(Last Updated On: )
(بسنی=تماش بین)
اتفاق کی بات ہے، جب تلک شہر پہنچیں اَویر ہو گئی اور وہاں سویرے ہی شہر پناہ کا دروازہ بند ہو گیا۔ یہ بچارے حیران تھے کہ اب رات کی رات کہاں رہیں اور کدھر جائیں۔ شعر ؎
باغباں بے رحم اور در بند دیواریں بلند
بلبلِ بے بال و پر گلشن میں جاوے کس طرح
سامنے ہی چکلہ تھا، پر اس گھبراہٹ میں انھیں کب سوجھتا تھا۔ شعر ؎
نواحِ شہر میں خوباں کے یہ تھا حال زاہد کا
کہ جیوں چغد آشیاں گم کر کے بستی میں پھرے بھٹکا
وہاں شہر سے باہر ایک طوائف رہتی تھی۔ دو گھڑی دن رہے سے پھر رات گئے تک انھوں کی بیٹھک اپنے اپنے کوٹھوں پر رہا کرتی اور نائکہ، نوچی سبھی آنے جانے والے کی جھانک تاک میں لگی رہتی۔ بیت ؎
دل سے شوقِ رخ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا
کہیں نائکہ کی نظر گروجی پر جا پڑی۔ انھیں گھبرایا دیکھ کر رحم کھایا اور اپنے گھر میں بلا لیا۔ گرو نے دل میں کہا، شعر ؎
رہنے کے قابل تو ہرگز تھی نہ یہ عبرت سرائے
اتفاقاً اِس طرف اپنا بھی آنا ہو گیا
غرض رات کی رات انھیں رہنے کو ایک جگہ بتا کر نائکہ تو کہیں کام کو گئی اور گروجی بسترا وہاں جما کے اپنے دھیان گیان میں لگے۔ بیت ؎
دکھاؤں گا تجھے زاہد اس آفتِ جاں کو
خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا
دیکھیں تواس کے یہاں یوں تو نوچیاں بہت ہیں پر ایک نئی نوچی اس کی، سارے طائفہ کی ناک تھی۔ انھیں دنوں اس بے باک کا نیا نیا شور اور نئی نئی مِسّی لگی تھی۔ شعر ؎
شہرہ متاع خوبی اس شوخ کا بلا تھا
بازاری سب دکانیں اپنی بڑھا کے بیٹھے
اس پر نظم ؎
جوانی کا موسم شروعِ بہار
وہ سینہ سے جوبن کا اس کے ابھار
خماری وہ انکھیاں وہ انگڑائیاں
وہ جوبن کے عالم کی سرسائیاں
اٹھتی جوانی، چودہ برس کا سِن، رنگ طباق میں اور چھپ گٹھری میں۔ بیت ؎
بوٹاسا قد ہے اس کا اور چال میں چل بل ہے
ہو کیوں نہ پھپک اس پر اٹھتی ہوئی کوپل ہے
سچ کہا ہے، کھایا پیا بدن اور ہی ہوتا ہے۔ اور ایک نور آدمی ہزار نور کپڑا۔ اس کی پوشاک، لباس کو مت پوچھو۔ شعر ؎
زرق وبرق ایسی تھی پوشاک میں اس کی کہ جسے
کوند بجلی کی کہوں یا کہوں شعلہ کی جھمک
جیسی ہے سج سے گلے بیچ حمائل گل کی
ویسی ہی عطر کی بوٗ، اُتنی ہے سوندھے کی مہک
(بوٗ=خوشبو) (سوندھے = مصالح خوشبودار)
کیا کہوں کتابی منہ، چنپئی رنگ، مو ہنی صورت، بھولی بھالی باتیں، انوٹھی انوٹھی گھاتیں، رسیلی، لجیلی کنچن سی چنچل آنکھیں۔ دوہرہ ؎
