باجی اب حریم کام پہ نہیں آئے گی.۔۔۔۔۔
خیر سے اگلے مہینے اسکی شادی ہے تو میں چاہ رہی تھی اب یہ گھر میں رہے اسکے سسرال والوں نے بھی جی کہہ دیا ہے کہ اب اس سے کام نا کروائیں……
حریم کی ماں نے اپنی مالکن سے کہا اور کچن میں کام کرتی حریم کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو….
تو اب یہاں سے جانے کا پروانہ آگیا میرا……” حریم نے دل میں سوچا…..
اچھا اچھا ماشاءاللّٰہ چلو اللّٰہ خیر کے ساتھ کرے کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتادینا….
مالکن بہت خوش تھی اور دعا دے رہی تھی…..
مگر حریم سے اب کام نہیں ہورہا تھا وہ کچن میں رکھی کرسی پہ بیٹھ گئی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے مگر وہ اپنی ماں کے سامنے نہیں رونا چاہتی تھی سو بےدردی سے آنسوؤں کو پونچھ لیا…..
حریم کے پاس بس دو دن تھے پھر اسکے بعد اس نے وہ گھر چھوڑ دینا تھا اپنی محبت سے منہ موڑ لینا تھا…..
بس دو دن پھر وہ اسکو کبھی نہیں دیکھ سکے گی…..
اففف کتنی اذیت تھی اس سوچ میں وہ پوری رات اس نے جاگ کے روتے ہوئے گزاری…..
اک عجیب سی بےچینی تھی اسکو ….اگلی صبح وہ حسب معمول اٹھ گئی اور اپنی ماں کے ساتھ اپنے کام پہ چلی آئی، وہ کچن میں گھس گئی اسکی ماں نے اس سے کہا..
” حریم آج بیگم صاحبہ نہیں آئیں تو کچن میں رک میں دیکھ کر آتی ہوں….
اسکی مالکن ان دونوں کے آنے سے پہلے باہر کمرے لاؤنج میں ہوتی تھی مگر آج وہ نظر نہیں آئی تو اسکی ماں کو تھوڑی حیرانی ہوئی وہ اندر کمرے کی طرف چلی گئی،
چندمنٹوں کے بعد وہ پریشان سی واپس آئی، حریم ناشتہ بنانے میں مصروف تھی اسنے اس سے کہا…
” حریم یہ چھوڑ ناشتہ میں بنالوں گی تو چھوٹے صاحب کے لیے سوپ بنادو انکو بخار ہے بہت تیز…..
اپنی ماں کی بات سن کر اسکا دل اک دم گھبرا گیا اسنے جلدی سے سوپ تیار کرنے رکھا اتنی دیر میں اسکی مالکن بھی کچن میں آگئی اور اسکو کچھ ضروری ہدایت دینے لگی….
وہ اپنی ماں کے ساتھ ملکر ناشتے کی تیاری کررہی تھی اور ساتھ ساتھ سوپ بھی…..
ناشتہ تیار ہوگیا تو اسنے میز پہ لگادیا اسکی مالکن اور انکے شوہر نے ناشتہ کیا…..
انہوں نے ڈاکٹر کو بھی فون کردیا تھا صبح ہی تو وہ ڈاکٹر بھی آچکا تھا وہ اسکو اپنے بیٹے کے کمرے میں لے گئے…..
ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور اک انجیکشن لگادیا پھر دوائی دے دی….
بخار بہت تیز تھا جسکی وجہ سے وہ غنودگی میں تھا…. تھوڑی دیر بعد اسکی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اسنے آنکھیں کھولیں مگر کمزوری کی وجہ سے اس سے مکمل آنکھیں نہیں کھل رہیں تھیں….
حریم سوپ تیار کرکے لے آئی تھی اسنے جب اسکی یہ حالت دیکھی تو اسکا دل چاہا کہ وہ اسکی خدمت میں دن رات اک کردے وہ بستر پہ لیٹا اسکو کمزور کررہا تھا وہ اسکو ایسے نہیں دیکھنا چاہتی تھی اسکی اپنی خود کی آنکھیں نم ہونے لگیں….
