وہ اپنے شاندار آفس میں ریولونگ چٸیر پر بیٹھا گہری سوچوں میں غرق تھا ، تناٶ اس کے چہرے پر واضح تھا، اس کے سامنے لیپ ٹاپ ویسے ہی کھلا پڑا تھا،لیکن اس کا ذہن وہاں حاضر نہیں تھا ،تب ہی زین ( جس کا آج یونی سے آف تھا ) ڈور ناک کر کے اندر آیا اور اس کو سوچوں میں گم کہیں اور پہنچے دیکھ پریشان سا ہوگیا۔۔
”کیا ہوا بھاٸی؟ آپ کچھ ڈسٹرب سے ہیں۔۔؟“
”نن نہیں تو۔“ وہ یکدم چونکا اور پھر کرسی پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
”آپ کے چہرے سے صاف لگ رہا کہ آپ ڈسٹرب ہیں۔“ وہ کہاں پوری بات کٸیے بغیر پیچھے ہٹنے والا تھا اور اس کو یوں دکھی تو وہ کبھی دیکھ ہی نہیں سکتا تھا،
“ہمممممم چھوٹے تم جانتے تو ہو سب کچھ۔“ وہ تھکے تھکے سے لہجے میں بولا۔
”آپ پاپا اور ماما کے روز روز ہونے والے جھگڑوں سے پریشان ہیں۔“ وہ بھی سمجھ گیا تھا،
”ہممممم! ہاں ! نن نہیں میں کسی بھی ایسے انسان کی وجہ سے پریشان نہیں ہوتا جس کو میری تو کیا خود کی اور اپنے سے جڑے کسی رشتے کی بھی پرواہ نہ ہو، پھر چاہے وہ میرے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔۔“اس نے بمشکل خود پر کنٹرول کر کے بڑی سختی سے کہا اور لب بھینچ لیے۔
”لیکن بھاٸی۔۔۔۔“ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ دارین غلط بیانی کر رہا تھا ،وہ یہ بھی جانتا تھا کہ پاپا اور ماما کے رویے کی وجہ سے ہر بار وہ کافی ڈسٹرب ہوتا تھا،
”تم لیکن ویکن کو چھوڑو اور میری بات غور سے سنو ، آج میری نیازی اینڈ سننز کمپنی کے ساتھ میٹنگ تھی، میں نہیں جانا چاہتا۔اب وہ میٹنگ تم اٹینڈ کرنے جاٶ گے۔۔۔۔۔“ اس نے سنجیدگی سے بات پوری کر کے زین کے چہرے کی طرف دیکھا جو حیرانی سے منہ کھولے بیٹھا تھا۔۔
”ایسے منہ کھول کر بیٹھنے کی ضرورت نہیں ، گھر جا کر تیاری کرو یہ کنٹریکٹ ہر حال میں ہمیں ملنا چاہیے“ وہ سنجیدگی سے بات کر رھا تھا،زین کے انکار کا تو اب کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا ، وہ ایم بی اے فاٸنل کا سٹوڈنٹ تھا، فری وقت میں دارین اس کو بھی آفس بلا لیتا تھا کیونکہ وہ اسے بھی اپنی طرح مضبوط بنانا چاہتا تھا۔اور وہ بھی دارین کے ہر کام میں اسکے ساتھ ساتھ ہی ہوتا تھا، لیکن آج پہلی بار وہ اکیلے ہی میٹنگ اٹینڈ کرنے والا تھا اس لیے تھوڑا سا ہچکچا رہا تھا۔۔
”بھاٸی میں اکیلے کیسے۔۔۔؟“ وہ تھوڑا پریشانی سے منمنایا،
”دیکھو زین۔! اگر تم کامیاب انسان بن کر خود کو کسی اعلیٰ مقام پر دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے اندر سے یہ ڈر و خوف نکال دو،دل میں عزم اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ لے کر آگے بڑھو ، بھول جاٶ لوگوں کو اور ان کی باتوں کو بس اس بات پر دھیان دو کہ تم نے کچھ کر کے دکھانا ہے،پھر دیکھنا اک دن بہت کامیاب انسان بن جاٶ گے ۔۔۔۔“وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر زین کے پاس آگیا اور اس کے کندھے کو تھپک کر اس کو رسان سے سمجھانے لگا،جبکہ وہ بھی بڑے غور سے اس کی بات سن رہا تھا،
