(Last Updated On: )
جیسے ہی آم کے پیڑوں میں بور آتے ہیں، کوئل نہ جانے کہاں کہاں سے آ کر گنگنا نے لگتی ہیں، صبح شام اک پیاری سی دھن کو۔ ۔ کو۔ ۔ ۔ ووووو کی آنے لگتی ہے۔ دوپہر میں یہ آواز لو ری سی محسوس ہوتی۔ ۔ ۔ نیند آنے لگتی۔ ۔ بور کی دھیمی دھیمی خوشبو حواس پر چھا نے لگتی ہے۔
دھیرے دھیرے بور ننھی ننھی کیریوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں گو یا پورے باغ میں آم کے پیڑوں پر سبز مو تی جھلملا نے لگتے ہیں اک ہری سی خوشبو ساری فضا میں پھیل جاتی ہے۔ ہلکی ہلکی بارش میں یہ موتی اور بھی چمک جاتے ہیں۔ ۔ ساتھ ہی بارش کے ننھے ننھے قطرے ان سبز موتیوں میں سفید موتی بھی جُڑ جاتے ہیں۔ گو یا بہار آ جاتی ہے پیڑوں میں جھولے ڈالے جاتے۔ ۔ لمبی لمبی پینگیں لی جاتیں۔ ۔ گیت گائے جاتے۔ ۔ دن کیسے گزرتا کچھ خبر نہ ہوتی۔ وقت کچھ اور آگے بڑھتا ہے تو کوئل کی آواز اور خوبصورت ہو جاتی ہے اور یہ ننھے موتی کیریوں میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ ۔ یہ باغ ہمارے گھر کے بالکل سامنے ہے اسے ہمارے ابّی نے اپنے ہاتھوں سے لگا یا تھا، ایک ایک قلم ملیح آباد سے لے کر آئے اور انھیں اپنے ہاتھوں سے لگا یا تھا اور ان کی آبیاری کی۔ ۔
کیریوں کا اپنا اک مزا ہوتا ہے جب ہم پیڑ کی ڈالیوں پر بیٹھ کر دامن میں بھری ہوئی کیریوں کو نمک مرچ کے ساتھ چٹخارے لے کر کھاتے تو زندگی کا مزا آ جاتا۔ اس موسم میں آندھیاں بھی خوب آتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پورا باغ چھوٹی چھوٹی کیریوں سے پٹ جاتا۔ ان کو چھیل کر کھٹائی سکھائی جاتی گاؤں سے عورتیں آ کر کھٹائی چھیلتیں اور مو سم کے گیت گاتیں پھر اپنے حصّے کی کھٹائی لے کر گھر چلی جاتیں۔ ۔ ۔ یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا۔
ایک بار ہم نے ابّی سے پوچھا۔
“اس موسم میں اتنی آندھیاں کیوں آتی ہیں ؟ اللہ میاں ہم کو اتنے سارے آم دیتے ہیں پھر ان کا کتنا سارا حصّہ آندھی میں گر جا تا ہے ہم کو سارے آم نہیں مل پاتے۔ ۔ ۔ ایسا کیوں “؟
تب انھوں نے جواب دیا۔
” یہ آم گر نا ضروری ہے بیٹا۔ کہ اگر سارے آم بڑے ہو گئے اور نہیں گرے تو پیڑ اتنا وزن کیسے اٹھا سکے گا ؟ اور پیڑ اس وزن سے گر بھی سکتا ہے نا۔ ۔ اور جو یہ آم بچتے ہیں یہ زیادہ صحت بخش اور تندرست ہو تی ہیں۔ ۔ ۔ ان آموں نے ہر سرد و گرم سہا ہے۔ ۔ تکلیف سہی ہے۔ ۔ تو یہ زیادہ قیمتی ہو گئے ہیں۔ یہ قدرت کا علاج ہے ان پھلوں کے لئے ” اور میں مطمئن ہو گئی۔
