“کھانا کیوں نہیں کھایا تم نے؟ کیا طبیعت ٹھیک ہے؟ کچھ اور کھانے کا من ہے؟” ماورا کے سر پر سوار وہ اس سے سوال پر سوال کیے جارہا تھا جس کا سر جھکا ہوا تھا۔
“ماورا میں تم سے پوچھ رہا ہوں, ایٹلیسٹ جواب تو دو۔۔۔۔ کھانا کیوں نہیں کھایا تم نے؟” وہ آج صبح سے ہی فہام جونیجو کی وجہ سے پریشان تھا اور اسی مقصد کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر سوچ رکھی تھی۔ پورا دن باہر رہنے کے بعد جب وہ واپس آیا تھا تو میڈ سے ہی اسے معلوم ہوا تھا کہ ماورا نے صبح سے کچھ نہ کھایا تھا۔
“مجھے۔۔۔۔مجھے کچھ چاہیے تم سے!” اچانک وہ سر اٹھائے بولی تھی۔
معتصیم کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا تھا۔۔۔۔ یہ وہ پہلا جملہ تھا جو اس نے ادا کیا تھا۔
“کیا کیا چاہیے؟ بولو جواب دو۔۔۔۔ابھی منگوا دیتا ہوں۔۔۔۔ مانگو جو مانگنا ہے قسم خدا کی بس میں ہوا تو تمہارے قدموں میں لا رکھوں گا۔۔۔۔ بولو , جواب دو, مانگو” اس کی آنکھیں چمک رہیں تھی جبکہ ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ تھی۔
سپاٹ نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھے ماورا نے گہری سانس خارج کی تھی۔
“آزادی۔۔۔۔۔۔آزادی چاہیے۔۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آخر ہم واپس کیوں جارہے ہیں؟۔۔۔۔۔ بس ہلکے سے چکر ہی آئے تھے اور دو گھنٹوں کے لیے بےہوش ہوئی تھی وہ بھی صرف کس وجہ سے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا اور تم نے ہمارا ہنی مون کینسل کردیا۔۔۔۔۔ سیریسلی حماد؟” شزا اس پر بھڑک رہی تھی جو سختی سے سٹریئنگ تھامے گاڑی ڈرائیو کررہا تھا۔
“حمار زبیری میں تم سے بات کررہی ہوں” شزا کے چلانے پر اس نے گہری سانس اندر کھینچے خود کو کمپوز کیا تھا اور گاڑی کا رخ موڑا تھا۔
“ٹھیک ہے مت جواب دو۔۔۔۔مگر اب مجھ سے بھی کوئی بات نہیں کرنا!” اس سے کوئی جواب نا پاکر وہ رخ موڑ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیس ہے میری مانو؟” سنان نے محبت بھرے لہجے میں سوایل کیا تھا جس پر وائے۔زی ابرو اچکایا تھا۔
“زویا” رسیوور پر ہاتھ رکھے سنان دھیمی آواز میں بولا تھا جس پر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“ٹھیک ہوں!” چائے کے کپ پر انگلی پھیرتی وہ اداس لہجے میں بولی تھی۔
“اداس ہو؟” سنان بھانپ چکا تھا اس کی اداسی
“نہیں بس بور ہورہی ہوں!” اس نے جواب دیا ۔۔۔۔ اب کیا بتاتی کہ آج اس کا برتھڈے ہے اور اس کے اپنے بھائی کو یاد نہیں تھا۔
“کریم کو فون دو۔” سنان کی بات سن اس نے فون فوراً کریم کی جانب بڑھایا جو تب سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ جانچ رہا تھا۔
“سر!۔۔۔۔یس سر, جی سر,۔۔۔۔ اوکے سر۔۔۔۔ فائن سر۔۔۔۔” نجانے سنان نے دوسری جانب سے ایسا کیا کہا تھا جس پر وہ ایک پل کو مسکرایا تھا, ایک گہری مسکراہٹ مگر اگلے ہی لمحے وہ ختم ہوگئی تھی۔
