وہ ایک اداس ، دل گرفتہ اور بوجھل سی شام تھی جب فلورا نے دیکھا کوے قطار میں کھڑے ہیں اور آسمان پرندوں سے بھرا ہے۔ دفعتہ کہیں سے Hipco کی ریش میوزک ابھری اور فلورا کو لگا سر میں درد کی ایک شدید سی لہراٹھی ہے جو سرکتے ہوئے نیچے کمر کی طرف جارہی ہے۔
’’ایبولا‘‘ وہ خوف میں نہاگئی ’’کک۔کیا۔مم۔میں بھی‘‘
وہ اولین اگست کے شررباردن تھے اور لابیریا پرجیسے قہر ٹوٹ پڑا تھا۔ Redemption Hospital میں، پرائیوٹ کلینکس میں کچھ اتنی اموات ہوچکی تھیں کہ حکومت مفلوج ہوکر رہ گئی تھی اور سبھی لابیریاوالوں کی طرح فلورا بھی الجھن کا شکار تھی۔ ہر سنڈے Sermons میں یہ اعلان ہو رہا تھا کہ ایبولا فیملی ڈیزیز ہے مگر وہاں کون تھا؟ جو یقین کرتا اپنی بدعنوان حکومت سے وہ لوگ کچھ اتنے نالاں تھے کہ انھیں ایبولا کی موجودگی پر شبہ تھا۔ گو وہ سب دیکھ رہے تھے۔ پڑھ رہے تھے۔ حکومت نے جا بجا پوسٹرس لگارکھے تھے جن پر صاف لکھا ہوا تھا کہ ایبولا حقیقت ہے مگر کوئی یقین کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ حکومت کی ایک نئی چال ہے ۔ دراصل ایبولا کہیں نہیںہے۔ مگر مرنے والوں کی ایک بھاری تعداد یہ اعلان کررہی تھی کہ ایبولا ہے بالکل ہے۔ اورپھر منورویا میں خوف و ہراس کی وہ لہراٹھی کہ لوگوں کو لگا کوئی معمولی بیماری آئی نہیںکہ ایبولا آگیا۔ اور دہشت کی اس فضاء میںفلپ کی ناگہانی موت اور ڈیوڈ کی کی پرا سرار بیماری ۔ کون فلورا پر یقین کرتا؟ آسٹن فیملی یہ کیسے مان لیتی کہ کچھ بہت گمبھیر اور سنجیدہ نہیں ہے۔ کیپٹل ہل والے یہ کیسے باور کرلیتے کہ وہ جو کہہ رہی ہے وہ سچ ہے مگر پھر بھی وہ بضد تھی ہر کسی سے الجھ رہی تھی۔’’ نہیں ایبولا نہیں‘‘ وہ پورے وثوق سے کہہ رہی تھی ’’ میرے دشمنوں نے فلپ اور ڈیوڈ کو زہردیا ہے‘‘۔
یوں جیسے تیسے کیپٹل ہل والے مکان میں ڈیوڈ کوجگہ تو مل گئی مگر اپنے جن رشتہ داروں کے ساتھ اس نے کمرہ شیئر کیا تھا جب وہ زندہ نہ رہے تو آسٹن فیملی بپھر گئی۔ ڈیوڈ کا وجود اب ان کے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ ادھر پڑوسی الگ مصر تھے کہ ڈیوڈ کیپٹل ہل میں نہیں رہے گا کہیں اور چلا جائے گا۔ تب فلوراہار گئی ۔ انتہائی مجبوری کے عالم میں اس نے ڈیوڈ کو کراؤن ہل بھیج دیا اور خود میانگرو والے اس دلدلی علاقے میں آگئی اور بھلا وہ کیا کرتی؟ وہ مرنا نہیں چاہتی تھی اگر وہ مرجاتی توپھر آسٹن فیملی کا کیا ہوتا ؟ مگر ڈیوڈ اس نے ایک آہ سرد بھری ، دیکھتے دیکھتے یہ کیا ہوگیا تھا یہ ڈیوڈ نے کیا کردیا تھا ،کیوں بھلا کیوں فلپ کی بیماری اس نے خود پراوڑھ لی تھی کتنا منع کیا تھا اس نے کہ وہ فلپ سے نہ ملے مگرپگلا نہ مانا۔ اپنے مرتے ہوئے باپ کی تیمارداری کو گیا تھاخود بیماری اٹھالایا۔ باپ کی محبت کا قرض اتارنے کی دھن میں اب خود ہی جان سے جارہا تھا۔ اور حالات کی اس ستم ظریفی پر فلورا کو لگا درد فقط اس کے سر میں نہیں سارے جسم میں تھرک رہا ہے اپنے اضطراب دروں سے بے کل سی وہ کھڑکی میں آ کھڑی مگر یہ کیا؟ سامنے آنگن میں ربیکا نانی ٹہل رہی تھیں وہ شاید ابھی ابھی نہا کر آئی تھیں ان کے گیلے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
