رات کے گیارہ بج رہے تھے ، پورے شہر میں رات جاگ رہی تھی، ہر طرف روشنیوں اور گاڑیوں کا سیلاب امڈ آیا تھا،سب کو اک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جلدی مچی ہوٸی تھی، لیکن اک وہ ہی تھا جس کی گاڑی کی سپیڈ بلکل کم تھی، اور گاڑی کی کم سپیڈ سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کے خیالات کی سپیڈ کہاں تک پہنچی ہوٸی ہے؟ وہ اس کے برابر والی سیٹ پر مجرموں کی طرح چپ چاپ سی سرجھکاۓ بیٹھی تھی، وہ بے دلی سے ڈراٸیو کر رہا تھا ، ڈراٸیو کرتے ہوۓ اچانک ہی اس کی نظر اپنی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے وجود پر پڑی تو اس کے لب پھینچ گٸے تھے،
وہ مظلوم تھی لیکن اس وقت مجرم سی نظر آ رہی تھی، چند سیکنڈ اس کو دیکھنے کے بعد اس نے دوبارہ ونڈو سکرین پر نظریں جما کر گیٸر بدلا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی، سپیڈ اتنی تیز تھی کہ چند منٹ میں ہی اس نے بہت سی گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دیا، اتنی تیز گاڑی چلتی دیکھ کر ہ بھی چونکی اور اس کی طرف دیکھا جو لب بھینچے سختی سے سٹٸیرنگ پر ہاتھ جماۓ ڈراٸیو کر رھا تھا، وہ اس کے چہرے کو دیکھ کر کچھ بھی اندازہ نہیں لگا پاٸی تھی کہ وہ کیا سوچ رہا تھا۔اور کس موڈ میں تھا۔۔۔ اس کو دیکھتے دیکھتے وہ پھر بری طرح سے چونکی ،کیونکہ گاڑی کے ٹاٸیر بہت بری طرح سے چرچراۓ تھے،اور گاڑی بہت ہی عالیشان و خوبصورت بنگلے جس کے ماتھے پر ”شاہ ولا “ لکھا تھا کی کشادہ اور وسیع روش پر اک جھٹکے سے رکی تھی۔دارین اپنی طرف کا ڈور کھول کر باہر نکل آیااور انا بیہ کی طرف آکر اس طرف کا ڈور بھی کھول دیا، وہ اترنے میں دیر کرتی لیکن اس کے خراب موڈ کے پیش نظر وہ فوراً اتر آٸی تھی ، اس کے پیچھے اس نے دھڑم سے گاڑی کا دروازہ بند کیا۔
”چلیے۔۔۔“ وہ اس کو آگے بڑھنے کا اشارہ کر کے خود بھی آگے بڑھ گیا تھا،اس کے قدم مضبوط تھے لیکن وہ سست رفتاری سے چل رہی تھی۔۔
وہ بیرونی گیٹ عبور کر کے کوریڈور میں داخل ہوۓ تھے وہ چکنے فرش پر چلنے کا عادی تھا اس لیے اسکو کوٸی ڈر نہیں تھا اور نہ اس کے لیے یہ روشنیاں اور یہ سنگ مر مر نیا نہیں تھا، جبکہ انابیہ کے لیے یہ سب نیا تھا،اسلیے وہ ڈر ڈر کر آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہی تھی، اسے لگ رہا تھا کہ جیسے روشنیاں فرش کے اندر فٹ کی ہوٸی تھیں جن پر پاٶں رکھتے ہوۓ وہ ڈر رہی تھی، اس کو ڈر تھا کہ اگر وہ تیز چلی تو پھسل کر گر جاۓ گی۔ اس کی سست رفتار دیکھ کر وہ رک گیا اور پھر پیچھے مڑ کر اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیا تھا ، اور دوبارہ قدم اندر کیطرف بڑھاۓ،وہ اس کے ساتھ گھسٹتی چلی گٸی ، اب تو آہستہ قدم اٹھانا دشوار تھا اگر وہ ایسے کرتی تو یقیناً گر جاتی۔۔
”آخر وہ ہے کہاں۔۔؟میں نے اتنی بار کال کی ہے وہ اٹھا ہی نہیں رہا۔۔شاید اس نے میری کال نہ اٹھانے کی قسم کھاٸی ہوٸی ہے۔۔۔“ مسسز شاہ کی غصے سے بھری جھنجھلاٸی ہوٸی آواز اس کو کوریڈور میں ہی سناٸی دے رہی تھی اور وہ سمجھ گیاتھا کہ وہ اس کی بات کر رہی تھیں،لیکن اس کو حیرت نہیں ہوٸی تھی، یہ تو ہونا ہی تھا،
”کیا بات ہے میں یہاں ہوں مسسز شاہ ۔خیر ہے تو ہے آج مجھے کیسے یاد کیا جارہا ہے۔۔۔؟“ اس نے لاٶنج میں داخل ہوتے ہوۓ انہیں مخاطب کیا تھا،حالانکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کیوں ایسے بھڑکی ہوٸی تھیں۔۔