امیں ہلاہل مَدھ بھرے سیت سیام رتنار
جِیَت مَرَت جھکِ جھکِ پَرَت جا چِتوَت اک بار
(سیت = سفیدی، سیام = سیاہی، رتنار = سرخ)
غزل ؎
چِتون میں لگاوٹ، سَین غضب، مژگاں کی جھپک پھرویسی ہے
(سَین=اشارہ، مژگاں =پلکیں )
دل چھین لے اس کی چینِ جبیں، ابروکی لچک پھر ویسی ہے
کچھ ماتھے پہ بکھرے بال بلا کافر ہے وہ بندش جوٗڑے کی
مکھڑے میں شرارت ٹھیری ہوئی، نتھنوں میں بھڑک پھرویسی ہے
وہ چمپئی نازک نازک رنگ اور بھرے بھرے وہ رخسارے
(رخسارے = گال)
صورت پر امنگ جوانی کی، چہرے کی دمک پھر ویسی ہے
اس بُندے کے ہم بَندے ہیں وہ بالا سب کو دے بالا
موتی سے ساری مانگ بھری، بینی کی جھمک پھر ویسی ہے
(ٹیکہ اوربینہ جو ماتھے پرلگاتے ہیں )
وہ سرخ ملایم ہونٹھ غضب اور اودی وہ مسّی کی دھڑی
دانت ان میں موتی کی سی لڑی، ہنسنے میں چمک پھر ویسی ہے
وہ گردن اس کی صراحی دار اور تس پہ صفائی ہے ظالم
سج دھج میں تمام خوش اسلوبی، زیور کی بھڑک پھر ویسی ہے
وہ ابھری ابھری سخت کُچیں اور پیٹ ملایم مخمل سا
(کُچیں =چھاتیاں )
پتلی سی کمر اس کافر کی، جنبش میں لچک پھر ویسی ہے
وہ اونچے گورے گول سُریں، وہ کافر رانیں بھری بھری
(سُریں =چوتڑ)
وہ ساقِ بلوریں ہوش رُبا، پاؤں کی کفک پھر ویسی ہے
(ساق = پنڈلی)
ہر عضو نزاکت بھرا ہوا اور تس پہ بدن سب گدرایا
(کفک=مہندی)
قامت ہے قیامت سرتاپا، چلنے میں لٹک پھر ویسی ہے
ہر آن ہے اس کی آن نئی اور ساتھ ادا کے سب باتیں
ہے ناز و کرشمہ اور عشوہ، غمزے کی گمک پھر ویسی ہے
کہہ بیٹھے ہے سب پر وہ پھبتی کوئی جُگت سے خالی بات نہیں
پوشاک میں بالکل بانک نیا، سوندھے کی مہک پھر ویسی ہے
اس وضع پہ جرأت اس کا گانا سنیے اگر تو ہے ظالم
ایک بُکّے سُر کے اڑتے ہیں، تانوں کی کھٹک پھر ویسی ہے
پتلے پتلے ہونٹھوں پردھڑی کا جمنا اورمسکرانے میں دانتوں کا بجلی سا دمنا(دمنا=چمکنا)۔ بیت ؎
وہ بن پونچھی ہوٹھوں کی مِسّی غضب
کہ منہ پر تھی گویا قیامت کی شب
قطعہ ؎
مِسّی آلودہ لب، اخگر تھے تہِ خاکستر
کہ ہوا سے وہ سخن کرنے کے، جاتے تھے دہک
کمر اس کی میں نہ دیکھی کہ کروں اس کا وصف
تھی وہ ایک آہوئے دل کے لیے، چیتے کی لپک
تس پر بارہ ابھرن سولہ سنگار، بال بال گج موتی، کڑے چھڑے زیادہ، کنگھی چوٹی کیے، بنی ٹھنی، گروجی کی نظر پڑی۔ شعر ؎
دل بھول گیا دیکھ کے چہرہ وہ کتابی
ہم عصر کے علّامہ تھے پر کچھ نہ رہا یاد
(عصر=زمانہ)
