(Last Updated On: )
تب درویش سویم نے طوطی زبان کے تئیں اوپر سرگذشت اپنی کے یوں مُترنم کیا کہ ؎
اے دوستاں ز حال من زار بشنوید
ہر چند نیست منزلت و قدر بندہ را
از داستانِ ایں دل افگار بشنوید
آیا کشیدہ ام ز بس آزار بشنوید
یہ بندہ بادشاہ زادہ مُلک عجم کا ہے اور وہ شہریار عالی تبار، گردوں وقار سواے میرے اور فرزند بیچ مشکوے خلافت کے نہ رکھتا تھا۔ ازاں جا کہ تقاضا ایام شباب اور جاہلیت کا ہے، بیچ سیر و تماشا و شکار بسیار اور لہو لعب بے شمار کے لیل و نہار سرشار رہتا تھا اور داد عیش و نشاط و مسرت و انبساط کی با یاران ہمراز و مصاحبان دمساز دیتا تھا۔ ایک روز باچندے از دوستان صادق و مُحبان موافق مانند گل ہاے بوستان رونق افزا صحرا کا ہوا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ساقی سحاب کے نے با آئین ہمت بندوں کے لطف بسیار اوپر حال سبز بختان روزگار کے مبذول کر رکھا ہے اور صحن صحرا از بس نسرین و نسترن سے رشک افزاے ماہ و پروین کا ہو رہا ہے۔ اتفاقاً بیچ اس بہار کے ایک آہو مشکیں مو سراسر سحر و جادو، فرد:
غزالے در ریاضِ جاں چریدہ
ز شوخی بر رُخِ صحرا رمیدہ
سامنے سے نظر آیا۔ قلادہ مرصع در گردن و جلاجل طلا در دست و جُل زربفت بر پشت، برخلاف وحشیان دشت کے باکمال اطمینان بیچ میدان خالی از انسان کے کھڑا ہے۔ میرے تئیں ہوس زندہ دستگیر کرنے اُس کے کی دامن گیر خاطر کے ہوئی اور رفقاے ہمراہی سے کہا، فرد:
اس ہرن نے جو من ہرا میرا
دل کے رمنے کا یہ شکاری ہے
بے مدد و اِعانت تمھاری زندہ دستگیر کیا چاہتا ہوں، کوئی اور تعاقب اور ہمراہی نہ کرے۔ خبر شرط ہے اور گھوڑا برق آہنگ سبک خیز طرف اس کے چلایا اور وہ روبرو سےہوا ہُوا۔ چنانچہ یہ یکہ تاز عرصہ روے زمین کا بیچ دستگیر کرنے اُس ہواے مجسم کے بال سعی کے باد صرصر سے دام لیتا تھا، لیکن کچھ پیش رفت نہ تھا۔ آخرش یہ شہسوار اور وہ مرکب راہوار عرق عرق اور تر بتر تمام روز خراب ہو کر از راہ طیش و جنوں کے ترکش سے تیر اور قربان سے کمان لے کر اور ساتھ زِہ کے ملاقات دے کر بسم اللہِ اللہُ اکبر کہہ کے ایک تیر مارا کہ ران آہو میں ہم ترازو ہوا۔ وہ لنگ لنگاں اوپر دامن پہاڑ کے چلا اور اس فقیر مضطر نے گھوڑا چھوڑ کر پیادہ پا تعاقب کیا اور مانند موسیٰ کے اس کوہِ طور نوراً علیٰ نور پر امیدوار دیدار شاہد مراد کا ہوا۔ بالاے کوہ کے ایک چشمہ اور چند اشجار اور ایک گنبد دوّار نظر آیا۔ میں مانند سکندر کے اُس چشمۂ آب حیات پر پہنچ کر بیچ وضو کرنے کے مشغول ہوا۔ یکایک صدا نوحہ کی گنبد سے گوش زد ہوئی کہ اے نور دیدۂ من و اے جگر گوشۂ من! جس نے تجھ سے یہ سلوک کیا ہے، الٰہی بر در من نشیند و از رفقا بہرہ نہ بیند۔ بہ مجرد سُننے اس آواز کے قصداً طرف گنبد کے رُخ توجہ کا فرمایا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک مرد محاسن سفید ملبس بہ لباس سیاہ اوپر مسند کے بیٹھا ہے اور تیر کو ران آہو سے نکالتا ہے۔ میں نے روبرو جا کے ادب سے سلام کیا اور اُن نے جواب سلام دیا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ حضرت سلامت! یہ تقصیر اس گنہگار سے صادر ہوئی، اب امیدوار ترحم عالی کا ہے کہ معاف ہووے۔ فرمایا کہ بابا خدا بخشے۔ میں نے متفق ہو کر تیر ران آہو سے نکال کر مرہم اوپر زخم کے لگایا۔ بارے اُس بزرگ ذات خضر صفات نے واسطے میرے بہ شفقت تمام ماحضر حاضر کیا۔ پس میں بعد فراغ طعام کے اوپر پلنگ کے واسطے استراحت کے متوجہ ہوا۔ بہ سبب ماندگی اور کسل اعضا کے سے فی الفور کمیں داران خواب اوپر قافلہ بیداری کے تاخت لا کر کلی متاع گراں بہاے ہوشیاری کی لوٹ لے گئے۔ بعد ایک لمحہ کے آواز گریہ و زاری کی بیچ گوش ہوش میرے کے مستمع ہوئی۔ آنکھ کھول کر دیکھتا کیا ہوں کہ تنِ تنہا پلنگ پر لیٹا ہوں اور صاحب خانہ سے مکان خالی ہے۔ پس جو آگے صُفہ کے ایک پردہ پڑا تھا اُس کے تئیں اُٹھا کر ملاحظہ کیا کہ ایک تخت مرصع بچھا ہے اور اوپر اُس کے ایک نازنین چہاردہ سالہ با روے چوں آفتاب و گیسوے چوں مشک ناب با غمزۂ دل آویز و تبسم شکر ریز بہ لباس فرنگ، نہایت شوخ و شنگ بہ اداے معشوقانہ و نگاہ جاودانہ بیٹھی ہے ؎
اس زلف جاں گُزا کو صنم کے بلا کہوں
قاتل نگہ کو پوچھتے کیا ہو کہ کیا کہوں
افعی کہوں، سیاہ کہوں، اژدہا کہوں
خنجر کہوں کٹار کہوں نیمچا کہوں
اور وہ پیر مرد سر اپنا نیچے پاؤں اس کے ڈال کر زار زار مانند ابر بہار کے روتا ہے اور کہتا ہے، بیت ؎
بعد ازیں در عوضِ اشک دل آید بیروں
آب چوں کم شود از چشمہ گِل آید بیروں
اور گلشنِ نونہال جمال اس کے سے گُل کامیابی چنتا ہے۔ ابیات:
قامت ایسا کہ بہ ہنگام خرام اس کے اگر
دست وہ تیز کہ عالم میں نہیں جس کی پناہ
آگے آجاوے قیامت تو یہ بولے کہ سرک
چشم وہ ترک کہ ہو قوم جنھوں کا ازبک
یہ عاصی بہ مجرد دیکھنے صورت حال اس حسن جمال کے تاب سے بے تاب ہوا اور مانند قلب بے جان کے بے ہوش و بد حواس ہو کر گر پڑا۔ پیر مرد نے دریافت کرنے اس احوال کے سے اٹھ کر شیشہ گلاب کا لا کر اوپر میرے چھڑکا۔ میں کہ بیچ عالمِ غش کے مانند صورت تصویر آپ سے غافل ہو کر بے حس و حرکت پڑا تھا، ہوشیار ہو کر اٹھ کھڑا ہوا اور سلام کیا۔ اس بے رحم سنگ دل کافر فرنگ نے جواب سلام کا نہ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ اے نازنین ماہ فلک چہارمی! فرد ؎
حق نے خوباں میں جہاں کے تجھے ممتاز کیا
با چنیں شکل و صُوَر صاحبِ اعجاز کیا