”ووہ لڑکی ک۔۔“وہ اس کی آواز سن کر پلٹیں ‘ لیکن قدم اور زبان وہیں تھم گٸے تھے،کیونکہ دارین کے ساتھ وہی لڑکی بڑی سی شال میں لپٹی کھڑی تھی، جس کو انہوں نے شام کو دارین کے ساتھ دیکھا تھا۔اُس کا ہاتھ دارین کے ہاتھ میں تب بھی تھا اور اب بھی ۔۔ دارین کے ساتھ لڑکیوں کا ہونا بڑی بات نہیں تھی، کیونکہ اس کی پرسنیلٹی ہی ایسی تھی ، لیکن اس لڑکی کا حلیہ اور دارین کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ ان کو حیرت و پریشانی میں مبتلا کر گیا،ان کا یہ انداز بہت کچھ کہہ رہا تھا۔۔
”میں نے اسی لڑکی کا ہی پوچھنا تھا، کون ہے یہ۔۔۔۔؟“ شاہانہ بیگم آگے بڑھیں اور انہوں نے سوال کیا،وہ ذیادہ دیر صبر نہ کر سکیں۔۔
”یہ مسسز دارین حیدر شاہ ہیں۔۔“ دارین نے بڑے سکون سے بم بلاسٹ کیا تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ اس بلاسٹ سے اچھی خاصی تباہی ہوگی۔
”واٹ۔۔۔۔یہ کیا بکوس ہے؟“ان کو دو ہزار واٹ کا کرنٹ لگا تھا اور آرام دہ صوفے پر بیٹھی رومانہ بیگم بھی یکدم اچھل کر اپنی جگہ سے کھڑی ہوگٸیں۔۔
”بکواس نہیں یہ انابیہ دارین حیدر شاہ ہیں ، اس گھر کی بڑی بہو اور میری بیوی۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے ان سے شادی کی ہے۔۔۔“دارین نے بہت اطمینان سے اس کا دوبارہ سے پورا تعارف کروا کر ان دونوں پر بم پھوڑا۔
”ہوش میں تو ہو تم۔۔؟“ اب کی بار رومانہ بیگم نے پوچھا تھا،
”جی الحمدللہ میں مکمل ہوش وہواس میں ہوں۔۔اور پلیز آپ بیچ میں نہ ہی بولیں تو اچھا۔۔“اس نے مضبوط لہجے میں کہہ کر ان کو خاموش کروایا۔
”یہ کیا مذاق ہے دارین۔۔۔؟“ اب کے شاہانہ بیگم چلتی ہوٸی اس کے سامنے آگٸیں۔۔
”میرا آپ کے ساتھ کوٸی مذاق نہیں مسسز شاہ ، یہ میری بیوی ہے اور میں بہت سے لوگوں کے سامنے اس سے نکاح کر لایا ہوں۔۔آپ نے دیکھا ہی تھا ہمیں۔۔“ اس نے شاہانہ بیگم کو اطلاح دی،جو آج اس کی ماں بنی کھڑی تھیں۔اب کی بار وہ بھی پھٹ گٸی تھیں۔
”کون سی بیوی اور کیسا نکاح؟ تم جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ یہ کون ہے ؟ کہاں سے آٸی ہے؟ ہم نہیں جانتے ، یہ جہاں کا گند ہے اس کو وہیں پھینک کر آٶ۔ابھی اور اسی وقت۔۔“ غصے میں بات کرتی ان کی تیز زبان عابدہ مامی کو بھی پیچھے چھوڑ گٸی تھی،
”انف از انف مسسز شاہ۔۔! بہت ہوگیا، میں آپ کو صرف بتا رہا ہوں کہ یہ میری بیوی ہے،اگر اس کو وہاں چھوڑنا ہوتا تو اپنے ساتھ یہاں کیوں لے کر آتا میں۔۔؟“ اس نے یکدم غصے سے اونچی آواز میں کہا ، اس کی آواز سن کر زین بھی سیڑھیوں سے اتر آیا تھا،
”انابیہ ۔؟“ اس کے منہ سے حیرانی سے اس کا نکلا۔ اس نے گڑبڑا کر دارین کی طرف دیکھا لیکن اس کے ہاتھ میں بیا کا ہاتھ دیکھ کر اس کو ساری بات سمجھ لگ گٸی تھی ، وہ خاموشی سے ساٸیڈ پر کھڑا ہوگیا۔
”یہ لڑکی ہے کون؟ کس خاندان کی ہے۔؟” اب کے رومانہ نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔
”یہ لڑکی پہلے کون تھی ؟ کہاں تھی؟ اس بات سے آپ کو کوٸی سروکار نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی مجھے کوٸی ایشو ہے، اب یہ میری بیوی ہے، میں اس کو پسند کرتا ہوں اور میں نے اپنی پسند سے اس سے شادی کی ہے، یہ گھر جتنا میرا ہے اتنا اس کا بھی ، اب یہ لڑکی اس گھر سے کہیں نہیں جاۓ گی۔ ادھر ہی رہے گی میرے ساتھ میرے کمرے میں۔۔۔“ وہ بڑی مضبوطی اور ثابت قدمی سے اس کے سامنے ڈٹ گیا تھا،اور انابیہ اپنے سامنے ڈھال بن کھڑے دارین حیدر کو دیکھتی رہ گٸی تھی ، وہ اس کے کردار کو بے داغ رکھنے کے لیے کہاں کہاں سے پواٸنٹ ڈھونڈ کر لا رہا تھا ، اور اس مجبوری کی شادی کو اپنی پسند کا نام دے رہا تھا۔۔
”یہ کیا کہہ رہے ہو تم دارین؟“ حیدر علی شاہ بھی اس کی بات سن چکے تھے اور ان کے پیچھے آتی رمل اکرم بھی انجان نہیں رہی تھی۔
