“کل میں سب کچھ بتادوں گا حیا کو کہ میں اسکو کتنا چاہتا ہوں میں اسکو بتادوں گا میری محبت اب انتہا پر پہنچ رہی ہے جو مجھے تڑپا رہی ہے میں اسکی زندگی خوشیوں سے بھر دینا چاہتا ہوں میں اسکو پل پل سکون خوشی پیار دینا چاہتا ہوں مجھ سے اسکی آنکھوں کی ویرانیاں خاموشیاں اور آنسو نہیں دیکھے جاتے۔۔۔” عثمان سب کچھ سوچ کے سورہا تھا جو اسکو کل صبح حیا کو بولنا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ بعض اوقات قسمت بھی گردش میں ہوتی ہے
_________________________________________
ہادیہ ناشتہ کرنے کے بعد اپنے بیڈ روم میں آئی آج اس نے حیا سے معافی مانگنے کا فیصلہ کر لیا تھا اسکو حیا کے ساتھ کیا گیا اپنے غلط سلوک کا اندازہ ہوگیا تھا وہ سمجھ گئی تھی کہ حیا اس سے دور ہوتی جارہی ہے کیوں؟؟ اسکی وجہ بھی وہ جان گئی تھی حیا کو کال کرنے کیلئے اس نے اپنا موبائل اٹھایا وہاں حیا کا میسج آیا ہوا
“واہ بھئی بڑے دنوں بعد میسج کیا؟” وہ سوچتے ہوئے مسکرا کر انبوکس کھولنے لگی اور جیسے جیسے میسج پڑھتی گئی اسکے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی گئی
“پھر ڈھونڈوگی جب کھودوگی
اور آخر رودوگی
تم۔کبھی نہ جسکو بھر پاؤ
میں ایسا خسارہ ہوجاوں گی
زبرستی کی دوستی سے بہتر ہے صاف دل کے ساتھ رخصت ہوجاوں۔۔ ہادیہ اکیس سالہ زندگی میں تم نے میرا بہت ساتھ دیا مجھے بہت پیار کیا ہر دکھ ہر سکھ میں تم میری ساتھی بنی لیکن افسوس بائیسویں سال جب جب تمہاری ضرورت پڑی تم مجھ سے دور رہی تم نے میرا مان نہیں رکھا تم نے منزہ کو اپنا دوست بنایا ہاں بنانا بھی چاہیئے تھا آخر کب تک تم ایک بے سہارا دکھوں سے بندی لڑکی کا ساتھ دیتی جسکے پاس دکھوں کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں جسکے دکھ سن سن کر تمہارے کان پک گئے ہونگے لیکن اب بے فکر رہو میں یہاں سے اس گھر اس شہر۔اس ملک سے جارہی ہوں بہت دور۔۔بہت دور۔۔۔تم مجھے ڈھونڈو گی پر میں کبھی نہیں ملوں گی میں ک
لاسٹ ٹائم تمہیں میسج کر رہی ہوں اسکے بعد یہ موبائل بھی پھینک دوں گی زنیرہ اور شہیرہ کا موبائل بھی اب انکے پاس نہیں میں اپنا ہر رابطہ بلکہ ہر رابطہ کا راستہ بھی بند کر کے جارہی ہوں تم میری بہت اچھی دوست تھی ہادیہ تمہاری دوستی پر مجھے فخر تھا میں تمہارے ساتھ سر اٹھا کر چلتی تھی پر تم نے ایسا کیوں کیا کیوں؟؟؟ اسکا جواب شاید تمہارے پاس بھی نہ ہو آج میں تمہیں بتاتی ہوں میں نے تمہیں منزہ سے بات کرنے سے کیوں روکا تھا میں نے اسکی آنکھوں میں تمہارے لئے چاہت دیکھ لی تھی پر تم اس سے بے خبر رہی۔میں جان گئی تھی وہ تمہیں مجھ سے چھین لیگی میں نے بہت مان سے تمہیں منع کیا ہر۔تم میرا مان توڑا میں نے پھر بھروسہ کیا تم۔