اس نے اپنی مالکن کو سوپ دیا اور چلی گئی
وہ کام کرتے کرتے مسلسل اسکے لیے دعائیں کررہی تھی،
صفائی کرنے اسکے کمرے میں گئی تو اک نظر اسکو دیکھا وہ سورہا تھا….
وہ صفائی کرکے واپس آگئی…. آج وہ اسکی تصویر سے باتیں نہیں کرسکتی تھی…..
گھر واپس آکر بھی وہ ہر نماز کے بعد اسکی صحت کے لیے دعائیں مانگتی رہی….. اگلا دن وہاں اسکا آخری دن تھا…..
اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیسے بھی کرکے خود کو روک لے صبح فجر کے وقت وہ اٹھی اور نماز پڑھ کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے…..
کاش…. کاش آج کا دن یونہی رک جائے وقت تھم جائے….
کاش ایسا ہوجائے….
میں…
میں کیسے رہوں گی…. اتنے عرصے میں مجھے اس شخص کی عادت ہوگئی ہے مجھے اس سے محبت ہے میں اسکو دیکھے بنا کیسے رہوں گی میں کیسے رہوں گی اسکے بغیر…..
وہ روئے جارہی تھی مگر قسمت کی دیوی ہر اک پہ مہربان تو نہیں ہوتی اور اس پہ تو بلکل نہیں تھی…..
وہ روتے روتے جائے نماز پہ ہی لیٹ گئی ناجانے کب اسکی آنکھ لگ گئی اسکی ماں نے اسکو آواز دی تو وہ اک دم اٹھی….
” حریم اٹھ جا بیٹا کام پہ جانا ہے دیر ہوجائے گی، آج کیا ہوا تو سوتی تو نہیں ایسے پھر….؟؟”
وہ تجسس سے پوچھ رہی تھی…
کچھ نہیں اماں بس رات کو نیند نہیں آئی تو اسلیے ابھی آنکھ لگ گئی تھی وہ اٹھ کر اپنی ماں سے کہنے لگی….
کیوں نہیں آئی نیند…؟
طبیعت تو ٹھیک ہے نا تیری پتر….؟ اسکی ماں نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا….
ہاں اماں ٹھیک ہوں آپ چلیں میں آتی ہوں….
اسکی ماں نے کہا ٹھیک ہے جلدی آؤ دیر ہورہی ہے….. وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی…. تھوڑی دیر بعد حریم بھی آگئی اسنے اپنی ماں کے ساتھ چائے کے ساتھ دو رسک لیے اور کام کے لیے نکل گئی…..
اپنی مالکن کے گھر پہنچی تو آج وہ سامنے ہی نظر آگئیں اسکی ماں نے انکے بیٹے کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا اب بہتر ہے یہ سن کر حریم کی کچھ جان میں جان آئی اس نےسوپ بنانے رکھ دیا تھا اور ناشتہ بنانے میں مصروف ہوگئی…….
سوپ تیار ہوچکا تھا وہ اپنی مالکن کے پاس آئی
انہوں نے کہا کہ تم کمرے میں لے جاؤ میں آتی ہوں تھوڑی دیر تک،
حریم کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہورہی تھیں
وہ سوپ کا پیالہ کمرے میں لے گئی
دروازہ پہ دستک دی تو اندر سے آواز آئی آجائیں
وہ دروازہ کھول کر اندر چلی گئی، نظریں جھکی ہوئیں تھیں
،وہ دشمن جاں آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا اس کو دیکھ کر وہ تھوڑا اٹھ کے بیٹھ گیا،
حریم اسکو نظر اٹھا کر نہیں دیکھنا چاہتی تھی اس نے سوپ کا پیالہ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا اور جانے کے لیے مڑی
کہ اس نے آواز دی…
“حریم….!!!”
حریم رک گئی اسکے منہ سے اپنا نام سن کر اسکو لگا جیسے وہ اب مزید آگے نہیں بڑھ سکے گی…..
