بھابھی کے ساتھ جا کر اماں نے سرکاری اسپتال سے ٹیسٹ کروائے تھے ٹیسٹ ٹھیک نہیں تھے یا انہیں کرنے اور پڑھنے والے ڈاکٹر… سرکاری اسپتال سے ہی انہیں دوائیں بھی مل گئیں… وہ کھاتی رہیں… درد پھر بھی ٹھیک نہیں ہوا… جیسے تیسے اسکول چلی جاتیں… آ کر سو جاتیں… نہ ظاہر کرتیں… نہ ہی بتاتیں کہ کتنا درد ہے… بس دوا کھا لیتیں… درد کو چھپائے رکھتیں…
“ابھی ٹھیک ہو جائے گا…… ابھی ہو جائے گا…” کرتے کرتے انہیں باورچی خانے میں چولہے کے پاس پہلا ہارٹ اٹیک ہوا… انہیں اٹھا کر اسپتال لے جانے تک دوسرا ہوا… جمال اور اسد پریس گئے تھے… افق ہاتھ پیر مسلتی رہی… بھابھی گود میں سر رکھے بیٹھی رہیں… جھاگ سی ان کے منہ سے نکلنے لگی…. بےجان سی ہو گئیں…
“اماں……!” وہ پاگلوں کی طرح انہیں پکار رہی تھی…
اور اس وقت اسے معلوم ہوا کہ دنیا میں آگ کیسے لگتی
ہے… جسم سے جان کیسے نکلتی ہے… بےسہارا رہ جانے کا اصل مطلب کیا ہے… قیامت کسے کہتے ہیں…
ایمرجنسی میں تیسرا اٹیک ہونے سے ڈاکٹرز نے انہیں بچا لیا… بھابھی کے شوہر اور ان کے سسر ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتے رہے… وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی… بھابھی خود حالات کے پیش نظر بری خبر کے لیے تیار بیٹھی تھیں…
دو دن اماں ایمرجنسی میں رہیں… ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کھری کھری سنا رہا تھا…
“جب مرنے کے قریب ہوتے ہیں تو لے آتے ہیں… تیسرے اٹیک سے کیسے ہم نے بچایا ہے… ہم ہی جانتے ہیں… ابھی بھی ان کی حالت بہت پیچیدہ ہے… نہ معلوم کن ڈاکٹروں کے پاس ان کا علاج ہوتا رہا ہے…
بھابھی اور ان کے شوہر سر جھکائے سنتے رہے… ماموں کو فون کر دیا تھا… وہ ایک’ دو دن میں آنے کا کہہ رہے تھے… چچا دو گھنٹے گزار چکے تھے… اکلوتی پھوپھی ملتان میں رہتی تھیں… فون کر کے انہوں نے بھی حال چال پوچھ لیا تھا… جمال اور اسد کو بھابھی نے ناشتا کرا دیا اور اس کے لیے بھی بنا کر ان کے ہاتھ اسپتال بھیج دیا… دوپہر کے بعد بھابھی بھی آ جاتیں… شام کو ان کے شوہر آ جاتے… ڈاکٹر سے بات کرتے… ضروری دوائیاں لا دیتے… اسد اور جمال کے پریس کے مالک نے پیسوں سے کچھ امداد کی تھی… وہی پیسے استعمال میں آ رہے تھے… تین دن سے وہ بہن’ بھائی سہمے سہمے آنے والے وقت سے ڈرتے رہے کہ اب کیا ہو…… اب کیا ہو جائے… ان کی پیاری صورتیں مرجھا گئیں… ان کی اما. ایمرجنسی میں تھیں… زندگی اور موت کے
درمیان… زندگی کو جھیلنے کے لیے وہ تین اکیلے تھے…. کم تھے…
اسد اور جمال اپنی ماں کی ہمت اور حوصلے کے سکھائے سارے سبق بھول گئے اور افق کے سینے سے لگ کر خوب روئے… بار بار اس سے پوچھتے…
“اماں ٹھیک ہو جائیں گی نا……. باجی! بتاؤ نا’ کب ٹھیک ہوں گی؟”
باجی خود سر ہلا کر روتی رہتی… ان تین دنوں میں اس نے بار بار اپنے سر پر آسمان گرتے دیکھا… خود کو بھرے بازار میں بےیارومددگار کھڑے دیکھا… جنگل میں گم ہوتے
دیکھا… اس پر دکھ کا ہر احساس ہو ہو کر گزرا… ہر احساس نے اسے پٹخ پٹخ مارا… ڈر کے مارے اس کا اپنا دم نکل گیا… اس نے دل سے یہ خواہش کی کہ کاش! اپنی ماں کی جگہ پر وہ ہوتی… تین دن اور تین راتیں وہ احساسات کے لمبے لمبے سفروں سے ہو کر آئی… دعائیں مانگتی رہی… گڑگڑاتی
رہی…
آس پاس کے چند دور و نزدیک کے رشتےدار آ کر دیکھ کر چلے گئے… اماں کے اسکول کی پرنسپل آئیں… اسٹاف آیا… ان سب کے اس طرح آنے پر افق اور ڈر گئی… تین دن بعد اماں کو وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا… ایک ہفتے بعد وہ گھر آ گئیں… ان سمیت گھر میں سب کو چپ لگ گئی…
ماموں فیصل آباد سے ایک اور بار ہو کر چلے گئے… اس کا جی چاہا کہ ماموں کے قدموں میں گر جائے…
“خدارا ہماری مدد کیجئے… ڈاکٹر نے اتنی خطرناک باتیں کی ہیں اور نہیں تو آپ زیادہ پڑھے لکھے ہیں…چل کر ڈاکٹر کی بات اچھی طرح سے سمجھ لیں… وہ تو نہ جانے کیا’ کیا کہہ رہے ہیں… کیا واقعی سچ کہہ رہے ہیں؟”
اتنے سوال تھے افق کے پاس… اس نے چند ایک پوچھے… ماموں نے اسے اچھے سے تسلی دے دی…
……… ……………… ………
“کچھ بنا افق؟”
اس نے نفی میں سر ہلایا… سر پھر گھٹنوں میں دے لیا…
“ماموں کیا کہتے ہیں؟”
“وہ کہتے ہیں… علاج سے اچھا پرہیز ہے… اچھی خوراک کھائیں… دوا لیں… ورزش کریں… ڈاکٹروں کی تو عادت ہوتی ہے بکواس کرنے کی…” وہ رٹے ہوئے انداز میں بولی…
“اور چچا……؟ انہیں بلاؤ’ یہاں…”
“انہوں نے کہا کہ پیسوں کا انتظام ہو جائے تو میں انہیں یہاں بلا لوں… وہ ان کے ساتھ چلے جائیں گے…”
“اب کیا ہو گا افق؟” وہ بےچاری بہت گھبرائی اور پریشان تھیں… افق کی ماں’ اپنی منہ بولی خالہ کے لیے…
افق ان کی طرف دیکھ کر رہ گئی… پھر رونے لگی…
“بھابھی جی! کچھ کر دیں… میری اماں کو… کچھ ہو نہ جائے…”
