وہ تصویر ہاتھ میں پکڑے مسلسل اس کا معائنہ کرنے میں مصروف تھی جبکہ اماں اس کو لڑکے کی نام پتے والی ڈیٹیل بتا رہیں تھی۔۔ لیکن اس کا دماغ حاضر ہوتا تو سنتی وہ تو بس تصویر کو دیکھ کر گھوم چکا تھا۔۔
اماں آپ اسے ہاں کہہ کر آئی ہیں۔ ہائے کیسا درد تھا حور کے لہجے میں۔۔
ہاں نا۔۔ پیارا ہے نا۔۔ تم ان کا گھر دیکھو حور۔۔ میں تو اتنی خوش ہوں کہ اللہ نے میری بیٹی کا نصیب اتنا اچھا بنایا ہے۔۔ وہ پھر سے راحب کی تعریف میں زمین آسمان میں قلابے ملانا شروع ہو چکی تھی
لیکن اماں یہ کچھ ڈارک ڈارک سا نہیں ہے۔۔ خلاف متوقع حور نے پہلی بار ذرا آرام سے بات کی تھی شاید ساجدہ بیگم کو قائل کرنے کا طریقہ تھا۔۔
ارے جھلی نہ ہو تو۔۔ بے وقوف مرد کی جیب دیکھی جاتی ہے شکل کو کون دیکھتا ہے۔۔ جیب اچھی ہو گی تو میری بیٹی بھی خوش رہے گی۔۔ جب خواہشات کو تم لوگوں کی میں پورا نہیں کر سکی وہ کرے گا۔۔ اتنی استطاعت رکھتا ہے وہ۔۔ اور ویسے بھی ماشاء اللہ سے وہ اتنا با اخلاق اور تمیز والا بچہ ہے کہ میں تو اس کے اخلاق پہ ہی رہ گئی۔۔ اور وہی ہاں کر آئی۔۔ اماں کے تو پاؤں ہی زمیں پہ نہ ٹک رہے تھے
اماں وہ سب تو ٹھیک ہے اماں لیکن یہ بھی تو سوچیں نہ کہ شادی کونسی روز روز ہوتی ہے۔۔ دلہا پیارا ہو گا تو زندگی سہل ہو جائے گی۔۔ میرا مطلب ہے دیکھبے لو دل کرے گا جب کبھی بندے کا موڈ خراب ہو بھی تو میرے خیال میں میاں اتنا پیارا ہونا چاہیے کہ اس کی ایک مسکراہٹ پہ بیوی کا موڈ ٹھیک ہو جائے۔۔ اب جب آگے ہی موڈ خراب ہو اور اوپر سے ایسی شکل دیکھبے کو مل جائے تو بندے کے منہ سے نا شکرانہ کلمات تو نکلے گئے نا۔۔ وہ اماں کو بہت محبت اور پیار سے قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اماں کا تو اسکی بات سن کر ہی میٹر گھوم گیا۔۔
کیا اول فول بک رہی ہے بےغیرت۔۔ آئندہ تیرے منہ سے یہ سب نہ سنوں میں۔۔ اس جمعے کو میں نے انہیں بلایا ہے۔۔ رسم کرنے کے لیے۔۔ یہ دیکھ ماں کے جڑے ہاتھ۔۔ اپنا منہ بند رکھنا۔۔ غصے سے کہتی وہ یہ جا وہ جا کیونکہ جانتی تھی اپنی اولاد کو اپنا ارشاد کسی اور کے سامنے بول دیتی تو کتنا مسئلہ ہو جاتا۔۔ اور سوچا تو اس نے پہلے بھی کبھی نہیں تھا بولتے ہوئے اب کہاں سوچنا تھا اس لیے اماں نے پہلی ہی بار میں اسکا منہ بند کروا دیا تھا۔۔
وہ جو پیار سے اماں کو قائل کرنے کی کوشش کر۔۔ رہی تھی اماں کی بات سن کر ہکا بکا ہی تو رہ گئی۔۔ اگر وہ غصے میں اٹھی تھی تو وہ ڈبل غصے سے کشن کو صوفے پہ پٹختے ہوئے اٹھی۔۔
@@@