نے پھر توڑا آخرکار میرا دل ٹوٹتے ٹوٹتے کرچی کرچی ہوگیا اب میں میں نہیں رہی اب مجھ میں صرف ایک جسم اور ایک احساسات سے عاری روح ہے میں نے تنہائی میں تمہیں بہت پکارا جب تایا نے مجھ پر الزام لگایا مجھے لگا تم آوگی اور ان سے میرے لئے لڑوگی جیسے پہلے لڑتی تھی پر افسوس میری آنکھیں بند ہوگئیں پر تم نہ آئی جب میں کمرے میں اکیلے بیٹھی رو رہی ہوتی تو مجھے لگتا ابھی تم آوگی مجھے گلے لگاؤ گی مجھے پیار سے مناوگی جیسے پہلے مناتی تھی پر میرے آنسو بہ بہ کر خشک ہوگئی تم نہیں آئی تم مجھے ہاسپٹل دیکھنے آئی میں بہت خوش تھی پر ہادیہ ایک گھنٹہ بعد جن منزہ تمہیں لینے آئی اور تم چلی گئی تو مجھے اپنا آپ بہت اجنبی لگنے لگا تب ہی میں نے یہ فیصلہ کیا مجھے تم دونوں کے بیچ سے نکل جانا چاہیئے سو اب میں جارہی ہوں زندگی میں تم بہت یاد آوگی پر بے فکر رہو کبھی تمہاری زندگی میں نہیں آونگی اور ہاں آخری بات تم مجھے کہتی تھی میں کبھی کبھی تمہارے ساتھ ایسا ریئیکٹ کرجاتی ہوں جیسے میں تمہاری بیوی ہوں کبھی کبھی میں ایسے جیلس ہوتی ہوں جیسے
ایک بیوی ہوتی ہے ہادیہ بتاوں کیون میں ایسا کرتی تھی کیونکہ میں تمہیں دل سے چا ہتی ہوں ضروری نہیں محبت ایک لڑکا لڑکی میں ہو بعض اوقات دوستوں میں محبت بھی ان سے آگے نکل جاتی ہے اور مجھے تم سے بہت شدت سے محبت تھی اور جیلس وہاں ہی ہوا جاتا ہے جہاں محبت ہو اسکیلئے میاں بیوی کا ہونا ضروری نہیں محبت کا ہونا ضروری ہے جو مجھے تم سے تھی۔۔ہے۔۔اور ہمیشہ رہیگی تم نے ایک دفعہ مجھے کہا تھا کہ میں ہر وقت تمہیں اپنے اشاروں پر چلانا چاہتی ہوں جیسے تم کوئی روبوٹ ہو ۔۔نہیں!! ہادیہ ایسی بات نہیں تھی میں صرف اپنا مان رکھنا چاہتی تھی میں تو صرف اپنی اس بات سے فخر کرتی تھی کہ تمہارے نزدیک میں کتنی اہم ہوں کہ تمہیں وہ بات بری لگے جو مجھے بری لگتی ہے ہر وہ بات خوش کرے جو مجھے کرتی ہے ہر تم نے اسکو روبوٹ کا نام دے دیا میں تو صرف تمہارا اور اپنا دل ایک کرنا چاہتی تھی اب تمہاری زندگی اپنی زندگی ہے تم اپنی مرضی سے جیو اب کوئی روک ٹوک نہیں کریگا لیکن افسوس اب میں تمہاری زندگی میں نہیں آونگی تمہاری زنگی برباد نہیں کرونگی اپنا خیال رکھنا
حیا”
“حیا پلیز مجھے مت چھوڑو میں اب نہیں جاونگی تم سے دور پلیز حیا” ہادیہ کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا پر اس نے احساس کرنے میں کافی دیر کردی تھی اسکی آنکھوں کے سامنے حیا اور ہادیہ ہادیہ اور حیا کی دوستی۔۔۔محبت ایک دوسرے کو چھیڑنا۔۔۔منانا۔۔۔باتیں کرنا۔۔۔مستیاں کرنا۔۔۔سب کچھ گھوم رہا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے حیا کا مسکراتا چہرہ گھوم رہا تھا پر اب وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی اب اسکے پاس پچھتانے کے علاوہ کچھ نہیں تھا
“حیا صرف ایک سال دور رہی ہوں اکیس سالہ تو ساتھ رہی نا تم نے وہ سب یاد کیوں نہ رکھا” وہ رو رہی تھی پر بھول گئی تھی کہ بے اعتنائی کی مدت کم کیوں نہ ہو پر وہ محبت اور پیار کی مدت سے زیادہ محسوس ہوتی ہے کیونکہ دل کو تکلیف ہوتی ایک بار دل میں دڑاڑ آجائے تو کبھی نہیں جاتی