اس نے دوبارہ آواز دی…
ِحریم بات سنو…..!
وہ پیچھے مڑی اور نظریں جھکائے ہی بولی….”
جی صاحب….؟
تم کہیں جارہی ہو کیا..؟؟
اس نے پوچھا…
حریم نے ناسمجھی کے عالم میں اسکو دیکھا اور پھر اک دم سے نظریں جھکالیں….
کیا مطلب صاحب…؟
تم….
کہہ رہیں تھیں کہ…. چند دن ہیں یہاں تمہارے….
پھر تم چلی جاؤ گی یہاں سے…؟؟
اس نے رک رک کر اپنی بات مکمل کی مگر اسکی نظریں اس پہ جمی تھیں….
حریم کو لگا کہ وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گی…
یہ تو سب اسنے اسکی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا….
کیا اسنے سب سن لیا….؟؟؟
اس نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا….!!
کیا بات ہے حریم بتاؤ…؟
وہ اٹھ کر اسکے پاس چلا آیا وہ اسکے بلکل نزدیک کھڑاتھا
حریم کا دل اتنا تیز دھڑک رہا تھا کہ اسکو یوں لگا جیسے باہر آجائے گا….
میری تصویر سے تو بہت باتیں کرتی ہو اور میں کچھ پوچھ رہا ہوں تو بتا نہیں رہیں….
حریم کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے کیا کہے….
اسکی تصویر سے کی ہوئی باتیں اسنے سن لی تھیں۔۔
کیا وہ جان گیا سب…..؟؟؟؟
جج… جی صاحب..۔۔۔
وہ اپنی انگلیاں مڑوڑتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ پائی…..
مگر کہاں اور کیوں…؟
اسنے پوچھا….
اسکے لہجے میں اتنی بےصبری کیوں…؟؟ حریم نے سوچا
پھر کہا صاحب میری شادی ہے….
حریم کے منہ سے یہ سن کر وہ جیسے سن سا ہوگیا۔۔۔۔
کب؟؟؟ اک دم سرد لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
اگ۔۔۔اگلے مہینے……!!! جواب آیا
ہمم… ٹھیک ہے جاؤ….
وہ جیسے اجازت ملنے کی منتظر تھی فورا چلی گئی…..
بھاگ کر کچن میں آئی سانس دھونکنی کی مانند چل رہی تھی…..
صد شکر تھا کہ اس وقت اسکی ماں وہاں نہیں تھی اس نے جلدی جلدی منہ پہ پانی کی چھینٹیں ماریں اور کمروں کی صفائی کرنے کے لیے چلی گئی…..
مگر اب اس سے کام نہیں ہورہا تھا اسکو لگ رہا تھا جیسے اسکے وجود سے کسی نے جان نکال لی ہو….
اب کیا ہوگا…..
یہ سوچ سوچ کر اسکی جان ہلکان ہورہی تھی اسنے جیسے تیسے صفائی کی مگر اسکے کمرے میں جانے کی اب اس میں ہمت نہیں تھی
مگر صفائی تو کرنی تھی
وہ دھڑکتے دل اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اسکے کمرے کی طرف گئی…
دروازہ کھلا ہوا تھا اور اسکی مالکن بھی بیٹھی ہوئی تھی اس نے شکر ادا کیا ورنہ صرف اسکے ہوتے وہ صفائی نہیں کرسکتی تھی
اسنے جلدی جلدی صفائی کی آج اسکا اس گھر میں آخری دن تھا اس نے کن انکھیوں سے اسکی تصویر کو دیکھا…..
اسکو اپنے وجود پہ کسی کی نگاہیں محسوس ہوئیں اسنے نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ اسکی طرف دیکھ رہا تھا اور اسکی مالکن فون پہ کسی سے بات کررہی تھیں انکی توجہ نہیں تھی….