”پاپا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ انابیہ میری بیوی ہے، بس یہی بات مسسز شاہ کی سمجھ میں نہیں رہی۔۔۔“
”رجو ۔۔۔۔رجو۔۔۔؟“ اس نے چوہدری حیدر کو جواب دے کر ملازمہ کو آواز دی۔
”جی صاحب ۔۔۔۔۔ ! ۔۔۔۔۔۔“وہ ڈوری آٸی۔
”انہیں میرے روم میں چھوڑ کر آٶ۔۔۔“اس نے انابیہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ گھبرا گٸی تھی۔
”یہ لڑکی میرے گھر میں نہیں رہے گی ۔۔۔“ شاہانہ بیگم غصے پھنکارتی ہوٸی آگے بڑھیں ۔۔
”دارین تم نے مجھے بھی کچھ نہیں بتایا بیٹا۔۔؟“حیدر علی شاہ نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔ان کو دکھ ہوا تھا ، دارین نے اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ ان کو بتاۓ بغیر کر لیا تھا ، دارین کو بھی ان کے لہجے کا دکھ محسوس ہوگیا تھا۔
”اس کے لیے سوری پاپا۔۔۔۔! ۔۔۔“ اب کے وہ تھوڑا آستہ سے بولا۔
”اس لڑکی میں ایسی کیا خاص بات ہے ؟“ شاہانہ بیگم غصے سے بولیں، ان کی کٹیلی نظریں انابیہ کے وجود پر آر پار ہو رہی تھیں یہ تو شکر تھا کہ اس نے شال لپیٹی ہوٸی تھی،اور چہرہ چھپایا ہوا تھا،
”بہت خاص ہیں یہ میرے لیے۔۔ان کے جیسی تو آپ کی سوکالڈ بھانجی مر کر دوبارہ بھی زندہ ہو تو بھی نہیں بن سکتی۔۔“ اس نے بڑے پر سکون انداز میں یہ پواٸنٹ بھی کہیں سے نکال ہی لیا تھا کیوں کہ اس نے اس جنگ میں جتنا جو تھا۔
”لیکن آج سے دس دن پہلے تو تمہیں اپر کلاس لڑکیاں اٹریکٹ کرتی تھیں، پھر اچانک تمہیں یہ احساس کیسے ہوا۔؟“رومانہ بیگم نے طنزیہ انداز میں بہت تیکھے لہجے میں پوچھا،جبکہ رمل خاموش نظروں سے یہ سارا تماشہ دیکھ رہی تھی،
”کیونکہ آج سے دس دن پہلے میری انابیہ سے ملاقات نہیں ہوٸی تھی اینڈ یور کاٸینڈ انفارمیشن مسسز اکرم جن لڑکیوں کی آپ بات کر رہی ہیں ان کے پیچھے میں نہیں جاتا تھا بلکہ وہ میرے آگے پیچھے منڈلاتی ہیں اور ان کو بھی میں اتنی ہی امپورٹنس دیتا ہوں جتنی کہ آپ کی رمل کو،،لیکن جب میں بیا سے ملا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ دنیا تو بہت زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔“ اس نے یہ سنگین وار بھی کر دیا ، اس کی بات پر رمل کے ساتھ ساتھ رومانہ اور شاہانہ بیگم بھی بلبلا اٹھی، دارین یہ سب باتیں کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن انابیہ کے قدم اس گھر میں جمانے کے لیے اس نے وہ سب کہا تھا کیونکہ رمل شاہانہ کی منظور نظر تھی،
”شٹ اپ دارین تم حد سے بڑھ رہے ہو۔۔۔۔انسلٹ کر رہے ہو میری بیٹی کی“ اب کے رومانہ بیگم غصے سے بولیں۔
”مسسز رومانہ اکرم آپ کو بار بار ٹوکنا مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا، لیکن پھر بھی میں آپ سے یہی کہوں گا کہ آپ بیچ میں نہ بولیں یہ آپ کا نہیں میرا اور میرے پیرنٹس کا پرسنل میٹر ہے ، آپ کو اس میں بولنے کی ضروت نہیں۔۔۔۔“ اس نے رومانہ بیگم کو بڑی شاٸستگی سے بیچ میں بولنے سے روکا،
”یہ تم مجھے کہہ رہے ہو۔۔؟“ وہ غصے سے بولیں۔
”جی آپ کو ہی کہہ رہا ہوں۔۔“وہ بھی دارین حیدر تھا اپنی بات سے پیچھے نہ ہٹنے والا۔
”تم انتہاٸی ۔۔۔“ انہوں نے کچھ کہنا چاہا تو حیدر علی نے ان کو اشارے سے روک دیا۔
”زین بیٹا بھابھی کو دارین کے روم میں لے کر جاٶ ۔۔“ انہوں نے اشارہ کر کے زین کو بلا کر کہا۔
”اوکے پاپا۔۔۔۔“ اس نے سکون کا سانس لیا ، زین بیا کو لے کر تیزی سے اندر چلا گیا،اب وہ اکیلا ہی وہاں کھڑا تھا، اب پتا نہیں یہ بحث کب تک چلنی تھی اور اس کا انجام کیا ہونا تھا۔۔یہ بات نہ تو دارین جانتا تھا اور نہ ہی انابیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
**…**…**
وہ سوٸی نہیں تھی نہ ہی اسے نیند آٸی تھی۔۔۔۔!