_________________________________________
آج عثمان نے سب کچھ کہ دینے کا فیصلہ کیا تھا اسی سوچ کہ ساتھ وہ گھر سے نکلا تھا لیکن آفس پہنچ کر۔پتہ چلا کہ حیا نہیں آئی اس نے ہادیہ کو کال کی
“ہیلو” ہادیہ کی آندھی آواز عثمان کی سماعت سے ٹکرائی
“ہاں سنو ہادیہ تم رو رہی ہو کیا؟” عثمان چونکتے ہوئے بولا
“نہیں تو” ہادیہ نے کہا
“جھوٹ مت بولو چلو بھائی کو بتاؤ کیا ہوا ہے” عثمان بہت مان سے بولا
“بھائی۔۔(سسکی) حیا چلے گئی مجھے چھوڑ کر” عثمان کا سر گھومنے لگا
“کیا کہ رہی ہو کہاں چلی گئی؟” عثمان نا سمجھی سے بولا جوابا حیا نے ساری بات بتادی جسکو سن کر عثمان شاک رہ گیا اور مال کاٹ دی
“آپ یہ کیا کردیا حیا آج تو اپنا دل کھولنا تھا میں نے کہاں چلی گئی ہو کہاں ڈھونڈوں تمہیں حیا کیوں چلی گئی” وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور دو آنسو کے قطرے اسکے گال بھگو گئے
عثمان کا سوچ سوچ کے دماغ سن ہونے لگا تھا اسی وجہ سے وہ گھر جلدی آگیا
“کیا ہوا مانی؟” بابا آج گھر پر ہی تھے اسکو اتنا جلدی آتا دیکھ کر پریشان ہوگئے
“کچھ نہیں” وہ کہتا ہوا تیزی سے اپنے روم کی طرف چل دیا جبکہ بابا حیران تھے وہ بھی اسکے پیچھے چل دیئے اور بنا ناک کئے اسکے کمرے میں آئے اور اندر آکر ششدہ رہ گئے عثمان بنا جوتے اتارے ایسے ہی اوندھے منہ بستر پر لیٹا ہوا تھا
“عثمان” بابا اسکے قریب گئے اور کندھوں پر ہاتھ رکھا عثمان ایسے ہی بے سود پڑا رہا
“عثمان میں پریشان ہورہا ہوں بتاؤ تو سہی کیا ہوا ہے؟” بابا سے اپنے لاڈلے بیٹے کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی
“میں ٹھیک ہوں بابا آپ جائیں” لیٹے لیٹے ہی جواب دیا بابا نے اسکے کندھوں سے پکڑ کر اسکو اٹھایا تو عثمان بچوں کی طرح انکی گود میں لیٹ گیا
“وہ چلی گئی بابا” عثمان رندھی آواز میں بولا
“کون چلی گئی کہاں چلی گئی؟” بابا نا سمجھی سے بولے
“وہی جس سے مجھے عشق ہوگیا وہی جس نے میری راتوں کی نیندیں اڑائیں بابا اس نے ایسا کیوں کیا؟؟؟میں کیسے رہوں گا میں نے تو اسے اپنی زندگی سمجھ لیا تھا۔۔۔۔” عثمان بابا کو ساری بات بتاتے ہوئے بے بسی سے رو پڑا بابا نے دکھ سے لب بھینچ لئے
_________________________________________
“بھئی شائستہ جلدی ناشتہ لے آؤ” تائی ڈائیننگ ٹیبل پر آتے ہوئے بولیں
“وہ بی بی صاحبہ شائستہ باجی تو نہیں ہیں” اندر سے خانسماں آتے ہوئے بولی اسکی بات پر سب چونک کر اسکو دیکھنے لگے
“کیا مطلب کہاں گئی ہے؟” تایا سختی سے بولے
“پتہ نہیں انکا کمرہ بھی خالی ہے اور انکی چاروں بچیاں بھی غائب ہیں” خانسماں کے بتانے پر تایا اور تائی حیران رہ گئے تب سمرہ اٹھ کر حیا کے کمرے میں گئی اسکا گمان ٹھیک تھا حیا ایک پرچی چھوڑ کر گئی تھی