لیکن جواب سلام کا از جملہ واجبات ہے جتنا کہ عجز و الحاح کیا مُطلَق مُنھ سے نہ بولی۔ تب تو میں سبقت کر کے ہاتھ اوپر پاؤں اس کے لے گیا اور کہا، شعر ؎
رنگ حناست بر کف پاے مبارکت
یا خون عاشقانست کہ پامال کردہ
اور موجب شعر مرزا رفیع سودا کے ؎
فندق پالگی کہنے کہ نہ دیکھا ہوگا
سرو کے بیج سے پھولا گل اورنگ اب تک
آخر الاَمر مساس سے معلوم ہوا کہ آذر بت تراش نے پتھر سے تراشی ہے۔ تب تو میں نے اس بت پرست عاشق سرشت سے پوچھا کہ دعا تیری تو اثر کر چکی۔ اب سچ کہہ کہ یہ کیا طلسم ہے اور باعث استقامت تیری کا اس مکان پر کیا سبب ہے۔ مجھ کو اصل حال اس کے سے مطلع کر۔ تب اس عزیز مصر تمیز نے کہا ؎
اے جَواں کارِ عشق بازی نیست
عشق بازی مکن کہ بازی نیست
حق تعالی انسان ضعیف البنیان کو ہر آن میں طوفان ناپیدا کنار عشق بازی کے سے برکنار رکھے۔ تب میں نے کہا ؎
بے عشق جو عالم میں فراغت سے جیا ہے
اس دولت عظمیٰ سے وہ محروم رہا ہے
فرد ؎
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
بہتر یہ ہے کہ بیچ اظہار کرنے حقیقت اصل اس نقل کی بالفعل تاخیر اور توقف نہ کر ؏
کہ آفت ہا ست در تاخیر و طالب را زیاں دارد
واِلّا ہاتھ اس گم گشتۂ عقل و خرد کے سے جانبر نہ ہوگا۔ جب اس عزیز نے میرے تئیں مشغوف اور مستعد دیکھا، بہ لاچارگی بیچ گزارش احوال کثیر الاختلال اپنے کے نطق پرداز حکایت سراسر شکایت کا ہوا۔
حکایت
گزارش کرنا نعمان سیاح تاجر کا احوال پُر ملال اپنے کے تئیں اور مذکور ملکۂ فرنگ کا
کہ یہ گنہگار شقاوت شعار، امیدوار شفاعت نبی المختار سوداگر ہے اور میرے تئیں نعمان سیاح تاجر کہتے ہیں۔ بیچ اس عمر کے تجارت ہَفت اقلیم و شناسائی ہر صاحب تاج و دیہیم اور ملاقات صاحبان ناز و نعیم کے بہم پہنچا کر ایک روز بر سرِ حساب نصاب تجارت کے آیا اور رفقاے مجلس افروز و ندماے دلسوز سے کہ شب و روز جلیس ہمدم و انیس محرم تھے کہا کہ یہ دولت کَسب تجارت و پیشہ سوداگری کے سیر اقالیم و ملاقات بادشاہاں و مردم مشہورۂ آفاق و فقراے گوشہ نشین و خدا پرستان صحرا گزین تمام عرصہ روے زمین کی میسر آئی مگر آرزوے تجارت ملک فرنگ و ملازمت آں صاحب افسر و اورنگ ناخن زن جگر کی ہے۔ بارے بہ اتفاق یارانِ موافق و دوستان صادق با تحفہ ہاے ہر دیار چار و ناچار با قافلۂ تُجّار سیاحت شعار روانہ ہوا۔ بعد اِنقضاے مدت مدید ہر روز راہِ نو و ہر شب جاے نو منزل در منزل مَراحل در مراحل قطع مسافت کر کے بیچ اس شہر مینو سَیر کے پہنچا اور رخت اقامت کا ڈالا۔ چنانچہ پہنچنا سوداگران متمول و مالدار با تحفہ ہاے ہر شہر و دیار کا شہرۂ آفاق ہوا۔ صبح کے وقت کہ نیّر جہاں تاب رونق افزا گیتی کا ہوا۔ ایک خواجہ سرا با چندے خدمت گاران داخل کاروان سرا کا ہو کر مردمان قافلہ سے پوچھا کہ سردار اس گروہ صاحب شکوہ کا کون ہے۔ یاروں نے طرف میرے رہنمائی کی۔ وہ شخص اس طرف کو متوجہ ہوا۔ میں نے تعظیم تمام سے پیش آ کر صدر مجلس بٹھایا اور پوچھا کہ باعث تشریف آوری سے اطلاع کیجیے۔ اس ایلچی بادشاہِ کشور حسن و خوبی کے نے کہا کہ ملکہ ملک سیرت نے فرمایا ہے کہ مال تجارت سے جس قدر اسباب نفیسہ اور اجناس لطیفہ کہ لایق بادشاہ کے لائے ہو در حضور وافی السرور خاتون جہاں و بلقیس دَوراں کے حاضر کرو۔ میں نے عذر ماندگی اور کسل مزاج کا درپیش لا کے وعدہ صبح کا کیا۔ جس وقت کہ لیلی شب کی نے پردہ ظلمت کا چہرہ نورانی پر فَروہشتہ کیا۔ میں نے سب رفقاے ہمراہی کو جمع کر کے اور تحفہ جات عجائبات ہر ایک سے لے کر یک جا کیے اور بہ مجرد نکلنے مجنوں جہاں گرد آفتاب کے یہ بے خبر از شعبدہ بازیِ فلک کج رفتار روانہ دولت سراے ملکۂ فرنگ کا ہوا اور خبر حاضر ہونے فقیر کی معرفت باری داران حضور کے بہ مسامع مَجامِع عالیہ متعالیہ کے پہنچی۔ میرے تئیں اندرون حرم محترم کے طلب کیا۔ دیکھنے میں معشوقہ جادو ادا اور محبوبان حور لقا اس کے سے ایک شوق اور ولولہ میرے دل پر پیدا ہوا اور جس وقت کہ نگاہ میری اس اورنگ پیراے سلطنت عِز و ناز پر پڑی، بہ مجرد دیکھنے کے متاعِ گراں بہا حواس کی غارت گئی۔ بہ مضمون اس شعر کے ؎
کرتی ہیں ہر نگہ میں وار انکھیاں
ہر نگہ میں ادا و غمزہ ستی
گڑتی ہیں دل پہ جوں کٹار انکھیاں
کرتی ہیں کام کئی ہزار انکھیاں
اور ملاحظہ تُزک و شان پری رویانِ فرنگستان کے سے کہ صف بہ صف دست بستہ ہر آن میں غارت گر دین و ایمان انسان ضعیف البنیان کے تھیں، یہ کمترین فدویان و کمینہ غلامان مانند قالب بے جان کے بے تاب و تواں ہوا اور در حضور وافی السرور کے بہ آئین بندہ ہاے جاں نثار و فدویان خاکسار، سراسر اِضطرار تسلیمات بجا لا کے عرض کیا۔ بیت ؎
تو ہے رشکِ ماہ کنعانی ہُنوز
تجھ کو ہے خوباں میں سلطانی ہنوز
اور جو کچھ کہ تحفہ ہاے ہر دیار و لایق شہریار چہ اقمشہ و چہ جواہر آبدار و لولوے شاہوار رکھتا تھا، نظر سے گزرانے۔ چنانچہ وہ ملکۂ فرنگ غارت گر ناموس و ننگ دیکھنے اسباب رنگ برنگ کے سے نہایت دنگ ہوئی اور اکثر اشیا پسند کر کے بیچ تحویل خانساماں سرکار کے سپرد کی اور فرمایا کہ قیمت اس اشیاے نو خرید کی کہ از راہ خریداری کمال لی ہے، صبح مرحمت ہوگی۔ میں نے آداب بجا لا کر قبول کیا اور ہزار ہزار سجدات شکر و سپاس بہ جناب واہب العطایات بجا لایا کہ بارے اس بہانے پھر کل کے روز اور اس مجلس نشاط اندوز و محفل بہجت افروز میں باریاب ہونے کا اتفاق ہوگا۔ چنانچہ باہر آتے ہی میری آنکھوں میں جہاں تاریک تھا اور مانند مجذوبوں کے کہتا کچھ اور نکلتا کچھ تھا۔ القصہ اس مکان فردوس گاہ میں سے آ کر رفقاے ہمراہی سے کہا، مسدّس:
