بارہ بجے کے آس پاس ثانیہ ٹپک پڑی تهی اور اس کو دیکهکر عنایہ کا موڈ بری طرح سے خراب ہوا تها
اس وقت وہ نہا دهو کے لان میں بیٹهی دهوپ سیک رہی تهی ڈارک میرون ڈریس پہنے ہلکی سی لپ اسٹک لگاۓ گیلے کهلے بال آدهے آگے کیے وہ بہت حسین لگ رهی تهی اوپر کهڑی سے سکندر بہت بار اسے پیار بهری نظروں سے دیکھ چکا تها اور وہ اسکی نظروں سے بے نیاز سی اپنے بالوں سے کهیل رهی تهی
“چڑیل کہیں کی اپنے گهر میں کانٹے چهب رهے تهے نا جو ٹپک پڑی ادهر”
ثانیہ کو آتا دیکهکر منہ هی منہ میں بڑبڑائی
“هاۓ عنایہ کیسی هو”
قریب آکر بے تکلفی سے بولی
“میں ٹهیک هوں آپ کیسی هو”
بظاهر مسکرا کر بولی
“میں بهی بالکل ٹهیک… سکندر کہاں هے نظر نہیں آرها”
براہ راست پوچها
“وہ فریش هو رهے هیں آپ چلو اندر”
“ہاں چلو”
اسکے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گئی
“بیٹهو آپ میں چاۓ بهجوا دیتی هوں آپکے لئے”
لاونج میں اسے بیٹها کر خود کچن کی طرف بڑھ گئی
“اونہہ….. چڑیل کہیں کی ناگن”
دل میں اسکی شان میں قصیدے پڑهے
“رضیہ ایک کپ چاۓ لاونج میں بهجوا دینا”
ملازمہ کو ہدایت دی
“جی… آپکے لئے ناشتہ بنا دوں”
عنایہ نے غصے کی وجہصبح سے کهانے کا بائیکاٹ کیا هوا تها
“نہیں… مجهے بهوک نہیں تم چاۓ لاونج میں دے آنا”
کہہ کر اپنے روم کیطرف چل دی
کمرے میں پہنچی تو سکندر شیشے کے سامنے کهڑا تیار هونے میں مصروف تها
اور وہ دهپ سے جاکر بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی
جبکہ سکندر نے شیشے سے اسے دیکها ہر دن وہ اس کے دل کے قریب تر ہوتی جارهی تهی
“کیا هوا؟؟”
بالوں میں برش کرتے اسے دیکھ کر پوچها
“کچھ نہیں…. آپ جاؤ آپکی مہمان لاونج میں ویٹ کر رهی هے”
بہت کوشش سے اس نے اپنا لہجہ نارمل رکها
“هاں بس جا ہی رها هوں تم بهی چلو یہاں اکیلی بیٹھ کر کیا کرو گی بور هی هو جاؤ گی”
اسکی طرف مڑ کر اپنے شرٹ کے بازو فولڈ کرنے لگا
نظر اٹها کر اسے دیکها
سفید رنگت براؤن بال جو ماتهے پہ آ رهے تهے براؤن آنکهیں شہزادوں سی آن بان لئے اسکے سامنے کهڑا تها
“آپ جاؤ…. میں تهوڑی دیر میں آتی ہوں”
اس پر سے نظریں هٹاتے هوۓ بولی
“چلو ٹهیک هے جلدی آنا”
یہ کہہ کر اس نے باهر کی جانب قدم بڑها دئیے جبکہ وہ رونے لگی اپنی بے بسی پر بے وقعتی پر
.
.
.
