(Last Updated On: )
اُسی شہر میں ایک موچی ان کا چیلا تھا۔ کہیں راہ میں اس سے بھیٹ ہوئی۔ گروجی کو دیکھتے ہی پاؤں پر آگرا اور ہاتھ پاؤں پڑ کے بڑے آدر سے انھیں گھر لے گیا۔ اُسے کہیں پنچایت جانا تھا کہ بھیوات میں نیوتا تھا، نہ جاتا تو ذات سے باہر ہوتا۔ لاچار ان کو گھر بٹھا کر جورو لڑکوں سے کہتا گیا کہ میں گروجی کو گھر میں بٹھائے جاتا ہوں۔ جو کہیں سو کیجیو اور جو مانگیں سو دیجیو، کسی بات کا دکھ نہ پائیں۔ اتنا کہہ کر موچی کو جہاں جانا تھا وہاں گیا۔ اس کی جو رو ایک بال بیاسی چھنال تھی۔ گرو بے چارے نے یہ تریا چرتر کب دیکھے تھے۔ اس بیسواپن سے انھیں کیا خبر تھی۔ اس کی ملنساری دیکھ کر سادی خوزادی جانتے تھے، اس کا وہ روکھے منہ سے باہر جانا اور دلداری سے ہنسی پی کر گھر میں آنا کوئی حرّاف ہی جانے۔ شعر ؎
جنونی خبطی دیوانہ سِڑا کوئی عشق کو سمجھے
فلاطوں سے نہیں ہے بحث وہ غافل ہے کیا جانے
وہ موچن بھی کہیں اٹکی تھی اور کسی سے آنکھ لگی تھی۔ جوانی کا سماں تو ادھم اٹھانے کے دن ہوتے ہیں اور ہوش حواس کھوتے ہیں۔ رباعی ؎
ہر جا حسنے بجلوہ موزوں گردید
شد عشق و بلائے جان مفتوں گردید
شور خلخال پائے لیلیٰ آخر
وجہ خلل دماغ مجنوں گردید
خدا پناہ میں رکھے، نیا جوبن، نئی چھپ، نکھرا رنگ، بدن کا بھرنا، چھاتیوں کا ابھرنا، بدنامی کا گھر ہے، جسے دیکھ آنکھ چرائے، سو تُرت دیکھے چوری لگائے، جس پر ایک پھول پھینک مارے، اسی سے لگا مارے، سو اس کے تو بال بال میں شرارت بدھی ہوئی تھی اور روئیں روئیں میں شوخی بھری ہوئی، سر پر لٹی بالوں کا جوٗڑا اور بانہہ میں ہاتھی دانت کا چوٗڑا سو سو بناؤ تھا۔ شعر ؎
نہ لٹ دھوئیں کی ہے ایسی، نہ زلف سنبل کی
جو بال سر کے ترے پیچ و تاب رکھتے ہیں
ہر کیسی جیسی کو تیسی، وہ آپ چھبیلی تھی ویسا ہی اس کا یار چٹکیلا تھا۔ نظم ؎
برس بیس اکیس کا سن و سال
نہایت حسیں اور صاحب جمال
سب اعضا بدن کے موافق درست
ہر ایک اپنے موقع سے چالاک و چست
ان دونوں میں ایک ناین کٹنی تھی کہ اس کی منہ بولی بہن کہلاتی تھی، آگ اور پانی کو اکٹھا کر دکھلائے، پتھر کو پانی کر پگھلائے، آسمان میں تھگلی لگائے، زمین میں سرنگ دوڑائے، انھوں کا پیغام وہی پہنچاتی تھی۔ اس رات موچن نے دیکھا ساس نہیں گھر باکھر(بمعنی خانہ)، سونی خالی میدان ہے اور جس کا ڈر تھا سو کہیں مہمان۔ شعر ؎
چھوڑ مت نقد وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے
ناین تو وہاں آٹھوں وقت بنی رہتی تھی، ٹھنڈے سانس بھر کر اس سے کہنے لگی۔ شعر ؎
یہ بے کلی ہے کہ دل کو قرار مشکل ہے
مجھے تو سانس کا لینا بھی یار مشکل ہے
قسم خدا کی اگر، شعر ؎
آج بھی اس کے جو ملنے کی نہ ٹھہرے گی تو بس