“تایا تائی آپ لوگوں کے احسان کا بہت بہت شکریہ ہم جا رہے ہیں یہاں سے بہت دور بہت دور اب کبھی نہ واپس آنے کیلئے لیکن ایک بات یاد رکھے گا میری اور میری ماں کی آہ آپ لوگوں کو ضرور لگے گی” سمرہ پرچہ دیکھ کر اسی کے بیڈ پر بیٹھ گئی کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ واپس ڈائیننگ ٹیبل پر آئی اور خاموشی سے پرچہ تایا کے حوالہ کردیا جسکو پڑھ کر تایا کے لبوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی
“چلو بھئ چلے گئے وہ سب” وہ مسکراتے ہوئے بولے جسپر حسن سمرہ اور دادا نے بہت دکھ سے انکو دیکھا
“یہ مت بھولو وہ آخری سطر کیا لکھ کر گئی ہے اور مظلوم کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا” دادا انکی بے حسی دیکھ کر کٹ کر رہ گئے
“ارے بابا چھوڑیں بھی جو خود اتنی بدکار ہو اسکی بد دعا کہاں قبول ہونی ہے” تایا ناشتہ شروع کرتے ہوئے بولے جو خانسماں لگا رہی تھی
“بابا بس کردیں کچھ تو خدا کا خوف کریں آپ ایک معصوم لڑکی پر الزام لگا رہے ہیں” حسن ضبط کرتے ہوئے غصے سے بول پڑا
“تم۔چپ رہو زیادہ ہمدردیاں مت دکھاؤ” تایا اسکو ڈانٹتے ہوئے بولے جسپر حسن غصے سے ناشتہ چھوڑ کر تیزی سے پورچ کی جانب چل دیا اور سمرہ بھی اپنے کمرے میں آگئی اور یوں ان سب کے جانے بعد بھی ایک بار پھر ناشتہ کی ٹیبل بنا کچھ کھائے خالی ہوگئی
_________________________________________
ہادیہ پارک میں بیٹھی تھی صبح سے اب تین بجنے کو آئے تھے اسکو اپنا ہوش نہیں تھا نہ اس نے کچھ کھایا پیا تھا اسکو حیا کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ یاد آرہا تھا رو رو کر اسکی آنکھیں سوجھ گئیں تھیں
“حیا تم ناراض ہوجاتی میں تمہیں منا لیتی کم از کم منانے کا راستہ تو ہوتا تم تو سب کچھ ختم کر کے چلی گئی حیا کس کے پاس جاؤں کس سے تمہارا پوچھوں حیا” وہ اپنے ہاتھوں سے چہرہ چھپا کر رو دی اور گھاس پر اپنی نظریں جمائے ماضی میں چلی گئی
“یار میں سوچ رہی تھی کہ کب وہ دن آئیگا جب میں پاکستان سے باہر جاؤنگی عیش کرونگی یار ہم دونوں ساتھ چلیں گے مزے کریں گے” حیا چہکتے ہوئے بول رہی تھی
“یار ویسے تم نا بڑی بد تمیز ہو تم نے خود تو کل رات کو آئسکریم کھالی اور مجھ پر پابندی لگادی اور میں ٹہری صدا کی معصوم لڑکی تمہارے کہنے پر کھائی بھی نہیں ذرا میری محبت تو چیک کرو” وہ ہنستے ہوئے اسکے کندھے سے لگ گئی اور اسکے ہاتھ میں پکڑا جوش گرادیا
“حیا کی بچی الو اتنی پیاس لگ رہی تھی مجھے” ہادیہ ایک دم چیختے ہوئے بولی
“تمہیں تھوڑا بھی مجھ پر ترس آتا تو اپنے لئے جوس نہ لیتی میرا گلا خراب ہے آئسکریم کے ٹائم تو چلو تم اکیلی تھی تو کھا لی اب کیا جوس بھی میں تمہیں پینے دوں ایسا بھلا کہاں ہوسکتا ہے” وہ ہنستے ہوئے بولی جسپر ہادیہ نے مصنوعی غصے سے دیکھا
“اففف حیا کی بچی بہت بولتی ہو تم” ہادیہ اسکے سر پر ایک چپت لگاتے ہوئے بولی
“بیٹا جس دن خاموش ہوگئی نا بہت پچھتاوگی” حیا مسکراتے ہوئے بولی اور آج اسکا کہا سچ ہوگیا