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں بھاٸی۔ان شاء اللہ اب ایسا ہی ہو گا میں پوری کوشش کروں گا۔۔۔“دارین کی باتوں سے اس کی ڈھارس بندھی۔
”ویری گڈ۔۔۔!یہ ہوٸی نہ بات۔۔۔“وہ بھی دھیرے سے مسکرا دیا۔
”اوکے بھاٸی اب میں چلتا ہوں۔۔۔ پلیز آپ پریشان نہ ہوا کریں سب ٹھیک ہوجاۓ گا اک دن۔۔۔۔۔“ زین اٹھ کھڑا ہوا۔
”ہمممممم شاید۔۔۔۔! تم چھے بجے تیار رہنا ، میں تمہیں پک کر لوں گا۔۔۔۔“ اس نے تاکید کی۔۔
زین کمرے سے جاچکا تھا۔۔
جبکہ وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس آگیا،اور کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے لگا، وہاں ٹریفک کا بہت شور تھا،بلکل ایسے ہی جیسے آج اس کے اندر بھی عجیب سا شور ہو رہا تھا،جس کو وہ چاہ کر بھی ختم نہیں کر پا رہا تھا، اس کے والدین میں کافی دوریاں تھیں۔ان دونوں میں زیادہ قصوروار کون تھا وہ یہ تو نہیں جانتا تھا،لیکن ان کی آۓ روز ہونے والی لڑاٸیاں اس کو بہت زیادہ ڈسٹرب کر دیتی تھیں، وہ جتنا بھی بےحس اور کھٹور بن کر یہ سب کچھ اگنور کرنے کی کوشش کرتا اتنا زیادہ اسے محسوس ہوتا تھا ، وہ اپنی جگہ ڈسٹرب تھا اور اس کے والدین اپنی جگہ۔لیکن آج تک کسی نے بھی اس ڈسٹربنس کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔!
**…**…**
عابدہ مامی اپنے کمرے میں بیڈ پر نیم دراز بڑے مزے سے کوٸی سیریل دیکھ رہی تھیں،جب وہ سست روی سے قدم اٹھاتی ان کے کمرے میں داخل ہوٸی۔۔ان سے کچھ بھی مانگتے وقت اس کے دانتوں تلے پسینہ آجاتا تھا لیکن پھر بھی ان سے مانگنا اس کی مجبوری تھی۔۔
”مامی بات سنیں۔۔۔۔“
”ہاں بولو۔۔۔۔۔! اب کیا آفت آگٸی ہے۔۔؟جو تم یوں میرے سر پر چڑھ آٸی ہو۔۔؟“ انہوں ٹی وی سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھ کر بیزاری سے کہا۔۔
”آج زرینہ خالہ کی بیٹی عاشی کی برتھ ڈے ہے۔ انہوں نے مجھے بلایا ہے۔۔“ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوۓ دھیمی آواز میں بتایا۔
”تو پھر میں کیا کروں۔۔؟ مجھے کیوں بتا رہی ہو جاٶ چلی جاٶ۔۔۔“ اب کے انہوں نے لاپرواہی سے کہا اور ٹی وی کی آواز قدرے کم کر دی۔۔
”وہ مم میں نے اس کے لیے گفٹ بھی لینا ہے۔۔۔کک کچھ پپ پیسے چاٸیے تھے۔۔“ اس نے اپنی آنکھوں میں اُمڈتے آنسوٶں کے سیلاب کو پلکیں جھپک کر اندر اتارتے ہوۓ کہا،ایسا کرتے ہوۓ وہ بےبسی کی انتہا پر تھی۔۔
”مجھے پہلے ہی پتا تھا تم پیسے ہی مانگو گی۔اور تو کوٸی کام تجھے آتا ہی نہیں۔۔۔“وہ ریموٹ بیڈ پر پھینک کر اٹھ کھڑی ہوٸیں،اور پھر الماری کھول اس میں سے ہزار کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا،ان کا انداز ایسے تھا جیسے وہ کسی مانگنے والی کو بھیک دے رہی ہوں ۔۔۔ وہ ڈبڈباٸی آنکھوں سے ان کے اس انداز کو دیکھ رہی تھی،لیکن بولنے کی اس میں ہمت ہی نہیں بچی تھی۔
