دو ہفتے بیت گئے تھے۔۔۔۔ عارفین جا چکا تھا تو رمشا نے بھی سکون کا سانس لیا وہ اپنے کمرے میں واپس آ گئی تھی۔۔ رمشا ، دعا اور عشاء واپس باقاعدہ کالج جانے لگی تھیں ۔۔ گھر میں بھی امن تھا۔۔۔ عارفین تین چار دن بعد کال کر کے اپنی خیر خیریت دے دیا کرتا تھا۔۔ سمیر گھر سے ہی آن لائن کام کرتا تھا اس لیے زیادہ تر گھر میں ہی پایا جاتا تھا یا پھر فارس کے گھر جاکر اس سے گپے لگا لیا کرتا تھا۔۔۔ فارس اپنے نکاح کے تیاریوں میں لگا تھا جس کا ساتھ سمیر بھرپور دے رہا تھا۔۔ شانزے بھی ان کے ساتھ ساتھ ہوتی تھی . سمیر کا سین ابھی آف چل رہا تھا کنزہ کے پیپر ہو رہے تھے تو وہ بھی کم بات کیا کرتی اور سمیر کو بھی گھر بات کرنے کا ٹائم اور موقع نہیں مل پا رہا تھا۔۔۔۔۔ فارس اور شانزے اسے روز فورس کر رہے تھے کہ وہ جلد از جلد گھر بات کرے۔۔ یہ بے نام رشتے زیادہ دن نہیں ٹکتے لیکن شاید سمیر ان کی بات کو زیادہ سیریس نہیں لے رہا تھا ویسے سچی بات ہے بے نام رشتے کبھی زیادہ ٹائم نہیں ٹکتے ان کو ایک نام کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ پاک نام کی!!!۔۔ کسی سے محبت کرنا غلط نہیں لیکن جس سے محبت کی جائے اس کو جلد از جلد نکاح کے پاک بندھن میں قید کر لینا چاہئے ورنہ وہ کسی آزاد پنچھی کی طرح کب آپ کے ہاتھ اور آپ کی زندگی سے ا ڑھ جاتے ہیں آپ کو علم بھی نہیں ہوتا اور پچھتاوے اور ہاتھ ملنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔۔ سمیر کے ساتھ بھی کچھ یہی ہونے والا تھا اس کی قسمت اس کا کیا امتحان لینے والی تھی وہ اس سے انجان اپنی موج مستی میں آج کو اچھی طرح جینے میں لگا تھا۔۔ اس کو تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ فیصل آباد اپنی قسمت کی چابی خود ہی چھوڑ آیا تھا کہ کوئی بھی اسے چرا کر کہیں دور کسی ندی میں پھینک دے۔۔۔۔ سمیر کیا غلطی کر آیا تھا یہ بات اس کو پتہ لگنی تھی شاید تب تک پانی سر کے اوپر سے جا چکا ہو۔۔۔۔۔۔۔
* * *
تم ڈرو نہیں مناہل میں ہونا تمہارے ساتھ تم میری پکی والے دوست ہو میں ایسے تمہارا ساتھ نہیں چھوڑو گی ہم دونوں مل کر اس بلیک میلر کو پکڑوا دیں گے۔۔
عشاء بھی کیا معصوم سی لڑکی تھی دنیا سے انجام بس مدد کرنا چاہتی تھی وہ یہ جانتی تھی کہ اس کی جان سے عزیز دوست پریشان ہے اور اس کو اپنے دوست کی ہر حال میں مدد کرنی ہے۔۔۔ کیسے؟؟؟؟ اس کا کیا انجام ہوگا اس کی پرواہ کیے بغیر وہ اپنی دوست کی مدد کرنے کے لئے تیار ہو گئی۔۔۔
عشاء کیسے نہیں ڈروں یار وہ مجھے روز کال کرتا ہے اور ملنے کے لئے بلاتا ہے ورنہ وہ میری پکس پوری دنیا میں پھیلا دے گا مناہل رو رہی تھی۔۔۔۔ کیوں لڑکیاں پہلے عقل کے ناخن نہیں لیتیں ۔۔ کیوں؟؟؟ کیوں ہمیشہ عین موقع پر اچھے اور برے کا پتہ لگتا ہے۔۔