بھابھی بےچاری خود سفید پوش گھرانے سے تھیں… اس سب کے دوران ان کے بھی چند ہزار لگ گئے تھے… مزید اور بھی چند ہزار ہی دے سکتی تھیں… انہوں نے ہی اسلام آباد بات کی… وہ وہاں سی ایم ایچ میں ملازم تھا… اس نے اپنے بی ہاف پر تھوڑے بہت ڈسکاؤنٹ کی بات کی… لیکن اس سب پر بھی انہیں بائی پاس سرجری کے لیے کافی پیسے چاہیے تھے… ڈاکٹر نے صاف صاف کہا تھا کہ اگر مریض کو مارنا ہے تو انتظار کرو…چند ماہ ہی لگیں گے… اگر زندگی چاہتے ہو تو فوراً بائی پاس کروا لو… یہ بات بھابھی کے شوہر نے اپنے گھر بلا کر کی تھی… رپورٹس ان کے پاس تھیں… انہوں نے اسلام آباد اپنے سالے سے بھی بات کر لی تھی… وہ جتنی مدد کر سکتا تھا… کرنے کے لیے تیار تھا… اپنے گھر رکھنے’ خدمت کرنے’ باقی بھاگ دوڑ کرنے کے لیے تیار تھا…
باقی مسئلہ صرف پیسہ تھا… اسکول کی میڈم اور اسٹاف پہلے ہی پندرہ ہزار دے چکے تھے… اماں کا علاج ایک نیم سرکاری اسپتال سے ہوا تھا… بہت سے اخراجات انہیں خود اٹھانے پڑے تھے… اسد اور جمال بیس ہزار اور لے آئے تھے اپنے استاد سے… ان کے خود کے پاس تو صرف تین ہزار روپے تھے…اب کوئی ایسا شخص نہیں بچا تھا’ جس سے وہ پیسے لے سکتے تھے…
افق اسکول کی میڈم کے پاس ہی گئی… انہوں نے دس ہزار اور سے دیے تھے… جو مدد کرنے والے تھے… وہ پیچھے نہیں ہٹ رہے تھے… لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کی اپنی چادریں محدود تھیں اور جن کی محدود نہیں تھیں’ وہ مدد کرنے والے نہیں تھے… ان کے پاس سونے کے نام پر ایک چھلا بھی نہیں تھا کہ جسے بیچ دیتے… گھر کا محدود سامان تھا… محدود تعلقات تھے اور بس….. اماں بستر کی ہو کر رہ
گئیں…
ایک ایک روپیہ بچانے کے کیے وہ تین بہن’ بھائی ایک ہی وقت کی روٹی پر آ گئے… وہ بھوکے بھی رہ سکتے تھے… انہیں اپنی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا… پیٹ تو بالکل بھی نہیں تھا… اماں کے لیے ڈاکٹر نے ایک چارٹ دیا تھا… خوراک کا……. انہیں ہر صورت وہی دینا تھا…
رات گئے اماں سو جاتیں تو تینوں بہن’ بھائی باورچی خانہ بھی بیٹھ کر چپکے چپکے باتیں کرتے…
“افق باجی! کچھ کرو نا…؟ جمال کو ڈاکٹر کی بات پر بڑا یقین تھا… اس نے چند مہینے ہی کہا ہے تو ایسا ہی ہو گا…
محبت اور پناہ کے نام کے اکلوتے سہارے کے بارے میں اگر کوئی ایسی پیش گوئی کر دے تو کیا ہوتا ہے… بہت کچھ ہوتا ہے… بس وہ نظر نہیں آتا… جن پر سے ہو کر گزرنا ہے… انہیں ہی معلوم ہوتا ہے…
“میں دعا کرتی ہوں…” تسلی کے نام پر اس کے بس یہی الفاظ تھے…
“وہ تو میں بھی کرتا ہوں…” اسد بولا…
وہ تینوں ایسے نظر آتے تھے… جیسے تینوں کا بالٹی
بالٹی بھر خون نکال کر بہا دیا گیا ہو…
“جاؤ! سو جاؤ تم…..”
“مجھے ڈر لگتا ہے افق باجی!” انارکلی کی سنسان سڑکوں اور گلیوں سے رات گئے اکیلے آنے والے کو اب ڈر لگ رہا تھا…
“مجھے بھی لگتا ہے…” جمال بھی بولا…
“مجھے بھی…..” افق نے سوچا….. بولی نہیں…
وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے… اب وہ بار بار اٹھ اٹھ کر دیکھیں گے کہ ان کی سانسیں چل رہی ہیں نا… وہ کچن میں ہی چوکی پر بیٹھی رہ گئی… فون اس کی گود میں تھا… اس نے عدن کا نمبر پھر سے ملایا… فون بند جا رہا
تھا… جب اماں ایمرجنسی میں تھیں تو تین دن بعد اس نے فون کیا تھا… فون تب بھی بند ہی ملا تھا… فون اس سے ایک ہفتہ پہلے سے ہی بند مل رہا تھا… اس سے پہلے اس کے ایک’ دو میسجز آگئے تھے… اس نے بتایا تھا کہ “وہ آج کل بہت مصروف ہے اور نہ جانے کب تک فارغ ہو… وہ خود رابطہ کرے گا…”
جس وقت افق باورچی خانے میں بیٹھی تھی… اس وقت تک وہ اپنے نکاح سے فارغ ہو چکا تھا… اس کی چند دوسری دوست لڑکیوں تک اس کی شادی کی خبر پہنچی تو وہ اسے فون پر فون کرنے لگیں… یہ وہ چند لڑکیاں تھیں… جن کا خیال تھا کہ وہ ان سے شادی کرے گا… وہ اسے اپنی فیملی سے بھی ملوا چکی تھیں… عدن کے پاس ایک پرسنل نمبر بھی تھا’ جو صرف فیملی اور چند قریبی دوستوں کے لیے ہی تھا… دوسرے نمبر پر اس کے ہر طرح کے رابطے تھے… لیکن کسی نہ کسی طرح ان لڑکیوں نے پرسنل نمبر تک بھی رسائی حاصل کر ہی لی…
ان کے نمبر حاصل کرتے ہی اس نے پرسنل سم کو جس سے وہ افق سے بات کیا کرتا تھا… اپنے کمرے کے باتھ روم کے فلیش میں بہا دیا… وہ نیا اکلوتا نمبر استعمال کرنے لگا… پہلے اس نے ایک بار سوچا کہ وہ افق کو فون کرے اور اسے بتائے کہ اس کے پاپا نہیں مان رہے… بہت بیمار ہو گئے ہیں اور ان کی صحت کی خاطر وہ ان کی پسند سے شادی کر رہا ہے…
پھر اس نے اس خیال کو عملی جامہ نہیں پہنایا… ایک تو اس کے پاس وقت نہیں تھا… دوسرا افق کے لیے تو بالکل نہیں تھا اور پھر اس نے افق کے ساتھ کیا ہی کیا تھا؟ ہاتھ تک تو کبھی اسے لگایا نہیں تھا… صرف بات ہی کی تھی
نا… نہ کبھی ڈیٹ پر لے کر گیا…