دوستاں شرح پریشانی من گوش کنید
داستانِ غم پنہانی من گوش کنید
قصۂ بے سر و سامانی من گوش کنید
باعثِ حیرت و حیرانی من گوش کنید
شرح ایں آتش جاں سوز نہفتن تا کے
سوختم سوختم ایں راز نہفتن تا کے
اکثر دوستان دمساز و رفیقان ہمراز دریافت اس سوز و گداز کے سے رہنمون احتراز عشق خانہ برانداز سے ہوئے۔
میں نے بہ ہزار رنج و محنت صعوبت و کربت روز و شب از راہ تَعب کاٹ کے جس وقت کہ تُرک خورشید کے نے خلوت خانہ مشرق کے سے برآمد ہو کر قصد ترک تازی کا کیا، اپنے تئیں اوپر دولت سراے سرخیل خوباں جادو نگاہ کے پہنچایا اور معرفت خواجہ سرایان خاص محل کے باریاب بستان سراے ملکہ کا ہوا اور بدستور دیروز کے سب پری زادوں کے تئیں ہنگامہ آراے مجلس انجم تزئین کا پایا۔ ملکہ کو دیکھا کہ اوپر تخت مرصع کے جلوہ افروز ہے۔ میرے تئیں دیکھ کر اور معاملات دنیوی سے جلد فراغت کر کے ہر ایک کو رخصت کیا اور آپ خلوت خانے میں تشریف لے جا کے میرے تئیں یاد فرمایا اور حکم بیٹھنے کا کیا۔ یہ پروانہ بجاں تصدق اس شمع شبستاں کا ہو کر تسلیمات اور کورنشات بجا لا کر بیٹھ گیا۔ از راہ مہربانی بسیار و الطاف بے شمار کے ارشاد فرمایا کہ تجارت ملک فرنگ سے کس قدر منافع منظور ہے۔ میں نے عرض کیا کہ قدم بوسی حضرت خداوند زمانی کا باعث افتخار کونین و سرمایہ سعادت دارین کا جانتا ہے اور جو کچھ کہ قسمت میں ہے اَلنَّصِیبُ وَ النَّصیف۔ فرمایا کہ اسی قدر انعام از راہ توجہات تمام عوض ایک کام کے مرحمت ہوگا، اگر تجھ سے ہو سکے۔ میں نے عرض کیا، بیت:
میں بھی جی سے کر چکا ہوں مال و جاں دونوں نثار
اس جہاں میں آن کر مرنا ہے آخر ایک بار
اگر مال و جان اس کمترین غلامانِ سرکار کام آوے، سعادت ابدی و دولت سرمدی حاصل اس کمینہ خاکسار و ذرہ بے مقدار کی ہوگی۔ القصہ قلمدان طلب کر کے ایک رقعہ لکھا اور دُلمیان زرّیں میں ڈال کر ایک رومال سے لپیٹ کر میرے ہاتھ میں دیا اور کہا، دوہا:
رو رو پتیاں میں لکھی جی کا گد لپٹائے
ہے کاسد ایسا کوئی پیتم کو یہ لے جائے
اور ایک مضمون عرض کرتی ہوں، ابیات:
اس بے وفا کو شکوۂ جَور و جفا لکھوں
یا چشم اشک بار سے دریا بہا لکھوں
یا اس دل خراب کا میں مُدعا لکھوں
یا جل گئے جگر ستی شعلہ اٹھا لکھوں
قاصد نہیں ہے تاب مجھے آہ کیا لکھوں
=ایک انگشتری الماس کی کہ زیب انگشت کی تھی، واسطے پتے کے دی اور کہا کہ ایک باغ عالی شان بلند مکان کہ بنام جہاں آرا موسوم ہے، تو طرف اس باغ کے جا۔ ایک جوان خوش عنوان، کیخسرو نامی داروغہ باغ کا ہے، اس کو یہ انگشتری دیجو اور ہماری طرف سے دعا کہہ کر جواب رقعہ کا حاضر کیجو اور کھانا وہاں کھائیو تو پانی یہاں پیجو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ مورد عنایات بے غایات و تلطفات بلا نہایات کا ہوگا۔ میں حضور سے رخصت ہو کر روانہ ہوا۔ قریب دو فرسخ کے ایک مکان مینو نشان تھا۔ گرد و نواح اس باغ کے پہنچا کہ ایک مرد مسلّح و مستعد میرے تئیں پکڑ کے حضور کیخسرو کے لے گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ جوان شیر صولت ہزبر تواں ایک کرسی مرصع کے اوپر زرۂ داؤدی در بر و خود آہنی بر سر با نہایت کر و فر بیٹھا ہے اور قریب ایک ہزار جوان یَل و پہلوان با سپر و شمشیر و ترکش و کمان روبرو دست بستہ کھڑے ہیں۔ میں نے بہ مجرد دیکھنے صورت حال اس کی کے یہ دو شعر پڑھے ؎
ہر گھڑی برہم نہ کر ناحق دماغ اپنے کے تیں
شان خورشید قیامت دیکھیو اٹھ جائے گی
باغباں جاتے ہیں ہم، رکھ چھوڑ باغ اپنے کے تیں
حشر میں جب ہم دکھا بیٹھیں گے داغ اپنے کے تیں
تب اس نے از راہ تبختر کے میرے تئیں نزدیک اپنے طلب کیا اور میں نے زبان بیچ مدح و ثنا اس رشک تہمتن و اسفندیار کے کھولی اور عرض کیا ؎
تمھارے دیکھنے کے واسطے آئے ہیں شدت سے
غریبی، عاجزی، بےچارگی سے عرض کرتے ہیں
نہ ملنا اس قدر جائز نہیں اہلِ مروت سے
اکڑنا اس سے برجا ہے جو کہتا ہووے قوت سے
اور وہ انگوٹھی دکھا کر اظہار رقعہ ملکہ کا کیا۔ اس نے انگشت تحیّر کی دندان تحسّر کے سے کاٹ کر کہا کہ اے اجل گرفتہ! سخت جرات کر دی، اندرون باغ کے جا، نیچے درخت تاڑوں کے ایک جوان قفس فولادی میں بیٹھا ہے۔ رقعہ جلد دے کے اور جواب حاصل کر کے شتاب آنا۔ میں نے قدم اندرون باغ رکھا تو باغ بوستاں لایق دوستاں با درخت ہاے آبدار و فوارہ ہاے بے شمار و آبجو ہاے رواں، چہچۂ مرغاں و قہقہۂ کبکاں رشک رضواں و محسود فردوس جناں تھا۔ نیچے ایک درخت کے ایک جواں بخت بیچ قید سخت کے پنجرۂ فولادی میں بیٹھا ہے۔ میں نے سلام با آداب تمام بہ آئین اہل اسلام بجا لا کے رقعہ سر بمہر مَع خریطہ زَربفت روزن قفس کے سے گزرانا۔ اس جوان نے وہ رقعہ پڑھا، بہ ایں مضمون، مسدس:
سلامت می رساند ناتوانے
کہ اے یار عزیز مہربانم
مرا خود دل ز ہجرت غرق خون است
غریبے مبتلاے، خستہ جانے
تمناے دل و آرام جانم
نمی دانم ترا احوال چوں است
رباعی:
اس درد سے دل کے نہیں کوئی آگاہ
بے رحم ستی جا کے کہو اے قاصد
مرتی ہوں خبر لے مری اے نورِ نگاہ
دن رات گذرتے ہیں کر اللہ اللہ
در جواب اس کے جوان نے کہا کہ اسباب لکھنے کا موجود و مہیا نہیں۔ میری طرف سے زبانی یہ شعر پڑھ دیجیو۔ رباعی مستزاد:
آئینہ بروے دِلکشاے تو رَسد – اے نورِ نگاہ
ہم شانہ بہ زلفِ مشک ساے تو رسد – مارا چہ گناہ
ما خاک شویم و سرمہ منظور اُفتد – داغیم زرشک