”ہمیشہ ایسے ہی ہاتھ پھیلا کر مانگتی رہنا ،کبھی باز نہ آنا تم اپنی اس مانگنے والی عادت سے۔۔“ انہوں نے اس کی اچھی خاص کر دی تھی،جس کو سن کر وہ سر تا پاٶں شرمندہ ہوگٸی تھی اور اس کی پانی سے بھری آنکھیں چھلکنے کو بےتاب ہور رہی تھیں ، وہ جلدی سے ان کے کمرے سے باہر نکل آٸی۔اس ڈر سے کے کہیں اس کی آنکھیں عابدہ مامی کے سامنے ہی نہ چھلک پڑیں۔۔
مامی کے کمرے سے نکل اس نے اپنے ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کیے اور اپنے کمرے میں آگٸی ،اک ہفتہ ہوگیا تھا روز ہی یہی ہوتا تھا مامی کسی نہ کسی بات کو بہانہ بنا کر اس کو خو ب سناتی تھیں اور وہ رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی، وہ کس سے اپنے دکھ درد بانٹتی بس اک اللہ ہی تھا جو اس کی سنتا تھا اور وہ بھی اس کے سامنے اپنے سارے دکھ بیان کر کے پرسکون ہوجاتی تھی،لیکن پھر اگلے ہی دن اک نیا درد اس کے سامنے سر اٹھاۓ کھڑا ہوتا تھا، وہ ایسے ہی دکھی سی اپنے کمرے بیٹھی تھی ، جب راٸمہ اس کے کمرے میں چلی آٸی۔
”آپی کیا ہوا۔۔۔۔؟ رو رہی ہیں آپ۔۔۔۔؟“
وہ اس کی روٸی روٸی آنکھیں دیکھ کر فکرمندی سے بولی،اس گھر میں اک وہی تو تھی جو اس کے ساتھ تھوڑا پیار سے بات کرتی تھی،اس کے لیے دل میں ہمدردی رکھتی تھی،
”جانتی تو ہو تم تم سب کچھ،پھر بھی پوچھ رہی ہو۔“ اس نے تلخ لہجے میں کہا،جبکہ وہ اس کا شکوہ سن کر اچھی خاصی شرمندہ ہوگٸی تھی۔
”ایم سوری آپی۔۔۔“
”چھوڑو اس بات کو یہ تو روز کا مسلہ ہے۔۔۔۔۔۔! تم بتاٶ تمہیں کوٸی کام ہے مجھ سے؟“ اس نے جلدی سے اپنے ہاتھوں کی پشت سے چہرے کو صاف کیا۔
”جی وہ میں نے بازار جانا ہے۔۔۔! مجھے تھوڑا سا کام ہے کیا آپ میرے ساتھ چلیں گی۔۔۔۔۔؟“اس نے اپنے آنے کی وجہ بتاٸی۔
”ہممممم۔۔۔ ! میں نے بھی عاشی کے لیے گفٹ لینا ہے، آج اس کی برتھ ڈے ہے تو۔۔۔۔۔“ اس نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔۔
”تو بس پھر ڈن ہوگیا آپ میرے ساتھ بازار جارہی ہیں۔ میں نے بھے کچھ نوٹس کاپی کروانے ہیں اور آساٸمنٹ پیجیز لینے ہیں، ہم دونوں ہی چلتے ہیں امی نے تو جانا نہیں۔۔۔۔“اس نے بھی اپنی چیزوں کی لسٹ گنواٸی۔
”چلو سہی ہے۔۔۔۔! لیکن پلیز جانے سے پہلے تم مامی سے پوچھ لو۔۔“ اس نے پریشانی سے کہا ،کیونکہ اگر ان سے نہ پوچھ کے جاتے تو انہوں نے اک بہت بڑا فسادکھڑا کر دینا تھا،
”ہمممم۔۔۔! میں ابھی امی سے پوچھ کر آتی ہوں۔۔آپ تیار ہو جاٸیں۔۔“ راٸمہ کہہ کر باہر نکل گٸی جبکہ وہ پھر سے ویسے ہی بیٹھ گٸی۔۔۔۔اس نے کون سا زیادہ تیاری کرنی تھی بس شال ہی لینی تھی جو کہ اس کے پاس ہی پڑی تھی،