یہ سب سوچتے اس کے اندر کہیں ایک ہلکی سی خلش ضرور تھی……. بےجد معمولی…… اور یہ معمولی سی خلش بھی دلہن بنی ماریہ کو دیکھ کر جاتی رہی…
شادی کے دوسرے ہی دن وہ لوگ دبئی آ گئے… اتنی سی بات تھی… اس سب میں نہ کوئی نقصان ہوا’ نہ ہی گھاٹا… جب ہم کسی ایک چیز سے دور ہوتے ہیں تو کسی دوسری چیز کے قریب ہو ہی جاتے ہیں… یقین جانیے یہ فلسفلہ بالکل سچا ہے… جیسے رات کے بعد دن کا آنا… یہ فلسفلہ عدن جیسے لوگوں کے لیے ہے… ان ہی پر صادق آتا ہے…
……… ……………… ………
افق کے پاس اب کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں بچا تھا’ جس کے پاس جا کر وہ پیسے لے آتی… مدد اور سہارے کے نام پر اس کے پاس ایک ہی انسان تھا…
“اماں…”
اسپتال سے آئے اماں کو تین ہفتے گزر گئے تھے… ان کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی… سفید رنگ پیلا ہو گیا تھا… اس دوران وہ ایک بار پھر چیک اپ کے لیے گئی تھیں… ڈاکٹر نے پرانی ہی بات کی افق سے… افق کا منہ لٹک گیا…
سرکاری اسپتال والوں نے تو پہلے ہی اماں کو مار دیا تھا “سب ٹھیک ہے……. سب ٹھیک ہے…” کہہ کہہ کر وہ نہ درد کو پکڑ سکے… نہ ہی مرض کو……. اب وہ کیا کریں گے… اس کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا… افق پاگلوں کی طرح امان کو فون کرتی رہتی تھی… میسج لکھتی… لیکن کوئی جواب نہ آیا… وہ خود اتنی پریشان تھی کہ اس نے سوچا ہی نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے… اس کافون اتنے دنوں سے کیوں بند ہے…
چوتھے ہفتے اماں کے سینے میں درد اٹھا… بھابھی کے ساتھ حواس باختہ وہ ڈاکٹر کے پاس بھاگے… وہ دونوں کی شکل دیکھ کر رہ گیا… جیسے کہہ رہا ہو… “اب بھگتو…”
رات بھر اماں درد کو برداشت کرتی رہیں… آہ نہیں کر رہی تھیں… لیکن ان کا وجود بتا رہا تھا کہ ان کے اندر کیا چل رہا ہے… وہ تینوں دم سادھے ان کے پاس بیٹھے تھے… اسد اور جمال ان کی ٹانگیں دبا رہے تھے… افق کبھی ہاتھ سہلاتی’ کبھی سینہ….. رات ان سب نے سولی پر گزاری…
صبح ہوتے ہی افق بڑی سی چادر میں لپٹ کر ڈی ایچ اے آ گئی… یہ خیال اسے پہلے بھی آیا تھا… لیکن چاہ کر بھی وہ جا نہ سکی… ہر روز یہی سوچتی آج تو امان ضرور ہی فون کرے گا…
آج آج کرتے کئی ہفتے گزر گئے… اس کے گھر سے اس کے بارے میں معلوم ہو سکتا تھا… کوئی دوست مل جائے گا… ورنہ کوئی ملازم تو ضرور ہی ہو گا… کوئی پیغام دے سکتی ہے وہ انہیں… رکشہ کروا کر وہ عین اس کے گھر کے باہر رکی… بیل دی… چھوٹا دروازہ کھولا گیا…
“اسلام علیکم جی…….. وہ امان ہے؟” چوکیدار کی بڑی بڑی مونچھیں دیکھ کر وہ گھبرا گئی…
“امان…….” اس نے سوچا…… “گورا صاحب……؟”
گورا تو وہ بہت تھا… افق نے سر ہلا دیا… “وہ ہیں؟”
“نہیں…”
“کہاں ہیں وہ……؟”
“وہ صاب لوگ ہیں… نہ ہمیں بتاتے ہیں… نہ ہم پوچھتے
ہیں…” خان نے غصہ نہیں کیا’ لیکن چڑ گیا…
“ان کا کوئی فون نمبر ہو تو مجھے دے دیں جی! میں بہت پریشان ہوں…”
اتنا کہتے اس کی آواز بھیگ گئی اور اس کے ساتھ ہی پورچ میں تھوڑا سا شور ہوا… چوکیدار نے جھٹ بڑھ کر گیٹ کھول دیا… طویل پورچ سے ایک کار آتی نظر آئی… کار پر نظر پڑتے ہی افق چوکیدار سے یہ پوچھنا چاہتی تھی کہ “کار میں کون ہے….. کیا اس کا کوئی دوست……” لیکن چوکیدار اندر کی طرف دوسرے دروازے کے پاس کھڑا تھا اور وہ گیٹ کے باہر چھوٹے دروازے کی طرف… لمبی شان دار کار باہر نکلی… پچھلی سیٹ پر بیٹھے سیاہ’ سفید’ گھنی اوپر کی طرف اٹھی مونچھوں والے شخص کی نظر ایسے ہی لمبی سی چادر میں لپٹی لڑکی پر پڑ گئی… اس نے نظر پڑتے ہی کار کو روکنے کا اشارہ دیا… چوکیدار بھاگا کھڑکی تک گیا…
“کون ہے یہ؟”
“گورا صاحب کا پوچھ رہی ہے جناب…”
“عدن کا؟” یہ کہتے ایک اور نظر اس پر ڈالی… دراصل جو پہلی نظر پڑ گئی تھی’ وہی واپس مشکل سے پلٹائی تھی… اپنے زمانے میں وہ رنگین مزاج مشہور تھے… آج بھی اکثر اٹھی نظریں اس خطاب کی گواہی دے جاتی تھیں… سیاہ چادر میں پریشان صورت حسن پر دوسری نظر ڈالتے ہی وہ سمجھ گئے کہ یہ کون ہے… اپنے خون کو جانتے تھے… اگر وہ اس پر فدا ہوا تھا تو غلط نہیں ہوا تھا…
ڈرائیور نے کار واپس پیچھے کر لی… کار سے اتر کر وہ اندر چلے گئے… افق کو لے کر چوکیدار اندر آ گیا…
اس نے صرف اتنا ہی کہا “آؤ ہمارے ساتھ…” یہ نہیں بتایا کہ یہ صاحب کون ہیں…
ڈرائنگ روم کے چوڑے لکڑی کے منقش دروازے کے عین سامنے بڑے سفید رنگ کے صوفے پر وہ مونچھوں والا’ دونوں ہاتھوں کو صوفے کی پشت پر دائیں بائیں پھیلائے’ دائیں پیر کو بائیں گھٹنے پر رکھے شان سے بیٹھا تھا…
نظر پڑتے ہی افق نے چادر سنبھالتے سلام کیا… ان آنکھوں کی طرف اس کی پہلی نظر ملی تو دوبارہ ام کی طرف دیکھتے رہنے کی اس کی ہمت جاتی رہی…
“بیٹھو!” سلام کا جواب نہیں دیا… ہاں اس بار اسے نیچے تک دیکھا…
ان کے سامنے رکھے ایک صوفے پر وہ بیٹھ گئی…
“اب بولو…….”
