“کیسی ڈیل۔۔”شایان نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔ماہین کہ چہرے پر اب شیطانی مسکراہٹ رقصاں تھی۔۔
“پہلے تم وعدہ کرو غصّہ نہیں کرو گے۔”
احتیاطی تدابیر بھی لازمی تھیں۔
“اس سے پہلے کبھی غصّہ کیا ہے جو آج کروں گا۔”شایان کی محبت پر وہ تفخر سے مسکرائی تھی۔۔
تو پھر سنو!!!!وہ رازداری سے اپنے دماغ کا فتور اس کہ آگے بیان کر رہی تھی۔جبکہ اس کا آئیڈیا سن شایان کہ چہرے پر ناگواری سی چاہ گئی تھی۔۔
“یہ کیا بات ہوئی ماہی کیا تمھیں میری محبت پر شک ہے۔”لہجے میں بے یقینی سی تھی۔
“نہیں نہیں۔۔۔”ماہین نے جلدی سے اس کہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے اس کا رخ اپنی جانب کیا۔۔
“میری بات سمجھنے کی کوشش کرو اس طرح کوئی بھی تمھیں بلیم بھی نہیں کرے گا۔اور وہ جاہل لڑکی بھی تمہاری زندگی سے نکل جائے گی۔”ماہین نے شایان کہ ماتھے پر پڑے بل اپنی مخروطی انگلیوں کی مدد سے دور کرتے شاطرانہ انداز میں کہا۔۔
“پر یار وہ میری خالہ کی بیٹی ہے میں ایسے کیسے اس کا نام کسی بھی غیر شخص کہ ساتھ جوڑ سکتا ہوں۔”شایان کو اس کا یہ خرافاتی آئیڈیا خاصہ برا لگا تھا۔کسی کہ کردار پر انگلی اٹھانا کوئی چھوٹی بات تو نہیں تھی۔۔
“تو بس ٹھیک ہے۔ڈیل کہ مطابق اگر تم اس لڑکی سے جان چھوڑآنا چاہتے ہو تو اس پلین پر عمل کرو اور اگر تمہارے اندر اس اجٹ کہ لئے اتنی محبت جاگ رہی ہے تو بس ہمارا تعلق آج اور ابھی سے ختم سمجھو۔اب فیصلہ تمہارا ہے میں یا وہ جاہل۔تم کس کا انتخاب کرتے ہو۔”ماہین نے اس کہ ارادے کمزور پڑتے دیکھ۔پھر سے غصّے اور ناگواری سے اپنی شرط رکھی۔۔
“تم صرف میری ہو۔تمہاری شادی صرف مجھ سے ہوگی یہ بات اپنے ذہن میں رکھنا۔مجھ سے دوری کا خیال بھی اپنے ذہن سے نکال دو۔”شایان نے اس کی براؤن آنکھوں میں اپنی کرسٹل گرے آنکھیں گاڑ کر باوار کروایا تو وہ ایک ادا سے مسکرا اٹھی۔۔
“تو پھر کیا سوچا تم نے۔۔”ذرا پیچھے ہٹ کر سنجیدگی سے پوچھا۔۔
“وہ میری خالہ کی بیٹی ہے میں اس کہ نام کسی غیر شخص کہ ساتھ جوڑ کر اس پر جھوٹا الزام لگا کر طلاق نہیں دے سکتا۔”شایان نے گاڑی سٹارٹ کرتے متوازن لہجے میں کہا۔۔
“تو پھر۔۔”ماہی نے بالوں میں کیچر لگا کر غصّہ سے پوچھا۔۔
“پھر یہ ملکہ عالیہ کہ ابھی ہم اچھے سے لنچ پر جا رہے ہیں۔پھر موی دیکھیں گے۔اور پلیز اب یہ سمبل نامے کو بند کر دو۔میں آج کا اپنا سارا وقت تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔۔”شایان کی گاڑی بل کھاتی سڑک پر تیزی سے ڈورتی چلی جا رہی تھی۔ایک مسکراتی نظر اس کہ حسین چہرے پر ڈال کر خوشگوار لہجے میں کہا۔جبکہ ماہین نے سرجھٹک کر اپنے بال چہرے پر سے پیچھے کرتے خاموشی میں ہی عافيت جانی۔۔