فجر کی آذان ہونے کے بعد اس نے نماز پڑھی اور قرآنِ پاک کی تلاوت کر کے پھر سے صوفے پر پاٶں اوپر کیٸے شال کو اپنے گرد لپیٹے گھٹنوں پر سر رکھے اک ہی پوزیشن میں بیٹھی تھی،اس کی آنکھیں مسلسل رونے کی وجہ سے لال ہو چکی تھیں اور پپوٹے بھی سوج گٸے تھے،لیکن پھر بھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ،
وہ ایسے ہی سوچوں میں غرق تھی۔۔اک لمحہ لگا تھا جس میں اس کی پوری زندگی بدل گٸی تھی،جو کچھ اس نے کبھی اپنے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا وہ ہوگیا تھا ، ساری پرانی یادیں اور باتیں اسکے ذہن میں گونج رہی تھیں جن کو وہ چاہ کر بھی اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پا رہی تھی،
سوچتے سوچتے اچانک ہی غیر ارادی طور پر اس کی نظر دارین کی طرف اٹھی،وہ رات کو بہت تھک کر آیا تھا اور اس سے کوٸی بات کیے بغیر ہی سو گیا تھا،اب بھی وہ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا بے خبر سو رہا تھا، اسی وقت اس نے کروٹ بدلی اور کمبل اس کے اوپر سے اتر گیا ، کمرے میں ہیٹر آن تھا لیکن پھر بھی سردی بہت زیادہ تھی، اس لیے وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوٸی بیڈ کے پاس گٸی،اور ہاتھ بڑھا کر اس کا کمبل ٹھیک کرنا چاہا، تب ہی دارین ہلکا سا کسمسایا اور پھر دوسری طرف کروٹ بدل کر سو گیا، کمبل اس کے نیچے دب گیا تھا ، انابیہ نے تھوڑا آگے جھک کر اس کے نیچے دبے کمبل کو نکال کر اسکے اوپر کروانے کی کوشش کی تب ہی اس کا توزن بگڑا اور وہ اپنے پورے قد کے ساتھ دارین کے اوپر گری۔۔۔۔۔۔۔ دارین جو کہ گہری نیند میں تھا وہ اس اچانک آنے والی آفتاد پر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔۔۔
”کک کیا ہوا آپ کو کچھ چاہیے ؟“ وہ اس کو اٹھتے دیکھ کر جلدی سے کھڑی ہوگٸی شرمندگی سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور نظریں بھی جھک گٸی۔
”نن نہیں وہ مم میں آپ کا کک کمبل ۔۔۔۔“
”آپ سوٸی نہیں۔؟“ وہ جو گہری نیند سے اٹھا تھا اس نے آنکھوں کو مسل کر ان کو پوری طرح سے کھولا۔۔
”نہیں۔۔۔ “وہ کہہ کر وہاں سے پیچھے ہٹ گٸی، لیکن وہ اس کی بات پر چونک گیا۔۔
”لیکن کیوں؟ آپ کیوں نہیں سوٸیں ؟آپ اپنے ساتھ ایسے کیوں کر رہی ہیں۔۔؟“
”وہ مم مجھے نیند نہیں آرہی تھی تو۔۔۔۔“ اس نے بہانا بنانا چاہا ، لیکن دارین جانتا تھا کہ اس کو نیند کیوں نہیں آٸی تھی اور وہ کیا سوچ رہی تھی۔۔
”ہممممم۔۔ سہی ۔۔۔۔“ وہ بھی لب بھینچ گیا اور دوبارہ سونے کی بجاۓ بیڈ سے اٹھ گیا ،
”سس سوری میں نے آپ کی نیند خراب کر دی ۔۔۔“ وہ خاصی شرمندہ لگ رہی تھی ۔۔
”کوٸی بات نہیں ۔۔۔! ویسے بھی نارملی میں اس وقت تک اٹھ جاتا ہوں ، زیادہ دیر تک سونے کی عادت نہیں مجھے“ وہ وال کلاک پر وقت دیکھ کر نرمی سے بولا۔ جہاں اس وقت آٹھ بج رہے تھے،
وہ اس کی بات سن کر دوبارہ صوفے پر جا کر بیٹھ گٸی،جبکہ دارین واڈ روب سے کپڑے نکال کر فریش ہونے کے لیے واش روم میں گھس گیا، انابیہ نے اک نظر واش روم کے بند دروازے پر ڈالی اور پھر کچھ سوچ کر کمرے سے باہر نکل آٸی، سیڑھیاں اتر کر وہ نیچے تو آگٸی لیکن اب اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کدھر جاۓ؟ اور کیا کرے ؟ وہ ایسے ہی چلتی ہوٸی لاٶنج میں آگٸی ،پورے گھر میں خاموشی کا راج تھا اس نے کمروں کے بند دروازوں کو دیکھا ”لگتا ہے سب سوۓ ہوۓ ہیں؟ “ اس نے دل میں سوچا۔