کچھ دیر بعد راٸمہ بھی عابدہ کو بتا کر آگٸی تھی،پھر وہ دونوں ہی قریبی بازار چلی گٸی تھیں ، راٸمہ نے اپنا کام کیا اور اس نے عاشی کے لیے گفٹ لے لیا، تقریبا دو تین گھنٹے بعد وہ واپس بھی آگٸی تھیں، لیکن گھر آتے ہی اک نٸی مصیبت اسکے انتظار میں تھی،اسرار بھاٸی اور ناٸمہ آۓ ہوۓ تھے،ان کی بےباک نظروں سے اس کو گھن آتی تھی۔ان کی ہوس بھری نظریں اس کو اپنے جسم کے آر پار ہوتی محسوس ہوتی تھیں۔۔۔جس سے اس کو بہت ڈر وخوف محسوس ہوتا تھا۔
راٸمہ سیدھی عابدہ کے کمرے میں چلی گٸی تھی، نا چاہتے ہوۓ اس کو بھی اندر جانا پڑا اور ان کو سلام بھی کرنا پڑا تھا،وہاں مامی ،ناٸمہ آپی اور اسرار بھاٸی تینوں خوش گپیوں میں مصروف تھے، اس کو دیکھتے ہی ناٸمہ نے حکم جھاڑا ۔۔
”بیا تم چاۓ بنا کر لاٶ اسرار کے لیے۔۔“
”جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔“ وہ کہہ کر کھڑی ہو گئی۔ آج اس کو ناٸمہ آپی کا یوں حکم چلانا برا نہیں لگا تھا۔”ارے کچھ دیر بیٹھنے تودو سالی صاحبہ کو۔۔“انہوں نے اس کا سرتا پا جائزہ لیتے ہوۓ خبیث مسکراہٹ چہرے پر سجائے کہا۔
”نن نہیں میں ابھی بنا کر لاتی ہوں چاۓ ۔۔۔۔“ کمرے سے باہر آ کر اس نے شکر کیا اور اور گفٹ اپنے کمرے میں رکھ کر دوبار کچن میں چلی گٸی۔ اس نے چاۓ بنا کر راٸمہ کو دے دی ،وہ لے کر اندر چلی گٸی،لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب کبھی بھی اسرار بھائی کے سامنے نہیں جاۓ گی۔ ایسے ہی سوچوں میں گم سی وہ کچن میں کھڑی تھی۔۔ جب عاشی نے دیوار کے پار سے اس کو آواز لگاٸی۔۔
”بیا آپی ! بیا آپی۔۔۔۔کدھر ہیں آپ ؟ اب آ بھی جاٸیں امی بلا رہی ہیں آپ کو۔۔“ وہ عاشی کی آواز سن کر یکدم چونکی اور کچن سے نکل کر صحن میں آگٸی، جہاں دیوار سے سر نکالے عاشی کے ساتھ ‘ زرینہ خالہ بھی اس سے غصے ہو رہی تھیں،
”ابھی آتی ہوں خالہ۔۔ناٸمہ آپی آٸی ہوٸی ہیں۔۔۔۔“ وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
”جلدی آ جاٶ بیٹا۔“ وہ کہہ کر نیچے اتر گٸیں ، جبکہ وہ شش و پنج میں مبتلا ہوگٸی تھی کہ مامی سے اجازت لینے کے لیے کیسے ان کے کمرے میں جاۓ؟ وہاں تو اسرار بھائی اپنی ہوس بھری نظریں لیے بیٹھے تھے۔ وہ کچھ دیر تو کھڑی سوچتی رہی پھر اپنے کمرے میں چلی گٸی اور حلیہ سیٹ کر کے گفٹ اٹھا کر بغیر کسی کو بتاۓ ہی عاشی کے گھر چلی گٸی اور یہی اس سے غلطی ہوگٸی تھی ، اس کی کیا سزا ہونی تھی یہ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔۔۔۔۔!
**…**…**
جب سے وہ عاشی کی برتھ ڈے سے واپس آٸی تھی، تب سے ہی گھر میں خاموشی کا راج تھا ،اس بات کو آج دو دن ہوگٸے تھے،لیکن مامی نے اس سے کچھ نہیں پوچھا تھا،اس کو تعجب کے ساتھ ساتھ فکر بھی ہو رہی تھی۔۔۔۔ دو دن کے بعد صفدر ماموں بھی رات کو واپس آ گٸے تھے،ان سب کی خاموشی کسی بہت بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی لگ رہی تھی جو اس کو اندر سے ڈرا رہی تھی،جب بھی مامی کسی کام کے لیے اسے بلاتیں تو اس کا دل ڈر کے مارے اچھل کر حلق میں آجاتا تھا۔۔
آئمہ یونی گٸی ہوٸی تھی۔۔۔۔!