دل خوں شدہ و حنا بہ پاے تو رسد – سبحان اللہ
قطعہ:
دل ہے تیرے پیار کرنے کو
اک لہر لطف کی ہمیں بس ہے
جی ہے تجھ پر نثار کرنے کو
غم کے دریا سے پار کرنے کو
تاہنوز اُس رموزدان سرایر عشق کے نے کلام موالات التیام سے فراغت نہ پائی تھی کہ یکایک فوج زنگیان زشت رو، ستیزہ خو و وحشیان درشت گو، آزرم جو ہر چہار طرف سے آ ٹوٹے اور میرے تئیں زخم ہاے کاری سے رشک تختۂ ارغوان کا کیا۔ پھر اس عاجز کو خبر تن بدن اپنے کی نہ رہی۔ جس وقت کہ دریاے بے ہوشی کے سے اوپر ساحل افاقت کے آیا، دیکھتا کیا ہوں کہ دو پیادے سرہنگ زادے میرے تئیں اوپر چارپائی کے ڈال کر لے جاتے ہیں اور آپس میں ساتھ اس کلام کے متکلم ہیں۔ ایک نے کہا کہ اس لوتھ بے جان کو صحراے پُر وحوش و اشباح میں ڈال چلو کہ غذا کُتوں اور کووں کی ہو۔ دوسرا بولا کہ اگر ملکہ تحقیقات کرے اور اس احوال پر اطلاع پاوے تو مقرر ہے کہ جیتا گڑوادے گی۔ پس تجھ کو زندگی اپنی عزیز نہیں کہ اس طرح بے تمیزی سے بات کرتا ہے۔ تب میں نے یاجوج و ماجوج سے از راہ عجز و الحاح کے کہا کہ یارو میں زندہ ہوں اور یہ کیا ماجرا گذرا، اگر میرے تئیں راز سے مطلع کروگے تو بعید مروت و جوانمردی سے نہ ہوگا۔ تب اُن عزیزوں نے حقیقت احوال اس واردات کے تئیں اس طرح سے اوپر لوح بیان کے نگارش کیا کہ یہ جوان قفس فولادی میں برادر زادہ بادشاہ کا ہے۔ وقتِ رحلت کے باپ اس کے نے کہ صاحب تاج و تخت کا تھا برادر اپنے کو ولی عہد کرکے وصیت کی کہ فرزند عزیز بہ موجب خورد سالگی کے بے ہوش و صغیر ہے۔ لازم کہ تعہد خلافت و فرماں روائی و قواعد سلطنت و کشور کشائی کا از راہ دولت خواہی وکار آگاہی بہ فصل الٰہی بوجہ احسن سر انجام دیجیو اور جس وقت کہ لعلِ شب چراغ کان ابہت و شہریاری کا حد بلوغ کو پہنچے تو ساتھ دختر خجستہ سیر اپنی کے نکاح کرکے اوپر تخت سلطنت مختار اور شہریار کیجیو۔ پس بعد واقعہ جاں کاہ فردوس آرام گاہ حضرت ظل اللہ کے برادر کوچک والی افسر و اورنگ خلافت کا ہوا۔ بیچ امانت کے خیانت اور عہد سے بد عہد ہو کر شاہزادہ کو ساتھ دیوانگی کے نسبت دے کر بیچ پنجرۂ فولادی کے محبوس اور اِرث سے مایوس کر چوکی مستحکم اوپر دروازہ باغ کے تعین کی، بلکہ اکثر دفعہ زہر ہلاہل سے مسموم کیا۔ جو زندگی باقی تھی کارگر نہ ہوا اور دونوں عم زادے آپس میں منسوب بلکہ عاشق و معشوق ہیں۔ ملکہ نے تیرے تئیں مع رقعہ اشتیاق کے ارسال کیا تھا۔ از روے مخبران صادق یہ خبر حضور میں پہنچی، تب دستہ حبشیان نے تیرے تئیں تلف تیغ آبدار کا کیا اور بادشاہ نے ساتھ وزیر خیانت تدبیر کے صلاح یوں کی ہے کہ ملکہ کو راضی اوپر قتل اُس بے گناہ کے کیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں پیادے اور یہ زخمی واسطے تماشے کو بیچ اُس حشر گاہ کے حاضر ہوئے۔
میں نے دیکھا کہ بادشاہ اوپر تخت کے بیٹھا ہے۔ پنجرہ جوان کا لاکر حاضر کیا اور بادشاہ زادی شمشیر برہنہ لیے واسطے قتل اُس سرگشتہ کے آئی اور اُس فرہاد ناشاد خانہ برباد کو پنجرے سے باہر نکالا اور وہ شیریں شمشیر آہیختہ کیے مانند جلاد کے پُر متصل پہنچی۔ چشم چار ہوتے ہی تلوار ہاتھ سے ڈال کر نہایت اشتیاق اور تپاک سے گلے لپٹ گئی اور کہا، ابیات:
عشق میں کیا آرزو، حسرت کی بر آئی ہے آج
دل ہمارے نے سجن تجھ صاحب شوکت سے مل
دیکھ اپنے سر و قد کو جی نثار اپنا کیا
عشق میں پیدا بہت سا اعتبار اپنا کیا
یہی آرزو کمال اس پراگندہ احوال کی تھی کہ ایک مرتبہ بہ حین حیات آب زُلال وصال تیرے کے سے سیراب ہوں۔ معائنہ اس واردات حیرت سمات کے سے بادشاہ سخت جوش پر آیا اور وزیر کو فرمایا کہ تو بھی چاہتا تھا کہ میں یہ صورت بہ چشم خود دیکھوں۔ البتہ خواجہ سَرایوں نے ملکہ کو حضور سے دور کیا اور وزیر بے تدبیر ناواقف از کار تقدیر وہ شمشیر لے کر واسطے قتل اُس خسروِ ملک غم کے آیا اور چاہا کہ ایک ضَربَت میں کام آخر کرے کہ ناگاہ ہاتھ تیر انداز قضا کے سے ایک تیر چھاتی وزیر کے سے صاف گذر گیا اور وہ مانند قالب بے جاں کے زمین پر گرا۔ بادشاہ نے دیکھنے اس احوال کے سے خلوت خانہ کی راہ لی اور جوان کے تئیں قفس میں کرکے باغ میں لے گئے۔ میرے تئیں کہ ملکہ نے بہ ایں حالت زخمی اور مجروح دیکھا، جراح فرنگی طلب کرکے بہ تقید تمام فرمایا کہ اس زخمی جان بلب کو بہ قدغن بلیغ جتنا کہ جلد غسل صحت کا نہلاوے گا، مورد عنایات بے غایات اور مصدر انعام و جاگیر کا ہوگا۔
القصہ بہ فضل الٰہی و توجہ نامتناہی سلطنت پناہی و ابہت دست گاہی چشم و چراغ دودمانِ بادشاہی کے سے بیچ عرصہ چہل روز کے غسل شفا اور صحت کامل اس ناقص کو حاصل ہوئی۔ ملکہ آفتاب طلعت نیکو خصلت مہر سپہر عظمت و کرامت، اختر برج مروت و لطافت کے نے ایفاے زر موعودہ کرکے رخصت فرمایا۔ پس اس بندہ نے ہمراہ رفقاے ہمدم و محبان ہم قدم کے رہ نورد بادیہ تردد کا ہوکر ہر ایک کو مرخص بہ وطن مالوفہ کیا اور آپ بیچ اس جاے رواں آساے کوہ فلک فرساے کے رخت اقامت کا ڈالا، بقول اس کے:
پھنس گئے آکر قفس میں چھوڑ بستان بہار
رہ گئی جی میں ہمارے سخت ارمان بہار
غلامانِ معتمد کو زر دے کے آزاد کیا اور کہا کہ لایق قوت لا یموت کے قدرے خبر کرنی ضرور ہے بعد ازاں مختار ہو۔ چنانچہ ایک ایک بہ موجب رُسوخ عقیدت کے خبر لیتا ہے اور میں گوشہ فراغت میں بیچ بُت پرستی کے مشغول رہتا ہوں۔