کال کاٹے اس نے موبائل اپنی پاکٹ میں رکھا تھا۔۔۔۔ زویا سانس اندر کھینچے دوبارہ اپنی چائے کی جانب متوجہ ہوگئی تھی۔
“کیا ہمیں بھائی کو کل رات کے حوالے سے آگاہ نہیں کردینا چاہیے تھا؟” خاموشی میں اس کی آواز گونجی تھی۔
“نہیں” مختصر جواب
“کیوں؟” دونوں بھنویں اچکائے اس نے سوال کیا تھا۔
“سر وہاں بزی ہے۔۔۔۔ اگر انہیں آپ کے وہم کے بارے میں علم ہوا تو وہ اپنا اہم کام چھوڑ کر واپس آجائے گے اور نقصان بہت بھاری ہوگا”
“وہ وہم نہیں حقیقت تھی” زویا دانت پیستے بولی تھی۔
“وہم حقیقت کی عکاسی ضرور کرتا ہے مگر اسے حقیقت کہہ دینے سے وہ حقیقت نہیں بن جاتا۔۔۔۔۔ اگر وہ وہم نہیں تو کوئی کیسے اتنی سکیوڑتی میں آرام سے گھر میں, آپ کے کمرے تک پہنچ گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے غائب بھی ہوگیا؟۔۔۔” کریم کی بات پر اس کے لب خاموش ہوئے تھے۔۔۔۔۔ کہنے کو کچھ نہ تھا۔
“تھوڑی دیر کے لیے باہر جارہا ہوں۔۔۔۔ شام تک آجاؤں گا واپس کچھ چاہیے؟ ” کریم کے سوال پر اس کا سر نفی میں ہلا تھا۔
“نہیں کچھ نہیں” جواب دیے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مم۔۔۔مجھے جانے دو۔۔۔پلیز” اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑے ماورا رو دی تھی۔
“کہاں؟۔۔۔۔۔کہاں جانے دوں؟” معتصیم کا لہجہ بےلچک تھا۔
“میں۔۔۔۔۔میں مر جاؤں گی۔۔۔۔ میرا, میرا دم گھٹتا ہے جب تم پاس ہوتے ہو۔۔۔۔ بہت,بہت اذیت ہوتی محسوس کرتی ہوں تمہاری موجودگی میں۔۔۔۔ خخ۔۔خوف آتا ہے۔۔۔پلیز۔۔۔مم۔۔مر جاؤں گی میں” کتنے ہی آنسوؤں پلکوں کی باڑ توڑے اس کے رخسار بھگو چکے تھے۔
“ٹھیک ہے۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔” اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
ماورا کا چہرہ پل بھر میں روشن ہوا تھا جس نے معتصیم کو تکلیف دی تھی۔۔۔
“آخر وہ کس حق سے رکھتا اسے۔۔۔۔۔ جو رشتہ تھا وہ تو ختم ہوگیا!” یہ سوچ دماغ میں آتے اس نے تکلیف سے آنکھیں موندی تھی۔
تھی۔
“صبح فجر ٹائم نکل جائے گے۔۔۔۔۔جاؤ آرام کرلو۔”
“تھ۔۔۔۔تھینک یو۔” وہ تیزی اندر کی جانب پلٹی تھی۔
ایک آنسو معتصیم کی آنکھ سے بہہ نکلا تھا۔۔۔
ایک شکایتی نگاہ آسمان کی جانب اٹھاتا وہ اندر بڑھ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میم۔۔۔۔۔۔۔میم اٹھ جائے شام کے چھ بج گئے ہے” انعم نے آہستگی سے اس کا کندھا ہلایا تھا جو مکمل طور پر نیند میں ڈوبی ہوئی تھی۔
“ہوں؟” مندی آنکھیں کھولے حیرانگی سے اس نے میڈ کو دیکھا تھا۔
“میم اٹھ جائے۔” اب کی بار زویا نے آنکھیں مکمل طور پر کھولی تھی۔
“کیا ہوا؟” آنکھیں ملتے اس نے انعم سے سوال کیا تھا۔
“وہ میم آپ نے ناشتہ بھی نہیں کیا، لنچ بھی نہیں کیا اور اب رات ہونے والی ہے۔۔۔۔۔آپ کافی دیر سے سورہی تھی تو اٹھ جائیے کھانا کھالے!” ہاتھ مسلتی وہ بولی تھی۔
“مجھے بھوک نہیں” جواب دیے اس نے کروٹ لی تھی۔