اور پھر باہر جانے کے لیے کوریڈور کی طرف بڑھی، تب ہی اس کی نظر ڈاٸیننگ ہال کی طرف اٹھی تو وہ باہر جانے کی بجاۓ اس طرف آگٸی،
”رجو تم جوس بنا کر توس سینک لینا ، میں آملیٹ بنا کر پراٹھا بنا لوں گی بڑے صاحب کے لیے، پہلے ہی بہت دیر ہوگٸی ہے آج۔۔۔“ اس کے کانوں میں کچن سے آتی آوازیں پڑیں تو وہ چلتی ہوٸی آوازوں کی سمت آگٸی، لیکن پھر دروازے میں ہی رک گٸی،
”ارے آپ یہاں۔۔۔۔؟“اس کو وہاں دیکھ کر شنو حیران ہو کر بولی ، اس کی بات سن کر اورنج جوس بناتی رجو اور سٹول پر بیٹھی آنکھیں موند کر تسبیح کرتی سکینہ بی نے بھی جھٹ سے آنکھیں کھول کر دروازے میں ایستادہ بیا کی طرف تعجب سے دیکھا،
”جج جی وہ مم میں۔“ وہ گڑ بڑا سی گٸی، جیسے کہ اس کی کوٸی چوری پکڑی گٸی ہو۔۔۔
”کوٸی بات نہیں آپ آگے آجاٸیں۔۔۔“ سکینہ بی نے کہا، جبکہ رجو اور شنو نے پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔
”مم میں بھی ناشتہ بنانے میں آپ لوگوں کی مدد کر دیتی ہوں“بیا نے ڈرتے ڈرتے آملیٹ بناتی شنو سے کہا ۔
”ارے نن نہیں چھوٹی بی بی ! آپ رہنے دیں ہم خود کر لیں گی۔۔۔“ وہ گھبرا کر جلدی سے بولیں۔۔
”چھوٹی بی بی۔۔۔۔؟“ وہ بڑبڑاٸی،
”جی بی بی ! شنو ٹھیک کہہ رہی ہے، اگر دارین صاحب کو پتا لگا تو وہ بہت غصہ ہوں گے۔۔“ رجو نے جوس بنا کر فریج میں رکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
”وہ نہیں کہیں گے کچھ بھی۔۔۔! میں کرلوں گی ویسے بھی مجھے فارغ رہنے کی عادت نہیں ہے ۔۔۔۔ “
”شنو ۔۔۔۔! شنو۔۔۔ ! ۔۔۔۔“ تب ہی شاہانہ بیگم کی تیز آواز آٸی ، وہ شنو کو بلا رہی تھیں،ان کی آواز سن کر شنو سب کچھ چھوڑ چھا ڑ کر جلدی سے اُدھر بھاگی،انابیہ آہستہ سے چلتی ہوٸی چولہے کے پاس آگٸی اور خاموشی سے آملیٹ بنانے لگی۔۔۔
”سکینہ بی میں بھی ابھی آتی ہوں۔“رجو بھی توس سینکنے کے لیے ٹوسٹر میں ڈال کر باہر نکل گٸی۔اب کچن میں وہ اور سکینہ بی رہ گٸی تھیں، اس نے آملیٹ پلیٹ میں نکال کر جلدی سے ٹوسٹر میں سے توس نکالے، پھر پراٹھا بنانے کے لیے فریج میں سے آٹا نکالنے لگی، وہ یہ سب کام بہت تیزی سے کر رہی تھی۔جیسے وہ اپنے گھر میں کرتی تھی۔جبکہ سںکینہ بی اس کو اتنی تیز ی سے کام کرتے دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں، بیا کو اس گھر میں دیکھ کر ان کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ اب ”شاہ ولا “ کی قسمت چمکنے والی تھی، کیونکہ اب اس کو بدلنے والی آگٸی تھی۔ان کو دارین کی پسند بہت زیادہ پسند آٸی تھی۔۔وہ ایسے ہی ٹکٹکی باندھے بیا کو دیکھے جا رہی تھیں، تب ہی ریک سے کفگیر اٹھاتے ہوۓ اس کی نظر سکنیہ بی پر پڑی تو وہ چونکی۔
”کیا ہوا آپ ایسے کیا دیکھ رہی ہیں۔۔؟“
”کک کچھ نہیں بیٹا۔۔۔“ وہ بھی اپنے دھیان میں واپس آٸیں۔۔
”پھر بھی کچھ تو ہوا ہے ، بتاٸیں ناں پلیز ۔۔۔۔؟“ وہ ہلکا سا مسکرا کر دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔
”وہ میں تو بس دارین بیٹے کی پسند دیکھ رہی ہوں۔۔ اس نے ہیرا چنا ہے ہیرا۔۔۔بس اب اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچاۓ۔۔“ انہوں نے اس کی تعریف کی ، لیکن وہ تو ان کے منہ سے نکلنے والے لفظ ”پسند “ پر ہی اٹک گٸی تھی،