پاس سے تو کہاں، پر دور سے چوری چوری گروجی اپنی آنکھیں سینکتے تھے اور اور لگائیوں (عورتوں ) کو سنا سنا کہتی تھی۔ بیت ؎
قدرت کو اپنے حق کی خوش ہو کے گھورتے ہیں
ماٹی کی مورتوں میں کیا خوب صورتیں ہیں
(مورت=تصویر)
لیکن رباعی ؎
پر غلط سمجھے کہ معشوق صلہ دیتے ہیں
گالیاں دیتی ہیں اور دینے کو کیا دیتے ہیں
پور پور ان کی میں اعجاز مسیحائی ہے
چٹکیاں لے کے یہ مُردوں کو جِلا دیتے ہیں
سوچھوچھا کس نے پوچھا۔ دبلے کلانوت کی کون سنتا ہے۔ شعر ؎
(کلاونت = ڈوم ڈہاڑی)
صحبتِ پیر و جواں کیوں نہیں بنتی یارب
پر سیہ خال تو آنے دے بہ پہلوئے سفید
وہ ایک اور ہی جوان سے اٹکی تھی، پر حق بطرف تھا۔ شعر ؎
دل بھلا ایسے کو اے درد نہ دیجے کیونکر
ایک تو یار ہے اور تس پہ طرحدار بھی ہے
اس کا بھی پیام ایک جوان سے لگا ہوا تھا۔ گول سڈول، خوش گات، بندھا بدن، چیتے کی سی کمر، شیر کا سا چوڑاچھاتا، نک سک سے اچھا، سجیلا، لجیلا، چھبیلا، بانکا ترچھا، نوکیلا نازنیں جوان تھا۔ یہ دونوں آپس میں ایسے پرچے تھے کہ اِسے اُس بن قرار نہ تھا نہ اُسے اِس بن چین، دل لگا برا ہوتا ہے۔ شعر ؎
ناصح تو قسم لے ہم سے دل پر
اپنا کبھو اختیار ہووے
ایسی دوستی میں چوکی کا جانا معلوم اور جو کدھی کدھار مارے باندھے اس نے نائکہ کے ڈر سے مانا تو اس کا یار کب مانتا تھا اور اس سے کہتا تھا۔ بیت ؎
اے ترے قربان ہم کیا کم ہیں جل جانے کے تئیں
شمع روٗ، خلوت میں مت دے راہ پروانے کے تئیں
نائکہ کو تو زر سے کام ہے، بھلا میں ہی جو خدمت کو حاضر ہوں، پر ایسی بات وہ قحبہ کیوں سنتی تھی۔ یہ لوگ جہاں ایسا دیکھتے ہیں پھر روپیے کا منہ نہیں دیکھتے، دوستی تڑاتے ہیں۔ نائکہ کو یہ راؤچاؤ (پیار اخلاص) کب بھاتا تھا۔ وہ ان دونوں کا سبھاؤ دیکھ دیکھ کر اور چوکنّا ہوتی تھی۔ دوہرہ ؎
نہیں پراگُ نہیں مدھر مدھ نہیں بِکاسُ یہ کال
(پراگ=نام تیرت الہ آباد)
اَلی کلی ہی سیں بِندھو سو وا کو کون حَوال
(اَلی کلی =اے کچی کلی، حَوال=احوال)
ارے نئی نئی لگن میں تو ان کا یہ حال ہے، ابھی کچھ نہیں گیا، پر جب یہ چھنال اپنی مدھ پر آئی اور وہ اس کا لاگو رہا اور اس کے گھر پڑنے پر پھر بیٹھی، اسی دن کو جھینکتی ہوں کہ جب دو دل ہوئے راضی، تب کیا کرے گا قاضی۔ جوان نائکہ کی اِن بولیوں ٹھولیوں سے کھسیانا ہو کر کہتا تھا۔ ؏
میں سخت جل رہا ہوں بڑی بی کے ہاتھ سے
رباعی ؎
دیکھیں نہ توروتی ہیں یہ آنکھیں دن رَین
اور جلتی ہیں ساتھ اور کی دیکھ اس کو نین
ناحق کو انھوں نے یہ بِساہا کیا پاپ