“میم پلیز۔۔۔۔ اگر سنان سر کو معلوم ہوگیا تو خیر نہیں، پلیز کھالے۔” انعم کی بات پر وہ بددل سی اٹھ بیٹھی تھی۔
“اچھا آرہی ہوں جاؤ تم!” ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کا بولتی وہ بالوں کا جوڑا بنانے لگ گئی تھی۔
موڈ اس کا ایک بار پھر سے خراب ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے نہیں جاننا کہ وہ شخص کتنا ہوشیار یا چالاک ہے مجھے بس وہ انفارمیشن چاہیے جس کی مجھے ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ میرا کام جتنی جلدی ہوسکے کرو۔۔۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں!” سنان کی دھاڑ پر وائے۔زی نے سر اٹھائے حیرت سے اسے دیکھا تھا جو فون پر کسی پر چلارہا تھا۔
کال کاٹتا وہ وائے۔زی کے سامنے آبیٹھا جو دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اسے گھور رہا تھا۔
“واٹ؟” سنان نے ابرو اچکایا
“کیا چل رہا ہے سنان؟ میں دیکھ رہا ہوں بہت پریشان رہنے لگ گئے ہو تم۔۔۔۔۔ کیا اس پریشانی کا تعلق ارحام شاہ کی بیٹی سے ہے؟” وائے۔زی کے پوچھنے پر اس نے بند آنکھوں سے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“تو کیا پتہ چلا؟”
“وہ زندہ ہے”
“ارحام شاہ کی بیٹی؟” وائے۔زی کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی۔
“ہوں”
“مگر وہ تو اس بلاسٹ میں۔۔۔۔۔”
“نہیں مری۔۔۔۔ بچ گئی تھی۔۔۔ جیسے زویا بچ گئی اور میں بےوقوف اسی جھوٹ کو سچ مانتا رہا!”
“کیا یہ ڈیوڈ نے بتایا؟”
“ہاں”
“مگر یہ جھوٹ ہوسکتا ہے؟”
“مرتا ہوا انسان جھوٹ نہیں بول سکتا وائے۔زی وہ بھی تب جب بات اس کے اپنوں کی جان کی ہو۔”
“تو وہ۔۔۔۔وہ اب کہاں ہے؟ ارحام سر کی بیٹی؟”
“معلوم نہیں۔۔۔۔۔ شبیر زبیری نے بہت اچھے سے اس کی پہچان کو چھپایا ہوا ہے۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کہاں ہوگی وہ۔۔۔ اور کس حال میں ہوگی!” ایک پل کو سنان کی آنکھیں بھیگی تھی۔
“فکر مت کرو سنان ہم ڈھونڈ لے گے اسے” وائے۔زی نے حوصلہ دیا تھا
“ان شاء اللہ!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شزا کو تو ابھی تک اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ اس وقت وہ اپنے کمرے میں موجود تھی جہاں اس کی ساس نے بےتحاشہ فروٹس لاکر رکھ دیے تھے۔
گھر آنے پر حماد نے تمام لوگوں کو خوشخبری دی۔۔۔۔ مسز زبیری کا تو خوشی سے براحال تھا وہ شزا جو کل تک انہیں ذہر لگتی تھی آج وہ کسی ریاست کی ملکہ بنی بیٹھی تھی
شزا تو ہونقوں کی طرح اپنی ساس کے بدلے تیور دیکھ رہی تھی ساتھ ہی ساتھ اسے حماد پر غصہ بھی آرہا تھا جو جازل کو ساتھ لیے نجانے کہاں غائب ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا بات ہے بھائی کچھ ڈسٹرب لگ رہے ہے؟ حالانکہ جو خبر آپ نے سنائی ہے آپ کو تو اس وقت شزا کے پاس ہونا چاہیے اور آپ یوں مجنوں بنے میرے ساتھ چین سموکر بنے ہوئے ہے!” جازل کش لگائے بولا تھا اور ایک نگاہ گم سم سے حماد پر ڈالی تھی۔
“جازل!” حماد نے اچانک اسے پکارا تھا
