔وہ غصے سے تنی رگوں کے ساتھ بولا اور زور سے فریحہ کے چہرے پر تھپر دے مارا
انگلیوں کے نشان فریحہ کے چہرے پر چھوٹ گئے تھے
اُس کی آنکھوں سے لہو ٹپک رہا تھا
حازق گھر سے باہر تھا۔۔ وہ شادی کا سوٹ لینے گیا تھا زرنین کے ساتھ۔۔دو دن بعد رخصتی تھی۔۔اماں جان نے دونوں کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنی ساری شاپنگ خود کریں۔۔ وہ فریحہ کو بھی ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا لیکن فریحہ نے طبیعت خراب ہے کہہ کر دونوں کو بھیج دیا تھا۔۔۔۔وہ ساری رات بے سکون رہی تھی۔۔ صبح فجر کی نماز پڑھ کر اُس نے گرگرا کر رب سے دعا مانگی تھی۔۔وہ سب کو سچ بتانے کا فیصلہ کر چکی تھی
حازق کے جاتے ہی رشید فریحہ کے کمرے میں داخل ہوا۔۔ اُسے ایک ملازم نے بتایا تھا کہ فریحہ نے اُس کی ساری باتیں سن لی ہیں۔۔
وہ ڈھونس اور رعب جما کر فریحہ کا منہ بند کروانا چاہتا تھا۔۔
اُسے لگا تھا کہ فریحہ ایک بار پھر ڈر کر سہم کر رہ جائے گی لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کا برا وقت شروع ہوچکا تھا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...