__________________
“سمبل ہمارا بچہ کہاں ہو تم۔۔”خاجستہ جہاں نیچے کھڑی ہی اسے آوازیں دے رہی تھیں۔
“ہاں ہاں امو یہ رہی۔بولیں کیا ہوا۔۔”سمبل نے کمرے سے ہی آواز لگ کر اپنی ماں کی جانب ڈور لگائی۔۔
“بچہ تم تیار ہو جاؤ۔آپا جان آرہی ہیں تمھیں لے جانے شادی کی شاپنگ کرنے جانا ہے نا۔۔” انہوں نے نرمی سے اس کہ بال سنوار کر مطلع کیا۔
“سچ میں امو۔۔”سمبل نے خوشی سے پوچھا۔
“بلکل سچ بچہ ۔بس جلدی سے تیار ہو جاؤ اور سب کچھ اپنی خالہ کی مرضی کا لینا ٹھیک ہے۔”اس کہ من موہنی سی صورت سے نظر لگ جانے کہ خدشے کہ تحت نظریں چرا کر کہتے ہدایات کیں۔۔
آپ بھی چلیں نا امو۔”سمبل نے ان کہ گلے میں پیار سے باہیں ڈالیں۔
“آپا جان بھی یہی کہ رہی تھیں۔پر میرا بچہ مجھ بڑھی کی ہڈیوں میں کہا اتنی جان ہے کہ بازاروں کی خاک چھان سکوں۔۔”انہوں نے پیار سے اس کا گال تهپتھپا کر اس کہ اچھے نصیب کی دعا کی۔۔
“چلیں کوئی بات نہیں میں خالہ جانی کہ ساتھ چلی جاؤ گی۔آپ اپنا خیال رکھیے گا۔”سمبل نے محبت سے انہیں کاندھو سے پکڑ کر سوفے بیٹھایا۔۔
“اچھا دادی صاحبہ۔جاؤ بچہ جلدی سے بھاگو تم۔تمہاری خالہ بس آتی ہونگی۔ جانے کہ لئے کوئی اچھے سے کپڑے نہیں نکالنے کیا۔۔”ان کہ کہنے پر ایک دم یاد انے پر سمبل سر پر ہاتھ مارتی مسکرا کر بھاگی۔
پیچھے وہ اس کی جلد بازی پر مسکرا کر نفی میں سر ہلآتیں رہ گئیں۔۔
___________________
“سمبل میری جان تمھیں جو اچھا لگتا ہے وہ لے لو۔۔”خان بیگم اسے کتنےہی برائیڈل لہنگے دکھا چکی تھیں۔جس کا بس ایک ہی جواب تھا جو آپ کو اچھا لگے خالہ وہ لے لیں۔
“خالہ آپ بتائیں کونسا لوں۔میں وہی لے لونگی۔۔”سمبل نے ان کہ آگے بلڈ ریڈ کلر کہ پڑے شراروں کی جانب دیکھ کر کہا۔
“پہنا تمھیں ہے تم بتاؤ کونسا لینا ہے.ام خانم کو کیوں تنگ کر رہی ہو۔۔”ابھی وہ دونوں کسی ایک ڈریس کے انتخاب میں ہی الجھی ہوئی تھیں کہ پیچھے سے ایک سرد آواز نمو دار ہوئی۔سمبل تو اتنی سخت آواز پر ڈر کر اچھل ہی پڑی تھی۔
“ارے شایان بچے آپ یہاں کیسے میرا بیٹا۔۔”خان بیگم نے اپنے بیٹا کا ماتھا چوم کر کہا جس کی نظریں سمبل کہ ہی چہرے پر تھیں۔جو خان بیگم کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
“آج سنڈے تھا یونیورسٹی سے چھٹی بھی تھی تو سوچا آج کچھ شاپنگ ہی کرلی جائے۔بس اسی غرض سے اپنے دوست کہ ساتھ مال آیا تھا۔کہ مجھے آپ اور یہ میڈم شرارے کہ لئے تكرار کرتی نظر آئیں تو میں آپ کی جانب اگیا۔۔”شایان نے سمبل کہ برابر میں خالی رکھی چیئر سمبھال کر کہا۔جو جھجھک کر سمٹ کر بیٹھ گئی تھی۔شایان استہزایہ مسکرا کر تھوڑا فاصلہ پر ہو کر بیٹھ گیا تھا۔۔