“تم نے کہا تھا ہم دونوں ایک ساتھ جائیں گے حیا تم تو اکیلی چلی گئی حیا آئی مس یو سو مچ” اب اسکا ضبط جواب دے گیا تھا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی
آس پاس کے لوگ اسکو بڑی ترس کھاتی نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن اسکو اپنا ہوش ہی کہاں تھا
“میں تمہیں ڈھونڈ کر رہوں گی حیا” وہ ایک عزم کرتے ہوئے کچھ سوچنے لگی
_________________________________________
“حیا بیٹا ہم گھر کہاں سے لینگے اور کمائیں گے کیسے؟” ہوٹل میں ایک دن ریسٹ کرنے کے بعد اب شائستہ کو مستقبل کی فکر سوار تھی
“میں کوئی جاب ڈھونڈ لوں گی اور گھر کیلئے بھی دیکھ لوں گی آپ فکر نہیں کریں میں ذرا باہر سے آتی ہوں” حیا دوپٹہ لیکر باہر آگئی چلتے چلتے وہ ایک پارک کی طرف آگئی اور بچوں کو کھیلتا دیکھ کر مسکرانے لگی وہ وہیں بینچ پر بیٹھ گئی اور جاب کے بارے میں سوچنے لگی
“ضروری نہیں کہ کسی آفس میں جاب ملے میں کسی شاپ پر بھی تو جاسکتی ہوں” ایک دم کی سوچ پر وہ کھل اٹھی اور آس پاس شاپس دیکھتی جارہی تھی ایک کافی شاپ پر آکر رکی اور اندر جانے کا سوچا وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اندر آئی اور آفس کا پتہ پوچھ کر آفس آئی جہاں ایک گریس فل لیڈی بیٹھی تھیں جو سر پر اسکارف جمائے اور بھی خوبصورت لگ رہی تھیں
“السلام علیکم” اس سے پہلے لیڈی نے سلام کیا
“وعلیکم السلام” وہ آہستہ آواز میں بولی اور کرسی پر بیٹھ گئی
“کہو بیٹا کیا بات ہے” وہ اس سے ایسے مخاطب ہوئیں جیسے اسکو بہت پہلے سے جانتی ہوں وہ حیران نظروں سے انکو دیکھ رہی تھی جو مسکرا رہی تھیں
“وہ مجھے یہاں جاب چاہیئے تھی” وہ ایک امید سے بولی
“جاب؟؟؟؟” انہوں نے حیران نظروں سے اسکو دیکھا
“جی” وہ سر جھکائے بولی
“جاب تو تمہیں مل جائیگی لیکن یہاں نہیں” وہ مسکراتے ہوئے بولیں
“جی؟” وہ ناسمجھی سے بولی
“دیکھو بیٹا تم ایک لڑکی ہو اور یہاں بہت سے لوگ آتے ہیں جن میں اچھے برے سب شامل۔ہوتے ہیں اسلئے میں صرف لڑکوں کو جاب پر رکھتی ہوں تاکہ کوئی بنت حوا کو غلط نظروں سے نہ دیکھ سکے” وہ پیار سے اسکو سمجھا رہی تھیں حیا دل ہی دل میں ان پر فریفتہ ہورہی تھی
“لیکن تم فکر نہ۔کرو میری بیٹی نے ایک اسکول کھولا ہے ابھی اسمیں ٹیچرز کی ضرورت ہے تمہیں وہاں جاب دلوا دوں گی” وہ اسکی سادگی دیکھتے ہوئے پیار سے بولیں
“جی بہت بہت شکریہ” وہ تشکر بھری نظروں سے انکو دیکھتے ہوئے بولی
“ارے شکریہ کی کیا بات مجھے خوشی ہوگی میں کسی کے کام آئی اور تم تو ویسے بھی بڑی پیاری بچی ہو” وہ اسکا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے بولیں اور حیا کچھ دیر ان سے ادھر ادھر کی باتیں کر کے ہوٹل آگئی اور ماں کو خوشخبری سنائی
“بیٹا یہ تو رب کا کرم ہوگیا ہم پر” شائستہ ممنوعیت سے بولیں