کیا ہوا ہے۔۔ کمرے میں آتے ہی اس نے قدرے زور سے دروازہ ببد کیا جو اس کے غصے میں ہونے کا ثبوت تھا۔۔ ماہا جو اپنے ناخن تراش رہی تھی اس اچانک افتاد پہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔
یہ لے آپ کے بہادر خان۔۔ اس کی گود میں تصور پٹختی وہ بیڈ پہ آ بیٹھی۔۔
یہ کون ہے۔۔ ماہا نے ریزر کو سائڈ پہ رکھ کر تصویر کو ہاتھ میں لیا۔۔ تھوڑا بہت اندازہ تو اسے تھا لیکن حور سے پوچھ کر کنفرم کرنا چاہتی تھی۔۔
آپ کے فیوچر دلہا صاحب۔۔ طنزیہ انداز میں جواب آیا۔۔
مجھے سمجھ نہیں آتی اماں نے ایسے ہی کالے کو ڈھونڈنا تھا آپ کے لیے۔۔ حور تو غصے سے بھری بیٹھی تھی۔۔
کیا ہو گیا ہے حور۔۔ ٹھیک تو ہے۔۔ ہاں رنگ تھوڑا سانولا ہے مگر مردوں پہ تو جچتا ہے۔۔ اب آٹے جیسے مرد تھوڑی نہ اچھے لگتے ہیں۔۔ اور ویسے بھی جب مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے تو تم کیوں غصہ کر کے اپنا خون جلا رہی ہو۔ ۔ ماہا اسے سمجھاتے ہوئے تھوڑی لائٹر موڈ میں بولی
اوہو آپی آپ کا مسئلہ مجھے پتہ ہے کوئی نہیں ہے۔۔ آپ جتنی فرمانبردار اور محطت کرنے والی ہے آپ کو تو سب ہی اچھے لگتے ہیں۔۔ آپ کی بات نہیں ہے۔۔ مسئلہ میرا ہے۔۔ حور جیسے اب اصل مدعے پہ آئی۔۔
کیا مطلب میں سمجھی نہیں۔۔ ماہا کے واقع مین کچھ پلے نہیں پڑا تھا۔۔
دیکھے نا۔۔ اماں نے آپ کے لیے ایسا ڈھونڈا ہے مطلب میرے لیے بھی کوئی ایسا ہی ڈھونڈے گی اور میرے پاس بھی انکار کا کوئی جواز نہیں ہو گا۔۔ میںبھی ایسے ہی کسی کالے سے بیاہیجاؤں گی اور جو میری گوبلے گوبلے سرخ وسپید بچوں کہ خواہش ہے وہ وہی دم توڑ جائے گی۔۔ ہائے اللہ جی۔۔
ماہا کو تو پہلے حور کی بات کی سمجھ ہی نہ آئی اور جب سمجھ آئی تو کمرے میں بس ماہا کی ہنسی ہی تھی جو گونج رہی تھی۔۔ ہنس ہنا کر اسکی آنکھوں سے پانی نکل آیا تھا۔۔ وہ فطرتا ایک خاموش طبع اور کم گو لڑکی تھی مگر حور اسکی زندگی کا وہ سرمایہ تھی جو اسے ہنستے رہنے پہ مجبور کر دیتی تھی۔۔
افففف حور۔۔ کیا چیز ہو تم۔۔ اپنی ہنسی کو بشکل روکتے اس نے حور کو دیکھا۔۔
ابھی تو میری باے چل رہی ہے اور تم نے اس سے نہ صرف اپنی بلکہ آگے بچوں تک کی پلیننگ بھی سوچ لی۔۔ ہنستے ہنستے اس کی انکھوں سے پانی نکل آیا تھا۔۔
آپی ہنسیں نہیں یہ واقعی بہت سیریس مسئلہ ہے۔۔ زندگی بھر کا روگ ہے یہ۔۔ حور کی سوئی ابھی تک وہی اتکی تھی جبکہ ماہا اس کے منہ سے لفظ “روگ” سن کر دہل ہی تو گئی تھی۔۔
شش۔۔ پاگل ایسے نہیں بولتے اللہ نہ کرے تمہیں زندگی بھر کوئی روگ لگے۔۔ اللہ کرے تم ایسے ہی ہنستی مسکراتی رہو۔۔ اس کی ٹھوری کو پیار سے چھوتی اس نے اس ماتھے پہ لب رکھ کر اسے صدقے دل سے دعا دی تھی۔۔ پر یہ تو صرف قسمت جانتی تھی یا قسمت کو بنانے والا کہ اگے کیا ہونے والا ہے۔۔