”آمین ۔۔۔۔“ اس نے دل ہی دل میں کہا،
”میں دارین اور زین کی آیا ماں ہوں، بہت زیادہ عزت کرتے ہیں وہ دونوں میری۔۔“ انہوں نے اس کو اپنے بارے میں بتایا۔وہ ان کی باتیں سننے کے ساتھ ساتھ روٹی بنا کر توے پر ڈال چکی تھی،
” آپ کب سے ہیں یہاں پر۔۔۔؟“ اس نے سوال کیا،اور روٹی کی ساٸیڈ بدلی۔
”جب سے بڑے صاحب کی شادی ہوٸی ہے تب سے میں اسی گھر میں ہی ہوں۔“ انہوں نے مسکراتے ہوۓ بتایا۔
”اچھا جی پھر تو آپ سب لوگوں کو بہت اچھے سے جانتی ہوں گی۔۔؟“ اس نے اگلا سوال کیا۔اور پراٹھے پر گھی لگانے لگی۔
”ہاں بیٹا جا نتی ہوں اور اب یہ بھی نظر آرہا ہے کہ یہ محل اب بہت جلد گھر بننے والا ہے۔۔“ ان کی بات پر بیا نے نہ سمجھی سے ان کی طرف دیکھا، اور پراٹھا توے سےاتار کر ہاٹ پاٹ میں رکھ کر چولہا بند کر دیا،
”کیا مطلب میں کچھ سمجھی نہیں۔۔؟“
”چھوڑو بیٹا ! ابھی کچھ نہیں سمجھیں گی آپ، لیکن آہستہ آہستہ جب سب کچھ دیکھیں گی تو آپ کو بھی سمجھ آجاۓ گا۔بس اب آپ دیکھتی جانا سب۔۔۔“ وہ کہہ کر سٹول سے کھڑی ہوگٸیں۔ناشتہ بھی بن چکا تھا، لیکن رجو اور شنو پتا نہیں کہا رہ گٸی تھیں،
” اب میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں ، پلیز آپ کسی کو بتاٸیے گا مت کے ناشتہ میں نے بنایا ہے۔۔“ وہ ان کو کہہ کر کچن سے نکل آٸی۔ جبکہ سکینہ بی کی نظروں نے دور تک اس کا تعقب کیا تھا، ان کو بیا بہت اچھی لگی تھی بلکل اپنی اپنی سی۔۔۔۔۔۔!
**…**…**
اس محل نما گھر (شاہ ولا)میں آۓ اس کو تین چار دن ہوگٸے تھے اور ان تین چار دنوں میں اس کا معمول بن گیا تھا،وہ صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتی اور پھر کچن میں چلی جاتی تھی، وہ رجو اور شنو کی مدد سے ناشتہ تیار کر کے پھر سے اپنے کمرے میں آجاتی تھی،لیکن شکر تھا کہ ابھی گھر میں کسی کو پتا نہیں لگا تھا کہ ناشتہ وہ بناتی تھی، ان تین چار دنوں میں سکینہ بی سے اس کی کافی بن گٸی تھی، رجو اور شنو کو بھی گول مول ، گوری چٹی سی چادر میں لپٹی انابیہ بہت زیادہ اچھی لگی تھی، وہ دونوں اس کے ساتھ ڈھیروں باتیں کرتیں اور وہ بھی اپنے نرم اور دھیمے لہجے میں ان کو جواب دیتی رہتی تھی۔۔۔
آج بھی اس نے معمول کے مطابق نماز پڑھ کر قران پاک کی تلات کی اور پھر نیچے آگٸی، دارین ابھی سو رہا تھا، ان دنوں میں اس کو یہ تو پتا لگا گیا تھا کہ دارین نماز نہیں پڑھتا تھا ، وہ کچن میں آٸی تو رجو اور شنو پہلے سے ہی وہاں موجود تھیں، لیکن سکینہ بی وہاں نہیں تھیں۔۔۔
”کیا ہوا؟ آج تم دونوں ایسے خاموش کیوں کھڑی ہو۔؟“ رجو اور شنو خاموشی سے سر جھاۓ اپنے کام میں لگی ہوٸی تھیں،ان کو خاموش دیکھ کر اس کو حیرت ہوٸی،
”کک کچھ نہیں چھوٹی بی بی۔۔۔۔“ دونوں نے اک ساتھ ہی کہا، رجو اور شنو دونوں کزنز تھی اور ایک ہی گھر میں رہتی تھیں،
”کچھ تو ہوا ہے جو تم لوگ ایسے خاموش کھڑی ہو۔۔؟“ اس نے فریج سے چاۓ کے لیے دودھ نکالتے ہوۓ کہا،
”وہ چھوٹی بی بی۔۔۔! بات یہ ہے کہ میرے چاچا کے پتر کی شادی ہے۔ہم نے ادھر جانا ہے، لیکن بڑی بیگم صاحبہ نے چھٹی نہیں دی۔۔“ رجو نے افسردگی سے کہا،وہ اس کی بات سن کر اور زیادہ حیران ہوٸی۔
”لیکن کیوں۔۔؟“