“جی امی میں بہت شکر گزار ہوں اب کل جانا ہے پھر ہم گھر بھی لے لیں گے” وہ انکو گلے لگاتے ہوئے بولی اور شائستہ بیگم نماز پڑھنے چل دیں جبکہ حیا ایمان کے پاس آگئی جو سوتے ہوئے بہت معصوم لگ رہی تھی اسکے سر پر پیار کر کے اسکو اٹھانے کے جتن کرنے لگی
“کیا ہے آپی سونے دیں نا” ایمان کسمسا کر بولی
“اٹھو مان میں پارک لے کر چلوں تمہیں” وہ اسکو لالچ دیتے ہوئے بولی جو کہ کام بھی آگیا اور ایمان جھٹ سے بیڈ سے اٹھی اور واشروم بھاگی جبکہ حیا مسکرادی لیکن اداس مسکراہٹ کیونکہ دل نے پکارا تھا ایک نام
“ہادیہ”
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اپنی خوشی اسکو بتاتی پر اب خوشی ملی بھی تو ایک اداسی کے ساتھ
حیا پارک میں بیٹھی ماضی کی سوچوں میں گم تھی جبکہ ایمان اور بچوں کے ساتھ مل کر کھیلنے میں مصروف تھی
“ہیلو پرنسس” ایک شرارتی آواز سن کر حیا نے چونک کر سر اٹھایا تو سامنے ایک اٹھارہ انیس سال کا لڑکا تھا جو اسکو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا
“جی” حیا کو ایسے لڑکے بالکل پسند نہیں تھے جو بلا وجہ فری ہوتے تھے
“ارے آپ تو بولتی بھی پرنسس کی طرح ہیں” وہ اسکے برابر میں بیٹھتا ہوا بولا
“جسٹ شٹ اپ” حیا غصے سے بولی
“لیکن یار پرنسس غصہ نہیں ہوتیں” وہ اسکو مسکراتے ہوئے دیکھ کر بولا
“ارے سعد بھائی آپ ادھر بیٹھ گئے چلیں نا” ایک دم ایمان بھاگتی ہوئی آئی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگی اور حیا حیرانی سے اسکو دیکھنے لگی
“ارے گڑیا میں تھک گیا ہوں” وہ اسکے گال پر پیار کرتے ہوئے بولا
“ایمان چلو” وہ غصے سے اٹھی اور اسکا ہاتھ پکڑا
“ارے رکیں تو سہی” وہ ایمان کو روکتے ہوئے بولا
“شٹ اپ آپ آئندہ میری بہن کے قریب نہیں آئیگا” وہ غصے سے کہتی ہوئی ایمان کو اپنے ساتھ لے آئی سارے راستہ اسکا موڈ آف رہا اور ایمان ڈانٹ کھانے کی ڈر سے خاموش رہی
_________________________________________
“سنو حمیرا وہ جو تمہاری دوست تھی شہیرہ وہ نہیں آتی اب؟” شایان نے موقع پاکر پوچھ ہی لیا وہ سوال جو اسکو تڑپاتا تھا
“جی وہ پاکستان سے جا چکی” حمیرا نے اداسی سے کہا اور اس جواب پر شایان کے پیروں تلے زمین نکل گئی
“کیا کہ رہی ہو کب؟؟؟ اور کیوں؟؟” شایان کو اپنی آواز کنویں سے آتی محسوس ہورہی تھی
“کچھ دن ہوئے ہیں اور وجہ نہیں پتہ” حمیرا کہ کر کتاب کھولنے لگی
“اوہ تھینکس” شایان اپنا دل۔سنبھالتا ہوا وہاں سے چلا گیا جبکہ حمیرا اسکی پشت دیکھ کر ماضی کی یاد میں کھو گئی
“یار شہیرہ سن!!! مجھے لگتا ہے یہ جو لڑکا ہے اسے تجھ سے سخت قسم۔کا عشق ہوگیا ہے” حمیرا سامنے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی جہاں شایان وقتا فوقتا شہیرہ کو دیکھ رہا تھا
“فضول بکواس نہیں کرو” شہیرہ کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی
“ابے سچ میں یار جہاں بھی ہم جاتے ہیں یہ وہاں ہوتا ہے اور تجھے دیکھتا رہتا ہے” حمیرا اسکے ساتھ تقریبا بھاگتے ہوئے بولی کیونکہ شہیرہ اس ٹاپک سے بچنے کیلئے تیز تیز چل رہی تھی اور کچھ شایان کی نظریں بھی اسے خود پہ محسوس ہورہی تھیں جو اسے کنفیوژ کر رہی تھیں