اس انداز پر وہ گھبرا گئی… کیا بولے…… کہ امان کہاں ہے؟ اپنے باپ کی عمر کے شخص کے سامنے…… کیسے؟
“کون ہو تم لڑکی؟” لہجے میں اس سوال سے ہی اتنی ہتک نمایاں کر دی گئی کہ اس کی رہی سہی ہمت جاتی رہی…
“افق…….” وہ بمشکل بولی… نظریں لکڑی کے چمکتے فرش پر تھیں…
“نام سے مجھے مطلب نہیں ہے… کام بولو… کون ہو’ کیا ہو’ یہاں کیوں آئی ہو؟” کمال کے فنکار بنے تھے اس وقت… جان بوجھ کر ہتک آمیز انداز اپنا رہے تھے… وہ بالکل ہی ٹھس ہو گئی… جی چاہا’ بھاگ جائے…
“مجھے امان سے ملنا تھا جی…” جب وہ کمزور سی نالائق سی ہو جاتی تو بہت جی’ جی’ کرتی…
“امان کون؟” وہ جانتے تو تھے کہ ان کے سیالکوٹیے بیٹے نے ایک عدد فیشن ایبل نام رکھا ہوا ہے اپنا’ لاہور شہر میں… لیکن انجان بن گئے..
اب وہ سٹپٹا گئی… اسے لگا… سامنے بیٹھا شخص ضرور ہی امان کا باپ ہے… ورنہ کوئی انکل ہو گا… اس کے گھر میں اس کے جاننے والے ہی ہوں گے نا…
“عدن…” اس نے گھگھیا کر اس کا نام لیا’ امان نے اسے اپنا اصل نام بتا تو دیا تھا… ساتھ ہی منع بھی کیا تھا کہ وہ اسے کبھی اس نام سے نہ پکارے اور اصل نام اس نے اسے دیکھنے کے بعد بتایا تھا… ورنہ اکثر لڑکیاں تو اس کا اصل نام جانتی ہی نہیں تھیں…
“عدن؟” حیران ہونے کی اداکاری کی… “تمہارا کیا لگتا ہے وہ؟ کیسے جانتی ہو تم اسے؟”
وہ جینز’ ٹی شرٹ میں کٹے بالوں اور بنا دوپٹے کے آئی ہوتی تو اس سے یہ سوال نہ پوچھے جاتے اور ایسے حلیے میں آئی کوئی بھی لڑکی بہت مزے سے کہہ جاتی… “ہو دا ہیل آر یو ٹو آسک…” (تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے…)
الفاظ کو اس انداز سے ڈھالا گیا… جیسے عدن کوئج سات پردوں میں رہنے والا مرد ہے… نظریں نیچی رکھنے والا’ ٹخنوں سے اونچی شلوار پہننے والا اور سامنے بیٹھا شخص کوئی گدی نشین ہے اور کسی نامحرم لڑکی کے منہ سے اپنے بیٹے کا ذکر سن کر کانپ اٹھا ہے…
افق شرم سے پانی پانی ہو گئی… لکڑی کے تازہ پولش شدہ فرش سے نظریں اٹھا کر اس نے صوفے پر بیٹھی شخصیت کی طرف دیکھا اور جھٹ نظریں جھکا لیں…
“وہ مجھے جانتے ہیں…”
آواز کانپ رہی تھی… انداز بڑا ترس آمیز تھا… صوفے پر بیٹھے شخص کا جی چاہا کہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائے اور پھر سامنے بیٹھی پری کو اٹھا کر ہوا میں اچھال دے… اس کی ایک ایک حرکت قابل توجہ تھی…… نظریں جھکانا… نظریں اٹھانا… ہتھیلیوں کو پیوست کیے بیٹھے رہنا اور اس طرح بیٹھنا کہ جیسے جنبش پر ٹوٹ جائے گی… کای عجائب خانہ میں رکھی جانے والی مورت ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھی… ان کے عین سامنے….. اکیلی…… صرف ایک چادر کی حفاظت میں……
“کالج میں پڑھی ہو اس کے ساتھ؟”
اس نے نفی میں سر ہلایا…
“پھر کیسے جانتی ہو اسے؟” جھنجھلا کر پوچھا گیا…
وہ چپ رہی’ اور لگ رہا تھا کہ وہ اٹھ جائے گی’ جب اگلا سوال آ گیا…
“کہاں سے آئی ہو؟”
“انارکلی سے…” ایک گہرا سانس لے کر کہا…
“انارکلی ہو…… مزار سے آئی ہو…” بہت ہی بھونڈا مذاق
تھا…بھونڈے انداز سے کہا گیا تھا… بھونڈے انسان نے کہا تھا…
“جی…” اس نے جھٹ سر اٹھا کر دیکھا…
“کس محل سے آئی ہو؟” دونوں بازو بدستور دائیں بائیں صوفے کی پشت پر پھیلے تھے… اس سوال پر گھٹنے پر رکھا پاؤں ہلنے لگا…
“گھر سے آ رہی ہوں اپنے…” ایک ہاتھ سے پیشانی پر آئے بال پیچھے کیے…
“گھر سے یہاں کیوں آئی ہو؟” وہ تو اسے ایسے بٹھائے ساری زندگی زچ کر سکتے تھے اور کتنے مزے میں گزرتی ایسی زندگی…
“مجھے کام تھا عدن سے…” نظریں اٹھا کر انہیں دیکھ کر التجا سے کہا…
“کیا کام تھا؟” پیر زوروشور سے ہلنے لگا…
عدن ہوتا تو وہ بتا دیتی… ان صاحب کو کیسے بتاتی… تھوڑی ہمت کی…
“مجھے بتا دیں’ وہ کہاں ہیں… میری بات کروا دیں…”
“تم کام بتاؤ… میں عدن کا بھی بتا دیتا ہوں…” وہ خاموش بیٹھی لفظ جوڑتی رہی کہ ایک بار پھر کیسے التجا کرے کہ عدن کا بتا دیں…
“میں باپ ہوں اس کا لڑکی……! بتاؤ’ تمہیں کیا کام ہے؟”
وہ باپ تھا عدن کا اور ہونے والا سسر تھا اس کا… تو اس کو ذرا سی ڈھارس ملی….. گو اپنی اوقات یاد تھی… لیکن مشکل کے وقت انسان اپنی اوقات بھول ہی جاتا ہے…
“شاباش! بتاؤ کیا کام تھا؟” نرم لہجے میں کہا… اس بار افق تو آبدیدہ ہی ہو گئی کہ ان سے اپنے سارے ہی دکھ درد کہہ ڈالے…