حریم نے گھبراکر نظریں جھکالیں اور صفائی ختم کرکے اٹھ گئی تصویر پہ اک الوادعی نظر ڈالی اور چلی گئی……
****
اس نے حریم کی آنکھوں میں اور اسکی باتوں میں اپنے لیے بے انتہا محبت محسوس کی تھی…
اسکے چلے جانے کے بعد وہ کافی دیر تک اسکو سوچتا رہا…..
آنکھیں بند تھیں…..
کاش آپ کبھی میرے ہوسکتے… کاش آپ مجھے روک لیں….
کاش آپ کہہ دیں حریم تم میری ہو…..!!!
آنکھیں اک دم کھلیں….
اسکے الفاظ اسکے کانوں میں گونجنے لگے….
آنکھ نم ہوئی….
اسنے کرب سے آنکھیں بند کیں…. اور زیر لب کہا…
کاش میں ایسا کرسکتا…..
اک مہینہ بعد حریم کی شادی ہوگئی اسکی ماں بہت خوش تھی….
وہ مجبوری میں گھروں میں کام کرنے کے لیے نکلی تھی اسکا شوہر اک ڈرائیور تھا تو انکو کوئی تنگی نا تھی
،اسکی تنخواہ اچھی تھی جس میں حریم بھی پڑھ رہی تھی وہ اس وقت میٹرک کررہی تھی جب اسکے باپ کا ایکسیڈینٹ میں انتقال ہوگیا….
اسکے بعد گزارہ مشکل ہوگیا تو حریم کو پڑھائی چھوڑنی پڑی اور اپنی ماں کے ساتھ گھروں میں کام کے لیے نکل پڑی…
حریم سے چھوٹے دو بھائی تھے دونوں پڑھ رہے تھے وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکے بھائیوں کی پڑھائی رکے
اس کو سلائی بھی آتی تھی اسنے شام میں سلائی بھی سکھانی شروع کردی دونوں ماں بیٹی مل کر گھر کا خرچہ اٹھا رہیں تھیں یوں حالات کچھ بہتر ہونے لگے…
اسی دوران اسکے لیے اک رشتہ آگیا اور تھوڑی بہت چھان بین کے بعد وہ قبول کرلیا گیا…..
جب تک حریم نے اس دشمن جاں کو نہیں دیکھا تھا مگر اسکو دیکھنے کے بعد اسکے لیے یہ شادی کرنا بہت مشکل ہورہا تھا….
دل تو اسکے نام پہ دھڑکتا تھا….
دھڑکنیں اسکی نام لیوا تھیں وہ اپنے آپکو کسی اور کے حوالے کیسے کرتی….
مگر وہ کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی یہ سب اسکی پہنچ سے بہت دور تھا۔۔۔۔
اس نے سب اللّٰہ پہ چھوڑ دیا اور رشتہ کے لیے ہاں کردی…..
شادی ہوگئی….
شروع کا اک سال تو بہت اچھا گزرا سب اچھے سے رہتے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اصلیت سامنے آگئی…..
اسکی دو نندیں تھیں دونوں ہی تیزطرار تھیں اور حریم کی ساس بھی میٹھی چھری تھی….
اک سال تک اولاد نہیں ہوئی تو باتوں باتوں میں اسکو طعنے دینے لگیں….
وہ بےچاری چپ چاپ سہتی رہتی…
شوہر گھر آتا تو اس سے کہتی مگر وہ بھی کچھ نا بولتا…
البتہ اسکی ماں اپنے بیٹے کے کان بھرتی رہتی پھر بہنیں بھی مل جاتیں،طلاق دینے پہ زور دیتیں…
دوسری شادی کا لالچ دیتیں….
وہ انکو سمجھاتا مگر آخر کب تک….
وہ بھی مرد تھا غصہ آگیا اور جاکر غصے میں حریم کے منہ پہ تھپڑ ماردیا وہ بےچاری تو ہکا بکا رہ گئی….
یہ پہلے تھپڑ کی شروعات تھی اب تو آگے ایسے ہی چلنا تھا…
اسکی ساس کو اب وہ کھٹکنے لگی تھی اسنے اپنے شاطر دماغ میں اک ترکیب سوچی اور حریم سے کہا…
سن لڑکی…
اک سال ہوگیا اب تک کوئی خوشخبری نہیں سنائی…
اب اور انتظار نہیں ہوتا مجھ سے…
میرے ساتھ چلو اک عامل بابا ہیں وہ تعویز دینگے تو دیکھنا پھر….