’’نانی اور یہاں؟‘‘ وہ دھک سے رہ گئی۔
’’یہ کیسے ممکن ہے‘‘۔ وہ اپنا درد بھول گئی۔
مگر وہ تو سامنے ہی تھیں۔ اور ٹہلتے ہوئے فلورا کو دیکھ رہی تھیں۔ دفعتہ فلورا کی آنکھوں کے آگے وہ شام لہرائی جب پہلی مرتبہ اس نے ربیکا نانی کو دیکھا تھا ۔وہ ۱۹۹۰ کی ایسی ہی ایک شام تھی جب صدر سیمیول ڈوکی لاش Executive Mansion کے میدان میں لٹک رہی تھی۔ وہ لابیریا کے اولین خانہ جنگی کے دن تھے۔کیپٹل ہل والے مکان میں نانی اسی طرح ٹہل رہی تھیں وہ شاید ابھی ابھی نہاکر آئی تھیں ان کے گیلے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
پچاس برس ادھر جب Guinea میں کوکو اگانے کے لئے اسپین کی کولونیل حکومت کو مزدوروں کی ضرورت پڑی تھی تب لابریا نے انھیں مزدور مہیا کئے تھے جو کام ختم ہونے پر بغیر کسی اجرت کے وطن لوٹ آئے تھے اس وقت لیگ آف نیشن نے اس امر کو غلامی سے تعبیر کیا تھا اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں ربیکا نانی بھی شامل تھیں۔فلورا کے ماں کی نانی جنھیں سب ربیکانانی کہتے تھے۔ آسٹن ربر فیکٹری کی مالک جو منورو یاکی ایک صاحب حیثیت خاتون تھیں۔ پھر کسی دن وہ پر اسرار طور پر گم ہوگئیںجانے کہاں؟ انہیں برسوں کسی نے نہ دیکھا اور اب جو اچانک وہ سامنے کھڑی تھیں تو فلورا چکراگئی تھی۔’’ کیا یہ فریب نظر ہے ۔ Hallucinations is it? ‘‘۔
وہ زیر لب بڑ بڑئی تھی۔ پھر توربیکانانی اسے بارہا نظر آئیں کئی بار۔۔۔کپٹل ہل والا سارا مکان ان کا تھا۔ یہ بڑا سا آنگن ان کا تھا۔ ہر کمرہ ان کا تھا۔وہ ہر جگہ تھیں ۔ چپ چاپ، گم سم، اداس ، متفکرجیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہوں۔
ایک بے نام سی دہشت ، کوئی انجانا سا خوف۔ جس کو پرے دھکیلنے کے فلورانے عمر بھر جتن کئے تھے۔ وہی خوف وہی دہشت آج بھی اس کے روبرو تھی اور عمر کے اس موڑپر اس کے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کا مقابلہ کرتی۔ وہ کس قدر الجھتی ۔ کس کس سے لڑتی ۔ تبھی تو وہ ڈیوڈ کو چھوڑ کر بھاگ آئی تھی۔پھر ربیکا نانی کیوں اس کے تعاقب میں تھیں۔
……۲……
میانگرو جھاڑیوں سے سورج ابھرا بلند ہوا اور فلورا کو لگا جیسے وہ دھیرے دھیرے اس کے اندر اتر رہا ہے۔ اتنی تپش اتنی حدت کہ الامان۔ اس کا تمام تروجود آگ بنا ہوا تھا۔ وہ پچھلے کئی راتوں سے سوئی نہ تھی۔اور اسے لگ رہا تھا جیسے کبھی سوئی ہی نہ ہو۔نیند کسے کہتے ہیں وہ شاید بھول چکی تھی۔اب تو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی شناخت اپنی ذات کی آگہی بھی بھول چکی ہو۔ اس کے اندر یہ سوچ مستحکم ہو رہی تھی کہ اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے وہ کوئی نہیں ہے؟ وہ فلورا نہیں ہے۔ ’’ کیا یہ سچ ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا ’’کیا وہ فلورا نہیں ہے‘‘۔ مگر وہ فلورا ہی تھی۔ اس سچ کو وہ کیسے چھپاتی۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور گزرے ہوئے چودہ سال کا کرب اسی کی آنکھوں میں ٹھہر گیا۔ اُف ! وہ خانہ جنگی۔ وہ نسلیاتی تصادم۔ وہ بے حس حکومتیں۔ وہ بدعنوان سیاستدان وہ حریص لوگ جولابیریا کے قدرتی وسائل کی خاطر لڑر ہے تھے ، مر رہے تھے۔ وہ افراتفری ، وہ خون ریزی ، وہ قطار میں کھڑے چہرے ، ٹوٹتے ہوئے بکھرتے ہوئے اُسے لگا جیسے ابھی ابھی سب کچھ ہوا ہے ۔ابھی ابھی۔دفعتہ موبائل کی گھنٹی بجی تو اسے لگا جیسے اس کے قریب ہی کہیں دھماکہ ہواہے، لمحہ بھر کو اس کی چیخیں نکل گئیں۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیاہورہا ہے رفتہ رفتہ اس نے خود کو سنبھالا۔ کال رسیو کی تو پتہ چلا کہ خبر تو واقعی ایک دھماکہ ہے۔ آسٹن فیملی کے تین نسلوں سے چار لوگ لقمہ ء اجل ہوچکے تھے۔ ڈیوڈ مرچکا تھا۔ فلورا تو کھڑی بھی نہ رہ سکی بے ساختہ گر پڑی۔ آسٹن فیملی بکھرر ہی تھی۔ ریزہ ریزہ ہورہی تھی۔ کئی چہرے تھے جو قطارمیں کھڑے تھے پتہ نہیں کون کب گم ہو جائے۔ دفعتہ اسے لگا سورج اس کی رگ رگ میں دوڑ رہا ہے ۔ وہ آگ کا بگولہ بن گئی ہے۔وہ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہونے لگی ۔ اس پر جنون سا طاری ہونے لگا ۔ جانے کتنی صدیاں بیت گئیں۔ رفتہ رفتہ اس کو ہوش آیا تو اپنوں کے کھوجانے کا غم کچھ اس قدر شدید تھا کہ اس پر ایک زلزلہ سا طاری ہوگیا ۔
’’ ہائے میرا بچہ –میری فیملی‘‘ وہ ہزیانی انداز میں چیخی۔
’’اوگاڈ میں کیا کروں‘‘ اس نے اپنی ہزیانی پھینچ لیں۔
جانے کن کن دشواریوں سے تو اس نے سب کو یوں سنبھال رکھا تھاکہ چودہ سالہ خانہ جنگی بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی تھی۔ وہ تو اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ آسٹن فیملی ہر دن کے ساتھ کچھ اور مضبوط ہو رہی ہے۔ وہ سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے۔ ہر سردو گرم سہتے ہوئے خوشیوں کی دنیا میں کھورہے ہیں۔ مگر یہ ایبولا۔ ہائے ظالم نے تو تاک کر خاندانوں پر وار کیا تھا جو جتنا ایک دوسرے کے قریب ہو رہا تھا اتنی ہی سرعت سے موت کے منہ میں جارہا تھا۔ اُف !! یہ کیسا المیہ تھا۔ لابیریا کے خاندان ۔ جو اپنے آپ میں ایک مکمل ادارہ تھے۔جنھوں نے اس پورے سماج کو باندھ رکھاتھا۔ وہ ٹوٹ رہے تھے۔ بکھررہے تھے۔ گم ہورہے تھے۔ یہ حملہ تو خانہ جنگی سے زیادہ خطرناک تھا۔ او گاڈ — وہ پھر سے ٹوٹنے بکھرنے لگی۔ ریزہ ریزہ ہونے لگی۔ نامعلوم سمتوں میں اڑنے لگی۔پھر جانے کیا ہوا۔ آنکھوں سے کرب کا دریاامنڈ پڑا۔ اور زار زار روتے ہوئے اس نے دیکھا ربیکا نانی پاس کھڑی ہیں۔ ہولے ہولے گنگنارہی ہیں۔
بنووا — بنووا
بنووا -یاؤ
اے لا-نو
نے ہی نیو-لا -نو
نے ہی نیا- لا نو
یہ کیا؟ فلورا ششدر رہ گئی نانی اورگیت ۔ وہ تو اپنا رونا بھی بھول گئی۔
…۳…