عابدہ مامی اور صفدر ماموں کچھ دیر پہلے ہی ناشتہ کر کے اپنے کمرے میں گٸے تھے،اس نے اک نظر ان کے کمرے کے بند دروازے پر ڈالی اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گٸی۔اس نے پہلے برتن دھوۓ ، پھر کچن سمیٹ کر صفاٸی کی اور آخر میں صحن دھونے کے لیے کچن سے باہر آگٸی،تب ہی مامی نے اس کو پکارا۔۔
”بیا ! او بیا۔۔۔! اِدھر آ بات سن۔۔“ پاٸپ لگاتے اس کے ہاتھ یکدم ٹھٹھک کر رک گٸے، خوف سے اس کے ماتھے پر اتنی سردی میں بھی پسینے کے قطرے نمودار ہوگٸے تھے، اس کو پتا لگ گیا تھا کہ عابدہ مامی ، صفدر ماموں کو سب بتا چکی تھیں، وہ اپنی کانپتی ٹانگوں کو آہستہ سے گھسیٹتی ہوٸی ان کے کمرے کی طرف بڑھی،
”جی مامی آپ نے مجھے بلایا۔۔؟“ اس نے دروازے میں کھڑے کھڑے کانپتی آواز میں پوچھا۔۔
”میں نے نہیں۔۔۔! تمہارے ماموں نے بلایا ہے ، اندر آٶ اور دروازہ بند کر دو۔۔“ انہوں نے اس کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔ وہ بھی سست روی سے چلتی ہوٸی اندر آٸی اور اک نظر صفدر ماموں کے چہرے کی طرف دیکھا،جو کڑے تیور کے ساتھ ماتھے پر شکنیں ڈالے پتا نہیں کس سوچ میں تھے ۔
”ماموں نے مجھے بلایا۔۔۔۔“ وہ ہلکا سا بڑبڑاٸی۔
”تم پرسوں رات عاشی کے گھر کس کی اجازت سے گٸی تھی۔۔۔؟“ انہوں نے بغیر تمہد بنادھے سیدھا سوال کیا، وہ ان کا سوال سن کر اندر سے لرز گٸی ، جس بات کا دو دن سے اس کو ڈر تھا وہی ہوا۔ ماموں کو یقیناً عابدہ مامی سب کچھ مرچ مصالحہ لگا کر بتاچکی تھیں۔اس نے اک نظر مامی کی طرف دیکھا جو ایسے لاپرواہی سے بیٹھی تھیں جیسےاس کمرے میں موجود ہی نہ ہوں۔
”میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے۔۔۔؟“ اب کے وہ تھوڑا غصے سے بولے۔
”وہ مم میں نے کک کسی کو نہیں بتایا تھا، وہ مم مامی کے کمرے میں آپی اور اسرار بھاٸی بیٹھے تھے تت تو۔۔۔۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا،
”اگر اسرار بیٹھا تھا تو وہ کونسا غیر تھا یا پہلی بار آیا تھا’ اگر بتا تم کر چلی جاتی تو۔۔۔۔۔“ وہ بات کرتے ہوۓ اک دم سے غصے میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوۓ، وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہوٸی، وہ ان کو کیسے بتاتی کہ ان کی گندی نظریں اس کو اندر تک کھاتی تھیں ، گھن آتی تھی اس کو اسرار بھاٸی۔۔
”وہ مم نے سس سوچا۔۔۔۔۔“
”بس چپ کر ۔۔! اک لفظ بھی اور مت نکالنا اپنی زبان سے، اتنی دفعہ سمجھا چکے ہیں لیکن پھر بھی تم نہیں سمجھتی’ بس اب بہت ہو گیا۔۔میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔۔“وہ اس کی بات کو بیچ میں کاٹ کر کرختگی سے بولے۔
”کیسا فیصلہ۔۔۔ ؟ صفدر ماموں کس فیصلے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔؟“ اس نے دل میں سوچا، سگے ماموں کی بے اعتباری اور بےرخی دیکھ کر اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگ گٸے تھے۔۔وہ بمشکل اپنے آنسو روکتی سر جھکا گٸی،
”کیسا فیصلہ صفدر صاحب۔۔۔؟“ کب سے خاموشی سے تماشا دیکھتی عابدہ مامی بھی چونک کر بولیں،