چلو یہ بھی اچھا ہوا۔اب تمھیں ہی بتاؤ تمہاری بیوی کہ لئے کونسا جوڑا لوں۔کیوں کہ یہ تو اپنی مرضی بتا ہی نہیں رہی ہے۔اب تم ہی پوچھو اس سے ۔”خان بیگم کو اس طرح ہاتھ جھاڑ کر ایک طرف ہوتا دیکھ سمبل ہڑبڑا ہی گئی تھی۔جو پہلے ہی اس کہ سر پر سوار تھا۔اب گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی۔۔
“اپنی پسند کیوں نہیں بتا رہی ام کو تم۔جلدی بتاؤ ان میں اتنی جان نہیں ہے کہ تمھیں لیکر مختلف دکانوں کی خاک چھانتی پھیریں۔”شایان نے ماتھے پر بل ڈال کر اس کہ چادر کہ حالے میں دمکتا چہرہ دیکھ گھور کر کہا۔جو شرمندہ سی ہوگئی تھی۔
“میرا بیٹا میری بچی کو مت ڈانٹو۔وہ بیچاری تو میری ہی پسند کو فوقیت دے رہی تھی۔”خان بیگم نے سمبل کا اترا چہرہ دیکھ فوراً سائیڈ لی۔۔
“اچھا چلو سب چھوڑو۔اپنی دلہن کہ لئے تم خود شادی کا جوڑا پسند کر لو۔”خان بیگم نے سمبل کو دیکھ دهیمے سے مسکرا کر کہا۔تو شایان نے اس ڈرامے باز لڑکی کو دیکھ ناگواری سے سر جھٹکا۔۔۔
“یہ والا دیکھیں یہ سہی ہے۔یہ والا پیک کر دیں آپ۔”انہی میں سے ایک خوبصورت سا لال رنگ کا شارٹ شرٹ کہ ساتھ مکمل نگ موتیوں کہ کام سے مزین گھیردار شرارے کا انتخاب کرتے فوری پیک کرنے کا حکم دیا۔
شاپ کیپر کو پیمنٹ کر کہ محض پندرہ منٹ میں ان دونوں کہ ہمرا وہ شاپ سے باہر تھا۔خان بیگم تو اس کی اتنی جلد بازی پر اسے ناراض نظروں سے گھور رہی تھیں۔۔
“چلیں ماں جان مجھے اجازت دیں۔میرا دوست میرا انتظار کر رہا ہے۔آپ دونوں شاپنگ کر کہ شام سے پہلے نکل حویلی لوٹ جائیے گا۔۔۔اور تم زیادہ نخرے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔جلد از جلد اپنی شادی کی شاپنگ مکمل کرو اور گھر کو واپسی کی روانگی پکڑو۔مجھے رات دیر تک بازاروں کی خاک چھانے والی لڑکیاں ہر گز بھی پسند نہیں ہیں۔۔”تواتر سے بجتے موبائل کو سآئلینٹ پر کر کہ خان بیگم سے اجازت لیتا سمبل کی جانب گھوم کر سرد لہجے میں بولا۔۔
جبکہ سمبل تو اس کہ اس قدر سخت انداز پر صرف شکل ہی تکتی رہ گئی تھی۔آج سے پہلے کبھی اس نے اس انداز میں بات نہیں کی تھی۔۔
“سمجھ گئیں۔۔”خان بیگم کو ایک جیولری کہ سٹول کی جانب بڑھتا دیکھ حوانک بنی کھڑی سمبل کہ آگے شہادت کی انگلی اور انگھوٹے کو مس کرتا اسے ہوش میں لایا۔۔
“جی۔۔جی۔۔”سمبل نے ہڑبڑا کر حامی بھری۔۔
“جاؤ اماں کے پاس۔”سمبل نے فوری حکم کی تکمیل کی جبکہ وہ ایک سرد سانس خارش کرتا۔ماہین کی جانب بڑھا جو مسلسل کال پر کال کئے جا رہی تھی۔۔
__________
“ڈونٹ ٹیل می شایان!! تم اس جاہل سے شادی کر رہے ہو جس کہ اندر ڈریسنگ سینس نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔”وہ دونوں اس وقت فوڈ کورٹ میں بیٹھے ہوۓ تھے جب ماہین نے سمبل کی ذات کو نشانہ بنا کر طنز کیا۔