“کیا پتہ وہ تمہارے لئے آتا ہو” شہیرہ اپنے دماغ میں آیا ہوا سوال کرنے لگی
“میں اندھی نہیں ہوں تمہاری طرح ۔۔سب دکھتا ہے مجھے” حمیرا چڑ کر بولی
“اچھا بابا اب مجھے دیر ہورہی ہے میں چلتی ہوں” شہیرہ کہ کر۔بس میں بیٹھ گئی تھی
حمیرا اپنی واحد دوست کو یاد کر کے اداس ہوگئی لیکن ایک تسلی تھی اسکے پاس کی شہیرہ کبھی نہ کبھی اسکے پاس ضرور آئیگی کیونکہ وہ اپنے وعدہ کی پکی تھی اور ان دونوں کی دوستی اس بنیاد پر تھی کہ دونوں ایک دوسرے کو کبھی نہیں چھوڑیں گی
“آہ شہیرہ کاش تمہاری شایان سے شادی ہوجائے میں نے اسکی آنکھوں میں تمہارے لئے سچے جذبات دیکھے ہیں” وہ شہیرہ کے تصور سے مخاطب ہوکر اداسی سے مسکرادی
_________________________________________
“آپی آپ ناراض ہیں مجھ سے” حیا ایک گھنٹہ سے ایمان سے بات نہیں کر رہی تھی اور ایمان سے اپنی آپی کی ناراضگی کہاں برداشت ہو سکتی تھی
“ہاں” وہ روٹھی ہوئی بولی
“پر میں نے تو کچھ نہیں کیا نا” وہ معصومیت سے بولی جسپر حیا نے اسکو اپنے پاس بٹھایا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر سمجھاتے ہوئے بولی
“دیکھو مان ہر اجنبی سے اتنا فری نہیں ہوجاتے اور۔۔۔” حیا آگے بھی کچھ کہتی کہ ایمان نے اسکے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا
“وہ اجنبی نہیں ہیں آپی” وہ منہ بسورتے ہوئے بولی
“اجنبی ہی ہے وہ لفنگا ہے ایک نمبر کا اور تم اسکے ساتھ ایسے کھیل رہی تھی جیسے وہ کوئی سگا ہو کوئی نقصان بھی پہنچا سکتا تھا نا” حیا اسکو سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سمجھانے لگی
“یہ لفنگا کیا ہوتا ہے آپی؟” ایمان نے پوری بات کر صرف ایک لفظ پر غور کیا
” کچھ نہیں جا کر کھانا کھاؤ اور زنیرہ کو بلا کر لاؤ کب سے گئی ہوئے ہے” حیا اسکو سمجھانا بیکار سمجھ کر زنیرہ کو بلانے لگی جو کب سے ہوٹل سے باہر نکلی ہوئی تھی
“اچھا” ایمان سر ہلاتی ہوئی چلی گئی
“لیکن بلانا کہاں سے ہے؟” ایک دم بھاگتے ہوئے واپس آکر اسکے پیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی اور سوچوں میں جاتی حیا اٹھ کر بیٹھ گئی
“حد ہوگئی مان بندہ آرام سے بھی بول سکتا ہے” وہ چرتے ہوئے بولی
“آرام سے ہی تو بولا تھا” وہ منمنائی جبکہ حیا اسکی معصوم شرارتوں پر مسکرادی
“چھوڑو تم ادھر آجاو وہ سب خود آجائیں گی” وہ اسکو گود میں اٹھاتے ہوئے بولی
“آپی” کچھ دیر توقف کے بعد ایمان بولی
“جی جانی” حیا میگزین بند کرتی ہوئی اسکے طرف متوجہ ہوئی
“میں نے مانی بھائی سے بات کرنی ہے” ایمان کی بات کر اسکی ہارٹ بیٹ تیز ہونے لگی کتنی مشکل سے وہ اسکو بھولتی تھی صبح اور رات اسی کا دھیان سر پر سوار ہوتا تھا
“آں مانن ابھی وہاں رات ہورہی ہوگی وہ بھی آدھی رات وہ ڈسٹرب ہونگے نا ہم کل کال کرلیں گے” وہ اپنا دل سنبھالی ہوئے بولی