”کیونکہ اگر ان دونوں کو چھٹی دے دی تو یہاں کام کون کرے گا۔۔۔“ان دونوں کے جواب دینے سے پہلے ہی رمل کا جواب آیا، جو کچن کے دروازے میں کھڑی تھی وہ پانی لینے آٸی تھی اور ان کی باتیں سن کر وہیں رک گٸی تھی۔
ان تینوں نے چونک کر پیچھے دیکھا جہاں وہ دراوزے میں کھڑی ان دونوں کو کڑے تیوروں کے ساتھ گھور رہی تھی ، بیا نے اس کے تیور دیکھے تو گھبرا گٸی،اس رات کے بعد اس کی رمل سے آج ملاقات ہو رہی تھی، وہ بھی اس طرح سے۔۔
”وہ رمل بی بی ہم تو بس۔۔۔۔۔۔۔۔“
”چپ کرو تم دونوں۔میں ابھی جا کر شانہ مام کو بتاتی ہوں اور تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔؟“ وہ ان دونوں کو دھمکی دے کر اس کی طرف مڑی۔
”چھوٹی بی بی پپ پانی لینے۔۔۔۔“
”میں ناشتہ بنا رہی ہوں۔“ رجو کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ بول پڑی۔۔۔۔ اور اس نے خود ہی سچ بتا دیا، رمل نے سرتاپا نظروں سے اس کا جاٸزہ لیا اور پھر
نخوت سے سر جھٹک کر بولی۔۔
”کیوں یہ لوگ مر گٸی ہیں کیا جو تم کل کی آٸی یوں کچن میں گھس گٸی ہو۔۔۔؟“
”یہ میرا گھر ہے رمل کسی غیر کا نہیں۔۔“ اس نے ہمت مجتمع کر کے جواب دیا،
”ہنہہ۔۔! کون سا گھر بی بی؟جب ہم مانتے ہی نہیں اس رشتے کو تو تمہارا گھر کیسے ہوگیا ؟ یہ تم جو خواب دیکھ رہی ہو نہ بھول جاٶ، اس گھر کی بہو تو میں ہی بنوں گی۔۔“ وہ استہزایہ انداز میں ہنس کر غصے سے غراٸی ، جبکہ شنو اور رجو ششدر سی اس کو دیکھ رہی تھی،
”آپ کے نہ ماننے سے مجھے فرق نہیں پڑتا،کیونکہ آپ تو خود مہمان ہو اس گھر کی۔“ وہ پیچ و تاب کھا کر رہ گٸی۔
”یہ کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔؟“ تب ہی سکینہ بی ہاتھ میں تسبیح لیے کچن میں داخل ہوٸیں۔
”سکینہ بی آپ بتاٸیں یہ لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے؟ اگر آپ کو پتا تھا تو آپ نے شانہ مام کو پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔۔؟“وہ ان کی طرف مڑی ، بیا ہاتھوں کو مسلتی پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”بولیں خاموش کیوں ہیں آپ۔۔؟“
”وہ مم میں نے روکا تھا سکنیہ بی کو۔۔“ وہ پھر بولی۔
”ہنہہ میں ابھی جا کر بتاتی ہوں شانہ مام کو ۔۔۔“ وہ کہتی ہوٸی کچن سے نکل گٸی،جبکہ رجو ، شنو، سکینہ بی اور وہ جلدی سے اسکے پیچھے باہر نکلیں ۔
”شانہ مام ۔۔۔۔ ! شانہ مام۔۔۔۔۔؟“ وہ اونچی اونچی آواز میں ان کو پکارتی ہوٸی لاٶنج میں گٸی۔
”کیا ہو گیا رمل ایسے کیوں چیخ رہی ہو۔؟“رومانہ بیگم منہ بگاڑتی ہوٸی اپنے کمرے سے نکلی،اونچی آواز سن کر ان کی نیند خراب ہوگی تھی، اس لیے اس کا منہ بنا ہوا تھا۔۔
”کیا ہوا رمل میری جان۔۔؟“شاہانہ بیگم بھی اپنے کمرے سے نکل آٸی تھیں ، ان کے پیچھے حیدر علی شاہ بھی، وہ سب سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”یہ آپ مجھ سے نہیں۔! اپنی اس سو کالڈ بہو انابیہ سے پوچھیں اور سکنیہ بی سے۔۔“ وہ بیا کو غصے سے گھورتے ہوۓ بولی،
”کیا ہوا ؟ کیا مصیبت آگٸی ہے؟ پہلے کیا اس گھر میں تھوڑی تماشے ہوتے جو اب تم لوگ بھی اس میں شامل ہوگٸے ہو۔؟“ حیدر شاہ نے غصے سے کہا اور بیا کی طرف دیکھا جو سر جھکاۓ خاموش سی کھڑی تھی۔۔
”آپ چپ کریں شاہ صاحب اور آپ بتاٸیں سکینہ بی کیا بات ہے۔۔؟“شاہانہ بیگم جھنجھلا کر سکینہ بی کی طرف مڑی۔۔