“اماں کی سرجری کروانی ہے… مجھے پیسے چاہیے تھے عدن سے… اماں ٹھیک ہو جائیں گی تو ضرور ہی واپس کر دوں گی…” اس پر اس کا انداز پُراعتماد تھا…
“محمد بخش…” اس آواز کی ایک بھڑک ماری… افق ذرا سا ڈر گئی… محمد بخش دروازے میں نمودار ہوا…
“میرے بیڈروم سے میرا بریف کیس لاؤ…”
بریف کیس آ گیا… چیک بک نکالی…
“دس لاکھ ٹھیک ہیں؟” اتنی پیاری آواز میں پوچھا کہ افق نے انہیں جان لیا کہ وہ تو اتنے اچھے ہیں… ضرور ہی ان دونوں کی شادی کے لیے راضی ہو جائیں گے… امان ایسے ہی ڈرتا تھا…
“نہیں جی… اتنے نہیں… یہ بہت زیادہ ہیں…”
“چھ لاکھ کر دیتا ہوں…”
“نہیں…… نہیں…… اتنے نہیں……”
“اچھے سے اسپتال سے سرجری کروانا ناں… چار لاکھ ٹھیک ہیں؟”
اس نے “نہیں” کہا… انہوں نے چیک لکھ کر سامنے شیشےکی میز پر رکھا…
“بس لکھ دیا میں نے…” وہ اٹھ کر چیک پکڑنے لگی تو وہ بولے…
“آرام سے بیٹھو…… کوئی ٹھنڈا گرم پیو……. محمد بخش!” وہی بھڑک دار آواز نکالی… چیک پکڑے بغیر وہ واپس بیٹھ گئی…
“میڈم کے لیے فریش جوس لاؤ…”
اتنا سن کر افق کے گالوں پر سرخی سی آ گئی… اس کے سامنے اس کے سسر بیٹھے تھے… انہوں نے کتنے پیار سے اس کی مدد کر دی تھی… اب اس کی خاطرمدارت کر رہے تھے…
“عدن سے بات نہیں کرو گی؟” باز سی آنکھیں اس پر گاڑ کر اس گدھ نے پوچھا… افق نے سر نفی میں ہلایا… وہ یہاں ان کے سامنے کیسے بات کر سکتی تھی… بہت شرم کی بات تھی… اس کی نظریں جھکی ہوئی نہ ہوتیں تو وہ دیکھتی کہ انہوں نے موبائل کے بٹن کو پش کیا ہے…
“ہائے پاپا!” اسپیکر پر عدن کی آواز ابھری… اس نے چونک کر ان کی طرف دیکھ…
“کیسے ہو مائی سن؟”
“فٹ….. اور آپ کیسے ہیں؟”
“ماریہ کہاں ہے؟”
“کاٹیج میں ہے… سو رہی ہے…”
“کیسا جا رہا ہے تمہارا ہنی مون مائی سن؟”
وہ ہنسا…. “آپ کو بتایا تو تھا…”
“اوکے……. اوکے…… خوب انجوائے کرو دونوں… شادی کی طرح ہنی مون بھی شان دار ہی ہونا چاہیے…”
افق نامی انارکلی کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے والی لڑکی کو واقعی اب اٹھا کر ایک عجائب خانے میں رکھ دینا چاہیے تھا… اس جیسی لڑکیوں کو پنجرے بنا کر ان میں رکھ کر تالا لگا کر چابی گم کر دینی چاہیے… یہی ان کا اصل مقام ہے… اب وہ نظریں نہیں جھکا رہی تھی… پلکیں نہیں جھپک رہی تھی اور اپنے ہونے والے سسر صاحب کو دیکھ رہی تھی… اب وہ واقعی جنبش کرے گی تو ٹوٹ کر’ کرچی کرچی ہو کر زمین کی آخری تہہ تک جا پہنچے گی… پیروں کی دھول بھی نہیں رہے گی…
“عدن اپنے ہنی مون پر ہے ماریہ کے ساتھ… بچپن سے پسند کرتا تھا اسے… تمہیں نہیں بلایا اس نے شادی پر…..؟” اس مونچھوں والے کو تو کسی تھیٹر میں کام کرنا چاہیے… اس نے کوئی جنبش نہ کی…… نہ ہاں’ نہ ناں…
غلام علی غلام کا جی چاہا کہ اب تو ضرور ہی اسے جا کر ٹچ کریں… ایک انگلی سے ہی سہی…. اور کر بھی لیں تو انہیں روکے گا کون؟ وہ اٹھے اور چل کر اسی صوفے پر آ بیٹھے’ جس پر وہ بیٹھی تھی… ٹپ ٹپ آنسو افق کی آنکھوں سے رواں ہو گئے… صدمے کا پہاڑ اس پر ٹوٹا تھا…
“روتی کیوں ہو…… ٹھیک ہو جائیں گی تمہاری امی…” ذرا سا قریب ہوئے…
بھرم ایسے ہے تو ایسے ہی سہی… وہ رونے میں اور رواں ہو گئی…
غلام علی غلام کا ہاتھ آگے بڑھا… سر پر پیار دینے کے لیے نہیں…… گود میں رکھے ایک ہاتھ کو انہوں نے اٹھا کر اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا… افق رونے اور عدن کے صدمے میں اتنی مگن تھی کہ ذرا دیر میں چونکی…
ہاتھ دو مردانہ ہاتھوں میں تھا… اچنبھے’ حیرت اور سراسیمگی سے اس نے انہیں دیکھا اور لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ لڑکی سے عورت اور عورت سے سیانی بن گئی…
عدن اپنی بیوی کے ساتھ ہے… سنتے ہی وہ خودفراموش ہو گئی… وہ یہاں کیوں ہے… اس کا نام کیا ہے… حتیٰ کہ اماں کی بیماری بھی بھول گئی… اس لمحے میں اس پر بہت کربناک قیامت ٹوٹی… جیسے اس کے عین سر کے اوپر گرم سیال انڈیلا جا رہا ہے اور نیچے اس کے ہاتھ’ پاؤں بندھے پڑے ہیں… منہ کو سوئی دھاگے سے سی دیا گیا ہے… دو مردانہ ہاتھوں میں ہاتھ کے آتےہی وہ اس ساری کیفیت سے باہر آ گئی… لیکن اگلی کیفیت کا شکار ہو گئی… قبر میں زندہ گاڑے جانے کی… اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ دنیا میں یہ سب بھی ہوتا ہے… یہ سب اور ایسے…… جسے وہ سسر مان رہی تھی… وہ اسے عورت سمجھ رہا تھا… صرف “عورت…”