ہم وہ کر بیٹھیں گے جو دل میں ہیں ٹھہرائے ہوئے
میں تجھے جتائے دیتی ہوں ایسا نہ ہو کہ میرے صبر میں توپکڑی جائے، نہیں جا کر چپکے سے کہہ آکہ آج کی رات ہمارے تمھارے ملنے کا بڑا داؤں ہے، ایسا وقت کہیں نصیبوں سے ہاتھ آتا ہے۔ بیت ؎
جو ملنا ہے مل، پھر کہاں زندگانی
کہاں تو کہاں میں، کہاں نوجوانی
اس کے جانے ہی کی دیر تھی، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ وہ ایسا تَتّا تھا کہ دیا (چراغ) بلتے (جلتے ) ہی جیسے دیپک پر پتنگا دوڑے، سہے سانج دروازے پر آکھڑا ہوا۔ شعر ؎
گلی میں اس کی مت جا بلہوس آ مان کہتا ہوں
قدم پڑتانہیں اس کوٗمیں واں سرسے گذرتے ہیں
کانے چوٹ کنونڈے بھیٹ (ملاقات) ایکا ایک وہ موچی پنچایت سے سر ہی پر آن پہنچا اور ان دونوں کو دیکھ لیا۔ رباعی ؎
جی کی جی ہی میں رہی، بات نہ ہونے پائی
ایک بھی اس سے ملاقات نہ ہونے پائی
دید وا دید ہوئی دور سے میری اس کی
پر جو میں چاہا تھا، سو بات نہ ہونے پائی
موچی کا دل کچھ تو آگے ہی سے بھرما رہا تھا، کوٗ وقت (بے وقت) دروازے پر دیکھی دونوں کی لاگ (آشنائی) کا یقین ہو گیا۔ وہ تو صاف آنکھوں میں گھر کرتی تھی پر اس کی شرمائی آنکھیں کہے دیتی تھیں۔ بیت ؎
چاہ کی چتون سے تھی آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
تاڑ لی محفل نے یارو سخت رسوائی ہوئی
بیت ؎
ہوئی قیمت دوچند اس چشم کی آنکھیں چرانے سے
غلط کہتے ہیں یہ ارزاں بکے ہے مال دزدیدہ
پھر مرد کو بھی آنکھیں چراتے دیکھا۔ موچی کے جی میں اور چور پیٹھا تھا کہ یہاں کچھ تو دال میں کالا ہے۔ شعر ؎
کہیں ہوئے ہیں سوال و جواب آنکھوں میں
یہ بے سبب نہیں ہم سے حجاب آنکھوں میں
موچی کی بگڑی ہوئی تیوری دیکھتے ہی مرد تو رفوچکر ہوا، پر موچی نے رنڈی کو ایک ایک منہ سے سو سو گالیاں دیں۔ رباعی ؎
شکل اپنی دکھا کے تو نے گوری گوری
دزدیدہ نگہ سے کرنی دل کی چوری
سو عشق بزور سر چڑھا ہے اس کے
یہ وہ ہے مثل کہ چوری اور سر زوری
اور اس نے پھر رنڈی کی چوٹی پکڑ کے خوب سا لتیایا اورمشکیں جکڑکے کھنب سے باندھ رکھا۔ رباعی ؎
چاہت مری تیرے مسکرانے سے کھلے
اور دیکھ کے مجھ کو منہ چھپانے سے کھلے
دل لے کے تو مت مُکر کہ میرے دل کی
چوری تری آنکھ کے چرانے سے کھلے
اور پھر آپ جیسا ہی ہاراماندا، نشے میں چوٗر آیا تھا، چارپائی پر لیٹتے ہی سو رہا۔ شعر ؎
ہو گیا وہ کام جو ہونا نہ تھا
آنکھ لاگی سو گیا سونا نہ تھا
گرونے اس مارکٹائی کا مارگ نہ پہچانا۔ موچی ہی کا دل کٹّر جانا۔ چاہتے تھے کہہ سن کر اسے چھڑا دیں کہ اتنے میں وہ آفت کی پرکالا ناین آن پہنچی۔ شعر ؎
تو ٹک جگر تو مرے مرغِ نامہ بر کا دیکھ
وہاں اڑے ہے جہاں پر جلیں فرشتوں کے
اور کہنے لگی وہ بڑی دیر سے تمھاری راہ دیکھ رہا ہے۔ بیت ؎