“ہوں؟” وہ کش لگاتا حماد کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
“ایک وعدہ کرو گے مجھ سے؟” حماد اس کی جانب گھما
“کیسا وعدہ؟” جازل نے ابرو اچکائی
“اگر مستقبل میں کبھی مجھے کچھ ہوجائے۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہوجائے۔۔ تو وعدہ کرو شزا کا اور میرے ہونے والے بچے کا دھیان رکھو گے۔۔۔ ان کو پروٹیکٹ کرو گے۔۔۔۔ کوئی تکلیف کوئی مشکل ان کی راہ میں نہیں آنے دو گے۔۔۔۔ انہیں ایک اچھی زندگی دو گے؟ وعدہ کرو ان کا خیال رکھو گے پھر چاہے تمہیں میرے ماں باپ کے بھی خلاف کیوں نا کھڑا ہوجانا پڑے۔۔۔۔۔ انہیں کبھی جدا نہیں ہونے دو گے ایک دوسرے سے۔۔۔۔ وعدہ کرو جازل کے جتنی محبت تمہیں مجھ سے ہے اتنی ہی محبت،اور شفقت سے تم ان کا خیال رکھو گے۔۔۔۔۔ وعدہ کرو جازل!”
“بھائی کیا ہوگیا ہے آپ کو سب ٹھیک تو ہے نا کیوں ایسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں؟ آپ ڈرا رہے ہے مجھے!” اس کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ جازل کو تشویش ہوئی تھی۔
“تم وعدہ کرو گے کہ نہیں؟”
“ہاں ٹھیک ہے وعدہ۔۔۔۔ رکھوں گا ان کا خیال مگر آپ میرے ساتھ ہوگے۔۔۔۔ اپنی بیوی اور کئی سارے بچوں کو سنبھالنے کے لیے۔۔۔۔ کیونکہ میں تو چاچو ہوں کل کلاں شادی ہوگئی تو مینج کرنا مشکل ہوجائے گا!” وہ زرا سا ہنسا تھا۔
“ان کی ہمیشہ حفاظت کرنا جازل۔۔۔۔ ان کے معاملے میں صرف تم پر یقین ہے مجھے۔۔۔۔ صرف تم، میرا باپ بھی نہیں!” حماد کی بات کی گہرائی کو سمجھے بنا اس نے سر اثبات میں ہلادیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منہ ہاتھ دھوئے وہ لاؤنج میں داخل ہوئی تھی جہاں چار سو سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔۔ نجانے کیوں مگر زویا کو عجیب سی وحشت ہوئی تھی۔
“انعم! انعم؟ کہاں ہو تم؟ انعم؟” آوازیں دیتی وہ لاؤنج کے وسط میں آپہنچی تھی۔
“ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔۔۔ ہیپی برتھڈے ڈئیر زویا۔۔۔۔ ہیپی برتھڈے ٹو یو!” اچانک ایل۔ای۔ڈی کی سکرین روشن ہوئی تھی جہاں سنان ہاتھ میں کیک تھامے اسے وش کررہا تھا۔
زویا آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی جس نے گانا گاتے ہی کینڈلز کو بجھایا تھا اور اب کیک کاٹتا سکرین سے کیک اس کی جانب کیا تھا یوں جیسے وہ اسے کھلا رہا ہو۔
“ہیپی برتھڈے میم!” اچانک پورا لاؤنج جگمگا اٹھا تھا اور وہاں موجود تمام نوکروں نے اسے وش کیا تھا۔
ہاتھ میں کیک تھامے تمام دانتوں کی نمائش کرتی انعم، اس کے ساتھ ہلکی سی مسکراہٹ لیے کھڑا کریم اور باقی کے ملازم۔
“میرے۔۔۔۔۔میرے لیے؟” انگلی اپنی جانب کیے اس نے حیرانگی سے سوال کیا تھا۔
ان سب کے سر اثبات میں ہلے تھے۔
“میم آپ کی کال!” کریم نے موبائل اسکی جانب بڑھایا جہاں سنان کال پر اس کا ویٹ کررہا تھا۔
“ہیلو؟”
“ہیپی برتھڈے میرے مانو۔۔۔۔ ہیپی برتھڈے ٹو یو!”