کچھ دیر دل کا بوجھ هلکا کرنے کے بعد فون اٹها کر صبا کا نمبر ڈائل کرنے لگی
“میں تجھ سے بہت ناراض هوں صبا کی بچی”
حال احوال کے بعد منہپهلا کر بولی
“کیوں بهئی کس خوشی میں ناراضگی منائی جا رهی هے اور وہ بهی مجھ سے”
“تو آئی کیوں نہیں شادی میں.؟ کالج میں تو بڑے بڑے ڈائیلاگ مارتی تهی کہ میں سات سمندر آسمان زمین کے پار بهی چلی جاؤ مگر تیری شادی میں ضرور آؤں گی”
کچھ ثانیہ کا غصہ تها کچھ صبا کے نا آنے کا سو هنوز منہ پهلاۓ بولی
صبا کے فادر آرمی میں تهے سو عنایہ کی شادی سے ایک ماہ پہلے هی انکا تبادلہ دوسرے شہر هوگیا تها
“یار میں تو تیار تهی بس پهر مما کی تهوڑی طبعیت خراب هوگئی تو بس اسی وجہ سے نہ آ پائی سوری یار”
افسردہ لہجے میں بولی
“کیا هوا آنٹی کو”
ایکدم غصہ بهول کر پریشان سے لہجے میں بولی
“یار بس بی پی بڑهه گیا تها هوسپٹل میں ایڈمٹ تهی”
“اور تو نے مجهے بتانا ضروری نہیں سمجها هاں”
“میڈم جی آپ نے میڈیکل میں گریجویشن کیا هے اسپیشلیزیشن نہیں”
مزاحیہ انداز میں بولی
“یار پهر بهی تجهے بتانا چاہیے تها نا”
اسکا دل اسکی طرح هی پیارا اور دردمند تها
“اچها بابا سوری اگلی باری چهینک بهی آۓ گی تو تجهے پہلے بتاؤں گی خوش”
“هاں”
مسکرا کر بولی
“اور کیسے هیں تیرے پیا جی”
صبا شرارت سے بولی اور عنایہ کے دل میں ٹهس سی اٹهی
“ٹهیک هیں… اچها یار میںتجھ سے بعد میں بات کرتی هوں
آنکهوں میں آنسو بهرنے لگے تو جلدی سے خداحافظ کہہ کر کال بند کردی
.
.
.
“عنایہ اچها هوا تم آگئی چلو شاپنگ پہ چلتے هیں”
عنایہ لاونج میں آئی تو اسے دیکهتے هی ثانیہ بولی
“نہیں میرا دل نہیں چاہ رها”
عجیب سے لہجے میں بولی تو سکندر نے اسے چونک کر دیکها اور دیکهتے هی سمجھ گیا کہ وہ رو کر آئی هے اسے ایسے دیکهکر اسکے دل کو کچھ هوا
“ایسے کیسے نہیں دل کر رها ہمارے ساتھ چلو خودبخود دل کرنے لگ جاۓ گا”
وہ اٹھ کر کهڑی هو گئی “سکندر اب چلو بهی”
اور وہ سکندر کو بازو سے پکڑ کر اٹهانے لگی
اسے اسطرح سکندر کو چهوتے دیکهکر عنایہ کو غصے کے ساتھ ساتھ رونا بهی آیا مگر وہ ضبط کر گئی
“ہاں چلو.”
“رضیہ ایسا کرنا کہ کهانا مت بناؤں هم باهر سے کهائیں گے”
جاتے جاتے ملازمہ کو هدایت دے گیا
اور وہ جی صاحب کہہ کر رہ گئی
“چلو جلدی بیٹهو”
فرنٹ سیٹ سنبهال کر ثانیہ کو بولا
“مگر یہ عنایہ کی جگہ هے نا”
ہچکچاهٹ سے بولی
“بیٹهو یار اسکا نام تهوڑی نا لکها هوا هے چلو بیٹهو”
بیزاری سے بولا جبکہ پیچهے آتی عنایہ پہ اسکے یہ الفاظ بم بن کر گرے
اور وہ چپ چاپ پچهلی سیٹ کا دروازہ کهول کر بیٹھ گئیجبکہ سکندر کو ڈهیروں شرمندگی نے آلیا
اور پورا راستہ وہ سرجهکاۓ روتی رهی اور سکندر بظاهر ثانیہ سے باتیں کرتا اگے لگے شیشے سے اسے مسلسل دیکھ رها تها
اسے دکھ هوا عنایہ کو اسطرح روتا دیکھ کر
.
.
کچھ دیر بعد سکندر نے گاڑی شہر کے معروف شاپنگ مال کے سامنے روکی اور تینوں اندر کی جانب چل دئیے
“سکندر یہ تم نے ٹهیک نہیں کیا اس نے سن لیا تها”
اندر آکر عنایہ ان سے کچهه فاصلے پہ کهڑی کپڑے دیکھ رهی تهی جب ثانیہ نے سکندر سے کہا
“هاں پتہ هے مجهے”
عنایہ کو اپنی نظروں کے حصار میں قید کرتے هوۓ بولا
“تو کیوں کیا یار اندازہ بهی هے کتنا برا لگا اسے”
عنایہ کی طرف دیکهکر بولی جو اب بهی اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کر رهی تهی
اور پهر سکندر نے اسے سب کچھ سچ سچ بتا دیا
“او مائی گارڈ…. سکندر تو تم اسے بتا دیتے نا یار کہ وهی وہ لڑکی هے جس سے تم پیار کرتے هو”
ثانیہ نے کہا تو یکدم سکندر کے ذهن میں دهماکا هوا
“او تیری..”