* * *
میری مانو ہم ادھار پر لے لیتے ہیں کوئی سوٹ۔۔ حد ہوگئی۔۔۔ کتنے مہنگے سوٹ دے رہے ہیں یہ لوگ۔۔۔۔
فارس کے تو کپڑوں کے پرائز دیکھ کر ہوش اڑ گئے تھے
مطلب حد ہوگئی ہے فارس آپ کی اس بات پر تو میرا دل چاہتا ہے کہ سر دیوار میں مارلوں۔۔
شانزے اپنے اس فنکشن کو جتنا خاص بنانا چاہتی تھی اتنا ہی فارس کنجوسی پر اتر آیا تھا۔۔۔۔۔
ایک تو اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تم سر دیوار میں مارو گی تو نکاح کے وقت بنا سر والی شانزے سے ہاں بلوانے پڑے گی۔۔۔۔۔ تو کیسے لگے گا مولوی صاحب کہیں گے قبول ہے اور دلہن کا تو سر ہی نہیں ہوگا۔
فارس کی عادت تھی جو منہ میں آتا بول دیا کرتا تھا بھلے اس کی بات کا سر پیر ہو یا نہ ہو۔۔
مجھے نہیں پتہ بس مجھے وائٹ کلر کا خوبصورت سوٹ چاہیے اگر تمہیں یہاں سمجھ نہیں آ رہا تو میں کسی ڈیزائنر سے بات کرتی ہوں پانچ یا چھ لاکھ میں ایک اچھا سوٹ بن کر گھر پہنچ جائے گا۔۔۔
شانزے من ہی من میں اپنے نکاح کا سوٹ کو امیجن کرنے لگی۔۔۔۔
ایکسکیوزمی باجی آپ کسی بلڈر سے شادی نہیں کرنے جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔میں ایک غریب سا بندہ ہوں جو حکومت کا نوکر بھی ہے ۔۔۔ میرے پاس اتنا پیسہ ہرگز نہیں ہے اور وہ بھی ایک صرف نکاح کے ایک جوڑے پر خرچ کرنے کے لیے۔۔
فارس اچھے کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھتا تھا گھر میں پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی فارس کے ابو کا اچھا خاصا بزنس ہے لیکن ان کے بہت اصرار کرنے کے بعد بھی فارس نے اپنے شوق کو ترجیح دی تھی وہ شروع سے ہی پولیس میں جانے کا خواہش مند تھا اس کے پورے خاندان میں کوئی بھی اس پیشے میں نہیں گیا تھا سب حیران ہوتے تھے کہ وہ کیوں پولیس میں جانے کے لیے ہی بضد ہے۔۔
فارس کیا ہے یار میں خود پیسے دے لوں گی لیکن اچھا سا جوڑا لونگی۔۔
میں نے کب منع کیا ہے شانزو لیکن تم خود سوچو اتنا مہنگا سوٹ لینے کے بعد اس کو نکاح کے بعد بکسے میں ڈال دو گی تمہارا تو کوئی بھائی بہن بھی نہیں جس کی شای میں اپنے شادی کے کپڑے پہن لو تمہارا چھوٹا بھائی جب تک بڑا ہوگا تم موٹی آنٹی بن چکی ہوگی ۔۔۔۔۔آہاہاہاہاہاہا
فارس کی بات بھی سولہ آنے تھی۔۔۔ شانزے کا ایک چھوٹا بھائی تھا جو ابھی صرف بارہ سال کا تھا اور اس کی شادی میں تو واقعی کافی ٹائم تھا۔۔
ہوگیا اگر آپ کا تو آج شوپنگ ہی کر لیتے ہیں ورنہ اماں بھی ڈانٹیں گی کہ آج بھی خالی ہاتھ واپس آگئے ۔۔۔۔۔
میری بات سنو تمہیں جو چاہیے تم لے سکتی ہو میں کبھی منع نہیں کروں گا لیکن سادگی سے نکاح کرنا چاہتا تھا جو صرف ہم دونوں کے لیے ہو نہ کہ لوگوں کے لیے۔۔۔ مجھے تو تم صرف ان سادہ سے سوٹ میں بھی حسین لگتی ہو چاہے تم ڈیزائنر کا چھ لاکھ کا سوٹ لے لو مجھے ویسے ہی لگوں گی ایک دم پیاری سی۔۔