نے وہ یہاں قول نے قرار رہا
وھاں وہی اب تک انتظار رہا
اور اس نے کہا ہے۔ نظم ؎
نہ آنا یہاں ترا میری قضا ہے
مرا جینا اگر تیری رضا ہے
تو آ جلدی کہ اب مجھ کو نہیں تاب
نہ رکھ اس تشنگی میں مجھ کو بے آب
خدا کے واسطے چلنا ہو تو چلو اور کہنا ہو سو کہو، نہیں رات جاتی ہے۔ بیت ؎
کچھ توکہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
دن گذر جاتے ہیں پر بات چلی جاتی ہے
موچن نے اسے اپنے پاس بلالیا اورآہستہ سے کہا۔ بیت ؎
دیکھتے غیر کے مری اس سے نگاہ لڑ گئی
کام ہی چل بچل ہوا بات ہی سب بگڑ گئی
سو اس بات پر، دیکھ بہن اس کے ہاتھ ٹوٹیو، مارا سو مارا، اوپر سے مشکیں باندھ بے بس کر رکھا ہے۔ میں توشام ہی سے رسیاں تڑاتی تھی۔ شعر ؎
جدائی بھلا کس کو منظور ہے
زمیں سخت ہے آسماں دور ہے
کہہ تو نہیں سکتی تجھ سے، ہو سکے تو ذرا میری جگہ ہاتھ پاؤں بندھا کر تو کھڑی رہ تو میں اس کا دل رکھ کر اِنھیں پاؤں پھری آتی ہوں۔ مصر؏
بات رہ جاوے گی قاصد، وقت رہنے کا نہیں
ناین کو اس کی خاطر عزیز تھی، اسے کھول کر اپنے ہاتھ بندھا، کھنب سے لگ رہی اور موچن کو اس کے طالب دیدار پاس بھیجا۔ قطعہ ؎
نخشبی زن فریب ہا دارد
خویشتن راز قید او بہ رباے
مار زہرست از لب و تا دُم
زن فریب است از سرو تا پاے
یہ تماشا دیکھ کر گروجی بہت ریجھے اور کہا: آدمی جانیے بسے اور سونا جانیے کسے۔ میں نہیں جانتا تھا اس کے پیٹ میں یہ یہ گُن بھرے ہیں۔ کون جانتا تھا کہ یہ شہکارا اتنی اُدھ مادی ہے اور اس کی ایسی پُرکھ ہیں۔ نظم ؎
پہنچی ہے وہ کھلاڑ تا بشباب
موچیوں کا کیا ہے نام خراب
نہ جواں چھوڑے ہے نہ یہ بالا
کام کے دیو نیں اسے پالا
مارتا کیا تھا اسے گردن مارتا تو اور خوب ہوتا اور ناین کو کون لالچ، جی کے بدلے جی دیتی ہے۔ اس کا دل گردہ دیکھا چاہیے کیا موٹا دیدہ ہے۔ بھلا ابھی موچی جاگ پڑے اوربات کھل جاوے تومفت ناک چوٹی جائے۔ شعر ؎
خدا ہی خیر کرے بات بے طرح ہے آج
کہ وہ بگاڑ پہ ہے اور پیامبر گستاخ
قاضی جی دبلے کیوں، شہر کے اندیشہ سے۔ بھلا تم کو ن؟ آگ جانے لوہار جانے، دھوکنی والے کی بلا جانے۔ اپنے بھی دن یادکرو۔ شعر ؎
تیری بھی جوانی تھی وہ ناصح کہ نہ تھا روز
قاضی کا ترے واسطے اعلام نہ آیا
اس میں موچی کی نیند ٹوٹی اور چونکتے ہی رنڈی کو پکارا۔ سنتے ہی ناین کے ہاتھ پاؤں کے باسن چھٹ گئے اور سٹپٹائی۔ اب نہ بولے تو مشکل، بولے تو اور مشکل۔ سب سے بھلی چپ۔ تِس سے مَشت ہی مار رہی۔ وہ کتنا ہی پکار رہا، نہ بولنا تھا نہ بولی۔ اس کے چپ سادھنے پر موچی آگ بگولا ہو گیا۔ اٹھ کے جو آیا، رانپی نکال، ناک اتار، اس کے ہاتھ میں رکھ دی کہ اپنے یار کو یہ سوغات بھیجیو۔ لاچار ناین یہ سب کہا بدی پر دم نہ مارا اور دل میں کہنے لگی: کر گیا داڑھی والا، پکڑا گیا مونچھوں والا۔ جن کے یہ کانٹے بوئے ہیں سو یار پاس سوئے ہیں، مزہ وہ اڑائے ہیں۔ میری حرمت پر بات آئی۔ اتنے میں موچن آن پہنچی، دیکھے توطویلہ کی بلا بندر کے سر۔ بچاری کی ناک پر آفت آئی۔ بہت روئی، کُڑھی اور اس کا عذر سُبھیتے کے وقت پرموقوف رکھا اور اس کو کھول کر آپ کھنب سے بندھ رہی۔ ناین اپنے گھر جاتی تھی اورجی ہی جی میں پچھتاتی تھی کہ اب کیا ناک لے کر گھر جاؤں؟ کس ناک سے سسرال میں منہ دکھاؤں اور لوگوں میں کیا بات بناؤں؟ کوئی پوچھے تو کیا بتاؤں؟ گرو کی بھی عقل چکر میں تھی کہ دیکھیں اب ناین کیا رنگ لاتی ہے اور موچن کیا بات بناتی ہے؟ دو گھڑی رہ کر تو موچن ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگی کہ الٰہی بھلا دنیا کے لوگ اندھے ہیں، تو دانا بینا ہے، تجھ سے تو کوئی بات چھپی نہیں، سب آشکارا ہے۔ شعر ؎
میں کہاں اور بھلا میری ملاقات کہاں
لوگ کم بخت عبث کرتے ہیں بدنام مجھے
جو اس میں میرا دوس ہو یا کچھ مجھ میں پانی مرتا ہو تو ناک چھوڑ کان بھی جائیں۔ اس نے کیا سمجھ کر بے تقصیر میری ناک جو میرے منہ کی سوبھا تھی، طوفان شیطان لگا کے کاٹ لی اور جس سے یہ مجھے لگائے مارتا ہے کبھی میں نے۔ شعر ؎
بھر نظر اس کو جو دیکھا ہو تو آنکھیں پھوٹیں
کان بہرے ہوں سنا ہو کبھو پیغامِ وصال
جو کچھ میں جٹی ستی ہوں تو میری ناک جیسی تھی ویسی ہی ہو جائے۔ یہ بات اس کا خاوند پڑے پڑے سنتا تھا، ایکا ایک اس پر جھونک دوڑا کہ جھک نہ مار: خدا، چور، چھنال کی نہیں سنتا۔ ایسی چہیتا چہیتی گورا پاربتی، بی بی نیک پاک ہیں کہ خدا نئے سر سے ان کی کٹی ناک جماوے گا۔ شعر ؎
اثر ہوتا تو کب کا ہو بھی چکتا
دعائے صبح سے اب ہاتھ اٹھا بیٹھ
رنڈی نے کہا: اپنا سا سب کو مت جان، ایمان ٹھکانے رکھ اور ایسی بات پھر مت کہہ۔ یہاں سانچ کو آنچ نہیں۔ خدا میں سب قدرت ہے۔ آنکھوں دیکھے گا، تب تو پتیائے گا۔ یہ بات سن کر موچی اچنبھے میں رہا۔ اٹھ کر دیکھا تو جُڑی جڑائی اچھی خاصی جیسی تھی ویسی ہی ناک ہے۔ شعر ؎
ہوا سنتے ہی شوق اس کو دوبالا
قدم پر اس کے سر جاتے ہی ڈالا
نک گھسنی کرنے لگا کہ میں نے تجھے ناحق ستایا، پھر ایسا جھک نہ ماروں گا۔ نظم ؎
کہے گی تو جو کچھ ووہی کروں گا
جیوں تیری رضا میں یا مروں گا
وہی اے دوست میرا مدعا ہو
مرے حق میں جو کچھ تیری رضا ہو
بجا لاؤں تیرا ہر طور فرمان
ترے جاؤں سدا قربان قربان
تجھے تن زیب اور خاصہ پنھاؤں
تجھے کر فرش آنکھوں میں بٹھاؤں
بھلا ہوا سو ہوا۔ شعر ؎
تو مجھ سے نہ رکھ غبار جی میں
آوے بھی اگر ہزار جی میں