@@@
صرف 8 دن رہ گئے ہیں ہماری چھٹیاں ختم ہونے میں۔۔ فائق کیلنڈر کو ہاتھ میں پکرے ایک ایک دن کاٹ رہا تھا۔۔ اور ایسٹیمٹڈ ڈے پہ اس نے برا سا
“Doomsday “
لکھ رکھا تھا۔۔ یعنی آذادی کے دن ختم اور حساب کے دن آنے والے تھے۔۔
ہاں تو۔۔ آہان کی طرف سے قدرے لاپرواہی سے جواب آیا۔۔ جب سے وہ ریستوران والا واقع ہوا تھا وہ فائق سے تھوڑا روکھا ہی بول رہا تھا۔۔
پہلی وجہ اسے لگتا تھا کہ یہ سب فائق کی وجہ سے ہوا ہے نہ وہ اس طرح اسے زبردستی اسے اس کے سامنے بھیجتا نہ وہ اس قدر شرمندہ ہوتا کہ دوبارہ اس سے نظریں بھی ملا پانے کے بھی قابل نہیں رہا۔۔
اور دوسری اہم وجہ فائق کا اسے چیلنج کہنا۔۔ بات اتنی بڑی تو نہیں تھی پر آہان لو ضرور لگی تھی۔۔ ہوتا ہے نا کبگی دل میں رہنے والے مکین اتنے خاص ہوتے ہیں کہ ان کی عزت و وقار ہی آپ کے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔۔ آہان کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا وہ حور سے محبت کرنے سے ذیادہ اسکی عزت کرتا تھا۔۔
یار کیا مسئلہ ہے تیرے ساتھ۔۔ فائق اب تنگ آ گیا تھا آہان کی بے رخی سہتے سہتے۔۔
تو سارے مسئلے جانتا ہے۔۔ ہنوز بے رخی۔۔
اچھا نا آئم سوری۔۔ اب نہیں کروں گا ایسے کبھی۔۔ لیکن تو بھی تو راضی ہو جا تب سے نخریلی بیویون کی طرح نخرء دکھا رہا ہے۔۔ اس کے گلے میں پیار سے بانہیں ڈالتا وہ اسے منانے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ آہان کے لبوں پہ مسکراہٹ آ ہی گئی تھی۔۔
اچھا اب بس۔۔ ذیادہ بن نا۔۔ مان گیا ہوں میں۔۔
شکریہ جناب۔۔ کرم ہے آپ کا۔۔ ویسے ایک بات ہے ہانی۔۔ تو نے ناراض ہو ہو کی مجھے میری متوقع بیوی کو منانے کی ہر ممکنہ ٹریننگ دے دی ہے۔۔ وہ ہنستے ہوئے اب اسے چھیڑ رہا تھا۔۔
تو واقعی کبھی نہین سدھر سکتا۔۔ اسکی کنر پہ دھپ رسید کرتا وہ اس بات سے لا علم تھا کہ جس کو وہ چاہ بیٹھا ہے وہ اس سے بھی ذیادہ بگڑی ہے۔۔
@@@
تمہیں بھی آج ہی لائبریری آنا تھا۔۔ حور کو شروع سے ہی کتابوں سے چڑ تھی وہ تو سلیبس کی کتابیں رو دھو کر پڑتی تھی اور یہ تو پھر دوسری تھی۔۔ جبکہ مشعل کو کتابیں ہی تو پڑھنے کا شوق تھا ابھی بھی وہ ایشو کروانے کے لیے اسے گھسیٹ کر لے آئی تھی۔۔
تو اچھا ہے نا میرے ذریعے ہی سہی تم بھی لائبریری کی شکل دیکھ لیتی ہو۔۔ وہ اسے تنگ کرتے ہوئے اب دونوں سڑک پار کر رہی تھی۔۔