“آپ کو یاد تھا؟”
“بھولنے والا دن تھا؟”
“تو پھر آپ رکے کیوں نہیں؟” معصوم سا شکوہ
سنان نے وائے۔زی کو گھورا تھا جس کے بتیس دانتوں کی نمائش کی تھی۔
“میری وجہ نہیں رکا یہ!” موبائل سپیکر تھا جس کی وجہ سے وائے۔زی ان کی گفتگو اچھے سے سن رہا تھا۔
“آپ کون؟” کوئی تیسری انجانی آواز سن زویا چونکی تھی۔
“میں وائے۔زی!”
“کون وائے۔زی؟” زویا کے سوال پر سنانا اور کریم دونوں نے آنکھیں گھمائی تھی۔
یقیناً وائے۔زی اب اپنی تعریفوں کے پل باندھنے والا تھا۔
“میں۔۔۔۔”
“میرا خاص ملازم ہے یہ۔۔۔۔ بیچارے کے گولی لگ گئی تھی تو آنا پڑا!”
اس کا منہ کھلتے دیکھ سنان نے فوراً موبائل کھینچا تھا۔
“اوہ!” اب کیسے ہے آپ؟” زویا نے سوال کیا جبکہ وائے۔زی سنان کو گھورے جارہا تھا۔
“زویا بیٹا آپ اپنی پارٹی انجوائے کرو۔۔۔ ابھی بھائی کو کام ہے تو انہیں جانا ہے!”
“اوکے بھائی بائے!” زویا نے سر ہلائے کال کٹ کی تھی۔
“میم کیک کٹ کرے۔۔۔۔” انعم کی تیزی پر وہ مسکرائی اور سر دھیرے سے اثبات میں ہلائے موبائل کریم کو تھمائے کیک کی جانب بڑھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تو میں تمہارا خاص ملازم ہوں؟” ایک کشن سنان کے منہ کی جانب پھینکا گیا تھا۔
“کیا یہ سچ نہیں؟” کشن کیچ کیے اس نے دل جلا دینی والی مسکراہٹ لبوں پر سجائے سوال کیا تھا۔
“ارحام شاہ تمہارے چاچا جان۔۔۔۔ ان کا بیٹا ہوں میں!” وائے۔زی نے رشتہ باور کروایا تھا۔
“تصیح کرلو۔۔۔۔ بیٹے نہیں ہو لے پالک بیٹے ہو۔۔۔۔ وہ شخص تمہارا حقیقی باپ نہیں!”
“آؤچ مجھے تکلیف ہوئی!” دل پر ہاتھ رکھے وہ تکلیف دہ انداز میں گویا ہوا۔
“دل دوسری جانب ہوتا ہے!” اس کے ہاتھ کو دیکھ سنان نے جواب دیا تھا۔
“میرا اسی جانب ہے!”