دیکھو بن آئی کی بات ہے۔ اب رنڈی تو اپنا مان بڑھانے کو سیج پر جاتی، پاؤں پھیلاتی ہے اور یہ بچارا اس کا غصہ گھٹانے کو ہاتھ جوڑتا ہے۔ نظم ؎
دعا یہ مانگتے ہیں اب کہ اس طرح سے رات
خفا ہو اپنے اس یارِ مہرباں سے لڑے
اُسی طرح سے الٰہی بہم ملاپ میں بھی
دہاں دہاں سے لڑے اور زباں زباں سے لڑے
یہ ناین جو اپنے گھر گئی تھی، اسے یوں سوجھی کہ کسی بہانے خصم سے بگڑوں اوریہ چھدّا اُسی کے سر دھروں۔ کہیں اس کے جاتے ہی نائی چونکا اور کہا: ذرا جوتا تو دے، مجھے ایک ججمان کے گھر جانا ہے۔ رنڈی کو تو اسے بھڑکانا تھا اور اپنی بھنبھنی آواز چھپانا۔ اس نے نہ جوتا اٹھا دیا، نہ بات کا جواب ہی دیا۔ اس کی مگرائی پر بات بڑھی اور نائی گالی گلوج کرنے لگا۔ آخر ناین نے بہت کھسیانا کر کے جوتے کی جگہ ننگا استرہ لا، ہاتھ میں دینے لگی اور تنک کر کہنے لگی۔ شعر ؎
یہ نت کے کون نکتوڑے اٹھائے
ترا غصہ تو ہر دم ناک پر ہے
نائی نے جھنجھلا کر وہ استرہ اس طرف کو پھینک دیا۔ استرہ پھینکنا اور اس کا لوٹ جانا، رنڈی نے دوہائی تہائی مچا دی کہ ہائے ناک گئی۔ نائی سے بات بن نہ آئی، جیبھ داب کر اتنا تو کہا کہ اجی صاحب۔ شعر ؎
کیوں لیے مرتے ہو بندے کو خدا سے تو ڈرو
میں کدھر کو ہوں کھڑا آپ کدھر بیٹھے ہیں
اس وقت رنڈی کی جیبھ توقینچی سی چلتی تھی اور مرد ششدر گم تھا۔ نظم ؎
دیکھ کر اس کی ایسی حیرانی
شرم سے آئینہ بھی تھا پانی
نہ کٹوری کی ایک چشم تھی تر
سر بجیب استرے بھی تھی یکسر
اس سمے شورغل سن کر محلہ کی رنڈی، مرد اس کے گھر سبھی آٹوٹے۔ دیکھیں تو ناین کے کپڑے لوہو لہان ہیں اور صاف ناک سوت گئی ہے۔ سبھی نے نائی بچارے کو نکّو کیا۔ فجر ہوتے ہی رنڈی کے ذات بھائیوں نے بلوا کر کے اسے قاضی پاس کھچوایا اور الٹا قاضی نے بھی اسی کو آڑے ہاتھوں لیا کہ عقل کے نکھ لیوا بھلا کوئی ایسا کام کرتا ہے، تو نے بچاری کو کورے استرے مونڈا۔ اب عمر بھر کو یہ کلنک کا ٹیکا رہا۔ اس کے نصیبوں کہیں پھرتے پھراتے گروجی اس قاضی کے یہاں جانکلے۔ دیکھیں تو وہاں نائی، ناین کا نیاؤ (نیائے ) چُک رہا ہے اور لوگوں کا دھوم کچربہ ہو رہا ہے۔ قاضی مسند پر بیٹھا بات پوچھتا ہے کہ چور کو پکڑیے باٹ سے اور چھنال کو کھاٹ سے۔ تو نے کیا سمجھ کر اس کے منہ کی آبرو اتاری۔ اس وقت نائی کا دم ناک میں تھا، نہ ہاں کر سکتا تھا نہ ناہ۔ آخر نائی پر تقصیر ثابت کی اور ناک کے بدلے ناک کاٹنے کا حکم دیا۔ تب گرو قاضی کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا۔ شعر ؎
قاضی ہزار طرح کے قصوں میں آ سکا
لیکن نہ حسن و عشق کا جھگڑا چکا سکا
یہ وہی بات ہے تریا چلتر جانے نہیں، کوئی خصم مار کر ستی ہوئی۔ سو یار کا غصہ بھتار پر۔ ناک تو کہیں اور کٹائی اس بے چارے پر دھاندلی لائے، کیا تماشے کی بات ہے۔