اور وہ جو روڈ خالی دیکھ کر ذرا سپیڈ تیز کر کے فائق سے باتیں کر رہا تھا۔ ایک دم دو لڑ کیوں کے آگے آ جانے پہ اس نے فورا بریک لگائی تھی جو کہ فورا لگی نہیں تھی۔۔ نتیجتاً حور کے گٹنے پہ گاڑی اتنی زور سے تو نہین پر لگی ضرور تھی۔۔
ہائے میں مر گئی۔۔ ایک چیخ کے ساتھ وہ وہی بیٹھتی چلی ھئی۔۔ جبکہ فائق اور آہان گھبرا کر باہر نکلے تھے۔۔
میم آر یو اوکے۔۔ چونکہ حور کا چہرہ جھکا تھا اس لیے آہان اسے پہچان۔ نہ سکا۔۔
خاک اوکے۔۔ حور بولی نہین چیخی تھی اور جب پوچھنے والے کی طرف دیکھا تو وہی تھم گئی۔۔
تم۔۔۔ آہان کو آگے دیکھ کر حور کو تو سو والٹ کا شاک لگا۔۔
واہ بھئی واہ۔۔ سب سمجھ گئی۔۔ میں نے اس دن سنائی تھی تمہیں اس کا ہی بدلہ لیا نا تم نے۔۔ وہ زمین پہ بیٹھی رونے کے ساتھ اونچا اونچا بول بھی تہی تھی۔۔
نہیں نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔۔ وہ جو دوبارہ اس کو نہ دیکھنے اور نہ ملنے کا عہد کرچکا تھا قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے وہی اس کو سامنے ملی۔۔
حور اٹھنے کی کوشش کرو۔۔ مشعل اس کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
نہیں اٹھا جا رہا۔۔ لیکن وہ ہنوز بیٹھی رہی۔۔
کیا ذیادہ زور سے لگی ہے۔۔ معاملے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے فائق نے بیچ میں بولنا ضروری سمجھا ورنہ آہان کے منہ پہ تو چپ ہی لگ گئی تھی۔۔
ہاں لگی ہے تو چیخ رہی ہوں نا۔۔ پاگل تو نہیں ہوں کہ یونہی چیخوں گی۔۔
آئے ہاسپٹل چلتے ہیں۔۔ وہاں چیک کروا لیتے ہیں۔۔ آہان اٹھاؤ۔۔ فائق نے آہان کو کہنی ماری جو چپ چاپ کھڑا تھا۔۔
نہیں نہیں سر اسکی ضرورت نہیں ہے۔۔ مشعل جانتی تو نہیں تھی کہ کیا ماجرہ ہے لیکن حور کے انداز سے سمجھ گئی تھی کہ کچھ نہ کچھ انٹینس ضرور تھا۔۔
کیا مطلب کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ مجھے لگی ہے تو انکا فرض ہے کہ مجھے چیک کروائیں۔۔ حور کہاں اسے چھوڑنے والی تھی۔۔
اٹھاؤ مجھے۔۔ خاموش کھڑے آہان کو حکم صادر کرتی وہ چیخی۔۔
جبکہ بیچارہ آہان۔۔ جبکہ بیچارہ آہان شرمندگی سے منہ چھپاتا اسے پکڑنے کو آگے بڑھا۔۔ اسے احتیاط سے بازوؤں میں اٹھایا۔۔
حور نے جان بوجھ کر اسکے پکڑتے ہی اپنا سارا وزن چھوڑ دیا۔۔ آہان اس کو پکڑتے ہوئے اسکی یہ حرکت کو نوٹ کر چکا تھا۔۔ اور بے اختیار ہنسی اس کے لبوں سے نکلنے کو بے تاب ہوئی تھی۔۔ جسے اس نے بشکل روکا تھا ورنہ کوئی پتہ نہیں تھا حور اب اسکا سچ میں سر پھاڑ دیتی۔۔
اسے احتیاط سے پیچھے گاڑی میں بٹھاتا وہ اب ڈرائیورنگ سیٹ سنبھال کر گاری سٹارٹ کر چکا تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...