“اچھا اور یہ کب ہوا؟ ضرور یہ جو گولی تمہیں لگی ہے اس کے بعد ایسا ہوا ہوگا۔۔۔ ہے نا؟ دل اچھل کر دوسری جانب چلا گیا!” سنان کی بات کے جواب میں اس نے بس زبان نکالی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار سو اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور ایسے میں وہاں موجود مسجد سے شروع ہونے والی فجر کی آذان۔۔۔۔
“چلے؟” گاڑی کے پاس آتے ماورا نے سوال کیا تھا۔
حالانکہ اس نے اپنا لہجہ ہموار رکھنے کی کوشش کی تھی مگر معتصیم اس کی آنکھوں کی چمک، اس کی بےصبری کو بھانپ چکا تھا۔
“ہممم چلو!” خود کو نارمل کرتے اس نے جواب دیا تھا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی ماورا نے اپنا سر شیشے کے ساتھ ٹکا لیا تھا۔۔۔۔۔۔آنے والے لمحات کو سوچ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
آٹھ سال
آٹھ سال بعد وہ واپس ان میں جانے والی، اپنے اپنوں میں۔۔۔۔۔ کیا وہ اسے اپنا لے گے؟ یا اس کا انجام بھی انہی لڑکیوں جیسا ہوگا جن کو ان کے اپنوں نے اپنانے سے انکار کردیا اور وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئیں۔
گہری سانس خارج کیے وہ آنکھیں بند کرچکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سو گئی ہو؟” اس کا شانہ ہلائے حماد نے سوال کیا تھا حالانکہ وہ جانتا تھا وہ جاگ رہی ہے۔
شزا نے کسی قسم کا کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے حماد پر سخت قسم کا غصہ آرہا تھا اس وقت۔۔۔۔ وہ کیسے اسے یونہی چھوڑ کر جاسکتا تھا۔
“سوری” اس پیچھے اسے اپنی گرفت میں لیے وہ اس کے کان میں بولا تھا۔
شزا نے اسے دور کرنا چاہا تھا جس پر وہ گرفت مزید سخت کرگیا تھا۔
“مجھے کوئی بات نہیں کرنی!” اس کا لہجہ غصے سے لبریز تھا جبکہ آنکھیں نم
“مگر مجھے تو کرنی ہے بہت ساری باتیں۔۔۔۔ تمہاری میری۔۔۔۔ ہمارے آنے والے بےبی کی۔”
“مجھے نہیں کرنی۔۔۔۔”
“سوری!”
“کوئی سوری ووری نہیں۔۔۔۔۔۔ کوئی کرتا ہے ایسے اپنی بیوی کے ساتھ؟ مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔۔۔ گھر آکر سب کے ساتھ بتایا اور پھر چھوڑ کرچلے گئے مجھے۔۔۔ جانتے ہو کتنا آکوورڈ فیل کررہی تھی میں۔” اس کی جانب گھومے اس نے شکوہ کیا تھا۔
“آئیندہ ایسا نہیں ہوگا!” اس کے ماتھے پر لب رکھے یقین دلانا چاہا
“حماد! کیا ہم سچ میں پیرنٹس بننے والے ہیں؟” شزا کے سوال پر اس کے لب مسکرائے، سر اثبات میں ہلا تھا۔
“مجھے۔۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے حماد!”
“کیوں؟ کیسا ڈر؟”
“اگر میں اچھی ماں نہ بن پائی تو؟۔۔۔۔۔ مجھے تو میری ماما بھی یاد نہیں کہ وہ کیسی تھی۔۔۔۔ اگر میں نے کچھ کردیا تو؟ اگر میں نے اپنے بچے کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو؟”
اس کی فکرمندی کو دیکھ وہ اسے اپنے قریب کرتا سینے سے لگا چکا تھا۔
“کچھ برا نہیں ہوگا شزا۔۔۔۔ ایسا مت سوچو۔۔۔ ہمیں تو بہت اچھے ماں باپ بنے گے۔۔۔۔ ورلڈ بیسٹ پیرنٹس۔۔۔۔۔ ہمیشہ ساتھ رہے گے!” اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ اس سے زیادہ خود کو یقین دلا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تو تمہاری وہ کسی نا کام کی بہو اب ماں بننے والی ہے؟ سوچا کیا کرو گے تم؟ مار دو گے یا جانے دو گے؟” شبیر کو دیکھتے ، وائن کا سپ لیے اس نے سوال کیا تھا۔
“انحصار کرتا ہے!”