فلک پر پورا چاند اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت مسکرارہا تھا مگر وہ تو اندھیروں میں محصور تھی۔ اور ان گھورتا ریکیوں میںاس کی آنکھیں کسی بلی کی آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں ۔کھڑکی کے قریب کرسی پر بیٹھی وہ دور خلاؤں میں یوں تک رہی تھی جیسے اس کا دماغی توازن بگڑگیا ہو۔ وہ پچھلے کئی راتوں سے سوئی نہ تھی۔ اور اسے لگ رہا تھاجیسے وہ کبھی سوئی ہی نہ ہو۔ نیند کسے کہتے ہیںوہ شاید بھول چکی تھی مگر کیا ہی اچھا ہوتا جو وہ اپنا ماضی بھی بھول جاتی مگر وہ تواسے یوں یاد تھا جیسے ابھی ابھی سب کچھ ہوا ہو ۔ وہ لابیر یاکی دوسری خانہ جنگی وہ LURD اور صدر چارلس کی افواج کاتصادم۔ وہ قطار میں کھڑے چھ لاکھ لوگ جو شہید ہوچکے تھے۔ دو ملین لوگ جو زخمی تھے وہ جو شوا ملٹن بالا ہائی جیسے حکومت مخالف وار لارڈ جو معصوم بچوں کو ذبح کررہے تھے ان کے خون میں نہا رہے تھے اور اعلانیہ کہہ رہے تھے کہ اس طرح وہ گولیوں سے محفوظ رہیں گے۔وہ توہم پرستی کا عالم کہ سپاہی اپنے حریف کے ٹکڑے کر رہے تھے۔ان کے دل چبارہے تھے کہ انھیں بے پناہ قوت حاصل ہو۔ وہ بربریت کی انتہا کہLURD کے اور چارلس ٹیلر دونوں بچہ سپاہی کا استعمال کر رہے تھے۔ آہ وہ بچے جولا بریا کا مستقبل تھے وہ لوٹ مار کررہے تھے۔ قتل و غارت گری کررہے تھے۔ اور خوف و دہشت کی اس فضا میں کئی دن ایسے بھی آئے جب اسے لگا کہ وہ ٹوٹ رہی ہے۔ بکھر رہی ہے ۔ ریزہ ریزہ ہورہی ہے۔ نامعلوم سمتوں میں اڑ رہی ہے۔ ایسے میں بار بار ۔ لگا تار۔ اس کادل چاہا کہ وہ گم نام جزیروں کی اور نکل جائے۔ ربیکا نانی کی طرح گم ہوجائے مگر بار بارفلپ اس کی راہ میں آجاتا تھا۔ فلپ آہ ! اس کے کلیجے سے ایک ہوک سی اٹھی۔ فلپ سے محبت کی تھی اس نے مگر کبھی اس کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی بسر نہ کر سکی۔ وہ دونوں کچھ اتنے قریب آئے کہ ہمیشہ کے لئے دور ہوگئے۔ فلپ جانے کہاں چلا گیا وہ ڈیوڈ کے ساتھ تنہا رہ گئی۔ اُف ! زندگی میں ایسی کئی باتیں ہوتی ہیں جن کی وضاحت ممکن نہیں۔وہ بے کل سی اٹھ کھڑی ۔آسمان میں پورا چاند بہت حسین لگ رہا تھا جس نے چاروں طرف چاندنی بکھیر رکِھی تھی۔ مگر یہ کیا؟ چاندنی بھرے آنگن میں ربیکا نانی ٹہل رہی تھیں اور آج زندگی میںپہلی بار فلوراکا دل چاہا کہ ان سے پوچھیں ایسا کیا ہوا تھاجو وہ گم ہوگئی تھیں۔ ان کا وجود ہمیشہ گیلاسا کیوں ہے؟ وہ تاریکیوں سے الجھتی۔اپنے آپ کو سمیٹتی صحن کی جانب دوڑ ہی رہی تھی کہ موبائل کی گھنٹی پابہء زنجیر بن گئی۔ادھر جوزف انکل تھے جو کہہ رہے تھے۔’’ہیلو فلورا ۔ کہاں ہو بیٹا۔ کراؤن ہل میں ڈیوڈ کی لاش سڑ رہی ہے اور اس کی بوپڑوسیوں کے گھر رینگنے لگی ہے۔ افسوس کہ ہماری حکومت اس قابل نہیں کہ اتنی سڑی گلی لاشوں کو ٹھکانے لگائے۔ اب تمہارا انتظار ہے کہ تم آؤ تو ڈیوڈ کے آخری رسومات ادا ہو۔‘‘
بے ساختہ موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گرا۔ وہ تھر تھر کانپنے لگی۔ مگر یہ کیا؟ سامنے ہی تو ربیکا نانی کھڑی تھیں۔ چپ چاپ ، گم سم، اداس ، متفکر جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہو۔ کچھ کرنا چاہتی ہو۔ زندوں میں لوٹنا چاہتی ہو۔ ان کے چہرے پر اداسی کے تاثرات اتنے گہرے تھے کہ فلورا کو لگا جیسے اس کے اندر ہی اندر کچھ ہوا ہے ۔ وہ ٹوٹ رہی ہے۔ دوحصوں میں بٹ رہی ہے۔ پتہ نہیں وہ کونساحصہ تھا جو اس کے وجود پر حاوی ہو رہا تھااور پھر وہ کیا کررہی ہے؟ کہاں جارہی ہے؟ اس کا علم خود اسے نہ تھا۔
٭٭٭