سر پر ہاتھ مارتا هوا بولا
“کیا هوا”
ثانیہ حیرت سے بولی
“وہ یار میں نے اسے کہا تها نا کہ میں کسی اور سے پیار کرتا هوں اور وہ سمجهی کہ میں تم سے”
سکندر نے دانستہ بات ادهوری چهوڑ دی
“ایکدم گدهےهو تم. کم سے کم گهونگٹ تو اٹها لیتے… اور سونے پہ سہاگا بتایا تک نہیں اففف. سکندر حد کرتے هو”
“اب تو هوگیا نا… تم تو مجهے مت ڈانٹو.”
“اوکے تو اب کیا پلان هے ایسے هی غلط فہمی میں مار ڈالنے کا ارادہ هے کیا”
“میں نے سوچ لیا هے مجهے کیا کرنا هے”
کچھ سوچ کر مسکرا دیا اور ثانیہ نے بهی عنایہ کو دیکها جو ان دونوں سے بے نیاز جیولری دیکهه رهی تهی
اور پهر ثانیہ ڈهیروں شاپنگ کی مگر عنایہ هر چیز صرف دیکهتی رهی اپنے لئے اک تنا بهی نہ لیا اور پهر وہ تینوں ایک شاندار ریسٹورنٹ پہنچے
“عنایہ کهاؤ نا یار”
ثانیہ نے عنایہ کو کہا جو بت بنی بیٹهی اپنی گود میں رکهے اپنے فون کو گهورے جا رهی تهی
“نہیں بهوک نہیں مجهے آپ کهاؤ”
خوشدلی سے معذرت کی
ثانیہ نے سکندر کیطرف دیکها اور اس نے آنکهوں سے اسے چپ رهنے کا اشارہ کیا
کهانے کے بعد تینوں پارک گئے اور وهاں سے تقریبا رات میں گهر آۓ
“اچها یار میں چلتی هوں بہت مزہ آیا تم لوگوں کیساتھ”
“چلو میں ڈراپ کردوں”
سکندر نے آفر دی
“هاں چلو”
دونوں خارجی دروازے کیطرف چل دئیے
“رضیہ کهانا لگاؤ”
ملازمہ کو کہہ کر خود صوفے پہ بیٹھ گئی
تهوڑی دیر بعد کهانے کها کر وہ اپنے روم کی طرف چل دی”دلہن بی بی کچھ اور چاهیے آپکو”
رضیہ نے پیچهے سے آواز دے کر پوچها
“نہیں تم جاکر سو جاؤ”
“مگر صاحب کو کهانا دینا هے”
“میں دے دوں گی تم جاکر آرام کرو”
مسکرا کر بولی
کمرے میں آکر پورے دن کے رکے آنسوؤں کو بہنے دیا
.
.
.
گیارہ بجے کے آس پاس سکندر کمرے میں داخل هوا اس وقت بهی وہ رونے میں مگن تهی اسے آتا دیکهکر واش روم میں گهس کر ڈهاڑ سے دروازہ بند کر لیا جبکہ سکندر اسکے باهر آنے کا انتظار کرنے لگا
ہاتھ منہ دهو کر واپس آئی اور سکندر خاموشی سے چینج کرنے واش روم کی طرف بڑھ گیا جبکہ عنایہ نے ڈریسنگ ٹیبل کا رخ کیا
وہ اٹھ کر جونہی بیڈ کیطرف بڑهنے لگی اسے اپنا سر گهومتا هوا محسوس هوا دونوں ہاتھ سے سر تهام کر وہ نیچے بیٹهتی چلی گئی
“عنایہ…. کیا هوا”
سکندر نے اسے اس طرح نیچے بیٹها دیکها تو پریشان سا هو گیا
“عنایہ یہاں دیکهو… کیا هوا هے تمهیں عنایہ”
اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولا
“پپ…. پانی”
مدهم سی آواز میں بولی
“هاں پانی دیتا هوں.”
