کوانٹم مکینکس ہمیں ایٹم کی دنیا کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے لیکن تمام سوالات کا جواب نہیں دیتی۔ مختصراً یہ کہ کوانٹم مکینکس دو اقسام کی خاصیتوں کی پیشگوئی اور وضاحت کرتی ہے۔ انفرادی سسٹم کی خاصیتوں کے بارے میں اور بہت سے انفرادی سسٹم کی اوسط کے بارے میں۔ اور ان میں بڑا فرق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم عام دنیا میں اوسط کو افراد کی خاصیتوں کو جمع کر کے نکالتے ہیں، لیکن کوانٹم مکینکس میں یہ الٹ ہے، اور یہی کوانٹم مکینکس کا بڑا اسرار ہے۔
کوانٹم مکینکس یہ نہیں بتا سکتی کہ ایک خاص الیکٹران کہاں ملے گا۔ کیونکہ یہ اوسط کے ساتھ کام کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بہت سے معاملات میں اوسط کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں لوگوں کا اوسط قد کتنا ہے؟ اگر تمام پاکستانیوں کے قد کو جمع کر دیں اور اس کو پاکستانیوں کی تعداد پر تقسیم کر دیں تو اوسط نکل آئے گی۔
یہ اوسط افراد کے قد سے ہی نکلی ہے۔ جب ہم فرنیچر یا گاڑی کو ڈیزائن کرنا چاہیں تو ہم اوسط کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں سٹیڈرڈ ڈیوی ایشن درکار ہوتی ہے۔ یعنی کہ اس عدد میں آبادی میں کتنا پھیلاوٗ ہے۔ ان کی مدد سے ہم گاڑی کو ڈیزائن کر سکتے ہیں کہ وہ پچانوے فیصد آبادی کے لئے آرام دہ ہو۔
یہاں پر جب انفارمیشن ہم نظرانداز کرتے ہیں تو اپنی سہولت کے لئے۔ لیکن میرا اور آپ کا قد اس اوسط کا حصہ ہے۔ اور یہ ایک معین عدد ہے۔
لیکن فرض کریں کہ ہر بار جب ہم کسی کا قد ناپتے ہیں تو مختلف جواب نکل آئے؟ اگر ایسا ہو تو اب ہمارے پاس رینڈم نس کا عنصر اصل میں موجود ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ اگلی بار پیمائش کرتے ہوئے وہ کتنا لمبا نکل آئے گا۔ کوانٹم فزکس میں کچھ ایسا ہی ہے۔
تو پھر یہ اوسط کیا ہے اور کیا بتاتی ہے جب ہمارے پاس فرد کی کہانی ہی نہیں؟
کوانٹم مکینکس اوسط کے بارے میں بالکل ٹھیک ٹھیک پیشگوئی کرتی ہے۔ لیکن ایک فرد کے بارے میں بالکل بھی نہیں۔ اسی وجہ سے کوانٹم مکینکس کی مدد سے ہم کُل کے بارے میں سب کچھ جان سکتے ہیں لیکن جزو کے بارے میں کچھ بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم مکینکس کا سب سے ناقابلِ فہم پہلو یہ ہے کہ سسٹم دو طریقے سے تبدیل ہو سکتا ہے۔ (اس پر پہلے بات ہو چکی ہے)۔ زیادہ تر وقتوں میں کوانٹم حالت کا ارتقا “پہلے رول” کے مطابق ڈیٹرمنسٹک طریقے سے ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کی پیمائش کی جائے تو اس کا ارتقا بالکل مختلف طریقے سے “دوسرے رول” کے تحت ہوتا ہے۔ پیمائش امکانات کی رینج میں سے ایک جواب دیتی ہے۔ اور کوانٹم حالت اس ویلیو پر جمپ کر جاتی ہے۔
پہلا رول مسلسل ہے اور ڈیٹرمنسٹک ہے۔
دوسرا رول یکایک ہے اور پرابیبلسٹک ہے۔
کوانٹم حالت پیمائش کے ساتھ ہی جمپ کر جاتی ہے لیکن کس حالت پر؟ اس کی پیشگوئی صرف امکان کے حساب سے کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگ جب ان دو الگ رولز کا پڑھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں۔ اور یہ حیرت بے جا نہیں۔ پہلی چیز جو معمہ ہے، وہ یہ کہ پیمائش میں ایسی خاص بات کیا ہے۔ کیا پیمائش کا آلہ اور پیمائش کرنے والے خود ایٹموں سے نہیں بنے جن پر پہلا رول لاگو ہونا چاہیے؟
پہلا رول بتاتا ہے کہ کوانٹم سسٹم وقت میں کس طرح تبدیہ ہوتا ہے۔ اور یہ کام اسی طرز کا ہے جیسے نیوٹن کے حرکت کے قوانین ہیں۔ یہ کوانٹم فزکس سے قبل کی ڈیٹرمنسٹک فزکس ہے۔ آپ ایک ابتدائی حالت لیتے ہیں اور اس سے ایک آوٹ پٹ والی حالت نکل آتی ہے۔ اس میں امکان کا کوئی عمل دخل نہیں۔
لیکن پیمائش کے وقت دوسرا رول ایسا نہیں۔ جس مقدار کی پیمائش کی جائے، اس کی ایک خاص ویلیو نکلتی ہے اور حالت اس کے مطابق ہو جاتی ہے۔
دوسرا رول یہ نہیں بتاتا کہ یہ ویلیو کیا ہو گی۔ لیکن یہ بالکل ٹھیک ٹھیک بتا دیتا ہے کہ کیا ویلیو نکلنے کا کتنا امکان ہے۔ یہ والا رول ہے، جس وجہ سے کوانٹم مکینکس میں امکان داخل ہوتا ہے۔
لیکن کوانٹم مکینکس کے مطابق کسی ایک پراسس میں پہلے اور دوسرے رول کا اطلاق اکٹھے نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ دونوں رول ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ پیمائش کو نیچر کے دوسرے پراسسز سے الگ طریقے سے دیکھنا پڑتا ہے۔
لیکن اب اگر آپ رئیلسٹ ہیں تو پیمائش تو صرف ایک فزیکل عمل ہے۔ اس میں کچھ ایسا سپیشل نہیں جو اسے نیچر کی کسی بھی دوسرے چیز سے بنیادی طور پر مختلف کر دے۔ اور یہ وجہ ہے کہ رئیلسٹ فریم ورک میں رہتے ہوئے پیمائش کو خاص سٹیٹس دینے کا جواز دینا بہت مشکل ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ کوانٹم مکینکس کی رئیلزم کے ساتھ دوستی کروانا آسان نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے، ہمارے پاس یہ سوال رہ جاتا ہے۔ کیا ہم ان تضادات اور معموں کو بس ایسی ہی قبول کر لیں گے۔ یا پھر ہم سائنس سے اس سے زیادہ کی خواہش اور توقع رکھتے ہیں؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...