چٹنی بنتی، اچار ڈالے جاتے اور طرح طرح کی چیزیں دستر خوان پر سجتیں۔ “نمکی ” یہ جھٹ پٹ تیار ہو جاتی۔ ۔ ۔ کچے آم کو کدّو کش کر کے اس میں نمک مرچ تیل، کلونجی ملائی جاتی اور دھوپ میں رکھ دیا جاتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے فوراً بھی کھا یا جا سکتا ہے۔
اب آیا آم پکنے کا موسم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت احتیاط سے آم کی پال ڈالی جاتی۔ پہلے ایک آدمی پیڑوں پر چڑھ کر آم اتارتا اور نیچے کھڑا ہوا اس کو کیچ کر کے ڈلیا میں رکھتا۔ ۔ ۔ اسی طرح فصل کے حساب سے تھوڑے تھوڑے آم اُتارے جاتے۔ ۔ بغلی کمرے میں بچھے بڑے سے تخت پر پیال بچھا یا جاتا۔ ۔ ۔ (دھان کا بھوسہ ) اسپر ایک ایک کر کے نہایت احتیاط سے آم رکھّے جاتے۔ اگر کوئی ذرا سی بد احتیاطی سے آم زور سے رکھتا تو ابّی فوراً کہتے “ارے رے رے۔ ۔ ۔ سنبھال کے۔ ۔ آرام سے دیکھو چوٹ نہ لگ جائے ورنہ خراب ہو جائے گا ” پھر کمرے کی زمین پر بھی پیال بچھا یا جاتا اور اس پر بھی آم سجائے جاتے پھر ان سب پر پیال ڈھا نک دیا جاتا۔
چند دنوں بعد دھیرے دھیرے ایک ایک آم دیکھ کر کہ تیّار ہو گیا، نکالا جاتا۔ اور بڑی سی پیتل کی لگن میں آم بھگو دیے جاتے۔ یہ کام کھا نا کھانے سے پہلے کیا جاتا۔ کھانے کے بعد آم کا نمبر آتا۔ ۔ نہایت نفاست سے آم کھائے جاتے۔
فصل میں پہلے زرد آلو، (آم کا نام ہے ) اور لنگڑا پک کر تیّار ہو تے۔ پھر دھیرے دھیرے دسہری، ذکی پسند ثمر بہشت ملیح آبادی سفیدہ، سُرخا، وغیرہ تیّار ہوتے اس درمیان اور بھی آم پک جاتے تھے جیسے کا لا پہاڑ، مالدہ، طو طی منقار،، آمن فجری گو لا، امروتہا۔
مگر ہم لوگ ان آموں کو سکنڈ نمبر پر رکھتے زیادہ تر کام والوں اور گاؤں کے بچوّں میں بانٹ دیتے۔ اس زمانے میں فقیر بھی آم لے کر بہت خوش ہو جاتے تھے۔
اب کبھی کبھی وہ آم یاد آتے ہیں، کہ جو اب بازار میں ملتے ہیں اس سے تو اچھّے ہی تھے۔
آخری فصل میں لکھنؤ کا سفیدہ اور چونسے کی باری آتی، چونسے کی خوشبو سارے گھر میں پھیل جاتی۔ ۔ ۔ بہترین اور میٹھا مزے دار آم۔ ۔ ۔ چونسا۔ ۔ ۔
جو فصل کے آخیر تک ساتھ دیتے وہ تخمی آم ہوتے تھے ان کو چوس کر ہی کھایا جا سکتا ہے۔ وہ بہت مزے دار ہوتا ہے مگر مارے نفاست کے لوگ آم چوسنے سے گریز کرتے۔ اور عمدہ پھل سے محروم رہتے۔
پھر دھیرے دھیرے آم کی رونقیں ماند پڑنے لگتیں۔ کبھی کبھی دو چار آم کوئی بالٹی میں بھگو کے رکھ دیتا اور کھانے کے بعد وہی کھائے جاتے۔ ۔ ۔ ۔ اور تب آموں کی قدر اور بڑھ جاتی۔ ۔
ہمارا تواب بھی وہی حال ہے چچا غالب والا۔ ۔ ” آم میٹھے ہوں اور بہت سے ہوں “
٭٭٭