ذرا سے جھٹکے سے اس نے ہاتھ آزاد کروایا… خوف زدہ اور بزدلانہ انداز میں اٹھی اور صرف دو قدم ہی چلی تھی…
“پیسے نہیں چاہئیں؟” آواز میں لگاوٹ بھی تھی اور دھمکی بھی… دلار بھی تھا اور پچکار بھی…
پیسوں کے نام پر اسے اماں یاد آگئی… ان کی تکلیف یاد آ گئی… آنے والی ان کی موت یاد آ گئی… وہ رکی رہی قدم نہیں بڑھائے…
“اپنی ماں کو مارو گی کیا؟” وہ اس کی پشت کی طرف صوفے پر بیٹھے بول رہے تھے…
افق نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا کہ شاید یہ شخص وہ نہیں’ جو وہ سمجھ رہی ہے… شاید امیروں میں تسلی ایسے ہی دی جاتی ہے.. ہاتھ پکڑ کر… گلے سے لگا کر…….. اس نے سوچا… وہ کم عقل ہے… یہ اب نہیں جانتی… آخر کو وہ عدن کا باپ ہے… اسے ایسے نہیں سوچنا چاہیے ان کے بارے میں…
دوسری طرف غلام علی غلام سوچ رہے تھے کہ لڑکی پیسوں سے تو شاید ہی قابو آئے… کم بخت مارے ان غریبوں میں عزت نفس بہت ہوتی ہے… عزت…….. عزت کو روتے پھرتے ہیں… چاہے ایڑیاں رگڑتے مر جائیں…
“دھوکا دیا ہے نا عدن نے تمہیں….. ہے نا…… تم جیسی معصوم سی’ پیاری سی لڑکی کا فائدہ اٹھایا ہے نا؟”
اتنی سی سچائی سے افق کے آنسو پھر رواں ہو گئے…
“میں جانتا ہوں اسے… بہت روکا بہت منع کیا… کالج میں نہ جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ وعدہ کر چکا تھا… لیکن شادی اسے صرف ماریہ سے ہی کرنی تھی…”
اسی کے باپ کے منہ سے عدن کے بارے میں ایسی حقیقت جان کر وہ دھواں دھواں ہو گئی…
“تمہیں اس کے لیے رونے اور آنسو بہانے کی ضرورت نہیں ہے لڑکی……” اٹھ کر اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے…
“یہ چیک لو اور اپنی ماں کی زندگی بچاؤ….. میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں…”
افق نے ایک نظر گھنی مونچھوں والے کی طرف دیکھا… اس نے بےنام اشکوں کو پیچھے دھکیلا اور چار قدم کے فاصلے پر رکھی شیشے کی میز کی طرف بڑھ گئی… عدن کے دھوکے کے باوجود وہ اس کے باہ سے یہ پیسے لینے کے لیے تیار ہو گئی… وہ اس احسان کو لینے کے لیے تیار ہو گئی… وہ اپنی ماں کے بارے میں سوچتی یا اپنی انا اور خودداری کے بارے میں؟
جیسے ہی وہ میز کی طرف جھکی دو ہاتھ اس کی پشت پر آئے…
“خوش رکھوں گا تمہیں…… اور تم……..”
اس کا وجود کانپ کر سمندر کے ریلے میں بہنے والا پتھر بن گیا…
“یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟” چیک نیچے گر گیا… سب کچھ صاف اور واضح ہو گیا… مکمل تصویر اس کے ہاتھ میں آ گئی…
“کیا کر رہا ہوں….؟” کندھوں سے پکڑ کر اسے سیدھا اپنی طرف کیا… غرا کر کہا… “تمہیں نہیں پتا’ کیا کر رہا ہوں…..؟ بچی ہو….. عدن کیا کرتا رہا ہے تمہارے ساتھ؟ اس سے زیادہ محبت دوں گا تمہیں…”
یہ انداز’ یہ الفاظ….. افق کی ساری عزت بہہ کر اس کے پیروں میں آ گئی… عزت کا جانا کیسا… وہ تو اتنے پر ہی چلی گئی…
“چھوڑ دیں مجھے……” پہلی کوشش میں اس نے ڈر کر
کہا… آواز بمشکل ہی نکلی… دونوں کندھوں پر ہاتھوں کی گرفت اور مضبوط ہو گئی…
“پاگل مت بنو لڑکی….. سمجھ داری کو ثبوت دو… میں تمہیں دولت میں نہلا دوں گا…”
اس بات پر افق کا جی چاہا کہ اس شخص کو آگ لگا کر جلا ڈالے…. اس کی گردن نوچ لے…
“چھوڑو مجھے…..” وہ اتنی زور سے چلائی کہ آواز گھر کے آخری کونے تک گئی ہو گی… محمد بخش منقش دروازے کی اوٹ میں آکر کھڑا ہو گیا… اندر کے منظر پر ایک نظر ڈالتے ہی سب سمجھ گیا….. تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چوکیدار کے پاس گیا…
غلام علی غلام کا منہ اس کے منہ کے قریب آتا جا رہا تھا… وہ پشت کے بل میز پر جھک رہی تھی… اس کے ہاتھوں سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی تھی… غلام علی غلام کو خود سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہاتھوں میں سے دائیں ہاتھ کو اس نے اوپر اٹھ کر ایک زوردار تھپڑ غلام علی غلام کے منہ پر دے مارا… اب تک کی اپنی ساری قوت کو جمع کر کے……
تھپڑ پڑتے ہی وہ باؤلے کتے کی طرح ہو گئے… اسے نیچے پٹخا…
میز کے قریب نیچے گرتے اس نے جھٹ میز پر رکھا شیشے کا گل دان اٹھا کر اسے دے مارا… گل دان غلام علی کی ناک پر لگا… خون کی ایک لکیر بہہ نکلی… گل دان مارتے ہی وہ تیزی سے اٹھ کر میز کی دوسری طرف سے گھوم کر باہر بھاگی…