”بیا کو ناٸمہ کے گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے میں نے۔” انہوں نے بیا پر گویا بم پھوڑا تھا ، ان کی بات سن کر اس کی آنکھیں پٹھی کی پٹھی رہ گٸیں ۔۔جبکہ عابدہ مامی کی تو گویا دلی مراد بر آٸی تھی خوشی سے ان کی باچھیں کھل گٸیں ، ان کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا،
”سچ میں بھیج دوں بیا کو۔۔؟“ انہوں نے اپنے دل کی تسلی کے لیے دبارہ پوچھا۔
”ہاں بھیج دو۔“ انہوں نے اپنا حتمی فیصلہ سنایا،
”لل لیکن مم ماموں میری بب بات تو۔۔۔۔۔“
”اب میں نے تمہاری کوٸی بات نہیں سننی، آج کے بعد تم زرینہ اور عاشی سے بھی نہیں ملو گی اور نہ ہی وہ دونوں آٸیں گی ہمارے گھر،ان دونوں نے ہی بگاڑا ہے تمہیں۔۔“وہ اس کے بولنے سے پہلے ہی غصے سے گرجے۔ پتا نہیں مامی نے انہیں کیا بتایا تھا جو وہ اتنے غصے میں تھے اتنی بڑی تو بات نہیں تھی جتنی اب بن گٸی تھی ، اور جس کی وہ اُسے اتنی بڑی سزا دے چکے تھے جس کا اس نے تصور ہی نہیں کیا تھا،
“چلیں میں اسرار کو فون کرتی ہوں وہ آ کر لے جاۓ گا۔۔“ عابدہ مامی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔
” ٹھیک ہے کر دو کال۔۔۔۔“ وہ عابدہ مامی سے مخاطب ہوۓ، جبکہ بیا ساکت سی کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی،وہ اس کو اک ایسے شخص کے گھر بھیج رہے تھے جس کے نام سے ہی اس کو کراہت ہوتی تھی ، جس کی شکل سے اس کو گھن آتی تھی جس کو اک پل بھی وہ اپنے سامنے برداشت نہیں کر ستکی تھی۔اس کے گھر میں چند دن گزارنا کتنا کٹھن اور دشوار تھا یہ صرف وہ ہی جانتی تھی۔۔
” جاؤ یہاں سے۔۔”
”جاؤ اب یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔اور اپنا بیگ تیار کرو۔۔۔“ مامی نے بھی حکم سنایا ، اس گھر کے سب فیصلے ہی صفدر صاحب کرتے تھے، لیکن اس بار ایسا فیصلہ کرنے پر ان کو عابدہ نے مجبور کیا تھا، یہ سب ان کے دماغ میں بھرا ہوا گند تھا جو انہوں نے مرچ مصالحہ لگا کر صفدر صاحب کو سنایا اور بہانا اس کا عاشی کے گھر جانا بن گیا تھا۔
وہ خود کو گھسیٹتی ہوٸی ان کے کمرے سے باہر نکلی اس کا رخ اپنے کمرے کی طرف تھا،اس کی آنکھوں سے آنسوٶں کا سیلاب رواں تھا جو اس کے پورے چہرے کو بھگو رہا تھا،لیکن اس میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان کو صاف کر سکتی۔اس کی ساری ہمت دم توڑ گٸی تھی ،وہ کرتی بھی تو کیا، اس کے پاس اور کوٸی راستہ بھی تو نہیں تھا، اس وقت اس کو اپنے والدین کی بہت یاد آرہی تھی اگر آج وہ زندہ ہوتے تو وہ یوں بےبس نہ ہوتی اور نہ ہی ماموں اس کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرتے۔اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کو اتنی بڑی سزا ملے گی۔۔اس کے پاس ان دونوں ماں بیٹی کا ہی سہارا تھا جو آج چھن گیا تھا اس سے۔ وہ اپنے کمرے میں آ کر روتے روتے فرش پر ڈھے گٸی اور چہرے کو دونوں ہاتھوں میں چھپا کر اپنی قسمت پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ۔۔۔۔۔!
**…**…**
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...