“اوکے” ایمان کمال فرمانبرداری سے کہتی ہوئے اسکی گود میں لیٹ گئی جبکہ حیا نے اسکا دھیان بٹ جانے پر سکھ کا سانس لیا
_________________________________________
“حسین تیرا دماغ کہاں ہے کئی دنوں سے تو غائب دماغ ہے” اشعر اسکی غائب دماغی محسوس کرتے۔ہوئے بولا
“نن نہیں تم بولو تم کیا کہ رہے تھے” حسین سر جھٹکتے ہوئے بولا
“مجھے لگ رہا ہے تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے” وہ اسکے کندھے پر ہاتھ مارا ہوا بولا
“ارے نہیں نہیں کچھ نہیں ہوا مجھے کیا ہونا ہے” وہ کوکھلی ہنسی ہنستے ہوئے بولا
“تیری محبوبہ سے تجھے چھوڑ تو نہیں دیا یار یہ لڑکیاں ہوتی ہی ایسی ہیں بے وفا” اشعر ابرو اچکاتے ہوئے بولا
“شٹ اپ اشعر آئندہ ایسی فضول بکواس نہیں کرنا میری زنیرہ سب سے الگ ہے” وہ غصے سے کہتا ہوا ہوٹل سے باہر جانے لگا
“ارے جا کہاں رہے کو ڈنر تو کرلو” اشعر پیچھے آتا ہوا بولا
“مجھے کچھ نہیں کھانا” وہ کہتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور فل سپیڈ سے چلاتے ہوئے اپنے پلاٹ پہنچا اور بستر پر گر سا گیا
“کیوں چھوڑ دیا مجھے زنیرہ تمہارے بغیر اپنی زندگی بھی ادھوری لگ رہی ہے” وہ چھت کو گھورتے ہوئے من میں بولا
“حسین آپ مجھے چھوڑیں گے تو نہیں نا” زنیرہ کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی ایک دفعہ جب وہ پارک میں بیٹھی اسکے پاس اپنا دل ہلکا کر رہی تھی
“میں کیوں چھوڑوں گا کوئی اپنی زندگی چھوڑ سکتا ہے کیا ہاں میری موت یا تم چھوڑ دو تو الگ بات ہے” وہ مسکراتے ہوئے بولا اور حسب توقع زنیرہ کا موڈ خراب ہوا
“اچھا سوری” وہ ہنستے ہوئے بولا
“آئندہ ایسی بات مت بولیگا میں آپکو کبھی نہیں چھوڑ سکتی” زنیرہ اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی جسپر حسین نے اسکو آنکھوں میں بے پناہ محبت لئے دیکھا تھا
“آہ زنیرہ میں جانتا ہوں تم بھی اداس ہو تبھی تو میں بھی رو رہا ہوں” حسین اپنے آنکھوں ملتے ہوئے بولا جہاں آنسو بہ جانے کو بے تاب تھے اور اسی پل زنیرہ بھی سات سمندر پار پارک میں بیٹھی یہی سوچ لیے اپنے آنسو پونچھ رہی تھی
_________________________________________
روئے کچھ یوں تیری یاد سے لپٹ کر
غیر بھی میرے عشق کی دہائی دینے لگے
“تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا تھا شہیرہ تم مجھے کونسے عشق میں مبتلا کر کے چلی گئی جو کبھی حاصل نہیں ہوسکتا جو ہر وقت ہر پل تڑپاتا ہے کاش میں تمہیں بتا دیتا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں” آج پھر وہ چھت کو گھور کر شہیرہ سے مخاطب تھا اور اپنی ناکام بلکہ وجود میں نہ آنے والی محبت کے بارے میں سوچ کر رو رہا تھا وہ کمزور لڑکا نہیں تھا لیکن اسکی محبت اور اسکے عشق نے اسے کمزور بنا دیا تھا جو ہر وقت مستی میں گم رہتا تھا آج وہی ہر رات رو کر گزارتا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...