“بخش….. صوفی….” ناک پر ہاتھ رکھے وہ دھاڑتے اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے…
ڈرائیور صوفی وہاں موجود نہیں تھا… بخش’ خان کے ساتھ گیٹ کے پاس کھڑا رازداری سے باتیں کر رہا تھا… وہ خود تین بیٹیوں کا باپ تھا… خان کے ساتھ وہ جلدی جلدی کھسر پھسر کر رہا تھا اور اسے اندر کی صورت حال بتا رہا تھا…
اسے خان کے پاس آئے دو منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ لڑکی پورچ سے بھاگتی ہوئی نظر آئی… خان نے جھٹ چھوٹا گیٹ کھول دیا… پیچھے غلام علی کی شکل نمودار ہوئی…
“پکڑو اسے…… بخش……. چوکیدار……. پکڑو اسے…”
دونوں بوکھلائے’ منہ اٹھائے غلام علی کو دیکھنے لگے ناک پر ہاتھ رکھے وہ لڑکھڑاتے ہوئے بھاگ رہے تھے…
“کیا ہوا جناب آپ کو؟” بخش لپک کر اپنے صاحب کی طرف آیا… چوکیدار نے لڑکی کی طرف بھاگنے کا ڈرامہ کیا… جبکہ لڑکی بجلی کی طرح کھلے گیٹ سے نکل گئی…
“اس کے پیچھے بھاگ…” غلام علی دھاڑا… بخش گیٹ سے نکلا… چوکیدار بھی نکلا… لڑکی سڑک پر دور جاتی نظر
آئی…
دونوں نے اس کے پیچھے بھاگنے کی کمال اداکاری کی اور لڑکی دور سے دور ہوتی گئی… دونوں غلام علی کے ملازم تھے… اس کے غلام نہیں تھے… انسانیت رکھتے تھے… اپنے مالک سے تنخواہ لیتے تھے… اسے پسند نہیں کرتے تھے… اس کے ایمان پر ایمان نہیں رکھتے تھے… مالک کی خصلت کو جانتے تھے… چوکیدار نے تو اس سے زیادہ ڈرامے دیکھے تھے… جب یہاں پانچ لڑکے رہتے تھے… جس وقت بخش جوس کا گلاس رکھ کر گیا تھا… وہ اسی وقت سے ذرا اوٹ میں کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا… کوئی اپنی ہی مانگی دعا تھی’ جس نے افق کو بچا لیا تھا…
کیا وہ واقع بچ گئی…. یا یہ وقت ہی طے کرے گا؟
ڈی…ایچ…اے کی کشادہ سڑک پر بھاگتے ہوئے اسے بہت شرم آئی… اس کی چادر اب اس کے گلے میں جھول رہی تھی… بالوں کی کئی لٹیں گردن اور پیشانی پر پھیل گئی تھیں… اس کا وجود بری طرح سے کانپ رہا تھا… وہ ایک قدم تک نہیں اٹھا سکتی تھی… لیکن اسے بھاگنا تھا… اپنی عزت کے لیے اسے بھاگنا تھا… سڑک پر قیمتی کاریں رواں دواں
تھیں… سڑکیں کشادہ اور صاف ستھری تھیں… وہ بڑے بڑے پھاٹکوں اور بنگلوں کے آگے سے گزر رہی تھی… سانس اتنی پھول چکی تھی کہ اب دم ہی نکل جائے گا… بہت دیر تک ڈر کے بھاگتے بہت سی سڑکیں پار کرتے’ وہ فٹ پاتھ نما جگہ پر بیٹھ گئی اور گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی… وہ وہاں اکیلی تھی… یچکیوں کے ساتھ رونے لگی…
وہ اپنی عزت بچا کر وہاں سے نکلی تھی…… نہیں….. دراصل وہیں تو اس کی ساری عزت اتر گری تھی… عدن جس سے وہ محبت کرتی تھی’ وہ اسے چھوڑ گیا اور اس کے باپ نے اس سے بڑھ کر کیا… آئندہ زندگی میں جتنے بھی دن وہ زندہ رہے گی’ کیا وہ اس طرح اپنا تار تار کیا جانا بھول جائے گی… اگر وہ دو دن بھی زندہ رہ پائی تو……. اور پھر یہ زندہ رہنا نہیں ہو گا…
افق کو بہت ترس آیا اپنی ماں پر… اپنے مرے ہوئے باپ پر’ جس کی اس جیسی بیٹی تھی… جسے اس طرح بھاگنا
پڑا… جسے اس طرح دھوکا دیا گیا تھا… جو اس جگہ پر بیٹھی رو رہی تھی… جس کی چادر اتر گری تھی… جس پر صاف صاف سامنے سے حملہ کیا تھا… جا کے سامنے پہلے پیسے پھینکے گئے تھے…
تو یہ تھا وہ حسن جو اتنے غصب کا تھا کہ غصب ہی کر دیا تھا… حسن اس کے کسی کام کا نہیں تھا… لیکن آج تو وہ اپنا آپ دکھا ہی گیا… لیکن اگر وہ حسین نہ بھی ہوتی تو قریب قریب ایسا ہی کچھ اس کے ساتھ ہوتا… وہ کس کس بات کے لیے ماتم کرتی… اپنے لیے…… اماں کے لیے یا ابھی جو ہوا’ اس کے لیے… اسے صرف ایک ہی چیز کے لیے ماتم کرنا چاہیے…
“اپنے “کم عقل” ہونے کے لیے…
بہت دیر تک وہ وہاں ایسے ہی بیٹھی روتی رہی… اس کا جی چاہا کہ اب وہ مر کر ہی گھر جائے… کاش! آج ہی قیامت کا دن آن پہنچے….. حشر ہو….. یوم حساب ہو اور وہ دو لوگوں کے گریبان پکڑے…..
“ہے (hey)” آواز افق کے قریب ابھری… ساتھ ہی کندھے پر ہاتھ آیا… ڈر کر افق نے سر اٹھایا…
“کیا ہوا؟” اس کی دھواں دھواں شکل پر نظر پڑتے ہی ایک ہاتھ میں کینوس بورڈ پکڑے لڑکی چونک گئی… لڑکی اس کے قریب ہی بیٹھ گئی…
“کیا ہوا ڈیر….؟” سرخ بہتی آنکھوں سے افق نے لڑکی کی طرف دیکھا…
لڑکی نے بیگ میں سے ٹشو نکال کر آگے کیا… افق نے ٹشو نہ پکڑا… لڑکی نے ہاتھ بڑھا کر اس کی آنکھیں صاف کیں..