“پلیز ماہی!!!اسٹاپ ڈس نانسینس یار۔۔میں تنگ اگیا ہوں اتنی دیر سے تمہارے منہ سے یہ سمبل نامہ سن سن کر۔”شایان نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر دھر کر جھنجھلا کر کہا۔۔
اتنا ہائپر کیوں ہو رہے ہو شایان میں تو بس ویسے ہی کہ رہی تھی۔کتنی گوار ہے وہ لڑکی ذرا سوچو وہ جاہل کیسے تمہارے ساتھ سوسائٹی میں موو کرے گی۔جو خود کو ہر وقت چار گز کی چادر میں لپیٹ کر رکھتی ہے۔۔”ماہین نےاس کہ غصّہ کو بغیر کسی خاطر میں لاۓ ہلکا سا قہقاہ لگا کر کہا۔۔
آنف از انف!!!آئی تھنک وی شڈ ٹو لیو ہیر۔۔”شایان اس کہ بہودا سے تبصرے پر ماتھے پر بال ڈال کر غرآیا۔
“اوکے اوکے!!!سوری سوری۔۔اب بس ہم اپنی بات کریں گے۔اس کہ ماتھے پر پڑے بالوں میں اضافہ ہوتا دیکھ ہاتھ اٹھا کر معذرت کی۔جو کرسٹل گرے آنکھوں میں شدید قسم کی ناگواری لئے بظاہر اسے دیکھ رہا تھا۔جبکہ دماغ سمبل اور ماہین کا موازنہ کرنے میں الجھا ہوا تھا۔۔
“اچھا تم بتاو!!ہماری شادی پر تم مجھے کہاں سے شاپنگ کرواؤ گئے؟؟میں تمھیں پہلے ہی بتا رہی ہوں شایان میں ہماری شادی کا جوڑا انڈین ڈیزائنر کا بنواؤگی۔اور باقی کی شاپنگ ہم دبئی سے کریں گے۔۔”ماہین پتہ نہیں کیا کیا بولے جا رہی تھی۔جبکہ شایان کی نظریں اس کہ نیم برہنا بازؤں پر تھیں۔ارد گرد بیٹھے کتنے ہی لوگوں کی نظریں اس پر ٹکی ہوئیں تھیں۔جس پر وہ ناگواری سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“کیا ہوا۔۔”ماہین بھی اسے یوں اچانک کھڑا ہوتا دیکھ اٹھ کھڑی ہوئی۔
“چلو یہاں سے۔۔”شایان اس کاہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا لے گیا۔
شایان اس کا ہاتھ پکڑے گھسیٹتا ہوا لیجا رہا تھا۔جبکہ ماہی بامشکل اس کہ ساتھ قدم ملآتی اس کہ غصّہ کی وجہ سمجھنے کی کوشش میں تھیں۔۔
_______________
آج خان حویلی میں جشن کا سا سماں تھا۔۔ایک مہینہ پر لگا کر اڑ گیا تھا۔چاروں اور خوشياں ہی خوشياں بھکری ہوئی تھیں۔۔
آج سے شادی کی تقاریب کا آغاز ہونے والاتھا۔۔
کاٹن کہ کڑکڑاتے ہوۓ سفید رنگ کہ شلوار قمیض پر پاؤں میں کھیڑی پہنے شایان ماتھے پر تیوری چڑھاۓ تمام انتظامات دیکھ رہا تھا۔۔
کل مایوں والے دن ہی شایان اور سمبل کا نکاح طے پایا تھا۔سمبل کو خان بیگم ہفتہ بھر پہلے ہی خان حویلی لے آئی تھیں۔شادی اور ولیمہ دونوں ہی حویلی سے ہونا طے پایا تھا۔۔خان بیگم جانتی تھیں انکی بہن ان کہ حویلی کہ طور طریقے نہیں نبھا پائیں گی۔اسی لئے اسفند یار نے سمبل کو اپنی بہن کی طرح حویلی سے رخصت کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔جس پر خاجستہ جہاں تھوڑی سی بحث کہ بعد مان ہی گئیں تھیں۔۔