(بِساہا=مول لیا)
دیکھے نہ انھیں چین نہ بِن دیکھے چَین
اور اپنے جی میں یہ بھی سوچتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ایک توگھر بھر میں یہی نِرتکا (رقاصہ) ہے اور اسی تلک طائفہ ہے، دوسرے بردہ (لونڈی) ہے بیٹی نہیں، یہ بھی بڑا پیچ ہے۔ بیت ؎
ملاپ کیوں کہ ہو دونوں کے دل قفس میں ہیں
جنہوں کے بس میں ہیں ہم وہ پرائے بس میں ہیں
اور رنڈی اپنے دل میں کہتی تھی۔ رباعی ؎
کیا کروں اس سے بھی میں توڑ نہیں سکتی ہوں
اور بڑی بی بھی سے منہ موڑ نہیں سکتی ہوں
اس طرف پلنےکا حق ہے اور ادھر الفت کا
سخت مشکل ہے کہ اب چھوڑ نہیں سکتی ہوں
بیت ؎
نہ ملیے یار سے تو دل کو کب آرام ہوتا ہے
وگر ملیے تو یہ مشکل کہ وہ بدنام ہوتا ہے
رنڈی کا دل پھنسا دیکھ کر آخر نائکہ نے ٹھہرایا کہ اب جو بنے سو بنے، اس جوان موٗنڈی کاٹی کو زہر دوں، نہ کتّا دیکھے گا نہ بھونکے گا، نہیں رنڈی ہاتھ سے جا چکی۔ بہت دنوں سے گھات لگائے ہوئے اسی تاک میں تھی پر گوں (قابو) نہیں پاتی تھی۔ اس رات کو جب وہ جوان آیا، نائکہ نے وقت پایا، وہ دونوں نِچنت (بے فکر) اپنی جگہ میں بیٹھے ہوئے آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ دوہرہ ؎
مکت مال گنگا سِلَل روما وَل منجدھار
(مکت=موتی، مال = مالا، سِلَل=لہر، روماوَل=بال سینہ)
کُچ ووچکوا کر باج ہیں پیتم میر شکار
(کُچ=پستان، چکوا= نام جانور، باج=باز، پیتم=عاشق)
چپکے چپکے پیاری پیاری کھلی باتوں سے کن رس کا لطف اٹھاتے تھے اور ہت رس کا مزا لیتے تھے پر نائکہ انھیں اوپر سے اوپر بھانپتی تھی اور ان کے کن انکھیوں کے دیکھنے سے اپنی آنکھیں چراتی۔ بیت ؎
دیکھوں تو یوں وہ کہہ کے لگے منہ کو ڈھانپنے
“کم بخت پھر لگا مجھے نظروں میں بھانپنے ”
آگے اوروں پر دھر کے دھرا دھرا (ڈرا دھمکا کر) بڑھیا تو آوازے توازے بہت کسا کرتی۔ اس رات کو سب کابدی دیکھ بھال کر بھی آنا کانی دے گئی، اوپرسے اور شراب دو آتشہ کی کئی گلابیاں بھیج دیں کہ ذرا چکھیں، پھر خوب چکھاؤں۔ اس کے ان مکروں سے ان دونوں کے پرکھوں کو بھی خبر نہ تھی اور گروجی جدا دوکھ رہے تھے۔ بڑھیا آپ ہی کو گھات لگا رہی تھی پر دونوں ہٹ دھرم تھے۔ گروجی، اَن مِلی کی کُسل ہے، کیا کروں نکھ (ناخن) نہیں جو پیٹ(پیٹھ) کھجاؤں۔ شعر ؎
گر ہو شراب و خلوت و معشوقِ خوب رو
زاہد تجھے قسم ہے جو تو ہو تو کیا کرے