“کس پر؟”
“کہ وہ لڑکا پیدا کرتی ہے یا لڑکی”
“اگر لڑکا ہوا تو؟”
“اس کے پیدا ہوتے ہی اس کی ماں کو مروا دوں گا۔۔۔۔ کئی عورتیں بچہ پیدا کرتے وقت مرجاتی ہیں، عام ہے!” شبیر زبیری نے مطمئن انداز میں کندھے اچکائے
“اور اگر لڑکی ہوئی تو؟”
“تو ماں کے ساتھ ساتھ دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم کردوں گا!” شبیر زبیری کے پلاننگ پر اس کے ساتھی نے مسکرا کر سر نفی میں ہلایا تھا۔
“کیا یہ واقعی اپنی پوتی کو مار دے گا؟” اس کے تیسرے ساتھی نے ساتھ والے کے کان میں سوال کیا تھا۔
“جو شخص اپنی بیٹی کو دنیا میں آنے سے پہلے ختم کرسکتا ہے اس کے لیے پوتی کیا چیز؟” اس نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تائی کی گود میں سر رکھے، بےآواز آنسوؤں بہائے نجانے کتنے سالوں کا غم ہلکا کرنے میں وہ مگن تھی جبکہ دوسری جانب تایا اور تقی کی خون آشام نگاہوں کا مرکز بنے وہ سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔
دوپہر کا ایک ہونے والا تھا۔
“کچھ اور کہنا ہے تمہیں؟” اس کی بات مکمل ہوتے ہی تایا نے سپاٹ لہجے میں سوال کیا تھا۔
اس کا سر نفی میں ہلا تھا۔
“بہت اچھی بات ہے کیونکہ مزید میں تمہیں ایک منٹ کے لیے بھی اس گھر میں برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔۔ تم یہاں سے جاسکتے ہو!” تایا کا لہجہ ان کے ضبط کی عکاسی کررہا تھا۔
“مجھے۔۔۔۔۔۔مجھے معاف کردیجیئے گا!۔۔ بس یہی کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ جو ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا!” شرمندہ سا بولتا وہ اپنی جگہ سے اٹھتا گھر کی دہلیز پار کرگیا تھا جس پر تایا نے صرف ہنکارہ بھرا تھا۔
تائی تو اس کے ساتھ ہی بس خاموشی سے آنسوؤں بہارہی تھی۔۔۔۔ کتنا سہا تھا اس نے۔۔۔۔ وہ ان کی اولاد نہیں تھی مگر اولاد سے بڑھ کر تھی۔۔۔
آٹھ سال۔۔۔۔ آٹھ سال اس کی تکلیف دہ یادوں کے سنگ گزارے تھے انہوں نے۔
“میں ابھی آیا!” ان پر نگاہ ڈالتا تقی فوراً باہر بھاگا تھا۔
“سنو!” اس نے معتصیم کو پکارا۔۔ معتصیم اس کی جانب گھوما تھا
“بس وارن کرنے آیا ہوں کہ اب اپنی یہ شکل ہمیں مستقبل قریب یا دور میں کبھی مت دکھانا۔۔۔۔۔۔ تمہارے نقصان کا افسوس ہے ہمیں مگر اس کی وجہ سے جو نقصان ہمارا ہوا اسے ہم کبھی بھول نہیں سکتے تو احسان کرنا اور اب میری آپا سے جتنا ہوسکے اتنا دور رہنا۔۔۔۔۔۔ اچھا ہوگا تمہارے لیے!” اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے اسے وارن کرتا وہ اندر جاچکا تھا۔
“ٹھیک!” کہنے کو کچھ نا بچا تھا معتصیم پاس، تلخ مسکراہٹ لیے وہ گاڑی میں سوار وہاں سے جاچکا تھا۔
شائد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...