جگ کی طرف دوڑا
پانی پی کر کچھ طاقت آئی
“کیا هوگیا تها تمهیں. پتہ هے نا میں کتنا پریشان هوگیا تها”
اسکے چہرے پہ آۓ بال پیچهے کرتا هوا بولا
“کچھ نہیں..کهانا لاؤں آپکے لئے”
وہ اٹهتے هوۓ بولی
“نہیں کها لیا تها میں نے….. تم اٹهو آرام سے اوپر بیٹهو”
اسے سہارا دے کر اوپر بیٹهایا
جبکہ عنایہ کا یہ سوچ کر کہ وہ کهانا بهی ثانیہ کے گهر سے کها کر آیا هے آنسو بہہ نکلے جیسے اس نے بے دردی سے رگڑ ڈالا
“عنایہ ائی لو یو”
اسکے ہاتھ تهام کر بولا
اور عنایہ کو چار سو چالیس واٹ کا جهٹکا لگا
“آپ مجھ سے نہیں اس ثانیہ سے پیار کرتے هو میں نا پسندیدہ انسان هو آپکی لائف میں اور بهیک میں ملا پیار مجهے نہیں چاهیے”
ہاتھ چهڑاتے هوۓ بولی
“تمهیں پتہ هے عنایہ مجهے کب تم سے پیار هوا”
اسکے دونوں هاتهوں کو پکڑ کر بولا اور وہ سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکهنے لگی
“جب تمهیں پہلی بار سارہ کی مہندی میں دیکها بس اسی لمحے میں اپنا آپ هار گیا تها اور جب تم سکول آئی جاب کے لئے تو میں صرف تمهیں دیکهنے روز سکول آتا تها صرف تمهاری ایک جهلک دیکهنے کے لئے اور جب تم نے بتایا کہ تمهاری شادی هونے والی هے تو میں ٹوٹ گیا تها اسی دوران مما نے میری شادی فکس کر دی میں اتنا ڈسٹرب تها کہ میں نے نکاح نامہ پر غور کیا هی نہیں اور پهر تمهیں آکر وہ سب کچھ کہہ دیا جو کسی بهی لڑکی کے لئے برداشت کرنا بہتبہت مشکل هوتا هے اور اسی رات جب تمهارے پاؤں میں کانچ لگا جب تمهیں دیکها تو مجهے یقین آگیا کہ میری محبت سچی تهی جبهی تم میری زندگی میں شامل کر دی گئی هو”
میر سکندر علی بولے جا رها تها اور وہ سن سی اسے دیکهے جا رهی تهی
“مگر ثانیہ اور آپ”
صدمے سی کفیت میں بولی
“ثانیہ اور میں دوست هیں دوست سے زیادہ بہن بهائی جیسا رشتہ هے ہمارا”
اسکے بالوں کی لٹ پیچهے کرکے اسکی غلط فہمیاں دور کر رها تها
“مگر آپ اس دن ماما پاپا کو چهوڑ کر آفس اس سے ملنے گئے تهے”
“میں میٹنگ اٹینڈ کرنے گیا تها هاں جب تم آئی اس سے پہلے همارا باهر لنچ کا پروگرام تها مگر تمهارا وہ مرچوں زدہ کهانا کها کر همارا پیٹ بهر گیا تها”
اسے دیکھ کر مسکرا کر بولا
“وہ.. آپ کے لئے نہیں تها….”
شرمندہ سی بولی
“هاں ثانیہ کے لئے تها پتہ هے مجهے”
“آپکو کیسے پتہ”
وہ حیران تهی
“تمهیں دعا مانگتے سن لیا تها میں نے”
اسکے آنسو صاف کرتا هوا اسے حیرت کا جهٹکا دے گیا
“اور آج جو اسے فرنٹ سیٹ پہ بیٹهایا اور جو کہا وہ”
وہ بهی عنایہ تهی سارے حساب یاد تهے
“جب تم آفس آئی تبهی مجهے پتہ چل گیا تها کہ تم بهی مجهے پسند کرتی هواور میری جاسوسی کر رهی هو تو میں نے سوچا کیوں ناتمهیں تهوڑا جلایا جاۓ اج اسی لئے یہ سب کیا ایم سوری سوئیٹ هارٹ”
پیار سے بولا اور اسکی آنکهوں میں آۓ آنسو اپنی انگلیوں کی پوروں سے صاف کرنے لگا
“آپ بہت برے هیں”
ایکدم سے اٹھ کر کهڑی هوئی اور روتے هوۓ بولی
“آئی نو مائی وائف مگر هوں تو تمهارا نا”
اسکے پاس جاکر اسکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیا
“چهوڑیں میرا ہاتھ”
ہاتھ چهڑاتے هوۓ بولی
“چهوڑنے کے لئے تو نہیں پکڑا وائف”
یہ کہہ کر ایک بے حد خوبصورت انگوٹهی اسکی مخروطی انگلی میں ڈال دی
“یہ تو وهی هے..”
رنگ دیکهکر بولی
آج بس یہی ایک چیز اسے پسند آئی تهی مگر غصے کے باعث بول نا سکی
“تمہیں کیا لگتا هے میں تم سے غافل ہوں”
پیار سے بولا اور عنایہ نے نم انکهوں سے مسکرا کر اسے دیکها اور اپنا سر اسکے چوڑے سینے پہ ٹکا دیا
جبکہ سکندر نے بهی اسے ایک قیمتی متاع کی طرح بانہوں میں بهرلیا
اور دور کہیں چاند شرما گیا قسمت کی دیوی نے بهی مسکرا کر دونوں کو دیکها
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
دی اینڈ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...