فارس شانزے کو سمجھا رہا تھا اور شانزے ایک حد تک سمجھ گئی تھی۔۔۔۔
ٹھیک ہے جیسے آپ بولیں گے ویسے کریں گے۔۔۔ فارس باتیں بنانا کوئی آپ سے سیکھے صرف باتوں سے اچھے خاصے پیسے بچا لیتے ہو تم۔۔۔
شانزے ہنسنے لگی تھی اور اب زبان چڑھا کر اس کا مذاق بنانے لگی۔
ہاہاہا مجھ جیسے معصوم پر بس شک کرتی ہو تم شادی کرنی ہے۔۔۔ میں کیا کرنا پیسے بچا کر میرا جو بھی ہے وہ تمہارا ہی ہے تم جیسے چاہو خرچ کر سکتی ہو میں کوئی حساب نہیں لوں گا۔۔
فارس کی باتوں پر شانزے کو اپنی پسند پر رشک آرہا تھا وہ صرف باتیں نہیں کیا کرتا تھا وہ عمل کرنا بھی جانتا تھا یہ بات شانزے اچھے سے جانتی تھی۔۔۔
* * *
دادا جان کب سے آپ کا فون بجے جا رہا ہے اور آپ ہیں کہ اٹھا ہی نہیں رہے۔۔۔
رمشا دادا کے کمرے کے باہر لانچ میں کتاب پڑھنے میں مگن تھی لیکن مسلسل فون بجنے کی آواز پر اب روم کے اندر آ چکی تھی۔۔
دیکھنا بیٹا کون ہے یہ بے صبر جو یہ بھی احساس نہیں کر رہا کہ ایک بندہ کال نہیں اٹھا رہا تو بزی ہوگا یا میری طرح سو رہا ہوگا۔۔۔ دادا نے پاس پڑے ہوئے فون کی طرف اشارہ کرکے کال اٹینڈ کرنے کو کہا۔۔۔
دادا جان کوئی ان نون نمبر ہے۔۔۔
رمشا سکرین پر دیکھ کر بولنے لگی۔
ہاں اٹھا کر دیکھ لو پتہ چل جائے گا کہ کون ہے جس کی ٹرین چھوٹے جا رہی ہے۔۔
ہیلو اسلام علیکم!!
رمشا نے کال اٹینڈ کی لیکن دوسری طرف خاموشی تھی۔۔
ہیلو؟؟ کون؟؟؟ آواز آرہی ہے؟؟
رمشا کچھ سیکنڈ کوشش کرتی رہی۔
وعلیکم السلام!!
کافی دیر کی خاموشی کے بعد جواب آیا
دادا کہاں ہے؟؟
عارفین نے رعب دار آواز میں پوچھا۔۔
سو رہے ہیں..
نہ چاہتے ہوئے بھی رمشا کو جواب دینا پڑا۔۔
طبیعت ٹھیک ہے ان کی ؟؟ اور باقی گھر میں سب ٹھیک ہے؟؟؟
عارفین نے سب کی خیریت دریافت کی تھی.
جی سب ٹھیک ہیں..
رمشا نے تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولا۔۔
اوکے ٹھیک ہے بتا دینا میں نے کال کی تھی۔۔
یہ کہتے ساتھ ہی عارفین نے فون بند کر دیا تھا۔۔ کیا تھا اگر پوچھ لیتا کہ رمشا تم کیسی ہو؟؟ لیکن کیوں پوچھتا؟؟؟ وہ لگتی ہی کیا تھی اس کی؟؟؟؟ انا کھا جاتی ہے رشتوں کو اگر اس کے بیچ سے احساس کو نکال دیا جائے۔۔ یہ نہیں تھا کہ رمشا کو کوئی آس تھی یا خواہش تھی کہ وہ پوچھے لیکن وہ ایک لڑکی تھی ۔۔۔ کہیں نہ کہیں کسی گوشۂ میں محبت کی طلب ہوتی ہی ہے۔۔۔کہ پیار نہ سہی لیکن سامنے والا بندہ عزت سے بات ہی کر لے۔۔۔ خیر ایک دو آنسو گرا کر وہ سنبھل گئی تھی۔۔۔
کون تھا بیٹا؟؟؟
دادا نیند میں پوچھنے لگے…
عارفین تھے دادا جان آپ کی خیریت پوچھ رہے تھے میں نے بتا دی۔۔۔
رمشا دادا کو بتاتے ہی روم سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
* * *
السلام علیکم ممانی جان!!