القصہ یہ بندہ یعنی شہزادہ عجم بہ مُجرد سُننے اس حِکایت پُر شکایت کے عَنان اختیار کی ہاتھ سے دے کر خرقہ گدائی کا اوپر قامت اپنی کے راست کرکے عازِم شہر فَرنگ کا در حالت عشق ملکہ کے ہوا۔ الغرض بعد چند مدت کے بصورت گدایان موے سر تا کَمر بیچ لاغری کے گوے سبقت کی مجنوں سے لے جا کر داخل شہر مینو سواد خِلافت العَالیہ کے ہوا اور یہ شعر ورد زبان کے تھا، قطعہ:
جدائی سرو قد تیری سے اے گل
جو ہو دل تنگ تو پیجے پیالہ
مثال فاختہ کرتا ہوں کوکو
کہ غم کے درد کی مستی ہے دارو
غزل:
یار غافل ہے میرے درد سے ہوشیار کرو
درد مندوں کے اگر دل سے ہوئے ہو محرم
آکے قسمت سے ترے غم میں گرفتار ہوا
جن نے آدست سوں اُمید کے دامن پکڑا
قدر بوجھو دل خونخوارۂ عاشق کی اگر
بے خبر جان بچا جا کے خبردار کرو
رحم فرما کے مرے حال کو اظہار کرو
ہے تو بَرجا کہ مسافر پہ ٹُک یک پیار کرو
یوں نہیں شرط مروت کہ اُسے خوار کرو
سر چڑھا گُل کی طرح زینتِ دستار کرو
عرض احوال کیا چاہتا ہے فدوی یہ
وقت نوکر کی نوازش کا ہے دربار کرو
کوچہ گردی اختیار کرکے رات و دن گرد دولت سراے ملکۂ فرنگ کے پھرتا تھا۔ کوئی طرح فتح الباب مقصد کی نظر نہ پڑتی تھی، ہمیشہ بدرگاہ چارہ ساز بیچارگان و دستگیر در ماندگاں و مُناجات نیم شبی و دعاہاے سحری اوقات بسر کرتا تھا۔ ابیات:
نہیں سنتا کوئی احوال میرا
نہ دل چھوڑا نہ دیں تس پر تغافل
لَبالَب دل میں یہ حسرت بھری ہے
کسی نے بھی کسی سے یوں کری ہے
پھر اتفاقاً ایک روز کیا دیکھتا ہوں کہ مردُم بازار ہراساں و گریزاں ہیں اور دوکان دار اپنی دوکان بند کرتے ہیں اور ایک جوان چوں شیر ژیاں ماند پِیل دَماں و رَعد غَراں جوشاں و خَروشاں شمشیر دو دستی پھراتا ہوا مثال شراب خواران سَرمست و زِرہ دَر بَر و خود بر سر و جوڑی طپنچہ کی در کمر مسلح و مکمل چلا آرہا ہے۔ میں اُس کا تَخالُف اطوار و تَبَاعُد اَوضاع دیکھ دیکھ کر اپنے دل سے کہتا تھا، فرد:
ہر گھڑی چھپ چھپ کے مت مار اُس کو اے دل مان جا
شوخ ہے ہندوستاں زا دیکھ لے تو جان جا
پیچھے اُس کے دو غلام سیم اَندام، دل آرام بہ لباس فرنگ با زینت تمام ایک تابوت مُزین از جواہر و یاقوت اوپر سر کے لیے چلے آتے ہیں۔ میں نے دیکھنے اس مقدمہ ہوش ربا کے سے نہایت مُتعجب اور متحیر ہو کر تعاقب کیا۔ ہر چند اکثر مردم بہ ایما و اشارت مانع اس جرات بے جا کے ہوئے، مطلق خاطر میں نہ لایا اور چلا۔ اُس نبرد آزما نے براے العین مشاہدہ کرکے طرح دیا۔ جس وقت کہ وہ یکہ تاز میدان شجاعت کا داخل محل خاص کا ہوا، میں بھی جان سے گذر کے ساتھ اُس کے شامل ہوا۔ تب تو اُس شیر نر نے غصہ ور ہو کر ایسا مجھ پر حملہ کیا کہ صرف ایک ضربت میں کام اِس ناکام کا انجام کو پہنچا دے۔ میں نے قسم دے کے کہا کہ ایک ہی وار میں اس بیمار سراسر آزار کا از دار ناپائیدار اور آلام نافِرجام صبح و شام سے پیچھا چھُڑا کہ ایسی زندگانی سے مرگ بہتر ہے اور خون اپنا معاف کروں گا اور نہایت احسان مند اور مرہون منت رہوں گا۔ اس مرد دلاور و جوان زور آور نے دریافت کرنے احوال میرے کے سے سحاب اپنے جنوں کا کہ بیچ تراکم کے تھا، منتشر کیا اور مجھ کو اپنے اوپر گاڑھا جان کر بہ سلوک و آدمیت پیش آیا اور از راہ مہربانی بسیار و الطاف بے شمار پرسش احوال میرے کے کی۔ میں نے مفصل طومار عشق اس آفت صبر و آرام کا نہایت درد و رقت سے پڑھا۔ غزل:
یار کے رہنے کی منزل ہے سمجھ
ترپھڑاوے کیوں نہ قاتل دل مرا
صبر کب تک درد میں آوے مجھے
بارگاہ حضرتِ دل ہے سمجھ
کیا کرے ناچار بسمل ہے سمجھ
ہے نہیں ایوب، یہ دل ہے سمجھ
عشق میں حسرتؔ کو ناصح کچھ نہ کہہ
اپنے فن میں خوب کامل ہے سمجھ
اس عزیز نے دریافت کر کے کہا کہ الحمد للہ والمنۃ کہ یہ سرشتہ کام تیرے کا ہاتھ میرے ہے۔ بذریعہ ایں خاکسار مطلب بزرگ اور مہم سترگ اپنے کو پہنچے گا اور گلدستہ مراد کا ہاتھ اپنے کے لاوے گا، خاطر جمع رکھ اور اندیشہ کو مزاج اپنے میں راہ نہ دے۔ پس پھر میری حجامت بنوا کر خلعت پاکیزہ عنایت کیا اور کہا کہ یہ تابوت اسی شاہزادہ مرحوم و مغفور کا ہے اور میں کوکا اس کا ہوں۔ وزیر کے تئیں تیر از راہ تدبیر میں نے مارا تھا کہ باعث نجات اس عالی درجات کا اس وقت ہوا۔ آخر نداے کُلُّ نَفسٍ ذَائِقةُ المَوت کی دے کے رخت ہستی کا طرف سراے جاودانی کے کھینچا۔ میں ہر مہینہ میں ایک دفعہ تابوت اس کا لے کر نکلتا ہوں اور ماتم کرتا ہوں ؎
کچھ نہ پوچھو سبب اس درد کا مجھ سے یارو
دام میں مفت ہوا جاتا ہے یہ صید اسیر
دیکھ کر حال مرا نالہ و فریاد کرو
ذبح کرنا ہے شتابی تو اے صیاد کرو
القصہ فضل الٰہی جو شامل حال میرے ہوا، بعد مدت بسیار کے خراب آباد مفلسی و پریشانی کے سے نکل کر اوپر ساحل جمعیت و کامرانی کے پہنچا اور امید قوی ہوئی۔ جس وقت کہ فرہاد دشت پیماے روز کا بیچ کوہ مغرب کے گیا اور شیریں شب کی نے زلف مُشک فام اوپر چہرۂ مشرق کے دراز کی، جوان مع تابوت تیار ہوا اور ایک غلام کے عوض میرے تئیں تابوت سر پر دے کر ہمراہ لیا اور فرمایا کہ بیچ سفارش تیری کے ملکہ سے نہایت عجز و الحاح کروں گا، تو خاموش رہیو اور بیٹھا سنیو۔ میں ارشاد اس کے کو ہدایت جان کر آداب بجا لا کر روانہ ہوا۔ جواں رستم تواں پائیں باغ بادشاہی میں پہنچا۔ وہاں جو دیکھا تو ایک اور ہی عالم نظر پڑا کہ درمیان چمن زار ارم نمودار کے چبوترہ ایک مرمر سفید تر از بیضۂ جانور سیمرغ مثمن اور صحن گلشن مستحکم ہے اور فرش چاندی و مسند زربفتی اور شامیانہ جھالر مروارید ریشم کی طنابوں اور نقرئی اِستادوں سے کھینچا ہے۔ تابوت اس جا پر رکھ کے ہم دونوں شخصوں کو اشارت کی کہ پیچھے ایک درخت کے نشست کرو۔ بعد ایک لمحہ کے روشنی مشعل کی نمودار ہوئی اور وہ ماہ شب چہار دہم باچندے کنیز مثل انجم با دل پرغم و مزاج برہم برآمد ہو کر مسند پر آ بیٹھی۔ کوکا از راہ ادب کے دست بستہ استادہ رہا۔ آخرش وہ بہ موجب ایماے ملکہ کے آداب بجا لا کے حاشیۂ بساط پر بیٹھا۔ بعد فراغ فاتحہ ختم کے بازار خوشامد کا گرم کیا اور پس از ذکر اذکار اور طرف کے عرض کیا کہ ملکۂ جہاں سلامت! بادشاہزادۂ عجم کا غائبانہ عاشق و دیوانہ ہو کر بہ استماع خوبی ہاے ذاتی و صفاتی شیفتہ حسن و جمال لایزال صاحبہ غنج و دلال بہ صورت گدایان بہ ہزار تباہی و جاں کاہی تخت سلطنت کو چھوڑ کر مانند ادہم کے جملہ عیش و لذات ترک کر کے بہ قول اس کے، دوہا:
سائیں تیرے کارن چھوڑا شہر بَلکھ
سولہ سَے سہیلیاں توڑے اٹھارہ لکھ
اور یہ بھی اس کی شان میں ہے ؎
نہ کوئی ایوب سے صابر کا ہمدم پھر ہوا پیدا
نہ کوئی اس عشق میں مجنوں سے زور آور ہوا پیدا
نہ کوئی یعقوب سا مانند چشم تر ہوا پیدا
نہ کوئی اس مسخرے فرہاد کا ہمسر ہوا پیدا
مگر شہزادۂ ملک عجم از سر ہوا پیدا
وارد اس شہر کا ہوا ہے اور جو میں نے حملہ اس کے مارنے کا کیا تو تلوار کی آنچ کے آگے ثابت پایا۔ یہ فدوی فریفتہ جوانمردی اور قصد عظیم اس کے کا ہو کر عرض کرتا ہے کہ اگر ملکہ از راہ مسافر پروری و عاشق نوازی کے سرفراز و ممتاز باریابانِ بساط انجمن خاص کا اسے فرماوے تو بعید اہلیت و مروت سے نہ ہوگا ؏
قدر گُل بلبل بداند قدر جوہر جوہری
یہ بات سن کر نہایت متعجب ہوئی اور آرے بَلے کہا۔ تب اس مرد نیک ذات و پاک سرشت نے بہ اشارہ میرے تئیں بلایا۔ میں جو مشتاق دیدار ہو رہا تھا، بہ سرعت و عجلت تمام تر جا پہنچا۔ دیکھنے صورت و مشاہدۂ جمال اس کے سے بے خود و مستغرق ورطہ تحیر کا تھا۔ آخرش مجلس برخاست ہوئی اور وہ مرد روانہ دولت خانہ کا ہوا۔ ڈیرے آ کر مجھ سے فرمایا کہ میں نے سفارش اور حقیقت تمھاری بہ وجہ احسن عرض کی ہے۔ بہ ذوق تمام ہر شب بلا ناغہ آن کر گلشن وصال کے سے گل کامیابی کے چُن اور داد کامرانی و عیش جاودانی کی دے۔ فرد ؎
یار کا ملنا زندگانی ہے
زندگانی جاودانی ہے
بہ مجرد سننے اس کلام کے قدم بوس ہوا اور کوکا نے میرے تئیں گلے لگایا۔ جس وقت کہ آفتاب ہنگامہ آرا روزگار کا بیچ خلوت خانۂ مغرب کے گیا اور ماہتاب مجلس افروز شب کا نور افزاے ستارہ انجم کا ہوا۔ یہ مجنوں طالبِ وصالِ لیلیِ فرنگ کا روانہ پائیں باغ ملکہ کا ہوا۔ آخرش اس مکان مینو نشان پر پہنچ کے اوپر چبوترۂ خاص کے مسند پر جا بیٹھا اور وہ معشوقہ بہ قصد ملاقات میری کے عہدہ داروں کو بشارت فراغت کی دے کے ساتھ ایک کنیز محرم راز کے برآمد ہوئی اور مسند پر تشریف لائی۔ میں نے نہایت تعشق اور ولولہ سے قدم بوس کیا اور ان نے میرے تئیں از راہ محبت کے کہ “دلہا را بہ دلہا راہ باشد” فرمایا کہ اے نادان! وقت ہاتھ سے جاتا ہے جلد روانہ ہو۔ میں نے باغ سے نکل کر مارے خوشی کے راہ گم کی۔ بلکہ اپنے تئیں آپ میں نہ پاتا تھا۔ نازنین آشفتہ اور غصہ ہوتی تھی کہ شتاب مکان سکونت کے میں پہنچ کر میرے تئیں مخمصہ سے رہائی دے کہ تاب و طاقت پیادہ پائی کی نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ حویلی غلام میرے کی متصل ہے، خاطر جمع رکھ۔ چنانچہ ایک قفل کسی کا توڑ کر داخل اس حویلی کا ہوا۔ خالی گھر میں جو تلاش کیا تو مطبخ میں نان و کباب اور طاقچۂ ایوان پر شیشہ شراب کا ہاتھ آیا۔ واسطے رفع ماندگی اور خوف کے شراب پُرتگال سے دو دو جام لیے اور نان و کباب نوش جان کیے۔ ابیات:
خدا کے واسطے ساقی پلا شراب مجھے
اسی سبب تو کسی سے نہیں لگاتا دل
جِلا، خمار کے ہاتھوں نہ کر کباب مجھے
برا لگے ہے زمانہ کا انقلاب مجھے
تمام شب بہ عیش و نشاط ادا کی، شعر ؎
نہ مجھ کو خوف دوزخ کا نہ جنت کی طمع دھرنا
مرا مطلب سجن سے ہے طلب دیدار کی رکھنا
جس وقت کہ دُزد شب کا بیچ بندی خانہ تَحت الارض کے گیا اور عسس روز کا ہنگامہ افروز شَش جہت کا ہوا، بادشاہ کے تئیں خبر غائب ہونے ملکہ کی پہنچی۔ حکم والا نے شَرف نفاذ کا پایا کہ دروازہ شہر پناہ سے راہ صادر اور وارد کی بند ہو اور نَوشتہ جات بادشاہی بنام راہ داران و گذربانان و عاملان و کارپردازان مع ہرکارہ ہاے معتبر ارسال ہوئے اور کٹنی و دَلالہ محتالہ و ساحرہ افسوں گر کہ مشہور و معروف تھیں حضور میں بلا کر فرمایا کہ شہر میں خانہ بہ خانہ تلاش جا کے کریں۔ جو کوئی کہ خبر بادشاہ زادی کی لاوے تو ہزار اشرفی انعام پاوے۔ بہ طمع زر کے کٹنیاں محلہ بہ محلہ سَیراں و طَیراں ہوئیں۔ چنانچہ ایک پیر زن شیطان کی خالہ کا گذر بیچ اس حویلی کے پڑا۔ جو مانند دل ہاے بیدار کے دروازہ حویلی کا کشادہ پایا، اندرون آن کر دیکھتی کیا ہے کہ بختوں نے یاری اور طالعوں نے مددگاری کی ہے کہ ہُما اَوج سعادت کا بیچ دام کے آیا ہے۔ سامنے کھڑی ہو کر زبان بیچ مدح اور تعریف کے کھولی اور یہ شعر عرض کیے، شعر ؎
گناہ گاروں کی عذر خواہی ہمارے صاحب قبول کیجے
کرم تمھارے پہ کر توقع، یہ عرض رکھتے ہیں مان لیجے
پڑے ہیں ہم بیچ میں بلا کے، کرم کرو واسطے خدا کے
ہوئے ہیں بندے تری رضا کے، جو کچھ کہ حق میں ہمارے کیجے
اگر کبھی جھوٹ کچھ ہوا ہے کہ جس سے اتنا ضرر ہوا ہے
تو ہم سے وہ بے خبر ہوا ہے، دلوں سے اس کو بھلا ہی دیجے
غریب و عاجز جفا کے مارے فقیر و بے کس گدا تمھارے
سو اپنے جی میں بچار کیجے اگر جو ان پر کرم نہ کیجے