فقیر کے منہ کون لگے، بھلا نائکہ اپنے دن کیوں بھول گئیں، کچھ سدا کی نائکہ نہ تھیں، نوچی پن میں ہمیشہ مجرے کے روپے چرا چرا اپنے یاروں کا بھرنا بھرتی رہیں۔ اب تو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ خدا کو مانو، اپنا سا دل سب کا جانو، ستانا دل کسی کا اور کلپانا اچھا نہیں۔ شعر ؎
دل کے تئیں اک عالم کہتا ہے خدا کا گھر
اے عشق اسے آتش جو دے تو سمجھ کر دے
خدا سے کب بس چلتا ہے اور لوگوں کا منہ کون پکڑتا ہے۔ بھلا اس کے ہاتھ سے جو یہ بے چارہ مارا جائے توناحق چوتیا شہید کہائے۔ شعر ؎
عشق ہی شرط ہے کیا، ہو مرض الموت اسے
یارب انسان کے مرنے کو ہیں آزار کئی
پر یہ سب ادھم دل کی اٹھائے ہیں۔ بیت ؎
کیوں رے دل تو نے ہم سے کیسی کی
ہت تیرے دل کی ایسی تیسی کی
غرض شراب دیکھ کر وہ دونوں خوش ہوئے کہ ہمارے نصیب کھلے۔ کیا ہے کہ آج بڑی بی مہربان ہیں۔ پھر رنڈی نے شراب ڈالنی شروع کی اور ایک پیالہ اپنے یار کو دیا۔ جوان نے کہا۔ شعر ؎
گر یار مے پلاوے تو پھر کیوں نہ پیجیے
زاہد نہیں میں شیخ نہیں کچھ ولی نہیں
اور آپس میں پیالے چلنے لگے۔ نظم ؎
ہوا پھر تو صہبائے گلگوں کا دور
ہوئے اور ہی اور کچھ واں کے طور
غرض رفتہ رفتہ وہ مد ہوش ہو
چھپرکھٹ میں لیٹے ہم آغوش ہو
جب وہ دونوں خوب چھکے اور متوالے ہو کر پلنگ پر گرے تب نائکہ کی بن آئی۔ بیت ؎
ٹک جاگ لے تو چھوڑ کے غافل پلنگ و خواب
آخر تو پھر یہی ہے کہ چھاتی پہ سنگ و خواب
اس نے جو سرمہ سا زہرِہلاہل پیس کر بہت دنوں سے اپنے پاس باندھا رکھا تھا وہ آفت کی پوڑیا کھول کر سب زہر ایک چھونچھے میں بھر وہ قطّامہ تیار ہوئی۔ شعر ؎
کس ہستیِ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار
کچھ اپنے شب و روز کی ہے تجھ کو خبر بھی
چاہے تھی کہ چھونچھی کا منہ جوان کے نتھنے میں لگا کر ایسا پھونکے کہ دماغ کے پہنچتے ہی فنا ہو اور دم نکل جائے۔ خدا کو جو اسے بچانا تھا اور اس کی زیست تھی، زہر کی دھانس سے جوان کو ایک ایسی چھینک آئی کہ سارا چھونچھی کا زہر الٹا اس ہی کے حلق میں جاتا رہا۔ گھاٹی سے اترتے ہی پل مارتے آپ ہی چٹ پٹ مر گئی، دونوں کا سنیچر اتر گیا۔ دوہرہ ؎
جن پائن پنہی نہیں اُنھیں دیت گج راج
بکھ دیتی بکھما ملے سو داتا گریب نواج
یہ ڈول دیکھ کے گروجی پر وہ رات کاٹنا بھاری پڑا، یہی تکتے تھے کہ کب سویرا ہو، کب سٹکوں۔ بیت ؎
اے ہجر کون شب ہے کہ جس کو سحر نہیں
پر صبح آج ہوتی تو آتی نظر نہیں
دو گھڑی رات پچھلی سے گروجی بوریا بدھنا بغل میں مار کے چلتے پھرتے نظر آئے۔