وہ جانتی تھی کہ حریم ان باتوں پہ یقین نہیں رکھتی اسنے جان بوجھ کے ایسا کیا تھا اسکے انکار کی صورت میں وہ اپنے بیٹے سے کہے گی اور بیٹا اپنی ماں کی نافرمانی ہوتا دیکھ کر اسکو طلاق دے دے گا…..
اور یہی ہوا حریم نے صاف انکار کردیا جس پہ اسکی ساس کو بہت غصہ آیا مگر اندر سے وہ بہت خوش تھی….
بیٹے کے آتے ہی اسنے روتے روتے ساری بات اسکو بتائی اور اسنے غصے میں آکر حریم کو پہلے تو مارا پیٹا
اور پھر طلاق دے کر گھر سے نکال دیا….
وہ روتی رہی مگر اب کوئی فائدہ نہیں تھا وہ اجڑ چکی تھی..
اسکول کی چھٹیاں تھیں تو روحان اور اسکی فیملی چھٹیاں گزارنے شمالی علاقہ جات چلے گئے تھے….
راحم روحان کے بغیر اکیلا تھا
اور اب بور ہورہا تھا اتوار کا دن تھا اس نے باذل سے کہا….” پاپا آج باہر چلتے ہیں”
باذل نے کہا چلو ٹھیک ہے ماما سے بھی کہہ دو تیار ہوجائیں
وہ خوش ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد سب گھر والے تیار ہوگئے
باذل باہر گیا تو دیکھا گاڑی کا ٹائر پنکچر ہے اور پیٹرول بھی ختم ہونے پہ ہے اس نے کہا میں پنکچر لگواکر اور پیٹرول ڈلواکر آتا ہوں بس تھوڑی دیر لگے گی۔۔۔۔
راحم نے منہ بسور لیا باذل نے اسکو پیار کیا اور کہا بس میرا بیٹا تھوڑی دیر لگے گی ٹائر میں ابھی اتنی گنجائش باقی ہے کہ وہ مکینک کی شاپ تک چلی جائے گی زیادہ دور نہیں جاسکے گی….
راحم نے اوکے کہا اور اندر چلا گیا…..
باذل گاڑی لیکر نکل گیا آہستہ آہستہ چلاتے چلاتے وہ شاپ پہ پہنچ گیا اور پنکچر لگوانے کے لیے دے دی خود انتظار کرنے لگا…..
کسی نے اپنا ہاتھ اسکی پیٹھ پہ تھپتپایا
اسنے مڑ کے دیکھا تو اک فقیرنی کھڑی تھی وہ اسکو دیکھ کر اک دم گھبراگیا اسکا حلیہ ہی ایسا تھا اس نے جلدی سے والٹ سے کچھ پیسے نکالے اور اسکو دینے لگا اس نے پیسے لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا…
باذل نے پوچھا کیا ہوا لے کیوں نہیں رہی….
جلدی لو ورنہ جاؤ یہاں سے…..
وہ فقیرنی اسکو دیکھ رہی تھی باذل کو الجھن ہونے لگی اسنے پیسے اسکے آگے سے ہٹا لیے اور گردن موڑ لی کہ پیچھے سے آواز آئی….
“باذل”
باذل اک جھٹکے سے واپس مڑا یہ آواز وہ ہزاروں میں پہچان سکتا تھا مگر چہرہ نہیں پہچان پایا…..
باذل نے حیرانی سے اسکو دیکھا اور کہا…..”تم…”
پہچاننے میں دقت ہوئی تھی مگر پہچان ہوگئی تھی….
اللّٰہ نے اسکو آسمان سے زمین پہ پٹخ دیا تھا…..
اور وہ بھی اک ایسی دلدل میں جس سے نکلنا بہت مشکل تھا……
******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...