غزل بطور صنف شعر اردو پر شروع سے ہی قابض رہی ہے۔ یعنی غزل اور اردو شاعری بہم دگر ایک ہی تسلیم کی جاتی رہی ہیں۔ یہ بات شاید ولی دکنی اور امیر خسرو کے وقت میں درست نہ ہو لیکن جب ہم گذشتہ تین چار صدیوں کا لیکھا جوکھا کرتے ہیں تو اس حقیقت سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے کہ غزل نے پیر تسمہ پا کی طرح اردو کو ایک ہی جگہ ٹھہرنے یا ایک ہی ڈگر پر چلنے کے لیے مجبور و معذور کر دیا ہے۔
میں نے منشی تلوک چند محروم صاحب کے حوالے سے اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ ان کی رائے کے مطابق میرا مزاج صرف نظم کے لیے موزوں ہے اور مجھے غزل سے اجتناب کرنا چاہیے۔ پھر جوش ملسیانی صاحب کے حوالے سے بھی اس بات کی تائید و تصدیق کی گئی تھی کہ خود غزل گو (اور وہ بھی قافیہ پیمائی پر انحصار رکھنے والے غزل گو) ہونے کے باوجود وہ میری نظموں کی قدر کرتے تھے۔ اس کے بعد کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کے ارشادات بھی میں قلمبند کر چکا ہوں کہ وہ فرماتے تھے، ’’اس نوجوان کو غزل کہنے پر مجبور نہ کریں۔ کیا پتہ جس طرح کی نظمیں یہ لکھ رہا ہے، آنے والے برسوں میں ان کے بل بوتے پر اسے اردو کا شیلےؔ یا کیٹسؔ قرار دیا جائے۔