(Last Updated On: )
القصہ ایک خوش نما سونے کا جڑاؤ پلنگ، اس پر زری باف کا ادقچہ اور ایسے مقیشی کسنے (جن کے جھبوں میں موتی انمول) کسے ہوئے، نرم نرم کئی تکیےاورگل تکیے رشکِ مخمل اس پر دھرے ہوئے، بہت باریک ایک چادر شبنم کی (جس کی براقی کو دیکھ چاندنی پھیکی پڑ گئی) بچھی ہوئی، خواصوں نے جگمگاتا ہوا جا بچھایا۔ دن کا ماندہ جوانی کی نیند۔ سارا مکان خوش بوئی سے مہکا ہوا۔ پلنگ پر آتے ہی یہ نیند آئی کہ پوشاک اتارنے کی فرصت نہ پائی، سو رہا۔ چاند اس کے سونے پر جو عاشق ہوا تو اپنی نگاہ اس کے چہرے پر لگا دی اور ٹکٹکی باندھی ؎
جو سویا وہ اِس آن سے بے نظیر
رہا پاسباں اس کا بدرِ منیر
رات کا وقت، چاندنی چھٹکی ہوئی، گرمی کے ایام چلی جو ٹھنڈی ہوا، جہاں تلک کہ چوکی کے باری دار تھے سب یک بارگی غفلت میں آگئے۔
غرض وہاں جتنی رنڈیاں اور خواجہ سرا اس کی خدمت میں تھے سو سب سو رہے مگر چاند کا دیدۂ حیرت کھلا تھا۔ وہی ایک جاگتا تھا ؎
وہ ماہ اس کے کوٹھے کا ہالا ہوا
کہ وہاں مہ کا عالم دو بالا ہوا
قضاے الٰہی سے نکھنڈ آدھی رات کو کہوں سے ایک پری ہوا میں اپنا تخت اڑائے چلی جاتی تھی۔ یک بیک اس کی نظر جو شہزادے پر پڑی، دیکھتی کیا ہے کہ ایک شخص خوب صورت نوجوان کوٹھے پر پلنگ بچھائے چاندنی کی بہار میں سوتا ہے۔ کچھ دل میں جو آیا، اپنا تخت ہوا سے اسی پشتِ بام پر اتارا اور ایک کنارے رکھوا کر آپ اس کے نزدیک آئی۔ جوں ہیں بھبھوکا سا شاہ زادے کا بدن دیکھا، ووں ہیں اس کا تن بدن عشق کی آگ سے جل گیا۔ بے اختیار اس کے منہ پر سے آنچل دوپٹے کا اٹھا کر گال سے گال ملنے لگی اور لاکھ جان سے نثار ہوئی۔ ہرچند ارادہ تو اس کا کچھ اور بھی تھا لیکن حیا نے رخصت نہ دی ؎
اگرچہ ہوئی تھی زیادہ ہوس
ولیکن حیا نے کہا اس کو بس
گھڑی دو ایک تک اسی شش و پنج میں آگا پیچھا کیا کی۔ آخر عشق کے نشے میں یہ ترنگ آئی کہ اس محبوب کو یہاں سے مع پلنگ اٹھا لے جائیے اور اپنے گھر میں رنگ رلیاں بہ خوبی منائیے ؎
محبت کی آئی جو دل میں ہوا
ہُوا جب زمین سے وہ شعلہ بلند
وہاں سے اسے لے اڑی دل ربا
ہوا میں ستارہ سا چمکا دو چند
پھر اپنے تخت کی پریوں کو حکم کیا کہ خبردار! پلنگ اس کا ٹک ہلنے نہ پاوے، اسے کچھ حرکت محسوس نہ ہو۔ چاہیے کہ پرستان تک آنکھ نہ کھولے، سوتے کا سوتا ہی رہے۔ چنانچہ وے ایسا ہی معلّق سبکی کے ساتھ لیے گئیں کہ ہرگز اسے خبر نہ ہوئی۔ ندان ہاتھوں ہاتھ پلک مارتے پرستان میں جا اتارا ؎
شتابی مجھے ساقیا! دے شراب
کبھی خوش ہے دل اور کبھی درد مند
کہ یہ حال سن کر ہوا دل کباب
زمانے کا ہے جب سے پست و بلند