نپٹ پڑی ہے ہمن پہ غم کی، جگر میں آتش لگی الم کی
کہاں ہے طاقت انھیں ستم کی کہ جن پہ اتنا عذاب کیجے
ہوئے ہیں ہم ظلم کے نشانے، ہوئے ہیں طعنے کے اب ٹھکانے
ترا برا ہو ارے زمانے، نباہ اس طرح کیوں کہ کیجے
بعد اس گفتگو کے کہا اے صاحب زادی! میں ایک دختر عاجِزہ حاملہ رکھتی ہوں کہ درد زہ میں گرفتار ہے اور بے اختیار نان و کباب چاہتی ہے۔ ملکہ نے عالمِ مستی شراب میں از راہ رحم دلی کے اس کے تئیں نان و کباب دیا اور انگوٹھی انوٹھی گراں قیمت، بیش بہا ہاتھ سے نکال کر انعام فرمائی کہ اس کو بیچ کر زیور بنا لیجیو اور ماما تو گاہ بہ گاہ آیا کر، گھر تیرا ہے۔ وہ آفت کا پرکالہ، شیطان کی خالہ ہزاروں ہزار دعوات مزید حیات و ترقی عمر درجات ادا کر کے رخصت ہوئی اور باہر نکل کر نان و کباب ڈال دیا اور انگوٹھی مٹھی میں رکھی کہ یہ خوب پتا ہے۔
اس عرصہ میں مالک خانہ مرد مردانہ طرف شکار گاہ کے سے دلیرانہ گھوڑے تازی نژاد پر سوار، نیزہ آبدار در کنار، آہو کر کے شکار، تیز رفتار آ پہنچا اور قفل ٹوٹا و پیر زن کو چھوٹا پایا۔ ایک ہاتھ میں جھونٹا پکڑ کر لٹکاتا ہوا لایا۔ آتے ہی ایک پیر میں رسی ڈال اور دوسرے پیر پر پیر کو دھر کھینچا و دوپارہ کیا۔ میں نے بہ مجرد دیکھنے اس حالت پر ملامت کے رنگ و روپ اوپر چہرے کے متغیر کیا اور لرزہ اوپر بدن کے پڑا۔ اس جوان نے افواہ سے سنا تھا، عقل سے دریافت کیا اور میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ کوئی بھی ایسی نادانی و بے وقوفی کرتا ہے کہ دروازہ کھول کر بیٹھنا اور اندیشہ اخفاے راز کا نہ کرنا۔ یہ حرکت محض بے جا ہے۔ تمھارا آنا اور ملکہ کا تشریف لانا سر افرازی اور بندہ نوازی کا موجب ہے۔ خدمت گاری و جاں نثاری میں ہرگز دریغ نہ کروں گا۔ ملکہ نے ہنس کر کہا کہ شہزادہ حویلی غلام اپنے کی مقرر کر کے مجھ کو لایا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ واسطے تسلی میرے کے تھا۔ اس جوان نے در جواب عرض کیا کہ گروہ سلاطین ولیِ نعمت اور خداوند نعمت سکنہ طبقہ روے زمین کے ہیں، اس میں کچھ جھوٹ نہیں۔ بندہ بے زر خریدہ غلام تمھارا ہے۔ بہ خوشی و خاطر عیش کیجیے۔ ان شاء اللہ کچھ خطرہ نہ ہوگا اور اگر یہ دَلّالہ محتالہ میرے ہاتھ سے سلامت جاتی تو البتہ جاے تاسُّف اور باعث خلل کا ہوتا اور اس وقت جو راز سربستہ برملا نہ ہوا تو قیامت تک ہرگز معلوم نہ ہوگا۔ بارے تا مدت شش ماہ اس صاحب مروّت و مَعدنِ فتوت نے کوئی دقیقہ از دقایق مہمانداری و دلجوئی سے فروگذاشت نہ کیا۔
ایک روز یہ فقیر بیچ یاد وطن اور والدین کے دلگیر تھا، جوان نے عرض کیا کہ اگر تمام عمر خود بدولت اقبال اور ملکہ صاحب جمال تشریف ارزانی رکھ کر کلبۂ احزان اس ناتواں کے تئیں رونق افروز بہ وجود فایض الجود کے رکھیں تو بندہ سعادت دارین اور فخر اپنا جان کر ایک ساعت فرمانبرداری سے غافل و عاطل نہ ہوگا اور اگر مزاج مبارک دل برداشتہ ہوا تو حسب الارشاد جس جا پر حکم ہو بہ فضلِ الٰہی سالِماً و غانماً رکاب سعادت میں جلو داری کر کے پہنچا وے اور تو کس لایق ہے۔ تب میں نے زبان بیچ تعریف اس مرد صاحب درد کے کھولی اور کہا قدرت خدا کی معمور ہے اور اس جہاں آفریں نے تجھ سے شخص صاحب مُروت و فتوت کے تئیں پیدا کیا ؏
آفریں باد بر ایں ہمت مردانۂ تو
تیری خوبی اور خوش خلقی نے اس قدر مرہون منت بے شمار کا کیا ہے کہ عہدہ برآئی معلوم۔ حق تعالیٰ بہ ایں جوانمردی و غور رسی سلامت رکھے، لیکن ارادہ فقیر کا وطن مالوفہ کو ہے کہ بہ ارادۂ شکار دولت خانہ سے برآمد ہوا تھا اور میں آپ شکار غزالہ نیلی چشم کا ہوا ہوں۔ مدتِ مَدِید و عَہد بعید گذرا ہے کہ خبر میری والدین مخدوم نشأتین کو نہیں پہنچی، واللہ اعلم احوال انھوں کا کیوں کر ہو۔ تب اس نوجوان بہزاد خاں نے ایک راس اسپ تیز رفتار واسطے سواری میری کے اور ایک مادیان باد رفتار صاحب جان و رواں و دواں واسطے ملکہ کے منگوا کر آپ گلگون صبا رفتار اپنے پر سوار ہوا اور اسباب جنگ کا اوپر اپنے آراستہ کر اور مجھ کو اور ملکہ کو آگے کر فاتحہ پڑھ کے مُعتصِم بہ عُروۃ الوُثقاے فضل الٰہی کا ہو کے روانہ ہوا۔ اوپر دروازہ شہر پناہ کے پہنچ کر ایک نعرہ مہیب مارا اور قفل دروازہ کا توڑا اور دربانان و چوکیداران بادشاہی کو بہ زجر و توبیخ پیش آ کے للکارا کہ جا کے اپنے آقا سے کہو کہ بہزاد خاں ملکہ مہر نگار اور شہزادہ بختیار کو کہ خویش دل ریش تمھارا ہے مردانہ وار بر باد پاے تیز رفتار سوار مستعد کار زار لیے جاتا ہے اور یہ شعر عرض کرو، فرد ؎
اگر جنگ جوئی بہ میداں در آئے
ز ما ہر کرا ملک بخشد خداے
و اِلّا خوش رہ۔ مُلازمان بادشاہی نے ورطۂ حیرت میں مستغرق ہو کر یہ عرض بیچ حضور باریابان بِساط فیض مناط کے پہنچائی۔ بادشاہ از روے غضب کے نہایت برہم ہوا وزیر اور میر بخشی کو حکم فرمایا کہ اس بدبخت کو ساتھ ان دونوں بے حیا کے اسیر دستگیر کر کے لے آؤ۔ چنانچہ ہر دو رکن السلطنت العالیہ کے با فوج نمایاں فی الفور سوار ہوئے اور باہر میدان میں آئے۔ تب بہزاد خاں رستم تواں نے ملکہ اور شاہزادہ کو زیر دیوار ایک پل کے کہ بارہ پُلے سے کم نہ تھا کھڑا کیا اور مرکب تازی نژاد و جنوں نہاد کو گرم کر کے فوج میں مانند گرگ دَر رَمہ کے آ بیٹھا۔ دونوں سرداروں کو بہ ضرب تیغ آبدار عَلف دار بَدار البوار پہنچایا اور تمام فوج نے شکست پائی۔ سننے اس خبر وحشت اثر اس حادثہ کے سے بادشاہ مضطرب ہو کر آپ با دلاوران صاحب شجاعت رو بہ میدان لایا۔ بہزاد خاں کمال تہور و دلاوری سے اس فوج پر بھی فتحیاب ہوا۔ بقول آنکہ ؏