”وہ بڑی بیگم صاحبہ بات اتنی سی ہے کہ چھوٹی بہو جب سے آٸی ہیں۔تب سے وہ کچن میں آ کر ناشتہ بنانے میں مدد کرتی ہیں، آج رمل بی بی نے انہیں کچن میں دیکھ لیا اور اتنا فساد کھڑا کر دیا۔۔۔۔“انہوں نے اک نظر رمل کو دیکھا اور پھر پوری بات شاہانہ بیگم کے گوش گزار کر دی۔۔۔
”تو اس میں کون سا بڑی بات ہے۔اگر اس نے ناشتہ بنا ہی دیا ہے تو۔وہ اس گھر کی بہو ہے۔۔۔“ حیدر علی شاہ بولے، بیا نے چونک کر ان کی طرف دیکھا ،اب اس کو کچھ حوصلہ ہوا تھا۔
”یہ آپ کے لیے بڑی بات نہیں ہوگی،لیکن میرے لیے ہے، میں اس لڑکی کے ہاتھوں کا پکا ہوا نہیں کھا سکتی۔۔“ شاہانہ بیگم غصے اور حقارت سے بولی۔ انابیہ نے اک جھٹکے سے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا،ان کی سوچ کے بارے میں جان کر اس کو بہت دکھ ہو رہا تھا ۔۔۔
”کیوں کیا ہے ان کے ہاتھوں کو؟ کیوں نہیں کھا سکتیں آپ مسسز شاہ؟“دارین بھی ان سب کی اونچی آوازیں سن کر کمرے سے باہر نکل آیا اور شاہانہ بیگم کی آخری بات سن کر غصے سے پوچھنے لگا،
”کیونکہ میں نہیں مانتی اس کو اپنی بہو۔۔“ وہ غصے سے چلاٸیں۔۔
”آپ کے ماننے یا نہ ماننے سے فرق نہیں پڑتا مسسز شاہ بیا میری بیوی ہے ، اور اس گھر کی مالکن ‘ وہ یہاں جو بھی کرنا چاہے گی کرے گی۔۔۔“ اس نے بھی ان کو دو بدو جواب دیا۔
“میں بھی دیکھتی ہوں یہ لڑکی کب تک ٹکتی ہے یہاں”
وہ غصے سے چلائیں۔۔۔
“دیکھ لیجئے گا۔۔۔”
”دراین بیا کو لے کر کمرے میں جاؤ۔۔۔۔! صبح صبح ہی دماغ خراب کر کے رکھ دیا۔۔ جاٶ باقی سب بھی یہاں سے اپنا کام کرو۔“ حیدر علی شاہ نے ماں اور بیٹے کو آمنے سامنے کھڑے الجھتے دیکھ کر بات ختم کرنے کے لیے کہا ، وہ یہ بات جانتے تھے کہ ناشتہ بیا بناتی تھی’ کیونکہ انہوں نے اُسے اک دو بار کچن سے نکلتے دیکھا تھا۔
”روز اک نیا ڈرامہ ہوتا اس یہاں۔۔! سکون نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہی’ اک بات بتاٸیں مسسز شاہ کیا میں نے کبھی آپ لوگوں کے کسی معاملے میں دخل اندازی کی؟ یا آپ کی بہن بھانجی کو کچھ کہا جو آپ لوگوں نے میری بیوی کو لے یہ سب تماشہ بنایا ہوا ہے۔“ وہ ان سے بات کر کے غصے سے رمل کی طرف مڑا۔۔۔جبکہ بیا آج پھر اپنے سامنے ڈھال بنے دارین حیدر کو دیکھ رہی تھی ، کتنا کچھ کر رہا تھا وہ صرف اور صرف اس کو اس گھر میں عزت دلوانے کے لیے،
”مس رمل اگر نیکسٹ ٹاٸم تم بیا کے آس پاس نظر آٸی تو مجھ سے برا کوٸی نہیں ہوگا اور اس کو میری خالی خولی دھمکی مت سمجھنا۔“ اس نے انتہاٸی غصے میں اپنی انگلی اٹھا کر رمل کو وارن کیا، اس کا غصہ دیکھ کر بیا بھی ڈر گٸی تھی،جبکہ رمل بھی دڑ کر دو قدم پیچھے ہوگٸی۔
”چھوڑو دارین۔۔! میں نے کہا نہ تم بیا کو لے کر کمرے میں جاٶ۔ “حیدر علی شاہ نے کہا۔
”چلیں بیا۔۔!۔۔“ اس نے انابیہ کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑ گیا۔
”پہلے آنٹی کم تھی کیا۔ جو اب بھانجی صاحبہ نے بھی فساد ڈالنے شروع کر دٸیے“حیدر شاہ بھی بڑبڑاتے ہوۓ کمرے میں چلے گٸے۔
”دفع ہو جاٶ تم لوگ بھی یہاں سے “شاہانہ بیگم غصے سے چلاٸیں۔خاموشی سے سر جھکاۓ کھڑی رجو ، شنو اور سکنیہ بی تیزی سے کچن کی طرف چلی گٸیں، رمل جو دارین کی بات سن کر غصے میں آگٸی تھی وہ بھی پاٶں پٹختی وہاں سے چلی گٸی،اب لاٶنج میں شاہانہ بیگم اور رومانہ ہی رہ گٸی تھیں۔۔۔۔۔!
**…**…**
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...