“بتاؤ نا….. کیا ہوا…… میں دس منٹ سے تمہیں دیکھ رہی ہوں….. وہ دیکھو…… وہاں سے…..” لڑکی نے ہاتھ سے اشارہ کیا ایک طرف….. افق سے ذرا سا دور اپنی سرخ گاڑی کی طرف…… افق نے اٹھنا چاہا…
“میں تمہیں ڈراپ کر دوں……. کہاں جانا ہے تمہیں؟”
افق نے ناں میں سر ہلایا… دنیا کا پتھر دل انسان بھی اس وقت اسے دیکھ لیتا تو موم ہو جاتا… کینوس بورڈ پکڑے اس لڑکی کو بھی بہت ترس آیا…
افق اٹھ کر چند قدم آگے چلی… لڑکی نے اٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا…
“آؤ! میرے ساتھ… میں تمہیں ڈراپ کر دیتی ہوں… لڑکی نے ہاتھ نہ چھوڑا اور ساتھ لے کر کار تک آئی… قطار در قطار وہاں کئی کاریں کھڑی تھیں…
“بیٹھ جاؤ پلیز……” لڑکی نے دروازہ کھولا… افق ہونق بنی لڑکی کی طرف دیکھے گئی اور پھر بیٹھ گئی…
لڑکی نے کار اسٹارٹ نہ کی… “اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟”
افق نے لڑکی کی طرف الجھ کر دیکھا… کیا بتائے’ کیسے اور کیوں…..؟
“نام کیا ہے تمہارا…..؟” لڑکی بہت پیار سے بول رہی تھی… اس کی آواز اور انداز دونوں ہی نرم تھے…
“افق!” اس نے آنکھیں ہتھیلی کی پشت سے صاف کر کے بتایا…
“افق! وہاں ایسے بیٹھی کیوں رو رہی تھیں؟ بتاؤ مجھے… ہو سکتا ہے’ میں کچھ کر سکوں… کچھ ہوا ہے تمہارے ساتھ؟ افق چپ بیٹھی رہی…
“جب تک تم بتاؤ گی نہیں… میں تمہیں جانے نہیں دوں
گی…”
“اماں مر رہی ہیں…” وہ ایک دم پھٹ پڑی… عدن اور اس کے باپ کا نام بھی زبان پر لانا اس نے حرام جانا…
“اسپتال میں ہیں وہ؟”
نفی میں سر ہلایا… “گھر میں ہیں….. میرے پاس پیسے نہیں ہیں…” نئے سرے سے اس کی ہچکی بندھی…
“چلو! گھر چلتے ہیں…” لڑکی نے کار اسٹارٹ کی…
اس نے گھر کا پتا بتایا… لڑکی نے پانی کی بوتل اس کے ہاتھ میں دی… ٹشو ہاتھ میں پکڑائے… ایک ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا… اسے تسلی دیتی رہی…
“بہت بیمار ہیں وہ…..؟”
“جی…… اگر ان کی سرجری نہ ہوئی تو وہ مر جائیں گی…”
“تم ایسے مت روؤ پلیز…. ان کی سرجری بھی ہو جائے گی… بی بریو (بہادر بنو)…” ساتھ ساتھ وہ اس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ سے تھپکی دیتی رہی… اماں کی بیماری کی نوعیت پوچھتی رہی…
کار پارک کر کے وہ افق کے ساتھ اس کے گھر آ گئی… افق نے لڑکی کو پہلے ہی منع کر دیا تھا کہ وہ اماں کو اس کے رونے اور اس جگہ بیٹھنے کے بارے میں مت بتائے… اماں دوا کے زیرِاثر سو رہی تھیں… وہ بھابھی کو کہہ گئی تھی’ گاہے بگاہے انہیں آ کر دیکھنے رہنے کا… لڑکی رپورٹس لے کر چلی گئی…
جس جگہ افق بیٹھی رو رہی تھی’ وہ ایک پرائیویٹ آرٹ کالج کی پارکنگ تھی… وہاں رش نہیں تھا… کاریں اس سے ذرا سے فاصلے پر پارک تھیں…
رات میں لڑکی’ جس کا نام دانیہ تھا… اپنی دو دوستوں کے ساتھ آئی… باہر ان کا ڈرائیور بھی تھا… انہیں ڈرائیور کے ساتھ جانا تھا اور ہر طرح کے اخراجات کے لیے وہ ڈرائیور سے کہہ سکتی تھی… وہ تین دوستیں مل کر افق کی اماں کی سرجری کروا رہی تھیں…
یہ ان کے لیے آسمان سے اتاری گئی امداد تھی یا زمین پر بخشی گئی تھی لیکن افق اندر تک اللہ کی مشکور ہو گئی… اس جیسی گناہ گار پر یہ بہت بڑا کرم تھا…
اماں کے ساتھ افق اسلام آباد آ گئی… بھابھی کا بھائی وہاں ان کے لیے موجود تھا… اسد اور جمال بھابھی کے سپرد کر دیے گئے… نئے سرے سے اماں کے ٹیسٹ ہونے لگے… انہیں چیک کیا گیا اور پھر بائی پاس سرجری کا دن آ گیا…
اگر دانیہ جیسا کوئی اس کا رشتےدار ہوتا….. اگر دانیہ جیسا اس کے پاس کوئی اور ہوتا تو اس دن اس کی انا اور عزت کا کٹورا ایسے خالی نہ ہوتا… امان نامی انسان کو لے کر وہ اندر ہی اندر بہت گھٹی….. راتوں کو چھپ چھپ کر وہ بہت روئی… اپنا ہی منہ نوچ لینے کق اس کا جی چاہتا… خود کو مار لینے کا…
ان کی اماں نے زندگی میں انہیں بہت سے سبق یاد کروائے تھے… محنت کرنے کے’ نہ رونے کے’ حوصلہ رکھنے کے’ کسی سے کوئی امید نہ رکھنے کے’ خودداری کے’ وفاداری’ زندگی کے سامنے ڈٹے رہنے کے… دنیا کو پرکھنے کا کوئی سبق وہ نہیں دے سکی تھیں… بھیڑیوں کی بھیڑ میں انسانوں کی شناخت کا اور انسانوں کی بھیڑ میں شیطانوں کی…
“عورت جانتی کم اور سمجھتی زیادہ ہے…”
یہ مقولہ ایک بڑی حقیقت ہے… لیکن عورت کو اس مقولے کو ہرا دینا چاہیے…
“عورت جانتی زیادہ اور ہارتی کم ہے…”
معاشی میدان میں انہوں نے بھوک کو ہرا دیا تھا… لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھوک پیٹ سے مارتی ہے اور انسان روح سے…… جن انسانوں کی روحیں دوسرے انسانوں کے ہاتھوں مرتی ہیں’ ان انسانوں کو بڑی کرب ناک سزائیں ملتی
ہیں…… اندر ہی اندر……. گھٹی گھٹی……. چھپی چھپی…..
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...