یہ فتح داد حق ہے جسے دیوے کردگار
وہاں سے بہ دلجمعی تمام مع ملکہ و شاہزادہ ذوی الاحتشام کے روانہ ہوا۔
پس یہ عاصی بعد انقضاے چند مدت کے بیچ ولایت والد اپنے کے پہنچا اور عرضی بیچ خدمت پدر بزرگوار و بادشاہ عالی مقدار کے از روے کمال اشتیاق قدم بوس کے ارسال کی۔ وہ گردوں جناب خورشید قباب بہ استماع خبر فرحت اثر آمد آمد فرزند دلبند جگر پیوند سوار ہو کر واسطے استقبال کے باچندے خواص و مردم شاگرد پیشہ اوپر کنارے دریا کے کہ درمیان جانبین واقع تھا، رونق افزا ہوا اور میں نے از راہ کمال اشتیاق قدم بوسی کے گھوڑا بیچ دریا کے ڈال کر اپنے تئیں بیچ حضور پر نور حضرت قبلہ و کعبہ خداوند نعمت کے پہنچایا اور سعادت قدم بوسی حاصل کیا۔ جس گھوڑے پر میں سوار تھا وہ گھوڑا کُرہ مادیان سواری ملکہ کا تھا۔ اس گھوڑی نے بچے اپنے کو دیکھ کر اپنے تئیں بیچ دریا کے ڈالا۔ بادشاہزادی بے قرار بلکہ قریب ہلاکت کے ہوئی۔ بہزاد خاں واسطے استخلاص ملکہ کے پیچھے سے دریا میں پہنچا۔ چنانچہ از گردش فلکی ملکہ اور بہزاد خاں دونوں شخص مستغرق دریاے رحمت الٰہی کے ہوئے۔ بادشاہ نے جتنا کہ جال ڈلوایا اور ملاحوں کے تئیں تاکید کی، کچھ نشان نہ پایا۔ ناچار یہ فقیر خدمت والدین کے سے دل گیر بہ حالت گَدایاں سر گرداں دشتِ جنوں کا ہوا اور اسی پہاڑ گذرگاہ عاشقاں پر پہنچ کے چاہا کہ اپنے تئیں ضائع کروں کہ اس پیر صاحب راے روشن ضمیر نے فرمایا کہ دونوں شخص ملکہ و بہزاد خاں زندہ ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ بہ خوشی ملاقات ہوگی، خاطر کو جمع رکھ۔ بہ موجب ارشاد ہدایت بنیاد اس پاک نہاد کے بیچ خدمت تمھاری کے آ پہنچا ہوں اور امیدوار دیدار سَراسَر انوار ملکہ اور بہزاد خاں کا ہوں۔ احوال کثیر الاختلال فقیر کا یہ ہے کہ گزارش کیا۔
جس وقت درویش سویم حقیقت احوال پُر اختلال نہایت قیل و قال سے گزارش کر چکا، سفیدہ صبح کا کنارے افق کے سے منتشر ہوا اور مؤذن سحر خیز جامع مسجد کے نے بانگ نماز بآواز بلند کی اور آوازہ نقارۂ دولت سراے خدیو آفاق کے سے سامع افروز ہوئی۔ سلطان درویش عنوان خدادان نے زیر چار دیواری مقبرہ مُنورہ مُعنبر و معطرہ کے سے اٹھ کر قصد دولت خانہ مبارک کا کیا اور کہا، شعر ؎
عشق کے نور سے روشن ہوا سینہ میرا
عشق کے غم کی ہوئی جب ستی گرمی مجھ میں
ید بیضا ہوا اب دل کا نگینہ میرا
عطر عنبر کا ہوا تب سے پسینہ میرا
اور جلدی سے مانند ماہ کے سریع السّیر ہو کر بیچ شاہ بُرج کے گیا اور تبدیل لباس فقیری کا کر کے خلوت فاخرہ سلطنت کے تئیں زیب قامت کا کیا اور مانند آفتاب جہاں تاب کے برآمد ہو کے اُمرا و وزرا و ارکان دولت و اَعیان مملکت کو بہ نور جمال اپنے کے روشن و منور کیا۔ چنانچہ ہر ایک آداب و تسلیمات و کورنشات بجا لا کے اپنے اپنے پاے پر قائم ہوئے اور بادشاہ نے کشکچوں سے فرمایا کہ شَرق رَویہ بیچ قبرستان کے فلانے مقبرہ میں چار درویش بہ منزلہ اربعہ عناصر کے متفق اللفظ و و المعنی ہو کر مانند مصراع رباعی کے استقامت پذیر ہیں، ان سے جا کر اظہار اشتیاق ملاقات سراسر بہجت و نشاط و سر بسر مروت و انبساط میری کا کرو اور یہ شعر گزرانو ؎
نظر آتا ہے اشکِ گرم سے سیلاب آتش کا
کہیں کیونکر نہ میری آنکھ کو گرداب آتش کا
نہ نکلیں کیوں کے شعلے آہ کے اب دل سے اے ظالم
کُھلا ہے آن کے دل پر ہمارے باب آتش کا
چنانچہ ملازمان بادشاہی نے حسب الحکم اعلیٰ خاقانی حضرت ظِلِّ سبحانی کے پیغام بادشاہ کیوان بارگارہ کا بیچ حضور موفور السرور درویشوں کے جا کر اظہار کیا اور ہر چہار فقیر روشن ضمیر استماع اس پیغام نیکو انجام کے سے متحیر و متعجب ہو کر روانہ جناب مقدس کے ہوئے۔ بادشاہ نے دیکھنا جمال فقیروں کا از جملہ مغتنمات جان کر سلام علیک میں سبقت کی اور کہا، شعر ؎
آئیے بیٹھیے کرم کیجیے
بے تکلّف یہ گھر تمھارا ہے
اور درویشوں نے علیکی دے کر پُشت تعظیم کی خم کی اور موافق ارشاد خجستہ بنیاد حضرت ظل الٰہی سلطنت پناہی ابہت دستگاہی کے بہ فراغت بیٹھے اور بادشاہ نے سب ارکان خلافت کو مرخّص کرکے مجلس خلوت کی آراستہ کی اور ساتھ فقیروں کے متکلم ہوا کہ یہ خاکسار ذرہ بے مقدار امیدوار الطاف درویشانہ و اَعطاف بزرگانہ سے یوں ہے کہ شب گذشتہ میں اوپر حقیقت حال خیریت اشتمال تین صاحبوں کے اطلاع حاصل کی، اب متَرصد ہے کہ درویش چہارمیں بھی سرگذشت اپنی سے استفادہ بخشے کہ اَلِانتظَارُ اَشدُّ مِنَ المَوتِ میں گرفتار ہوں ؎
ہمیشہ اس تمنا ہی میں حسرتؔ کی گذرتی ہے
نہ جانوں کب تلک اُس سے مرا دل بہرہ یاب ہوگا
فقیر بہ سبب دبدبۂ سلطنت اور اوّل ملاقات کے باعث سے محجوب اور مؤدّب مانند غنچہ گل کے منقبض تھے، اتنے میں ایک شعر ایک شخص زبان اپنی سے بر لایا اور کہا، شعر ؎
قیامت جیتے جی ہی آ گئی سر پر خدائی میں
ہم اپنے قتل کا چرچا جو از بس سب سے سنتے ہیں
نہ سمجھے تھے کہ اس گردوں کا ایسا انقلاب ہوگا
نہیں کرتے خبر دل کو کہ اس کو اضطراب ہوگا
بادشاہ نے فرمایا کہ واسطے رفع حجاب کے یہ عاصی تمھارے آگے سرگذشت اپنی مفصّل بیان کرتا ہے کہ مجھ کو بھی ایک رفقا اپنے سے جان کر بے تکلّف ہو جاؤ اور حرف بے گانگی کا درمیان سے اُٹھ جائے، شعر ؎
اب جو میں تم سے ملا اور سب کو یار اپنا کیا
اور بھی جی دوستی میں بے قرار اپنا کیا
القصّہ ہر چہار درویش متوجہ بہ استماع داستان مبارک بادشاہ کے ہوئے۔