“شایان بچہ دو دن بعد تمہاری شادی ہے۔تم کن کاموں میں الجھے ہوۓ ہو۔یہ سب ملازمین پر چھوڑ دو یہ سب سمبھال لیں گے۔تم آرام کرو۔”آغا بھائی نے اسے سجاوٹ کہ لئے آۓ لوگوں سے الجھتا دیکھ کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔
“جی بس میں انہیں کچھ ضروری ہدایات کر رہا تھا۔۔”شایان نے انداز میں نرمی سمو کر کہا۔سرخ و سفید رنگت سورج کی تپش سے تمتمار سی رہی تھی۔۔
“چلو آجاؤ۔ام خانم تمھیں یاد کر رہی ہیں۔”ابھی قدم داخلی دروازے کی جانب بڑھاۓ ہی تھے کہ شایان کا موبائل بج اٹھا۔۔
“چلو تم کال سن کر آجاؤ۔”اسے حکم دیتے آغا جان حویلی کہ اندرونی حصّہ کی جانب بڑھ گئے۔
شایان اثبات میں سر ہلاتا وہاں سے قدم اٹھاتا ذرا خاموشی والے حصّہ کی جانب اگیا۔۔
ہیلو!!!
_________________
“اسفند بیٹا۔شایان کو دیکھا ہے آپ نے۔”خاجستہ جہاں نے حویلی میں داخل ہوتے اسفند سے شایان کہ متعلق پوچھا۔۔
“جی خالہ وہ باہر ہی ایک کال سنیں کی غرض سے رک گیا تھا۔کوئی کام تھا آپ کو۔”اسفند یار نے اس کی بابت اطلاح دیتے دریافت کیا۔
شکریہ بیٹا!!بس مجھے نکاح سے پہلے اس سے کچھ ضروری باتیں کرنی تھیں۔چلو اچھا ہی ہے باہر سکون سے کر لونگی۔”انہوں نے بھانجے کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتے قدم باہر کی جانب بڑھاۓ.تو وہ بھی سمجھ کر سر ہلاتے آگے بڑھ گئے تھے۔۔
______________
“یار یہ کیا پگل پن ہے ماہین۔تم سے کچھ بھی تو چھپا ہوا نہیں ہے سب جانتی ہو تم۔پھر ان سب باتوں کا فائدہ۔۔” شایان خانزادہ نے ماتھے پر بل ڈالے جھنجھلا کر کہا۔جو دوسری جانب مسلسل رو رہی تھی۔۔
“شایان مجھ سے نہیں برداشت ہو رہا۔میں مر جاؤ گی شایان تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اسے اسی مہینے چھوڑدو گے۔”ماہین کہ ڈرامے عروج پر تھے۔۔
“ماہی ماہی ماہی!!!!پلیز یار میری پوزیشن تو سمجھو تم۔۔”اس نے اسے قائل کرنا چاہا۔۔۔
“نہیں پہلے تم وعدہ کرو۔ورنہ میں ابھی اپنی نس کاٹ کر اپنی جان لے لونگی۔”ماہین نے چیخ کر تیز آواز میں کہا تو وہ بھی بھوکلا سا گیا۔۔
“اچھا اچھا!!میری بات سنو میرا وعدہ ہے تم سے میں جلد ہی سمبل کو چھوڑ دوں گا۔اور پھر تم سے ہی شادی کروں گا۔وعدہ۔۔”شایان کہ ادا ہوتے لفظ سن جہاں دوسری جانب ماہین کہ اندر سکون کی لہر ڈور گئی تھی وہیں شایان کہ پیچھے کھڑا وجود دھم سے زمین بوس ہوا تھا۔۔
شایان چونک کر موڑا تھا۔۔زمین پر گری خاجستہ کو دیکھ شایان کی آنکھیں ابل آئی تھیں۔۔
خالہ خالہ جانی۔۔کیا ہوا آپ کو۔۔شایان کی چیخ پر حویلی میں بھگدڈر سی مچ گئی تھی۔۔
___________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...