وعلیکم السلام !!وجدان اتنے دنوں بعد؟؟؟ کہاں کھو گئے تھے؟؟
سیما کچن میں کام کر رہی تھی جب وجدان نے پیچھے سے آ کر سلام کیا۔
بس ممانی تھوڑا کام میں بزی ہو گیا تھا اس لیے چکر لگانے کا ٹائم ہی نہیں ملا اور آپ سنائیں کیسی ہیں۔۔۔
میں ٹھیک ہوں تم یہ بتاؤ کیا کھاؤ گے سیما پلاؤ کو دم پر رکھ کر اس کی طرف مڑ گئیں ۔۔
اماں ظاہر ہے جو پکا ہے وہی کھائے گا اور آپ کو کیا لگتا ہے موصوف آپ سے ملنے آئے ہیں جب انکے گھر میں دال پکی ہوتی ہے ہمارے گھر ٹپک جاتا ہے کھانا کھانے۔۔
وجدان کو دیکھ کر ہی عشا کہیں سے بھی ٹپک جاتی تھی اس کا شغل لگانے کا ایک ذریعہ تھا وہی تھا۔۔۔
تو تمہارا کھاتا ہوں کیا تم کیوں اپنی پھینی ناک لے کر ہر جگہ گھس جاتی ہو۔۔ اپنے کام سے کام نہیں سکتی کیا۔۔
وجدان کی تو ویسے ہی عشاء چڑ بن چکی تھی لیکن وہ تھی کہ باز آنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔۔۔
جناب عالی آپ کے لئے عرض ہے یہ میرا گھر ہے میرے ہر حکم کی تکمیل کرنا اس گھر کا فرض ہے ابھی میں ان کو کہوں نہ کہ وجدان کو گھر سے اٹھا کر پھینک دو تو تم دکھو گے نہیں یہاں پر۔۔۔۔
تمہیں نہ اٹھا کر پھینک دیں ہم زیادہ ہی پٹ پٹ کرنی آ گئی ہے آنے دو ابا تمہارے ابھی نٹ ٹائٹ کر آتی ہوں آئی بڑی باہر پھینکنے والی ہو ۔۔۔ اہووں
ویسے عشاء کو بھی کیا ضرورت پڑی تھی اماں کے سامنے بڑی بڑی ہانکنے کی ۔۔۔جب بندے کو پتا ہے گھر میں ایک پیسے کی عزت نہیں تو چپ ہی رہنا چاہیے لیکن عشاء جیسا کانفیڈنس بھی ہر کسی کے پاس کہاں ہوتا ہے۔۔۔
خیر مجھے لگتا ہے اب آپ کو چلے جانا چاہیے
وجدان تھا کہ اس کی ہنسی رکنے میں نہیں آرہی تھی
ویسے اماں بندہ اِدھر اُدھر دیکھ لیتا ہے ضروری تھا اس میسنے کے سامنے کتے والی کرنے کی اب جگہ جگہ گاتا پھرے گا ۔۔۔
عشاء منہ بسورتے ہوئے کچن سے پاؤں پٹختی فرار ہوگئی۔۔…
* * *
سمیر؟؟؟
سمیر؟؟؟
سمیر؟؟؟؟
کنزا نے کوئی پچاس سے اوپر میسج کیے تھے اور کال الگ لیکن سمیر شاید آج بہت سکون کی نیند سو رہا تھا دنیا سے بے خبر اپنی ہی سجائی ہوئی چھوٹی سی دنیا کا لطف لیتے ہوئے وہ اٹھنے کے ذرا موڈ میں نہیں تھا۔۔
ہاں ہیلو؟؟؟؟
سمیر آخر کار مسلسل فون بجنے سے بیدار ہو ہی گیا تھا۔۔۔
سمیر سب گڑ بڑ ہوگئی ہے
کنزہ رو رہی تھی تھوڑی دیر تو سمیر یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ایسا کیا عذاب آگیا ہے کہ صبح ہی صبح کینزہ نے طوفان برپا کر دیا۔۔
تم پہلے رونا تو بند کرو اور صحیح سے بتاؤ ہوا کیا ہے۔۔۔
سمیر اب واقعی پریشان ہو گیا تھا اور تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا۔۔
سمیر چاچو کو ہمارے بارے میں سب پتہ چل گیا ہے اور انہوں نے گھر میں ایک کہرام مچادیا ہے۔۔
سمیر تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں آگیا وہ جانتا تھا کہ کنزہ کے گھر والے بہت اصول پسند اور خاندانی لوگ تھے اور یہاں اس کے گھر کا بھی کچھ یہی حال تھا اور اب ایسے میں کنزا کا رونا بالکل جائز تھا۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...